چاند
کہانی کی کہانی
’’یہ تقسیم کے بعد ہمارے معاشرے میں تیزی سے بڑھنے والے متوسط طبقے کی کہانی ہے، جن کے یہاں بچے کی پیدائش بھی ان کی معاشی حالت پر منحصر ہوتی ہے۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کی بیوی دوسرا بچہ پیدا کرے۔ بلکہ وہ پہلا بھی نہیں چاہتا تھا۔ اسلئے وہ بیوی سے بار بار بچہ گرا دینے کے لیے کہتا ہے۔ پہلے بچے کے ذہن پر ماں باپ کی اس ناچاقی کا ایسا اثر پڑتا ہے کہ وہ بیمار پڑ جاتا ہے۔ بچے کو جب ہوش آتا ہے تو وہ ان سے ایسا سوال کرتا ہے کہ دونوں میں کسی کے پاس بھی اس کا جواب نہیں ہوتا۔‘‘
رات کا وقت تھا۔ چاندنی چھٹکی ہوئی تھی۔ سرد ہوا کے جھونکے کبھی دروازوں پر دستک دیتے تو کبھی رات کے پہرے داروں کو گدگداتے تھے۔ پہرے داروں نے الاؤ روشن کر لیے تھے۔ پورے چاند کی رات تھی اور پوری بستی چاندنی میں لپٹی ہوئی تھی۔ زمین پر ہوا رات کے پہرے داروں کو چھیڑ رہی تھی اور آسمان پر بادل، چاند کی بُڑھیا کا ناک میں دم کئے ہوئے تھے۔ بڑھیا بیٹھی سوت کات رہی تھی۔ اس نے اپنے پاس ایک لاٹھی رکھ چھوڑی تھی۔ جب کبھی بادلوں کا جھنڈ مچلتا کودتا اس کی طرف بڑھتا، وہ اسے اپنی لاٹھی سے پرے دھکیل دیتی اور بادل آنِ واحد میں آنکھ سے اوجھل ہو جاتے۔ بادلوں کی شرارتوں سے بڑھیا کا انہماک کبھی متاثر نہیں ہوتا تھا۔ اس کے سکون اور اطمینان میں البتہ خلل ضرور پڑتا تھا۔ بادلوں نے بھی نچلا بیٹھنا نہیں سیکھا تھا۔ بڑھیا انہیں پرے دھکیل دیتی تو وہ ہوا سے اس کی شکایت کرتے۔ جیسے تیسے اس کی خوشامد کر کے اسے اس پر راضی کر لیتے کہ وہ سنسناتی ہوئی، بڑی ہی تیز رفتاری کے ساتھ بڑھیا کے پاس سے گزر جائے۔ اس سے ہوتا یہ تھا کہ بڑھیا کا آنچل سر سے ڈھلک جاتا اور کچھ کپاس ہوا کے دامن سے لپٹ جاتی اور ہوا یہ کپاس بادلوں میں باٹ کر ہنستی ہنساتی آگے بڑھ جاتی۔ ادھر بڑھیا اپنا آنچل سنبھالنے لگتی تو بادل دور ٹھہر کر تالیاں بجا بجا کر اس کا مذاق اڑاتے کہ دیکھو ذرا دیر کے لیے سہی بڑھیا کا انہماک جاتا رہا۔ بڑھیا جہاں دیدہ تھی۔۔۔ سچ تو یہ ہے کہ اس نے کئی یگ دیکھے تھے۔ وہ ان سیلانیوں کی شوخیوں اور ساجھے کی شرارتوں کو خاطر میں نہیں لاتی تھی۔ ہاں! کبھی کبھار تبسم کی ایک ہلکی سی لکیر اس کے جھریوں سے بھرے چہرے پر ابھر آتی تھی۔۔۔ یہ لکیر بہت کچھ کہتی تھی لیکن منے کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا تھا۔۔۔ جواب میں وہ بھی مسکرادیتا تھا اور بڑھیا ایک ہاتھ سے اس کاسر سہلاتے ہوئے کہتی،
’’منا جانتا ہے یہ سیلانی روز اس طرح یہاں کیوں آتے ہیں؟‘‘
’’نہیں دادی!‘‘
’’تو جس لیے آتی ہے اسی وجہ سے یہ بھی یہاں آتے ہیں؟‘‘
’’میں تو ڈر سے گھبرا کے یہاں آتا ہوں۔۔۔ مجھے گھر میں ڈر لگتا ہے۔‘‘
’’شاید یہ بھی کسی سے ڈرتے ہوں!‘‘
’’کس سے دادی!‘‘
’’اب میں تجھے یہ کیسے بتاؤں؟ کل کو تو یہ بھی پوچھے گا کہ میں سوت کیوں کاتتی ہوں؟‘‘
دادی کی باتیں منا کی سمجھ میں نہیں آتی تھیں۔ شاید اسی لیے وہ اسے بہت اچھی لگتی تھیں۔ یہاں چاند پر تو وہ ابھی کچھ دن ہوئے رہنے آئی ہے ورنہ پہلے تو وہ ممی، پاپا اور منا کے ساتھ نیچے بستی کے گھر میں رہتی تھی۔ وہاں دادی منا کو خوش رکھنے کے لیے کیا کچھ نہیں کرتی تھی۔ کہانیاں سناتی تھی، لوریاں گاتی تھی، سیر کے لیے سامنے باغ میں لے جاتی تھی اور پہیلیاں بھی پوچھتی تھی۔ دادی کی پہیلیاں بوجھنا بڑا مشکل ہوتا تھا۔ منا تو اکثر ہار ہی جاتا تھا۔ کافی منت سماجت کے بعد دادی کہتی دودھ پی لے تو بتاؤں گی۔ کبھی کہتی کپڑے بدل لے تو بتاؤں گی۔ یہاں چاند پر آنے کے بعد یہ سب تو نہیں رہا لیکن یہاں آ کر دادی پہیلیوں جیسی باتیں کرنے لگی تھی۔ اب یہ گھر تو تھا نہیں کہ منا کسی طرح ان کا مطلب پوچھ کر ہی دم لیتا! اسے دادی نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ضد کرے گا تو میں یہاں سے کہیں دور چلی جاؤں گی۔ پھر تو مجھے کبھی نہیں مل سکے گا۔ منا کے لیے دادی کا یہ ذرا سی دیر کا ساتھ غنیمت تھا۔۔۔ دادی کی باتوں میں پیار تھا۔۔۔ ان کی آواز میں پیار تھا۔۔۔ ان کی آنکھوں میں پیار تھا۔۔۔ ان کے ہاتھوں کے تھر تھراتے لمس میں پیار تھا۔۔۔ کبھی منا کہتا،
’’دادی تو ساری کی ساری پیار ہے۔‘‘
اور دادی کہتی،
’’تو پورے کا پورا شیطان ہے۔‘‘
اس پر دونوں کھِل کھِلا کر ہنس پڑتے اور دادی اسے سینے سے لگا کر اس کا منہ چوم لیتی۔
اس خیال کے آتے ہی منا کے ہونٹوں پر ہنسی پھیل گئی۔ سوت کاتتے ہوئے دادی نے اس کی طرف پیار بھری نظر سے دیکھا اور وہ بھی اس ہنسی میں شامل ہو گئی۔ دادی کی یہی تو خوبی تھی کہ وہ بغیر کہے ’سنے ‘ منا کے دل کی بات جان جاتی تھی۔۔۔ اب پورا چاند دادی اور پوتے کی ہنسی کی کلکاریوں سے گونجنے لگا۔ آس پاس کے تاروں نے بھی آنکھیں جھپکا جھپکا کر ان کی طرف دیکھا۔ ان کی ہنسی کی بازگشت چاند کی وادی سے نکل کر سارے میں پھیلنے جا رہی تھی۔۔۔ کہ منا کو اس بازگشت کے ساتھ کچھ دھماکوں ، گڑگڑاہٹوں ، چیخوں اور چانٹوں کی بھی آوازیں سنائی دینے لگیں۔۔۔ اب وہ ہنس تو رہا تھا لیکن دھیرے دھیرے اس کے چہرے کا رنگ فق ہونے لگا۔ اس نے دادی کی طرف دیکھا۔۔۔ وہ ہنس رہی تھی اور سوت کات رہی تھی گویا اسے یہ دوسری آوازیں سنائی نہیں دہے رہی تھیں۔ منا کی حالت غیر تھی۔ اس کے لیے اپنے آپ کو سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ دھماکے ، گڑگڑا ہٹیں ، چیخیں اور چانٹے بار بار اس کے کان کے پردوں سے ٹکرا رہے تھے اور ہر بار ان کی آواز تیز تر ہوتی جا رہی تھی۔ ان آوازوں کے سامنے وہ بے بس تھا اور ہنسی تھی کہ روکے سے نہیں رک رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں پانی تیرنے لگا۔۔۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ یہ ہنسی کے آنسو ہیں یا ان آوازوں کے کان کے پردے سے ٹکرانے کے بعد آنکھ سے کوئی سیال مادہ خارج ہو رہا ہے۔ بہرکیف صورت حال یہ تھی کہ اس کے پیٹ میں بل پڑ رہے تھے اور اس کے کانوں میں پہاڑوں جتنے بڑے ڈھول بج رہے تھے کہ اچانک کسی نے اس کی پیٹھ پر کس کر چابک کا ایک بھر پور وار کیا اور وہ بلبلا اٹھا!
اس کے حواس بجا ہوئے تو اس نے دروازے پر ہوا کی دستک سنی۔ ہوا کی آہٹ پاکر اس نے آنکھیں کھولیں اور نائٹ بلب کی روشنی میں دیکھا کہ پاپا کے ہاتھ میں چمڑے کا پٹا ہے جسے وہ گھما رہے ہیں۔ وہ پٹا ہوا میں ناگ کی طرح لہرا رہا ہے اور پاپا پھنکارتے ہوئے ممی کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ وہ ناگ کسی بھی لمحے ممی کو ڈس سکتا ہے۔ وہ ڈسنے کے لیے چھٹپٹا رہا ہے۔ پاپا کی بھی یہی کوشش ہے کہ وہ ممی کو ڈ سے۔۔۔ لیکن ممی نے منا کو اپنے جسم سے چمٹا ئے رکھا ہے۔
ممی رو رہی تھیں وہ منا بلبلا رہا تھا۔ اب اس کی سمجھ میں آیا کہ ماجرا کیا ہے؟ وہ چابک کا وار نہیں تھا۔۔ وہ تو پٹا تھا جو پاپا نے چلایا تھا۔ اس کی سمجھ میں یہ بات آ گئی کہ کئی وار سہنے کے بعد جب ممی برداشت نہیں کر سکیں تو انہوں نے سوئے ہوئے منے کو اپنے بدن سے ڈھال کے طور پر چمٹا لیا، یہ سوچ کر کہ اب تو یہ جلاد ہاتھ روک لے گا۔ جلاد کا ہاتھ رکا ضرور مگر تب تک ایک وار منا کی پیٹھ پر پڑ چکا تھا۔ پاپا نے پھنکارتے ہوئے کہا،
’’بچے کو الگ کر۔ لٹا دے اسے بستر پر۔‘‘
’’جو چاہے کر لے۔ اسے الگ نہیں کروں گی۔ مارنا ہے تو مار لے۔‘‘
ممی نے منا کو بھینچتے ہوئے اپنا جملہ پورا کیا۔ پاپا نے ہوا میں زور کا پٹا چلایا۔ زن کی آواز ہوئی۔ آواز کیا ہوئی ہوا سناٹے میں آ گئی۔ پورا کمرہ لرزنے لگا۔ ممی سہم گئیں۔ منا پر ان کی گرفت ڈھیلی پڑھنے لگی۔۔۔ منا کسمسا کر خود ہی ممی سے چمٹ گیا۔۔۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ کسی صورت بھی اسے ممی اپنے سے الگ کریں!
کئی مرتبہ اس کا جی چاہا کہ وہ ممی سے لپٹ جائے ، اسی طرح جس طرح وہ دادی سے لپٹ جاتا تھا۔۔۔ وہ چاہتا تھا کہ دادی کی طرح ممی کو بھی وہ چھیڑ ے ، ستائے۔۔۔ ممی اسے کچھ کہیں۔۔۔ کچھ کہیں تاکہ وہ انکار کر سکے اور اس کی نا پر ممی ناراض ہو جائیں۔۔۔ پھر وہ کان پکڑ کر دس مرتبہ اٹھک بیٹھک لگائے۔۔۔ وہ دادی کو بھی تو ایسے ہی منایا کرتا تھا۔۔۔ پھر ممی مان جائیں۔۔۔ اور جب وہ مان جائیں تو وہ دوڑ کر ان سے لپٹ جائے۔۔۔ یہ اور نہ جانے ایسی کتنی باتیں تھیں جو وہ ممی کے ساتھ کرنا چاہتا تھا۔ لیکن ممی کے پاس ان چونچلوں کے لیے وقت نہیں تھا۔ ان کے شب و روز کچن، دفتر اور خوابگاہ میں بٹ گئے تھے۔ وہ بھی مجبور تھیں۔ دن میں صرف چوبیس ہی گھنٹے تو ہوتے ہیں۔ اگر دن کے پاس کچھ وقت زیادہ ہوتا تو شاید وہ اتنی دیر منے کے ساتھ بتا سکتیں۔۔۔ لیکن۔۔۔! نہیں! دن صرف چوبیس گھنٹوں کا تھا۔۔۔ اور ا س کی تقسیم پہلے سے طے تھی۔۔۔ اٹل تھی۔۔۔ اور وہ مجبور تھیں!
انہیں اپنی اس مجبوری کا احساس منے کی آمد سے پہلے ہی سے تھا۔ وہ سوچتی تھیں ، ایک تو زندگی پہلے ہی سے بٹ چکی ہے اور دوسرے ہر لمحہ آنکھوں کے سامنے لہراتا ہو ا یہ ناگ! کیسے کچھ ممکن ہو سکے گا؟ اس سانپ کی پھنکار کے ڈر سے وہ ہر پل ہراساں رہتی تھیں۔۔۔ وقفے وقفے سے وہ سانپ ان کو ڈستا بھی تھا۔۔۔ اس کا زہر ان کے رگ وپے میں سرایت کر چکا تھا۔۔۔ بہت اندر تک، بہت دور تک پہنچ چکا تھا وہ زہر۔ انہیں ڈر تھا کہ یہ زہر کہیں قطرہ قطرہ ان کی کوکھ میں نہ جمع ہو جائے۔۔۔ انہیں اندیشہ تھا کہ جب وہ اس ننھی سی نئی جان کو اپنی چھاتی سے لگائیں تو اس کے غوغاں کرتے ہوئے پوپلے منہ میں دودھ کی جگہ زہر۔۔۔ وہ اس خیال ہی سے کانپ جاتی تھیں۔۔۔
منا درد سے کراہ ضرور رہا تھا لیکن اسے یہ سکون یہ تسلی بھی حاصل تھی کہ وہ ممی سے لپٹا ہوا ہے۔ وہ چاہ رہا تھا کہ چاہے جو ہو جائے ، چاہے جتنے ناگ پھن پھیلائیں وہ اسی طرح اپنی ممی سے چمٹا رہے۔ وہ ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں سے ممی کی پشت کی جانب دیوار پر لگی ہوئی دادی کی تصویر کو دیکھنے لگا۔ کچھ دیر کے لیے اس نے محسوس کیا کہ ممی بھی ساری کی ساری پیار ہے!
منے کو شانے پر ڈال لینے کے بعد ممی کے کانپتے ہوئے پیر مضبوطی سے زمین پر جم گئے اور ان کی تھر تھراتی ہوئی نظر کو بھی قرار مل گیا۔ انہوں نے ادھر آئینے کی جانب نگاہ کی تو دیکھا کہ شانے سے لگا ہوا منا ٹکٹکی باندھے اپنی دادی کی تصویر کو دیکھا رہا ہے اور اس کی پلکیں بھیگی ہوئی ہیں۔ ممی بھی اس آئینے کو دیکھنے لگیں اور دھیرے دھیرے ماضی کے دھندلکے سے ابھر کر ایک منظر اس آئینے میں اتر آیا۔ ممی نے دیکھا ان کی ساس ان سے کہہ رہی ہے ،
’’بیٹی! مہنگائی کس زمانے میں نہیں تھی۔ یہ تو ہر جگ میں ہماری سنگی ہے۔ اسے پہلے گریبی کہتے تھے اب مہنگائی کہتے ہیں۔۔۔ بس نام بد ل دیا ہے! لیکن اس جگ سے اسے جگ تک ونش تو برابر چل رہا ہے نا! ذرا سوچ و نش نہ چلے تو جگ جگ سے کیسے بدلے؟‘‘
’’ماں جی! من تو میرا بھی کرتا ہے ، پر۔۔۔‘‘
’’اری تو پرور کو چھوڑ، میری سن۔ جب یہ رگھو ہوا تھا تو میرے پاس ڈھنگ کی دھوتی بھی ناتھی۔۔۔ پلہ سر پر لیتی تھی تو بھی سر کھلا ہی رہتا تھا۔۔۔ تجھے اب کیا بتاؤں! اری میں تو چرا چراکر کھایا کرتی کہ دودھ برابر اتر تا رہے!‘‘
’’پر ماں جی! اب وقت بدل گیا ہے۔ وہ گاؤں تھا۔ یہ شہر ہے۔ آپ سمجھتی کیوں نہیں؟‘‘
’’تو مجھے تو مت سمجھا۔ میں جو سمجھا رہی ہوں اسے سمجھ۔ ناری جاتی کا ایک دھرم ہوتا ہے اور اسے نبھانا پڑتا ہے۔ تیرا من بھی تو کرتا ہے نا! ایک بات یاد رکھ۔ آدمی کو سدا اپنے من کی کرنا چاہیے۔ رہی بات رگھو کی! تو اس کو چنتا چھوڑ۔ اس کے باپ کو کہاں اکل تھی جو اس پاجی کے ہوتی۔ اسے میں دیکھ لوں گی۔‘‘
ممی ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں سے منظر کو دھندلاتے ہوئے دیکھ رہی تھیں کہ اچانک پاپا کے ہاتھ سے ایک گولہ سا نکلا اور چھناکے ، کے ساتھ آئینہ چکناچور ہو گیا۔
ممی اور منا ان کی طرف دیکھنے لگے۔ منا نے دیکھا کہ پاپا کا چہرہ تمتما رہا ہے۔ آنکھیں لال ہو گئی ہیں۔ گلے کی رگیں تنی ہوئی ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کے منہ سے کف نکل رہا ہے۔ انہوں نے پھنکارتے ہوئے کہا،
’’شانتی بچہ گرادے‘‘
’’میں کہہ چکی ہوں بچہ نہیں گرے گا‘‘
رگھو نے منا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا،
’’یہ ناٹک تو نے اس حرامزادے کے وقت بھی کیا تھا۔ پہلے شرافت کے ساتھ راضی ہو جاتی ہے اور بعد میں تجھے ناری دھرم یاد آتا ہے۔۔۔ چھنال سالی اڑی ہوئی ہے کہ لڑکی ہوئی تو کیا جن کر رہوں گی۔‘‘
صبح شانتی نے رگھو کو جگاکر خبر دی کہ منا کا بدن بخار سے پھنک رہا ہے۔ ایک سو چار ڈگری سے کم کیا ہوگا۔ شانتی شیرنی کی طرح اسے گھور رہی تھی اور وہ ندامت کے مارے گردن جھکائے سراپا تقصیر بنا بیٹھا تھا۔ دروازے پر دستک ہوئی۔ رگھو نے سوچا مزدور ہوں گے۔ بلڈنگ کی مرمت ہو رہی تھی۔ آج ان کی بالکنی میں ریلنگ لگانے کا دن تھا۔ رگھو نے موقعے کو غنیمت جانا۔ شانتی کی نظروں کے خنجر اسے چھلنی کیے دے رہے تھے۔ ایک جست میں وہ کمرے اور شانتی کی نظر کے دائرے سے باہر نکل گیا اور اس سے پہلے کہ شانتی دروازے کی طرف بڑھتی اس نے لپک کر دروازہ کھولا۔ دروازہ پر مزدور ہی کھڑے تھے۔ رگھو نے انہیں سمجھایا کہ ہمارا بچہ بیمار ہے۔ ہم آج کام نہیں کرائیں گے۔
’’لیکن صاحب!بالکنی کھلی رہے گی۔ بالک اوپن!‘‘
مزدور کسی طرح آج ہی اس کام سے چھٹکارا پانا چاہتے تھے۔ رگھو نے بے زاری سے کہا،
’’رہنے دو بھائی۔ تم کیوں فکر کرتے ہو؟‘‘
اس صبح کو ئی دفتر نہیں گیا۔ شانتی بیٹھی پانی کی پٹیاں بدلتی رہی اور بیچ بیچ میں منے کی پیشانی کو چھوکر بخار کا اندازہ لگاتی رہی۔ رگھو ڈاکٹر کو لینے چلا گیا۔
فیملی ڈاکٹر گھر کی اونچ نیچ سے بخوبی واقف تھا۔ بچے کے معائنے کے بعد اس نے سمجھاتے ہوئے کہا،
’’مرض تو کچھ نہیں ہے۔ بخار اتر جائے گا۔ میں دوا دیتا ہوں۔ ویسے آپ دونوں سمجھ دار ہیں۔ پڑھے لکھے ہیں۔ میں زیادہ کیا کہوں۔۔۔ یہ بتائیے اس کی نیند میں چلنے کی عادت کیسی ہے؟‘‘
’’جی! وہ برقرار ہے۔ ویسی ہی پہلے جیسی!‘‘
شانتی کے اس جواب پر ڈاکٹر کی پیشانی پر شکن ابھری۔ اس نے خودکلامی کے انداز میں کہا،
’’یعنی اب بھی سب کچھ ویسا ہی ہے۔‘‘
بابو رگھو ناتھ ڈاکٹر کے ساتھ باہر گئے اور شانتی دیوی بچہ کے سرہانیبیٹھ کر رونے لگیں۔
رات پھر گلیوں میں سرد ہوا کے جھونکوں کی گشت شروع ہوئی۔ رات کے پہر ے داروں نے پھر الاؤ روشن کر لیے اور بستی کی کھڑکیاں اور دروازے کھڑ کھڑانے لگے تو چاند کی ایک کرن نے ہولے سے منے کے کمرے میں قدم رکھا، اس کی انگلی پکڑی اور چل پڑی۔ منا خوش تھا کہ وہ ایک مرتبہ پھر دادی سے گلے ملے گا اور اسے سب کچھ بتا دے گا۔۔۔ لیکن آج چاند پردادی نہیں تھی، اس کا چرخہ بھی وہاں نہیں تھا۔ منا کے لیے دادی کے بغیر چاند اور زمین دونوں برابر تھے۔ اس نے دادی کو آواز دی، دادی اماں! دادی ماں! دادی! دا!
دادی میں آ گیا ہوں! میں تم سے ملنے آیا ہوں دادی۔ دادی تم آؤ تو تمہیں بتاؤں آج کیا ہوا۔ دادی تم نہیں آؤگی تو میں کسے بتاؤں گا؟‘‘
منا پکار پکار کر تھک گیا اور جب مایوس ہو ا تو رونے لگا۔ پورا چاند اس کی ریں ریں میں ڈوب گیا۔ پاس پڑوس کے تاروں نے بھی آنکھیں میچ کر اس کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔ روتے روتے اس کی گھِگھی بندھ گئی۔۔۔ اب اس کی سسکیاں چاند کی وادی سے نکل کر سارے میں پھیلنے جاری تھیں۔۔۔ کہ اچانک کہیں سے دو ہاتھ آئے اور انہوں نے اس کے آنسو پونچھے۔ منا اس لمس کو پہچان گیا۔ وہ پلٹ کر دادی سے لپٹ گیا اور ہچکیاں لیتے ہوئے پوچھا،
’’دادی تو کہاں چلی گئی تھی، میں کب سے آواز دے رہا ہوں اور وہ تمہارا چرخہ کیا ہوا؟۔۔۔ دادی میں بتاؤں آج گھر میں کیا ہوا؟‘‘
دادی نے بڑے گھمبیر لہجے میں کہا،
’’میں جانتی ہوں کیا ہوا ہے۔ تجھے بتانے کی ضرورت نہیں۔ آج یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہونے والا ہے۔۔ وہ دیکھ بادلوں کی فوج آ رہی ہے۔۔۔ وہ فوج مجھے لینے آ رہی ہے۔ پہلے وہ مجھے اپنے گھیرے میں لے گی پھر بہت اوپر لے جا کر اس گڑھے میں پھینک دے گی۔‘‘
دادی نے اسے گڑھے کی طرف اشارہ کیا جسے منا آج تک صرف ایک کالا دھبہ سمجھتا آیا تھا اور دادی کے کہنے پر اس کے نزدیک بھی نہیں جاتا تھا۔ آج اس نے دادی کی انگلی پکڑ کر گڑھے میں جھانک کر دیکھا۔ گڑھا بہت گہرا تھا۔ بہت اندھیرا تھا اس میں۔ اس نے گھبرا کر پوچھا،
’’دادی! پھر میرا کیا ہوگا؟‘‘
’’بادل مجھے اس گڑھے میں پھینک دیں گے۔ پھر ہوا اپنی بڑی بہن کے ساتھ تمہاری طرف بڑھے گی۔ اس کی بہن کا نام آندھی ہے۔ وہ دونوں بہنیں مل کر تمہیں چاند سے نیچے دھکیل دیں گی اور تم زمین پر جاگروگے۔ اس کے بعد میں اس گڑھے سے نہیں نکل سکوں گی اور تم دوبارہ چاند پر نہیں آ سکوگے۔‘‘
’’لیکن دادی ہم دونوں مریں گے تو نہیں نا؟‘‘
’’نہیں منا ہم مریں گے۔۔۔ نہیں۔۔۔ ہم دونوں کبھی نہیں مریں گے۔۔۔ ہمیں گرایا جا سکتا ہے۔۔۔ گڑھے میں بند کیا جا سکتا ہے۔۔۔ لیکن مارا نہیں جا سکتا۔۔۔ بیٹا ہم امر ہیں!‘‘
’’دادی! پھر تم اس گڑھے سے کب نکلوگی؟‘‘
’’ایک مرتبہ گڑھے میں پھینک دیئے جانے کے بعد جلدی باہر نہیں نکلا جا سکتا۔ اس کے لیے مجھے تیرے منے کا انتظار کرنا پڑے گا۔‘‘
’’دادی منا تو میں خود ہوں۔۔۔ پھر میرا منا؟‘‘
دادی اور پوتے کی باتیں جاری تھیں کہ دیکھتے دیکھتے پورے چاند کو بادلوں نے گھیر لیا۔ سمٹتے سمٹتے ان بادلوں نے دادی کو اپنے نرغے میں لے لیا۔ انہوں نے دادی کو بہت اونچا اوپر اٹھایا اور پھر دھم سے گڑھے میں پھینک دیا۔ دادی نے آواز دی ’’منا!‘‘ منا نے ابھی داہی کہا تھا کہ ہوا نے اس کے پیر اکھاڑ دیئے اور آندھی نے وہ زور کا دھکا دیا کہ وہ چاند سے نیچے گر گیا۔ بہت دیر تک وہ چاند اور زمین کے درمیان جھولتا رہا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اگر مجھے زمین پر گرنا ہی ہے تو وہ جلدی کیوں نہیں آتی۔ میں کب تک یوں لٹکا رہوں گا؟۔۔۔ اور پھر وہ دھم سے زمین پر گر گیا!
ڈاکٹر بچے کی نبض دیکھ رہا تھا۔ بابو رگھوناتھ اور شانتی دیوی کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ ڈاکٹر نے اب کے قدرے سخت لہجے میں کہا،
’’آپ ہی کی وجہ سے یہ راتوں کو نیند میں چلتا ہے۔۔۔ اور کچھ نہیں کم از کم بخار کی حالت میں تواس پر نظر رکھتے جب کہ آپ کی بالکنی کی ریلنگ نہیں ہے۔ وہ تو کہیے کہ زیادہ خون نہیں بہا اور چوٹ بھی جان لیوا نہیں!‘‘
کچھ دیر بعد منے کو ہوش آ گیا۔ شانتی دیوی اور بابو رگھو ناتھ دونوں اس پر جھک گئے۔ شانتی دیوی نے اسے پچکارتے ہوئے کہا،
’’میرے چاند! دیکھو، ممی، پاپا، دونوں تمہارے پاس ہیں۔‘‘
منے نے ان کی طرف دیکھا۔ اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ دوڑ گئی اور اس نے کہا،
’’آپ دونوں مجھے گرانا چاہتے تھے نا! دیکھو میں کتنے اوپر سے گراہوں!‘‘
دونوں ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ گئے۔ ان کی نظریں جھک گئیں۔ ان پر سکتہ سا طاری ہو گیا۔ وہ کہنا چاہتے تھے کہ بیٹے! تم نہیں گرے۔ گرے تو۔۔۔ لیکن وہ کچھ کہہ نہ سکے۔ شانتی دیوی کے اندر سے ایک ہوک اٹھی۔ انہوں نے محسوس کیا کہ اندر ہی اندر کسی نے ان کی کوکھ پر کس کر ایک مکا جمایا ہے۔۔۔ اور بابو رگھوناتھ کے کانوں میں سیٹیاں بجنے لگیں۔ کمرے کا دایاں حصہ بائیں جانب اور بایاں حصہ دائیں جانب نظر آنے لگا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ ان کے مسامات سے پسینے کی نہریں نکل رہی ہیں اور وہ اس میں گلے گلے ڈوبے ہوئے ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.