چم چچڑ
1
میرا باپ کوئی خاص پڑھا لکھا قابل آدمی نہیں تھا۔ زبان کے قواعد بھی ٹھیک سے نہیں جانتا تھا۔ البتہ فعل نہی سے خوب واقف تھا، ’’نہ کرو‘‘، ’’نہ جاؤ‘‘، ’’نہ بولو‘‘، اور اگر بس چلتا تو، ’’سانس نہ لو۔‘‘
میں چھوٹا تھا اس لیے وہ میرے پیچھے زیادہ پڑا رہتا تھا، لیکن یہ مجھ کو کچھ ایسا برا بھی نہیں لگتا تھا۔ میں سمجھتا تھا یہ اس کی پدری محبت ہے۔ سچ پوچھیے تو میں خود اس سے کچھ کچھ محبت کرتا تھا۔ لیکن جب میں ذرا بڑا ہوا اور اپنی مرضی پر چلنے کی خواہش کرنے لگا تو مجھے اس سے وحشت ہونے لگی۔ ہر قدم پر وہ میرے راستے میں آ کھڑا ہوتا، اس کی آنکھیں لال پیلی ہونے لگتیں، ہاتھ اوپر اٹھتا اور منہ کھل جاتا،
’’نہ!‘‘
وہ دن تو بھلائے نہیں بھولتا جب میں گلی میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا اور ہم سب اپنی دھن میں مست خوب ہلڑ مچا رہے تھے کہ میرا باپ نازل ہو گیا۔ وہ اچانک آن پہنچا تھا اور اس پر نظر پڑتے ہی میرے ہاتھ پاؤں ایسے پھولے کہ گھر بھاگ جانے کا بھی ہوش نہ رہا۔ اس نے مجھے دونوں کان پکڑ کر اٹھا لیا اور گھر کے اندر لے آیا۔ اسی طرح کانوں سے لٹکائے صحن پار کر کے اس نے مجھے کمرے کے گوشے میں پٹخ دیا۔ درد کے دو ستون میرے دھڑ کو تھامے ہوئے تھے اور مجھے جھکنے بھی نہیں دے رہے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دو دہکتی ہوئی سلاخیں کانوں کے راستے میرے بدن میں اتار دی گئی ہیں۔ ایک عذاب تھا۔ لیکن مجھے اس کی زیادہ پروا نہیں تھی، اصل عذاب وہ خفت تھی جو مجھے اٹھانا پڑی۔ مجھ کو معلق دیکھتے ہوئے بچوں کی صورتیں ابھی تک میری نگاہوں میں پھر رہی تھیں، ان کی ہنسی، جو وہ روک رہے تھے اور ترحم، جو وہ اپنی آنکھوں سے ظاہر کر رہے تھے۔
اسی دن سے میں تنہا ہو گیا۔ گھر کے کونے میں دیوار کے پیچھے سے مجھے بچوں کے چیخنے چلانے، دوڑنے دھوپنے اور ہانپنے کی دور جاتی، قریب آتی آوازیں سنائی دیتیں اور میرا جی چاہتا لپک کر ان میں جا ملوں، لیکن کوشش نہیں کرتا تھا، باپ کی ڈر کی وجہ سے نہیں بلکہ میں بچوں سے جھینپنے لگا تھا۔ اب ان کے ساتھ مزہ نہ آتا، ہماری برابری جو ختم ہو گئی تھی۔ مجھے پتہ تھا کہ اب سے بچے میری ہنسی اڑایا کریں گے، اور انہیں کا حق بھی تھا۔
میرا باپ جب تک گھر میں رہتا، اس کی زبان تالو سے نہ لگتی، مسلسل بولے جاتا تھا۔ کیا کیا پند و نصائح، صداقت اور پارسائی کے کیا کیا درس ہوتے تھے۔ اس کی فصیح و بلیغ اور لفظی معنوی صنعتوں سے گراں بار تقریریں زیادہ تر دونوں وقت کے کھانے پر ہوتی تھیں۔ منہ میں کھانا ٹھنسا ہوا، اور ہر دو جملوں کے بیچ میں ایک لقمہ۔ اور ہم سب کو پہلے ہی سے معلوم رہتا کہ اب وہ کیا کہے گا، اس لیے ہم اس سے ایک دو جملہ آگے آگے چلتے اور انتظار کرتے تھے کہ وہ اپنی بات پوری کر کے ہماری چھٹی کرے۔ ہم پست ہو کر رہ جاتے تھے۔
تنخواہ ملتی تو وہ اسے آدھوں آدھ کر لیتا۔ آدھی اپنے ڈب میں رکھتا، آدھی میری ماں کو گھر کے خرچ کے لیے دیتا تھا۔ وہ ماں کو کبھی اپنی صحیح صحیح تنخواہ نہیں بتاتا تھا۔ میرا قیاس ہے کہ اس حصہ بانٹ سے پہلے ہی وہ کچھ رقم مار لیتا تھا، یعنی اپنے ساتھ بھی داؤں کر جاتا تھا۔ کیسی مزے کی بات ہے، ہے کہ نہیں؟ اس کی کچھ اوپری آمدنی بھی تھی جو ہم نے نہ تو کبھی دیکھی، نہ اس کا کچھ اتا پتہ پایا۔ یہ ساری رقم وہ خود پھونک دیتا تھا۔ اسے جوئے کی لت جو تھی۔ پرانا جواری تھا۔
اگر کسی رات وہ اپنے آپے میں اور مگن ہوتا۔۔۔ اگر اس کے لیے مگن کی صفت استعمال کی جا سکتی ہو۔۔۔ تو ہم سمجھ جاتے کہ جیت کر آ رہا ہے۔ اس رات اس کی تقریروں کی فصاحت و بلاغت اور طوالت بہت بڑھ جاتی اور وہ ان میں ضرب الامثال بھی کھپانے کی کوشش کرتا، جیسے ’’حق بہ حق دار رسید‘‘، ’’نابردہ رنج گنج میسر نمی شود‘‘، ’’راستی آور کہ شوی رستگار۔‘‘ لیکن جب کسی رات وہ ہار جاتا اور تیوریاں چڑھائے، یا ماں کے بقول ’’کٹکھنا کتا سا‘‘ ہوتا تو اس کی تقریروں میں زہد و تقویٰ کی حکایتیں اور گندی دنیا کے گندے لوگوں کی شکایتیں زیادہ ہوتی تھیں۔ کہتا تھا، ’’جعل فریب زمانے بھر پر چھا گیا ہے۔ کسی کے پیٹ میں ایک آنت بھی سیدھی نہیں ہے۔ بس جھوٹ، جھوٹ، جھوٹ!‘‘
ایک رات وہ بہت دیر میں گھر لوٹا، سر اور چہرے پر خون، کپڑے تار تار۔ کہنے لگا، بس سے اتر رہا تھا کہ بس چل پڑی اور وہ اس کی جھپیٹ میں آ گیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ اس رات دوسرے جواریوں نے اس کی بے ایمانی پکڑ لی تھی اور جم کر اس کی مرمت کی تھی۔
جب اس کے پاس پیسے ختم ہو جاتے تو سیدھے سبھاؤ ماں سے مانگتا نہیں تھا، چرا لیتا تھا۔ اور سب سے بدتر یہ کہ چوری ہم کو لگاتا تھا اور ایک فرض شناس باپ کی حیثیت سے ہمیں تنبیہ بھی کرتا تھا۔ مجھ کو اس کی اس حرکت کا یقین نہ آتا لیکن ایک دن اس نے مجھ کو بھی لے ڈالا۔ اس دن گھر میں وہ، ماں اور میں، صرف تین آدمی تھے۔ میں دیکھ رہا تھا کہ وہ گھر ہی میں اِدھر اُدھر ٹاپتا پھر رہا ہے۔ صاف معلوم ہوتا تھا کہ کسی پھیر میں ہے اور گھر سے باہر جانے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ آخر موقع ملتے ہی میری آنکھ بچا کر وہ اپنی حرکت کر گزرا۔ میری سمجھ میں نہ آیا کون سی حرکت۔ فقط یہ معلوم ہوتا تھا کہ اس کا کام بن گیا ہے اور اب اسے کوئی پریشانی نہیں۔ جھٹ پٹ کپڑے بدل گھر سے نکل گیا۔
تھوڑی ہی دیر بعد ماں مجھے ڈھونڈھتی ہوئی آئی، ’’میرے بٹوے سے پیسے تم نے نکالے ہیں؟‘‘
میرا منہ لال ہو گیا۔ بھانڈا پھوٹ گیا اور معما حل ہو گیا تھا۔ اس کے اس نیچ پن، ناقابل یقین نیچ پن پر خود مجھے شرم آ رہی تھی، اور اس پر بھی کہ ماں کو پتہ چل جائے گا تو وہ کیسا خوار ہوگا۔ لیکن ماں نے میری اس خجالت، پریشانی اور بوکھلاہٹ کو، اور اس طرح ہکا بکا رہ جانے کو میرے مجرم ہونے کا ثبوت سمجھا۔ اس نے میری ساری جیبوں کی تلاشی لی، لیکن پیسے نہیں نکلے، نہ میرے پاس رقم چھپانے کا کوئی ٹھکانہ تھا، نہ میں گھر سے باہر گیا تھا کہ کہیں پیسے خرچ کر دیے ہوں۔ پھر وہ رقم اتنی بڑی تھی کہ میری عمر کا لڑکا اسے چرانے کی ہمت ہی نہیں کر سکتا تھا۔
دوپہر کو میرا باپ گھر آیا تو ماں نے پیسے غائب ہو جانے کا ماجرا کہہ سنایا، اور یہ بھی کہہ دیا کہ میں سمجھتی ہوں فلاں نے چرائے ہیں، اس کے سوا گھر میں کوئی تھا ہی نہیں۔ باپ اچانک بندوق کی گولی کی طرح مجھ پر آیا۔ گھونسے، لاتیں، تھپڑ مار مار کر اس نے میرا کچومر نکال دیا۔ مجھ کو اس کی فقط آواز سنائی دے رہی تھی کہ چیخ چیخ کر ایک ہی رٹ لگائے ہوئے تھا، ’’مجھے چوٹٹی اولاد نہیں چاہئے، مجھے چوٹٹی اولاد نہیں چاہئے۔‘‘
*
ہمارے گھر میں تفریح کا کوئی سامان نہ تھا۔ باپ ہم کو نہ سیر کرانے لے جاتا، نہ سنیما دکھانے۔ ہمارے یہاں نہ ریڈیو تھا نہ ٹیلی ویژن۔ وہ کہتا تھا یہ سب تباہ اور گمراہ کرنے والی چیزیں ہیں اور ان سے دین ایمان خراب ہوتا ہے۔ کتابیں پڑھنے کی ہم کو اجازت نہیں تھی۔ پہلی ہی بار جب اس نے میرے ہاتھ میں کتاب دیکھی تو میری وہ درگت بنائی کہ اب مجھے کتاب کی صورت سے وحشت ہوتی ہے۔ وہی سی کتاب اس نے میرے سر پر اتنی بار رسید کی کہ تین ہفتے تک میں چوندھیا رہا۔ اس رات اس نے ڈٹ کر پلاؤ اڑایا، لیکن میرے حلق سے نوالہ نہ اترا۔
اسی لیے میری عادت پڑ گئی تھی کہ چپ چاپ کسی کونے میں بیٹھا رہتا اور سوچا کرتا۔ اس پر بھائی بہن مجھ کو ڈانٹتے پھٹکارتے تھے، ماں بھی خفا ہوتی تھی۔ واقعی سب سے زیادہ وہ میرے ہی پیچھے پڑا رہتا تھا، لیکن ان کو بھی کوئی چین سے تھوڑی بیٹھنے دیتا تھا، مگر یہ کہ وہ سب خود ہی اس سے دور دور رہتے تھے۔ دکھاوا تو یہ تھا کہ بھاگنا کیسا، اس کو بہت چاہتے ہیں، مگر میں جانتا تھا، سب دل سے یہی چاہتے کہ اس کے تن پر سر نہ رہے۔ دو وقتہ کھانے پر وہ سب بڑے صبر اور سنجیدگی کے ساتھ اس کی اکتا دینے والی گھسی پٹی اور تاؤ دلانے والی بے سر پیر کی تقریریں سنتے، کبھی کبھی جھوٹی ہنسی ہنستے، سر ہلاتے اور اگر منہ میں نوالہ نہ ہوتا تو اس کی ہاں میں ہاں بھی ملاتے، لیکن اندر اندر ان کا خون کھولتا رہتا اور وہ دانت پیسا کرتے تھے۔
ماں کو اب اس کے لچھنوں کا پتہ چل گیا تھا اور وہ سمجھنے لگی تھی کہ بٹوے سے پیسوں کا نکل جانا، یا گھر کے قیمتی سامان اٹھ جانا کس کی کارستانی ہے، لیکن وہ بھی چپ چاپ سب جھیل رہی تھی اور گویا کسی معجزے کے انتظار میں تھی۔ ان لوگوں میں اتنی جرأت بھی نہ تھی کہ دل سے باپ کے مرنے کی تمنا کریں۔ فقط ان کا جی چاہتا تھا، بغیر اس کے کہ اس خواہش کا خیال لائیں، کہ باپ کسی معجزے کے اثر سے مر جائے اور انہیں چین سے بیٹھنے دے۔
میں باپ کی ڈانٹیں کھاتا تھا لیکن میں نے اس کا غور سے جائزہ بھی لیا۔ اس کے چہرے کی شکنوں، ہاتھوں کی جنبشوں سے، کبھی لپک جھپک کر، کبھی ڈھیلے قدموں چلنے سے آشنا ہوا تو وہ مجھ کو ایک مجبور، تہی دست اور کچلا ہوا سا آدمی نظر آیا۔ بیوی بچے اس کے ہاتھ پاؤں پکڑ کر اسے باہر گلی میں پھینک سکتے تھے، اس کی گدی میں ہاتھ دے کر دروازے تک کھدیڑ سکتے تھے اور زبردستی اسے گھر سے نکال باہر کر سکتے تھے لیکن ایسا کرتے نہیں تھے، کر ہی نہیں سکتے تھے، اتنی ہمت جو نہیں تھی۔ سچ پوچھیے تو مجھ میں بھی اس کی ہمت نہ تھی، لیکن اتنا میں جانتا تھا کہ اگر وہ شروعات کر دیں تو مجھ میں بھی ہمت آ جائے گی۔
میں اس سے بہت کم ڈرتا تھا، اس لیے کہ میں اسے بہت زیادہ جانتا تھا۔ ان کے دلوں سے اس کا خوف نکالنے کے لیے ضروری تھا کہ انھیں اس کو سمجھنے کے لیے تیار کروں۔ مگر مجھ کو ان سے بات کرنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی۔ اگر باپ کو پتہ چل جاتا کہ اس کے پیٹھ پیچھے میں کیا کہتا پھر رہا ہوں تو ہم سب کی شامت آ جاتی۔ ایک بار جب میں نے بڑی ہمت کر کے اشاروں کنایوں میں اپنے بھائی سے کچھ باتیں کیں تو اس نے متوحش ہو کر مجھے دیکھا اور کہنے لگا، ’’پاگل ہو گئے ہو؟ کیسی باتیں سوچ رہے ہو!‘‘
ہاں، ہم سب اس سے بے طرح ڈرتے تھے، اس سے بے طرح نفرت کرتے تھے۔
2
جب میں بڑا ہو گیا تو اس خیال سے کہ مجھ کو ڈر نہ لگا کرے، میں نے فیصلہ کر لیا کہ خود میں دوسروں کو ڈرایا کروں گا۔ یا سچ پوچھیے تو اس حرکت سے میرا کوئی خاص مقصد نہیں تھا۔ یہ مرے لیے محض ایک قسم کی تفریح، ایک مزیدار مشغلہ تھا، لیکن آپ شاید اسے مردم آزاری کی چھپی ہوئی خواہش، یا کوئی انتقامی جذبہ، یا خالص بدنفسی سمجھیں، یا کمتری کے احساس سے چھٹکارا پانے کی کوشش۔ جو چاہے سمجھ لیجیے، میرے لیے سب برابر ہے۔
خزاں اور سرما کے موسموں میں، جب فضا ابر آلود اور تاریک اور بند بند سی ہوتی، میرا یہ کھیل زیادہ مزہ دیتا۔ کپڑوں کے اوپر میں برساتی پہن لیتا اور اس کے کالر اوپر اٹھاکر چہرہ چھپا لیتا۔ کسی ایک آدمی کو چن لیتا، اس طرح کہ جو بھی راستے میں آ جاتا، میں اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگتا تین قدم کا فاصلہ دے کر۔ وہ تیز چلتا تو میں بھی تیز چلتا، وہ رک جاتا تو میں بھی رک جاتا، وہ کسی گلی میں مڑتا، میں بھی مڑتا۔ اگر وہ کسی مکان کے اندر چلا جاتا تو میں مکان کے سامنے تھوڑی دور پر بجلی کے کھمبے یا کسی درخت کے تنے کی ٹیک لگاکر کھڑا ہو جاتا۔ وہ کھڑکی سے منڈیا نکالتا اور دیکھتا کہ میں اب بھی وہاں موجود ہوں۔ اور میں ہمیشہ اناڑی پن سے، بناوٹی اناڑی پن سے، ایسا ظاہر کرنے کی کوشش کرتا گویا میں اس کی طرف بالکل متوجہ نہیں ہوں اور میرا سارا دھیان اپنی طرف ہے، اور اپنے کام کی طرف، جو پتہ نہیں کیا ہے۔
ایک بار تو ان میں سے ایک آدمی ایسا ڈرا کہ ا س نے گھر بھر کو خبر کر دی اور چھوٹے بڑے سب کے سب کھڑکی سے جھانک جھانک کر مجھے دیکھنے لگے اور میں ایسا بن گیا جیسے مجھے کوئی نظر ہی نہ آ رہا ہو۔ بس کبھی کبھی کنکھیوں سے ان کی جانب دیکھ لیتا تھا۔ آخر ان میں کا ایک ہمت کر کے باہر نکلا اور مجھ سے پوچھنے لگا، ’’کہیے، کوئی کام ہے؟‘‘
سچ پوچھیے تو میں ڈرا کہ بات بڑھ رہی ہے، لیکن میں بوکھلایا بالکل نہیں۔ سوچا انھیں دو رخے اور اوٹ پٹانگ جواب دیے جائیں۔ میں نے پوچھا، ’’کیا مطلب؟‘‘
وہ بولا، ’’آپ اتنی دیر سے یہاں کھڑے جو ہیں۔‘‘
میں نے ظاہری تعجب سے پوچھا، ’’یہاں میرے کھڑے ہونے کی منادی ہے؟ یا میں آپ کا راستہ روک رہا ہوں؟‘‘
میرا اندازہ ٹھیک تھا۔ وہ سٹپٹا کر رہ گیا۔
’’نہیں نہیں، یوں ہی، میں نے سوچا شاید آپ کی کچھ مدد کر سکوں۔‘‘
میں نے جواب دیا، ’’بہت بہت شکریہ۔ جب ضرورت ہوگی آپ کو اطلاع کردوں گا۔‘‘
وہ برخوردار میرے اس جواب سے پچک کر رہ گیا اور خوب ڈرا۔ ہنسی روکتے روکتے میں بے ہوش ہوا جا رہا تھا۔ قریب تھا کہ ایک زور دار قہقہہ میری ساری سنجیدگی کا بھانڈا پھوڑ دے، لیکن یہ سوچ کر کہ اگر اس وقت مجھ سے ذرا بھی چوک ہوئی تو یہ لوگ اپنے تمام خرخشوں کا حساب وصول کر لیں گے، میں نے خود کو سنبھالا۔
جو آدمی مجھ سے بات کر رہا تھا وہ ڈرا ہوا تو بہت تھا لیکن اتنی آسانی سے ہار ماننے والا بھیں نہیں تھا۔ اس نے پھر سوال کیا، ’’کسی کا مکان ڈھونڈھ رہے ہیں؟‘‘
’’جی!‘‘ میں نے کہا۔
’’کس کا؟‘‘
’’اسی گلی میں مکان ہے۔‘‘ میں بولا، ’’مجھے معلوم ہے۔‘‘
وہ بولا، ’’مالک مکان کا راستہ دیکھ رہے ہیں؟‘‘
میں نے یوں ہی کہہ دیا، ’’جی نہیں، کچھ آنے والوں کا انتظار ہے۔‘‘
میں نے دیکھا اس کا چہرہ فق ہو گیا اور وہ چونے کی طرح سفید پڑ گیا۔ پھر وہ کچھ نہیں بولا، چپ چاپ گھر کے اندر چلا گیا۔
اندھیرا ہو گیا تو میں نے اپنا راستہ لیا۔ تھک گیا تھا، لیکن جیسے ہی اس آدمی کا خیال آتا، ہنستے ہنستے پیٹ میں بل پڑ جاتے۔ بیچارے! رات بھر جاگتے رہے ہوں گے۔
ایسے ایسے بہت قصے ہیں۔ سب سناکر آپ کا دماغ پریشان نہیں کرنا چاہتا۔ بس ایک واقعہ جو سب سے زیادہ طویل اور مزے کا ہے۔۔۔ اور آخری بھی۔۔۔ بیان کرتا ہوں۔ اور وہ واقعہ ہے جس نے میری ان ساری حرکتوں کی مزدوری میرے ہاتھ پر رکھ دی اور اس پُرلطف مگر خطرناک کھیل سے میرے باز آنے کا سبب بنا۔
مغرب کا وقت ہوگا کہ میں بس سے اترا۔ آسمان پربادل چھائے ہوئے تھے اور ڈوبتے ہوئے سورج کی مدھم روشنی بھی ان سے نہیں چھن رہی تھی۔ بارش ہو چکی تھی اور زمین پر کیچڑ تھی، لیکن اس وقت پانی تھما ہوا تھا۔ میرے آگے ایک شخص بہت سہج سہج قدم رکھتا ہوا چل رہا تھا تاکہ کیچڑ کے چھپا کے اس کے کپڑے نہ خراب کریں۔ معلوم نہیں کیوں میری بدذاتی نے زور کیا اور میں نے اس کو دق کرنے کی ٹھان لی۔ وہ اچھی شخصیت کا خوش پوشاک آدمی تھا۔ جوان ہی تھا، پینتیس چالیس کے لگ بھگ عمر، ہٹا کٹا، گوری رنگت، منڈا ہوا چہرہ، سر پر بال مگر چند یا صاف۔ قریب تھا کہ میں اس سے آگے نکل جاؤں، لیکن میں نے اپنی رفتار دھیمی کر دی، برساتی کے کالر اوپر اٹھائے، ٹھوڑی ان میں چھپا لی اور سر کو اس طرح جھکا لیا کہ بھنووں کے نیچے سے اسے دیکھتا رہوں۔
آخر وہ مَردَک میری طرف متوجہ ہوا۔ پہلے اس نے کچھ زیادہ خیال نہیں کیا، لیکن چند قدم اور چلنے کے بعد وہ سمجھ گیا کہ میں اس کا پیچھا کر رہا ہوں۔ اس نے پلٹ کر دیکھا۔ میں نے سیدھے اس کی آنکھوں میں دیکھا لیکن پھر نظریں ہٹا لیں اور ایسا ظاہر کیا کہ موٹروں کو دیکھ رہاہوں۔ اس نے اپنی رفتار تیز کردی جیسے کسی ناگوار چیز کو جھٹکنا چاہتا ہو۔ وہ بس اڈے پر جا کر کھڑا ہو گیا۔ ٹکٹ خریدا اور کھڑا رہا۔ میں نے بھی ٹکٹ لے لیا اور اس کے ایک دو آدمی پیچھے کھڑا ہو گیا۔ اب میں نے گردن بڑھا بڑھا کر اس کو اس طرح دیکھنا شروع کیا کہ آخر وہ پھر میری طرف متوجہ ہو گیا۔
بس آئی۔ ہم دونوں سوار ہو گئے۔ میں اس کے پیچھے بیٹھا۔ اب جب میں اس کو نظر نہیں آ رہا تھا تب بھی وہ پریشان تھا۔ جانتا تھا کہ میں اس کا تعاقب کر رہا ہوں لیکن اس سے کچھ بنائے نہیں بن رہی تھی۔ چند اسٹاپوں کے بعد وہ اتر گیا۔ پتہ نہیں اسے وہیں اترنا تھا یا مصلحتاً اتر پڑا تھا۔ بس سے اترتے وقت اس نے مجھ کو ڈری ڈری نظروں سے دیکھا۔ میں نے سوچا اسے کچھ اطمینان ہو جائے، ذرا خود کو بہلالے اور چین کی چند سانسیں لے لے تاکہ دوبارہ مجھ کو دیکھنا اسے اور بھی کھلے۔ اسی میں تو مزہ تھا۔
جیسے ہی وہ آگے بڑھا میں جھٹ سے اٹھا اور اس کے پیچھے لگ لیا۔ وہ سڑک پار کر کے رکا، پھر مڑ کر دیکھنے لگا۔ میں گاڑیوں کی اوٹ میں ہو گیا تھا۔ ٹھیک اس وقت جب وہ مطمئن ہو کر مزے مزے چلا جا رہا تھا، اسے اپنے پیچھے پیروں کی چاپ سنائی دی۔ اس نے بے یقینی کے ساتھ گردن گھمائی اور مجھے دیکھا کہ تین قدم کے فاصلے پر بظاہر اپنی دھن میں مست اس کے پیچھے پیچھے چلا آ رہا ہوں۔ اس نے قدم بڑھائے۔ میں نے قدم بڑھائے۔ وہ رکا اور اپنے جوتوں کی ڈوریاں کھول کر پھر سے باندھنے لگا۔ میں نے ایک سگریٹ نکالی اور ماچس جلانے کے بہانے وہیں ٹھہر گیا۔ یکبارگی وہ ایک جنرل مرچنٹ کی دکان میں گھس گیا۔ میں وہیں ایک طرف کھڑے ہو کر اس کے باہر نکلنے کا انتظار کر سکتا تھا، لیکن اسے زیادہ ستانا چاہتا تھا اس لیے خود بھی دکان کے اندر چلا گیا۔
’’ذرا سنیے گا۔‘‘ میں نے کہا۔
وہ بھڑک کر پلٹا، سمجھا میں اسے کچھ رہا ہوں، لیکن میں دکاندار کی طرف متوجہ تھا۔
’’آپ کے یہاں فون ہوگا؟‘‘
’’جی نہیں۔‘‘ دکاندار نے جواب دیا۔
’’آس پاس بھی کہیں نہیں ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ہے کیوں نہیں۔۔۔‘‘ دکاندار بولا، ’’یہ کیا چوراہے پر، ذرا آگے بڑھ کر۔‘‘
پھر دکاندار نے ایک بڑی سی گڑیا اس کے سامنے رکھ دی اور پوچھا، ’’یہ ٹھیک رہے گی؟‘‘
’’ہاں ہاں، بس یہی ٹھیک ہے۔‘‘ اس نے بوکھلاہٹ میں جواب دیا، ’’کتنے کی؟‘‘
’’پچپن تو مان۔‘‘
میں باہر نکل آیا۔ برساتی کے کالر کے پیچھے میں اپنی ہنسی چھپائے ہوئے تھا۔ آج اس کی بچی ’پاپا‘ کی اس غیر معمولی مہربانی کا سبب نہ سمجھ پائے گی۔ وہ مجھ کو شاید یہ بتانا چاہتا تھا کہ وہ ایک تین چار سال کی بچی کا باپ ہے۔
میں ٹیلیفون بوتھ کے اندر چلا گیا۔ رسیور اٹھا کر میں نے یوں ہی کچھ نمبر گھمائے اور ایسا ظاہر کیا کہ کسی سے بات کر رہا ہوں۔ وہ بغل میں بنڈل دبائے دکان سے باہر نکلا۔ اس نے کنکھیوں سے بوتھ کی طرف دیکھا اور مجھے گفتگو میں مشغول دیکھ کر خوش بھی ہوا، وحشت زدہ بھی، اور دوسری سمت روانہ ہو گیا۔ میں نے رسیور کو رکھ دیا اور اس کے پیچھے چل کھڑا ہوا۔ میں نے اپنی رفتار بڑھائی یہاں تک کہ میرے اس کے درمیان تین قدم کا فاصلہ رہ گیا۔
پانی پھر برسنا شروع ہو گیا تھا۔ ذراہی دیر میں ہم دونوں بھیگے ہوئے چوہے ہو گئے۔ اندھیرا ہو چکا تھا۔ سڑک پر کھمبوں کے بلب اور گاڑیوں کے ہیڈ لیمپ روشن ہو گئے تھے۔ اچانک وہ ایک گلی میں مڑا اور بھاگنے لگا۔ پیچھے پیچھے میں بھی۔ لیکن میں نے اس کا خیال رکھا کہ ہمارا درمیانی فاصلہ زیادہ رہے اور وہ کسی دوسری گلی میں مڑ جائے۔ وہ مڑا اور میں اس موڑ کو چھوڑتا ہوا آگے بڑھا اور ایک مکان کے چھتے میں چھپ کر چپ چاپ کھڑا ہو گیا۔
دس منٹ گزر گئے۔ وہ برآمد نہیں ہوا۔ میں نے پانچ منٹ اور انتظار کیا۔ اب میرا حوصلہ جواب دینے لگا۔ سوچ ہی رہا تھا کہ چھوڑوں اور اپنا راستہ پکڑوں کہ وہ گلی کے نکڑ پر دکھائی دیا۔ اس نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ہر طرف دیکھا، گلی کے اس سرے سے اس سرے تک، درختوں اور بجلی کے کھمبوں کے پیچھے۔ جب دیکھا کوئی نہیں ہے تو لپکتا ہوا، مگر آہٹ کے بغیر، باہر آیا اور اس گلی سے ذرا ہٹ کر مقابل کی ایک اور گلی میں گھس گیا۔ یہ والی گلی آگے بند نہیں تھی، اس لیے میں بھی آہٹ کیے بغیر اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ تین قدم کا فیصلہ رہ گیا تو میں نے زمین پر اپنے جوتے کو رگڑ دیا۔
وہ یوں اچھلا جیسے گولی لگ گئی ہو۔ میں اس کی حالت خوب سمجھ رہا تھا اور مزے لے رہا تھا۔ اس کے دانت کٹ کٹ بول رہے تھے، ہاتھ چلچلارہے تھے۔ بس نہیں تھا کہ میری بوٹیاں اڑا دے۔ عین مین اس آدمی کی سی حالت تھی جسے ملک الموت دکھائی دے گیا ہو۔ بالکل حواس باختہ تھا۔ اگر وہ وہیں زمین پر بیٹھ کر بھوں بھوں رونا شروع کردیتا تو مجھ کو تعجب نہ ہوتا۔ اگر ایک دم جھپٹ پڑتا اور مجھ کو دیوار سے لگاکر میرا گلا گھونٹنے لگتا تو بھی مجھے تعجب نہ ہوتا۔ اسی لیے جب وہ ٹھہر کر میری طرف مڑا تو میں نے رک کر اپناداہنا ہاتھ پتلون کی جیب میں ڈال دیا۔ چال کامیاب رہی۔ وہ ٹھٹک کر رہ گیا۔ اس نے رومال نکالا اور زور زور سے ناک صاف کرنے لگا۔ اب مجھ کو اس سے آگے بڑھ جانا پڑا۔ لیکن مجھے بالکل پسند نہیں تھا کہ وہ میرے پیچھے رہے، اس لیے کچھ آگے بڑھ کے میں نے پھر رک کر سگریٹ اور ماچس نکالی۔ اب وہ پھر میرے آگے آگے چلنے پر مجبور ہوگیا۔
گلی ختم ہوئی اور ہم ایک چلتی ہوئی روشن سڑک پر نکلے۔ اس نے بھیڑ میں مل جانے کی کوشش کی، لیکن وہ خود سمجھتا تھا کہ اس سے کچھ حاصل نہیں۔ اب، جیسے اچانک کوئی نئی بات ذہن میں آگئی ہو۔ اس نے سڑک کے کنارے جاکر ٹیکسی کو آواز دی۔ خوش قسمتی سے پہلی ٹیکسی بھری ہوئی نکلی اور اس سے مجھے موقع مل گیا کہ کچھ پرے جاکر اس طرح کھڑا ہوجاؤں کہ اس کی نظر مجھ پر نہ پڑے۔ اور وہ بھی فرار کے منصوبے میں کچھ ایسا محو تھا کہ یا تو مجھ کو بھول ہی گیا تھا یا میری طرف دھیان نہیں دے سکا تھا۔ وہ ایک ٹیکسی میں بیٹھ گیا اور ٹیکسی چل دی۔ جیسے وہ میرے سامنے سے گزرنے لگی میں نے ہاتھ اٹھا دیا۔ ٹیکسی رک گئی۔ ڈرائیور نے پوچھا، ’’کہاں جائیے گا؟‘‘
’’میں نے رواداری میں پوچھا، ’’یہ بھائی صاحب کہاں جارہے ہیں؟‘‘
اور وہ احمق ڈرائیور! اگر اس کی سواری پیچھے سے اس کے ایک دھپ رسید کرتی تو میں اسے برحق گردانتا۔ ڈرائیور نے مجھے بتا دیا۔ بتا دیا کہ وہ دکھیا کہاں جارہا ہے، اور میں نے دروازہ کھولا اور بے پروائی کے ساتھ کہا، ’’اتفاق سے مجھے بھی اُدھر ہی جانا ہے۔‘‘
دروازہ بند کرتے ہوئے میں نے اس سے پوچھا، ’’اجازت ہو تو۔۔۔‘‘
وہ بولا، ’’کوئی بات نہیں۔‘‘
یہ ’کوئی بات نہیں‘ ہزار مغلظات سے بدتر بات تھی، اور اس کا لہجہ کیا تھا گویا بد زبانی، ناچاری اور غیظ و غضب کا ملغوبہ تھا۔
میں جان بوجھ کے ذرا ترچھا ہو کر بیٹھا تھا، اس طرح کہ میری پیٹھ دروازے کی طرف اور آدھا چہرہ اس کے سامنے تھا۔ ڈرائیور بولے جا رہا تھا لیکن ہم دونوں میں سے کوئی بھی نہ سن رہا تھا، نہ جواب دے رہا تھا۔ میں خوب سمجھ رہا تھا کہ میرے ہمراہی کو کسی مخصوص جگہ جانا نہیں ہے، جیسے مجھے نہیں جانا تھا، لیکن آخر تھک ہار کر اس نے ٹیکسی رکوا لی۔ جب تک وہ ڈرائیور سے بقیہ پیسے واپس لے، میں اطمینان سے بیٹھا رہا۔ اور اب وہ اپنے آپ کو مجھ سے چھٹکارا ملنے کا یقین دلا رہا تھا۔ اور مجھے بھی اس کا یہ خیال کرنا برا نہیں لگا۔ ٹیکسی کا دروازہ کھولتے ہوئے اس نے شاید بلا ٹلنے کے شکرانے میں، یا شاید رشوت کے طور پر، مجھے خدا حافظ کہا اور بولا، ’’بہت مہربانی، شکریہ۔‘‘
میں نے بھی کہا، ’’اچھا بھائی صاحب، خدا حافظ۔‘‘
پھر میں نے جلدی سے ڈرائیور سے کہا، ’’مجھ کو ذرا آگے بڑھ کر اترنا تھا، مگر خیر، تمہاری چھٹی۔ میں یہیں اتر جاتا ہوں۔ یہ لو۔‘‘
وہ ایک پاؤں زمین پر رکھ چکا تھا اور دوسرا رکھنے کو تھا کہ اس نے میری بات سن لی۔ مجھے محسوس ہوا کہ وہ دم بھر کو سناٹے میں آ گیا۔ اس کا ہاتھ ہینڈل پر دھرا اور پاؤں اٹھا کا اٹھارہ گیا۔ پھر اس نے خود کو سنبھالا۔ ٹیکسی کا دروازہ دھڑاک سے بند کیا اور تیزی سے چل دیا۔ اسے امید تھی کہ میں بھی بقیہ کے چکر میں کچھ دیر پھنسا رہوں گا۔ مگر میں نے کھلے پیسے دیے تھے، اس لیے مجھ کو رکنے کی ضرورت نہیں تھی۔
میں اترا اور اس کے پیچھے چل پڑا۔
راستے میں پہلی گلی پڑتے ہی وہ اس میں مڑ گیا، اور اتفاق کی بات کی اس نے بری جگہ نہیں چنی تھی۔ گلی تاریک تھی اور اس میں درخت بھی تھے۔ وہاں کے بلبوں میں سے ایک تو ٹوٹا ہی ہوا تھا، اور جو جل رہے تھے ان کی بھی روشنی درختوں کے گھن میں کھوسی گئی تھی۔ وہ درختوں کے درمیان تیزی کے ساتھ ادھر ادھر لہراتا ہوا چلا جا رہا تھا تاکہ میں اسے دیکھ نہ سکوں اور اس کا سراغ گم کر دوں۔ اور واقعی قریب تھا کہ وہ میری نگاہوں سے اوجھل ہو جائے، اور اسی لیے میں نے احتیاط کا دامن چھوڑا اور آگے بڑھ آیا۔ کئی بار وہ درختوں میں سے نکلتا نظر آیا، اور اب اس کا کہیں پتہ نہ تھا۔
درختوں کے سامنے ایک تاریک بند گلی تھی۔ اس کے خاتمے پر ایک لیمپ زمین پر روشنی کافقط ایک دھبا ڈال رہا تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ درختوں ہی میں چھپا ہوا ہے یا اس گلی کے اندر کہیں ہے۔ میں نے احتیاط سے درختوں کے ارد گرد دیکھا۔ نہیں تھا۔ یقیناً گلی کے اندر تھا۔ میں گلی میں بڑھتا چلا گیا، لیکن سچی بات ہے مجھ پر کچھ کچھ خوف طاری ہو گیا تھا۔ میں نے اس کا سراغ کھو دیا تھا اور یہی بات مجھے ڈرا رہی تھی۔ میں نے رک کر گلی کے اُس سرے پر نظریں گاڑ دیں۔ مجھے پتہ تھا وہ وہیں کہیں ہے، لیکن میں جاننا چاہتا تھا کس جگہ پر۔
اچانک زمین پر کسی چیز کے گرنے کی آواز آئی۔ گلی کے اس سرے پر لیمپ کے روشن دھبے کے نیچے میں نے دیکھا کہ گڑیا کا ڈبا زمین پر پڑا ہوا ہے۔ اور وہ بے چارہ! یقیناً بھاگنے کی ہڑبڑاہٹ میں وہ نالے کے اندر جا پڑا تھا، یا اس کا پیر کسی چیز میں الجھ گیا تھا اور وہ بھی وہیں کہیں زمین پر ڈھیر تھا۔ یقین کیجیے، اب مجھے اس کے حال پر افسوس اور اپنے کیے پر پچھتاوا ہونے لگا۔ میں اس کی طرف لپکا۔ چاہتا تھا تھا اس سے معافی مانگوں اور اس کی کچھ مدد کروں۔ احتیاط چھوڑ چھاڑ میں روشنی کے اس دھبے کی طرف دوڑا۔ میری نظریں گڑیا کے ڈبے پر جمی ہوئی تھیں۔
اور وہ اسی گھات میں تھا۔ ابھی میں گلی کے سرے تک پہنچا بھی نہ تھا کہ وہ مجھ پر ٹوٹ پڑا، پیچھے سے۔ پتہ چلا دمدار آدمی ہے اور خاصا منجھا ہوا۔ پہلے تو اس نے بائیں ہاتھ سے میرا منہ دبا لیا، پھر دوسرے ہاتھ سے میرا داہنا ہاتھ جکڑ لیا۔ بھولا بیچارہ! میری وہ بھبکی اسے اب تک بھولی نہ تھی۔ اور اس نے میرے ہی ہاتھ سے میرے پیٹ کو کوٹ کر رکھ دیا۔ میری سانس رک رک گئی اور میں تکلیف سے دوہرا ہو گیا۔ اس نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا۔ شاید سمجھ گیا تھا کہ اب میں اس کا کچھ نہیں کر سکتا۔ اور میری پیٹھ پر چار پانچ گھونسے جما دیے۔ وہ میری ہڈی پسلی ایک کیے دے رہا تھا۔ میں بھی خوب سمجھ رہا تھا کہ اتنی دیر سے جمع ہوتا ہوا بخار ہے، جس نے اس کے گھونسوں میں یہ زور بھر دیا ہے۔
آخر اس نے میرے منہ پر سے ہاتھ ہٹا لیا اور ایک کراری لات رسید کر کے مجھے کیچڑ میں رگید دیا۔ میں منہ کے بھل کیچڑ میں جا رہا اور میرا ہاتھ کسی چیز پر پڑا۔ گڑیا کا ڈبا تھا۔ میں نے ایک لوٹ لگائی اور اٹھ کر بیٹھ گیا۔ ایک ہاتھ سے اپنے چہرے پر کی خون آلود کیچڑ پونچھی، دوسرے ہاتھ سے گڑیا کو مڑے تڑے ڈبے میں سے نکال کر اپنے قبضے میں کیا۔
اس کے بھاگتے قدموں کی دور ہوتی ہوئی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی اور میرے حواس واپس آئے۔ اب جا کر میری سمجھ میں آیا کہ اس نے مجھ پر کیا ستم توڑا ہے اور یہ بھی کہ میں نے اس پر کیا ستم توڑے تھے۔ میں نے گڑیا کو بغل میں دبایا اور قہقہے مار مار کر ہنسنے لگا۔ دل کھول کر ہنسا، اتنا ہنسا، اتنا ہنسا کہ آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ معلوم نہیں کتنی دیر، آدھے گھنٹے، ایک گھنٹے تک، یہی ہوتا رہا کہ میرے قہقہے تھمتے مگر پھر اس کا خیال، اپنا خیال گڑیا کا خیال آ جاتا اور مجھ پر پھر ہنسی کا دورہ پڑ جاتا، سب سے زیادہ اس گڑیا کے خیال سے۔
وہ اب تک میرے پاس ہے۔ میں نے اسے یادگار کے طور پر رکھ چھوڑا ہے۔ پیاری سی گڑیا ہے۔
(فارسی عنوان، ’’کنہ‘‘)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.