Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

چٹانوں کے بیچ دوپہر

ولاس سارنگ

چٹانوں کے بیچ دوپہر

ولاس سارنگ

MORE BYولاس سارنگ

    کنگزسرکل کے آس پاس کی عمارتوں میں پھیری لگاتے ہوئے دوبج گئے تب بجرنگ نے اپنا بیگ، جس میں سمپلزرکھے تھے، بندکیااور بس سے دادرجاکر رنجیت کودے دیا۔ بجرنگ کا دوست رنجیت دادرمیں اخباروں اوررسالوں کاایک اسٹال چلاتاتھا۔

    ’’کیوں رے، کیاآج پھیری جلدلگالی؟‘‘ رنجیت نے پوچھا۔

    ’’ہاں۔۔۔ ذرا کام ہے ایک جگہ۔‘‘

    ’’دھنداکیسا چل رہا ہے؟‘‘ رنجیت نے پوچھا۔

    ’’کچھ ٹھیک نہیں۔‘‘ بجرنگ بولا،‘‘ آج کل بہت سے لوگ پھیری لگاکر یہ دھنداکرنے لگے ہیں، اس لیے جیساہوناچاہئے ویسانہیں ہوتادھندا۔‘‘

    اس نے رنجیت سے کہا کہ شام کوآکروہ بیگ لے جائے گا۔

    بجرنگ نے پھربس لی۔ باندرہ پہنچتے پہنچتے دوپینتیس ہوگئے۔ شالنی اوربجرنگ نے ڈھائی بجے نیوٹاکیز کے پاس ملاقات کاطے کیاتھا۔ بس سے اترکرپیدل چلنے پراس کے جی میں آیاکہ دادرمیں پیشاب کرلیتاتواچھاہوتا۔ آج ساری دوپہرشالنی کے ساتھ سمندر کنارے چٹانوں کے بیچ گذارنی تھی۔

    پیشاب کرلیناہی بہترہوگا! اب یہاں کہاں جاؤں؟ اسٹیشن پرجاسکتاہوں، مگر ادھرجاکر واپس آنے میں اوربھی وقت ضائع ہوگا۔ پہلے ہی دیرہوچکی ہے۔۔۔ پیشاب کرہی لیناچاہئے۔۔۔ یہ سوچ کربجرنگ اسٹیشن پرگیا پھرلوٹ کر نیوٹاکیز پہنچا۔ شالنی انتظارکررہی تھی۔

    ’’کتنی دیرکردی۔۔۔‘‘ شالنی تنک کربولی، ’’کھڑے کھڑے بورہوگئی۔ آنے جانے والے گھورتے رہتے ہیں۔‘‘

    ’’بس جلدی نہیں ملی۔‘‘ بجرنگ بولا۔ قریب ہی ایک ٹیکسی کھڑی تھی۔ بجرنگ نے ٹیکسی کا دروازہ کھولا۔۔۔

    بینڈاسٹینڈپراترکر دونوں وہاں کے اکلوتے ریستوراں میں داخل ہوئے۔ ریستوراں میں کوئی نہ تھا۔ ایک بیراپاؤں اڑائے کھڑا تھا اورکاؤنٹرپر بیٹھے شخص سے خو شگوارگپیاں کررہا تھا۔

    ’’پچھلی دفعہ کی طرح کچھ نہ ہواتو سمجھومزاآجائے گا۔‘‘ شالنی نے کہا۔

    ’’چھی۔۔۔ روزروز کون یہاں جان دینے آئے گا۔‘‘ بجرنگ بولا۔

    پچھلے ہفتے جب دونوں یہاں آئے تھے توریستوراں کی پرلی جانب چٹانوں پربہت سے لوگ کھڑے تھے۔ پھرپتہ چلاکہ سمندرمیں چھلانگ لگاکر خودکشی کرنے والی کسی عورت کی لاش چٹان کے کنارے آگئی تھی۔ ایسی حالت میں چٹانوں پر کیسے جاتے! دونوں کوواپس لوٹنا پڑا تھا!

    ’’توہفتے میں ایک سے زیادہ مرتبہ نہیں آسکتی نا؟‘‘ بجرنگ نے کہا۔

    ’’چھی۔۔۔ ہفتے میں ایک دفعہ بہت ہوگیا۔ یہاں آنا یعنی نوکری پر آدھے دن کاناغہ۔۔۔ پیسے کٹتے ہیں۔ گھر میں پتہ چلتاہے پھر والدغصہ ہوتے ہیں کہ کیوں اتنے ناغے کرتی ہو!‘‘

    ’’ان کوبس اتنی ہی فکررہتی ہی کہ توگھر کتناپیسہ لاتی ہے۔‘‘

    ’’مگرتجھ سے بھی تونہیں ہوگا ہمیشہ ہمیشہ کایہاں آنا۔ تیرے دھندے پراثر نہیں پڑے گا کیا؟‘‘

    ’’میراکیاہے۔ میں توروزانہ یہاں آنے کے لیے تیارہوں۔ دھندے پر اثرپڑا توپڑا۔‘‘

    ’’واہ! ایسا کیوں؟ تجھے پیسے نہیں بچانے ہیں۔ شادی ہونے تک دونو ں کے پاس خوب پیسے جمع ہوجانے چاہئیں! نہیں توشادی اور آگے دھکیلنی پڑے گی—چھی۔۔‘‘

    ’’سوس چاہئے۔۔۔؟‘‘ سوس کی بوتل شالنی کے سینڈوچ پرترچھی پکڑے بجرنگ نے پوچھا۔ شالنی نے سراثبات میں ہلایا تو اس نے بوتل اوربھی ترچھی کرکے سوس انڈیلا۔

    ’’اچھا چل رہاہے دھندا آج کل؟‘‘ شالنی نے پوچھا۔

    ’’ٹھیک ہے۔‘‘

    ’’کب تک کرے گا تویہ ڈورٹوڈور سیلزمین شپ!‘‘

    ’’دیکھوں گا۔ کم ازکم سال ڈیڑھ سال توکھینچناہی پڑے گا۔ کسی اچھی کمپنی میں سیلزمین کی نوکری کبھی توملے گی!‘‘

    چائے پیتے ہوئے بجرنگ نے غورکیاکہ شالنی نے چکن سینڈوچ کے ٹکڑوں کے بیچ کاحصہ کھاکر کنارے ویسے ہی ساسرمیں چھوڑدیے ہیں۔

    ساسریاتھالی صاف نہ کرنا بجرنگ کوناقابل برداشت اورتعجب خیز لگتا۔ شالنی کے ایسے رئیسانہ چونچلے بجرنگ کوپسند نہ تھے۔ یہ لڑکی دنیا داری بھی کیاایسے ہی کرے گی؟

    دس کی نوٹ دے کر بل چکایا اور بچے ہوئے پیسے جیب میں ڈال کر دل ہی دل میں بجرنگ نے حساب لگایا۔ لوٹ کرجانے کے لیے ٹیکسی اورپھرآگے بس کے لیے اتنے پیسے کافی ہوں گے۔ یہاں جب وہ آتا، اس کی جیب میں اتنے پیسے ہوتے کہ وہ ٹیکسی اور بس کے لیے نہ کم ہوتے نہ زیادہ۔ بجرنگ سوچتاکہ خدا کرے جیب میں اتنے پیسے ہوں کہ یہا ں آناجاناہوسکے۔ یہاں آنے جانے کے لیے پیسے نہ ہو ں تو یہ بڑی بات ہوگی۔ مگرشالنی کے ساتھ اس کے اچھے خاصے پیسے خرچ ہوتے۔ آنے جانے کے لیے ٹیکسی، ریستوراں میں چائے ناشتہ!

    باہرنکل کر۔۔۔ دونوں چٹانوں کی طرف جانے لگے —دوپہر کی کڑی دھوپ تھی مگرسمندر کا کنارہ ہونے کی وجہ سے ہوا میں نمی تھی اور دھوپ کی شدت کا احساس کم ہوگیاتھا۔ داہنی طرف دیوار کے نیچے کی جانب چٹانوں پر دھوبی کپڑے دھورہے تھے۔ سمندر کا پانی دھوپ میں چمک رہا تھا۔

    راستہ ختم ہوگیا۔ پگڈنڈی شروع ہوئی۔ داہنی طرف کی چٹانوں پرکسی بلڈر نے ادھورے نشانات لگائے تھے۔

    ’’کہتے ہیں۔۔۔ یہاں پربہت بڑافائیواسٹار ہوٹل تعمیرہوگا۔‘‘ شالنی نے کہا۔

    ’’ہوں۔۔۔‘‘

    ’’یہاں بڑ ا ہوٹل بناتوپھردوپہر میں آنے کی سہولت نہیں رہے گی۔‘‘

    ’’کیوں فکرکرتی ہو۔ ہوٹل بنتے بنتے تین چارسال لگیں گے۔‘‘

    ’’ہاں اور اس وقت تک ہماری شادی ہوچکی ہوگی۔ اورہوسکتاہے ہمیں ایک آدھ بچہ بھی ہوجائے۔۔۔ لڑکایالڑکی۔‘‘

    ’’ہوں۔۔۔‘‘

    ’’لیکن چارپانچ سال کے بعداپنے جیسے جوڑے کہاں جائیں گے۔‘‘

    ’’ان کی فکرتجھے کیوں؟‘‘

    ’’ہم بچے کولے کرایک دن یہاں گھومنے آئیں گے، اسے بھی یہ جگہ دکھاکرکہیں گے کہ دیکھ بابیا! ہم یہاں آتے تھے! اسے کچھ سمجھے گا نہیں پھربھی وہ منہ کھول کرہنسے گا۔۔۔ کیوں؟‘‘

    بائیں طرف چھوٹی سی ٹیکری تھی۔ سنسان، سرسبز ٹیکری کی طرف ایک پگڈنڈی چلی گئی تھی۔ پگڈنڈی کے آخرمیں بُرج کی طرح بنا ہوا بہرام جی پوائنٹ تھا۔ داہنی طرف چٹانیں ہی چٹانیں تھیں۔ پگڈنڈی چھوڑکرچٹانوں پر آجانے کے بعد بجرنگ نے شالنی کا ہاتھ پکڑا۔ نیچے دیکھ کر، سنبھل سنبھل کردونوں قدم اٹھانے لگے۔ بیچ بیچ میں بجرنگ سراٹھاکر آس پاس بیٹھنے لائق کوئی مناسب جگہ ڈھونڈنے لگا۔ چٹانوں پر اس وقت دوسرا کوئی جوڑا دکھائی نہ دیتاتھا۔ تھوڑی تلاش کے بعدبجرنگ کوایک بیٹھنے لائق اچھی سی جگہ دکھائی دی۔ نیچے سپاٹ آڑی سی چٹان تھی اور اس سے متصل ایک دوسری چٹان جوسپاٹ کھڑی تھی۔ پگڈنڈنی کی طرف پیٹھ اورسمندر کی طرف منہ کیے ایک صوفے کی طرح لگی تھیں وہ چٹانیں۔

    بجرنگ نے جیب سے رومال نکال کرریت جھاڑی۔ نیچے بیٹھا۔ پھراپنے ننھے رومال سے چٹان پربڑی نزاکت سے دھول جھٹکتے شالنی بھی اس کے قریب بیٹھ گئی۔ اس نے پرس ایک طرف رکھ دیا۔ بجرنگ نے اس کے کندھوں کے گردہاتھ ڈالا۔ ان کی بغل میں کچھ فاصلے پر تین چاراستعمال شدہ نرودھ پڑے تھے۔

    ’’چٹان گرم ہے۔۔۔ ہے نا!‘‘ شالنی بولی۔ آگے جھک کر اس نے پیٹھ پر پلوٹھیک کیا،‘‘ پھربھی بہت سی چٹانیں اوبڑکھابڑ نہیں۔۔۔ دوہفتے پہلے ہم لوگ یہاں آکر بیٹھے تھے توچٹان کافی نوکدار اوراوبڑکھابڑ تھی۔ میری پیٹھ پربہت سی دھاریاں ابھرآئی تھیں! گھرجانے پربھی وہ دھاریاں نہیں مٹی تھیں۔ گھرپرماں نے پوچھا، تیری پیٹھ پر یہ دھاریاں کیسی پڑگئیں؟‘‘

    ’’تو۔۔۔‘‘

    ’’توکیا۔۔۔ کچھ نہ کچھ بہانہ توکرناپڑا۔‘‘

    ’’پچھلے ہفتے اس عورت کی لاش کہاں لگی تھی۔ کیاپتہ۔۔۔‘‘ بجرنگ بولا۔

    ’’چھی۔۔۔ کیوں اس کی یاددلاتے ہو؟‘‘

    ’’ویسے سمندرکی لہروں نے اس جگہ کودھوڈالا ہوگا۔‘‘

    ’’اب چپ بھی کرو۔‘‘

    کچھ دیردونوں چپ رہے۔ دونوں قریب قریب سمندر کی سطح کے برابربیٹھے تھے جس کی وجہ سے پورا سمندرنظرنہیں آرہاتھا۔ آگے پھیلی ہوئی چٹان اور اوپرآسمان۔ ان کے درمیان آڑی پٹی کی طرح نظر آنے والے پانی پرچلچلاتی ہوئی دوپہر۔ سامنے جہاں چٹان ختم ہوتی تھی، وہاں سمندر کی لہریں شورمچار ہی تھیں۔ دورداہنی طرف دھوبیوں کے کپڑے دھونے کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ بجرنگ کے بال ہوا میں اڑرہے تھے۔

    بجرنگ نے اپنی کلائی گھڑی نکالی اورشالنی کا پرس کھول کر اس میں ڈال دی۔ چٹان پرکچھ کرتے کراتے کھرونچیں نہیں پڑنی چاہئے۔ پھر اس نے دوبارہ شالنی کے کندھے کے پیچھے ہاتھ ڈالا اوراسے قریب کھینچا۔ کچھ دیرتک توبوس وکنارچلتا رہا۔ آنکھیں بند کرلینے پر بھی دھوپ سے منورفضا آنکھوں میں روشنی بھرتی رہتی۔ بندآنکھوں میں کھبتااجالا، جسم میں چبھتی دھوپ کی تمازت! اوربیچ میں آنے والے ہوا کے سردجھونکوں سے وہ دنیاومافیہا سے بے گانہ ہوگئے۔ آنکھیں بند کیے ہوئے بجرنگ نے شالنی کی پیٹھ پرمڑھے بلاؤز کے ہک کھولے۔ پھرمنہ ذرا دورکرکے بولا، ’’توایک مرتبہ بنابریسئرکے آنا۔‘‘

    جسم چراکرشالنی ہنسی۔

    ’’کہو توبس ہنستی ہے۔‘‘

    ’’اگلی دفعہ آؤں گی۔‘‘

    ’’ہردفعہ کہتی ہے۔ اگلی دفعہ۔‘‘

    زورسے ہنس کرشالنی بولی، ’’ارے آدھادن نوکری پرجاکرآتی ہوں۔ کام پریوں بنابریسئرپہنے جاؤں گی توبھلاٹھیک لگے گا۔ سارا وقت پلولپیٹ کررکھناپڑے گا۔

    بجرنگ چٹان پر تھوڑانیچے کی طرف سرکا۔ اس نے شالنی کا پلوہٹایا۔ اپنی پیشانی شالنی کے سرکے نیچے لگالی اور سراٹھاکر وہ دورافق کی طرف دیکھنے لگی۔ جس طرح بچھڑے کودودھ پلانے والی گائے اطمینان سے کھڑی ہوکر سامنے دیکھتی رہتی ہے، بالکل اسی طرح شالنی خاموش دوردیکھتی رہی۔ پھراس نے سربائیں طرف گھمایا۔ کچھ لمحے تووہ دیکھتی رہی پھر ایک دم اس نے بجرنگ کوپرے دھکیل دیا۔

    بجرنگ نے سراٹھاکر اس کی طرف دیکھا۔

    ’’وہ دیکھ۔۔۔ وہاں کوئی کھڑا ہے۔‘‘ شالنی بولی۔

    شالنی کے کندھوں سے پرے بجرنگ نے دیکھا۔۔۔ کچھ فاصلے پر جہاں چٹانیں ختم ہوتی تھیں اورچڑھائی شروع، وہاں کالاچشمہ آنکھوں پر لگائے ایک شخص کھڑا تھا۔ نیلا شرٹ پہنے۔ وہ بیس پچیس سالہ نوجوان بہرام جی پوائنٹ کی دیوار سے ٹیک لگائے کھڑاان دونوں کی طرف دیکھ رہاتھا۔

    ایک گالی دے کربجرنگ نے سرگھمایا۔ اوپرسرک کروہ چٹان سے پیٹھ ٹکاکرٹھیک سے بیٹھ گیا۔

    ’’کیا مصیبت ہے۔۔۔‘‘ ہاتھ کے پنجوں سے ناک کی نوک پرآیاپسینہ پونچھ کروہ بولا۔

    ’’نہیں توکیا۔۔۔‘‘ کپڑے ٹھیک کرتی شالنی بولی۔

    کچھ لمحے دونوں خاموش رہے۔

    ’’اس کی طرف مڑکردیکھ۔۔۔‘‘ بجرنگ شالنی سے بولا۔

    دونوں کن انکھیوں سے اس کی طرف دیکھتے رہے۔ نیلے شرٹ والاوہیں کھڑا تھا۔

    بجرنگ بولا، ’’ہم یوں بیٹھے رہیں توبورہوکرچلا جائے گاتھوڑی دیرمیں۔‘‘

    کچھ دیربعد شالنی بولی، ’’ابھی تک وہیں ہے وہ۔ ایسے لوگ بڑے ڈھیٹ ہوتے ہیں۔‘‘

    ’’دوپہرمیں یہاں آنے میں یہی پریشانی ہے۔‘‘ بجرنگ بولا، ’’شام کو اندھیراچھاجانے پریہاں ٹھیک رہتاہے۔ خوب جوڑے آتے ہیں یہاں اس وقت۔‘‘

    شالنی کچھ نہیں بولی۔ وہ پھربولا، ’’لیکن توشام کویہاں نہیں آسکتی نا؟‘‘

    ’’نہیں بھلاشام کوکیسے آؤں گی۔ یہاں آؤں گی تو ملاڈگھرپہنچنے میں کتنی دیرہوجائے گی۔ والدکو میرادیر سے گھرپہنچنااچھا نہیں لگے گا۔‘‘

    ’’مصیبت ہے۔‘‘

    پھر کچھ دیردونوں خاموش رہے۔ خاموشی توڑنے کے خیال سے شالنی بولی، ’’آج کس علاقے میں کام کیا؟‘‘

    ’’کنگزسرکل میں۔‘‘

    ’’یعنی ساؤتھ انڈینس کے علاقے میں۔‘‘

    ’’ہاں!‘‘

    ’’مجھے بتا۔۔۔ کنگزسرکل کوکنگز سرکل کیوں کہتے ہیں۔ کون سا کنگ؟‘‘

    ’’ہوگا کوئی برٹش راجہ۔‘‘

    ’’پربرٹش نام تواب بدل دیے گئے ہیں۔‘‘

    ’’بھول گئے ہوں گے یہ نا م بدلنے کو!‘‘

    ’’کنگزسرکل۔۔۔ کون سابرٹش راجہ۔۔۔ کئی راجہ گزرے۔‘‘

    ’’مجھے کیامعلوم۔۔۔ اتنی پوچھ تاچھ کون کرتاہے۔‘‘

    ’’کنگزسرکل۔۔۔ یعنی راجہ کا دائرہ۔۔۔ تعجب ہے راجہ گزرگیا اوردائرہ پیچھے چھوڑگیا۔‘‘

    بجرنگ نے سرگھماکر نیلے شرٹ والے کی طرف دیکھا۔ کچھ دیروہ دیکھتا رہا پھردوبارہ بولا، ’’مجھے نہیں لگتا کہ وہ ہماری طرف دیکھ رہا ہے۔ وہ ادھرسمندر کی طرف دیکھ رہاہے۔‘‘

    ’’چھی۔۔۔ سمندرکی طرف کیوں دیکھنے لگاوہ۔‘‘

    ’’کھاڑی کے مچھیروں کی کشتیاں سمندر میں جاتی ہیں مچھلیاں پکڑنے۔ اس کی کوئی کشتی آنے والی ہوگی۔‘‘

    ’’مجھے ایسا نہیں لگتا۔۔۔ اپنی ہی طرف دیکھتے ہوئے کھڑا ہے، یوں ہی ڈھونگ کررہا ہوگا سمندرکی طرف دیکھنے کا۔ چالاک ہوتے ہیں ایسے لوگ۔‘‘

    کچھ نہ کہتے ہوئے بجرنگ نے شالنی کے سرکے پیچھے ہاتھ ڈالا اور اس کے بازوسے کھیلنے لگا۔ تب شالنی کہا، ’’تواب کسی اچھی کمپنی میں نوکری کرلے۔ پھرہم جلد ہی شادی کے بارے میں سوچ سکیں گے۔‘‘

    ’’لگنی توچاہئے نوکری۔۔۔‘‘ بجرنگ بولا۔

    ’’کب تک ہم یہاں چٹانوں پر آتے رہیں گے۔۔۔ تپتی دوپہرمیں۔۔۔ کیسا لگتا ہے شہرچھوڑکریہاں کھلی چٹانوں پر۔۔۔‘‘

    ’’ایساکیا براہے یہاں۔۔۔ مجھے توچٹانوں پراچھا لگتاہے۔ سامنے سمندر کی کھلی ہوا۔‘‘

    ’’مجھے تولگتا ہے ہم چٹانوں پرشایدپوری زندگی بسر کردیں گے۔‘‘

    بجرنگ کچھ نہ بولا۔ سامنے دیکھتارہا۔ داہنی طرف کافی دورایک جوڑابیٹھا تھا۔ ان کے سرچٹان کے اوپر نظرآرہے تھے۔

    پھرایک مرتبہ سرگھماکر بجرنگ نے نیلے شرٹ والے کی طرف دیکھا۔ پہلوبدل کروہ اب تک وہیں کھڑا تھا۔ کچھ لمحے بجرنگ اس کی طرف دیکھتا رہا۔

    ’’وہ سمندر کی طرف دیکھ رہاہے۔ کشتی کا انتظار کررہاہے۔‘‘

    ’’کسی طرح اپنے دل کوسمجھارہا ہے تو۔‘‘

    ’’پراپنی طرف دیکھتا ہوتا تووہ ایسے کھلے میں کیوں کھڑاہوتا۔ کہیں چھپ کردیکھتابیٹھاہوتا۔‘‘

    ’’بے شرم ہوتے ہیں ایسے لوگ۔‘‘

    ’’مجھے لگتا ہے وہ کسی اسمگلنگ والی کشتی کا انتظار کررہا ہوگا۔ اس طرف سے کشتیاں مال لے کر آتی ہیں۔ کہتے ہیں کھاڑی میں جاتی ہیں کشتیاں۔‘‘

    ’’تواور بھی اپنادماغ مت چلا۔۔۔ بجو۔‘‘

    کچھ لمحوں تک نیلے شرٹ والے کی طرف دیکھ کربجرنگ بولا، ’’کچھ پتہ نہیں چلتا۔۔۔ کبھی لگتاہے وہ اپنی طرف دیکھ رہا ہے، کبھی لگتا ہے وہ دورسمندر کی طرف دیکھ رہاہے۔‘‘

    ’’میں نے کہانا۔۔۔ سمجھووہ کشتی کا انتظاربھی کررہا ہے توبھی وہ اپنی طرف درمیان میں دیکھے گاکہ نہیں؟‘‘

    ’’یہ ایک پریشانی ہے۔۔۔ کوئی اپنی طرف دیکھ رہاہے، یہ پتہ چلتے ہی ہم اس حالت سے ایڈجسٹ ہوجاتے ہیں۔۔۔ پھرجب یہ طے نہیں ہوتاکہ کوئی اپنی طرف دیکھ رہاہے یانہیں؟ توبڑی عجیب حالت ہوجاتی ہے۔۔۔ یعنی ہم موجود ہیں یانہیں؟ ایسا لگتاہے۔‘‘

    ’’ایساکیوں؟ کوئی دیکھنے والا نہ ہوتب بھی موجودہوتے ہیں۔‘‘

    ’’اگرمحسوس کریں تو ہوتے ہیں۔‘‘

    تب ایک دم شالنی بولی، ’’بجو۔۔۔ مجھے پیشاب لگی ہے۔‘‘

    ’’چچ۔۔۔ یہاں کھلے میں کہاں جاؤگی۔ اس ریستوراں میں بھی ٹوائلٹ نہیں ہے۔‘‘

    شالنی کچھ نہیں بولی۔ بجرنگ نے کہا، ’’کام سے لوٹتے ہوئے پیشاب کرکے آنا چاہئے۔‘‘

    ’’ارے میں جلدی میں نکلی۔ صبح سے اپنے ملنے کا خیال ہی دل میں تھا۔ نکلتے نکلتے اتنی بے چینی ہوگئی۔۔۔ کہ دوسرا کچھ سوجھا نہیں۔ دیرہوگئی اس لیے جلدی جلدی آگئی۔‘‘

    ’’اب یہاں ممکن نہیں۔۔۔ جلدہی اٹھیں گے ہم۔‘‘

    کسی مجرمانہ احساس کے تحت شالنی چپ بیٹھی رہی۔

    بجرنگ نے دوبارہ سرگھماکر نیلے شرٹ والے کی طرف دیکھا۔

    تب شالنی بولی، ’’ایسے کیوں باربار، اس کی طرف دیکھتے ہو۔‘‘

    ’’اب تومجھے ایسا لگ رہا ہے کہ وہ دوسرا اورکوئی نہیں۔‘‘

    ’’یعنی۔۔۔‘‘

    ’’تجھے میں نے شایدبتایانہیں۔ یہاں جب میں تمہارے ساتھ ہوتاہوں، تمہیں بانہوں کے گھیرے میں لیے ہوئے۔۔۔ تب مجھے لگتا ہے کہ دوسرا ایک ’’میں‘‘ ارد گرد گھوم پھرکراس چٹان والے ’’میں‘‘ کی طرف دیکھ رہاہے یعنی سمجھ میں آیانا۔ یعنی وہ میں ہی ہوتا ہوں پردورکھڑا ہوکریہاں والے تیرے ساتھی’’میں‘‘ کی طرف دیکھ رہا ہوتاہوں۔‘‘

    ’’پھر اس کاکیا۔‘‘

    ’’پراب لگتا ہے کہ وہ دوسرا کوئی نہیں۔۔۔ وہ میں ہوں۔‘‘

    ’’کچھ بھی اوٹ پٹانگ بکتے ہو۔ وہ آدمی کوئی اور۔۔۔ کوئی اجنبی ہے یہ صاف نظرآتاہے۔‘‘

    بجرنگ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ نیلے شرٹ والے کی طرف دیکھ رہاتھا۔

    ’’پربجو۔۔۔ کیاایسا تجھے ہمیشہ لگتاہے؟‘‘

    ’’ہمیشہ نہیں۔ فقط تیرے ساتھ ہوتا ہوں تب۔ خاص طور پرتیرے بوسے لیتے ہوئے بڑی شدت سے ایسا محسوس ہوتاہے۔‘‘

    ’’اس کے علاوہ اورکبھی۔۔۔؟‘‘

    ’’نہیں۔۔۔ پہلے بچپن میں ایساہوتا تھا۔ والدصاحب نے میری طرف کبھی دھیان نہیں دیا مگرماں مجھے بہت پیارکرتی تھی۔ آٹھ دس سال کا ہونے تک مجھے سینے سے چمٹاکر پیارکرتی۔ وہ جب بھی سینے سے لگاتی، مجھے لگتامیں دورکھڑا ہوں اور اپنے آپ کودیکھ رہاہوں۔ بس۔‘‘

    ’’کمال ہے۔‘‘

    بجرنگ کا ہاتھ دوبارہ ادھرادھر حرکت کرنے لگا۔ تب اس کا ہاتھ پکڑکروہ بولی، ’’نہیں نا۔۔۔ وہ دیکھ رہاہے۔‘‘

    ہاتھ چھڑاکربجرنگ بولا، ’’ٹھیک ہے اسے اس طرف کادکھائی نہیں دیتا۔‘‘ پھردوچارمنٹ ٹھہرکربجرنگ بولا، ’’ایسے نیچے سرک کربیٹھ ذراتب اسے کچھ خاص نظرنہیں آئے گا۔‘‘

    کچھ دیربعدجب بجرنگ کی حرکتیں بڑھ گئیں اوران میں اصرارجھلکنے لگاتب اشارہ پاکرشالنی بولی، ’’نہیں بجو۔۔۔ وہ نہیں۔‘‘

    ’’اوہ۔۔ اس میں کیااتنا؟‘‘

    ’’نہیں نا۔۔۔ وہ دیکھ رہا ہے۔‘‘

    ’’جھٹ پٹ ختم کریں گے۔‘‘

    ’’بجو۔۔۔‘‘

    ’’اس طرف ادھرآ۔۔۔‘‘

    ’’چھی۔۔۔ کیااس کے دیکھتے ہوئے۔‘‘

    شالنی کے بازوکوزور سے کھینچ کربجرنگ بولا، ’’وہ میں ہی ہوں۔۔۔ ایسا سچ۔۔۔ میں نے کہا ناتجھے۔ وہ میں ہوں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے شالنی کوبڑی بے رحمی کے ساتھ اپنی طرف کھینچا۔ کچھ دیرشالنی ادھ لیٹی حالت میں چپ پڑی رہی، پھر بجرنگ کی آنکھوں میں دیکھ کربولی، ’’مجھے بھی تیری طرح کا احساس ہوتاہے کبھی کبھی۔‘‘

    ’’کیا۔۔۔؟‘‘ بجرنگ دوبارہ جھکا، ’’اس طرف ادھر آ۔۔۔‘‘

    اس نے پینٹ کی جیب سے نرودھ کا ایک پیکٹ نکالا۔ بنا کسی مزاحمت کے شالنی چپ لیٹی رہی۔ بجرنگ کا اس کے چہرے کی طرف دھیان نہیں تھا۔ شالنی نے ایک دم کہا، ’’چھی۔۔۔ کیااس چٹان پر۔۔۔ ایک دم تپتی دھوپ میں۔۔۔ کسی کے دیکھتے ہوئے۔‘‘ وہ رونے لگی۔

    بجرنگ اٹھ کربیٹھ گیا، کچھ نہ کہتے ہوئے، گھٹنے پردونوں ہاتھ رکھ کر، چٹان کوپیٹھ لگائے وہ بیٹھا رہا۔ شالنی آنکھیں پونچھنے لگی۔

    کچھ دیربعد ہاتھ آگے بڑھاکروہ بولی، ’’ناراض ہوگیاکیا؟‘‘

    بجرنگ خاموش رہا۔

    ’’آ۔۔۔ نا‘‘ شالنی نے کہا۔

    آگے جھک کراس نے بجرنگ کابازوپکڑکرکھینچا۔

    شالنی آنکھیں بندکیے اور سرترچھاکئے لیٹی رہی۔۔۔ اوپربجرنگ۔ بجرنگ اوپرنیچے ہونے لگا۔

    سراوپراٹھا ہواہونے کی وجہ سے نیلے شرٹ والا نظر نہیں آرہاتھا۔

    جسم اوپرنیچے ہونے سے اورپسینہ سے ترچہرے کی تمازت سے کالے چشمے والے کاچہرہ بجرنگ کودھندلا دھندلانظرآنے لگاتھا۔

    شالنی کی صحبت میں گھومنے والا دوسرا’’میں‘‘ آج واضح طورپرسامنے کھڑا تھا اوراردگرد گھومنے والا مگرنظر نہ آنے والا’’میں‘‘ آج خود کہیں غائب ہوگیاتھا۔ یہ اطمینان کی بات تھی۔

    لذت کی ایک لہربجرنگ کے دل میں امڈی۔ اس کے چہرے پرہلکی سی ہنسی ابھری۔ تلذذ کی ان گنت لہروں پرتیرتا ہوا وہ اوپرنیچے ہوتا رہا۔ بائیں طرف کچھ رونما ہونے کا احساس ہوا اوراس نے سرگھمایا۔ دورراستے کے خاتمے پر جہاں سے پگڈنڈی شروع ہوتی تھی، وہاں پولس کی ایک گاڑی کھڑی تھی۔ ابھی ابھی آئی تھی۔ پارک کی جارہی تھی۔ بجرنگ گاڑی کی طرف دیکھتارہا۔

    سامنے بھی کھٹ پٹ ہوئی۔ بجرنگ نے سامنے دیکھا۔ نیلے شرٹ والے نے شاید پولس کی گاڑی دیکھ لی تھی اور وہ فورا نیچے جھک گیاتھا۔ نیچے جھک کربیٹھا وہ کچھ دیرگاڑی کی طرف دیکھتارہا۔ پھرچندلمحوں کے بعد پولس گاڑی کی طرف دیکھا، پھرفورا اٹھ کرسامنے بجرنگ کی طر ف دوڑکرآنے لگا۔ پوری طرح کھڑے کھڑے نہیں، وہ دب کر، جھک کر، بھاگ رہاتھا۔ اسے اپنی طرف آتا ہوادیکھ کر بجرنگ نے اوپرنیچے ہونابند کیاتوشالنی نے آنکھیں کھول کرسرسیدھاکیا اورسوالیہ نظروں سے اوپرکی طرف دیکھا۔

    نیلے شرٹ والے کوقریب آیادیکھ کر بجرنگ فوراشالنی کے بغل میں آگیا اور پینٹ کی بٹنیں بندکرنے لگا۔ شالنی کوکچھ گڑبڑی کا احساس ہوااوروہ ادھ لیٹی ہوگئی۔ سرگھماکر اس نے اپنے پیچھے دیکھا۔ تب نیلے شرٹ والادوقدموں کے فاصلے پرآچکاتھا۔

    ’’ماں۔۔۔‘‘ شالنی چلائی۔

    ’’چپ۔ چلاؤمت۔‘‘ دونوں کے قریب دبک کربیٹھتے ہوئے نیلے شرٹ والے نے کہااورپینٹ کی جیب سے لمبی پتی والا چاقو نکال کراس نے کھٹ سے کھولا۔ جلدی جلدی کپڑے ٹھیک کرتی شالنی کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن اس کے منہ سے آوازنہیں نکل رہی تھی۔ بجرنگ پسینہ پسینہ ہوگیا۔

    ’’بالکل گڑبڑنہیں کرنا۔۔۔‘‘ نیلے شرٹ والے نے کہا، ’’اورڈرنانہیں۔ میں آپ کوکچھ نہیں کرنے والاہوں۔‘‘ بجرنگ کی طرف دیکھ کروہ بولا، ’’کھالی ایک کام کرناپڑے گا۔ تمہاری لونڈیا کومیرے ساتھ آناہوگا، سمجھ لواسے میرے ساتھ وہاں مین روڈتک آناہوگا۔ وہاں ہوٹل کے پا س میں اسے چھوڑدوں گاٹھیک!‘‘

    وہ تھوڑارکا، پھرشالنی کی طرف مڑکربولا، ’’تم میرے ساتھ چپ چاپ آنا۔ پولس والوں کے سامنے سے گزرتے ہوئے کچھ گڑبڑنہیں کرنا۔ نہیں تویہ ہے۔ ’’اس نے چاقوشالنی کی آنکھوں کے آگے لہرایا۔ دوبارہ بجرنگ کی طرف دیکھ کربولا، ’’اورتم یہیں بیٹھے رہنا۔ ہم جارہے ہیں۔ تم نے اگرچلایا تومیں اس لونڈیا کو راستے ہی میں چاقومارکربھاگ جاؤں گا۔‘‘ آگے بڑھ کربائیں ہاتھ سے شالنی کا بازوپکڑکروہ بولا، ’’چلو۔‘‘

    ’’ماں۔۔۔‘‘ شالنی چلائی۔ چلاکراس نے بازوچھوڑدیااور بجرنگ کی طرف سرک آئی۔

    ’’جلدی کرو۔‘‘ نیلے شرٹ والا بولا، ’’ٹائم نہیں ہے جھٹ نکلناہے۔‘‘ شالنی نے مڑکربجرنگ کی طرف دیکھا۔ بجرنگ کچھ نہیں بولا، ’’دیکھومیں نے کہا ہے۔ میں دھوکہ نہیں دینے والا ہوں۔ ایسی لونڈیا میں نے بہت دیکھی ہیں۔ مجھے یہاں سے نکل کرجانا ہے بس۔۔۔‘‘ دوبارہ آگے بڑھ کرنیلے شرٹ والے نے شالنی کا بازو پکڑا۔ اس دفعہ اس نے کوئی مزاحمت نہ کی۔ بازوپکڑکرنیلے شرٹ والے نے اسے اٹھایا۔ سسکتے ہوئے وہ اٹھی۔ نیلے شرٹ والے نے چاقوبندکرکے جیب میں رکھا اورہاتھ جیب میں ٹھونس لیا۔ بایاں ہاتھ شا لنی کے کاندھے پر ڈالے چلنے لگا۔ ڈگمگاتی لرزتی شالنی چلنے لگی۔ چارقدم چلنے کے بعد اس نے مڑکربجرنگ کی طرف دیکھا مگر نیلے شرٹ والے کے کھینچنے پر وہ دوبارہ چلنے لگی۔

    چٹان کے درمیان چلتے ہوئے وہ چڑھائی چڑھے اورپگڈنڈی پراترگئے۔

    دورپولس کی گہری نیلی گاڑی راستے سے کچھ دورکھڑی تھی اوردوپولس والے نیچے اترکرچٹان اورسمندر کی طرف دیکھ رہے تھے۔ نیلے شرٹ والے کے ساتھ شالنی چپ چاپ قدم اٹھاتی چلی جاری تھی۔ نیلے شرٹ والے نے اسے قریب کھینچ لیاتھا۔ اپنے آپ میں گم جوڑے کی طرح وہ دونوں چلے جارہے تھے۔ بجرنگ اونچی چٹان پربیٹھا دیکھ رہاتھا۔۔۔ ہوں۔۔۔ تویہ اسمگلنگ والا تھا۔

    اس نے سوچا۔۔۔ تووہ ہم دونوں کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اب وہ شالنی کولے جارہاہے۔۔۔ اورمیں ان دونوں کودیکھ رہاہوں۔ پروہ ’’میں‘‘ ہی توہوں۔

    گاڑی کے باہرآئے وہ دونوں پولس والے پگڈنڈی پراتررہے تھے۔ نیلے شرٹ والا اورشالنی دونوں پولس والوں کے پاس سے گزرے تب نیلے شرٹ والے نے شالنی کے چہرے کے قریب اپناچہرہ لگالیا۔ بجرنگ نے دیکھا کہ نیلے شرٹ والا اس سے کچھ باتیں بھی کررہاتھا۔ دایاں ہاتھ اسی طرح جیب میں ٹھونسے ہوئے شالنی کی طرف جھکنے کی وجہ سے اب اس کاچہرہ پولس والوں کے مخالف سمت میں تھا۔ پیارمیں مگن جوڑے کی طرح وہ دونوں چلے جارہے تھے۔

    دونوں پولیس والوں نے قریب سے گزرتے ہوئے جوڑے پرایک نظرڈالی اور پگڈنڈی سے آگے آنے لگے۔ ان کی داہنی طرف چٹا ن پردوجوڑے بیٹھے ہوئے تھے۔ ان جوڑوں کی طرف ایک نگاہ ڈال کرپولس والے چٹان کی اونچائیوں کی طرف آنے لگے۔ چوٹی کے قریب بیٹھے بجرنگ کی طرف دیکھتے ہوئے وہ قریب ترہونے لگے۔

    نیلے شرٹ والا وہ شخص اورشالنی اب پولس کی گاڑی کی پرلی طرف جاچکے تھے۔ مین روڈ پر پہنچ چکے تھے۔ بجرنگ کا منہ سوکھا رہاتھا مگرحلق میں چیکٹ تھوک جمع تھا۔ زورسے کھنکارکراس نے چٹان پرتھوکااورنزدیک آنے والے پولس والوں کی طرف گھٹنے پرسررکھے دیکھنے لگا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے