چیری کے پیڑ
پھاٹک پار کرتے ہی جس طرف سب سے پہلے ہمارا دھیان گیا وہ تھے آلوچوں سے ملتے جلتے پیڑوں پر لٹکے کسی پھل کے گچھے۔ مکان کے اندر گھومنے کے بجائے ہم اس طرف دوڑے۔ کئی پیڑ تھے جن پر وہ لٹک رہے تھے۔ لیکن اچک اچک کر توڑنے پر بھی کسی کے ہاتھ میں ایک دانہ نہیں آیا۔ میں سب سے لمبا تھا لیکن میرا ہاتھ بھی انہیں چھوتے چھوتے رہ جاتا۔ ہمارا شور سن کر بڑی بہن اندر سے آئیں۔
’’یہ توڑ دیجیے نا، نہ جانے کون سا پھل ہے! شاید آلوچے، آلوبخارے، خوبانی۔‘‘ ہم سب چلانے لگے۔ بہن دھیمی چال سے ہماری طرف آنے لگیں۔ ہمیں غصہ آیا کہ وہ ایسے موقع پر بھاگ کے کیوں نہیں آتیں۔ لیکن ڈر تھا کہ ان سے جلدی آنے کے لیے کہا تو وہ کہیں واپس نہ چلی جائیں۔
’’کیا ہیں یہ؟‘‘ انہوں نے اوپر پیڑ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’شاید آلوچے ہیں۔ توڑ دیجیے، جلدی۔‘‘
’’کوئی جنگلی پھل ہے شاید۔‘‘ وہ بولیں۔
’’نہیں، نہیں، جنگلی نہیں ہے۔‘‘ ہم چلائے، ’’ایک توڑکر مجھے دیجیے۔۔۔‘‘
ہماری طرف دھیان دیے بغیر وہ اوپر لٹکتے ہوئے گچھوں کو دیکھ رہی تھیں۔ پھر ایک دانہ توڑا اور اسے گھما پھراکر دیکھتی رہیں، ’’پتا نہیں کیا ہے۔ ایسا پھل کبھی کسی پہاڑ پر تو دیکھا نہیں۔‘‘ ہم ان کے آس پاس ایک دائرہ بناکر کھڑے ہو گئے تھے اور اب اس ایک دانے کو لینے کے لیے چھینا جھپٹی کرنے لگے تھے۔
’’نہیں۔ یہ کھانا نہیں۔ کون جانے اس میں زہر ہو! پہلے امی سے پوچھیں گے۔‘‘ پھر میری طرف دیکھ کر بولیں، ’’سنو! کوئی نہیں توڑےگا انہیں۔‘‘ یہ کہہ کر دھیمی چال سے وہ پھر مکان کے اندر چلی گئیں۔ ان کے حکم کی کوئی خلاف ورزی نہیں کر سکتا، یہ سوچ کر ہم سب دل مسوس کر رہ گئے۔ لیکن اس شام سارے باغ میں گھوم گھوم کر ہم نے پیڑوں کو گنا۔ دوسرے پیڑ بھی تھے لیکن ان کی اہمیت نہیں کے برابر تھی۔ پہ پہلا موقع تھا کہ کسی پہاڑ پر اپنے ہی باغ میں کسی پھل کے اتنے پیڑ ملے ہوں۔ کبھی ایک آدھ آلوچے، خوبانی یا سیب کا پیڑ مل جاتا تھا، یا پھر قریب ہی کسی دوسرے مکان میں ان پیڑوں کو دیکھ کر چپکے سے کچھ توڑ لیتے، لیکن اس بار اپنے ہی باغ میں اتنے پیڑ! ہماری خوشی کا کچھ ٹھکانا نہ تھا۔
اندر بہن نے وہ دانہ پتا کے سامنے رکھ کر کہا، ’’پتا نہیں کون سا پھل ہے! باغ میں لگا ہے۔‘‘ پتا اسے دیکھتے ہی بولے، ’’یہ چیری ہے۔ ابھی پکی نہیں ہے۔‘‘ چیری کا نام سنتے ہی ہماری خوشی اور بڑھ گئی۔ ہم نے آج تک چیری کا پیڑ نہیں دیکھا تھا اور اب اپنے ہی باغ میں پندرہ بیس چیری کے پیڑ ہیں جنہیں توڑنے سے کوئی نہیں روکےگا، جن پر ہمارا پورا حق ہوگا۔
ہم اس ایک خوشی میں اس قدر ڈوب گئے تھے کہ اس سال کمروں پر جھگڑا نہیں ہوا۔ ہر سال پہلے دن جب یہ مسئلہ پیش آتا کہ کون سا کمرہ کس کا ہوگا، تو ہم آپس میں جھگڑتے تھے، ہاتھا پائی بھی ہوتی تھی اور غصے میں پتا ایک آدھ کو پیٹ بھی دیتے تھے لیکن اس بار بہن نے جہاں جس کا سامان رکھ دیا، اس کی مخالفت کسی نے نہیں کی۔ رات کو بہن ہمارے کمرے میں آئیں۔ میں ایک کتاب کی تصویر دیکھ رہا تھا۔
’’سویا نہیں؟‘‘
’’نیند نہیں آ رہی۔‘‘ میں بولا۔ چھوٹے بھائی بہن سو گئے تھے۔
’’مجھے بھی نئے گھر میں پہلی رات نیند نہیں آتی۔‘‘
وہ کھڑکی کے پاس جاکر کھڑی ہو گئیں۔ کھڑکی بند تھی لیکن ایک شیشہ ٹوٹا ہوا تھا جس میں سے وہ باہر جھانکنے لگیں۔ دومہینے پہلے جب سے ان کی سگائی ہوئی تھی، وہ تب سے بہت چپ چپ رہنے لگی تھیں۔ اگلے جاڑوں میں ان کا بیاہ ہو جائےگا۔ ان سے چھٹکارا پانے کے تصور سے ہم لوگوں کا جوش بڑھ جاتا لیکن بیاہ کے بعد وہ اس گھر میں نہیں رہیں گی، یہ سوچ کر دکھ بھی ہوتا۔
’’یہ دیکھو!‘‘ انہوں نے دھیمے لہجے میں کہا۔
’’کیا ہے؟‘‘
’’ادھر آؤ۔۔۔‘‘ وہ کھڑکی سے اپنا چہرہ ہٹاتے ہوئے بولیں۔ میں ان کے پاس جاکر کھڑا ہو گیا۔ کھڑکی کے دوسرے شیشے سے باہر دیکھا لیکن اندھیرے میں سامنے والے پہاڑ کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیا۔ انہوں نے دھیرے سے کھڑکی کی چٹخنی کھولی اور اپنا سر باہر نکال لیا۔
’’کیا ہے؟‘‘ میں نے بے صبری سے پوچھا۔
’’وہ دیکھو، کتنے تارے چھٹکے ہیں۔‘‘ مجھے بہت مایوسی ہوئی۔ میں سمجھ رہا تھا کہ انہوں نے کوئی جنگلی جانور دیکھ لیا ہوگا۔
’’تارے تو سب جگہ دکھائی دیتے ہیں۔‘‘ میں نے جھنجھلاکر کہا۔
’’تارے اتنے پاس سے کبھی نہیں دکھائی دیتے۔ لگتا ہے جیسے ہاتھ اوپر اٹھاتے ہی ہم انہیں چھولیں گے۔‘‘
میں نے پھر آسمان کی طرف دیکھا۔ مجھے بھی لگا کہ جیسے تارے بہت نیچے اترآئے ہیں۔
’’پہاڑوں پر تارے نزدیک دکھائی دیتے ہیں۔ ہم اونچائی پر آ جاتے ہیں نا، اس لیے۔‘‘
’’نہیں، یہ بات نہیں ہے۔ پچھلے سال وہ مسوری میں اتنے پاس کبھی دکھائی نہیں دیے۔ نینی تال میں۔۔۔‘‘
مجھے ان باتوں سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔
’’میں نے کہیں پڑھا تھا کہ یہاں تارے بہت پاس دکھائی دیتے ہیں۔‘‘ وہ بولیں۔
کھلی کھڑکی سے ٹھنڈی ہوا اندر آ رہی تھی۔ میں اپنی چارپائی پر آ گیا اور لحاف سے اپنا جسم ڈھانک لیا۔ وہ کچھ دیر تک کھڑکی پر جھکی رہیں، پھر اپنے کمرے میں چلی گئیں۔ میں پھر تصویریں دیکھنے لگا۔
اگلے دن ہم اٹھتے ہی صبح سویرے چیری کے پیڑوں کے پاس پہنچ گئے۔ کوئی کسی پیڑ کے پاس پہنچ کر دوسروں کو آواز دیتا، دیکھو اوپر کی ڈال پر چیری کتنی پیلی ہو گئی ہے! کس پیڑ کی چیری کتنی بڑی ہے، کس کی چھوٹی، ان سب کی جانچ پڑتال ہم نے فوراً کر ڈالی۔ ایک پیڑ کی کچھ ٹہنیاں نیچے کی طرف جھکی ہوئی تھیں، لیکن بہت اچھلنے کے باوجود بھی ہاتھ ان تک نہ پہنچ سکا۔ پھر چھوٹا بھائی گھٹنوں کے بل بیٹھا اور میں اس کی پیٹھ پر چڑھ کر چیری توڑنے لگا۔ صرف چاردانے ہاتھ آئے۔ ایک ایک سب کو دیا لیکن چھوٹی بہن کے لیے نہیں بچی۔ وہ رونے لگی۔ میں نے اسے اپنی آدھی چیری دینے کا وعدہ کیا لیکن اس نے انکار کر دیا۔ وہ بڑی بہن سے شکایت کرے گی، یہ دھمکی دیتی وہ روتی ہوئی گھر کی طرف بھاگی۔
کچھ دیر بعد بہن ہمارے پاس آئیں، ’’یہ کچی چیریاں کیوں توڑیں؟ انہیں کھاکر کیا بیمار پڑنا ہے؟‘‘ پھر میری طرف دیکھ کر بولیں، ’’اگر کسی نے اب ایک بھی چیری کھائی تو اسے سخت سزا ملےگی۔ کچا پھل توڑنے پر پاپ چڑھتا ہے۔‘‘ وہ لوٹ گئیں۔ اب بہن کے منع کر دینے کے بعد کسی کی ہمت چیری کھانے کی نہیں ہوئی۔ اگر چھپ کر ایسا کیا اور بہن کو پتا چل گیا تو کیا انجام ہوگا، اس خیال ہی سے ڈر لگنے لگا۔ وہ کبھی کسی کو پیٹتی نہیں تھیں، زیادہ غصہ آنے پر ڈانتیں بھی نہیں۔ ان کی سزا ہوتی تھی، قصوروار سے بول چال بند۔ یہ سزا ناقابل برداشت بن جاتی تھی، مار پیٹ اور ڈانٹ ڈپٹ سے بھی زیادہ، جس سے ہم سب گھبراتے ہیں۔
کھاتے وقت جب ہم ساتھ بیٹھتے تو یہی ایک موضوع ہوتا۔
’’اب تو گلابی ہونے لگی ہے۔‘‘
’’اوپر کی ڈالیوں پر تو لال ہو گئی ہے۔‘‘
’’اب دوہفتوں تک تیار ہو جائےگی، پھرجی بھر کر کھانا۔‘‘ پتا کہتے۔ بہن کہتیں، ’’ان کا بس چلے تو کچی ہی کھا جائیں۔ اس بارتو یہ گھر سے باہر ہی نہیں نکلتے۔ بس چیری، چیری، چیری اور کوئی بات ہی نہیں۔‘‘
ماں کو بہن کے بیاہ کی فکر لگی ہوئی تھی۔ جب گھر کا کوئی کام نہ ہوتا تو پتا سے اس موضوع پر وہ نہ جانے کتنی باتیں کرتیں۔ پتا ایک کاپی میں ماں کی بتائی ہوئی لسٹ لکھا کرتے۔ کیا سامان منگوانا ہوگا، کتنا زیور گہنا بنےگا، کتنی ساڑیاں، برات کہاں ٹھہرے گی۔ اس ذکر سے بہن کاچہرہ اور بھی گمبھیر ہو جاتا۔
ہر چیری کے پیڑ کے تنے پر چاقو کی نوک سے میں نے سب کے نام لکھ دیے تھے۔ پیڑ پر جس کا نام ہوگا، وہی اس کی چیری توڑےگا اور کھائےگا۔ سب اپنے اپنے پیڑوں کے نیچے کھڑے ہوکر اپنی چیریوں کی تعریف کرتے اور دوسروں کے پیڑوں کی برائی۔ ہر ایک کا دعویٰ ہوتا کہ اس کے پیڑ کی چیری تیزی سے پک رہی ہے۔
اس دن ایک شخص ہمارے باغ میں آیا اور چیری کے پیڑوں کا چکر لگانے لگا۔ ہر پیڑ کے پاس جاتا اور شاخوں کو ادھر ادھر ہٹاکر اوپری سرے تک دیکھتا، کبھی ایک پیڑ کی چیری توڑکر کھاتا کبھی دوسرے پیڑ کی۔ اتنا بے دھڑک ہوکر وہ باغ میں گھوم رہا تھا جیسے یہ اس کا گھر ہو۔ ہم جھنڈ بناکر اس کی طرف دیکھتے رہے۔ اس کے رویے پر ہمیں غصہ آ رہا تھا لیکن اس سے کچھ کہنے کی ہمت ہم میں سے کسی کی نہ تھی۔ اپنا کام ختم کرکے اس کی نظر ہماری طرف گئی اور وہ مسکرانے لگا، جس سے ہمیں اس کے اوپر کے دو بڑے بڑے پیلے دانت دکھائی دینے لگے۔
’’آپ لوگ اس بنگلے میں رہتے ہیں؟‘‘
’’ہاں یہ ہمارا مکان ہے۔‘‘ میں نے ہمت سے جواب دیا۔ پتا سے ملنے کی خواہش ظاہر کرنے پر ہم اسے پتا کے کمرے میں لے گئے۔ ہمیں اس کے چہرے سے نفرت محسوس ہو رہی تھی اور یہ جاننے کی بے چینی بھی ہو رہی تھی کہ آخر وہ ہے کون۔ اس کے واپس چلے جانے کے بعد ہم پتاکے پاس گئے۔
’’ٹھیکے دار تھا، جس نے چیری کے پیڑ مالک مکان سے خرید لیے ہیں۔ کل سے اس کا آدمی ان پیڑوں کی رکھوالی کرےگا۔‘‘ پتا بولے۔
’’ہم تو سمجھ رہے تھے کہ یہ ہمارے پیڑ ہیں۔ ہمارے باغ کے اندر ہیں، کوئی دوسرا انہیں کیسے خرید سکتا ہے؟‘‘ میں بولا۔ پتا ہنسنے لگے، ’’ہم نے مکان کرایے پر لیا ہے۔ پیڑوں پر تو مالک مکان ہی کا حق ہوتا ہے۔‘‘
’’اب ہم چیری نہیں توڑ سکتے؟‘‘
اس رات ہم میں سے کسی نے بھی چیری کے بارے میں ایک لفظ نہیں کہا۔ کسی نے بھولے سے کچھ کہا تو سب کو چپ دیکھ کر اسے فوراً اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ مجھے بہت رات تک نیند نہیں آئی، کھڑکی سے باہر باغ کی طرف دیکھا، چیری کے چھوٹے چھوٹے پیڑ بھار سے نیچے تک جھکے دکھائی دے رہے تھے۔ میں بہن سے اس موضوع پر کئی اور باتیں بھی پوچھنا چاہتا تھا لیکن وہ اس رات ہمارے کمرے میں نہیں آئیں۔
اگلے دن صبح ٹھیکے دار کے ساتھ ایک بوڑھا بھی آیا۔ وہ اپنے ساتھ رسیوں کے ڈھیر، ٹوٹے ہوئے پرانے کنستر اور بانس کی چٹائیاں لائے۔ باغ کے دوسرے سرے پر چٹائیوں سے انہوں نے ایک جھونپڑی تیار کی، جھونپڑی کے اندر ایک دری بچھائی، ایک کونے میں بوڑھے نے اپنا حقہ رکھ دیا۔ ہم تھوڑی دور سے سب کچھ دیکھتے رہے۔ دوچٹائیوں کو ملاکر جتنی جلدی جھونپڑی تیار ہو گئی اس سے ہم کو بہت تعجب ہوا۔ وہ دونوں کبھی کبھی ہماری طرف دیکھ کر مسکرانے لگتے لیکن ہم نے ان کی مسکراہٹ کا کوئی جواب نہیں دیا۔ چھوٹے بھائی نے کہا کہ وہ ہمارے دشمن ہیں اور ہماری ہی زمین پر اپنے خیمے گاڑ رہے ہیں۔
کنستروں میں چھوٹے چھوٹے پتھر بھرے گئے اور رسیوں کی مدد سے انہیں کچھ پیڑوں پر باندھ دیا گیا۔ بوڑھا ان رسیوں کے سرے جھٹکے کے ساتھ ہلاتا تو کنستر میں پڑے پتھر بجنے لگتے اور ایک کرخت سی آواز سارے جنگل میں گونج اٹھتی۔ ہماری بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔ کچھ دیر کے بعد سارا انتظام کرکے ٹھیکے دار چلا گیا۔ رہ گیا وہ بوڑھا جو جھونپڑی کے پاس ایک پتھر پر بیٹھا حقہ گڑگڑا رہا تھا۔ ہمیں ٹھیکے دار کے مقابلے میں اس بوڑھے کے چہرے پر زیادہ دوستی کے آثار دکھائی دیے۔ ہم دھیرے دھیرے اس کے پاس پہنچے۔ اس نے بڑے پیار سے ہم لوگوں کو پاس بٹھایا۔ ہمارے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ یہ پتھر پرندوں کو بھگانے کے لیے ہیں۔ بہت سے پرندے، خاص کر بلبل، چیریوں پر چونچ مارتے ہیں جس سے وہ سڑ جاتی ہیں۔ اگر انہیں بھگایا نہ جائے تو پیڑ کے پیڑ ختم ہو سکتے ہیں۔
’’لیکن کنستر سب چیری کے پیڑوں پر کیوں نہیں باندھے جاتے ہیں؟‘‘
’’چار پانچ پیڑوں کے لیے ایک کنستر کی آواز کافی ہے۔‘‘ وہ بولا۔
’’کیا تم رات کو بھی یہیں رہوگے؟‘‘
’’ہاں، رات کو بھی ڈر رہتا ہے کوئی آدمی چیری نہ توڑ لے۔‘‘
سب سے چھوٹی بہن کا دھیان حقے کی طرف تھا۔ اس نے پوچھا، ’’یہ کیا ہے؟‘‘
ہم ہنس پڑے۔ ’’یہ ان کی سگریٹ ہے۔‘‘ چھوٹا بھائی بولا۔
دھیرے دھیرے بوڑھے کی موجودگی کے سب عادی ہو گئے۔ رسی کھینچ کر کنستروں کا بجانا یاسیٹی بجاکر پرندوں کا اڑانا، ان سب آوازوں کی عادت پڑ گئی تھی۔ چیریوں کے بوجھ سے ڈالیاں اتنی جھک گئی تھیں کہ اچھل کر میں آسانی سے دو چار دانے توڑ سکتا تھا لیکن بوڑھے کی نظریں ہر وقت چوکنی ہوکر چاروں طرف گھومتی رہتیں، اس لیے ہمت نہیں ہوتی تھی۔
ماں دوسرے تیسرے دن بوڑھے کو چائے کا گلاس بھجوا دیتیں۔ وہ بھی کبھی کچھ پکی ہوئی چیریاں توڑ کر ہمیں دے دیتا۔ لیکن پیڑ پر چڑھ کر توڑنا، پھر کھانا، جس کا ہم نے شروع میں تصور باندھا تھا، وہ خواہش تو دل ہی میں رہ گئی۔ جب کبھی کوئی پرندہ ریت پر چیری کھا رہا ہوتا اور بوڑھے کو پتا نہ چلتا تو ہمیں بہت خوشی ہوتی۔ ہمارا بس چلتا تو سارے پیڑ پرندوں کو کھلا دیتے، لیکن پرندے چپ چاپ چیریاں نہیں کھاتے تھے، ایک دودانے کھاکر جب کسی دوسری ڈال پر بیٹھتے تو بوڑھے کو پتا چل جاتا اور وہ رسی کھینچ کر کنستر بجا دیتا۔
بہن دن بھر کسی پیڑ کے نیچے کرسی بچھاکر ہم میں سے کسی کا پل اوور بنا کرتیں۔ اس سال گرمیوں کی چھٹیوں میں انہوں نے کسی کتاب کو ہاتھ تک نہیں لگایا، نہیں تو ہر بار وہ اپنے کورس کی کوئی کتاب پڑھتی رہتیں۔ کچھ دن پہلے ان کا انٹرمیڈیٹ کا نتیجہ نکلا تھا اور وہ فرسٹ ڈویژن میں پاس ہوئی تھیں۔ وہ اور پڑھنا چاہتی تھیں لیکن ماں کوان کی شادی کی جلدی تھی۔
ہمارے گھر سے تھوڑی دور ایک چشمہ بہتا تھا، جہاں ہم دوسرے تیسرے دن نہانے چلے جاتے تھے۔ کبھی بازار، کبھی سینما، کبھی پارک۔ دھیرے دھیرے ہمارے روز کے پروگرام میں اب دوسری دلچسپیاں شامل ہو گئی تھیں۔ یہ شاید پہلا موقع تھا کہ بڑی بہن نے کسی چیز میں حصہ نہیں لیا۔ پہاڑوں میں وہ ہمارے بہت قریب آ جاتی تھیں۔ رات کو کھانے کے بعد چارپائیوں میں دبکے ہم ان سے کہانیاں سناکرتے تھے، شام کو اپنے ساتھ گھمانے لے جاتی تھیں اور پکنک کی تو کوئی حد ہی نہیں تھی۔ اس مرتبہ وہ بہت کم گھر سے نکلیں اور جب باہر جاتی بھی تھیں تو اکیلی ہی جاتیں۔
ایک دن صبح آنکھ کھلتے ہی باہر باغ میں کئی لوگوں کی آوازیں سنائی دیں۔ میں چارپائی پر لیٹا لیٹا کچھ دیر تک تو تعجب سے اس شور و غل کے بارے میں سوچتا رہا۔ کھڑکی سے جھانک کر باہر دیکھنے ہی والا تھا، جب بہن کسی کام سے کمرے میں آئیں۔
’’یہ شور کیسا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’وہ لوگ آ گئے۔‘‘
’’کون لوگ؟‘‘ میں نے تعجب سے پوچھا۔
’’وہی ٹھیکے دار کے آدمی۔ چیری توڑنے کے لیے۔‘‘ وہ بولیں۔
میں جھٹ سے باہر ددڑا۔ پیڑوں پر ٹوکریاں لیے ٹھیکے دار کے آدمی چڑھے ہوئے تھے۔ دونوں ہاتھوں سے اوپر نیچے کی چیریاں توڑکر بھرتے جارہے تھے۔ کسی دور کی شاخ کو پکڑ کر اپنے پاس گھسیٹنے پر چرر چرر کی آوازیں گونجنے لگتیں۔ سارے باغ میں شوروغل تھا۔ ہم دھیرے دھیرے باغ کے چکر لگانے لگے۔ ہر پیڑ کے پاس کچھ دیر کھڑے رہ کر اوپر چڑھے آدمی کو دیکھتے۔ لگ رہا تھا جیسے آج ہماری شکست کا آخری دن ہوگا۔ ہر پیڑ کے نیچے بہت سی چیریاں گری پڑی تھیں۔ چھوٹی بہن نے ایک گچھا اٹھایا تو بھائی نے اس کے ہاتھ سے چھین کر پھینک دیا۔
’’جانتی نہیں کہ بہن نے کیا کہا ہے؟ کوئی ایک بھی چیری منھ میں نہیں رکھےگا۔‘‘
جھونپڑی کے پاس ٹھیکے دار چار پانچ لوگوں کے ساتھ چیریاں چن چن کر پیٹیوں میں رکھ رہا تھا۔ اس کے پاس ہی کئی خالی پیٹیاں پڑی تھیں اور دری پر توڑی ہوئی چیریوں کا ایک ڈھیر۔ وہ سب بہت تیزی سے کام کر رہے تھے۔ ہمیں کھڑے دیکھ کر ٹھیکے دار نے ایک ایک مٹھی چیری ہم سب کو دینی چاہی لیکن ہم نے انکار کر دیا۔ ہم لوگ باغ ہی میں گھومتے رہے۔ گھر سے باہر کہیں جانے کو دل ہی نہیں چاہ رہا تھا۔ چیری کے پیڑ دھیرے دھیرے خالی ہوئے جا رہے تھے۔ اس دن کنستر بجانے کی ضرورت نہیں پڑی۔ بلبل اور دوسرے پرندے پیڑوں کے اوپر ہی چکر لگاتے رہے، کسی کو پیڑ پر بیٹھنے کی ہمت نہیں ہوئی۔
’’یہ دیکھو، اس پیڑ کے نیچے کیا پڑا ہے؟‘‘ چھوٹی بہن نے ایک پیڑ کی طرف اشارہ کیا۔ ہم نے اس طرف دیکھا لیکن پتا نہیں چلا کہ کیا ہے۔ پاس جانے پر پیڑ کے نیچے ایک مری ہوئی بلبل دکھائی دی۔ اس کی گردن پر خون جماہوا تھا۔ ہم کچھ دیر تک چپ چاپ دیکھتے رہے۔ میں نے اس کا پاؤں پکڑ کر ہلایا لیکن اس میں جان باقی نہیں بچی تھی۔
’’یہ کیسے مر گئی؟‘‘
’’کسی نے اس کی گردن پر پتھر مارا ہے۔‘‘
’’انہیں لوگوں نے مارا ہوگا۔‘‘
’’تبھی کوئی بلبل پیڑ پر نہیں بیٹھ رہی۔‘‘
ہم نے ٹھیکے دار اور اس کے آدمیوں کو جی بھر کر گالیاں دیں۔ ان لوگوں پر پہلے ہی بہت غصہ آ رہا تھا، اب بلبل کی ہتیا دیکھ کر تو ان سے بدلہ لینے کاجذبہ ایک دم بھڑک اٹھا۔ کتنے ہی منصوبے بنائے لیکن ہر بار اس میں کوئی کمی نظر آ جاتی، جس سے اسے ادھورا چھوڑ دینا پڑتا۔ پھر یہ سوچ کر کہ اگر یہ بلبل یہیں پڑی رہی تو بلی یا کتا اسے کھا جائےگا، ہم نے پاس ہی ایک گڈھا کھود کر اس میں بلبل کو لٹایا اور اوپر سے مٹی ڈال دی۔
اس دن بڑی بہن نے باغ میں پیرتک نہیں رکھا۔ انہوں نے نہ مری ہوئی بلبل دیکھی، نہ پیڑوں سے چیریوں کا ٹوٹنا۔ انہیں پیڑوں سے پھل توڑنا اچھا نہیں لگتا۔ ’’پودوں، پھلوں اور پھولوں میں بھی جان ہوتی ہے۔ انہیں توڑنا بھی اتنا ہی برا ہے جتنا کسی جان دار کو مارنا۔‘‘ وہ ہم سے کہا کرتی تھی۔
وہ لوگ شام کو بہت دیر تک چیریاں توڑتے رہے۔ پھر ایک لاری آکر رکی جس میں وہ سب پیٹیاں لادی گئیں اور وہ سب چلے گئے۔ باغ میں اچانک سناٹا ہو گیا۔ رہ گئے صرف چیری کے ننگے پیڑ جن پر ایک بھی چیری دکھائی نہیں دیتی تھی۔ ہوا تیز تھی اور رہ رہ کر پیڑوں کی شاخیں ہل اٹھتی تھیں، جیسے آخری سانسیں لے رہی ہوں۔ نیچے بکھری ہوئی تھیں ان گنت پتیاں اور کچھ ڈالیاں جو چیری توڑتے وقت نیچے گر گئی تھیں۔ شام ہمیں بہت سونی سونی سی لگی اور پیڑوں سے ڈر سا لگنے لگا۔
کھاتے وقت ہم دن بھر کے واقعات کا ذکر کرتے رہے۔ مری ہوئی بلبل کا قصہ بھی سنایا لیکن بڑی بہن نے ذرا بھی دلچسپی نہیں دکھائی۔ ان کے منھ سے ایک لفظ بھی نہ نکلا، جیسے وہ ہماری باتیں سن ہی نہ رہی ہوں۔ کھانا بھی انہوں نے بہت کم کھایا۔ رات کو دیر تک نیند نہیں آئی، نہ کوئی کتاب پڑھنے میں دل لگا۔ چھوٹے بھائی بہن دن بھر کی تکان سے چارپائی پر لیٹتے ہی سو گئے۔ تھکن سے میرا بھی بدن ٹوٹ رہا تھا لیکن بہت کوشش کرنے پر بھی نیند نہیں آئی۔
کچھ دیر بعد میں کھڑکی کے پاس جاکر کھڑا ہو گیا۔ اچانک آسمان میں بہت سے تارے ایک ساتھ چمک اٹھے۔ تارے یہاں سچ مچ بہت قریب دکھائی دیتے ہیں، کیوں؟ صرف چھ ہزار فٹ ہی تو اونچی ہے یہ جگہ اور تارے تو ہزاروں میل دور ہیں۔ پھر اتنے پاس کیسے دکھائی دیتے ہیں؟ میں سوچنے لگا۔ تبھی باغ میں پیڑوں کے نیچے کسی کی پرچھائیں دکھائی دی۔ مجھے ڈرسا لگا لیکن کچھ دیر بعد پتا چلا کہ وہ بہن ہیں۔ وہ ابھی تک سوئیں نہیں۔۔۔
میں بھی دبے پاؤں باہر آ گیا۔ وہ چیری کے پیڑوں کے نیچے ٹہل رہی تھیں۔ ان کی ساڑی کا آنچل نیچے تک جھول رہا تھا۔
’’ابھی تک سوئے نہیں؟‘‘ بغیر میری طرف دیکھے انہوں نے پوچھا۔ ان کی آواز سن کر میں چونک پڑا۔ میرا اندازہ تھا کہ شاید انہیں میرے باہر آنے کا پتا نہیں چل پایا ہوگا۔ میں نے دھیمے لہجے میں کہا، ’’نہیں! ابھی نیند نہیں آئی۔‘‘ ان کے پیروں کے نیچے پتے دبتے تو سرر سرر کی آواز رات کے سناٹے میں گونج جاتی۔ ہوا اور تیز ہو گئی تھی۔
’’آج بہت اندھیرا ہے۔‘‘ میں بولا۔
’’آج کل اندھیری راتیں ہیں۔‘‘
کبھی کبھی اپنی نظریں اٹھاکر وہ کسی کسی پیڑ کو دیکھتیں، جن کی شاخوں کے بیچ سے آسمان میں چمکتے تارے دکھائی دیتے۔
’’آج تارے بہت قریب دکھائی دے رہے ہیں۔‘‘ میں نے کہا۔
انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.