Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

چھام چھاب

سیمیں درانی

چھام چھاب

سیمیں درانی

MORE BYسیمیں درانی

    شدید گرمی کے روزے ملک نواز کو سب سے زیادہ محسوس ہو رہے تھے کہ بڑے ملک جی نے حویلی میں شراب نوشی پہ نہ صرف پابندی عائد کر رکھی تھی بلکہ تمام نائیکائیں بھی اپنی اپنی لڑکیوں کے ہمراہ خود کو بخشوانے میں مصروف تھیں۔ بیشتر رنڈی خانے بند اور جوئے کے اڈے بھی سونے سونے سے لگتے تھے۔ جھلائے ہوئے ملک نواز نے اپنی جیپ کا رخ بھٹے کی جانب موڑا تاکہ ہفتے کا بہی کھاتہ دیکھ سکے۔ بیڑیوں کی آواز نے اسے اپنی جانب متوجہ کیا۔

    چھیماں دیوار کے سایے میں کھڑی گرمی اور شدت پیاس سے ہانپ رہی تھی اور اس کی ماں اپنے پیروں سے بندھی زنجیر ھلا ھلاکر اس کو تنبیہ کر رہی تھی کے ملک صاحب اس کو ہڈ حرامی کرتے دیکھ نہ لیں۔ یہ بیڑیاں چھیماں کی پیدایش کے قصور کی سزا تھیں۔ جب دائی نے زچگی کے دوران خون زیادہ بہ جانے کے باعث وزیراں کو اسپتال لے جانے کا مشورہ دیا تو کرموں کے پاس ملکوں سے سود پہ قرض لینے کے سوا کوئی اور چارہ نہ تھا۔ سود کی سال بہ سال بڑھتی رقم نے تینوں کے پیروں میں بیڑیں ڈال کے ان کو بھٹے پہ ملکوں کا پابند کر دیا۔

    ۱۴ سالہ چھیماں کی پیداہش کے بعد سے ہی کرموں اب اپنی بیوی کو ھاتھ لگاتے بھی ڈرتا تھا۔ منشی اپنے ریڈیو پہ اونچی آواز میں نعتیں سن رہا تھا۔ ملک کو دیکھ کے سلام کیا اور پنکھے کا رخ ملک نواز کی جانب موڑ دیا۔ اے سی سے پنکھے میں آکر چھوٹے ملک کو بہت کوفت محسوس ہوئی۔ منشی خوشامدانہ لہجے میں بولا۔ کیا خدمت کروں حضور کی۔۔۔ ملک تلملا اٹھا اور بولا ’’اب تجھے یہ بھی یاد کروانا پڑےگا۔ چور کی نسل۔ برف زیادہ ڈال کے لا اور سن۔ اب کی بار دو بوتلیں میری جیپ میں بھی رکھوا دے‘‘۔ جب کلیجہ ٹھنڈا ہوا تو اندر کے شیطان نے اسے گرما دیا اور اس نے منشی کو ہدایت کی کہ چھیماں کو اندر بھیج دے۔جب چھیماں کی پیروں میں پڑی بیڑیاں کھولی گئیں تو اس کی ماں نے اس کو خوب کوسنے دیے کہ اس ہڈ حرام کی وجہ سے ان کی پیشی ہوگی اور رات کو بھی بطور سزا بھٹے پہ کام کرنا پڑےگا۔

    چھِماں ہانپتی کانپتی ملک صاحب کے حضور پیش ہوئی تو، ماتھے پہ ھاتھ لیجا کے بولی۔۔۔ ’’سلام صاحب۔۔۔ وہ جی روزہ لگ رہا تھا تو دو گھڑی چھاوں میں کھڑی ھو گئی‘‘۔ ملک نے مسکرا کے منشی کو دروازہ بند کرنے کا اشارہ کیا اور چھییماں کی چیخ کان میں پڑتے ہی، منشی نے ریڈیو کی آواز اونچی کر دی اور نعتوں پہ سر دھنتے ھوہے تسبیح پھیرنے لگا۔ کچھ دیر بعد ملک نواز اپنا ازاربند باندھتے باہر نکلا اور منشی سے مخاطب ہوا۔’’اس لڑکی کے گھر والون کو افطاری میں لال شربت کی بوتل اور کلو برف دے دینا۔ آج واقعی گرمی بہت ہے‘‘ ۔۔۔کرموں اور اس کی بیوی کا واویلا سن کر منشی نے ڈانٹ پلائی، ’’اوئے بےغیر تو، کچھ تو شرم کرو۔ روزوں میں ایسی بیہودہ باتیں کرتے ہو۔ زرا لحاظ ہے تمہیں رمضان شریف کا بھی کہ نہیں‘‘۔ ۱۳۔ ۱۴ سالہ چھیماں اور اس کے ماں باپ بیڑیوں میں ایڑیاں رگڑتے رہے پر ان کی آواز ان کی بیڑیوں کی چھاپ میں دب جاتی۔ چند ماہ بعد جب کرموں کا انتقال ھوا تو وزیراں اور اس کی بیٹی کو آزادی دی گئی کہ دسواں کرکے آئیں۔ جنازہ اٹھنے کے بعد جب گاؤں کی عورتوں نے چھِیماں کے حمل پہ چہ مگوئیاں شروع کیں تو وزیراں نے چیخ چیخ کے دل کا غبار نکالا۔ بات جنگل کی آگ کی مانند بڑے ملک صاحب تک پہنچی۔ وہ ملکانی پہ گرجا۔ تیرے لاڈلے نے تو بھٹے والیوں کو بھِی نہیں بخشا۔ یہ تربیت ہے تیری۔۔۔اس پر ملکانی نے غرور بھرے لہجے میں جواب دیا۔ ’’ملک جی، آپ جو ھر وقت شیر کا بچہ مانگتے تھے۔ اب جنا ہے تو سنبھالیں۔ شیر بکریاں بھیڑیں تو کھائے گانا‘‘۔ بڑے ملک صاحب یہ سن کر بہت ہنسے اور بولے۔ ’’بولتی تو تو سچ ہے، کسی شیر سے کم نہیں ہے میرا نواز، پر اس لڑکی کا پیر بھاری ھے۔ اس نیچ اچھوت کی کوکھ میں ملکوں کا خون ہے۔‘‘ اس پر ملکانی بولی۔ دیں چار پیسے کہ بچہ گروائے۔۔ ھم نے اگلے ماہ اپنے نواز کی بات پکی کرنی ہے گورنر صاحب کی بیٹی سے۔۔۔بڑے ملک صاحب نے منشی کو بلا بھیجا اور ہدایت کی کہ اس گند سے جلد از جلد چھٹکارا حاصل کیا جاہے۔ ایسا ہی کیا گیا۔ دائی نے جب مہینوں کا حساب لگا کے حمل گرانے کو ناممکن قرار دیا، تو ملکانی نے ترس کھاتے ہوہے اس کو گاوں سے نکل جانے کا حکم دیا۔ منشی نے ۵۰۰ کا نوٹ ماں بیٹی کے آگے پھِینکا اور بولا۔

    ’’شکرانے کے نفل ادا کرو ماں بیٹی، لاکھوں کا سود، رحمدل ملکوں نے منٹوں میں معاف کر دیا۔ دعا دو ان کو دعا‘‘۔

    دونوں ماں بیٹی جو کہ کبھی پڑوس کے گاؤں بھی نہ گئی تھیں۔ اب شھر کو روانہ ھو گئیں۔ بس کے دھویں اور خالی پیٹ نے چھیماں کی حالت مزید ابتر کر دی اور وہ قے کرتے کرتے نیم بیہوشی کی کیفیت میں جا پہنچی۔ سٹاپ آتے ہی کنڈیکٹر نے دونوں ماں بیٹی کو باھر دھکیلا اور خود اگلے سٹاپ کی تکرار شروع کر دی۔ وحشت زدہ ماں بیٹی فٹ پاتھ کے کنارے پہ جا بیٹھِیں، ان کی حالت دیکھ کے منزل کی جانب گامزن مسافروں نے اپنی بلائیں ٹالنے کو ان کے سامنے سکے ڈالنے شروع کر دیے۔

    یوں اس بس سٹاپ سے ان کی ایک نئی زندگی کا سفر شروع ھوا۔ دونوں نے مل کے کھولی ڈالی اور چند ماہ بعد چھیماں نے ملکوں کی بیٹی کو جنم دیا۔ جس کو سب گڑیا پکارنے لگے۔گڑیا اپنی دادی، ملکانی کی مانند نیلگوں آنکھوں اور سنہرے بالوں والی سرخ و سفید رنگت میں ایک ولایتی گڑیا ہی معلوم ھوتی۔ آس پاس ہر سو اس کی خوبصورتی کا چرچا ھوا اور جب چھیماں اس کو گود میں لیے گاڑیوں کے شیشے کھٹکھٹاتی تو نہ چاہتے ہوئے بھی لوگ کچھ نہ کچھ دے ڈالتے۔ گڑیا جب اڑھائی سال کی ہوئی تو چھِیماں نے اسے ''سلام صاحب''، کہنا سکھایا، جس کو جب گڑیا اپنی پیشانی پہ سلیوٹ مار کے‘‘ ’’چھام چھاب '' کہنے لگی تو ان کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ھوا اور بھکاریوں میں ترقی پاکے چھیماں کو ایک مشہور سگنل شام کے اوقات کے لیے دہاڑی پہ مل گیا۔شان بین القوامی شہرت کا حامل آرٹسٹ تھا اور ملک کے امیر ترین حلقے اس کی پینٹنگز اپنے گھروں میں آویزاں کرنے میں فخر محسوس کرتے۔ اکثر و بیشتر ملک سے باہر رہتا اور ایک ’’کرونک بیچلر‘‘ کی حیثیت میں تمام ہائی کلاس پارٹیوں میں فلرٹ کرتا پھرتا۔ اس کا گزر اکثر اس شاہراہ سے ہوتا، جہاں شام کے اوقات میں گڑیا اپنی ماں کی گود میں ’’چھام چھاب‘‘ کے سلیوٹ کے ساتھ پیسے اکٹھے کرتی۔ وہ اس کو بہت غور سے دیکھتا اور سو کے نوٹ سے نوازتا۔ چھیماں، گڑیا کو گود میں اٹھائے اس کی بیش قیمت گاڑی کی تاک میں رہتی۔ اب شان نے بھیک کی رقم میں خاطر خواہ اضافہ کر دیا اور گڑیا بھی اس سے مانوس ہوتی گئی۔ ایک شام وی آئی پی مومنٹ کے باعث ٹریفک جام تھی۔شان کو دیکھ کے چھیماں، گڑیا کو گود میں لیے گاڑی کی طرف لپکی، گڑیا دور سے ھی شان کو دیکھ کے ماتھے پہ ’’چھام چھاب‘‘ کرنے کو اپنا ننھا منا ہاتھ رکھ کے مسکرانے لگی۔ شان نے گاڑی کا دروازہ کھولتے ھوئے دونوں کو بیٹھنے کا اشارہ کیا، پہلے پہل تو چھیماں ہچکچائی مگر پھر گڑیا کو لیے جا بیٹھی۔ شان نے گڑیا کو گود میں لے لیا اور اس کو گاڑی میں نصب بتیاں دکھانے لگا۔ 4 سالہ گڑیا کو کبھی کھیلنے کو گڑیا نہ ملی تھی، اس کے کھلونے بھیک میں ملے چھوٹے بڑے سکے تھے۔ وہ انتہاہی تجسس اور شوق سے کھیلنے میں مصروف ہو گئی۔ چھیماں کے لیے یہ سب کچھ غیریقینی تھا، اس نے ڈرتے ڈرتے شان سے پوچھا۔۔۔ ’’صاحب، تم کیا کرتےہو‘‘۔ شان نے سامنے مزین ایک بل بورڈ پہ بسورتے بچے کی تصویر کی جانب اشارہ کرتے ہوہے کہا۔۔۔ ’’یہ‘‘۔ اوہ۔ تو تم تصویریں بناتے ھو؟؟ ’’ہاں‘‘ شان نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔ ٹریفک ھارن کی آواز سن کے شان نے گڑیا کو اپنے ساتھ زور سے بھینچا اوراسے ۵۰۰ کا نوٹ تھما کے چھیماں کے حوالے کر دیا۔ ایک روز شان نے سرخ لہنگا چولی اور ننھے منے سونے کے زیورات چھیماں کے حوالے کرتے ہوئے چھیماں کو ہدایت کی، ’’یہ سب کچھ گڑیا کا ہے۔ خبردار، اس میں سے ایک بھی شے نہ کم ہو، میں کچھ دن بعد گڑیا کو کچھ دیر کے لیے ساتھ لے کر جاؤں گا۔ اس کو اچھی طرح تیار کر دینا۔‘‘

    چھِیماں حیران و ششدر ھاتھ میں سامان لیے کھڑی تھی سگنل کھلا اور شان نے گاڑی آگے بڑھا دی۔ بھکاریوں کی دنیا میں شان اور گڑیا کا لگاؤ مشہور ھو گیا اور کالے کلوٹے بچوں والیاں حسد اور رشک کی نگاہ سے گڑیا کی معصومیت اور ملکوتی حسن کو تکا کرتیں۔ وزیراں اور چھیماں اپنی قسمت اور کماہی پہ ناز کرتیں اورگڑیا کے لاڈ اٹھاتے نہ تھکتی۔۔۔ موبایل کی گھنٹی سن کے شان لپکا اور انگریزی میں با ت کرنے لگا۔‘‘ Ohh, Sure, I am conforming my presence at the occasion on the given date۔ Dont you worry please۔ I will never disappiont you۔ This time, its going to be even more interesting and mind blowing presentation from my side۔ I know the standards and requirements of the ring۔ I do appreciate your good self for trusting me and ranking me as an elite member of the ring۔شان کا اس شاہراہ پہ ایک ہفتے سے گزر نہ ھوا تو چھیماں کا ماتھا ٹھنکا، ''کمبخت، سب حرامیوں نے نظر ہی لگا دی، اچھا خاصا ایک دن میں ہی پورے ھفتے کی کمائی ہو جاتی تھی۔ ننھی گڑیا سب سے بےنیاز اسی طرح سے ’’چھام چھاب'' کا سلیوٹ کرتی پھرتی۔ چلچلاتی دھوپ میں چھیماں گاڑیوں کے پیچھے بھاگتی پھر رہی تھی کہ اچانک زوردار ہارن کی آواز نے اس کو چونکا دیا، وہ اس کو اچھی طرح پہچانتی تھی، اس جانب لپکی۔ شان نے گاڑی کا شیشہ نیچے کیا اور چھیماں کو ۱۰۰۰ کا نوٹ تھماتے ہوئے بولا۔ ’’کل گڑیا کو تیار کر دینا۔ میں لینے آؤں گا‘‘ اور گاڑی دوڑا دی۔چھیماں تذبذب کے عالم میں ۱۰۰۰ کا نوٹ لیے کھڑی تھی کہ گڑیا کی آواز آئی۔ ’’چھام چھاب‘‘۔ کھولی میں پہنچی تو بےیقینی اور حیرت کے سمندر میں ڈوبی، چھیماں نے وزیراں کو ساری بات بتاہی، تو وہ خوشی سے کھل اٹھی۔

    مگر چھِیماں کے دل میں ہزار وسوسے ڈنگ مار رہے تھے۔ اپنا ماضی جو کے سکوں کی کھنکار کے نیچے دب چکا تھا، سامنے آ بیٹَھا مگر وزیراں نے اس کو ہزار کے نوٹ اور سونے کے ننھے منے زیورات کے نیچے دبا دیا۔ چھِیماں نے جب گڑیا کو سرخ لہنگا پہنایا تو ساتھ ہی اس کو سرخی لگا کے سوچنے لگی، میری گڑیا تو دلہن بن کے حور لگےگی حور۔ خود بھی عرصے بعد کنگھی چوٹی کی اور صاف ستھرے کپڑے پہنے اور سگنل پہ مقررہ وقت پر گڑیا کو گود میں لیے کھڑی ھو گہی۔ شان کی گاڑی قریب آکر رکی اور اس نے دروازہ کھولا۔ جب چھیماں بیٹھنے لگی تو تلخ لہجے میں بولا۔ ’’میں نے صرف گڑیا کا کہا تھا۔ تمہارا نہیں‘‘، آگے لپک کے گڑیا کو کھِینچ کے گاڑی میں بٹھایا اور تیزی سے گاڑی دوڑا دی۔گڑیا کی خوشی اور حیرت کی انتہا نہ تھی، وہ موسیقی کی آواز پہ تالیاں بجانے لگی۔ اپنے عالیشان بنگلے کا گیٹ شان نے خود ہی کھولا کہ ملازمین کو وہ اپنے لندن ٹرپ کی وجہ سے پہلے ہی ایک ماہ کی رخصت دے چکا تھا اور اس کو شام کی فلائیٹ پکڑنا لازم تھی۔ اپنے بیڈ روم پہنچ کے اس نے گڑیا کو بیڈ پہ بٹھا کے ہاتھ میں چاکلیٹ پکڑائی اور خود کمرے میں نصب کیمروں کی سیٹینگ فکس کرنے لگا۔ سر پہ لال اوڑھنی، ماتھے پہ بندیا اور ھونٹوں پہ سرخی لگائے گڑیا اس کو مکمل نظرانداز کیے چاکلیٹ کھانے میں مصروف تھی کیمروں کی سیٹینگ سے مطمئن ہو کے وہ گڑیا کی جانب بڑھا اور کیمرے کی جانب اشارہ کرکے بولا۔ ’’گڑیا جان، ادھر سلام تو کرو‘‘۔

    گڑیا نے حیرت میں کیمرے کی جانب تکتے ہوئے اپنا مخصوص سلیوٹ کیا۔ پھر گڑیا کچھ کسمسائی، اس کو شان کا یوں سر سے لپٹِ اوڑھنی اتارنا بلکل نہ بھایا۔ پھر جب اس کے ماتھی کی بندیا کی باری آہی تو وہ بول اٹھی، ’’نہ نہ چھاب'' اور سمٹ کے پیچھے ہٹ گئی۔ جدید ترین کیمروں میں تیزی سے ریکارڈنگ جاری تھِی۔ کیمرے، تیزی سے چیختی چلاتی گڑیا اور شان کی بڑھتی ہوئی درندگی کی نہایت سرعت سے ریکارڈنگ کر رہے تھے۔ ہر زاویے اورباریک بینی سے فلم بنتی رہی اور شان ہر طور سے گڑیا کو مسلتا رہا، جو چیخ و پکار کے بعد شدت تکلیف سے بیہوش ہو چکی تھِی۔ شان نے جلدی جلدی فلمیں بیگ میں ڈالیں۔ اس کو کل لندن میں اپنی '''سیکرٹ سوساہٹی آف پیڈوفائل۔۔کی خفیہ رسومات میں شرکت کے دوران ان کو ایک بونس فیچر کے طور پہ پیش کرنا تھا اور اس کو یقین تھا کہ اس کی برطانوی شہریت کے لیے وھاں پہ موجود ایلیٹ ممبران اس کی ضرور مدد کریں گے۔بیہوش گڑیا کو ایک چادر میں لپیٹ کے گاڑی کی پچھلی سیٹ پہ ڈالا اور ایک قریبی ہسپتال کے باہر نصب بینچ پہ لٹا کے گاڑی کودوڑا لیا۔ شام کے باعث آمد و رفت زیادہ نہ تھی۔ چوکیدار کی نظر جب خون میں لپٹی گڑیا پہ پڑی تو اس کو اٹھا کے ایمرجنسی میں لے گیا۔ ڈاکٹرز اس پھول سی بچی کے ساتھ بہیمانہ سلوک دیکھ کے میڈیا کو کال کرنے لگے، کہ گڑیا نے آنکھِیں کھول کے چاروں طرف دیکھا۔ اپنے آس پاس خوش لباس لوگوں کو دیکھ کے اس نے اپنے لرزتے، بیجان ھاتھ کو ماتھے سے لگایا۔ ''چھام چھاب'' اور آنکھیں موند لیں۔ موباہل سگنل کمزور ملنے پہ ڈاکٹر باہر کو لپکا تاکہ جلد اس جلد خبر کو میڈیا کووریج مل سکے۔ موقع بھانپ کے قریب ہی کھڑے جمعدار نے جلدی سے گڑیا کے ماتھے سے وہ بندیا اتار لی جسے وہ بمشکل چھاب سے بچا پاہی تھی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے