چھپکلی
کار سے اترتی مسز ڈالمیا کے ذہن میں صرف ایک ہی سوچ ہلچل مچائے ہوئے تھی۔۔۔ کلب کے فینسی ڈریس مقالہ میں پہلا انعام حاصل کرناہی ہوگا۔۔۔کسی بھی طرح ۔۔۔صرف ایک ہی دن رہ گیا ہے۔۔۔ اور اب تک کوئی نایاب آئیڈیا گرفت میں نہیں آیا، کام بننے والا نہیں ہے شاید۔ پہلا انعام۔۔۔ جس کے بدلے میں کلب کی صدارتی کرسی ملتی ہے اور اس پر کنڈلی مارے بیٹھی ہے وہ چڑیال مس اروڑہ۔
مس اروڑہ کا خیال ذہن میں آتے آتے ہی چہرہ سخت ہوجاتا ہے۔ جسم کا رواں رواں بھٹی سا سلگنے لگتاہے۔ بیڈروم کا دروازہ کھولتے ہوئے ہاتھ ہینڈل پر جاتا ہے تو مٹھیاں کس جاتی ہیں جیسے پنجوں میں مسں اروڑہ کی گردن آگئی ہو۔ وہ پلنگ پر بے جان ہو کرپڑجاتی ہیں۔ ائیرکنڈیشنر چلتے رہنے پر بھی ذہن کی سرد جنگ پسینے کے روپ میں چہرے پر بکھرنے لگتی ہے۔ نظریں چاروں طرف رینگتی ہیں۔ چمکدار بے جان دیواروں کے درمیان شائیں شائیں کرتی خاموش۔ سپاٹ اور بے حس۔
وہ جھٹکے سے اٹھ کر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آکھڑی ہوتی ہیں۔ جسم سے جلد کی طرح چپکے لباس ایک ایک کر کے اترنے لگتے ہیں اور کھوجی نگاہیں جسم کے سارے نشیب و فراز پر رینگنے لگتی ہیں۔ سانچے میں ڈھلے اس کنچن کایا کے کسی گوشے میں چھپی ہوئی فریجڈیٹی۔ اندر گہرے میں بے ساختہ غصے کے انگارے بھڑکنے لگتے ہیں۔ دانت پر دانت جم جاتے ہیں اور آنکھیں سرخ ہونے لگتی ہیں۔ اس بار جیسے بھی ہو یہ مقابلہ جیتنا ہی ہوگا لیکن۔۔۔ کم بخت کوئی آئیڈیا ہی نہیں سوجھ رہا ہے۔
بے چین تن سے وہ جسم پر گاؤن ڈال کر بالکنی میں چلی آتی ہیں۔ دو دور تک پہاڑوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔ چھوٹی بڑی پہاڑیاں۔۔۔ ایک دوسرے میں پیوست اور الجھی ہوئی سی۔ ان کے آغوش میں سمٹے دیوار، سال اور ساگوان کے درخت اور سترنگی پھولوں کے پودے۔۔۔
وہ کافی دیر تک اس ماحول میں کھڑی رہتی ہیں اور پھر پلنگ پر آجاتی ہیں۔ ایرانی قالین، وی سی آر، صوفہ، بھاری بھاری پردے، جھاڑ، فانوس اور فریج پر نگاہیں جمتی ہیں تو انگلیاں کال بیل بجا اٹھتی ہیں۔ تھوڑی ہی دیر میں چرنی داخل ہوتی ہے۔ ’’بیئر تو بنا‘‘ کہتی نڈھال ہو کر صوفے پر بکھرجاتی ہیں۔
یس میم صاحب! یہاں رہتے ہوئے ، میم صاحب، نو میم صاحب، کے آداب سیکھ گئی ہے چرنی۔ آنا ’’فانا‘‘ فریج کھول کر بیئر کی بوتل نکالتی ہے اور گلاس تیار کردیتی ہے۔ بیئر کی چسپکیاں لیتے ہوئے ذہن فینسی ڈریس کا کوئی نایاب نمونہ ڈھونڈنے میں مصروف ہوجاتا ہے۔
شادی کے فوراً بعد ہی پتا چل جاتا ہے کہ ڈالمیا صاحب کی نگاہوں کی مرکز مس اروڑہ ہیں۔ گورا دودھیا بدن، بول چال اور رہن سہن میں کانونٹ اسکول کی چھاپ ، کالج کے دنوں سے ہی شناسائی تھی۔ پھر پتا نہیں کن وجوہات سے آپسی تعلقات خراب ہو گئے اور غصے میں اروڑہ نے کہیں اور شادی بھی کر لی۔ شادی کے چھ ماہ بعد ہی بیوگی کے اولے پڑ گئے تھے۔ جسے انہوں نے بندھنوں سے نجات سمجھ لیا اور پھر ماں باپ کے پاس لوٹ کر ’مس ‘ کا لیبل چسپاں کرکے پرانے عشق کے نئے ایڈیشن کی شروعات کر دی تھیں۔
شادی کے بعد ہی پتا چلا کہ مسز ڈالمیا کے ساتھ شادی تو ان سب پر پروہ ڈالنے کا ایک بہانا تھا۔ وقت بے وقت مس اروڑہ سے ملنے کا سماجی اور قانونی بہانا۔ مسز ڈالمیا کے سامنے ہی ڈالمیا صاحب مس اروڑہ کے ساتھ رنگینیوں میں مست رہتے اور وہ بے جان کٹھ پتلی سی دیکھتی رہتی۔
اور پھر گذشتہ سال کی وہ وقت سے پہلے کی زچگی۔۔۔سیزیرین۔۔۔ مرے ہوئے بچے کی ولادت کے بعد حالات کا اور بھی گمبھیر ہوجانا۔۔۔ موت سے لڑتے ہوئے وہ تلخ لمحے۔۔۔۔
’’تمہاری جیسی سرد عورت کے لئے یہی مراعات کیا کم ہیں کہ دنیا کی نگاہوں میں تم ایک باعزت افسر کی باعزت بیوی ہو؟ میری ذاتی زندگی کو کھنگالنے کی حماقت قطعی نہ کرنا ۔ سمجھیں! ‘‘
ایک دن اداسی کے خلاف جنگ کی تو ڈالمیا صاحب اور بھڑک اٹھے تھے اور آپسی تعلقات اور بھی تلخ ہوگئے تھے۔ اس کے بعد کچھ بھی کہنے کی ہمت نہ ہوئی اور شہر کے ماہرین ابھی تک یہ طے نہیں کر سکے تھے کہ فریجڈٹی جسم کے کس حصے میں چھپی ہوئی ہے۔
نگاہیں بے ساختہ کیبنٹ پر رکھے فوٹو البم پر جاتی ہیں تو وہ اٹھ کر اسے اٹھالاتی ہیں۔ شادی کے بعد ایک آدھ بار ہی دیکھ سکی ہیں۔ اس میں بچپن سے اب تک کے اہم لمحے قید ہیں۔ ہر فوٹو کے آس پاس لپٹی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں۔ اچانک ایک فوٹو پر نگاہیں تھم جاتی ہیں۔ مس اروڑہ کا ہاتھ چومتے ہوئے ڈالمیا صاحب’’یونیمف۔۔۔ خود میں اتنی طاقت نہیں کہ اپنے ہسبینڈ کو باندھ کر رکھ سکو اور دوسروں پر الزام لگاتی ہو۔۔۔ ‘‘ایک بار ڈالمیا صاحب کی غیر موجودگی میں اروڑہ بنگلے پر آئی تھیں وہ اس سے الجھ پڑی تھیں۔ اروڑہ کے کہے الفاظ آج بھی کانٹے کی طرح اس کے کلیجے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ وہ غصے میں اس فوٹو کی چندی چندی کر کے اچھال دیتی ہیں۔ نتھنے پھڑکنے لگتے ہیں۔ نہیں، اس بار کے مقابلے میں مس اروڑہ کو ہرانا ہی ہوگا۔۔۔ کلب کی صدارتی کرسی حاصل کرنی ہی ہوگی۔
سر میں ہلکا ہلکا درد ہونے لگا ہے۔ آگے بڑھ کر وہ وی سی آر چلا دیتی ہیں۔ وی سی آر میں کسی انگریزی فلم کا کیسٹ لگا ہوا ہے۔ جب سے ڈالمیا صاحب اور مس اروڑہ کی قربتیں بڑھی ہیں تنہائی کی خاموشیوں کو اس کیسٹس کا سہارا دلکش لگتا ہے شاندار ہوٹل، سویمنگ پول۔۔۔ قوس قزح کی قدرتی آمیزش، آدم، ابو، اسکرین پر ابھر رہے ہیں لیکن اب ان سب میں بھی فینسی ڈریس کا کوئی آئیڈیا نہیں سوجھ رہا ہے اور من اداس ہوجاتا ہے۔
نگاہیں گھڑی پر جاتی ہیں تو چونک اٹھتی ہیں، یعنی کہ دو گھنٹے بیت گئے۔۔۔ اتنی جلدی ۔۔۔ اٹھ کر تروتازہ ہونے کے لئے باتھ روم میں گھس جاتی ہیں۔ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھ کر میک اپ کرتے ہوئے نگاہیں ٹیبل کے نیچے رینگتی ہیں جہاں سے سفید کپڑے کا کوئی ٹکڑا جھانک رہا ہوتا ہے، جھک کر اٹھا لیتی ہیں۔
بلاؤز ہے۔۔۔ پرانا۔۔۔ پیوند لگا ۔۔۔ جیسے ہاتھ میں چھپکلی آگئی ہو۔ تیزی سے بلاؤز پھینک دیا اور آواز دی ’’چرنی ! ‘‘
پیوند لگے کسی بھی کپڑے سے انھیں سخت الرجی ہے۔ چھوتے ہی لگتا ہے جیسے کسی لزلزے کیڑے کو چھو لیا ہو۔۔۔ بچپن سے ہی ایک گانٹھ سی بن گئی ہے۔ جب بارہ سال کی تھیں۔۔۔ امریکہ سے بوا نے ایک خوبصورت جینس بھیجی تھی۔ اس کا پسندیدہ رنگ تھا۔ ایک بار پتا نہیں کیسے کلہ چےنال سے چھوٹا سا سوراخ ہوگیا تھا حالانکہ سوراخ نہیں تھا اور رفو ہوتے ہی مٹ بھی گیا تھا لیکن اس جینس کو دوبارہ نہیں پہن سکیں۔ نظریں خودبخود رفو والی جگہ کو ڈھونڈ لیتیں اور تب اسے دیکھتے ہوئے جی عجیب سا مچلنے لگتا۔ اس طرح کے ساڑھی بلاؤز نئی ہونے کے باوجود وہ نوکرانیوں کو دے دیتیں۔ انہیں یاد آتا ہے دونوں بغلوں کے مسکے ہوئے اس بلاؤز کو کچھ ہی دن پہلے چرنی کو دیا تھا۔ لیکن۔۔۔ اسے اس طرح بیڈ روم میں پھینکنے کی ہمت کیسے ہوئی؟
’’یہ کیا ہے۔۔۔؟‘‘ وہ تڑپتی آواز میں پوچھتی ہیں۔ بلاؤز پر نگاہ پڑتے ہی چرنی کا چہرہ سفید ہوجاتا ہے۔ بلاؤز کو پیچھے چھپاتی ہوئی گڑگڑاتی ہے،’’ساری میم صاحب‘‘ !
’’میں پوچھتی ہوں بلاؤز بیڈ روم میں کیسے آیا۔۔۔؟‘‘ وہ غصے سے کانپ رہی ہیں۔
’’بھول ہوگئی میم صاحب! معافی دے دو ۔۔۔‘‘ چرنی خوف زدہ ہرنی کی طرح سر جھکالیتی ہے۔ الفاظ کانپتے ہوئے سے باہر آتے ہیں اور آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔۔۔ کل صاحب نو بجے لوٹے تھے۔ میم صاحب صبح ہی کلب کی طرف سے پکنک پارٹی میں جودھپور چلی گئی تھیں۔ صاحب نے کھانا بیڈ روم میں ہی لانے کو کہا تھا اور جب وہ کھانا لے کر بیڈ روم میں پہنچی تھی تو بجلی کی سی تیزی سے اٹھ کر صاحب نے دروازہ بند کر لیا تھا۔ وہ صاحب کا ارادہ بھانپ کر گھٹی گھٹی چیخ میں بول اٹھی ’’نہیں صاحب ۔۔۔ نہیں ہم کو جانے دو۔۔۔‘‘
صاحب اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے مسکرائے تھے، ’’دیکھ ۔۔۔ میں نے تمہیں نوکری دی۔ ۔۔۔کوارٹر دیا۔۔۔ ماں کو ساتھ رکھے پر بھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔۔۔ بدلے میں کبھی کچھ لے لیں تو تیرا کچھ نہیں بگڑے گا۔ ابھی یہاں سے نکال دیں تو بڑھیا کو لے کر سڑک پر ماری ماری پھروگی۔۔۔ سمجھی۔۔۔؟‘‘
اس کی آنکھوں کے آگے شبو کے مرنے کے بعد سے اب تک بیتے دنوں کی باتیں فلم کی طرح ذہن پر گھومنے لگیں۔ اپنی آبرو کی حفاظت اور ایک نوکری کے لیے کہاں کہاں نہیں بھٹکی تھی۔ انجانے، بیگانے شہر میں ایک مرد کے بغیر زندگی کتنی بے بس ہو اٹھی تھی۔ جہاں بھی نوکری ملتی کچھ ہی دنوں میں وہاں کے سیٹھ ساہوکاروں کی ہوس رنگ دکھانے لگتی۔ ڈالمیا صاحب کے یہاں شروعات ابھی ہوئی تھیں آج ہی۔ کوکھ میں پل رہے چوتھے مہینے کو لے کر سڑکوں پر بھٹکنے کی اب ہمت نہیں ہے۔ قبل اس کے کہ وہ مزید کچھ کہہ پاتی صاحب نے اسے دبوچ لیا تھا۔
اس وقت وہ یہی بلاؤز پہنے ہوئے تھی۔ صاحب نے اسے نیا بلاؤز پہنایا تھا۔
مسز ڈالمیا کا موڈ اکھڑ گیا۔ وہ باتھ روم میں جاکر پھر سے نہاتی ہیں کہ غلاظت دور ہوسکے ۔
وہ لوٹتی ہیں تو بیئر اور جن کے ملے جلے نشے سے پلکیں بوجھل ہوجاتی ہیں۔ رات کے گیارہ بج چکے ہیں۔ گاڑی شیڈ میں پارک کرکے لڑکھڑاتے قدموں سے بیڈ روم میں آتی ہیں۔ آنکھوں کے آگے دھند چھا رہی ہے۔۔۔ بیڈ روم کا دروازہ کھلتا ہے اور ڈالمیا صاحب مس اروڑہ کی کمر میں بانہیں ڈالے داخل ہوتے ہیں۔۔۔ ارے اس چڑیل کی ہمت کیسے ہوئی یہاں آنے کی۔۔۔
’’منہ نوچ لوں گی تمہارا۔۔۔ یوبچ ۔۔۔‘‘ بپھر کر شیرنی کی طرح جھپٹتی ہیں کہ ڈالمیا صاحب دہاڑتے ہیں۔ بی ہیو یور سیلف آجا۔۔۔ شی ازمائی فرینڈ۔۔۔‘‘ فرینڈ لفظ کی حرارت جسم کو جھلسا دیتی ہے اور وہ گلدان اٹھا کر اروڑہ پر پھینک مارتی ہیں۔ زناٹے دار آواز کے ساتھ ڈریسنگ ٹیبل کا شیشہ چور چور ہو جاتا ہے۔ باتھ روم میں جاکر آنکھوں پر پانی کے چھینٹے مارتی ہیں۔ سارے کمرے میں خاموشی کا گہرا پہرہ ہے۔ بستر کی چادر پر ایک بھی سلوٹ نہیں ہے۔ سارا جسم اینٹھنے لگتا ہے۔
بنگلے کے باہر گیراج کے بغل میں سرونٹ کواٹرس تھے۔ قدم اس طرف بڑھ جاتے ہیں۔ کمرے کے اندر کی گرمی سے بچنے کے لئے چرنی کمرے کے باہر ہی زمین پر پھیلی ہوئی ہے۔ جسم پر گوجروں کا روایتی لباس، گھاگھرا اور انگیا ہے۔ کلی دار گھنے جھالروں والا گھاگھرا اور پیٹھ کی طرف صرف ڈوڑ سے بندھی بریسیر نما انگیا۔ دونوں ہی کپڑے اتنے گندے ہو چکے ہیں کہ ان کا اصل رنگ ہی ختم ہوچکا ہے۔ گھاگھرا کے کناروں پر بیل بوٹے بنے ہوئے ہیں جن کا گوٹا کالا پڑ چکا ہے، چھوٹے بڑے چار پانچ پیوند بھی ہیں۔
مسز ڈالمیا حیرت سے دیکھتی ہوئی اور قریب آجاتی ہیں۔ آجاتی ہیں۔ چرنی کے گلے میں رنگین کانچ اور کوڑیوں کی مالا ہے۔ دونوں بانہوں میں کہنیوں تک چوڑیاں ہیں پاس ہی اوڑھنی رکھی ہے۔
’’چرنی۔۔۔‘‘ جوش اور حیرت کے ہاتھ اسے جھنجھوڑنے لگتے ہیں۔
چرنی ایک ہی آواز میں اٹھ بیٹھتی ہے،’’ارے۔۔۔میم صاحب۔۔۔ اس وقت یہاں۔۔۔‘‘
وہ اسے بیڈ روم میں لے آتی ہیں۔ ٹیوب کی دودھیا روشنی میں چرنی کا آد ی واسی شرنگار اور بھی مادک لگنے لگتا ہے، کچھ دیر تک بغیر پلکیں جھپکائے دیکھتی رہ جاتی ہیں۔ پھر الماری سے ایک نائٹی نکال کر اسے حکم دیتی ہیں’’نہا کر یہ نائٹی پہن آ۔۔۔ اسی باتھ روم میں۔۔۔‘‘
چرنی کی آنکھیں حیرت سے پھیل جاتی ہیں۔ میم صاحب اپنے باتھ روم میں نہانے کو کہہ رہی ہیں وہ بھی اسی وقت۔۔۔ ’’صابن اور شیمپو بھی استعمال کرسکتی ہے۔۔۔ ہری اپ۔۔۔‘‘ پتا نہیں آواز میں کیسی گونج تھی کہ چرنی کے پاؤں باتھ روم کی طرف بڑھ جاتے ہیں۔
قریب دس منٹ بعد وہ جیسے ہی باہر آتی ہے کسی عیاشی کی طرف وہ چرنی کو آغوش میں لے کر پلنگ پر گرا کر گوندھ جاتی ہیں۔ کس کونے میں چھپی ہوئی ہے فریجڈٹی۔۔۔ پاگلوں کی طرح نوچ کھسوٹ کے روپ میں یہ تلاش کافی دیر تک جاری رہتی ہے۔
’’یہ جو تیرا گھاگھرا چولی ہے نا۔۔۔ دھوکر سکھا دے انہیں ۔۔۔ ابھی۔۔۔ اسی وقت۔۔۔‘‘ چہرے پر اطمینان کی ہلکی سرخی لئے نائٹی کے ڈور باندھتے ہوئے وہ نیا حکم دیتی ہے۔
’’دھودوں۔۔۔ابھی آدھی رات کو۔۔۔؟‘‘
’’ہاں ۔۔۔ صبح ہی صبح مجھے اس کی ضرورت پڑے گی۔‘‘ ان کی آواز کامیابی کی خوشی سے لبریزتھی،’’آپ پہنیں گی انھیں۔ ۔۔۔ ؟‘‘ میم صاحب کے دہرے بدن کو دیکھتے ہوئے چرنی حساب لگاتی ہے۔۔۔ گھاگھرا تو چلے گا لیکن چولی،’’زیادہ سوال جواب نہیں۔۔۔ جو کہا جارہا ہے وہی کر۔۔۔‘‘
’’ہم معافی چاہتے ہیں میم صاحب! ہم گھاگھرا چولی نہیں دے سکیں گے۔۔۔ ‘‘وہ سر جھکا لیتی ہے۔
’’کیا ۔۔۔؟‘‘ آواز ربڑ کی طرح کھینچ جاتی ہے اور آنکھیں پھیل کر بڑی ہوجاتی ہیں۔
’’سچ میم صاحب ۔۔۔ سچ اس گھاگھرا چولی کو چھوڑ کر آپ دوسرا کوئی بھی کپڑا لے لو۔ یہ گھاگھرا چولی ہمارے مرد کی نسانی ہے۔۔۔ اسے نہ لو۔‘‘ ہمک کر کے چرنی کہتی ہے اور گلا رندھ جاتا ہے۔
’’لیکن میں تو صرف دو تین گھنٹوں کے لئے لے رہی ہوں۔۔۔‘‘ آواز سخت ہوجاتی ہے، ’’چاہیں تو بازار سے نیا سیٹ منگوا سکتی ہیں لیکن نئے سیٹ سے میک اپ میں اتنی حقیقت نہیں آپائے گی جتنی پرانے کپڑوں سے۔۔۔‘‘ جملہ پورا نہیں کرپاتی کہ وہ چیخ پڑتی ہیں،’’شٹ اپ! یو بلڈی راسکل! تم کو نا کرنے کی ہمت کیسے ہوئے۔ ہم نے نوکری دی کوارٹردیا۔ ابھی نکال دیں یہاں سے تو۔۔۔ بڑھیا کو لیے لیے ماری پھروگی!‘‘
چرنی کی آنکھیں ڈبڈبا آتی ہیں۔ ہوبہو وہی الفاظ۔ ایک دوسرے کے متوازی رہتے ہوئے بھی دو لکیریں خود غرضی کے ننھے نقطے پر کس طرح جڑ جاتی ہیں۔ سوچتی ہوئی وہ باتھ روم کی طرف بڑھ جاتی ہیں۔
شیبو کے ساتھ بیاہ اور کے بعد دوسال۔۔۔ کس قدر ست رنگی ہوئی تھی وہ دن بھر شہر میں کافی دنوں تک ادھر ادھر بھٹکتے رہتے تھے۔ پھر شیبو کو کارخانے میں نوکری مل گئی تھی۔ رات کو اس کی مضبوط آبنوسی بانہوں میں خود کو چھپا کر چرنی سارے دکھ بھول جاتی۔ پہلی تنخواہ پر شیبو یہی گھاگھرا چولی خرید کر لایا تھا۔
ہم لاکھ رہ لیں شہر میں۔۔۔ ہماری آتما تو گاؤں کی اس سوہنی مٹی میں بستی ہے نا۔ یہ تیرے لیے لایا ہوں اسے میری یادگار سمجھ لیجو۔ تجھے قسم ہے میری۔۔ اس گھاگھرا چولی میں صرف تیرے ہی بدن کی مہک رہنی چاہئے۔ صرف تیرے جسم کا اس پر کسی دوسری لو گائی کو چھونے بھی نہ دینا اس رات وہ شیو کے پیار پر مدہوش ہوگئی تھی۔ شیبو کو مرے کافی دن ہوگئے ہیں مگر اس کی قسم کانوں میں شہنائی کی طرح اب بھی گونجتی رہتی ہے۔ ابھی تک اپنے پتی کے قسم کو نبھاتی رہی ہے لیکن آج۔
معزز مہمانوں سے آڈیٹوریم بھرا ہوا ہے۔ سوکھے علاقوں کا اہم دورہ منسوخ کر کے مکھیہ منتری جی ججوں کے پینل کی صدارت کرنے آئے ہیں۔ آڈیٹوریم کے پیچھے والے ہال میں مقابلے میں شریک ہونے والی خواتین اپنا اپنا میک اپ کر رہی ہیں کہ آج انہیں ہی انعام جیتنا ہے۔ مسز ڈالمیا نے سانولے پن کا احساس دینے کے لیے ہاتھ اور منہ پر کالے پاوڈر کی تہہ جما رکھی ہے انہیں سنوارنے میں ان کی تین سہیلیاں مدد کر رہی ہیں مسز ورماچولی کا ڈور باندھنے کے لئے زور لگاتی ہیں تو سامنے ابھار کے پاس ایک ہلکی سی آواز ہوتی ہے اور وہاں کا کپڑا مسخ جاتا ہے۔
گھاگھرا چولی انہوں نے پہن تو لی، لیکن لگتا ہے جسم پر ایک دو نہیں بے شمار چھپکلیاں رینگ رہی ہیں۔ ذہن بھنا رہا ہوتا ہے۔ کسی طرح خود کو قابو میں رکھتی ہیں کہ پہلا انعام انہیں حاصل کرنا ہے۔
پھر شروع ہوتا ہے مقابلہ۔۔۔ ایک ایک کر کے خواتین اسٹیج پر آتی ہیں اور اپنے ڈریس کی نمائش کرتی ہیں مسز ڈالمیا کے اسٹیج پر آتے ہی ہال تالیوں کی گڑگڑاہٹ سے دیر تک گونجتا رہتا ہے۔ پریس فوٹو گرافرس کے کیمرے کے فلیش چمکنے لگتے ہیں۔ مسز ڈالمیا کو پہلے انعام کا حقدار اعلان کیا جاتا ہے۔ مکھیہ منتری جی کے ہاتھوں بڑا سا کپ تھامے آنکھوں میں چمک سی آجاتی ہے۔
’’سب سے بڑا سوال ہے مسز ڈالمیا نے فینسی ڈریس کے لئے آدی واسی پہناوے کو ہی کیوں چنا؟‘‘ مکھیہ منتری جی بھاشن شروع کرتے ہیں۔ ’’اس لیے کہ ۔۔۔ان کے دل میں آدی واسیوں کے لئے ہمدردی کا جذبہ ہے، کتنی خوشی کی بات ہے کہ آدی واسی تہذیب اب بڑی بڑی ہستیوں پر بھی پاؤں جمانے لگی ہے۔ ہم آدی واسی بھائیوں کے لئے بہت کچھ کرر ہے ہیں اور کریں گے۔ ہم نے ان کی ترقی کے لئے بیس کروڑ روپئے منظور کئے ہیں۔ ہم انہیں کھیتی کرنے کے لئے زمینیں دے رہے ہیں۔ ۔۔آبپاشی کے لئے پانی مہیا کر رہے ہیں۔۔ رہنے کے لئے گھر دے رہے ہیں۔۔۔‘‘
’’کاغذ پر ۔۔۔‘‘ ہال میں سے آواز آتی ہے۔
گرین روم کی طرف بڑھتی مسز ڈالمیا کو پریس والوں نے پھر سے گھیر لیا ہے۔ اندر آکر بجلی کی سی تیزی کے ساتھ وہ گھاگھرا اور چولی اتارتی ہیں۔ چولی کسی ہونے کی وجہ سے پھٹ کر چھتڑے چتھڑے ہوجاتی ہے۔ کاردوڑاتی سیدھی بنگلے پر آتی ہیں۔ رواں رواں جیت کی خوشی میں رقصاں ہے۔ ملک کے سارے بڑے اخبارات میں تصویریں آئیں گی۔ مس اروڑہ کا چہرہ تو چوہے سا لٹک جائے گا۔
کپ کوٹیبل پر رکھ کر فلائنگ کس دیتی ہوئی تیر کی طرح باتھ روم میں داخل ہوجاتی ہیں۔ نصف گھنٹے کی محنت کے بعد بدن سے چپکے پیوند کو نوچ پھینکنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں۔ کمرے میں آکر بیل دباتی ہیں اور کچھ ہی لمحوں میں چرنی داخل ہوتی ہے۔
’’یہ تیرا گھاگھرا چولی۔ انہیں کے لئے تو کرناکر رہی تھی نا لے سنبھال لے۔۔۔‘‘جیت کی خوشی سے آواز کانپ رہی تھی۔ تار تار ہوئی چولی کو دیکھتے ہوئے چرنی کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔
’’اور یہ کل والی نائٹی بھی تو رکھ لے۔۔۔ رات میں ضرورت پڑسکتی ہے۔۔ ۔‘‘آواز میں کپکپی کے ساتھ جوش بھی شامل ہے دانت پر دانت جما کر چرنی باہر آجاتی ہے۔ فیصلے میں ایک ہی پل لگتا ہے۔۔۔ اب یہاں ایک لمحے بھی نہیں رکے گی۔ نائٹی ایک طرف کمرے میں پھینک کر وہ سیدھے اور مضبوط قدموں سے کوارٹر کی طرف بڑھ جاتی ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.