چھوئی موئی
آرام کرسی ریل کے ڈبے سے لگادی گئی اور بھائی جان نے قدم اٹھایا، ’’الہٰی خیر۔۔۔ یا غلام دستگیر۔۔۔ بارہ اماموں کا صدقہ۔ بسم اللہ بسم اللہ۔۔۔ بیٹی جان سنبھل کے۔۔۔ قدم تھام کے۔۔۔ پائنچہ اٹھاکے۔۔۔ سہج سہج، بی مغلانی نقیب کی طرح للکاریں۔ کچھ میں نے گھسیٹا کچھ بھائی صاحب نے ٹھیلا۔ تعویذوں اور امام ضامنوں کا اشتہار بنی بھابی جان تنے ہوئے غبارے کی طرح ہانپتی سیٹ پر لڑھک بیٹھیں۔
’’پاک پروردگار تیرا شکر‘‘، بی مغلانی کے منہ سے اور ہمارے دلوں سےنکلا بغیر ہاتھ پیر ہلائے ہانپ جانے کی عادت شاید وہ ساتھ لے کر تو پیدا نہ ہوئی ہوں گی اور نہ اناؤں، دایاوں کی لاڈ بھری گودوں میں ان کا اچار پڑا۔ پھر بھی اوسط درجے کی خوبصورت دبلی پتلی لڑکی چند ہی سال میں پھپھولے کی طرح نازک بن گئی۔ بات یہ ہوئی کہ سیدھی ماں کے کولہے سے توڑ بھائی جان کے پلنگ کی زینت بنادی گئیں اور وہاں ایک شگفتہ پھول کی طرح پڑے مہکنے کے سوا ان پر زندگی کا اور کوئی بار نہ پڑا۔ بی مغلانی شادی کے دن سے انہیں پالنے پوسنے پر مقرر کردی گئیں۔ صبح سویرے یعنی جب بڑے لوگوں کی صبح ہوتی ہے۔ سلیجی میں منہ دھلاکر وہیں مسہری پر جوڑا بدل کر چوٹی کنگھی سولہ سنگار کر کے بھرپور دلی کے ناشتے کا خوان سامنے چن لیا جاتا جسے صاف کرکے میری پھولے پھولے کلوں والی بھابی ہتھیلی پر ٹھڈی رکھے بیٹھی مسکرایا کرتیں۔
لیکن یہ مسکراہٹیں شادی کے دوسرے ہی سال پھیکی پڑگئیں اور ان کا سلسلہ ہر وقت تھوکنے اور قے کرنے میں گزرنے لگا۔ مہکتے ہوئے پھولوں میں لدی مہ پارہ کے بجائے اس روگ میں مبتلا بیوی کو پاکر بھائی جان بھی بدکنے لگے۔ مگر اماں بیگم اور بی مغلانی کے یہاں تو جانو بہار آگئی۔ پہلے ہی مہینے سے گدیلے پوتڑے اس مور و شور سے سلنے لگے جانو کل ہی پرسوں میں زچگی ہونے والی ہے۔ مارے تعویذوں کے جسم پر تل دھرنے کی جگہ نہ رہی، آئے دن کے ٹونے ٹوٹکے دم بولانے لگے۔ ویسے ہی بھابی جان کے دشمن کا ہے کو چلنے پھرنے کے شوقین تھے۔ اب تو بس کروٹ بھی لیں تو مغلانی بی، اللہ، بسم اللہ کے جی جی کاروں سے گھر سر پر اٹھا لیتیں اور بس دن بھر وہ کچے گھڑے کی طرح سینت کر رکھی جاتیں۔ صبح شام پیر فقیر دم درود کرنے اور پھونکیں مارنے آتے۔
لیکن باوجود کہ مغلانی کا پہرہ سخت تھا، کچا گھڑا وقت سے پہلے ہی کھل گیا اور ارمانوں پر پانی پھر گیا۔ ڈال پھر خالی رہ گئی۔ بور جھڑ گیا۔ پرجان بچی لاکھوں پائے اللہ اور دے گا۔ گھر کی دولت ہے۔ اللہ نے اور دیا۔ پہرہ پہلے سے چوگنا ہوگا۔ مگر پھر ہاتھ خالی۔ تیسری دفعہ تو معاملہ پہلے سے چوگنا ہوگیا۔ مگر پھر ہاتھ خالی۔ تیسری دفعہ تو معاملہ ذرا قابل غور بن گیا۔ مارے دواؤں کے بھابی جان کا پلیتھن نکل گیا۔ رنگ ایک سرے سے غائب۔ صرف پھولی پھولی ابلی ہوئی شکرقند جیسی رہ گئیں۔ بھائی جان کی شام رات کے بارہ بجے ہونے لگی۔ بی مغلانی اور اماں بیگم کے تیور بھی ذرا چڑھنے اترنے لگے اور بھابی جان کو مسہری پر پڑے پڑے بھائی جان کی دوسری شادی کے شادیانے سنائی دینے لگی۔
اور جب اللہ اللہ کر کے پھر وہ دن آیا تو پیروں مریدوں کے علاوہ دہلی کے ڈاکٹر بھی اپنے سارے تیر تفنگ لے کر تعینات ہوگئے۔ خدا کے کرم سے انگنا مہینہ لگا اور بھابی جان صابن کے بلبلے کی طرح روئی کے پھولوں پر رکھی جانے لگیں۔ کسی کو قریب کھڑے ہوکر چھینکنے یا ناک سنکنے کی بھی اجازت نہ تھی مبادا ردِعمل سے بلبلہ شق نہ ہو جائے۔
اب ڈاکٹروں نے کہا خطرہ نکل گیا تو اماں بیگم نے بھی سوچا کہ زچگی علی گڑھ ہی میں ہو۔ ذرا سا تو سفر ہے گو بھابی جان دلی چھوڑتے لڑزتی تھیں۔ جہاں کے ڈاکٹروں نے ان کا اتنا سفر صحیح و سالم کٹوا دیا تھا۔ اب آنکھوں کی سوئیاں ہی تو رہ گئی تھیں۔ دوسرے وہ زمانے کے تیور دیکھ رہی تھیں، اگر اب کے وار خالی گیا تو بھائی جان کو ان کے سینے پر سوت لانے میں کوئی بہانہ بھی آڑے نہ رہے گا ۔اب تو وہ نام چلائے والے کی آڑ لے کر سب کچھ کرسکتے تھے۔ خبر نہیں بیچارے کو اتنا اپنا نام زندہ رکھنے اور اسے چلانے کی کیوں فکر پڑی تھی حالانکہ خود ان کا کوئی اونچا نام تھا ہی نہیں، دنیا میں۔ مسہری کی زینت کا جو ایک اہم فرض ہے، اگر وہ بھی نہ پورا کر سکیں تو یقیناً انہیں سکھ کی سیج چھوڑنا پڑے گی۔ یہ چند سال نوجوانی اور حسن کے بل بوتے پر وہ ڈٹی رہیں، پھر اب تو ذرا تخت کے پائے ڈگمگاتے جارہے تھے اور وہ انہیں الٹ دینے کو تیار تھا اور پھر اس تخت سے اتر کر بے چاری کے پاس دوسری جگہ کہاں تھی۔ سینا پرونا تو انہوں نے سیکھا اور نہ اس میں جی لگا۔ دو بول پڑھے تھے، سو وہ بھی بھول بھال گئی تھیں۔ سچ تو یہ ہے کہ دنیا میں اگر ان کا کوئی کھلانے پلانے والا نہ رہے تو وہ صرف ایک کام اختیار کر سکتی ہیں۔ یعنی وہی خدمت جو وہ بھائی جان کی کرتی تھیں خلقِ خدا کی کریں۔
لہٰذا وہ جی جان سے اس بار ایک ایسا ہتھیار مہیا کرنے پر تلی ہوئی تھیں جس کے سہارے ان کے کھانے پہننے کا انتظام تو ہو جاتا۔ باپ نہیں، دادا دادی تو پالیں گے ہی۔
زبردست کا ٹھینکا سر پر۔ اماں بیگم کا نادر شاہی حکم آیا اور ہم لوگ یوں لدے پھندے علی گڑھ چل پڑے۔ نئے تعویذوں اور ٹوٹکوں سے لیس ہو کر بھابی جان میں بھی اتنی ہمت ہوگئی۔
’’الہٰی خیر‘‘، بی مغلانی انجن کی ٹکر سے بے خبری میں دھڑام سے گریں اور بھابی جان نے لیٹے لیٹے دونوں ہاتھوں سے گھڑا دبوچ لیا۔
’’ہے ہے یہ گاڑی ہے کہ بلا چلا، الہٰی پیروں کا صدقہ۔۔۔ اے مشکل کشا، بی مغلانی بھابی جان کا پیٹ تھام کر بد بد کر کے درود اور کلام پاک کی آیتیں پڑھنے لگیں۔ خدا خدا کرکے غازی آباد آگیا۔
طوفان میل کا نام بھی خوب ہے۔ دندناتی چلی جاتی ہے۔ رکنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ ڈبہ پورا اپنے لیے ریزرو تھا۔ بھیڑ بھاڑ کا خدشہ ہی نہ تھا۔ میں کھڑکی کے سامنےوالی گلی میں بھری ہوئی مخلوق سے مطالعے میں محو اور بی مغلانی انجن کی سیٹی کے خوف سے کان بند کیے بیٹھی تھیں۔ بھابی جان کو تو دور ہی سے بھیڑ کو دیکھ کر چکر آگیا اور وہ وہیں پڑی پر پسر گئیں۔ جوں ہی ریل رینگی، ڈبہ کا دروازہ کھلا اور ایک کنواری گھسنے لگی۔ قلی نے بہیترا گھسیٹا، مگر وہ چلتی ریل کے پائیدان پر ڈھیٹ چھپکلی کی طرح لٹک گئی اور بی مغلانی کی ’’ہیں ہیں‘‘ کی پرواہ نہ کرکے اندر رینگ آئی اور غسل خانے کے دروازے سے پیٹھ لگا کر ہانپنے لگی۔
’’اے ہے موئی توبہ ہے‘‘، بی مغلانی ممنائیں۔ ’’اے نگوڑی کیا پورے دن سے ہے۔‘‘
’’ہانپتی ہوئی بیدم عورت نے اپنے پپڑیاں جمے ہونٹوں کو بمشکل مسکراہٹ میں پھیلایا اور اثبات میں سرہلایا۔
’’اے خدا کی سنوار دیدہ تو دیکھو سردار کا۔۔۔ توبہ ہے اللہ توبہ‘‘، اور وہ باری باری اپنے گالوں پر تھپڑ مارنے لگیں۔
عورت نے کچھ جواب نہ دیا صرف درد کی شدت سے تڑپ کر غسل خانے کا دروازہ دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا۔ سانس اور بے ترتیب ہوگیا اور پیشانی پر پسینے کے قطرے ٹھنڈی مٹی پر اوس کی بوندوں کی طرح پھوٹ آئے۔
’’اری کیا پہلوٹھی کا ہے؟‘‘ بی مغلانی نے اس کے الھڑپن سے خوفزدہ ہو کر کہا اور اس بار کرب کا ایسا حملہ پڑا کہ وہ جواب ہی نہ دے سکی۔ اس کے چہرے کی ساری رگیں کھنچنے لگیں، لمبے لمبے آنسو اس کی ابلی ہوئی آنکھوں سے پھوٹ نکلے۔ بی مغلانی ہے ہے، اوئی، ہائے، کرتی رہیں اور وہ درد کی لہر کو گھونٹتی رہی۔ میں بسور رہی تھی اور بھابی جان سسکیاں لے رہی تھیں۔
’’اے ہے بی گنواری کیا مزے سے بیٹھی دیکھ رہی ہو۔ اے بیٹی ادھر منہ کر کے بیٹھو‘‘، اور گنواری نے جلدی سے منہ ادھر کر لیا۔ پھر جوں ہی درد کی لہر سے تڑپ کر اس نے آواز نکالی، گردن قابو میں نہ رہ سکی، اور بی مغلانی نے صلواتیں سنانی شروع کیں، ’’اونھ، توبہ، جیسے ایک بچے کو دنیا میں داخل ہوتے دیکھ کر میرا کنوارپن مسخ ہی توجائے گا۔‘‘ بھابی جان دوپٹہ منہ پر لپیٹے بسور رہی تھیں۔ بی مغلانی ناک پر برقعہ رکھے خی خی تھوک رہی تھیں اور ریل کے فرش کی جان کو رو رہی تھی۔
ایک دم ایسا معلوم ہوا ساری دنیا سکڑ کر کھڑی ہوگئی۔ فضا گھٹ کر ٹیڑھی میڑھی ہوگئی۔ شدت احساس سے میری کنپٹیاں لوہے کی سلاخوں کی طرح اکڑ گئیں اور بے اختیار آنسو نکل پڑے۔ میں نے سوچا عورت اب مری اور اب مری کہ ایک دم سے فضا کا تشنج رک گیا۔ بی مغلانی کی ناک کا برقعہ پھسل پڑا اور بالکل بھابی جان کی سلیم شاہی جوتیوں کے پاس لال لال گوشت کی بوٹی آن پڑی۔ حیرت اور مسرت کی ملی جلی چیخ میرے منہ سے نکلی اور جھک کر اس ننھی سی کائنات کو دیکھنے لگی جس نے اپنا لمبا چوڑا دہانہ کھول کر ہائے توبہ ڈال دی۔
بی مغلانی نے میری چوٹی پکڑ کر مجھے کونے میں ٹھونس دیا اور اس عورت پر گالیوں اور ملامتوں کا طومار لے کر ٹوٹ پڑیں۔ میں نے سیٹ کے کونے سے آنسوؤں کی چلمن سے جھانک کر دیکھا تو وہ عورت مری نہ تھی۔ بلکہ اس کے سوکھے ہوئے ہونٹ جنہیں اس نے چپا ڈالا تھا۔ آہستہ آہستہ مسکراہٹ میں پھیل رہے تھے۔ اس نے ننھے سے سائل کی واویلا سے بے چین ہوکر آنکھیں کھول دی۔ آڑی ہوکر اس نے اسے اٹھا لیا۔ کچھ دیر وہ اپنے ناتجربہ کار ہاتھوں سے اسے صاف کرتی رہی۔ پھر اس نے اوڑھنی سے دھجی پھاڑ کر نال کو کس کر باندھ دیا۔ اس کے بعد وہ بے کسی سے ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ مجھے اپنی طرف مخاطب دیکھ کر وہ ایک دم کھل کھلا کر ہنس پڑی ’’کوئی چھری چکو ہے بی بی جی؟‘‘
بی مغلانی گالیاں دیتی رہ گئیں۔ بھابی جان نے بسور کر میرا آنچل کھینچا، پر میں نے ناخون کاٹنے کی قینچی اسے پکڑادی۔
اس کا سن میرے ہی اتنا ہوگا یا شائد سال چھ مہینے بڑی ہو۔ وہ اپنے الھڑ، ناتجربہ کار ہاتھوں سے ایک بچہ کانال کاٹ رہی تھی جو اس نے چند منٹ پیشتر جنا تھا۔ اسے دیکھ کر مجھے وہ بھیڑ بکریاں یاد آنے لگیں جو بغیر دائی اور لیڈی ڈاکٹر کی مدد کے گھاس چرتے چرتے پیڑ تلے زچہ خانہ رما لیتی ہیں اور نوزائیدہ کو چاٹ چاٹ کر قصہ ختم کرتی ہیں۔
بزرگ لوگ کنواری لڑکیوں کو بچہ کی پیدائش دیکھنے سے منع کرتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ زیب النساء نے اپنی بہن کے ہاں بچہ پیدا ہوتے دیکھ لیا تھا تو وہ ایسی ہیبت زدہ ہوئی کہ ساری عمر شادی ہی نہ کی۔ شائد زیب النساء کی بہن میری بھابی جان جیسی ہوگی، ورنہ اگر وہ اس فقیرنی کے بچہ پیدا ہوتے دیکھ لیتی تو میری ہی ہم خیال ہو جاتی کہ سب ڈھونگ رچاتے ہیں۔ بچہ پیدا کرنا اتنا ہی آسان ہے جتنا بھابی جان کے لیے ریل پر سوار ہونا یا اترنا۔
اور مجھے تو ایسی بھیانک قسم کی شرم کی بات بھی نہ معلوم ہوئی۔ اس سے کہیں زیادہ بے ہودہ باتیں بی مغلانی اور اماں ہر وقت مختلف عورتوں کے بارے میں کیا کرتی تھیں جو میرے کچے کانوں میں جا کر بھنے چنوں کی طرح پھوٹا کرتی تھیں۔ تھوڑی دیر تو وہ پھوہڑ پن سے بچے کو دودھ پلانے کی کوشش کرتی رہی۔ آنسو خشک ہوچکے تھے اور وہ کبھی کبھی ہنس رہی تھی جیسے اسے کوئی گدگدا رہا ہو۔ پھر مغلانی کے ڈانٹنے پر وہ سہم گئی اور بچے کو چیتھڑوں میں لپیٹ کر الگ سیٹ کے نیچے رکھ دیا ار اٹھ کھڑی ہوئی۔ بھابی جان کی چیخ نکل گئی۔
اتنے میں بی مغلانی بھابی جان کو ٹٹولتی سہلاتی رہیں۔ اس نے باتھ روم سے پانی لاکر ڈبہ کو صاف کرنا شروع کیا۔ بھابی جان کی زرکار سلیم شاہی دھو پونچھ کر کونےسے لگا کر کھڑی کردی۔ پھر اس نے پانی اور چھیتھڑوں کی مدد سے ڈبہ سے جملہ زچگی کے نشانات دور کر ڈالے۔ اتنے میں ہم تینوں مقدس بیبیاں سیٹوں پر لدی احمقوں کی طرح اسے دیکھتی رہیں۔ اس کے بعد وہ بچہ کو چھاتی سے لگا کر باتھ روم کے دروازے کے سہارے ہوبیٹھی جیسے کوئی گھر کا معمولی کام کاج کرکے جی بہلانے فرصت سے بیٹھ جائے اور چنےچباتے چباتے اونگھ گئی۔
پر گاڑی کے دھچکے سے وہ چونک پڑی۔ گاڑی رکتے رکتے اس نے ڈبے کا دروازہ کھولا اور پیر تولتی اتر گئی۔
ٹکٹ چیکر نے پوچھا، ’’کیوں ری ٹکٹ؟‘‘ اور اس نے مسرت سے بے تاب ہوکر جھولی پھیلادی جیسے وہ کہیں سے جھڑبیری کے بیر چرا کر لائی ہو۔ ٹکٹ چیکر منہ پھاڑے کھڑا رہ گیا۔ اور وہ ہنستی پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتی بھیڑ میں گم ہوگئی۔
’’خدا کی سنوار ان خانگیوں کی صورت پر۔ یہ حرامی حلالی جنتی پھرتی ہیں موئی جادوگرنیاں‘‘، بی مغلانی بڑبڑائیں۔ ریل نے ٹھوکر لی اور چل پڑی۔
بھابی جان کی سسکیاں ایک منظم چیخ میں ابھر آئیں، ’’ہے ہے مولا خیر ہے بیگم دلہن!‘‘ بی مغلانی ان کا متغیر چہرہ دیکھ کر لرزیں۔ اور وہاں خیر غائب تھی۔
اور بھابی جان کے ہونق چہرے پر بھائی جان کی دوسری شادی کے تاشے باجے خزاں برسانے لگے۔
قسمت کی خوبی دیکھیے ٹوٹی کہاں کمند
دو چار ہاتھ جب کہ لب بام رہ گیا
نئی روح دنیا میں قدم رکھتے جھجک گئی اور منہ بسور کر لوٹ گئی۔ میری پنچ پھلا رانی نے جو طلسم ہوش ربا قسم کی زچگی دیکھی تو مارے ہیبت کے حمل گر گیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.