چیف کی دعوت
کہانی کی کہانی
ایک ماں کی ممتا اور ایک بیٹے کی خود غرضی کی انتہاؤں کو بیان کرتی ہوئی عمدہ کہانی ہے۔ ماں جس نے بیٹے کی تعلیم کے لیے اپنے زیور تک بیچ دیے ہیں، اس کا بیٹا اپنے چیف کی آمد پر اسے ایک کباڑ کی طرح کوٹھری میں بند کر دینا چاہتا ہے لیکن جب چیف کا سامنا ماں سے ہو جاتا ہے تو چیف بہت اپنائیت سے ماں سے بات چیت کرتا ہے۔ اس سے دیہاتی گیت سنتا ہے اور پنجاب کے گاؤں کی دستکاری کے بارے میں پوچھتا ہے۔ بیٹا بڑھ کر بتا دیتا ہے کہ یہاں کی پھلکاری بہت مشہور ہے اور وہ ماں سے بنوا کر دے دے گا۔ ماں اپنی بینائی کی کمزوری بیان کرتی ہے تو بیٹا اپنی ترقی کی بات کرکے اس کی ممتا کو اکسا دیتا ہے اور وہ پھلکاری بنانے کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔
آج مسٹر شام ناتھ کے گھر چیف کی دعوت تھی۔
شام ناتھ اور ان کی دھرم پتنی کو پسینہ پونچھنے کی فرصت نہ تھی۔ پتنی ڈریسنگ گاؤن پہنے، الجھے ہوئے بالوں کا جوڑا بنائے، منھ پر پھیلی ہوئی سرخی اور پاؤڈر کو بھولے، اور مسٹر شام ناتھ سگریٹ پر سگریٹ پھونکتے ہوئے، چیزوں کی فہرست ہاتھ میں تھامے، ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں آجارہے تھے۔
آخر پانچ بجتے بجتے تیاری مکمل ہونے لگی۔ کرسیاں، میز، تپائیاں، نیپکن، پھول، سب برآمدے میں پہنچ گئے۔ ڈرنک کا انتظام بیٹھک میں کردیا گیا۔ اب گھر کا فالتو سامان الماریوں کے پیچھے اور پلنگوں کے نیچے چھپایا جانے لگا۔ تبھی شام ناتھ کے سامنے اچانک ایک اَڑچن کھڑی ہوگئی۔۔۔ ماں کا کیا ہوگا؟اس بات کی طرف نہ اُن کا اور نہ ان کی گھروالی کا دھیان گیاتھا۔ مسٹر شام ناتھ شریمتی کی طرف گھوم کر انگریزی میں بولے، ’’ماں کاکیا ہوگا؟‘‘ شریمتی کام کرتے کرتے ٹھہر گئیں اور تھوڑی دیر تک سوچنے کے بعد بولیں، ’’انہیں پچھواڑے ان کی سہیلی کے گھر بھیج دو۔ رات بھر بے شک وہیں رہیں۔ کل آجائیں۔‘‘
شام ناتھ سگریٹ منھ میں رکھے سکڑی آنکھوں سے شریمتی کے چہرے کو دیکھتے ہوے پل بھر سوچتے رہے، پھر سرہلاکر بولے، ’’نہیں، میں نہیں چاہتا کہ اُس بڑھیا کا آنا جانا یہاں پھر سے شروع ہو۔ پہلے ہی بڑی مشکل سے بند کیا تھا۔ ماں سے کہیں کہ جلدی کھانا کھاکے شام کو ہی اپنی کوٹھری میں چلی جائیں۔ مہمان کہیں آٹھ بجے آئیں گے۔ اس سے پہلے ہی اپنے کام سے نبٹ لیں۔‘‘
سجھاؤ ٹھیک تھا، دونوں کو پسند آیا مگر پھر اچانک شریمتی بول اٹھیں، ’’جو وہ سوگئیں اور نیند میں خراٹے لینے لگ گئیں تو؟ ساتھ ہی برآمدہ ہے جہاں لوگ کھانا کھائیں گے۔‘‘
’’تو انہیں کہہ دیں گے کہ اندر سے دروازہ بند کرلیں۔ میں باہر سے تالا لگادوں گا۔ یا ماں کو کہہ دیتا ہوں کہ اندر جاکر سوئیں نہیں، بیٹھی رہیں، اور کیا؟‘‘
’’اور جو سوگئیں تو؟ ڈنر کا کیا معلوم کب تک چلے۔ گیارہ گیارہ بجے تک تو تم ڈرنک ہی کرتے رہتے ہو۔‘‘
شام ناتھ کچھ جھنجھلا اٹھے۔ ہاتھ جھٹکتے ہوئے بولے، ’’اچھی بھلی یہ بھائی کے پاس جارہی تھیں۔ تم نے یوں ہی خود اچھا بننے کے لیے بیچ میں ٹانگ اڑادی۔‘‘
’’واہ! تم ماں اور بیٹے کی باتوں میں میں کیوں بُری بنوں؟ تم جانو اور وہ جانیں۔‘‘
مسٹر شام ناتھ چپ رہے۔ یہ موقع بحث کا نہ تھا، مسئلے کا حل ڈھونڈنے کا تھا۔ انہوں نے گھوم کر ماں کی کوٹھری کی طرف دیکھا۔ کوٹھری کادروازہ برآمدے میں کھلتا تھا۔ برآمدے کی طرف دیکھتے ہوئے جھٹ سے بولے، ’’میں نے سوچ لیا ہے۔‘‘ اور انہیں قدموں ماں کی کوٹھری کے باہر جاکھڑے ہوئے۔ ماں دیوار کے ساتھ ایک چکی پربیٹھی، دوپٹے میں منھ لپیٹے، مالا جپ رہی تھیں۔ صبح سے تیاری ہوتی دیکھتے ہوئے ماں کا بھی دل دھڑک رہاتھا۔ بیٹے کے دفتر کابڑا صاحب گھر پر آرہا ہے، سارا کام سلیقے سے چل جائے۔
’’ماں، آج تم کھانا جلدی کھالینا۔ مہمان لوگ ساڑھے سات بجے آجائیں گے۔‘‘
ماں نے دھیرے سے منھ پر سے دوپٹہ ہٹایا اور بیٹے کو دیکھتے ہوئے کہا، ’’آج مجھے کھانا نہیں کھانا ہے بیٹے۔ تم جانتے ہی ہو، ماس مچھلی بنے تو میں کچھ نہیں کھاتی۔‘‘
’’جیسے بھی ہو، اپنے کام سے جلدی نبٹ لینا۔‘‘
’’اچھا بیٹا۔‘‘
’’اور ماں، ہم لوگ پہلے بیٹھک میں بیٹھیں گے۔ اتنی دیر تم یہاں برآمدے میں بیٹھنا۔ پھر جب ہم یہاں آجائیں تو تم غسل خانے کے راستے بیٹھک میں چلی جانا۔‘‘
ماں گنگ ہوکر بیٹے کاچہرہ دیکھنے لگیں۔ پھر دھیرے سے بولیں، ’’اچھا بیٹا۔‘‘
’’اور ماں، آج جلدی سو نہیں جانا۔ تمہارے خراٹوں کی آواز دور تک جاتی ہے۔‘‘
ماں شرمندہ سی آواز میں بولیں، ’’کیا کروں بیٹا، میرے بس کی بات نہیں ہے۔ جب سے بیماری سے اٹھی ہوں، ناک سے سانس نہیں لے سکتی۔‘‘
مسٹر شام ناتھ نے انتظام تو کردیا، پھر بھی ان کی اُدھیڑبن ختم نہیں ہوئی۔ جو چیف اچانک اُدھر آنکلا تو؟ آٹھ دس مہمان ہوں گے، دیسی افسر، ان کی بیویاں ہوں گی، کوئی بھی غسل خانے کی طرف جاسکتا ہے۔ اور غصے میں وہ پھر جھنجھلانے لگے۔ ایک کرسی کو اٹھاکر برآمدے میں کوٹھری کے باہر رکھتے ہوئے بولے، ’’آؤماں، اس پر ذرابیٹھو تو۔‘‘
ماں مالا سنبھالتی، پلّا ٹھیک کرتی اٹھیں اور دھیرے سے کرسی پر آکر بیٹھ گئیں۔
’’یوں نہیں ماں، ٹانگیں اوپر چڑھاکر نہیں بیٹھتے۔ یہ کھاٹ نہیں ہے۔‘‘ ماں نے ٹانگیں نیچے اتارلیں۔
’’اوخدا کے واسطے، ننگے پاؤں نہیں گھومنا۔ نہ ہی وہ کھڑاؤں پہن کر سامنے آنا۔ کسی دن تمہاری وہ کھڑاؤں اٹھاکر باہر پھینک دوں گا۔‘‘
ماں چپ رہیں۔
’’کپڑے کون سے پہنو گی ماں؟‘‘
’’جو ہیں وہی پہنوں گی بیٹا! جو کہو پہن لوں۔‘‘
مسٹر شام ناتھ سگریٹ منھ میں رکھے پھر اَدھ کھلی آنکھوں سے ماں کی طرف دیکھنے لگے اور ماں کے کپڑوں کی سوچنے لگے۔ شام ناتھ ہر بات میں ترتیب چاہتے تھے۔ گھر کا سب انتظام ان کے اپنے ہاتھ میں تھا۔ کھونٹیاں کمروں میں کہاں لگائی جائیں، بستر کہاں پر بچھیں، کس رنگ کے پردے لگائیں جائیں، شریمتی کون سی ساڑھی پہنیں، میز کس سائز کی ہو۔۔۔ شام ناتھ کو فکر تھی کہ اگر چیف کا سامنا ماں سے ہوگیا تو کہیں شرمندہ نہ ہونا پڑے۔ ماں کو سر سے پاؤں تک دیکھتے ہوئے بولے، ’’تم سفید قمیص اور سفید شلوار پہن لو ماں۔ پہن کے آؤتو، ذرا دیکھوں۔‘‘
ماں دھیرے سے اٹھیں اور اپنی کوٹھری میں کپڑے پہننے چلی گئیں۔
’’یہ ماں کا جھمیلا ہی رہے گا۔‘‘ انہوں نے پھر انگریزی میں اپنی بیوی سے کہا، ’’کوئی ڈھنگ کی بات ہو تو بھی کوئی کہے۔ اگر کہیں کوئی الٹی سیدھی بات ہوگئی، چیف کو برالگا، تو سارا مزہ جاتا رہے گا۔‘‘
ماں سفید قمیص اور سفید شلوار پہن کر باہر نکلیں۔ چھوٹا سا قد، سفیدکپڑوں میں لپٹا، چھوٹا سا سوکھا ہوا جسم، دھندلی آنکھیں، صرف سر کے آدھے جھڑے ہوئے بال پلے کی اوٹ میں چھپ پائے تھے۔ پہلے سے کچھ ہی کم بدہیئت نظر آرہی تھیں۔
’’چلو ٹھیک ہے۔ کوئی چوڑیاں ووڑیاں ہیں تو وہ بھی پہن لو، کوئی ہرج نہیں۔‘‘
’’چوڑیاں کہاں سے لاؤں بیٹا؟ تم تو جانتے ہو، سب زیور تمہاری پڑھائی میں بک گئے۔‘‘
یہ جملہ شام ناتھ کو تیر کی طرح لگا، تنک کر بولے، ’’یہ کون ساراگ چھیڑ دیا ماں؟ سیدھا کہہ دو، نہیں ہے زیور، بس! اس سے پڑھائی وڑھائی کاکیا تعلق ہے؟ جو زیور بکا تو کچھ بن کر ہی آیاہوں، نرا لنڈورا تو نہیں لوٹ آیا۔ جتنا دیا تھا، اس سے دگنالے لینا۔‘‘
’’میری جیبھ جل جائے بیٹا، تم سے زیور لوں گی؟ میرے منھ سے یوں ہی نکل گیا۔ جو ہوتے تو لاکھ بار پہنتی۔‘‘
ساڑھے پانچ بج چکے تھے۔ ابھی مسٹر شام ناتھ کو خود بھی نہادھوکر تیار ہوناتھا۔ شریمتی کب کی اپنے کمرے میں جاچکی تھیں۔ شام ناتھ جاتے ہوئے ایک بار پھر ماں کو ہدایت کرتے گئے، ’’ماں، روز کی طرح گم صم بن کے نہیں بیٹھی رہنا۔ اگر صاحب اِدھر آنکلیں اور کوئی بات پوچھیں تو ٹھیک طرح سے بات کاجواب دینا۔‘‘
’’میں نہ پڑھی نہ لکھی بیٹا، میں کیا بات کروں گی؟ تم کہہ دینا، ماں اَن پڑھ ہے۔ کچھ جانتی سمجھتی نہیں۔ وہ نہیں پوچھے گا۔‘‘
سات بجتے بجتے ماں کا دل دھک دھک کرنے لگا۔ اگر چیف سامنے آگیا اور اس نے کچھ پوچھا تو وہ کیا جواب دیں گی؟ انگریز کو تو دور سے ہی دیکھ کر وہ گھبرا اٹھتی تھیں، یہ تو امریکی ہے۔ نہ معلوم کیا پوچھے۔ میں کیا کہوں گی؟ ماں کا جی چاہا کہ چپ چاپ پچھواڑے وِدھوا سہیلی کے گھر چلی جائیں۔ مگر بیٹے کے حکم کو کیسے ٹال سکتی تھیں۔ چپ چاپ کرسی پر سے ٹانگیں لٹکائے وہیں بیٹھی رہیں۔
ایک کامیاب پارٹی وہ ہے جس میں ڈرنک کامیابی سے چل جائیں۔ شام ناتھ کی پارٹی کامیابی کی بلندیاں چومنے لگی۔ بات چیت اسی رو میں بہہ رہی تھی جس رو میں گلاس بھرے جارہے تھے۔ کہیں کوئی رکاوٹ نہ تھی، کوئی اڑچن نہ تھی۔ صاحب کو وِسکی پسند آئی تھی۔ میم صاحب کو پردے پسند آئے تھے، صوفہ کور کا ڈیزائن پسند آیا تھا، کمرے کی سجاوٹ پسند آئی تھی۔ اس سے بڑھ کر کیا چاہیے۔ صاحب تو ڈرنک کے دوسرے ہی دور میں چٹکلے اور کہانیاں کہنے لگ گئے تھے۔ دفتر میں جتنا رعب رکھتے تھے یہاں پر اتنے ہی دوست پرور ہورہے تھے۔ اور ان کی بیوی کالا گاؤن پہنے، گلے میں سفید موتیوں کاہار، سینٹ اور پاؤڈر کی مہک سے لت پت، کمرے میں بیٹھی سبھی دیسی بیگموں کی تحسین کامرکز بنی ہوئی تھیں۔ بات بات پر ہنستیں، بات بات پر سرہلاتیں اور شام ناتھ کی بیوی سے تو ایسے باتیں کر رہی تھیں جیسے ان کی پرانی سہیلی ہوں۔
اور اسی رو میں پیتے پلاتے ساڑھے دس بج گئے۔ وقت گزرتے پتا ہی نہ چلا۔ آخر سب لوگ اپنے اپنے گلاسوں میں سے آخری گھونٹ پی کر کھانا کھانے کے لیے اٹھے اور بیٹھک سے باہر نکلے۔ آگے آگے شام ناتھ راستہ دکھاتے ہوئے، پیچھے چیف اوردوسرے مہمان۔
برآمدے میں پہنچتے ہی شام ناتھ اچانک ٹھٹک گئے۔ جو انہوں نے دیکھا اس سے ان کی ٹانگیں لڑکھڑاگئیں اور لمحہ بھر میں سارا نشہ ہرن ہونے گا۔ برآمدے میں، عین کوٹھری کے باہر، ماں اپنی کرسی پر جوں کی توں بیٹھی تھیں، مگر دونوں پاؤں کرسی کی سیٹ پر رکھے ہوے، اور سردائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں جھول رہا تھااور منھ میں سے لگاتار گہرے خراٹوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ جب سر کچھ دیر کے لیے ٹیڑھا ہوکر ایک طرف کو تھم جاتا، تو خراٹے اور بھی گہرے ہو اٹھتے۔ اور پھر جب جھٹکے سے نیند ٹوٹتی تو سر پھر دائیں سے بائیں جھولنے لگتا۔ پلا سر پر سے کھسک آیا تھا اور ماں کے جھرے ہوئے بال، آدھے گنجے سر پر اِدھر اُدھر بکھر رہے تھے۔
دیکھتے ہی شام ناتھ غضب ناک ہو اٹھے۔ جی چاہا کہ ماں کودکھادے کر اٹھادیں اور کوٹھری میں دھکیل دیں مگر ایسا کرنا ممکن نہ تھا۔ چیف اور باقی مہمان پاس کھڑے تھے۔ ماں کو دیکھتے ہی دیسی افسر کی کچھ بیویاں ہنس دیں کہ اتنے میں چیف نے دھیرے سے کہا، ’’پوئرڈیئر!‘‘
ماں ہڑبڑا کے اٹھ بیٹھیں۔ سامنے کھڑے اتنے لوگوں کو دیکھ کر ایسی گھبرائیں کہ کچھ کہتے نہ بنا۔ جھٹ سے پلا سر پر رکھتی ہوئی کھڑی ہوگئیں اور زمین کو دیکھنے لگیں۔ ان کے پاؤں لڑکھڑانے لگے اور ہاتھوں کی انگلیاں تھر تھر کانپنے لگیں۔
’’ماں، تم جاکے سوجاؤ۔ تم کیوں اتنی دیر تک جاگ رہی تھیں؟‘‘ اور کھسیائی ہوئی نظروں سے شام ناتھ چیف کے منھ کی طرف دیکھنے لگے۔ چیف کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ وہ وہیں کھڑے کھڑے بولے، ’’نمستے!‘‘
ماں نے جھجکتے ہوئے، اپنے میں سمٹتے ہوئے دونوں ہاتھ جوڑے مگر ایک ہاتھ تو دوپٹے کے اندر مالا کو پکڑے ہوئے تھا، دوسرا باہر، ٹھیک طرح سے نمستے بھی نہ کرپائیں۔ شام ناتھ اس پر بھی جھنجھلا اٹھے۔ اتنے میں چیف نے اپنا دایاں ہاتھ ملانے کے لیے ماں کے آگے کیا۔ ماں اور بھی گھبراگئیں۔
’’ماں، ہاتھ ملاؤ۔‘‘
پرہاتھ کیسے ملاتیں؟ دائیں ہاتھ میں تو مالا تھی۔ گھبراہٹ میں ماں نے بایاں ہاتھ ہی صاحب کے دائیں ہاتھ میں رکھ دیا۔ شام ناتھ دل ہی دل میں جل اٹھے۔ دیسی افسروں کی بیویاں کھلکھلاکر ہنس پڑیں۔
’’یوں نہیں ماں!تم تو جانتی ہو، دایاں ہاتھ ملایا جاتا ہے۔ دایاں ہاتھ ملاؤ۔‘‘
مگر تب تک چیف ماں کابایاں ہاتھ ہی بار بار ہلاکر کہہ رہے تھے، ’’ہاؤڈویو ڈو؟‘‘
’’کہو ماں، میں ٹھیک ہوں، خیریت سے ہوں۔‘‘
ماں کچھ بڑبڑائیں۔
’’ماں کہتی ہیں، میں ٹھیک ہوں۔ کہو ماں، ہاؤڈویوڈو!‘‘
ماں دھیرے سے ہچکچاتے ہوئے بولی، ’’ہوڈوڈو۔۔۔‘‘
ایک بار پھر قہقہہ اٹھا۔ ماحول ہلکا ہونے لگا۔ صاحب نے صورت حال کو سنبھال لیا تھا۔ لوگ ہنسنے چہکنے لگے تھے۔ شام ناتھ کے دل کارنج بھی کچھ کچھ کم ہونے لگا تھا۔ صاحب اپنے ہاتھ میں ماں کا ہاتھ اب بھی پکڑے ہوئے تھے اور ماں سکڑی جارہی تھیں۔ صاحب کے منھ سے شراب کی بو آرہی تھی۔ شام ناتھ انگریزی میں بولے، ’’میری ماں گاؤں کی رہنے والی ہیں۔ عمر بھر گاؤں میں رہی ہیں۔ اس لیے آپ سے لجاتی ہیں۔‘‘ صاحب اس پر خوش نظر آئے۔ بولے، ’’سچ؟‘‘ مجھے گاؤں کے لوگ بہت پسند ہیں۔ تب تو تمہاری ماں گاؤں کے گیت اور ناچ بھی جانتی ہوں گی۔‘‘ چیف خوشی سے سرہلاتے ہوئے ماں کو ٹکٹکی باندھے دیکھنے لگے۔
’’ماں، صاحب کہتے ہیں، کوئی گانا سناؤ، کوئی پرانا گیت۔ تمہیں تو کتنے ہی یاد ہوں گے۔‘‘
ماں دھیرے سے بولیں، ’’میں کیا گاؤں گی بیٹا! میں نے کب گایا ہے؟‘‘
’’واہ ماں!مہمان کاکہا بھی کوئی ٹالتا ہے؟ صاحب نے اتنی ریجھ سے کہاہے، نہیں گاؤگی توصاحب برامانیں گے۔‘‘
’’میں کیا گاؤں بیٹا، مجھے کیا آتا ہے؟‘‘
’’واہ! کوئی بڑھیا ٹپے سنادو۔ دوپترا ناراں دے۔۔۔‘‘
دیسی افسروں اور ان کی بیویوں نے اس تجویز پرتالیاں پیٹیں۔ ماں کبھی بے بس نظر سے بیٹے کے چہرے کو دیکھتیں کبھی پاس کھڑی بہو کے چہرے کو۔ اتنے میں بیٹے نے گمبھیر، حکم بھرے لہجے میں کہا، ’’ماں!‘‘ اس کے بعد ہاں یا نا کا سوال ہی نہ اٹھتا تھا۔ ماں بیٹھ گئیں اور ٹوٹی، کمزور، لرزتی آواز میں ایک پرانا بیاہ کاگیت گانے لگیں۔
’’ہریانی مائے، ہریانی بھینے
ہریاتیں بھاگی بھریا ہے!‘‘
دیسی بیویاں کھلکھلاکر ہنس اٹھیں۔ دوتین مصرعے گاکے ماں چپ ہوگئیں۔ برآمدہ تالیوں سے گونج اٹھا۔ صاحب تالیاں پیٹنا بند ہی نہ کرتے تھے۔ شام ناتھ کی آزردگی اطمینان اور فخر میں بدل اٹھی تھی۔ ماں نے پارٹی میں نیا رنگ بھر دیا تھا۔ تالیاں تھمنے پر صاحب بولے، ’’پنجاب کے گاوؤں کی دستکاری کیا ہے؟‘‘ شام ناتھ خوشی میں جھوم رہے تھے۔ بولے، ’’اوہ، بہت کچھ صاحب! میں آپ کو ایک سیٹ اُن چیزوں کا پیش کروں گا۔ آپ انہیں دیکھ کر خوش ہوں گے۔‘‘ مگر صاحب نے سرہلاکر انگریزی میں پھر پوچھا، ’’نہیں، میں دکانوں کی چیز نہیں مانگتا۔ پنجابیوں کے گھروں میں کیا بنتاہے؟ عورتیں خود کیا بناتی ہیں؟‘‘ شام ناتھ کچھ سوچتے ہوئے بولے، ’’لڑکیاں گڑیاں بناتی ہیں۔ عورتیں پھلکاریاں بناتی ہیں۔‘‘
’’پھلکاری کیا ہے؟‘‘
شام ناتھ پھلکاری کامطلب سمجھانے کی ناکام کوشش کرنے کے بعد ماں سے بولے، ’’کیوں ماں، کوئی پرانی پھلکاری گھر میں ہے؟‘‘
ماں چپ چاپ اندر گئیں اور اپنی پرانی پھلکاری اٹھالائیں۔ صاحب بڑی دلچسپی سے پھلکاری دیکھنے لگے۔ پرانی پھلکاری تھی، جگہ جگہ سے اس کے تاگے ٹوٹ رہے تھے اور کپڑا پھٹنے لگا تھا۔ صاحب کی دلچسپی کو دیکھ کر شام ناتھ بولے، ’’یہ پھٹی ہوئی ہے صاحب، میں آپ کو نئی بنوادوں گا۔ ماں بنادیں گی۔ کیوں ماں، صاحب کو پھلکاری بہت پسند ہے، انہیں ایسی ہی پھلکاری بنادوگی نا؟‘‘ ماں چپ رہیں۔ پھر ڈرتے ڈرتے دھیرے سے بولیں، ’’اب میری نظر کہاں ہے بیٹا؟ بوڑھی آنکھیں کیا دیکھیں گی؟‘‘ مگر ماں کا جملہ بیچ ہی میں توڑتے ہوئے شام ناتھ صاحب کو بولے، ’’وہ ضرور بنادیں گی۔ آپ اسے دیکھ کر خوش ہوں گے۔‘‘ صاحب نے سرہلایا، شکریہ ادا کیا اور ہلکے ہلکے جھومتے ہوئے کھانے کی میز کی طرف بڑھ گئے۔ باقی مہمان بھی ان کے پیچھے پیچھے ہولیے۔
جب مہمان بیٹھ گئے اور ماں پر سے سب کی آنکھیں ہٹ گئیں تو ماں دھیرے سے کرسی پر سے اٹھیں اور سب سے نظر بچاتی ہوئی اپنی کوٹھری میں چلی گئیں۔ مگر کوٹھری میں بیٹھنے کی دیر تھی کہ آنکھوں سے چھل چھل آنسو بہنے لگے۔ وہ دوپٹے سے بار بار انہیں پونچھتیں پر وہ بار بار امڈ آتے، جیسے برسوں کا باندھ توڑ کر امڈ آئے ہوں۔ ماں نے بہتیرا دل کو سمجھایا، ہاتھ جوڑے، بھگوان کا نام لیا، بیٹے کی لمبی عمر کی دعا کی، بار بار آنکھیں بند کیں، مگر آنسو برسات کے پانی کی طرح جیسے تھمنے میں ہی نہ آتے تھے۔
آدھی رات کاوقت ہوگا۔ مہمان کھانا کھاکر ایک ایک کرکے جاچکے تھے۔ ماں دیوار سے سٹ کر بیٹھی آنکھیں پھاڑے دیوار کو دیکھے جارہی تھیں۔ گھر کے ماحول میں تناؤ ڈھیلا پڑچکا تھا۔ محلے کا سکوت شام ناتھ کے گھر پر بھی چھاچکا تھا۔ صرف رسوئی سے پلیٹوں کے کھنکنے کی آواز آرہی تھی۔ تبھی اچانک ماں کی کوٹھری کا دروازہ زور سے کھٹکنے لگا۔
’’ماں، دروازہ کھولو۔‘‘
ماں کا دل بیٹھ گیا۔ ہڑبڑاکر اٹھ بیٹھیں۔ کیا مجھ سے پھر کوئی بھول ہوگئی؟ ماں کتنی دیر سے اپنے آپ کو کوس رہی تھیں کہ کیوں انہیں نیند آگئی، کیوں وہ اونگھنے لگیں۔ کیا بیٹے نے ابھی تک معاف نہیں کیا؟ ماں اٹھیں اور کانپتے ہاتھوں سے دروازہ کھول دیا۔ دروازہ کھلتے ہی شام ناتھ جھومتے ہوئے آگے بڑھ آئے اور ماں کو بغل میں بھرلیا۔
’’اوامی!تم نے تو آج رنگ لادیا۔۔۔ صاحب تم سے اتنا خوش ہوا کہ کیا کہوں۔ او امی! امی۔‘‘ ماں کی چھوٹی سی کایا سمٹ کر بیٹے کی بغل میں چھپ گئی۔ ماں کی آنکھوں میں پھرآنسو آگئے۔ انہیں پونچھتے ہوئے دھیرے سے بولی، ’’بیٹا، تم مجھے ہر دوار بھیج دو۔ میں کب سے کہہ رہی ہوں۔‘‘ شام ناتھ کا جھومنا اچانک بند ہوگیا اور ان کی پیشانی پر پھر تناؤ کے بل پڑنے لگے۔ ان کی بانہیں ماں کے جسم پر سے ہٹ آئیں۔
’’کیاکہا ماں؟ یہ کون سا راگ تم نے پھر چھیڑ دیا؟‘‘ شام ناتھ کا غصہ بڑھنے لگا تھا، بولتے گئے، ’’تم مجھے بدنام کرناچاہتی ہو، تاکہ دنیا کہے کہ بیٹا ماں کو اپنے پاس نہیں رکھ سکتا۔‘‘
’’نہیں بیٹا، اب تم اپنی بہو کے ساتھ جیسا من چاہے رہو۔ میں نے اپنا کھاپہن لیا۔ اب یہاں کیا کروں گی؟ جو تھوڑے دن زندگی کے باقی ہیں، بھگوان کا نام لوں گی، تم مجھے ہردوار بھیج دو۔‘‘
’’تم چلی جاؤگی تو پھلکاری کون بنائے گا؟ صاحب سے تمہارے سامنے ہی پھلکاری دینے کا اقرار کیاہے۔‘‘
’’میری آنکھیں اب نہیں ہیں بیٹا جو پھلکاری بناسکوں، تم کہیں اور سے بنوالو۔ بنی بنائی لے لو۔‘‘
’’ماں، تم مجھے دھوکا دے کے یوں چلی جاؤگی؟ میرا بنتا کام بگاڑو گی؟ جانتیں نہیں، صاحب خوش ہوگا تو مجھے ترقی ملے گی۔‘‘ ماں چپ ہوگئیں، پھر بیٹے کے منھ کی طرف دیکھتی ہوئی بولیں، ’’کیا تیری ترقی ہوگی؟ کیا صاحب تیری ترقی کردے گا؟ کیا اس نے کہا ہے؟‘‘
’’کہا نہیں، مگر دیکھتی نہیں کتناخوش گیا ہے۔ کہتا تھا جب تیری ماں پھلکاری بنانا شروع کریں گی تو میں دیکھنے آؤں گا کہ کیسے بناتی ہیں۔ جو صاحب خوش ہوگیا تو مجھے اس سے بڑی نوکری بھی مل سکتی ہے۔ میں بڑا افسر بن سکتا ہوں۔‘‘ ماں کے چہرے کارنگ بدلنے لگا۔ دھیرے دھیرے ان کاجھریوں بھرا منھ کھلنے لگا، آنکھوں میں ہلکی ہلکی چمک آنے لگی۔
’’تو تیری ترقی ہوگی بیٹا؟‘‘
’’ترقی یوں ہی ہوجائے گی؟ صاحب کو خوش رکھوں گاتو کچھ کرے گا، ورنہ اس کی خدمت کرنے والے اور تھوڑے ہیں؟‘‘
’’تو میں بنادوں گی بیٹا، جیسا بن پڑے گا، بنادوں گی۔‘‘
اور ماں دل ہی دل میں پھر بیٹے کے روشن مستقبل کی آرزو کرنے لگیں اور مسٹر شام ناتھ، ’’اب سو جاؤ ماں‘‘ کہتے ہوئے ذرا لڑکھڑاتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف گھوم گئے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.