Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

چتا

MORE BYRaghuveer Chaudhari

    انگاروں پر راکھ جم گئی ہے۔ راکھ کی اوپری تہہ سرد پڑجائے، ایسی قاتل سردی سے آدھی رات ٹھٹھر گئی ہے۔ گھٹنوں میں سردیے جیون بیٹھا ہوا ہے۔ جچیبھڑی (ایک پرندہ) کی آواز سے کھیت کا مغربی کنارہ گونج اٹھا۔ جیون نے خالی خالی نظروں سے اس طرف، مغرب کی طرف دیکھا اور ٹھنڈی پڑتی ہوئی آگ کو پوری طرح سے بجھ جانے سے بچانے کے لیے سوچنے لگا۔ اس نے ایک طویل پھونک ماری۔ راکھ اڑی۔ اس نے پھر پھونک ماری۔ آگ نظر آئی۔ اس نے پھر پھونک ماری اور چنگاریاں اڑیں۔ چنگاریاں اڑتی ہیں تو جیون سوچ میں پڑ جاتا ہے۔

    آج ایک جوان عورت مر گئی تھی۔ مرگھٹ اب تک سلگ رہاتھا۔ آدھے گھنٹے پہلے جیون ایک بار پھر جاکر دیکھ آیا ہے۔ ساری ہی لکڑیاں جل چکی تھیں۔ کچھ بھی ٹھیک ٹھاک کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ لمبی لکڑیوں میں سے انگارے الگ ہوکر گر رہے تھے۔ انگاروں کے درمیان آگ سلگ رہی تھی۔ مرگھٹ گرم تھا لیکن اب رفتہ رفتہ وہاں راکھ جمع ہوجائے گی۔

    صبح تو صرف نیچے کی زمین ہی گرم ہوگی۔ کتنے ہی سخت جان انگارے کوئلے کاروپ دھارن کر کے بچ جائیں گے، ان میں چند یادگاریں ڈھکی چھپی رہ جائیں گی۔ کہیں باہر بھی دکھائی دیں گی۔ دوتین دن تک جیون کی نظریں بے اختیار اس پھیلی ہوئی راکھ اور اس سے بنائی ہوئی ڈھیری کی طرف اٹھ جایا کریں گی اور پھر کچھ دن بعد کوئی بھی نشانی مرنے والی کی باقی نہ رہے گی۔ ہر ایک کی نشانیوں کے ساتھ اس کی نشانیاں بھی مٹی میں مل جائیں گی۔ جیون یہ سب کچھ دیکھتا رہے گا اور سوچتا رہے گا۔

    جیون کا کھیت کافی بڑا ہے۔ مرگھٹ سے کئی گنا بڑا۔ مرگھٹ بہت ہوا تو مشکل سے بیس بیگھے ہوگا۔ اس میں بھی شمال کی طرف تو ببول کا بڑا سا گنجان جھنڈ ہے، مشرق کی طرف کھڈ ہیں اور جنوب کی طرف جیون کا کھیت ہے۔ مرگھٹ کا جنوبی سرا جیون کے کھیت کو بیچ میں چھید دیتا ہے۔ ایک بڑے سے مستطیل کو تکون چھید دے اس طرح۔ اسی جگہ کھیت میں داخل ہونے کا ’’چھیندا۱؎‘‘ ہے۔ دو گاؤوں کو جوڑتا ہوا بڑا راستہ مرگھٹ کو قطع کرتا ہوا جاتا ہے۔ اسی لیے جیون کو اپنے کھیت میں آتے وقت مرگھٹ کو نصف کے قریب عبور کرنا پڑتا ہے۔

    کبھی کبھی چھیندے میں قدم رکھنے سے پہلے وہ رک جاتا ہے۔ پشت پھیرے بغیر وہ پیچھے دیکھتا ہے۔ اس کی نظر مرگھٹ کوعبور کر کے دوسری طرف اترنے کی جدوجہد کرتی ہے۔ ایک رات اس نے خواب میں دیکھا تھا کہ اس طرف پیپل اور جامنوں کے بہت سے درخت ہیں جو ساکت کھڑے ہیں۔ ایک پتا تک نہیں ہلتا۔ ہوا بوڑھے تنوں کے قریب سے گزرتی ہے اور بیچ کے کھڈ میں چکر لگانے لگتی ہے۔ اس کھڈ کے مغربی کنارے پر جو پیپل تھا، اس کے بیچ میں کاٹے ہوئے تنے کی جڑیں کھڈ کے بیچ میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ان کے اوپر بغیر چھت کی ایک جھونپڑی ہے اور اس جھونپڑی میں جیون نے ایک اکیلے بچے کو دیکھا تھا۔

    اس کی آنکھوں پر پلکیں جھکی ہوئی تھیں اور اس کے رخساروں پر آنسو بہنے کے نشانات تھے۔ یہ بچہ دائیں ہاتھ کی چھنگلیا پکڑے بیٹھا تھا۔ یہ بچہ اوپر دیکھتا ہی نہ تھا۔ جیون کیا کرے؟ اسے آواز دینے کو جی چاہا لیکن جرأت نہ کرسکا۔۔۔ یہ خواب تھا، اس کے باوجود اس میں دیکھے ہوئے اس مقام کو اس کی نگاہیں تلاش کیا کرتیں۔ آخر کار وہ دل کو سمجھا لیتا اور پھر اپنے کھیت میں قدم رکھتا۔

    ہاں اس کا کھیت مرگھٹ سے بڑا ہے۔ کاشت کی آمدنی بھی اطمینان بخش ہے لیکن اس کا اندازہ اس کا لباس، وضع قطع اور رہن سہن دیکھ کر نہیں لگایاجاسکتا۔ کتنی زمین بیکار پڑی ہوئی ہے، اس سے بھی اس کی پوزیشن کو نہیں جانچا جاسکتا۔ اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ کھیتی باڑی سے اسے جو آمدنی ہوتی ہے، وہ کافی زیادہ ہے۔

    جیون کی لڑکی کا نام رتی ہے، جو ابھی پانچ سال کی ہے مگر بے حد خوبصورت ہے۔ اتنی خوبصورت کہ ہیتی یاد آجاتی۔ شادی ہوئے سات سال ہوگئے۔ گزشتہ پانچ برس سے جیون خود ہی کھانا پکاتا ہے۔ کب رتی بڑی ہوگی اور یہ سب کام سنبھالے گی۔ اور بڑی ہونے کے بعد رتی کب تک باپ کے گھر رہے گی، یہ سب خیالات جیون کو نہیں آتے، لوگ باتیں کرتے ہیں۔

    گاؤں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ جیون کا دماغ چل گیا ہے کیونکہ وہ بے ترتیب زندگی گزار رہا ہے۔ زندگی تو کیا گزاررہا ہے، بس جی رہا ہے۔ اس کا ظاہر دیکھ کر لوگ یکے بعد دیگرے اس بات کو تسلیم کرنے لگے ہیں۔ کہاں آج کا جیون او رکہاں چار پانچ سال پہلے کاتانبے کا مورتی جیسا جگمگاتا ہوا جیون! چند آدمیوں نے اس کا راز پالیا ہے۔ چنانچہ وہ ان لوگوں کی مخالفت نہیں کرتے جو کہتے ہیں کہ جیون کا دماغ چل گیا ہے۔ خود جیون بھی ان کی مخالفت نہیں کرتا اور نا ہی اسے کوئی اعتراض ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اسے کیا ہوا ہے۔ ہاں، وہ جانتا ہے!

    گزشتہ گرمیوں میں گاؤں کے لوگوں کو ایک عرصے کے بعد جیون کی بھاری، کھڑکھڑاتی ہوئی اوربلند آواز سننے کو ملی۔ لیکن یہ آواز کہیں کہیں سے بدل گئی تھی۔ اس میں آشنائی تھی لیکن یقین نہ تھا، اسی لیے یہ کہنا تو کچھ مناسب نہیں ہے کہ آواز بلند تھی لیکن کہنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ جو آواز کبھی بلند تھی، وہ یہی آواز ہے۔ راس کھیلتی ہوئی گربیوں کے بول اٹھا کر جو آواز پورے میدان پر چھا کر مندر کی چوٹی تک پہنچ جاتی تھی، وہ آواز مکمل طور سے مردہ یا کمزور کیسے ہوسکتی تھی؟ اسی لیے تو سب یہ آواز سن کر سناٹے میں آگئے تھے۔

    پورے گاؤں کو اونچا نیچا کرتے ہوئے پنچایتی جب اسے سمجھانے آئے تھے تو اس سے آنکھیں ملانے کی جرأت نہ کرسکے تھے۔ جیون نے سب کو کھری کھری سنادی تھیں۔ کیسی بات لے کر آئے ہو، کیا سمجھ رکھا ہے سب نے مجھے؟ سب منہ لٹکاکر چلے گئے۔ اپنے گھر سے نکال دینے کا جیون کی زندگی میں یہ پہلا واقعہ تھا۔ ورنہ، پہلے تو اس کا گھر آؤ، بھائی آؤ، اور مہمان نوازی کے لیے مشہورتھا۔

    وہ الاؤ کے قریب سے اٹھا۔ اور کولکی میں سے گھاس لانے چلا اور ڈول بھر کر اٹھا لایا۔ الاؤ بھڑک اٹھا۔ اب اس میں سے اٹھتے ہوئے شعلے اس کی آنکھوں کی بلندی تک پہنچ رہے ہیں۔ لیکن کیا بات ہے؟ ان شعلوں میں گرمی کیوں نہیں ہے؟ اس نے سوچا کہ شاید پالا گرے گا۔ کچھ دیر ہاتھ الاؤ سے ذرا دُور رہ جاتے تو جیون کو ایسا لگتا جیسے اس کی انگلیوں کی پوریں جل رہی ہیں۔ یہ پالا پڑنے کی علامت ہے۔

    پھر سونے کے لیے رات نہیں بچے گی۔ چنانچہ وہ کاہلی چھوڑ کر اٹھا اور سونے چلا۔ بیلوں نے اسے دیکھ کر اپنے گلے میں بندھے ہوئے گھنگھرو بجائے۔ خشک گھاس کے دو گٹھے توڑ کر بیلوں کے سامنے ناند میں ڈال دیے اور خود مچان پر چڑھ گیا۔ بستر بچھایا اور دلائی اوڑھ لی۔ آج تمباکو ختم ہوگیا تھا، اس لیے چلم کی طلب کو اس نے دبا دیا۔

    ایک دفعہ اس نے دلائی سر پر سے اٹھا کر دیکھا، چاند غروب ہورہا تھا۔ آج پوس کی گیارہ تاریخ ہے اور وہ تھی پوس کی بارہ۔

    نیند نہ آنے کی وجہ سے وہ کروٹیں بدل رہاتھا۔ اس نے سوچا کہ آج نیند نہ آئے گی۔ اٹھ بیٹھا لیکن کرتا کیا؟ کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ دوبارہ لیٹ گیا۔ دلائی سر پر اوڑھ کر اورگٹھری بن کر اس نے سونے کی کوشش کی۔

    کچھ وقت تیزی سے گزر گیا۔ اب رفتہ رفتہ جیون کو اپنے پورے جسم پر بوجھ منڈلاتا محسوس ہوا۔ اس نے صورت حال کو سمجھنے کی کوشش کی۔ کامیاب نہ ہوا تو زیادہ چکرایا۔ دائیں پہلو میں چاندی کا کنگن کھنکنے لگا۔ اس کے کان کا پردہ لرزنے لگا۔ بائیں کان کو ایک تیکھی آواز چیرنے لگی۔ کچھ ہی دیر بعد ایک تیسری آواز کا اضافہ ہوگیا۔ یہ آواز گلے میں پہنے ہوئے گہنوں کی تھی۔ تینوں آوازیں ایک ہوگئیں۔ تب ایک ہاتھ کہیں سے آکرجیون کے سینے پر ٹک گیا۔

    یہ ہاتھ کسی فاتح کاسانہ تھا۔ گلے کے ہار کا سا دلکش ہے۔ ہچکچاہٹ کی وجہ سے تویہ بے جان نہیں ہوگیا۔ یوں سوچ کر اس نے انبساط سے اس ہاتھ کو دبالیا۔ کروٹ لے کر اس نے اس ہاتھ کو واپس کھینچنے کی کوشش کرتی ہوئی ہیتی کو لپٹالیا۔ مچان بوجھل نہ ہوا۔ راز کھل گیا۔ دوسرے ہاتھ میں درانتی تھی۔ یہ دیکھ کر اندیشہ دور ہوگیا۔ جیون نے زور کرکے درانتی چھڑائی اور پھینک دی۔ درانتی ہوا میں کمان بناتی ہوئی گری اور نم زمین میں ’کھچ‘ سے کھپ گئی۔

    ’’لوگوں کا کہنا سچ ثابت ہوا۔‘‘

    ’’کیا؟‘‘

    ’’یہی کہ تو چڑیل بن گئی ہے۔‘‘

    ’’تم اس میں یقین رکھتے ہو؟ میں چڑیل یا بھوت بنوں ایساہوسکتاہے؟‘‘

    ’’ہاں ہوسکتا ہے۔ آدمی کا درد یوں سایہ بن کر بھٹکتا رہتا ہے۔‘‘

    ’’نہیں۔ نہیں۔ یہ تمہارا وہم ہے۔ میں کچھ نہیں بنی، کچھ بھی نہیں۔‘‘

    ’’دیکھ یوں بکواس نہ کر، میں تجھے بھینچتا ہوں۔ اب بول۔‘‘

    ’’اف! تم تو قصائی ہو۔‘‘

    ’’قصائی! تو بھی ایسا سمجھتی ہے، ہیتی؟ پورا گاؤں تو کہتا ہی ہے لیکن اب تو بھی کہتی ہے؟ مجھے کیا پتہ تھا کہ ذرا سی درانتی لگ جانے سے تجھے دھنور۲؎ ہوجائے گا اور میں بے سہارا رہ جاؤں گا۔‘‘

    ’’قصورتو میرا تھا۔ لیکن اب کیا ہوسکتا ہے۔ غصے میں میں نے ہی دودھ شکر پی لی اور بات چھپا کر پڑ رہی۔ قصور تمہارا نہیں تھا۔‘‘

    ’’لیکن سارا گاؤں مجھے ہی ہتیارا کہتا ہے۔‘‘

    ’’غلط ہے۔ لوگ سب کچھ بھول گئے ہوں گے، کتنے برس بیت گئے۔‘‘

    ’’نہیں، کل ہی رتی پوچھ رہی تھی۔‘‘

    ’’کیا؟‘‘

    ’’یہی کہ ہیتی کو میں نے ہی مار ڈالا ہے، لوگ کہتے ہیں۔‘‘

    ’’تم نے کیا جواب دیا؟‘‘

    ’’میں نے کہا سچ ہی کہتے ہیں بیٹا۔ تیری ماں کو میں نے مار ڈالا ہے۔‘‘

    ’’ایسا نہ بولو تم۔ ہائے رام! اب میں کس طرح واپس آسکتی ہوں۔ اب کس طرح جیسی تھی ایسی بن کر آؤں اور رتی کو بلاؤں؟ تمہارے پیر دبادوں۔ کیا کروں، اب کیا کروں؟‘‘

    ہیتی اٹھ کر بیٹھ گئی اور جیون کے پیروں پرسر رکھ کر رونے لگی۔ مجھ سے غلطی ہوگئی۔ مجھے معاف کردو۔ اب دوسری شادی کرلو، غم نہ کرو۔‘‘

    ’’یہ کیا کہا تو نے؟ ایسا کبھی نہ ہوگا۔‘‘

    ’’نہیں۔ یہ نہ ہوگا۔ کبھی نہیں۔ کبھی نہیں۔ کبھی نہیں۔‘‘

    خود اپنی ہی آواز سے جیون کی نیند کھل گئی۔ دور روتی ہوئی ایک لومڑی اچانک ہی خاموش ہوگئی۔ مرگھٹ کے دوسری طرف ایک کتا بھونکنے لگا۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ پوپھٹ رہی تھی۔ جیون کی آنکھوں میں نیند پھنسی ہوئی تھی۔ سر پر پگڑی لپیٹ کر وہ الاؤ کے قریب پہنچا۔ انگارے جلائے۔ سامنے کی بے کاشت پڑی ہوئی زمین کی کالی مٹی اجالے میں چمکنے لگی۔ الاؤ کو بھڑکائے، اس سے پہلے تو وہاں لچکا۳؎ اُگ آیا۔ لچکے کی پھنگیوں پر قدم پڑیں نہ پڑیں، اس طرح ایک عورت چلنے لگی۔ لچکے کے سفید پھول بلند ہو ہوکر ان پیروں کے نرم تلووں کو چومنے لگے۔ وہ عورت اس سے لبھاگئی اور گھگھری سمیٹ کر بیٹھ گئی اور لچکا کاٹنے لگی۔

    ’’تجھ سے کس نے یہ کام کرنے کو کہا ہے؟

    ’’ہماری مرضی۔‘‘

    ’’اٹھ اٹھ، آئی بڑی مرضی والی۔ اوندھے ہی کام کرتی ہے۔‘‘

    ’’اب دیکھا تمہیں بڑے سیدھے ہو تو۔‘‘

    ’’اٹھ نہیں تو گھسیٹ لے جاؤں گا۔‘‘

    ’’جا جا! ہیجڑے۔‘‘

    اور اس نے وہ درانتی جو اس کے ہاتھ میں سے چھڑالی گئی تھی، اوراوہ، جیسے جیون کے سر میں ہی نہ لگی ہو؟ اس نے آنکھیں بھینچ لیں۔ پھر اوپر دیکھا تو خون کے دو تین دھبے اس کے سامنے مختلف صورتیں بنا کر گول گول گھومنے لگے۔ ان کی رفتار بڑھ گئی۔ ہالہ بن گیا۔ اس ہالے میں چاند قید ہوگیا اور پھر چاند پر ایک داغ ابھر آیا۔

    مشرق میں اجالے کے فوارے سے چھوٹے۔ وہ تصویردھندلاتی چلی گئی، دور، اور دور کھسکتی چلی گئی اور مغرب کے کنارے جاکر غائب ہوگئی۔ سرخ سرخ روشنی بڑھ گئی اور سورج کے طلوع ہونے کی علامتیں ظاہر ہوئیں۔

    جیون نے گھورے کے قریب پہنچ کر ایک خشک اپلہ اٹھایا اور لاکر الاؤ میں ڈال دیا۔ مچان کے نیچے الٹے سیدھے پڑے ہوئے جوتے پہن کر گھر کی طرف چلا۔

    وہ نیلیا۴؎کے قریب کے کھیت کے کنارے کنارے چل رہا تھا۔ گاؤں کے قریب کے ایک کھیت میں مہوے کے درخت کے نیچے الاؤ نظر آیا۔ بھرتھری کے ایک کنبے نے پڑاؤ ڈالا تھا۔ دو لڑکے اور ان کا باپ۔ باپ ہی ہوگا۔ ننھے لڑکے کے پاس سارنگی تھی۔ باپ سارنگی سکھارہا تھا۔ شاید، یوں گارہاتھا۔

    پے لاپے، لاجگ ماں رانی

    امے رے پوپٹ رائے، راجہ رام نا

    اوتراتے کھنڈ ماں آنبلو پاکیو تیار ے

    سو، ڈلے ماری مینی چانچ۔۔ ۵؎

    جیون جب چھوٹا تھا تو کئی دفعہ یہ گیت سن چکا تھا۔ اسکول میں بیت بازی کے وقت اس گیت کے شعروں نے کئی دفعہ اس کی مدد کی تھی۔ آج بھی اس نے چند شعر سنے۔ بچپن اور پھر پوس کی بارش تک کا زمانہ اسے یاد آیا۔ اس کے قدم گھر تک پہنچ گئے تھے۔ صحن میں پہنچ کر وہ ٹھہر گیا۔ اس کی آواز سن کر رتی جاگ گئی۔ کاکی کے گھر سے اپنے گھر آگئی۔ جیون نے بھینس دو ہی، رتی نے چولھا سلگایا۔ جیون نے چائے بنائی۔ دونوں نے پی۔

    ’’تم تو رو رہے ہو، رو رہے ہو باپو؟‘‘

    ’’نہیں بیٹا، یہ تو دھنواں ہے۔‘‘

    جیون نے اپنی آواز کو خشک بناتے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔

    ’’مجھے کھیت میں کام ہے بیٹا۔ کھانا تیار ہوجائے تب تک آگ دہکاتی رہواور آگ تاپتی رہو۔ میں آتا ہوں۔‘‘

    وہ کھیت جانے کے لیے چل پڑا۔

    سورج طلوع ہوچکا تھا۔

    مرگھٹ میں چتا بجھ گئی تھی۔ خاموش چتا کی طرف ایک نظر دیکھ کر جیون نے کھیت میں قدم رکھا اور ایک بار پھر پیچھے دیکھا۔ اب وہ دوپہر تک کھیت میں رہے گا۔ اس کا کھیت بہت بڑا ہے، کافی وسیع وعریض ہے۔

    حاشیہ:

    ۱؎: شگاف، خصوصا ًوہ شگاف جو کھیتوں کے گرد آنے جانے کے راستے کے طور پر بنا ہوتا ہے۔

    ۲؎: فساد خون۔

    ۳؎: ایک قسم کی گھاس جو میتھی کے ساگ جیسی ہوتی ہے۔

    ۴؎: دو کھیتوں کی اونچی باڑوں کے بیچ سے گزرتا ہوا تنگ راستہ۔

    ۵؎: پچھلے جنم میں اے رانی، میں راجا رام کا توتا تھا۔ جب شمالی حصے میں آم پک گئے تو کسی شکاری نے (چونچ) تیر مار دیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے