Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

چوب دار

MORE BYمحمد حامد سراج

    جنبش مکن۔۔۔ ہوشیار باش۔۔۔ نگاہ روبرو۔۔۔!

    شہنشاہ معظم تشریف لاتے ہیں۔۔۔!

    اس نے چاروں اور دیکھا۔ خالی محل بھائیں بھائیں کر رہا تھا۔ دور تلک غلام گردشوں میں بھی کوئی متنفس نہیں تھا۔ جب کوئی بھی نہیں ہے تو یہ پکار کیسی ہے۔۔۔؟ کون ہے جس کی آمد کی اطلاع ویران اور سُونے محل میں گردش کر رہی ہے۔ میری بینائی کے آئینوں میں کوئی ایسی گرد تو نہیں جم گئی کہ مجھے سب نظر نہیں آ رہا اور سارے منظر موجود ہیں۔۔۔

    کیا میں ہی تو شہنشاہ معظم نہیں۔۔۔؟

    نہیں نہیں وہ قہقہہ پھینک کے ہنسا۔ بہت دیر اسے اپنے قہقہے کی آواز سنائی دیتی رہی۔ اس نے اپنے وجود پر ایک نظر ڈالی۔ کیا میں زمین کا آخری انسان ہوں۔۔۔؟ کیا میں انسان بھی ہوں کہ نہیں۔ یہ جو زمین سے نسلِ آدم معدوم ہو گئی ہے۔۔۔ کیا میں نے اس نسل کو نابود کر ڈالا ہے۔ اربوں انسان کیا اک میرے اشارے پر سلائے جاتے رہے۔۔۔ اس نے غور سے دیکھا، زمین کا رنگ سرخ تھا۔

    جس زمین پر میں پیدا ہوا تھا وہ تو خاکستری رنگ کی تھی۔ اس پر نیلے اور سبز رنگ کی بہار اس کا حسن تھی۔

    یہ زمین۔۔۔ یہ سرخ کیوں ہے۔ نہیں نہیں۔۔۔ اتنا خون نہیں بہایا گیا۔ بھلا ایسا ممکن ہی کہاں ہے۔۔۔؟

    میں نے اتنے انسانوں کے قتل کا حکم تو جاری نہیں کیا تھا۔ میں نے تو صرف زمین کے کچھ ٹکڑوں پر امن قائم کرنے کے لیے نیزہ بردار، آہن پوش، تلوار بکف بھیجے تھے۔ وقت کے ساتھ لوہے کو میں نے اڑان اس لیے تو نہیں دی تھی کہ وہ بارُود برساتا پھرے۔۔۔

    جنبش مکن۔۔۔ ہوشیار باش۔۔۔ نگاہ روبرو۔۔۔!

    شہنشاہ معظم تشریف لاتے ہیں۔۔۔!

    اس نے دم سادھ لیا۔ ادھر ادھر پھر نگاہ ڈالی۔ ایک کونے سے اسے سرسراہٹ سی سنائی دی۔ اس نے نگاہ مرکوز رکھی۔ آواز لمحہ بہ لمحہ قریب آ رہی تھی۔ کیا شہنشاہ معظم سے قبل کوئی دستہ ان کی پذیرائی کو نمودار ہوا چاہتا ہے۔ سرسراہٹ جب قریب آ ئی تو اسے ہیولے سے نظر آئے، شاید محل کی قندیلیں بجھ گئی تھیں۔ اس نے ہیولوں کو غور سے دیکھا۔ وہ انسان ہر گز نہیں تھے۔ غلام گردش کے ایک ستون کے پیچھے کھڑا وہ ہیولوں کو پہچاننے کی کوشش کر تا رہا۔ ان سب کے سر نہیں تھے لیکن وہ آپس میں باتیں کر رہے تھے۔

    ’’ہمیں اپنے سر ساتھ لے کے چلنا چاہیے تھا۔‘‘

    ’’کیا فائدہ۔۔۔؟‘‘

    ’’بغیر سر کے ہم کوئی بھی فیصلہ نہیں کر سکیں گے۔‘‘

    ’’اچھا ہے ہم اپنے سر چھوڑ آئے ہیں۔۔۔ جس نسل انسانی کے دھڑ پر سر تھے، اس کے غلط استعمال سے وہ اندھے فیصلے کرتے چلے گئے اور آخر ان کی نسل معدوم ہو گئی۔ اب ایک بھی ’’سر‘‘ والا انسان زمین پر نہیں ہے۔‘‘

    ’’کیا ان کی آنکھیں بھی نہیں تھیں۔۔۔؟‘‘

    ’’آنکھیں۔۔۔؟‘‘

    آنکھیں خون کے منظر دیکھتے دیکھتے ایک دن خون بن کر بہہ گئیں۔

    چپ چاپ چلتے رہو۔

    غلام گردش کے ستون کے پیچھے کھڑے شخص نے اپنا سر ٹٹولا۔ وہ سلامت تھا۔ میں یقینی آخری انسان ہوں۔

    جب ہیولے نظروں سے اوجھل ہو گئے تو اس نے محل کے اس کمرے کی طرف قدم بڑھائے جو شہنشاہِ معظم کی ذاتی آرام گاہ تھی۔

    اوہ۔۔۔ میں تو خود شہنشاہ معظم ہوں۔

    میں اس کمرے میں داخل ہو سکتا ہوں۔ میری کنیزیں۔۔۔؟ ملکہ۔۔۔؟ سب موجود ہوں گی کیا۔۔۔؟لیکن جو دستہ شورش کے دبانے کو میں نے بھیجا تھا اس کی ابھی تک کوئی اطلاع نہیں آئی، مجھے تھوڑی دیر آرام کرنا چاہیے لیکن کیا میں سچ مچ زمین پر تنہا رہ گیا ہوں۔۔۔؟ کاش میں نے لاکھوں انسانوں کے قتل کے احکام جاری نہ کیے ہوتے۔۔۔؟

    وہ سوچ کی گہری وادی میں وقت کی تلاش میں سرگرداں تھا۔ وقت جس نے اس کے چیتھڑے اُڑا دیے تھے اور وہ وقت کی نبض پر ہاتھ رکھنا بھول گیا تھا۔ جو حکمران وقت کی نبض پر ہاتھ رکھنا بھول جاتے ہیں وہ اپنی قوم سمیت اندھیروں میں دھکیل دیے جاتے ہیں۔ اسے تو اپنی صدی کا نام بھی بھول گیا تھا کہ میں کس صدی میں فراعین کا نمائندہ رہا۔ اس نے صدیوں کو انگلیوں پر شمار کرنے کی کوشش کی لیکن گنتی بھول گیا۔ اس نے چاروں اور دیکھا، صدیاں الٹی لٹکی ہوئی تھیں۔۔۔

    یہ کیا۔۔۔؟

    ان صدیوں کو کس نے الٹا لٹکا دیا۔

    صدیاں تو ترتیب سے رکھی ہوئی تھیں۔۔۔

    شاید میری کھوپڑی الٹ گئی ہے۔

    اس نے اپنے سر کو ٹٹولا۔۔۔ سر اسے دھڑ سے بہت بڑا محسوس ہوا۔۔۔

    ’’ہیں۔۔۔؟ یہ میرے سر میں کون سما گیا ہے.....؟ میرا سر اِتنے حجم کا تو نہیں تھا۔۔۔؟‘‘

    میں کہاں جاؤں کیا کروں۔۔۔؟ کس کو آواز دوں۔۔۔؟

    اس نے اپنی ذاتی آرام گاہ کی طرف قدم بڑھائے لیکن زمین نے اس کے پاؤں میں کیلیں گاڑ دیں۔۔۔

    یہ کون سی عبادت گاہ ہے۔۔۔؟ کیا اسے میں نے مسمار کرایا تھا۔ میری آرام گاہ کہاں ہے۔۔۔؟

    زمین۔۔۔؟

    زمین کو تو میں نے ادھیڑ کر رکھ دیا۔۔۔

    اوہ۔۔۔ یہ میرے سر کا حجم جو اِتنا بڑھ گیا ہے۔۔۔ یہ وہ عبادت گزار لوگ ہیں جنہیں میں نے عبادت گاہوں سمیت ابدی نیند سلا دیا۔۔۔

    یہ مجھے چین نہیں لینے دیں گے۔۔۔

    یہ میری روح کی دھجیاں اڑا دیں گے۔

    مجھے اپنی آرام گاہ میں پناہ لینا چاہیے۔۔۔!

    لیکن میرے چوب دار کہاں ہیں۔۔۔؟

    اچھا اچھا۔ اپنی زمین کا چوب دار تو میں خود ہوں۔۔۔

    لیکن میں اکیلا۔۔۔؟

    جب وہ آرام گاہ میں داخل ہوا تو انسانی لاشوں سے آرام گاہ اَٹی تھی۔۔۔

    تعفن سے اس کی سانس رک گئی۔ وہ پلٹنے کو تھا کہ پھر آواز آئی۔

    جنبش مکن۔۔۔ ہوشیار باش۔۔۔ نگاہ روبرو۔۔۔!

    شہنشاہ معظم تشریف لاتے ہیں۔۔۔!

    میں ہو ں۔ میں ہوں۔ میں ہوں شہنشاہ معظم

    میں تاریخ ہوں۔ میں وقت ہوں۔ میں آئینہ ہوں۔۔۔ آئینہ۔۔۔؟

    یہ آئینے میں اتنی خراشیں۔۔۔ یہ کون ہے جس نے تاریخ کو اپنے نوکیلے ناخنوں سے بگاڑ کے رکھ دیا ہے۔۔۔ اس نے زور سے تالی بجائی۔۔۔

    مجرموں کو حاضر کیا جائے۔

    وہ خود اپنی عدالت میں کھڑا تھا۔

    لاشوں پر پاؤں دھرتا وہ اس الماری کی طرف بڑھا جس میں اس نے آخری معرکے کے دوران اپنے آپ کو سنبھال کے رکھ دیاتھا۔۔۔

    یہ میں الماری سے باہر کب آیا۔۔۔؟

    ایک دستاویز تھی۔۔۔ نا۔ جس میں سارے فیصلے درج تھے۔۔ اس نے الماری کا منقش پٹ کھولا۔۔۔ دستاویز موجود تھی لیکن وہ اتنی بوسیدہ اور کِرم خوردہ ہو چکی تھی کہ اسے کھولنا مشکل تھا۔ اس نے ہمت کر کے اسے اٹھایا۔ چرمی جلد پر جو نقشہ کھدا ہوا تھا اس میں سرخ لکیریں روشن تھیں۔۔۔!

    اندر کہیں نقشے میں اسے ایک کوّانظر آیا جو زمین کھود رہا تھا۔ زمین کا وہ ٹکڑا اس کی پہچان سے باہر تھا۔ کوا مسلسل اپنا کام کیے جا رہا تھا۔ اگر یہ ہابیل قابیل کا عہد ہے تو کوے کو ایک قبر کھودنا چاہیے تھی لیکن یہ کیا۔ قطار میں بہت سی قبریں کھدی ہوئی تھیں۔ ایک کوا کائیں کائیں کر رہا تھا اور چہار اطراف سے کوّے آکر قبریں کھودنے میں مصروف تھے۔ یہ کووں نے کس کو دفن کرنا ہے۔ اتنی لاشیں کہاں سے لائی جائیں گی۔۔۔؟ زمین پر نسلِ انسانی تو معدوم ہو چکی ہے۔۔۔ کیا کوئی پرانا منظر میرے ذہن کے پر دے پر تو نہیں چل رہا۔۔۔!

    وہی مخلوق جو اس نے محل میں سے گزرتی دیکھی تھی جن کے دھڑ پر سر نہیں تھے وہ لاشیں اٹھائے ان گڑھوں کی جانب بڑھ رہے تھے۔ لاشیں جلی ہوئی اور مسخ شدہ تھیں۔ وہ اپنی پہچان کھو چکی تھیں۔ ان کو رونے والے بھی رو رو کر اپنی بینائیاں مٹی میں رول چکے تھے اور کوے تھے کہ مسلسل آسمان پر منڈلا رہے تھے۔ وہ سارے کالے تھے۔ اس نے دور تک نگاہ کی، کووں کے علاوہ اسے اور کوئی پرندہ نظر نہیں آیا۔ گدھ تو ہونا چاہیے تھے۔ یہ اتنے کوے۔۔۔؟ کیسا معمہ ہے۔۔۔؟

    وہ ایک پتھریلے ٹیلے پر بیٹھا یہ منظر دیکھ رہا تھا۔۔۔!

    گدھ ابھی تک نہیں آئے۔۔۔ اتنی لاشیں ہم کیسے ٹھکانے لگائیں۔۔۔؟ سردار کوّے نے متفکر ہو کر سوال کیا۔

    سردار ہلاکو اور چنگیز خان نے انسانی کھوپڑیوں کے جو مینار تعمیر کیے ہیں گدھ وہاں مصروف ہیں۔ کوئی ایک پارٹی تو ادھر آ نکلی ہوتی۔۔۔

    کہیں کوئی نہ کوئی طالع آزمااپنی طاقت دکھا رہا ہے کچھ گدھ وہاں مصروف ہیں لیکن گدھ تو لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں تھے۔

    سردار انسانی لاشیں بھی تو اَن گنت ہیں، ہر درخت کے ساتھ کوئی نہ کوئی درخت کا حصہ بن کے لٹکا ہے کنویں انسانی لاشوں سے اٹے پڑے ہیں۔ وہ جو آدھی دنیا فتح کرنے نکلا ہے اس نے کشتوں کے پشتے لگا دیے ہیں۔

    دو عظیم جنگوں میں لاکھوں انسانوں کو ٹھکانے لگا دیاگیا۔ دنیا بچانے کا جھانسا دے کر ایک آہن پوش نے ایسے بم گرائے جو لاکھوں انسانوں کو نگل گئے وہاں آج بھی نسلیں اپاہج پیدا ہوتی ہیں، زمین روٹھ گئی ہے۔ وہ سبزہ نہیں اگاتی۔ وہاں ہر سال درد سر اُٹھاتا ہے جو ہر آنے والی نسل کو رلاتا ہے۔

    یہ انسان بدترین جانور ہے۔

    تو کیا ان جنگوں میں گدھ بھی مارے گئے۔۔۔؟

    جی سردار۔۔۔

    اس نے خوف سے دوسرا ورق الٹا۔۔۔

    الٹی لٹکتی صدی اس کے حلق میں مچھلی کا کانٹابن گئی۔

    یہ کوّے کیسی باتیں کر رہے ہیں۔۔۔؟

    یہ کون سی صدی ہے جس میں لوہے کو میں نے اڑان دی تھی۔۔۔

    یہ بارودی پرندے کیوں منڈلا رہے ہیں۔۔۔؟

    یہ کیسے تیر ہیں جو آگ اور بارود کی لپک لیے ہزاروں میل لمحوں میں طے کر رہے ہیں۔۔۔؟

    کوے باتیں کر رہے تھے۔

    وہ باتیں سن رہا تھا۔

    ہم پرندوں کی کسی بھی نسل اور قوم نے ایسا خونی کھیل زمین پر نہیں کھیلا۔

    وہ اپنے سر کو تھامے سوچ رہا تھااور۔۔۔ ایک کوّا اپنے سردار سے پوچھ رہا تھا۔

    جب انسان کا وجود ہی مٹ گیا ہے تو پھر ان قبروں میں کسے سلایا جائےگا۔۔۔؟

    ایک شخص باقی ہے،ڈر ہے اس سے نسل چل نکلی تو یہ پھر زمین پر لہو لہو کھیلیں گے۔ یہ ان کا من بھاتا کھیل ہے۔ قبروں کا تیار رہنا ضروری ہے۔ پہلی قبر بھی ہم نے کھودی تھی، لگتا ہے آخری بھی ہمیں ہی کھودنی پڑےگی۔۔۔

    کیا پرندوں اور جانوروں کی ایک کانفرنس نہ بُلا لی جائے۔۔۔؟ سردار کی گرج دار آواز نے فضا میں ارتعاش پیدا کیا۔

    وہ کس لیے سردار۔۔۔؟

    شیر لاکھوں کروڑوں سال سے جنگل پر حکومت کر رہا ہے۔ اب کسی اور کو بادشاہ کی مسند پر بٹھایا جائے۔

    سردار یہ ظلم نہ ڈھائیں۔۔۔!

    اس میں ظلم کی کون سی بات ہے۔

    سردار ہم نے انسانوں سے یہ سبق سیکھا ہے۔ جب وہ نیا بادشاہ لاتے ہیں تو اکثر پہلے بادشاہ اور اس کے ساتھیوں کو قتل کر دیتے ہیں۔

    تو کیا اسی لیے زمین کا رنگ سرخ ہے۔

    جی سردار۔۔۔

    لیکن شیر کو کیا حق ہے کہ وہ ہم پر حکومت کرے۔۔۔؟

    سردار۔۔۔۔ آپ اس منطق میں نہ پڑیں۔

    وہ تو ٹھیک ہے۔ اچھا چلو جاؤ۔۔۔ اپنا کام کرو، قبریں کھودو۔۔۔!

    چرمی دستاویز موجود تھی لیکن وہ اتنی بوسیدہ اور کِرم خوردہ ہو چکی تھی کہ اسے کھولنا مشکل تھا۔ اس نے ہمت کر کے اسے اٹھایا۔ چرمی جلد پر جو نقشہ کھدا ہوا تھا اس میں سرخ لکیریں روشن تھیں۔۔۔!

    تو کیا یہ ساری قبریں میرے لیے کھودی جا رہی ہیں۔۔۔؟

    مجھے کسی اور جزیرے پر نقل مکانی کر لینا چاہیے۔

    بوسیدہ اور کِرم خوردہ کتاب کے ایک ورق کو اس نے الٹا۔

    ساری صدیاں الٹی لٹکی ہوئی تھیں۔ اسے الجھن نے آن گھیرا۔ یہ صدیوں کو کس نے وقت کی سولی پر الٹا لٹکا دیا ہے۔

    الٹی لٹکتی صدیوں کی تاریخ پڑھنا اتنا آسان نہ تھا۔ اس نے چند لاشیں گھسیٹ کر ایک طرف کیں اور اپنے بیٹھنے کی جگہ بنائی اور تاریخ میں سے وہ منظر تلاش کرنے لگا جن میں کوئی پگڈنڈی سرخ رنگ سے نہ بنائی گئی ہو۔ ایسے منظر اسے نظر ضرور آئے لیکن متقابل لکیریں جو سرخ رنگ سے کھینچی گئی تھیں اس بات کا ثبوت تھیں کہ زمین پر ہر صدی میں کوئی نہ کوئی خطہ ایسا تھا جہاں خون کا کھیل کھیلا جاتا رہا، اسے اپنی پہچان ہو جاتی تو پھر وہ سارے ٹکڑے ملا کر کوئی نتیجہ نکال لیتا۔ وہ خود بھی تو اپنی پہچان کھو بیٹھا تھا۔ ایک تازہ لہو سے تر بتر صفحہ اس نے کھولا۔۔۔

    خون اتنا تھا کہ صدی کو وہ پہچان نہ پایا۔

    صفحے کی ہیئت ہی عجیب سی تھی۔ اس پر جو تصویریں نمایا ں تھیں ان میں ایک انسان قینچی سے درختوں کے سبز پتے کاٹتا چلا جا رہا تھا۔ آکسیجن کی کمی سے اس کا دم گھٹنے لگا، لیکن وہ تصاویر کو غور سے دیکھتا رہا۔ لوگ بارود بیچتے پھر رہے تھے۔ بازاروں میں بارود کی دکانیں سجی تھیں۔ ایسے ایسے ہتھیار رکھے تھے کہ وہ مبہوط کھڑا انہیں دیکھتا رہا۔ بازار کے آخری سرے پر جب وہ پہنچا تو سامنے تاحد نظر میدان تھا۔ میدان میں لاکھوں جہاز کھڑے تھے جیسے بچوں کے کھلونوں کی دکان سجائی گئی ہو۔

    اس نے فیصلہ کیا کہ کیوں نہ اس شہر بارود میں گھوم کے دیکھا جائے۔ ایسا بارود جو زمین سے آکسیجن کھینچ لے۔ سانس لینے والے مر جائیں لیکن سامان کا نقصان نہ ہو۔۔۔ وہ چلتا رہا۔۔۔ ایک عجیب الخلقت مخلوق جو انسان ہر گز نہ تھے اسے ایک سمت جاتے دکھائی دیے۔ وہ ان کے پیچھے چلتا رہا۔ جانے انہوں نے کتنا سفر طے کیا جب وہ سمندر کنارے پہنچے تو اپنے جیسی مخلوق سے ہاتھ ملایا اور سمندر میں اتر گئے۔ سمندر کے سینے پر اس نے دیکھا لوہے کا طویل تختہ بچھا تھا اور اس تختے پر سینکڑوں جنگی جہاز کھڑے تھے۔ اس نے سمندر میں پاؤں رکھا، پانی نے اسے رستہ دیا، پانی میں تاحدنظر بارودی جہازاور وہی مخلوق بارود سے لیس گھوم رہی تھی۔۔۔

    لگتا تھا خشکی اور تری پر صرف انہی کی حکومت ہے۔

    جنبش مکن۔۔۔ کسی نے اسے آواز دی

    زمین نے اس کے پاؤں پکڑ لیے

    یہ ہم ہیں۔۔۔ کمزور اقوام کی لاشوں سے ناشتہ ہما رامرغوب مشغلہ ہے

    اس نے سوال کیا

    اتنے جہاز۔۔۔؟ اتنا بارود۔۔۔؟

    تمہیں یہ حق کس نے دیا ہے کہ ہم سے سوال کرو۔۔۔؟

    لاکھوں لوگوں پر بارود برسا کر انہیں موت کی نیند سلا دیتے ہو۔ کیا یہ ظلم نہیں ہے۔۔۔؟

    ہاہاہاہا۔۔۔ ظلم۔ ہم انصاف قائم کرتے ہیں تاکہ زمین پر امن ہو

    یہ کیسا امن ہے۔۔۔؟

    اب زمین پر، پانی ہو کہ خشکی،دریا ہوں کہ پہاڑصرف ہماراسکہ چلتا ہے۔۔۔

    تمہارے سکوں کا رنگ سرخ ہے۔

    یہ کون گستاخ ہے؟

    اسی زمین کی باقیات سے ہے۔۔۔

    ہم نے تو چپے چپے پر بارود بچھا دیا ہے۔۔۔؟

    غلطی سے ایک خطہ رہ گیا ہے۔

    ایک لاکھ جہاز جو بغیر پائلٹ کے پرواز کرتے ہیں فوری روانہ کر دیے جائیں۔

    ساری صدیاں الٹی لٹکی ہوئی تھیں۔

    اس نے کتاب ایک طرف پھینکی اور گھٹنوں میں سر دے کر بیٹھ گیا۔ ایسی خون آشام کتاب۔۔۔؟

    اس نے بار دگر اپنے ارد گرد ہیولے دیکھے۔ یہ ان ہیولوں سے مختلف تھے جو اس نے غلام گردش سے گزرتے دیکھے تھے۔

    ہم سیاہ فام ہیں۔ تم نے ہمارا ورق تو پلٹ کے دیکھا ہوتاکہ ہم پر کیسے کیسے ستم ڈھائے گئے۔ ہم۔۔۔ ہمارا کوئی نام نہیں۔۔۔ جو ہم پہ گزری کیا چشمِ فلک نے ایسا نظارہ دیکھا ہوگا کبھی نہیں۔۔۔!

    ہیولوں میں ایسے بھی تھے جن کے وجود ہڈیوں کا پنجر تھے۔ ہم نے اہرامِ مصر تعمیر کیے ہیں۔ ہماری کمریں ادھڑ گئی ہیں۔

    ہمارا قصور صرف اتنا تھا کہ ہماری زمینوں میں تیل کی نہریں بہتی تھیں۔ اب دور تک دیکھو صرف خون کی نہریں بہتی ہیں۔ ایک بوڑھے شخص نے عبا سمیٹتے ہوئے کہا۔۔۔!

    وہ اپنی آرام گاہ سے نکل آیا۔۔۔

    جنبش مکن۔۔۔ ہوشیار باش۔۔۔ نگاہ روبرو۔۔۔!

    شہنشاہ معظم تشریف لاتے ہیں۔۔۔!

    وہ زمین کی سرحد سے نکل جانا چاہتا تھا۔

    جنبش مکن کی آواز اس کی یادداشت پر دستک دے رہی تھی۔ اس کے حواس پلٹ رہے تھے۔۔۔ اسے وہ لمحہ یاد آیا جب زمین کے کنارے پر کھڑے ہو کر اس نے زمین پر حکومت کرنے کا خواب دیکھا تھا۔ انسانوں کو محکوم بنانے کے لیے اس نے اپنی صدیوں کی ایجادات پر ایک نظر ڈالی۔ اس نے اپنے ہی ہاتھوں زمین کا رنگ بدل ڈالا تھا۔ اب کہیں کوئی متنفس نہ تھا جس پر وہ حکومت کرتا۔

    وہ اپنے آپ کو پکارتا پھر رہاتھا۔۔۔

    جنبش مکن۔۔۔ ہوشیار باش۔۔۔ نگاہ روبرو۔۔۔!

    شہنشاہ معظم تشریف لاتے ہیں۔۔۔!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے