Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

چاکلیٹ

قرب عباس

چاکلیٹ

قرب عباس

MORE BYقرب عباس

    گلیوں میں رات اترتے ہی ہم تو گہری نیند سو جاتے ہیں۔۔۔ ہم۔۔۔ ہم بیچارے تھکن سے چور نیند کے مارے، بے خبر اور بہرے کچھ نہیں جانتے، یہ بھی نہیں کہ۔۔۔ اس رات کے سناٹے میں کتنی کہانیاں سسکیاں بھرتی ہیں۔

    میں اپنے اندھیرے کمرے میں لیٹا ہوا تھا، لائٹ نہ ہونے کی وجہ سے کپڑے پسینے سے بھیگے ہوئےتھے۔ حکومت کو ایک موٹی سی گالی بک کر اٹھا اور گلی میں نکل آیا۔ رات کے سوا دو بج رہے تھے، میں ٹہلتا ٹہلتا اپنے ٹاؤن کی مین اینٹرس پر پہنچ گیا جہاں ایک چوکیدار سگریٹ سلگائے کرسی پر بیٹھا تھا۔ میں عموماً دفتر سےرات دیر سے ہی گھر واپس آتا ہوں اور ہر بار مین اینٹرس پر یہی چوکیدار با آواز بلند کہتا ہے ’’سلام لیکم صاب جی‘‘ میں بس جھوٹی سی مسکان ہونٹوں پر لا کر سر ہلا کر گزر جاتا ہوں۔

    میں نے چوکیدار کے سگریٹ کو دیکھ کر اپنی جیب میں سے پیکٹ نکالا ماچس کے لئے جیب ٹٹولی تو معلوم پڑا کہ ماچس گھر ہی چھوڑ آیا ہوں، ’’چوکیدار سے لیتا ہوں‘‘ اسی خیال کے ساتھ میں اس کی طرف بڑھا چند قدم کے فاصلے پر ہی تھا کہ اس نے کہا ’’سلام لیکم صاب جی‘‘، خلاف معمول میں نے اپنے منہ پر اخلاق کا “لیپا” کیا اور اس سے زیادہ اچھے انداز میں جواب دیا ’’وا۔۔۔ علیکم اسلام….‘‘

    ’’ماچس ہوگی آپ کے پاس؟‘‘

    ’’جی جی، ماچسیں دو دو ہیں صاب جی، لیں‘‘ اس نے ماچس میری طرف بڑھائی۔

    میں نے منہ میں سگریٹ لیا اور دیا سلائی لگائی، سگریٹ الٹا منہ میں رکھا تھا، فلٹر کو آگ لگی اور میرا اکلوتا سگریٹ بیکار ہو گیا، میں نے خالی پیکٹ ایک طرف پھینک دیا۔ یہ دیکھتے ہی چوکیدار بولا ’’صاب جی، یہ کیا ہو گیا؟‘‘

    ’’الٹا لگا لیا تھا، فلٹر جلا ہے‘‘ میں نے سگریٹ بھی ایک طرف پھینکتے ہوئے جواب دیا۔

    ’’صاب جی، میرے پاس غریبوں والی سگریٹ ہے، گولڈ فلیک! سوٹا لگانا ہے تو اسکا لگا لیں‘‘ چوکیدار نے بہت ہی سادہ مگر مخلص انداز میں اپنے سگریٹ آگے کیے

    میں ہاتھ بڑھاتے ہوئے بولا ’’گولڈ فلیک۔۔۔؟ اچھا چلیں دے دیں یہی‘‘

    ’’گولڈ لیف کے ڈنڈے میرا بھائی انگلنڈ سے لایا تھا، مجھ سے نہیں پیئے گئے، گلے کو پکڑ لیتی ہے‘‘ میں نے اس بات کو چوکیدار کا سفید جھوٹ ہی جانا، جی میں سوچا ’’لوگ یہاں سے انگلینڈ لے کر جاتے ہیں اسکا بھائی وہاں سے پاکستان لایا تھا۔‘‘

    پھر وہ اپنی کرسی کے ساتھ پڑی ایک اور کرسی کو سیدھا کرتے ہوئے بولا ’’صاب جی بیٹھ جائیں‘‘ میں بیٹھ گیا۔

    آپ کا واسطہ اس طبقے کے کسی بھی شخص سے پڑے تو آپ کو چند ایک باتیں ہی سننے کو ملتی ہیں جیسے کہ ملکی بدحالی، غربت اور مہنگائی، لوڈشیڈنگ، حکومت کی بری کارکردگی وغیرہ۔۔۔ سو اس کی گفتگو بھی ان ہی میں سے ایک پر شروع ہوئی۔

    ’’بجلی نے تو برا حال کر دیا ہے، تین تین گھنٹے نہیں ہوتی۔ رات کی ڈیوٹی کر کے گھر جاتا ہوں تو دن کو بجلی کی وجہ سے نیند نہیں آتی، اتنی گرمی میں لوگوں کا برا حال ہے‘‘ وہ کبھی میری طرف دیکھتا کبھی ادھر ادھر۔

    یہ سب سن سن کر بہت پک چکا ہوں سو میں نے باتوں کا رخ بدلا ’’کتنے سال سے یہ کام کر رہے ہیں؟‘‘

    ’’او جی بس۔۔۔ پہلے فوج میں تھا تو بیمار ہوگیا نوکری چھوڑ دی جب ٹھیک ہوا تو یہاں گارڈ کی نوکری کر لی۔ پانچ سال ہوگئے ہیں۔۔۔ ساڈے پانچ پونے چھ سال‘‘

    ’’اچھا۔۔۔ بہت عرصہ ہوتا ہے، بہت ہمت کی بات ہے ایسے پوری پوری رات بیٹھے رہنا۔ تھکن تو ایک طرف، ان حالات میں ویسے ہی کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے۔۔۔‘‘ میں نے خدشہ ظاہر کیا، مگر وہ اس کے جواب میں مسکرا دیا۔ میں دوبارہ بولا کبھی کوئی عجیب و غریب واقعہ ہوا ہو، حیران کر دینے والا؟‘‘

    ’’عجیب واقعہ۔۔۔؟ کون سا عجیب واقعہ؟ کوئی نہیں جی‘‘ اس نے اسی طرح مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

    ’’کوئی تو ہوا ہوگا۔ انسان کے ارد گرد بہت کچھ ہوتا ہے، کہیں پر ظلم ہے، زیادتی ہے، بھوک ہے، چوری ہے، حق تلفی ہے، جہالت ہے۔‘‘ میں نے بات کو طول دیا۔

    دراصل میرے سے بڑا احمق کوئی نہیں، یہ بھی نہیں سوچا کہ بھلا اسے ان باتوں سے کیا مطلب؟ مگر اس کے باوجود یہ مزدور طبقہ اتنا بہادر ہے کہ ہر قسم کی بات بغور سنتا ہے، چاہے اس کی سمجھ آئے نہ آئے، اثر ہو نہ ہو۔

    میں دوبارہ بولا ’’کوئی واقعہ تو ایسا ہوگا۔ جس پر بڑی حیرت ہوئی ہو، حیرانی ہوئی ہو؟‘‘

    وہ بولا ’’جی جی۔۔۔ ہوتی تو ہے، مگر ابھی یاد نہیں‘‘ اس نے آخری کش لگا کر سگریٹ ایک طرف پھینکا اورسوچ میں پڑ گیا ’’کوئی۔۔۔ حیریانی۔۔۔ ہاں! ایک دفعہ‘‘

    ’’ہاں کیا ایک دفعہ؟‘‘ میں تھوڑا سیدھا ہو کر بیٹھا۔ کیوں کہ وہ ایک چوکیدار تھا اور مجھے اس سے کسی بہت ہی حیران کن قصے کی امید تھی، جیسے کسی چور کو رنگے ہاتھ پکڑ لیا گیا۔ کوئی عاشق اپنی معشوقہ کی دیوار پھلانگتا ہوا پکڑا گیا۔ یا کوئی ہمسایہ اپنی چوری چھپے اپنی پڑوسن کے گھر گھستا ہوا دھر لیا گیا۔۔۔ کچھ ایسا۔۔۔ مگر اس نے کوئی اور ہی کہانی سنائی۔۔۔

    ’’میرے ناں صاب جی پانچ بچے تھے، تیسرے لمبر والے کو ڈیڑھ سال پہلے نمونیا ہو گیا تھا، وہ چار سال کا تھا‘‘ ’’اچھا؟ اوہو۔۔۔ بہت برا ہوا۔ مگر اس میں حیرانی والی یا حیرت کی کیا بات ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    اس نے کچھ پل بہت ہی سنجیدگی سے میری طرف دیکھا، پھر بولا’’پہلے تو میری گھر والی گھر میں ہی ٹوٹکے کرتی رہی، کوئی فرق نہیں پڑا تو میں دم درود کرواتا رہا، وہ اور بیمار ہو گیا تو سوچا ڈاکٹر کے پاس لے جاؤں، سرکاری ، ہسپتہل میں رش اتنا تھا باری بڑی دیر کے بعد آئی، کمرے میں گیا تو ڈاکٹر صاب کو دیکھا۔ اسی ٹاؤن کے ہیں روز یہاں سے گذرتے ہیں، آپ جانتے ہوں گے ڈاکٹر آفتاب کو؟‘‘

    میں نے ‘ناں‘ میں سر ہلا یا ’’نہیں میں نہیں جانتا، اچھا پھر؟‘‘

    اس نے اپنی بات جاری رکھی ’’اس دن ہسال میں ڈاکٹر صاب کے ساتھ میرے بیٹے جتنی انکی بیٹی بھی تھی۔ وہ کچھ کھا نہیں رہی تھی اور ڈاکٹر صاب اسے پیار سے کھلانے کے لئے منا رہے تھے۔ بہت دیر کے بعد وہ بسکٹ کھانے لگی تو ڈاکٹر صاب بولے ہاں جی؟ کیا ہوا تمھیں؟ میں نے کہا ڈاکٹر صاب میرا بیٹا ہے، میری بات پوری نہیں ہوئی تھی انکی بچی نے پھر انہیں کھینچا اور بولی پاپا چاکلیٹ۔۔۔ زیادہ شور مچایا تو ڈاکٹر صاب اٹھ کر باہر چلے گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد واپس آئے تو تب بھی بچی شور ہی کر رہی تھی۔ پاپا چاکلیٹ۔۔۔ پاپا چاکلیٹ۔۔۔ ڈاکٹر صاب بولے بیٹا ابھی تھوڑی دیر تک آجاتی ہیں۔ پھر میری طرف ہو کر بولے اچھا تو کیا ہے؟ بیمار آپ ہیں یا بچہ؟ میں نے کہا میرا بچہ ہے جی۔ ڈاکٹر صاب نے پوچھا کیا ہوا ہے اسے ؟ میں بتانے لگا تو انکی بچی پھر بولی پاپا چاکلیٹ، ڈاکٹر صاب بولے بیٹا ابھی آتی ہے، بس ٹین منٹ۔۔۔ بس ٹین منٹ۔۔۔” چوکیدار کی نظریں سامنے آہنی کھمبے پر جمی ہوئی تھیں، وہ خاموش ہو گیا۔

    میں کچھ دیر کے بعد بولا ’’اچھا۔۔۔ پھر چیک کروایا تو؟‘‘

    ایک جھٹکے سے چوکیدار کی نظریں کھنبے سے اتر کر میرے چہرے پر آئیں ’’ہیں۔۔۔؟ جی جی۔۔۔ ڈاکٹر صاب کی بچی بہت ضدی تھی، جب تک چاکلیٹ آئی نہیں وہ مانگتی ہی رہی اور ڈاکٹر صاب بیٹی سے بہت پیار کرتے تھے۔ اس کو مناتے مناتے انہوں نے مجھ سے بیماری کا پوچھا، کچھ بچی نے سننے دیا کچھ نہیں سننے دیا، میں نے کہا ڈاکٹر صاب اسے کھانسی ہے، بخار ہے اور سینے میں درد بھی ہوتا ہے۔۔۔ ڈاکٹر صاب کی بچی بہت شور مچا رہی تھی، انہوں نے پوچھا بخار کب سے ہے؟ اور مجھے تھوڑا سا ڈانٹ بھی دیا، مجھے کہتے تم لوگ بچوں کا خیال نہیں رکھتے ، سردی میں چھوڑ دیا ہوگا۔ پھر انہوں نے منہ میں جلدی سے بخار دیکھنے والا آلہ ڈالا۔ تھوڑی دیر کے بعد اسے دیکھا، جلدی جلدی پرچی پر دوائی لکھی اور کہا صبح دوپہر شام دے دینا۔ کوئی باہر سے انکی بچی کی چاکلیٹ لے کر آ گیا اور ڈاکٹر صاب اسے پیٹک کھول کر دینے لگ گئے۔ میں اٹھ کر آ گیا‘‘

    چوکیدار نے دوسرا سگریٹ سلگایا اور ڈبیا میری طرف بڑھا دی، میں نے بھی ایک سگریٹ نکال کر سلگا لیا اور بولا ’’اچھا پھر‘‘

    ’’پھر کیا صاب جی۔۔۔ دوائی لی، اگلی رات کو اسکی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی، ہسپتہل لے کر بھاگے نہ کوئی رشکہ، نہ کوئی سیکل۔۔۔ بچہ اوکھے اوکھے سانس لے رہا تھا، دو گڈی والوں کو ہاتھ دیا وہ بھی نہیں رکے۔۔۔ بس پھر اسی رات میرا بچہ مر گیا۔۔۔‘‘ چوکیدار نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور سگریٹ کا کش لگایا۔

    میں تھوڑی دیر چپ رہا پھر بولا ’’ڈاکٹر آفتاب کے گھر کا پتہ تھا تو گھر لے جاتے، یا تمہارا گھر اس کے گھر سے دور تھا؟‘‘

    ’’اوہ نہ صاب جی کہاں دور ہے، ٹاؤن کے پارلی طرف میرا گھر ہے، میں لے کر آیا تھا، ڈاکٹر صاب کی بیوی نے کہا تھا گھر کوئی نہیں ہے۔۔۔ پتہ نہیں الله ہی جانے، گڈی تو ان کی اندر کھڑی تھی‘‘

    میں اور چوکیدار کچھ دیر خاموش بیٹھے رہے اور پھر میں اٹھ کھڑا ہوا۔

    ’’جاتے ہیں صاب جی؟‘‘ چوکیدار بولا

    ’’ہاں، بس چلوں۔۔۔ سگریٹ کے لئے شکریہ‘‘

    ’’اوہ نہیں جی، کوئی بڑی بات نہیں۔ اور لے جائیں آگے رات ہے کہیں سے ملے گی نہیں‘‘

    نہیں بس چلتا ہوں، شکریہ‘‘ میں ہاتھ ملا کر اپنے گھر کی طرف آ گیا۔

    اگلے روز میں کچھ جلدی آفس سے لوٹ کر گھر آ رہا تھا، مین اینٹرس پر میرے سے پہلے ایک گاڑی داخل ہو رہی تھی جس پر ڈاکٹر والا مونو گرام لگا ہوا تھا اور چوکیدار بہت ہی خوش اخلاقی سے، دایاں ہاتھ پیشانی پر رکھے، سر جھکا کر اونچی آواز میں اندر بیٹھے شخص سے کہہ رہا تھا؛

    ’’سلام لیکم صاب جی۔۔۔!‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے