Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

چور

MORE BYایوا دوے

    میر ے کوں اپنی ماں کے ساتھ رہنا بوت اچھا لگتا ہے۔ مجھے ایسی، ارے یہ کس نے دروازہ کھولا۔ اوماں رے! باپا (ابا) کسی آدمی کے ساتھ گھر میں آئے۔ میرے کوں تو ایسا ڈر لگا کہ میں بابا بابا کرتا ہوا رسوئی گھر میں گھس گیا۔ وہ آدمی میرے کوں ہی مارنے آیاتھا۔ ہاں۔ وہ مجھے مارنے ہی تو آیاتھا۔ بھئی میرے کوں بوت ڈر لگتا تھا۔ اور جب جب میرے کوں ڈر لگتا ہے تب تب مجھے رونا آتا ہے اور ’’پھو پھو‘‘ ہوجاتا ہے۔

    رسوئی گھر میں جاتے ہی ماں کی چھاتی سے لپٹ کر چسر چسر دودھ پینے کو میرا بوت دل ہوا۔ لیکن کیا کروں، مار کمرے میں بیٹھے تھے باپا اور وہ آدمی! میں تو بھئی نہ رہ سکا۔ انگوٹھا چسر چسر کرتے میں نے ’’پھو پھو‘‘ (پیشاب) کردیا۔ ابھی کاتویہ ہے کہ میں یوں پھوپھو کردیتا ہوں تو ماں بھی میری دھول جھٹک دیتی ہے۔ لیکن اس وکھت وہ شکر پھانکنے میں ایسی مگن تھی کہ مجھے پیٹنا بھول ہی گئی۔ باپا آگئے ہیں، یہ جان کر وہ جھٹ سے ڈبہ بند کرکے اسے رکھنے دوڑی۔ اچھا ہوا کہ باپا اس کمرے میں تھے، نہیں تو وہ مجھے ڈانٹتے۔ باپا جب پیٹتے ہیں تب بھئی ساب ایسا تو ’’پھوپھو‘‘ ہوجاتا ہے، ایسا تو ’’پھوپھو‘‘ ہوجاتا ہے کہ نہ پوچھو بات۔۔۔ وہ تو بس ایک ہی بات کہتے ہیں،

    ’’اتابڑا اونٹ ہوگیا پر عقل نہ آئی۔‘‘ اور جب وہ کہتے ہیں کہ ماں جیسا بیٹا، تب تو میرے کوں بوت اچھا لگتا ہے۔ جبھی تو میں کہتا ہوں کہ میری ماں کے ساتھ میرے کوں ایسا مجا (مزہ) آتا ہے، ایسا مجا آتا ہے کہ ایسا مجا اس کی چھاتی سے لپٹ کر چسر چسر کرنے میں بھی نہیں آتا ہے۔ دوسرے کسی کے ساتھ تو ایسا مجا نہ آئے سو نہ آئے۔ میں اور میری پیاری ماں باپا کے گھر میں نہ ہوئیں تب رسوئی گھر میں گڑ اور شکر کے ڈبے کھول کر جو مجا کریں تو ایسا مجا تو بہت کم دفعہ ہم کو آئے۔ لیکن رات کوں یہ سارا مجا نکل جاتا ہے۔۔۔ باپا کو خبر ہوہی جائے۔ ماں سے پوچھ تاچھ کرکے، میں اور ماں بچاری پکڑی جائے، گڑ شکر ڈبے میں بچے ہی نہیں۔

    پھر وہ ماں کو جوتوں اور لاتوں سے ماریں، وہ ماریں کہ میرا سار مجا کرکرا ہوجائے اور ’’پھوپھو‘‘ ہوجائے سو الگ۔ میں موری پر پہنچوں اس سے پہلے ہی میری ماں بومابوم (چیخ چیخ کر) کرکے بوت روئے۔ لیکن اور کچھ ہوئے بھی کیا؟ او۔۔۔ او۔۔۔ بابا کے گلوں (قدموں) کی آواز! باپا، باپا، با۔۔ پا۔ اندرآئے۔ ماں جھٹ پٹ سیانی بن کر آٹا گوندھنے لگی۔ آکے وہ یوں بولے کہ وا بھئی وا، آج تو تم دونوں ہی بڑے فرماں بردار لگتے ہو۔ اگرایسے ہی رہیں گے تو وہ ہم کو کسی کی سادی میں لے جائیں گے۔ آ۔ ہاں۔ اچھے بن کر رہیں گے۔ ماں اٹھی۔ سادی۔ سادی۔ سادی، وا بھئی وا۔ سادی یانی میٹھا میٹھا، اچھا اچھا کھانے کا۔ او۔ او۔ بوت بوت مجا آئے گا۔

    پھک پھک کرتی آگی کی گاڑی میں بیٹھ کر ہم سادی والے گاؤں آئے۔ اتنے سارے آدمیوں کو دیکھ کر مجھے ایسا تو ڈر لگا کہ میں نے بڑی مشکل سے پھوپھو روک رکھا۔ ہم کس کے گھر آئے، بڑا اور اچھا گھرتھا۔ دوچار بڑے بڑے کمرے۔ نہانے کا کمرہ بڑا اور اس میں وابھئی واہ کیااچھی موری۔ ماں نے ایک چھوٹے کمرے کے کونے میں پیٹی رکھی۔ بستر بچھا کر گھر بنایا۔ میں ماں کے ساتھ دبک کر بیٹھ گیا۔ مجھے مجا آنے لگا۔ نقارے والے تڑوم دھوم، تڑوم دھوم کررہے تھے۔ باجے والے شور مچارہے تھے اور لڑکے بالے وہ ناچیں کہ بھئی واہ۔

    یاں کے چھوکرے بھی بوت اچھے تھے۔ میرے کوں ستاتے اور چڑاتے نہ تھے۔ ایک باپا تھے جو بار بار کہتے رہتے تھے، اری دہو (بیوی) تو جریک سنبھل کے رہیو سرا پھت سے۔ کھوب اچھا کھانا میں تیرے کوں گھر جاکے دلادوں گا، رسوئی گھرسے دور رہیو اور اس چھوکرے کو اپنے پاس سے ہٹنے مت دیجیو۔ ذرا بھی اکیلا مت چھوڑیو، میری ماں ہے تو بڑی ہشیار۔ جب کوئی نہ ہوتب تو رسوئی گھر میں گھس جائے اور گڑ کا ٹکڑا یا شکر کی چٹکی یا کوئی مٹھائی اٹھالائے۔ پھر خود بھی کھاتی اور مجھے بھی کھلاتی۔ ہم دونوں کو بوت مجا آوے۔ بوت مجا آوے۔ مجے مجے کے کھانے کھاکھا کر میرا تو پیٹ ایسا نقارہ ہوگیا کہ جیسے پھٹ جائے گا۔

    ایک وقت کیا ہوا کہ جب کوئی دیکھتا نہ تھا تو ماں رسوئی گھر میں گھسی۔ میں نے ایک ڈوسی (بڑھیا) کو آتے دیکھا۔ بوت ’’اوں اوں‘‘ کی لیکن ماں نے سنا ہی نہیں۔ میں تو بھئی کمرے کے کونے میں دبک گیا۔ ڈوسی تو مردار ایسی بوما بوم کرنے لگی۔ لی واؤ۔۔۔ لی واؤ (اری بہو، اری بہو) یہ کیا رہی ہے ری؟‘‘ کچھ نہیں کاکی، کچھ نہیں کاکی۔ دیکھ رہی تھی کہ برتن تو دھونے کو باقی نہیں رہ گئے۔ وہ ڈوسی کچھ بڑبڑاتی ہوئی باہر چلی گئی۔ میں نے سوچا کہ اب باپا آئیں گے اور ہم دونوں کو جوتوں سے دھنا دھن ماریں گے۔ جوتوں کا میرے کوں بوت ڈر لگا۔ اور ’’پھو پھو‘‘ ہوجانے جیسی حالت ہوگئی۔ وہ تو ماں نے چھٹ پٹ اندر آکر میرے کوں چھاتی سے لپٹالیا، اس لیے ’’پھو پھو‘‘ بند ہوگیا۔

    ماں بڑبڑانے لگی۔ کیسے لوگ ہیں موئے، یہ ڈوسی موئی پیچھے ہی لگی رہتی ہے۔ جیسے ہم کوئی ڈلّو لپڑے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد وہ پھر گھرکے اندر باہر گئی۔ ادھر ادھر دیکھ آئی۔ پھر وہ اندر آئی اورکھلی ہوئی پیٹیوں میں کچھ تلاش کرنے لگی۔ ایک پیٹی میں سے اسے بوت اچھی چمک چمک کرتی پیلی انگوٹھی ملی۔ ماں تو اسے دیکھتی ہی رہ گئی۔ اسے بوت مجا آگیا۔ اسے جیب میں رکھنے جارہی تھی کہ وہی سسری ڈوسی لپڑ لپڑ دوڑتی اندر آئی اور باپ رے باپ، پھر جو شور مچایا ہے کہ جیسے اس کی گردن شیر نے دبوچ لی ہو۔

    مجھے تو یہ سن کر ’’پھوپھو‘‘ ہونے کی حالت ہوگئی۔ کہنے لگی، ’’لی واؤ! کیا کرتی ہے تو، ٹھیر توجا۔ کیا لیا ہے۔ بتا۔ بتا۔ لی واؤ۔‘‘ ماں نے کھڑے ہوکر کہا کہ کچھ نہیں لیا۔ یہ تویونہی بیٹھی تھی یاں۔ اور انگوٹھی مٹھی میں چھپا کر دونوں ہاتھ پیٹھ کے پیچھے کرلیے۔ میں توبوت ڈر گیا۔ ’’پھو پھو‘‘ دبا کر دوڑا اور ماں کے پیچھے چھپ گیا۔ ماں روتے روتے (یونہی جھوٹ موٹ) کچھ نہیں لیا، سچ کہتی ہوں۔ ڈوسی چیخ کر بولی، نہیں تو پھر یہ ساری پیٹیاں کیوں اوپر تلے ہیں؟ اب وہاں بہت سے آدمی اور عورتیں جمع ہوگئے۔ میرے کوں بوت مجا آیا۔ میرے کوں یوں ہواکہ اب یہ سب میرے ساتھ کھیلیں گے۔

    اتنے میں تو ماں نے میرا منہ کھول کر گڑکی ڈلی رکھے، یوں وہ انگوٹھی اس میں رکھ دی۔ میں سب سمجھ گیا۔ ماں نے انگوٹھی چھپانے کے لیے میرے کوں دی تھی۔ پہلے بھی باپا کے آجاتے ہی ماں کئی دفعہ چھوٹی بڑی چیزیں میرے منہ میں رکھ دیتی تھیں۔ میں ان چیزوں کو نگل نہیں جاتا تھا۔ جب باپا ماں کے چھپائے ہوئے پیسے ڈھونڈنے آتے تھے، تب ماں وہ پیسے میرے منہ میں ہی رکھ دیتی تھی۔ میں نے انگوٹھی جیب کے نیچے دبالی۔ اب وہ ڈوسی مرادار ماں کے ہاتھ کھینچنے لگی۔ ماں نے کہا، کھبردار جویوں ہاتھ کھینچے۔ اس پر وہ ڈوسی مردار کہنے لگی، ہاتھ تو کیا تیری جیب بھی کھینچ ڈالوں گی۔ بتارانڈ، بتا، تیرے ہاتھ میں کیا ہے۔

    وہ تو اچھا ہواکہ باپا کہیں باہر گئے تھے گھومنے۔ نہیں تو ہم دونوں کو جوتوں سے ایسا دھپادھپ مارتے کہ مجھے ’’پھوپھو‘‘ ہوجاتا۔ اب کیا ہوا کہ سارے چھوکرے ہاتھ اونچے کر کے ہوہو ہو کرنے لگے۔ میرے کوں تو بوت مجا آیا۔ میرے کوں بھی ہوہوہوکرناتھا۔ اتنے اچھے چھوکرے تھے کہ میرے کوں ستاتے نہ تھے۔ یوں وہ میرے ساتھ کھیلنے آئے اور میں منہ نہ کھولوں، ایسا تو کہیں ہوسکتا ہے بھلا۔ ان کی دیکھا دیکھی میں بھی ہاتھ پھیلا کر ہوہو کرنے لگا۔

    ’’ہو۔ او۔ پ‘‘ ہوگیااور وہ انگوٹھی ’’بھپ‘‘ سے باہر نکل پڑی۔۔۔ اور گری اس ڈوسی کے ہاتھ پر۔ جھٹ سے اس نے انگوٹھی لے لی اور چیخ کر بولی، رانڈ! جھوٹی! چور! ماں کو تو وہ ایسا بولنے لگی، باپ رے باپ کیا لتے لیے ہیں ماں کے کہ کوئی اور وقت ہوتاتو مجھے رونا آجاتا اور ’’پھوپھو‘‘ بھی ہوجاتا لیکن وہ چھوکرے اتنے اچھے تھے کہ ان کے ساتھ میں بھی کھیلنے اور ناچنے لگا۔ ارے چور!، ارے چور کہہ کر وہ ایسے ناچ رہے تھے کہ میرے کوں بوت مجا آرہاتھا۔ میں بھی چور چور‘‘ کہہ کر ہوہو کرنے لگا۔ یوں پہلی ہی دفعہ میں چھوکروں کے ساتھ کھیلا۔ سچ کہتا ہوں میرے کوں بوت بوت مجا آیا۔ چھوکرے کتنے اچھے تھے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے