میں ایک کونے میں دبکا بیٹھا ہوں لیکن یہ ڈراونے پہاڑ نما دیو اور آنکھوں کو خیرہ کرتی روشنی مجھے زندہ درگور کرنے کے لئے کافی ہے۔ میرے نازک اینٹینا جنہیں میں بار بار صاف کر رہا ہوں کہ میں کہیں کسی ممکنہ خطرے سے بےخبر نہ رہ جاوں لیکن سب بےسود ہے۔ ہر لمحہ موت کا دھڑکا اور یوں خالی پیٹ اس کونے میں کتنے دن گزار سکوں گا۔ موت تو برحق ہے لیکن یہ سب کیا ہو رہا ہے لوگوں کے جھنڈ کے جھنڈ، جگماتی دکانیں شو کیسوں میں لاکھوں ڈالر کی اشیاء، ایک دن میں اربوں کھربوں کی اشیاء ضرورت، نہیں نہیں، اشیاء غیرضروری کا تبادلہ، فیکٹری سے دکان، دکان سے مکان اور اگلے چند دن میں مکان سے باہر کوڑے والے کے انتظار میں یہ اشیاء۔۔۔ اس سب ضیاع کا کون ذمہ دار ہے؟ فیکٹریوں کے مالک یا خریدار جو بھیڑ بکریوں کی طرح اپنے سٹیٹس سمبل کے لئے یہ سب کرتے ہیں۔ اف!!!
وہ دن جب میں بھی صبح کا گیا رات گئے گھر لوٹتا تھا۔ دفتر سے تھکا ہارا ان تمام اشیا سے ملنے کا مجھے وقت ہی کہاں تھا۔ اس حالت کو پہنچنے سے پہلے آخری رات جب میں نے والد کو اپنی تنخواہ دی تھی، میں کس اطمینان سے سویا تھا۔ کیوں یہ سب سائے بھاگ رہے ہیں، کل کرسمس ہے، گھر سجائیں گے، تحائف کے تبادلے ہوں گے، کھانے کی دعوتیں، موسیقی کی محفلیں ہوں گی اور پرسوں۔۔۔؟ وہی مالک وہی مزدور، سارا سال محنت، عمارات کی تعمیر۔ شہر کے شہر بسائے جائیں گے، کھیت کھلیان کا دھندا، معمولی اجرت پر تمام دنیا کی تعمیر کا کام کرتے ہم خود ہی نقب زن اور خود ہی نقبچی۔ یہ دھڑ دھڑ کا شور کیسا ہے! اوہ، لگتا ہے میرے پیچھے کوئی دروازہ کھلا ہے، یہ توقسمت ہی کھل گئی، باہر جانے کا راستہ ہے۔ میں رینگتا ہوا دیوار کے ساتھ ساتھ چپک کر، مبادا کسی کے پاوں تلے کچلا جاوں، اس شور سے دور ہوتا چلا گیا۔
میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ الیکشن جیتنے کے فوراً بعد میں آپ سب کی مشکلات حل کر دوں گا، کوئی غریب نہیں رہےگا، بجلی پانی آٹا چینی، ہر سہولت مہیا کی جائےگی۔ بس آپ سب کے تعاون کی ضرورت ہے۔۔۔ میں بار بار اس درخت کی چھال میں سونے کی کوشش کر رہا ہوں مگر یہ فقیرانہ صدائیں مجھے سونے نہیں دے رہیں۔ اے قدرت ! تیرا نظارہ کتنا حسین ہے، نیلا کشادہ آسمان، مٹیالی زمین، لہراتی، گنگناتی ڈالیاں، ہریالیاں، کھیتوں میں سونے کی بالیاں اور سرسراتی ہواوں کی لوریاں، ان سب میں یہ 'بھیانک گداگر'۔۔۔ ہاں ہاں کوئی غریب نہیں رہےگا۔ کیونکر رہےگا!!! ضروریات کو سہولیات بتا رہے ہو اور ان ضروریات کے بم پہلے ہی غریبوں پر پھاڑ چکے ہو، بس اب ایسے ہی گزارا کرو۔۔ ''سفید لومڑی مردہ باد کے نعرے نے میرا تجسس بڑھا دیا، میں نے چھال سے منہ نکال کر جھانکا، سامنے ایک سٹیج پر بڑا سا عقاب کے دھڑ اور سانپ کے سر والا عفریت زور و شور سے تقریر کر رہا ہے۔ سامنے بےشمار گدھوں کے سر نظر آئے، جن سے وہ مخاطب ہے اور شاید وہی ڈھینچو ڈھینچو کر رہے ہیں۔ بیچ بیچ میں مجھے کہیں رنگین بھیس بدلی لومڑیاں بھی دکھائی دیں، جو گاہے بگاہے عقاب کو اشارے سے کچھ کہہ رہی ہیں۔ تقریر ختم ہوئی تو گدھوں کے جدھر سینگ سمائے یہ جا وہ جا۔ عقاب نما عفریت کے گرد لومڑیاں اکٹھی ہو گئیں اور اس کے آگے بہت سے مرے ہوئے گدھے، انڈے اور دیگر اشیاء ڈال کر چلتی بنیں۔ پہلے تو میں نے شکر کیا اور سونے کی کوشش کی لیکن یہ بات میرے ذہن سے محو نہ ہو سکی کہ آخر لومڑیاں اپنے ہی خلاف ''سفید لومڑی مردہ باد کے نعرے کیوں لگوا رہی تھیں۔ جب میں کالج میں پڑھتا تھا تو اکثر فلسفے اور نفسیات پر بات ہو جایا کرتی تھی، مجھے وہ Reverse Psychology والی تھیوری یاد آ گئی جو گدھوں کو مزید گدھا بنانے میں معاون ہوتی ہے۔ ویسے بھی یہ نعرہ عقاب کی اصلیت چھپانے میں مدد گار تھا۔۔۔ اف یہ گدھے!!!
میرے زخمی پاوں میں ابھی درد باقی تھا۔ میں لنگڑاتا ہوا ایک گھر میں جا گھسا کہ وہاں کسی کونے کھدرے میں سو رہوں گا۔ اتفاق سے دروازہ کھلا تھا۔ میں پایدان سے بچتا بچاتا، صوفے کی اوٹ لیتا، پنیر کی خوشبو کی سمت چل دیا۔ باورچی خانے میں کوڑے دان کا ڈھکنا ادھ کھلا رہ گیا تھا۔ اس میں کھانے کی بےشمار اشیاء پڑی تھیں جویقیناً بچوں نے آدھی ادھوری کھا کر پھینک دی ہوں گی۔میں نے دوزخ کی آگ کو ٹھنڈا کیا اور مزے سے دراز کے نچلے حصے میں لیٹ گیا۔ اچانک کمرے میں دو لوگ داخل ہوئے۔ وہ آہستہ آہستہ باتیں کر رہے تھے۔ انہوں نے فریج کھولا، لڑکے نے ٹھنڈے پانی کی بوتل کو منہ لگایا، لڑکی نے جلدی جلدی ایک بڑے ڈبے میں انواع و اقسام کے کھانے سجانے شروع کر دیے۔ کچھ روٹیاں کپڑے میں باندھیں اور کہنے لگی جلدی چلو ، مالک اُٹھ گئے تو برا ہو گا۔ بچے بھی بھوک سے بلک رہے ہیں، رو رو کر برا حال ہے لڑکے نے خالی بوتل بھر کر فرج میں رکھی اور دونوں دبے پاوں نکل گئے۔ میں نے کوڑے دان میں نقب لگائی، نوکر نے مالک کے باورچی خانے میں، مالک فیکٹری کے راستے نقب زنی کرتے ہیں، ٹیکس چراتے ہیں اور فیکٹریاں حکومتوں میں اور حکومت ۔۔۔ وہ بس ٹیکس عائد کرتی ہے۔ ایک سلسلہ نقب زنی ہے اور بچے بھوکے رو رہے ہیں۔۔۔ کس کس کے؟
منہ اندھیرے میں نے اپنا منہ صاف کیا، منہ سے اپنے اینٹینا صاف کیے اور لیٹ گیا۔ اوندھا سوتے سوتے میں بھولتا جا رہا تھا کہ سیدھا لیٹنے میں کیا مزا ہے۔ اگر کبھی میں الٹ بھی جاوں گا تو کام کرنے والے مزدوروں کی طرح ساری عمر الٹا ہی پڑا رہوں۔ مجھے اپنا بستر بہت یاد آیا۔
سرشام ٹی وی کے شور نے مجھے متوجہ کیا۔ یہاں تبصرے چل رہے تھے، ''ویت نام پہ نیپام بم اور ایجنٹ اورنج کی نوعیت دوسری جنگِ عظیم میں نازی کی بربریت سے سوا نہیں تھی۔ افغانستان میں القاعدہ اور طالبان کا خاتمہ کرتے کرتے افغانستان اور پاکستان کا خاتمہ ہوتا جا رہا ہے۔ عراق میں صدام حسین کی حکومت کو گرانے کا مقصد خلیجی جنگ کو ختم کرنا تھا یا عراقی عوام کو یا کچھ اور لبیا اور پھر شام، مصر۔۔۔ کائنات، قدرت یا زندگی کن سلسلوں کے نام ہیں؟ طرح طرح کے سلسلے، میرا زخم گہرا ہوتا گیا۔ تکلیف کی شدت سے چلا نہ جاتا، کیا ہیرو شیما اور ناگا ساکی کے بعد اب۔۔۔ میری ٹانگ کے زخم سے سفید سا مواد رِسنا شروع ہو گیا۔۔۔ وہ کڑوڑوں جاپانی جو یورینیم کے مضر اثرات سے معذور، لنگڑے، اندھے اور بہرے پیدا ہوئے، عراق اور ویت نام۔۔۔ جہاں ایک نسل درمیان میں سے غائب ہو گئی۔۔۔ یا کر دی گئی۔۔۔ اف میری ٹانگ۔ کیا میری نوع بھی؟ اب یاد نہیں کہ کس وقت کی خبروں کے دوران افزودگی کا ماہر، بدشکل سا ایک سائنس دان فخر سے بتا رہا تھا کہ اس کی نئی تحقیق کی بنیاد فرانز کافکا کی ایک کہانی بنی۔ بھیڑیے کی طرح دانت نکوستے ہوئے اس نے فخر سے یہ اطلاع بھی دی کہ اِس بار کاکروچ بھی۔۔۔ آنکھ لگی ہی تھی کہ امی کی آواز آئی علی بیٹے! اٹھ بھی جاوٰ، آج کیا دفتر نہیں جانا۔ میں نے چاہا کہ کافکا کی طرح سکرٹ میں پناہ لوں، لیکن آپا یونیورسٹی جا چکی تھیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.