کریم لگا بسکٹ اور چونٹیاں
وہ زندہ ہوتے ہوئے بھی مردہ تھا۔
اور مردہ ہوتے ہوئے بھی زندہ۔
اب تک وہ مصنوعی تنفّس کے ذریعے زندہ تھا۔ اگر آکسیجن کی نلی وہ اپنے نتھنوں سے ہٹا دیتا تو اس کی موت واقع ہو سکتی تھی یعنی ایک طرح سے زندگی اوپر والے کے ہاتھ میں تھی تو موت اس کے اختیار میں تھی اور ایسا اسے تب معلوم ہوا جب ایک بار اِدھر اُدھر سر ہلانے سے آکسیجن کی نلی ہٹ گئی اور وہ ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگا۔ اگر عین وقت پر مصنوعی تنفّس جاری نہ ہوتا تو۔۔۔؟
ٹرین کے ایک حادثے میں وہ بری طرح جل گیا تھا اور اب اس کی حالت نازک تھی۔ اس حادثے میں وہ اس درجہ متاثر ہوا تھاکہ اب جب بھی قریب کی ریلوے لائن سے ٹرین کے گزرنے کی آواز آتی تو اس کا لہو کھولنے لگتا، نہ چاہنے کے باوجود اس کی آنکھیں خود بخود بند ہونے لگتیں اور ایک خون آلود منظر اس کی آنکھوں کے سامنےزندہ ہوجاتا، ہولی کی طرح جلتی ہوئی لاشیں، کھڑکیوں کے قریب جلتا ہوا ایک نا معلوم چہرہ، زندگی کے لئے باہر نکلا ہوا ہاتھ اور چار انگلیاں اور ایک انگوٹھا۔
ان دنوں وہ بہت محدود ہوکر رہ گیا تھا، وارڈ کے دوسرے زخمی، نرسیں، ڈاکٹر، قریب کی کھڑکی سے جھانکتا ہوا صاف کھلا اور روشن آسمان، نیم کا ایک گھنا درخت اور اس میں لٹکتی ہوئی نیم کی کچی کڑوی نبولیاں، اور اس کے سرہانے تپائی نما ٹیبل اور اس پر رینگتی ہوئی چیونٹیاں، یہی اس کی کل کائنات تھی۔
اسے کچھ نہ ملا تو بے طلب، بے سبب اس نے چیونٹیوں سے ہی اپنا دل بہلانا شروع کر دیا۔۔۔ وہ تام چینی کی ایک پلیٹ میں بیچوں بیچ کریم لگا بسکٹ رکھ دیتا اور پھر پلیٹ میں پانی ڈال دیتا، چیونٹیاں خو شبو محسوس کرکے جمع ہوتیں، بسکٹ تک پہنچنے کی کوشش کرتیں مگر ناکام رہتیں کیوں کہ بیچ میں پانی کی دیوار حائل تھی۔ چیونٹیاں بے تابی اور بے چینی سے پلیٹ کے کنارے کنارے گھومتیں، جمع ہوتیں اور بکھر جاتیں، یہ منظر دیکھ کر اسے عجیب سی لذّت، سکون اور خوشی کا احساس ہوتا۔
ایک صبح اس کا پڑوسی مر گیا اور اس کی لاش بیڈ سے اٹھالی گئی۔ جب وہ سفید چادر اور لال کمبل والے خالی بیڈ کو گھور رہا تھا تو دفعتاً اس نے ایک عجیب منظر دیکھا، چیونٹیاں بسکٹ تک پہنچ چکی تھیں۔ وہ بڑے آرام سے آجا رہی تھیں، اسے تعجّب ہوا اور غصّہ بھی آیا۔۔۔ یہ کیا ہورہا ہے؟آخر چیونٹیاں بسکٹ تک کیسے پہنچیں۔۔۔؟
اس نے آہستہ سے ہاتھ بڑھا کر مسر وراور مخمور چیونٹیوں کو مسل ڈالا۔۔۔ لیکن اس سے بھی اس کی تسکین نہ ہوئی۔ اس کا تجسّس پھر بھی برقرار رہا۔ کچھ سوچ کر اس نے پلیٹ کا پانی بدلا اور اس میں بسکٹ کا نیا ٹکڑا رکھ دیا اور کچھ ہی دیر کے بعد اس کی چشمِ حیرت نے نیا تماشا دیکھا۔۔۔ چیونٹیاں جمع ہوئیں، پھر ان کی اگلی قطار پانی میں اترنا شروع ہوئی ۔ اس نے دیکھا کہ چیونٹیاں قطار در قطار پانی میں اترتی جاتی ہیں اور سکون سے مرتی جاتی ہیں۔ جان دینے کا یہ سلسلہ اس وقت تک قائم رہا جب تک کہ پلیٹ اور بسکٹ کے درمیان مری ہوئی چیونٹیوں کا ایک پل سا نہیں بن گیا۔ پل بنا اور چیونٹیاں اپنی منزل تک پہنچ گئیں اور خاموشی سے ان کا آنا جانا شروع ہو گیا۔ من ہی من میں کچھ بڑ بڑاکر اس نے انگلی سے ساکن پانی ہلا دیا۔۔۔ پل ٹوٹ گیا اور چیونٹیاں اِدھر اُدھر بکھر گئیں۔
دن میں وہ اس قسم کے بے معنی تماشے کرتا اور جب رات ہوجاتی اور پورے وارڈ پر خاموشی چھا جاتی تو وہ اپنے جسم سے نکل کر ماضی کے ڈھلوانوں میں اتر جاتا اور بیتے ہوئے دنوں کا محاسبہ کرنے لگتا کہ گزرے ہوئے دنوں میں اس نے کیا کھویا اور پایا اور جتنا زیادہ وہ سوچتا اس سے کہیں زیادہ وہ فکرمند ہوجاتا۔ چالیس سال تک وہ صرف زندہ رہا، یہی اس کا کارنامہ تھا۔ اس کی زندگی خالی سیپی تھی۔ اس کی بیوی جو اس کے دکھوں کی ساتھی تھی اور وقت سے پہلے بے رنگ اور بے مزہ ہوتی جا رہی تھی، بڑا لڑکا جو کالج میں پڑھتا تھا اور ہر ماہ ریمنڈ کی پینٹ کے لئے ضد کیا کرتا تھا، اس سے چھوٹا نویں جماعت میں پڑھ رہا تھا جسے کتابیں اور کاپیاں مختلف انجمنوں سے مل جاتیں اور فیس E-B-C کے تحت معاف ہوجاتی، ان دونوں کے متعلق اسے زیادہ فکر نہ تھی، فکر تھی تو تین لڑکیوں کی جن کے سینوں سے آنچل ڈھلکنے لگا تھا، یہ تھا اس کا چھوٹا سا خاندان۔
اور دھارا دی کی بہت ساری کھولیوں میں سے اس کی بھی ایک کھولی تھی اس کے سپنوں کی طرح خالی اور کالی۔ ویسے زندگی میں کئی بار اس نے اوپر اٹھنے کی کوشش کی لیکن جب اس نے ایسا کیا اسے لگا جیسےوہ سمینٹ لگی اینٹ کی طرح دیوار میں چنا ہوا ہے اور اپنی جگہ سے ایک انچ بھی نہیں ہٹ سکتا۔ لگاتار اس نےکوشش کی لیکن ہر بار اسے محسوس ہوا جیسے اگر اس نے زیادہ جدّوجہد کی تو جوجگہ اسے ملی ہے شاید وہ بھی چلی جائے اور کوئی دوسرا اس کی جگہ لے لے۔ اس کے اوپر پکے پکے مکانات تھے اور ان کے اوپر بڑی بڑی بلڈنگیں قرینے سے رکھی ہوئی تھیں اور ان کے درمیان کالی سڑک دور تک لہراتی چلی گئی تھی۔ ایک انچ جگہ نہ تھی۔ اوپر جانا بہت دشوار تھا۔ ایسے حالات میں اس کے ساتھ ٹرین کا یہ حادثہ پیش آیا جس میں اس کی زندگی کے آنے والے دن بھک سے جل گئے۔
ابھی تو بہت سے کام باقی تھے لڑکیوں کی شادی، لڑکوں کی تعلیم، ایک چھوٹا سا پکا گھر اور دیش میں آنے والے انقلاب کا دیدارلیکن یہ حالت۔۔۔
اب میں اپنے گھر والوں کے لئے ایک ان چاہا بوجھ ہوں، وہ سوچتا اور گوشت کا چھوٹا سا لوتھڑا تیز تیز دھڑکنے لگتا۔
مڑے ہوئے ہاتھ۔
جلی ہوئی پنڈلیاں۔
جابجا بدن سے جھانکتا ہوا سرخ و سیاہ گوشت!
اور ذہن میں دل کی طرح دھڑکتا ہوا بس ایک ہی سوال۔
اب میں اپنے گھر والوں کو سوائے دکھ کے اور کچھ نہ دے سکوں گا۔ وہ اپنے پڑوسی کے خالی بیڈ کی طرف گھورتا ۔ اسے بہت ساری نیلی نیلی نوٹیں اس پر قرینے سے سجی نظر آئیں۔
میں مر کیوں نہیں گیا؟
کاش کہ میں مر جاتا، وہ حسرت سے سوچتا ۔ اس قسم کے بیکار خیالات دن بھر اس کے جسم سے جونک کی طرح لپٹے رہتے۔
پھر اس نے سنجیدگی سے اپنے گھر والوں کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔
اس کی پتنی۔
دو لڑکے۔
اور تین لڑکیاں۔
سب بڑے سمجھدار ہیں اور اگر دونوں لڑکوں نے ذرا سی کوشش کی تو اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکتے ہیں اور پھر اس کے ہونے اور نا ہونے سےکوئی خاص فرق نہیں پڑتا ۔ زندگی تو بہر کیف گزر ہی جائے گی۔
ویسے یہ حادثہ مجھے نہ بھی پیش آیا ہوتا تب بھی کیا فرق پڑ جاتا؟
ویسے بھی میں کتنے سال زندہ رہتا آخر؟
دس سال؟
بیس سال؟
اور بہت بہت تو پچیس سال اور ان پچیس برسوں میں سوائے زندہ رہنے کے اور میں کیا کرسکتا ہوں؟عمر بھر کی کمائی سے میں قاعدے کا ایک اپنا مکان تو بنا نہیں سکا۔ پچیس سال تو پلک جھپکتے بیت جائیں گے اور میرا جو حال ہے تو اس حالت میں میں کچھ کر بھی نہیں سکتا، بے دست و پا ہوکر رہ گیا ہوں۔ اپنی کم مائیگی، اور احساسِ تنگی داماں پر اسے رونا آگیا۔ ان دنوں وہ کچھ زیادہ ہی جذباتی ہوگیا تھا۔
میں مر کیوں نہیں گیا؟
بار بار یہی سوچتا اور جب دن رات وہ موت کے بارے میں سوچنے لگا تو پھر ایک دن اسے ایسے محسوس ہوا جیسے اسے نروان حاصل ہوا ہے۔
زندگی۔
موت۔
متوفی۔ ایک کثیر رقم۔
کریم لگا بسکٹ۔
پانی۔
پانی پر مرتی ہوئی چیونٹیاں اور۔
اور ان پر سے گزرتا ہوا چیونٹیوں کا طویل قافلہ۔
یہ تمام باتیں اس سے پہلے بظاہر بے ربط تھیں مگر اب ان باتوں میں اسے ایک قسم کا ربط نظر آنے لگا۔ جتنی تیزی سے آگ اس کمپارٹمنٹ میں پھیلی تھی اس سے زیادہ تیزی سے ایک خیال اس کے ذہن میں اتھل پتھل مچانے لگا اور کچھ دیر کے بعد اسے لگا جیسے اس کے ذہن کو کسی نے شفاف پانی سے دھوکر نکھار دیا ہے۔
اس دن اس نے اپنے گھر والوں کو دیکھا نہیں۔ آنکھیں بند کئے پڑا رہا اور ان کی باتیں سنتا رہا، اور رات کا انتظار کرتا رہا۔
پھر وہ رات بڑی مشکل سے آئی۔
پھر جب دارڈ کے تمام ساتھی بے سدھ ہوگئے۔
تو بڑی اپنائیت اور پیار سے اندھوں کی طرح اس نے اپنے جسم کےانگ انگ کو چھوا، مڑے اور جلے ہوئے پیروں کو ٹٹولا۔ اس پر بچے کھچے گرم گوشت کو ہاتھ لگایا اور پھر جلے ہوئے چہرے پر ہاتھ پھیرتے پھیرتے اس کی انگلیاں آکسیجن کی نلی پر تھم گئیں ۔ کچھ دیر تک وہ آکسیجن کی نلی کو بچوں کے تلووں کی طرح سہلاتا رہا اور پھر بڑی صفائی اور بہت آہستگی سے اس نے آکسیجن کی نلی نتھنوں سے نکال کر ہونٹ کے اوپری سرے پر ٹکائی اور سفید چادر اپنے اوپر ڈال لی۔
چیونٹیوں والا کھیل کھیلنا آج بھی وہ نہیں بھولا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.