aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شلجم

MORE BYسعادت حسن منٹو

    کہانی کی کہانی

    اس کہانی میں رات کو دیر سے گھر آنے والے شوہروں کی بیویوں کے ساتھ ہونے والی بحث کی عکاسی کی گئی ہے۔ شوہر رات میں تین بجے گھر آیا تھا۔ گھر آنے پر جب اس نے بیوی سے کھانا مانگا تو بیوی نے کھانا دینے سے انکار کر دیا۔ اس بات پر دونوں کے درمیان بحث ہونے لگی۔ دونوں اپنی اپنی دلیلیں دینے لگے اور کوئی بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہوا۔ بحث ہو ہی رہی تھی کہ اندر سے نوکر آیا اور کہنے لگا کہ کھانا تیار ہے۔ کھانے کے بارے میں سنتے ہی میاں بیوی کے درمیان صلح ہو گئی۔

    ’’کھانا بھجوا دو میرا۔ بہت بھوک لگ رہی ہے۔‘‘

    ’’تین بج چکے ہیں، اس وقت آپ کو کھانا کہاں ملے گا؟‘‘

    ’’تین بج چکے ہیں تو کیا ہوا۔ کھانا تو بہر حال ملنا ہی چاہیے۔ آخر میرا حصہ بھی تو اس گھر میں کسی قدر ہے۔‘‘

    ’’کس قدر ہے۔‘‘

    ’’تو اب تم حساب داں بن گئیں، جمع تفریق کے سوال کرنے لگیں مجھ سے۔‘‘

    ’’جمع تفریق کے سوال نہ کروں تو یہ گھر کب کا اجڑ گیا ہوتا۔‘‘

    ’’کیا بات ہے آپ کی۔۔۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مجھے کھانا ملے گایا نہیں؟‘‘

    ’’آپ ہر روز تین بجے آئیں تو کھانا خاک ملے گا۔ میں تو یہ سمجھتی ہوں کہ اگر آپ اس وقت کسی ہوٹل میں جائیں تو وہاں سے بھی آپ کو دال روٹی نہیں مل سکے گی ،مجھے آپ کا یہ وطیرہ ہرگز پسند نہیں۔‘‘

    ’’کون سا وطیرہ؟‘‘

    ’’یہی کہ آپ تین بجے تشریف لائے ہیں، کھانا پڑا جھک مارتا رہتا ہے، میں الگ انتظار کرتی رہتی ہوں مگر آنجناب خدا معلوم کہاں غائب رہتے ہیں۔‘‘

    ’’بھئی دنیا میں انسان کو کئی کام ہوتے ہیں۔ میں صرف دو دن ہی تو ذرا دیر سے آیا۔‘‘

    ’’ذرا دیر سے؟ ہر خاوند کو چاہیئے کہ وہ گھر میں بارہ بجے موجود ہو تاکہ اسے 1 بجے تک کھانا مل جائے،اس کے علاوہ اسے اپنی بیوی کا تابع فرمان ہونا چاہیے۔‘‘

    ’’اس سے تویہی بہتر ہے کہ وہ کسی ہوٹل میں جا رہے جہاں کے تمام نوکر اور بیرے اس کے تابع فرمان ہوں۔‘‘

    ’’آپ کا ارادہ تو یہی ہے ،جب ہی تو آپ کئی دن سے پر تول رہے ہیں ،میں آپ سے کہتی ہوں ابھی چلے جائیے۔‘‘

    ’’کھانا کھائے بغیر۔۔۔‘‘

    ’’جائیے ہوٹل میں آپ کو مل جائے گا۔‘‘

    ’’لیکن تم نے تو ابھی کہا تھا کہ اس وقت کسی ہوٹل میں بھی دال روٹی نہیں ملے گی۔ بات کر کے بھول جاتی ہو۔‘‘

    ’’میرا دماغ خراب ہو چکا ہے بلکہ کر دیا گیا ہے۔‘‘

    ’’یہ تو صحیح ہے کہ تمہارا دماغ خراب ہے لیکن یہ خرابی کس نے پیدا کی؟‘‘

    ’’آپ نے اور کس نے، میری جان کا روگ بنے ہوئے ہیں، مجھے نہ رات کا چین نصیب ہے نہ دن کا۔‘‘

    ’’دن کا تم چھوڑو۔۔۔ رات کا چین آپ کو نصیب کیوں نہیں۔ بڑے اطمینان سے سوئی رہتی ہیں جیسے محاورے۔۔۔ کے مطابق کوئی گھوڑے بیچ کر سو رہا ہو۔‘‘

    اپنے گھوڑے بیچ کر آدمی کیسے سو سکتا ہے ۔۔۔کتنا واہیات محاورہ ہے۔‘‘

    ’’واہیات ہی سہی لیکن ابھی چند روز ہوئے تم نے گھوڑا اور اس کے ساتھ تانگہ بھی بیچ ڈالا تھا اور اس دن تم رات بھر خراٹے لیتی رہی تھیں۔‘‘

    ’’مجھے تانگہ رکھنے کی کیا ضرورت تھی ، جب کہ آپ نے مجھے موٹر لے دی تھی اور خراٹے بھرنے کا الزام بھی غلط ہے۔‘‘

    ’’ محترمہ جب آپ خواب خرگوش میں تھیں تو آپ کو کیسے پتہ چلتا کہ آپ خراٹے لیتی ہیں، بخدا اس رات میں بالکل نہ سو سکا۔‘‘

    ’’اس کا اوّل جھوٹ اور اس کا آخر جھوٹ۔‘‘

    ’’چلیے تمہاری خاطر اب مان لی۔۔۔اب کھانا دو۔ ‘‘

    ’’کھانا نہیں ملے گا آج۔۔۔آپ کسی ہوٹل میں جائیے اور میں یہ چاہتی ہوں کہ آپ وہیں بسیرا کر لیجیے۔‘‘

    ’’تم کیا کروگی؟‘‘

    ’’میں۔۔۔ میں مرتو نہیں جاؤں گی آپ کے بغیر۔۔۔ ‘‘

    ’’خدا نہ کرے تم مرد۔۔۔لیکن مجھے یہ تو بتاؤ، میرے بغیر تمہارا گزارہ کیسے ہوگا۔‘‘

    ’’میں اپنی موٹر بیچ لوں گی۔‘‘

    ’’اس سے تمھیں کتنا روپیہ مل جائے گا۔‘‘

    ’’چھ سات ہزار تو مل ہی جائیں گے۔‘‘

    ’’ان چھ سات ہزار روپوں میں تم کتنے عرصہ تک اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پال سکو گی۔‘‘

    ’’میں آپ کی طرح لکھ لُٹ اور فضول خرچ نہیں۔ آپ دیکھیے گا میں ان روپوں میں ساری عمر گزار دوں گی۔ میرے بال بچے اسی طرح پلیں گےجس طرح اب پل رہے ہیں یہ۔‘‘

    ’’یہ ترکیب مجھے بھی بتا دو، مجھے یقین ہے کہ تمھیں کوئی ایسا منتر ہاتھ آگیا ہے جس سے تم نوٹ دگنے بنا سکتی ہو۔ ہر روز بٹوے سے نوٹ نکالے ان پر منتر پھونکا اور وہ دگنے ہوگئے۔‘‘

    ’’آپ میرا مذاق اڑا تے ہیں۔ شرم آنی چاہیے آپ کو۔‘‘

    ’’چلو ہٹاؤ اس قصے کو۔ کھانا دو مجھے۔‘‘

    ’’کھانا آپ کو نہیں ملے گا۔‘‘

    ’’بھئی آخر کیوں۔۔۔میرا قصور کیا ہے؟‘‘

    ’’آپ کے قصور اور آپ کی خطائیں اگر میں گنوانا شروع کروں تو میری ساری عمر بیت جائے۔‘‘

    ’’دیکھو بیگم اب پانی سر سے گزر چکا ہے۔ اگر تم نے کھانا نہ دیا تو میں اس گھر کو آگ لگا دوں گا۔ غضب خدا کا میرے پیٹ کا بھوک کے مارے برا حال ہو گیا ہے اور تم واہی تباہی بک رہی ہو۔ مجھے کل اور آج ایک ضروری کام تھا اس لیے مجھے دیر ہوگئی اور تم نے مجھ پر الزام دھر دیا کہ میں ہر روز دیر سے آتا ہوں کھانا دو مجھے ورنہ۔۔۔‘‘

    ’’آپ مجھے ایسی دھونس نہ دیں، کھانا نہیں ملے گا آپ کو۔‘‘

    ’’یہ میرا گھر ہے میں جب چاہوں آؤں جب چاہوں جاؤں۔ تم کون ہو کہ مجھ پر ایسی سختیاں کرو میں تم سے کہے دیتا ہوں کہ تمہارا یہ مزاج تمہارے حق میں اچھا ثابت نہیں ہوگا۔ ‘‘

    ’’آپ کا مزاج میرے حق میں تو بڑا اچھا ثابت ہوا ہے۔ دن رات کڑھ کڑھ کے میرا یہ حال ہوگیا ہے۔‘‘

    ’’دس پاؤنڈ وزن اور بڑھ گیا ہے بس یہی حال ہوا ہے تمہارا۔ اور میں تمہاری زود رنج اور چڑ چڑی طبیعت کے باعث بیمارہو گیا ہوں۔‘‘

    ’’کیا بیماری ہے آپ کو؟ ‘‘

    ’’تم نے کبھی پوچھا ہے کہ میں اس قدر تھکا تھکاسا کیوں رہتا ہوں، کبھی تم نے غور کیا کہ سیڑھیاں چڑھتے وقت میرا سانس کیوں پھول جاتا ہے،کبھی تم کو اتنی توفیق ہوئی کہ میرا سر ہی دباتیں جو اکثر درد کے باعث پھٹنے کے قریب ہوتا ہے تم عجیب قسم کی رفیقۂ حیات ہو۔‘‘

    ’’اورمجھےاگر معلوم ہوتا کہ آپ ایسا خاوند میرے پلے باندھ دیا جائے گا تو میں نے وہیں اپنے گھر پر ہی زہر پھانک لیا ہوتا۔ ‘‘

    ’’زہر تم اب بھی پھانک سکتی ہو۔ کہو تو میں ابھی لا دوں۔ ‘‘

    ’’لے آئیے۔‘‘

    ’’لیکن مجھے پہلے کھانا کھلا دو۔‘‘

    ’’میں کہہ چکی ہوں وہ نہیں ملے گا آپ کو آج۔‘‘

    ’’کل سے تو خیر مل ہی جائے گا۔اس لیے کہ تم یہاں سے عدم آباد پہنچ چکی ہو گی، بہرحال میں بھوکے پیٹ کے ساتھ تمہارے لیے زہر لینے باہر نہیں جا سکتا۔بہت ممکن ہے۔۔۔موٹر چلاتے چلاتےہی مجھے غش آ جائےاور میں غفر اللہ ہو جاؤں، اس لیے میں خودہی کوشش کرتا ہوں۔‘‘

    ’’آپ کیا کوشش کیجیے گا۔‘‘

    ’’خانساماں کو بلاتا ہوں۔‘‘

    ’’آپ اسے نہیں بلا سکتے۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’بس میں نے کہہ جو دیا کہ آپ کو ان معاملوں میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں۔‘‘

    ’’حد ہوگئی۔ اپنے گھر میں اپنے خانساماں کو بھی نہیں بلا سکتا۔۔۔‘‘

    ’’نو کر کہاں ہے؟‘‘

    ’’جہنم میں۔‘‘

    ’’اس وقت میں بھی اسی جگہ ہوں لیکن میں اس کو دیکھ نہیں پاتا ،ادھر ہٹو ذرا میں اسے تلاش کروں شاید مل جائے۔‘‘

    ’’اس سے کیا کہنا ہے آپ کو؟‘‘

    ’’کچھ نہیں۔۔۔ صرف اتنا کہوں گا کہ تم علیحدہ ہو جاؤ تمہارے بدلے میں اس گھر کی نوکری خود کیا کروں گا۔‘‘

    ’’آپ کر چکے۔‘‘

    ’’سلام حضور۔۔۔ بیگم صاحب سالن تیار ہے صاحب لگا دوں ٹیبل پر۔۔۔‘‘

    ’’تم دور دفعان ہو جاؤ یہاں سے۔‘‘

    ’’لیکن بیگم صاحب آپ نے صبح جب خود باورچی خانے میں شلجم پکائے تو وہ سب کے سب جل گئے کہ آنچ تیز تھی اس کے بعد آپ نے آرڈر دیا کہ صاحب دیر سے آئیں گے اس لیے تم جلدی جلدی کوئی اور سالن تیار کر لو۔ سو میں نے آپ کے حکم کے مطابق دو گھنٹوں کے اندر اندر دو سالن تیار کرلیے ہیں۔ اب فرمائیں ٹیبل لگا دوں ۔دونوں انگیٹیھوں پر دھرے ہیں۔ ایسا نہ ہو آپ کے شلجموں کی طرح جل کر کوئلہ ہو جائیں۔ میں جاتا ہوں آپ جب بھی آرڈر دیں گی خادم ٹیبل لگا دے گا۔‘‘

    ’’تو یہ بات تھی۔‘‘

    ’’کیا بات تھی۔۔۔ میں اتنی دیر تک باورچی خانے کی گرمی میں جھلستی رہی، اس کا آپ کو کچھ خیال ہی نہیں۔۔۔ آپ کو شلجم پسند ہیں تو میں نے سوچا خود اپنے ہاتھ سے پکاؤں ،کتاب ہاتھ میں تھی جس میں ساری ترکیب لکھی ہوئی تھی۔ کتاب پڑھتے پڑھتے میں سو گئی اور وہ کم بخت شلجم جل بھن کر کوئلہ بن گئے۔ اب اس میں میرا کیا قصور ہے۔‘‘

    ’’کوئی قصور نہیں۔۔۔‘‘

    ’’چلیے میرے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہیں۔‘‘

    ’’یہاں تو بڑے بڑے مگر مچھ دوڑ رہے ہیں۔‘‘

    ’’ہر بات میں مذاق۔۔۔‘‘

    ’’مذاق برطرف۔۔۔ ذرا ادھر آؤ۔۔۔ میں تمہارے شلجم دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔ کہیں وہ بھی کوئلہ تو نہیں بن گئے۔۔۔‘‘

    ’’کھانا کھانے کے بعد دیکھا جائے گا۔‘‘

    مأخذ:

    رتی،ماشہ،تولہ

      • سن اشاعت: 1956

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے