ڈاچی
پی سکندر کے مسلمان جاٹ باقر کو اپنے مال کی طرف حریصانہ نگاہوں سے تاکتے دیکھ کر او کانہہ کے گھنے درخت سے پیٹھ لگائے، نیم غنودگی کی سی حالت میں بیٹھا چودھری نندو اپنی اونچی گھر گھراتی آواز میں للکار اٹھا۔۔۔ ’’رے رے اٹھے کے کرے ہے؟‘‘ (ارے یہاں کیا کر رہا ہے؟) اور اس کا چھ فٹ لمبا لحیم شحیم جسم تن گیا اور بٹن ٹوٹ جانے کی وجہ سے موٹی کھادی کے کرتے سے اس کا چوڑا چکلا سینہ اور مضبوط کندھے صاف دکھائی دینے لگے۔
باقر ذرا نزدیک آ گیا۔ گرد سے بھر ہوئی نکیلی داڑھی اور شرعی مونچھوں کے اوپر گڑھوں میں دھنسی ہوئی دو آنکھوں میں ایک لمحہ کے لیے چمک پیدا ہوئی اور ذرا مسکراکر اس نے کہا۔۔۔ ’’ڈاچی دیکھ رہا تھا چوہدری۔ کیسی خوبصورت اور جوان ہے۔ دیکھ کر بھوک مٹتی ہے۔‘‘
اپنے مال کی تعریف سن کر چوہدری نندو کا تناؤ کچھ کم ہوا۔ خوش ہو کر بولا۔۔۔ کسی سانڈ؟ (کون سی ڈاچی؟)
’’وہ، پرلی سے چوتھی!‘‘ باقر نے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
اوکانہہ کے ایک گھنے پیڑ کے سائے میں آٹھ دس اونٹ بندھے تھے۔ انہی میں وہ جوان سانڈنی اپنی لمبی، خوبصورت اور سڈول گردن بڈ ھائے پتوں میں منہ مار رہی تھی۔ مال منڈی میں دور۔۔۔ جہاں تک نظر کام کرتی تھی، بڑے بڑے اونچے اونٹوں، خوبصورت سانڈنیوں، کالی موٹی بےڈول بھینسوں اور گایوں کے سوا کچھ نظر نہ آتا تھا۔ گدھے بھی تھے پر نہ ہونے کے برابر۔ زیادہ تر تو اونٹ ہی تھے۔ بہاول نگر کے ریگستانی علاقہ میں ان کی کثرت ہے بھی قدرتی۔ اونٹ ریگستان کا جانور ہے۔ اس تپتے ریتیلے علاقہ میں آمدو رفت، کھیتی باڑی اور بار برداری کاکام اسی سے ہوتا ہے۔ پرانے وقتوں میں، جب گائیں دس دس اور بیل پندرہ پندرہ روپے میں مل جاتے تھے، تب بھی اچھا اونٹ پچاس سے کم میں ہاتھ نہ آتا تھا اور اب بھی، جب اس علاقہ میں نہر آ گئی ہے اور پانی کی اتنی قلت نہیں رہی اونٹ کی وقعت کم نہیں ہوئی بلکہ بڑھی ہی ہے۔ سواری کے اونٹ دو دو سو سے تین تین سو تک پاجاتے ہیں اور باہی اور بار برداری کے بھی اسی، سو سے کم میں ہاتھ نہیں آتے۔
ذرا اور آگے بڑھ کر باقر نے کہا، ’’سچ کہتا ہوں چوہدری، اس جیسی خوبصورت سانڈنی مجھے ساری منڈی میں دکھائی نہیں دی۔‘‘
مسرت سے نندو کا سینہ دگنا ہو گیا۔ بولا، ’’آ ایک ہی کے، ایہہ تو سگلی پھوٹڑی ہیں۔ ہوں تو انہیں چارہ پھلونسی نیر یا کروں!‘‘ (یہ ایک ہی کیا؟ یہ تو سبھی خوبصورت ہیں۔ میں تو انہیں چارہ اور پھلوسی دیتا ہوں۔)
آہستہ سے باقر نے پوچھا، ’’بیچوگے اسے؟‘‘
’’اٹھئی بیچنے لئی تو لایا ہوں!‘‘ (یہاں بیچنے کے لیے تو لایا ہوں) نندو نے ذرا ترشی سے کہا۔
’’تو پھر بتاؤ کتنے کو دوگے؟‘‘ باقر نے پوچھا۔
نندو نے باقر پر سر سے پاؤں تک ایک نگاہ ڈالی اور ہنستے ہوئے بولا، ’’تنے چاہی جے، کاتیرے دھنی بیئی مول لیسی؟‘‘ (تجھے چاہیے یا اپنے مالک کے لیے مول لے گا۔)
’’مجھے چاہئے۔‘‘ باقر نے ذرا سختی سے کہا۔
نندو نے بےپروائی سے سر ہلایا۔ اس مزدور کی یہ بساط کہ ایسی خوبصورت ڈاچی مول لے۔ بولا، ’’تول کی لیسی؟‘‘ (تو کیا لےگا؟)
باقر کی جیب میں پڑے ہوئے ڈیڑھ سو کے نوٹ جیسے باہر اچھل پڑنے کو بےقرار ہو اٹھے۔ ذرا جوش سے اس نے کہا، ’’تمہیں اس سے کیا، کوئی لے۔ تمہیں تو اپنی قیمت سے غرض ہے، تم مول بتاؤ؟‘‘
نندو نے اس کے بوسیدہ کپڑوں، گھٹنوں سے اٹھے ہوئے تہ بند اور جیسے نوح کے وقت سے بھی پرانے جوتے کو دیکھتے ہوئے ٹالنے کی غرض سے کہا، ’’جاجا تو اشی وشی مول لے آئی، ایہنگو مول تو آٹھ بیسی سوں گھاٹ کے نہیں۔‘‘ (جاجا تو کوئی ایسی ویسی ڈاچی لے لینا اس کی قیمت تو ۱۶۰ سے کم نہیں)
ایک لمحہ کے لیے باقر کے تھکے ہوئے جسم میں مسرت کی لہر دوڑ گئی۔ اسے ڈر تھا کہ چوہدری کہیں اتنا مول نہ بتا دے جو اس کی بساط سے باہر ہو۔ لیکن اب جب اپنی زبان ہی سے اس نے ایک سو ساٹھ بتائے تو اس کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا۔ ۱۵۰ تو اس کے پاس تھے ہی۔ اگر اتنے پر بھی چوہدری نہ مانا تو دس روپے کا اس سے ادھار کر لے گا۔ بھاؤ تاؤ کرنا تو اسے آتا نہ تھا۔ جھٹ سے ڈیڑھ سو کے نوٹ نکالے اور نندو کے آگے پھینک دیے۔ بولا، ’’گن لو، ان سے زیادہ میرے پاس ایک پائی نہیں۔ اب آگے تمہاری مرضی!‘‘
نندو نے بادل ناخواستہ نوٹ گننے شروع کیے۔ لیکن گنتی ختم ہوتے ہی اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ اس نے تو باقر کو ٹالنے کی غرض سے مول ۱۶۰ بتایا تھا۔ نہیں اس سانڈنی کے تو ۱۴۰ پانے کا خیال بھی اسے خواب میں نہیں تھا۔ لیکن دل کی خوشی کو دل ہی میں دبا کر اور جیسے باقر پر احسان کا بوجھ لادتے ہوئے نندو بولا، ’’سانڈ تو میری دو سے کی ہے۔ پن جا۔ سگی مول میاں تنے دس چھانڈیا۔‘‘ (سانڈنی تو میری دو سو کی ہے، پر جاؤ تمہیں ساری قیمت میں سے دس روپیے چھوڑ دئے) اور یہ کہتے کہتے اس نے اٹھ کر سانڈنی کی رسی باقر کے ہاتھ میں دے دی۔
ایک لمحہ کے لیے اس وحشی صفت انسان کا دل بھی بھر آیا۔ یہ سانڈنی اس کے یہاں ہی پیدا ہوئی اور پلی تھی۔ آج پال پوس کر اسے دوسرے کے ہاتھ میں سونپتے ہوئے اس کے دل کی کچھ ایسی ہی حالت ہوئی جو لڑکی کو سسرال بھیجتے وقت باپ کی ہوتی ہے۔ آواز اور لہجے کو ذرا نرم کر کے اس نے کہا، ’’آسانڈ سوہری رہیڑی ہے۔ تو انہیں ریہڑ ہی میں نہ گیر دیئی‘‘ (یہ سانڈنی اچھی طرح پلی ہے تو اس کی مٹی خراب نہ کر دینا) ایسے ہی جیسے خسر داماد سے کہہ رہا ہو۔ میری لرکی لاڈوں پلی ہے۔ دیکھنا اسے تکلیف نہ ہو۔
خوشی کے پروں پر اڑتے ہوئے باقر نے کہا، ’’تم فکر نہ کرو، جان دے کر پالوں گا!‘‘
نندو نے نوٹ انٹی میں سنبھالتے ہوئے جیسے سوکھے ہوئے گلے کو ذرا تر کرنے کے لیے گھڑے سے مٹی کا پیالہ بھرا۔ منڈی میں چاروں طرف دھول اڑ رہی تھی۔ شہروں کی مال منڈیوں میں بھی، جہاں بیسیوں عارضی نلکے لگ جاتے ہیں اور سارا سارا دن چھڑکاؤ ہوتا رہتا ہے دھول کی کمی نہیں ہوتی۔ پھر اس ریگستان کی منڈی میں دھول ہی کی سلتن تھی۔ گنے والے کی گنڈیروں پر، حلوائی کے حلوے جلیبیوں پر اور خوانچے والے کے دہی پکوڑی پر۔ غرض سب جگہ دھول ہی دھول نظر آتی تھی۔ گھڑے کا پانی ٹانچیوں کے ذریعے نہر سے لایا گیا تھا۔ پر یہاں آتے آتے کیچڑ جیسا گدلا ہو گیا تھا۔ نندو کا خیال تھا، نتھر نے پر پئے گا پر گلا کچھ سوکھ رہا تھا۔ ایک ہی گھونٹ میں پیالے کو ختم کر کے نندو نے اس سے بھی پینے کے لے کہا۔ باقر آیا تھا تو اسے غضب کی پیاس لگی ہوئی تھی، پر اب اسے پانی پینے کی فرصت کہاں؟ رات ہونے سے پہلے پہلے وہ اپنے گاؤں میں پہنچ جانا چاہتا تھا ڈاچی کی رسی پکڑے ہوئے، گرد و غبار کو جیسے چیرتا ہوا وہ چل پڑا۔
باقر کے دل میں بڑی دیر سے ایک خوبصورت اور جوان ڈاچی خریدنے کی آرزو تھی۔ ذات سے وہ کمین تھا۔ اس کے آباو اجداد کہاروں کا کام کرتے تھے۔ لیکن اس کے باپ نے اپنا قدیم پیشہ چھوڑ کر مزدوری سے اپنا پیٹ پالنا شروع کر دیا تھا اور باقر بھی اسی پیشہ کو اختیار کے ے ہوئے تھا۔ مزدوری وہ زیادہ کرتا ہو، یہ بات نہ تھی۔ کام سے ہمیشہ اس نے جی چرایا تھا اور چراتا بھی کیوں نہ؟ جب اس کی بیوی اس سے دگنا کام کر کے اس کے بوجھ کو بٹانے اور اسے آرام پہنچانے کے لے ھ موجود تھی۔ کنبہ بڑا تھا نہیں۔ ایک وہ، ایک اس کی بیوی اور ایک ننھی سی بچی۔ پھر کس لے ے وہ جی ہلکان کرتا؟ لیکن یہ فلک بے پیر۔۔۔ اس نے اسے سکھ سے نہ بیٹھنے دیا۔ اِس نیند سے بیدار کر کے اسے اپنی ذمہ داری محسوس کرنے کے لیے مجبور کر دیا۔ اسے بتا دیا کہ زندگی میں سکھ ہی نہیں، آرام ہی نہیں، دکھ بھی ہے۔ محنت اور مشقت بھی ہے!
پانچ سال ہوئے اس کی وہی آرام دینے والی عزیز بیوی گڑیا سی ایک لڑکی کو چھوڑ کر اس جہان سے رحلت کر گئی۔ مرتے وقت اپنے سب سوز کو اپنی پھیکی اور اداس آنکھوں میں بھر اس نے باقر سے کہا تھا، ’’میری رضیہ اب تمہارے حوالے ہے، اسے تکلیف نہ ہونے دینا۔‘‘ اور اسی ایک فقرے نے باقر کی تمام زندگی کے رخ کو پلٹ دیا تھا۔ اپنی شریک حیات کی وفات کے بعد وہ اپنی بیوہ بہن کو اس کے گاؤں سے لے آیا تھا اور اپنی آلس اور غفلت کو چھوڑ کر اپنی مرحوم بیوی کی آخری آرزو کو پورا کرنے میں جی جان سے منہمک ہو گیا تھا۔
یہ ممکن بھی کیسے تھا کہ اپنی بیوی کی، اپنی اس بیوی کی جسے وہ روح کی گہرائیوں کے ساتھ محبت کرتا تھا، جس کی موت کا غم اس کے دل کے نامعلوم پردوں تک چھا گیا تھا، جس کے بعد عمر ہونے پر بھی، مذہب کی اجازت ہونے پر بھی، رشتہ داروں کے مجبور کرنے پر بھی اس نے دوسری شادی نہ کی تھی۔۔۔ اپنی اسی بیوی کی آخری خواہش کو بھلا دیتا۔
وہ دن رات جی توڑ کر کام کرتا تھا۔ تاکہ اپنی مرحوم بیوی کی اس امانت کو، اپنی اس ننھی سی گڑیا کو طرح طرح کی چیزیں لاکر دے سکے۔ جب بھی کبھی وہ منڈی سے آتا ننھی رضیہ اس کی ٹانگوں سے لپٹ جاتی اور اپنی بڑی بڑی آنکھیں اس کے گرد سے اٹے ہوئے چہرے پر جما کر پوچھتی، ’’ابا، میرے لے کیا لائے ہو!‘‘ تو وہ اسے اپنی گود میں لے لیتا اور کبھی مٹھائی اور کبھی کھلونوں سے اس کی جھولی بھر دیتا۔ تب رضیہ اس کی گود سے اتر جاتی اور اپنی سہیلیوں کو اپنی مٹھائی اور کھلونے دکھانے کے لیے بھاگ جاتی۔۔۔ یہی گڑیا سی لڑکی جب آٹھ برس کی ہوئی، تو ایک دن مچل کر اپنے ابا سے کہنے لگی، ’’ابا ہم تو ڈاچی لیں گے، ابا ہمیں ڈاچی لے دو!‘‘
بھولی معصوم لڑکی! اسے کیا معلوم کہ وہ ایک مفلس اور قلاش مزدور کی لڑکی ہے جس کے لیے سانڈنی خرید نا تو کجا اس کا تصور کرنا بھی گناہ ہے۔ روکھی ہنسی کے ساتھ باقر نے اسے گود میں اٹھالیا اور بولا، ’’رجو تو تو خود ڈاچی ہے۔‘‘ پر رضیہ نہ مانی۔
اس دن مشیر مال اپنی سانڈنی پر چڑھ کر اپنی چھوٹی سی لڑکی کو آگے بٹھائے اس کاٹ (بیس پچیس جھگیوں کا گاؤں) میں کچھ مزدور لینے آئے تھے۔ تبھی رضیہ کے ننھے سے دل میں ڈاچی پر سوار ہونے کی زبردست خواہش پیدا ہو اٹھی تھی اور اسی دن سے باقر کی رہی سہی غفلت بھی دور ہو گئی۔
اس نے رضیہ کو ٹال تو دیا تھا۔ پر دل ہی دل میں اس نے عہد کر لیا تھا کہ چاہے جو ہو وہ رضیہ کے لیے ایک خوبصورت ڈاچی ضرور مول لےگا اور تب اسی علاقہ میں جہاں اس کی آمدنی کی اوسط مہینہ بھر میں تین آنہ روزانہ بھی نہ ہوتی تھی وہیں اب آٹھ دس آنے ہو گئی۔ دور دور کے دیہات میں اب وہ مزدوری کے لیے جاتا۔ کٹائی اور بجائی کے دنوں میں دن رات جان لڑاتا۔ فصل کاٹتا، دانے نکالتا، کھلیانوں میں اناج بھرتا، نیرا ڈال کر کپ بناتا، بجائی کے دنوں میں ہل چلتا، پیلیاں بناتا، نرائی کرتا۔ ان دنوں میں اسے پانچ آنے سے آٹھ آنے تک روزانہ مزدوری مل جاتی۔ جب کوئی کام نہ ہوتا تو علی الصباح اٹھ کر، آٹھ کوس کی منزل مار کر منڈی جا پہنچتا اور آٹھ دس آنے کی مزدوری کر کے ہی واپس لوٹتا۔ ان دنوں میں وہ روز چھ آنے بچاتا آ رہا تھا۔ اس معمول میں اس نے کسی طرح کی ڈھیل نہ آنے دی تھی۔ اسے جیسے جنون سا ہو گیا تھا۔ بہن کہتی، ’’باقر اب تو تم بالکل ہی بد ل گیے ہو، پہلے تو کبھی تم نے اس طرح جی توڑ کر محنت نہ کی تھی۔‘‘
باقر ہنستا اور کہتا، ’’تم چاہتی ہو، میں تمام عمر اسی طرح نٹھلا بیٹھا رہوں۔‘‘
بہن کہتی، ’’نکما بیٹھنے کو تو میں نہیں کہتی لیکن صحت گنوا کر دھن جمع کرنے کی صلاح بھی میں نہیں دے سکتی۔‘‘
ایسے وقت ہمیشہ باقر کے سامنے اس کی مرحوم بیوی کی تصویر کھنچ جاتی۔ اس کی آخری آرزو اس کے کانوں میں گونج جاتی اور وہ صحن میں کھیلتی ہوئی رضیہ پر ایک پیار کی نظر ڈال کر ہونٹوں پر پرسوز مسکراہٹ لیے ہوئے پھر اپنے کام میں لگ جاتا اور آج۔۔۔ آج ڈیڑھ سال کی کڑی مشقت کے بعد وہ مدت سے پالی ہوئی اپنی اس آرزو کو پوری کر سکا تھا۔ سانڈنی کی رسی اس کے ہاتھ میں تھی اور سرکاری کھالے (نہر کی چھوٹی شاخ) کے کنارے کنارے وہ چلا جا رہا تھا۔
شام کا وقت تھا اور مغرب میں غروب ہوتے ہوئے آفتاب کی کرنیں دھرتی کو سونے کا آخری دان دے رہی تھیں۔ ہوا میں کچھ خنکی آ گئی تھی اور کہیں دور۔۔۔ کھیتوں میں ٹیٹہری ٹیہوں ٹیہوں کر کے اڑ رہی تھی۔ باقر کی نگاہ تصور کے سامنے ماضی کے تمام واقعات ایک ایک کر کے آ رہے تھے۔ ادھر ادھر سے کوئی کسان اپنے اونٹ پر سوار جیسے پھدکتا ہوا نکل جاتا اور کبھی کبھی کھیتوں سے واپس آنے والے کسانوں کے لڑکے چھکڑے پر رکھے ہوئے گھاس کے گٹھوں پر بیٹھے، بیلوں کو پچکارتے، کسی دیہاتی گیت کا ایک آدھ بندگاتے یا چھکڑے کے پیچھے بندھے ہوئے خاموشی سے چلے آنے والے اونٹوں کی تھوتھنیوں سے کھیلتے چلے آتے تھے۔
باقر نے جیسے خواب سے بیدار ہو کر مغرب کی طرف غروب ہوئے آفتاب کو دیکھا اور پھر سامنے کی طرف ویرانے میں نظر دوڑائی۔ اس کا گاؤں ابھی بڑی دور تھا۔ مسرت سے پیچھے کی طرف دیکھ اور چپ چاپ چلی آنے والی سانڈنی کو پیار سے پچکار کر وہ اور بھی تیزی سے چلنے لگا۔ کہیں اس کے پہنچنے سے پہلے رضیہ سو نہ جائے اسی خیال سے۔
مشیر مال کی کاٹ نظر آنے لگی۔ یہاں سے اس کا گاؤں نزدیک ہی تھا۔ یہی کوئی دو کوس! باقر کی چال دھیمی ہو گئی اور اس کے ساتھ ہی تصور کی دیوی اپنی رنگ برنگی کوچی سے اس کے دماغ کے قرطاس پر طرح طرح کی تصویریں بنانے لگی۔ باقر نے دیکھا، اس کے گھر پہنچتے ہی ننھی رضیہ مسرت سے ناچ کر اس کی ٹانگوں سے لپٹ گئی ہے اور پھر ڈاچی کو دیکھ کر اس کی بڑی بڑی آنکھیں حیرت اور مسرت سے بھر گئی ہیں، پھر اس نے دیکھا وہ رضیہ کو اپنے آگے بٹھائے سرکاری کھالے کے کنارے کنارے ڈاچی پر بھاگا جا رہا ہے۔ شام کا وقت ہے۔ مست، ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے اور کبھی کبھی کوئی پہاڑی کوا اپنے بڑے بڑے پروں کو پھیلائے اپنی موٹی آواز سے ایک دوبار کائیں کائیں کر کے اوپر سے اڑتا چلا جاتا ہے۔ رضیہ کی خوشی کاوار پار نہیں، وہ جیسے ہوائی جہاز میں اڑی جا رہی ہے! پھر اس کے سامنے آیا۔۔۔ وہ رضیہ کو لے بہا ول نگر کی منڈی میں کھڑا ہے۔ ننھی رضیہ جیسے بھونچکی سی ہے۔ حیران سی کھڑی وہ ہر طرف اناج کے ان بڑے بڑے ڈھیروں کو، لا انتہا چھکڑوں کو اور قعر حیرت میں گم کر دینے والی ان بے شمار چیزوں کو دیکھ رہی ہے۔ ایک دوکان پر گرامو فون بجنے لگتا ہے۔ لکڑی کے اس ڈبے سے کس طرح گانا نکل رہا ہے؟
کون اس میں چھپا گا رہا ہے؟ یہ سب باتیں رضیہ کی سمجھ میں نہیں آتیں اور یہ سب جاننے کے لیے اس کے دل میں جو اشتیاق ہے۔ وہ اس کی آنکھوں سے ٹپکا پڑتا ہے۔
اپنے تصور کی دنیا میں محووہ کاٹ کے پاس گزرا جا رہا تھا کہ اچانک کچھ خیال آ جانے سے وہ رکا اور کاٹ میں داخل ہو گیا۔ مشیر مال کی کاٹ بھی کوئی بڑا گاؤں نہ تھا۔ ادھر کے سب گاؤں ایسے ہی ہیں۔ زیادہ ہوئے تو تیس چھپر ہو گے۔ کڑیوں کی چھت کیا پکی اینٹوں کا مکان ابھی اس علاقے میں نہیں۔ خود باقر کی کاٹ میں پندرہ گھر تھے۔ گھر کہاں سرکنڈوں کی جھگیاں تھیں۔ مشیر مال کی کاٹ بھی ایسی ہی بیس پچیس جھگیو ں کی بستی تھی۔ صرف مشیر مال کا مکان کچی اینٹوں سے بنا تھا۔ لیکن چھت اس پر بھی سرکنڈوں ہی کی تھی۔ نانک بڑھئی کی جھگی کے سامنے وہ رکا۔ منڈی جانے سے پہلے وہ اس کے ہاں ڈاچی کا گدرا بننے کے لے ڈ دے گیا تھا۔ اسے خیال آیا کہ اگر رضیہ نے ڈاچی پر چڑھنے کی ضد کی تو وہ اسے کیسے ٹال سکےگا۔ اسی خیال سے وہ پیچھے مڑ آیا تھا۔ اس نے نانک کو دو ایک آوازیں دیں۔ اندر سے شاید اس کی بیوی نے جواب دیا۔
’’گھر میں نہیں منڈی گیے ہیں!‘‘
باقر کی آدھی خوشی جاتی رہی۔ وہ کیا کرے؟ یہ نہ سوچ سکا۔ نانک اگر منڈی گیا ہے تو گدرا کیا خاک بنا کر گیا ہوگا۔ لیکن پھر اس نے سوچا شاید بنا کر رکھ گیا ہو۔ اس نے پھر آواز دی میں ڈاچی کا پالان بنانے دے گیا تھا۔
جواب ملا، ’’ہمیں نہیں معلوم!‘‘
باقر کی سب خوشی جاتی رہی۔ گدرے کے بغیر وہ ڈاچی لے کر کیا جائے؟ نانک ہوتا تو اس کا پالان چاہے نہ بنا سہی، کوئی دوسرا ہی اس سے مانگ کر لے جاتا۔ اس خیال کے آتے ہی اس نے سوچا چلو مشیر مال سے مانگ لیں۔ ان کے تو اتنے اونٹ رہتے ہیں کوئی نہ کوئی پرانا پالان ہوگا ہی ابھی اسی سے کام چلا لیں گے۔ تب تک نانک نیا گدرا تیار کر دےگا۔ یہ سوچ کر وہ مشیر مال کے گھر کی طرف چل پڑا۔
اپنی ملازمت کے دوران میں مشیر مال صاحب نے کافی دولت جمع کر لی تھی اور جب ادھر نہر نکلی تو اپنے اثر و رسوخ سے ریاست ہی کی زمین میں کوڑیوں کے مول کئی مربعے زمین حاصل کر لی تھی۔ اب ریٹائر ہو کر یہیں آرہے تھے۔ راہک (مزارع) رکھے ہوئے تھے۔ آمدنی خوب تھی اور مزے سے بسر ہو رہی تھی۔ اپنی چوپال پر ایک تخت پر بیٹھے حقہ پی رہے تھے۔ سر پر سفید صافہ، گلے میں سفید قمیص، اس پر سفید جاکٹ اور کمر میں دودھ جیسا سفید تہ بند۔ گرد سے اٹے ہوئے باقر کو سانڈنی کی رسی تھامے آتے دیکھ کر انہوں نے پوچھا، ’’کہو باقر کدھر سے آ رہے ہو؟‘‘
باقر نے جھک کر سلام کرتے ہوئے کہا، ’’منڈی سے آ رہا ہوں مالک!‘‘
’’یہ ڈاچی کس کی ہے؟‘‘
’’میری ہی ہے مالک، ابھی منڈی سے لا رہا ہوں۔‘‘
’’کتنے کو لائے ہو؟‘‘
باقر نے چاہا، کہہ دے، آٹھ بیسی کو لایا ہوں، اس کے خیال میں ایسی خوبصورت ڈاچی دو سو میں بھی سستی تھی، پر دل نہ مانا۔ بولا حضور مانگتا تو ۱۶۰ تھا۔ پرسات بیسی ہی کو لے آیا ہوں۔
مشیر مال نے ایک نظر ڈاچی پر ڈالی۔ وہ خود دیر سے ایک خوبصورت سی ڈاچی اپنی سواری کے لئے لینا چاہتے تھے۔ ان کے ڈاچی تو تھی پر گزشتہ سال اسے سیمک ہو گیا تھا اور اگرچہ نیل و غیرہ دینے سے اس کا روگ تو دور ہو گیا تھا۔ پر اس کی چال میں وہ مستی وہ لچک نہ رہی تھی۔ یہ ڈاچی ان کی نظر میں جچ گئی۔ کیا سڈول اور متناسب اعضا ہیں، کیا سفیدی مائل بھورا بھورا رنگ ہے، کیا لچلچاتی لمبی گردن ہے! بولے، ’’چلو ہم سے آٹھ بیسی لے لو۔ ہمیں ایک ڈاچی کی ضرورت بھی ہے۔ دس تمہاری محنت کے رہے۔‘‘
باقر نے پھیکی ہنسی کے ساتھ کہا، ’’حضور ابھی تو میرا چاؤ بھی پورا نہیں ہوا۔‘‘
مشیر مال اٹھ کر ڈاچی کی گردن پر ہاتھ پھیرنے لگے تھے۔ واہ کیا اصیل جانور ہے! بظاہر بولے، ’’چلو پانچ اور لے لینا۔‘‘ اور انہوں نے نوکر کو آواز دی، ’’نورے، ابے او نورے!‘‘
نوکر نوہرے میں بیٹھا بھینسوں کے لیے پٹھے کتر رہا تھا۔ گڈاسہ ہاتھ ہی میں لے ے ہوئے بھاگا آیا۔ مشیر مال نے کہا، ’’یہ ڈاچی لے جاکر باندھ دو! ۱۶۵ میں، کہو کیسی ہے؟‘‘
نورے نے حیران سے کھڑے باقر کے ہاتھ سے رسی لے لی اور سر سے پاؤں تک ایک نظر ڈاچی پر ڈال کر بولا، ’’خوب جانور ہے اور یہ کہہ کر نوہرے کی طرف چل پڑا۔‘‘
تب مشیر مال نے انٹی سے ساٹھ روپے کے نوٹ نکال کر باقر کے ہاتھ میں دیتے ہوئے مسکراکر کہا، ’’ابھی یہ رکھو، باقی بھی ایک دو مہینے تک پہنچا دوں گا۔ ہو سکتا ہے تمہاری قسمت کے پہلے ہی آ جائیں۔‘‘ اور بغیر کوئی جواب سنے وہ نوہرے کی طرف چل پڑے۔ نورا پھر چارہ کترنے لگا تھا۔ دور ہی سے آواز دے کر انہوں نے کہا، ’’بھینس کا چارہ رہنے دے، پہلے ڈاچی کے لیے گوارے کا نیرا کر ڈال، بھوکی معلوم ہوتی ہے۔‘‘
اور پاس جا کر سانڈنی کی گردن سہلانے لگے۔
کرشن پکش کا چاند ابھی طلوع نہیں ہوا تھا۔ ویرانے میں چاروں طرف کہاسا چھایا ہوا تھا۔ سر پردو ایک تارے جھانکنے لگے تھے۔ ببول اور او کانہہ کے درخت بڑے بڑے سیاہ دھبے بن رہے تھے۔ ساٹھ روپے کے نوٹوں کو ہاتھ میں لٹکائے اپنے گھر سے ذرا فاصلہ پر ایک جھاڑی کی اوٹ میں بیٹھا باقر اس مدھم ٹمٹماتی روشنی کی شعاع کو دیکھ رہا تھا۔ جو سرکنڈوں سے چھن چھن کر اس کے گھر کے آنگن سے آ رہی تھی۔ جانتا تھا رضیہ جاگ رہی ہوگی۔ اس کا انتظار کر رہی ہوگی اور وہ یہ سوچ رہا تھا کہ روشنی بجھ جائے، رضیہ سو جائے تو وہ چپ چاپ گھر میں داخل ہو!۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.