دائرہ
پنڈی میں سردی بھی تو ایسے پڑتی تھی کہ گالوں میں چھید ڈال دیتی۔ اجلا اجلا اور نرم گرم چہرہ لیراں لیراں ہوجاتا تھا۔ ہاتھوں کی طرف مارے شرم کے دیکھا کب جاتا تھا۔ بالکل بطخ کے پنجے بن جاتے تھے اور پھر جہاں رسوئی تھی وہ تو بس نام کی رسوئی تھی۔ کسی زمانے میں اس کے صدیق ماموں کو پنسلوں کی فروخت سے منافع ہوا تھا، سودہ ان کے لیے ٹین کی دوچادریں لے آئے۔ بس انہی چادروں کو بلیوں کے اوپر ایک دوسر سے جوڑ کر چھت ڈال دی تھی اور نیچے ماں نے چوکا سا بنادیا تھا۔ چاروں او ر سے شاں شاں کرتی ہوا گزرتی۔ گرمیوں میں تو خیر اچھا براوقت گزرجاتا پر سردی آتے ہی رسوئی میں جانے کا نام سن کر ہی کپکپی لگ جاتی۔
ایسے میں صبح صبح صحن کے دروازے کی لوہے کی کنڈی جب زور زور سے کھٹکتی تو آ نے والے کا مقصد پہلے سے جانتے ہوئے اس کا جی چاہتا کہ یہ صحن اور یہ رسوئی چھوڑ کر کہیں دور۔۔۔ بہت دور ایسی جگہ چلی جائے جہاں یہ آواز، ’’ملوانی جی۔۔۔ میت ہوگئی ہے، غسل کا سامان لے کر وہاں آجائیے۔‘‘ اسے بالکل نہ سنائی دے۔۔۔ اس آواز نے اس کے بچپن کی ساری خوشیاں چھین لی تھیں۔ اتنی سخت ٹھنڈ میں رسوئی میں جاکر ایلمونیم کے بڑے سے پتیلے میں پانی گرم کرنا پڑتا۔ میت کو غسل دینے سے پہلے اس کی اماں پہلے خود غسل کرتی۔ اسے غسل کرنے کا کہتی۔۔۔ سفید موٹے ململ کا دوپٹہ خود بھی اوڑھتی اور اسے بھی اوڑھنے کو کہتی۔ پھر دونوں ماں بیٹیاں میت والے گھر پہنچ جاتیں۔ پیچھے پیچھے صدیق ماموں دو کورے گھڑے۔۔۔ دو سقاوے۔۔۔ بیری کے پتے۔۔۔ صابن کی ٹکیہ۔۔۔ نہلانے کا تختہ اور مشک کافور، گلاب کے پھول اور ہار، روئی کے پھاہے اور خون نکلنے کے خدشے کے تحت پیٹوں کا بنڈل لیے آرہے ہوتے۔
میت والے گھر میں ماردھاڑ مچی ہوتی۔ بین کی آوازیں بوکھلاکر رکھ د یتیں۔ وقفے وقفے کے ساتھ سینہ پیٹنے اور چیخنے چلانے کی آوازوں سے دل دہل جاتا۔ اماں کو گھر میں داخل ہوتے دیکھ کر ماتم والے گھر کی کوئی بوڑھی لپک کر سامنے آتی اور اماں کا ہاتھ پکڑ کر عزاداروں کی صفوں کو چیرتی ہوئی ٹھیک میت کے سرہانے اونچی چوکی پر بٹھادیتی۔ اس کی اماں مشین کی طرح شروع ہوجاتی، ’’بہنو، بیبیوں، بیٹیوں یہ مقام رونے کا نہیں، سوچنے کا ہے، سوچو، ہم سب نے ایک دن ایسے ہی چپ چاپ لیٹ جانا ہے۔ پھر یہ سارے رشتے ناطے، دعویٰ اور ماں کچھ کام نہیں آئیں گے۔‘‘ پھر وہ کلمہ شریف کا ورد شروع کردیتی اور پڑھتی ہی رہتی۔
ماں کا اثر کئی بار زائل ہوتا۔ عورتیں اپنی باتوں میں مشغول ہوجاتیں۔ مگر اس کی اماں کا نعرہ حق انہیں پھر کلمے کی طرف لے آتا۔ پھر میت کے غسل کا مرحلہ آتا۔ اماں اسے زور سے آواز دیتی۔ وہ میت کی چارپائی کا سرا تھام کراسے جائے غسل تک پہنچانے میں مدد دیتی۔ وہ لوگ جو کچھ دیر پہلے میت کی محبت میں سینہ پیٹ پیٹ کر بے حال ہو رہے ہوتے، میت کے کپڑے اترتے دیکھ کر بھاگ اٹھتے۔ بہت کم گھروں میں ایساہوتا کہ غسل کے دوران گھر کا کوئی فرد ماں کا ہاتھ بٹاتا۔ مگر اس کی ماں تو ہر میت پر والہ وشیدا ہونے لگتی۔ کلمے پڑھتی ہوئی بڑی پریت کے ساتھ میت کو تختے پر ڈالتی۔ دونوں گھڑوں میں اگلی ڈبوکر پانی کے مناسب گرم ہونے کا اندازہ لگاتی۔ گلاب کے ہاروں کو گھڑے کے گرد لپیٹ کر تازہ رکھنے کی کوشش کرتی۔
وہ سب کام بڑے اطمینان سے کرتی تھی۔ اس کے چہرے پر اس عرصے میں عجیب سی روشنی لہراتی سی محسوس ہوتی تھی۔ قمیص کے بازوؤں کو کہنیوں سے اوپر چڑھاکر وہ میت کو نہلانا شروع کردیتی تھی۔ ہر عضو کی طہارت کے ساتھ دعائیں اور کلمات پاک کا ورد کرتی تھی۔ بیچ بیچ میں اسے آپریشن سرجن کی طرح کبھی پانی، کبھی اسفنج، کبھی روئی، کبھی ہاتھ سے چھوٹ کر دور گرنے والی صابن کی ٹکیہ پکڑانے کا اشارہ دیتی جاتی اور ساتھ غسل کے آداب اور تفصیل بتاتی جاتی۔ اسے اس سارے عمل سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اسے اپنی ماں کا میت کا بناؤ سنگار کرنا بالکل نہیں بھاتا تھا۔ سرخ گلابوں کی بندیا سجاکر جب وہ دروازہ کھول کر میت کی ڈولی لانے کا اشارہ کرتی تو وہ مشک کافور کی ٹھنڈی اور ڈراؤنی سی بو سے بھاگ کر گھر آجاتی۔ اس کی ماں یہ کام اللہ کی خوشنودی کے لیے کرتی تھی مگر پھر بھی لوگ اسے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق جوڑے اور روپے ضرور دیتے تھے اور چالیس روز تک برابر میت کے ایصال ثو اب کے لیے کھانا آتا رہتا تھا۔
اس کے ابا ریڑھی لگاتے تھے۔ گرمیوں میں مسجد کے باہر سکنجین کے گلاس بیچتے تھے اور سردیوں میں اسی کمیٹی کے پرائمری اسکول کے باہر مونگ پھلی اور چنے بیچتے تھے جہاں وہ پڑھنے کے لیے جاتی تھی۔ اسے اپنے ابا کے ریڑی لگانے، رات رات بھر کھانسنے اور ہر تیسرے روز اوجھڑی پکوانے پر غصہ نہیں آتا تھا۔ اس کے ابا بہت اچھے تھے۔ اسے کبھی کچھ نہیں کہتے تھے۔ اس کے پڑھنے نہ پڑھنے پر انہیں کوئی اعتراض نہیں تھا۔ لے دے کے وہ دو ماں بیٹی ہی تو تھیں۔ گھر میں ایک کمرے میں و ہ تینوں اور دوسرے میں صدیق ماموں رہتے تھے۔ ان کی بیوی جانے کب کی مرچکی تھی۔ دوشادی شدہ بیٹے تھے جو الگ رہتے تھے۔
صدیق ماموں کی بھی اسی اسکول کے ساتھ چھوٹی سی کاپیوں پنسلوں کی دکان تھی۔ اسی کی آمدنی سے باہر کسی نانبائی کے پاس دوپہر شام دال روٹی کھالیتے تھے۔ البتہ صبح ان کے ساتھ ہی ناشتہ کرتے تھے مگر ناشتے میں چائے اور پراٹھے کے پیسے وہ باقاعدگی سے ادا کرتے تھے۔ ہاں اگر برسات کی جھڑی میں باہر جانا مشکل ہوتا یا کوئی کھانا اس کی ماں زبردستی کھلادیتی تو انکار نہیں کرتے تھے۔ ان کے گھر رات کا کھانا اکثر باہر ہی سے آتا تھا۔ اس کے ہوتے ہوئے محلے میں سردی گرمی میں کوئی نہ کوئی چل بستا۔ سرپوش سے ڈھکا مختلف کھانوں والا طشت کنڈی کھٹکنے پر اس کی اماں لے ہی لیتی تھی۔ مگر یہ سب کچھ اسے ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔ ماں اسے روز سمجھاتی میت کو نہلانا بڑے ثواب کا کام ہے۔ قبر سے رشتہ قائم ہوجاتا ہے۔ دھوکا فریب لوٹ کھسوٹ سب سے دل بھرجاتا ہے۔
’’مگر اماں مجھ سے قبرستان میں بیٹھ کر پلاؤ نہیں کھایا جاتا۔‘‘ وہ چیخ کر کہتی۔
’’دیکھ بیٹی۔ مر کر کوئی ختم تو نہیں ہوتا۔ یہ تو پردہ اٹھنے کی بات ہے۔ ایک موڑ ہے۔ اس میں دوسرے کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے بیٹی۔۔۔ آج نہیں تو کل مجھے بھی تو ضرورت پڑنی ہے۔‘‘ اس کی ماں کتنے پیار سے سمجھاتی۔ اس نے بارہا اپنی ماں کو بتایا کہ اسکول میں لڑکیاں اسے ملوانی کہہ کر چھیڑتی ہیں مگر اس کی ماں ہنس پڑتی اور کہتی، ارے ملوانی کہنے میں کیا برائی ہے۔ چورنی تو نہیں کہتیں۔ اسے سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ اماں کو کیسے سمجھائے کہ چورنی ملوانی کے مقابلے میں کتنا بہتر نام ہے۔ اس لیے اس نے اس موضوع پر گفتگو ہی چھوڑدی۔ اب اس کی دلچسپی کا مرکز جہاں زیب تھا، جو جانے اچانک کیسے ان کی ٹھہری ہوئی اور ساکن سمندر جیسی زندگی میں ہر روز لہر کی طرح داخل ہوگیا تھا۔ وہ اس کی مرحوم مامی کا بھانجا تھا۔ پولی ٹیکنیک کالج کھلنے کی بناپر گوجر خان سے آگیا تھا۔
وہ کہنے کو تو ہوسٹل میں رہتا تھا مگر صبح و شام وہیں نظر آتا تھا۔ بجلی کی مصنوعات کے بارے میں معلومات اور ترتیب حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اس نے اسے بھی اپنانے کا پروگرام پکاکر لیا تھا۔ وہ تربیت کے فوراً بعد مشرق بعید کے ایک مالدار ملک میں بلایا لیاگیا، جہاں اس نے پانچ سال تک خوب دولت کمانے کے بعد اپنا وعدہ نبھاتے ہوئے اسے سرسے پاؤں تک سونے میں لاد کر نہ صرف اپنی دلہن بنایا بلکہ اپنے ساتھ اسی ملک میں دوبارہ لے گیا جہاں وہ پہلے سے زیادہ اہم عہدے پر فائز ہوگیا تھا۔
اب پورے بیس برس کی طویل مسافری کے بعد دونوں چار عدد ذہین اور خوش مزاج بچوں کے ہمراہ وطن لوٹے تھے۔ اس کی اماں، ابا اور ماموں میں سے کوئی بھی باقی نہیں تھا۔ جہاں زیب نے پراپرٹی ڈیلر کی معرفت فوراً ہی اسلام آباد کے ایک تازہ تازہ آباد سیکٹر میں پانچ بیڈز والی کوٹھی مبلغ تیس لاکھ میں خریدلی۔ چار چھ ماہ میں اس کی یعنی مسز جہاں زیب کی دوستی اڑوس پڑوس میں خاصی مستحکم ہوگئی۔ اس کے گھر کے عین سامنے ممی کا بنگلہ تھا۔ ممی کی شہرت کی وجہ بہت سی خصوصیات تھیں۔ بڑی وجہ تو ممی کا جگت ممی ہونا تھا۔ چھوٹے بڑے، ڈاکیہ، دودھ والا، اخبار والا، بجلی کا میٹر چیک کرنے والا چندہ لینے والے، وہ سب کی ممی تھی۔ دوسری وجہ ممی کا سابق ا سٹار ہونا تھا۔ وہ یاد گار کردار کرچکی تھیں۔ (Mass) میڈیا والے اب بھی انہیں مہمان خصوصی کے طور پر بلاتے تھے اور آج کل ممی کی وجہ شہرت مارننگ واک تھی۔ اسلام آباد کی خنک اور شہابی صبح میں وہ جاگر پہن کر فیصل مسجد تک دوڑتی ہوئی جاتی تھیں اور اسی تیز رفتاری کے ساتھ واپس آتی تھیں۔ ساتھ میں پاپا بھی ہوتے تھے مگر لوگوں کو فقط ممی سے پیار تھا۔
ٹھیک دس بجے ممی ہر نئے فیشن کے لباس اور زیورات سے سج دھج کر اپنے شادی دفتر جاتی تھیں۔ وہاں سے ٹھیک ایک بجے واپس آتی تھیں۔ بابا اتنی دیر میں ایپرن لگائے بہترین ڈش تیار کرتے تھے۔ صفائی وغیرہ کے لیے نوکر بھی تھے۔ واپسی پر ممی اپنی فاکسی میں پھل فروٹ بھی لاتی تھیں۔ لنچ کے بعد دونوں آرام کرتے تھے مگر ممی ایک دو گھنٹے کے لیے دفتر اور پاپا لائبریری چلے جاتے۔ واپسی پر دونوں اکٹھے ہی آتے۔ ممی جمعہ ہفتہ دو چھٹیاں کرتی تھیں۔ انہی دنوں میں ممی کابیٹا اور بہو جو دوسرے سیکٹر میں رہتے تھے، ملنے کے لیے آئے تھے۔ مسز جہاں زیب کو پہلے پہلے اسلام آباد میں ممی پاپا کی زندگی کا انداز عجیب سا لگا۔ اسے یہ سن کر بھی حیرت ہوئی کہ ممی کی ذاتی کوٹھی کا کرایہ دار خود اس کا بیٹا ہے، جو سرکاری کرایہ باقاعدگی سے اپنی ماں کو ادا کرتا ہے۔ بیٹے کا اپنا بنگلہ کسی اور افسر نے سرکاری طور پر لے رکھا ہے۔ ممی کی ایک بیٹی بھی تھی جو اپنے میاں کے ساتھ سوڈان میں تھی۔ ممی کی دنیا میں رشتے ناطے، ریت رواج اور پیار محبت کی بندشوں کا کوئی اثر نہیں تھا۔ اس نے کبھی بھولے سے بھی اپنے ساس ہونے کا حق نہیں جتایا تھا۔ بس اچھے شہری کی طرح ساس بہو آپس میں مل لیتی تھیں۔
مگر ہوا یوں کہ ایک صبح ممی جب سیر کے لیے تیز تیز قدموں سے فیصل مسجد جانے والی سڑک پر مڑیں کہ اچانک رت جگا مناکر آنے والے اور نشے میں دھت ایک امیر زادے نے اپنی نئی ٹیوٹا ممی کے اوپر سے گزاردی۔ ممی بیچاری پھیتی پھیتی ہوگئی۔ پتہ نہیں کیسے اٹھاکر گھر لایا گیا۔ فوراً ہی بڑی مہارت کے ساتھ ممی کی میت کو سفید چادروں میں لپیٹ کر بنگلے کے بڑے سے استقبالیہ کے ایک کونے میں پلنگ پر ڈال دیا گیا۔ حادثہ ہوئے پانچ چھ گھنٹے ہوچکے تھے مگر لے دے کر مسز جہاں زیب، ممی کی بہو اور برتن دھونے والے مائی کے علاوہ کوئی بھی نہ تھا کہ جو صبح سے وہاں بیٹھا ہو۔ لوگ آتے تھے۔ استری جوڑوں کی کریز کا خیال رکھتے ہوئے چاندنی پر چند منٹ دوزانو ہوکر بیٹھتے، ممی کی بہو کے ہونٹوں کے اندر کا کیسٹ آن ہوجاتا۔ وہی جملے، وہی حادثہ کی تفصیل، وہی راہ گیروں کی مدد اور آخر کار ہال میں لاکر لٹانے پر بات ختم ہوجاتی۔
اتفاق سے اس روز جمعہ تھا۔ نماز ظہر کے بعد جنازہ لے جانے کا اعلان کیا گیا تھا۔ کوئی گھنٹہ بھر باقی تھا مگر غسل کا پروگرام جوں کا توں تھا۔ سارے سیکٹر میں کوئی غسل دینے والی بی بی ہی نہیں تھی۔ ممی کی بہو جس سیکٹر میں رہتی تھی، وہاں بھی اطلاع بھیجی گئی تھی مگر تاحال کسی ملوانی بی کے آنے کی خبر نہیں تھی۔ انسانوں کی بستی میں ابھی تک موت نے ہار نہیں مانی تھی۔ لوگوں نے زندہ رہنے کے لیے کیسے کیسے جتن کیے تھے۔ کیا کیا خواب گاہیں تھیں! کیا کیا ڈاکٹر پلازہ تھے! مگر کمبخت موت کو دیکھو مارنے کے کیسے ڈھنگ ایجاد کر لیے۔ کیا پتہ تھا موت کو پارٹی یا قوالی سے نہیں ٹالا جاسکتا! جوں جوں ممی کی بہو ٹیلیفون کی گھنٹی بجنے پر اشتیاق سے جاتی تھیں اور پھر ناامید ہوکر لوٹتی تھیں، توں توں مسز جہاں زیب کے اندر کھدبد تیز ہوجاتی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے اس کی ماں کا ہیولا ممی کے پلنگ کے گرد گھوم رہا ہے۔ اس کی ماں کی آواز اسے صاف سنائی دے رہی ہے۔
’’بیٹی آج نہیں تو کل تمہاری باری بھی آئی دھری ہے۔‘‘
چنانچہ اس دفعہ جب ممی کی بہو مایوس ہوکر میت کے قریب بیٹھیں۔ تو اس نے کہا، ’’آئیے، ہم میت کو جائے غسل تک لے چلیں۔ میں غسل دینا چاہتی ہوں۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.