صبح سویرے الارم کی آواز نے، ہر روز کی طرح، اسے جگا دیا۔ اس نے آنکھیں کھولیں اور ایک لحظہ کے لیے سوچنے کی کوشش کی کہ وہ کہاں ہے۔ اس کا اپنا ہی بستر اور اپنا ہی کمرہ اسے نا ما نوس محسوس ہو رہا تھا۔ ملگجے سے اندھیرے میں پہچان کی نشانیاں ڈھونڈتے ہوئے، اس نے الارم کی گھنٹی کو بند کیا اور خود کو یقین دلایا کہ یہ اسی کا کمرہ ہے، وہی کمرہ جہاں رات دیر تک پڑھتے ہوئے اور اس سے بھی زیادہ دیر تک سوچتے ہوئے اس نے سونے کی کوشش کی تھی اور پھر روز کی طرح نیند کی دوا لے کر اپنے ذہن کا سوئچ آف کر دیا تھا۔ لیکن اب اس کا جسم اینٹھ رہا تھا۔ بستر سے نکل کر ہاتھ پاؤں جھٹک کر اس نے خون کی روانی بحال کی۔ ’’ان گولیوں کا بھی کیا فائدہ‘‘ اس نے سوچا۔ ’’صرف جسم سے دماغ کا رابطہ منقطع کر دینے کو تو نیند نہیں کہ سکتے نا۔ بدن تو اسی طرح دکھ رہا ہے، جیسے سارا دن کام کرنے کے بعد شام ڈھلے بستر پر جانے سے پہلے تھا۔ مجھے کچھ اور کرنا چاہیے، لیکن کیا؟؟؟ خیر جو بھی ہو۔‘‘ اس نے بستر سمیٹا اور چادر کی شکنیں یوں دور کیں جیسے اپنی سوچ کی سلوٹیں نکال رہی ہو۔ دن بھر کے کاموں کی دماغی فہرست بناتے ہوئے غسل خانے میں جانے لگی۔ پتا نہیں گرم پانی آئےگا بھی یا نہیں، کچھ بھی تو ٹھیک نہیں ہے، چھوٹی چھوٹی آسائشیں بھی کس قدر اہتمام سے حاصل ہوتی ہیں۔ کتنی بےیقینی ہے۔ گیس ہے تو بتی بند،بتی آئی تو پانی گیا، کیا مصیبت ہے، ‘‘اس کی بیزاری بڑھنے لگی۔ ’’ ایک تو ہم نے خود کو ان چیزوں کی عادت بھی تو بہت ڈال لی ہے نا، یا تو ہم سوچ لیں کہ گیس، پانی، بجلی کر بغیر ہی رہنا ہے تو خود ہی کوئی متبادل حل سوجھ جائے، پر ہائے ری سمجھداری، دنیا بھر کی معلومات کا کیا کریں، اتنے بہت سے لوگ جو عیش کرتے ہیں ان میں کون سے سرخاب کے پر ہیں جو ہم میں نہیں۔ ہم بھی تو انسان ہیں۔۔۔ اپنی منطق پر اسے ہنسی آنے لگی۔ پانی کھولا تو گرم پانی پا کر وقت کا احساس کچھ دیر کو ختم ہو گیا اور وہ یوں پانی کی بوچھاڑ تلے کھڑی ہو گئی کہ جیسے آج ساری بے زاری دھو کے ہی نکلےگی۔
ایک طویل گرم پانی کے غسل کے بعد اسے اپنا آپ اچھا لگ رہا تھا اس لیے ناشتے کے نام پر ایک توس نے بھی اسے مزہ دیا۔ اس سے زیادہ کا وقت بھی نہیں بچا تھا۔ دفتر کے لیے دیر ہو رہی تھی، جلدی جلدی چائے کر آخری گھونٹ پی کر اس نے چابیوں کا گچھا اٹھایا اور دو کمروں کے مکان پر ایک نظر ڈال، بتیاں بجھا، باہر نکل آئی۔ گجردم چہچہانے والی چڑیوں کو بھی کچھ دیر بعد رزق کی تلاش میں نکلنا پڑتا ہے۔
گاڑی خاصی گندی ہو رہی تھی، گلی میں کھڑے ہونے کی وجہ سی مٹی اور دھول سے اٹ جاتی تھی۔ روز کپڑے سے صاف تو کر لیتی لیکن دھونے کی نوبت نہیں آتی تھی۔ صبح کے وقت تو خیر دفتر کی جلدی مہلت ہی نہیں دیتی ہاں ایک دفعہ اس نے شام کو پرانے کپڑے پہن، پائنچے چڑھا، پائپ لگا کر اپنی کار کو دھونا چاہا۔ ذرا سی دیر میں گلی چھوٹے چھوٹے بچوں سے بھر گئی، جو اپنا کھیل چھوڑ چھاڑ ایک پراسرار، ناقابل فہم مسرت آمیز حیرت سے اسے دیکھنے لگے تھے جیسے کوئی تماشا ہو، کسی کسی کی آنکھوں میں مرعوبیت سی بھی تھی اور کچھ حسرت آمیز حسد بھی۔ نوجوان راہگیر کن انکھیوں سے اسے دیکھتے ہوئے، ہولے سے کھنکھارتے، ایک دوسرے کو اشارہ کرتے، اس کے قریب سے گزرتے اور گلی کی نکڑ پر کھڑے ہو، پلٹ پلٹ کر اسکی جانب دیکھتے تھے، گلی کے تھڑے پر، جہاں ہر وقت دو چار معمر مرد بیٹھے رہتے تھے، ایک پوشیدہ سی ہلچل سی مچ گئی تھی۔ اپنی اپنی حاکمیت پسند بیویوں سے بے زار اور گھر کی بہوؤ ں کے دھتکارے ہوئے یہ مرد عرصہ ہوا، اس تھڑے کو اپنا مسکن بنا چکے تھے۔ اب ان کا مصرف یہی رہ گیا تھا کہ وہ گھر والی کو سودا لا دیں۔ یا کسی روتے بچے کو گود میں اٹھا ذرا جھولے پر لے جائیں یا گھر کی چوکیداری کرتے رہیں۔ آخر بزرگ گھر کا تالا ہوتے ہیں۔ اسے گلی میں گاڑی دھوتا دیکھ کر، ان کی تسبیح کے دانے تیزی سے گرنے لگے، استغفا ر کے ورد میں بلند آہنگی آ گئی اور باتوں کا رخ خود بخود نئی نسل کی بےحیائی کی طرف مڑ گیا۔ بڑی بڑی چادروں میں لپٹی، موٹی، بھدی، محلے کی عورتیں، ایک آدھ بچے کو گود میں اٹھائے، ایک دو کی انگلی تھامے، چہروں کو کرخت بنائے اپنے دروازوں میں آکھڑی ہوئیں، گویا وہ گاڑی نہیں دھو رہی، خود گلی میں کھڑی نہا رہی ہے۔ اس دن کے بعد سے اس کی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ گلی میں گاڑی دھو سکے۔ حالانکہ اسے اپنی گاڑی بہت عزیز تھی۔ دن رات کام کر کے اور پیسہ پیسہ جوڑ کر اس نے پہلا کام یہی کیا تھا کہ گاڑی خریدلی۔ اس گاڑی کے لیے اس نے کچھ قرض اٹھایا، کچھ کمیٹیاں اکھٹی کیں۔ زیور کے نام پر جو دو چار سونے کی چیزیں تھیں وہ بھی بیچ دیں۔ گاڑی میں بیٹھ کر اسے عجیب سے تحفظ اور خودمختاری کا احساس ہوتا تھا۔ اسے دیر سویر سٹاپ پر بس کا انتظار کرنے، یا رش کے وقت جنس زدہ مردوں سے اپنا جسم بچانے کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ ’’آج کسی سروس اسٹیشن پر تمہیں دھلواتی ہوں۔‘‘ گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے اس نے خود سے زیادہ گویا گاڑی کو تسلی دی۔ یہ تجربہ وہ پہلے بھی کر چکی تھی اور وہاں بھی اس نے عجیب عجیب نظروں کا سامنا کیا تھا۔ حالانکہ وہ خاصا بڑا سٹیشن تھا اور گاڑیوں کی ایک قطار دھلنے کی منتظر تھی مگر اس کے سوا وہاں اور کوئی عورت نہ تھی۔ مینیجر نے اس کی بےآرامی کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کو اندر دفتر میں بٹھا دیا تھا لیکن وہاں کام کرنے والے لڑکوں کی نظریں مستقل اس پر جمی رہی تھیں،پھر بھی، یہ گلی میں گاڑی دھونے سے تو اسے بہتر لگا تھا۔
گلی کی عورتیں پہلے ہی اسے آوارہ سمجھتی تھیں۔ جب سے وہ اس محلے میں آئی تھی، آپس کی لڑائیاں بھول کر وہ اسی کی ذات بارے بات کرتی تھیں۔ اکیلی رہتی ہے، دفتر میں کام کرتی ہے، گاڑی رکھی ہوئی ہے، شام ڈھلے لوٹتی ہے، کبھی کبھی تو دیر رات گئے واپس آتی ہے۔ اتنی عمر ہو گئی، ابھی تک شادی بھی نہیں کی، شکل تو ٹھیک ٹھاک ہے، پتا نہیں کیا معاملہ ہے۔ اجی ایسی لڑکیاں گھر تھوڑا ہی بساتی ہیں۔ پڑھائی ان کے دماغ کو چڑھ جاتی ہے، انہیں شوہر نہیں، شو پیس چاہیے۔ اپنی کمائی کا رعب ہوتا ہے نا انہیں، میں نے تو اسی لیے اپنی رضیہ کو پانچویں کے بعد سکول سے اٹھا لیا تھا۔ اب دیکھو، مجال ہے جو ماں باوا کی مرضی کے بنا گلی میں بھی نکلے، روز ایک سپارہ پڑھتی ہے، نماز کا ناغہ جب ہو تو میں سمجھ جاتی ہوں کہ اسے کپڑے آئے ہیں، اس پہ گھر کا بھی سارا کام وہی کرے، کھانا وہ بنائے، کپڑے وہ دھوئے، کمال تو یہ ہے کہ میرے گڈو کی پیدائش پہ میرا چھلا بھی اسی نے کٹوایا۔ ایسی ہوتی ہیں شریف لڑکیاں، گھر سنبھالنے والیں؛ یہ اس ناس پیٹی جیسی کہاں، یہ تو ماں باپ سے جان چھڑا آئی لگتی ہے، یہ کہاں سسرال کے جھنجھٹ پالے، میں تو کہوں، اس کے ماں باپ بھی بے غیرت ہی ہوں گے جو جوان لڑکی کو اکیلے رہنے دیا۔ رضیہ کی ماں اپنی کہے جا رہی تھی۔ حمیدہ بی اور رسولاں نے بیک وقت ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ ابھی ایک ہفتہ پہلے ہی کا تو واقعہ تھا، جب رضیہ کی ماں اپنے سب سے چھوٹے گڈو کو لے کر رضیہ کا رشتہ دیکھنے نکلی تھی اور سب بچے سکول گئے ہوئے تھے، تو رسولاں نے شاکر کو رضیہ کے گھر داخل ہوتے دیکھا تھا۔ یہ بات رضیہ کی ماں تک بھی پہنچائی گئی تھی، لیکن اس وقت زد پر اپنے محلے کی لڑکی کو کیسے لایا جا سکتا تھا، جب کہ اس کی ماں بھی سامنے بیٹھی ہو، ویسے بھی رضیہ کی ماں سے تو یہ سب ڈرتی تھیں۔ محلے کے سب سے پرانے باسیوں میں سے تھی یہ اور سب کا کچا چٹھا جانتی تھی۔ کس نے کتنے بچے حرام کے جنے ہیں اور کتنے گرائے ہیں، اسے سب معلوم تھا اور وہ بھی موقع بے موقع کہتی رہتی تھی۔ ’’میں تو محلے کی دائی ہوں۔ ہر ایک کے پیٹ کا حال جانتی ہوں۔‘‘ اب ایسی کے منہ کون لگے۔ کسے اپنے پیٹ کا حال سر عام کھلوانا پسند تھا۔ ’’پر آپا۔ حمیدہ بی نے رسان سے کہا: ایسی کتی اولاد ماں باپ بیچاروں کی سنتی بھی کہاں ہے۔’’ نہ اماں ‘‘رضیہ کی ماں تڑخ ہی تو گئی تھی۔’’ تربیت کا قصور ہے،ہم تو ایسی اولاد کو کاٹ کے پھینک دیں۔ اس کے بھائی ہیں کیا یا ان کو بھی کھا آئی ہے؟ ’’پتہ نہیں‘‘، حمیدہ بی نے پنڈ چھڑایا، ’’میں نے تو پوچھا نہیں۔ کسی سے سنا تھا کہ بھلے گھر کی ہے، باپ مر گیا، بھائی چھوٹے ہیں، یہ پڑھی لکھی تھی، اس شہر میں نوکری مل گئی تو ماں سے اجازت لے کر چلی آئی۔ پہلے کسی رشتے دار کے گھر رہتی تھی، وہاں کچھ مسئلہ ہوا تو کسی ہاسٹل،واسٹل میں داخل ہو گئی۔ سنا ہے کہ اس ہاسٹل میں ایک روز چھاپہ پڑ گیا، پولیس کا،۔۔۔‘‘۔ ’’بھونکتی ہے کتیا،‘‘ رضیہ کی ماں کو پھر تلوؤں لگی۔ اس نے حمیدہ بی کا جملہ بھی پورا نہ ہونے دیا تھا۔ ’’مجھے تو لگتا ہے گھر سے بھاگی ہوئی ہے، کسی یار کے ساتھ، وہ چود کے چھوڑ گیا تو اب دھندا کرنے لگی ہے اور پولیس وولیس سے بچنے کے لیے ہمارے محلے میں آ بیٹھی ہے اور بھا نذیر کو بھی دیکھو، کتنی آسانی سے مکان دے دیا اس گشتی کو۔ سنا ہے گرو لیا ہے مکان اس نے، پانچ سال کے لیے۔ اس سے پہلے چھڑا بھی نہیں سکتے، لو۔ بھگتو اب۔ میں نے کتنا کہا تھا بھائی نذیر کو۔ میری بہن کو دے دے مکان، پر اس پر تو لالچ سوار تھا، چار لاکھ سے ایک روپیہ کم نہیں کرتا تھا، اس نے ساڑھے چار دیے ہیں۔ لو بھلا بتاؤ، محلے کی عزت بھلی تھی یا روپیہ‘‘۔ ’’آپا، تمہیں پتا ہے، یہ سگریٹ بھی پیتی ہے،‘‘ رسولاں نے بھی اپنی معلومات کا سکہ جمانا چاہا تھا۔ ’’اس روز میں قوبے جمعدار کو کوڑا دینے آئی نا، تو یہ بھی اپنی ٹوکری دے رہی تھی۔ قوبے نے اس کی ٹوکری اپنی ریہڑی میں الٹی تو میں نے دیکھا۔ دو ڈبیاں تھیں سگریٹ کی۔ اس کے گھر میں تو کوئی مرد ہے نہیں۔ نہ کوئی آتا جاتا ہے۔ پھر یہ ڈبیاں کہاں سے آئیں؟‘‘ہیں۔۔۔ اس نئے انکشاف پر تو سب کے سر رسولاں کی طرف گھوم گئے تھے اور اس کی آوارگی پر سند مل گئی تھی اور یہ بات کسی کو بھی یاد نہ رہی کہ یہی رسولاں فجر سے جو حقہ تازہ کرتی ہے تو شام تک اسے باسی نہیں ہونے دیتی۔
گلی سے نکل کر سفید گاڑی، سرمئی سڑک کو نگلتی جا رہی تھی۔ تہرائی چوک تک تو راستہ صاف تھا مگر موڑ مڑتے ہی، اسے گاڑیوں کی قطاریں نظر آنے لگیں۔ ’’اف!آج پھر دیر ہو جائےگی۔ ‘‘اس نے جھنجھلاکر سٹیئرنگ پر مکہ مارا۔ ڈیش بورڈ پر لگی گھڑی میں اسے اپنے باس کا چہرہ نظر آ رہا تھا۔ چند مہینے پہلے اس نے دفتر اور رہنے کا ٹھکانہ، جسے وہ عادتاََ گھر کہنے لگی تھی، اکھٹے تبدیل کیے تھے اور قسمت کہ ادھر اس کا راستہ بدلا، ادھر اسی راستے پر تعمیراتی کام شروع ہو گیا۔ سرکار کو یکایک احساس ہوا کہ آبادی کے ایک حصے کو دوسرے حصے تک پہنچانا تمام عوامی مسائل کا واحد حل ہے اور اس حل کے لیے ایک پل تعمیر کرنا نا گزیر ہے۔ تعمیر کے لیے تخریب ضروری ہے۔ یہ بھی نا گزیر ہے کہ اس پل کو ریکارڈ وقت میں مکمل کیا جائے، لہٰذاشہر کی تقریباََ تمام سڑکوں کو بیک وقت کھود دیا گیا تھا اور گڑھوں سے جو جگہ خالی بچی تھی، وہاں مٹی، بجری، سریے اور سیمنٹ کے بڑے بڑے پہاڑ کھڑے کر دیے گئے تھے، رہی سہی کسر بھاری مشینوں نے پوری کر دی۔ اب پل کی افادیت تو سرکار جانے،سر دست تو پورا شہر جنگ زدہ محسوس ہونے لگا تھا۔ مرکزی شاہراہیں بند ہو جانے سے متبادل راستوں پر اتنا ٹریفک جام ہوتا کہ منٹوں کا سفر گھنٹوں میں بدل گیا تھا۔ آئے روز اسے،چاہے نہ چاہے دیر ہو جاتی۔ شروع شروع میں تو باس نے اسے بہت ڈانٹا۔ پھر ایک دن جب اسی دیری کی وضاحت کے لیے وہ باس کے دفتر میں گئی تو اس نے اسے اپنے سامنے کی کرسی پر بٹھا دیا۔ اکیلی عورت کے مسائل پر ایک جذباتی تقریر پیش کرنے کے بعد، اس نے کہا کہ آئندہ وہ کبھی اسے کسی کام پر نہیں ڈانٹےگا اور دیر سے آنے پر تو ہرگز نہیں۔ بس جس روز اسے دیر ہو جائے، اس شام دفتر چھوڑنے سے پہلے، وہ ذاتی طور پر باس کے سامنے پیش ہو کر، وضاحت کر دے، ’’کوشش کرنا کہ یہ وضاحت تم اکیلے میں کرو۔ ورنہ سبھی رعایت مانگنے لگیں گے اور مجھے دفتر بھی چلانا ہے‘‘ باس کی نظریں اسے اب بھی یاد تھیں اور اس کی پوری کوشش ہوتی تھی کہ اس سے کوئی کام غلط نہ ہو اور دیر تو ہرگز نہ ہو۔
’’میرا خیال ہے کہ راستہ بدل لیا جائے۔‘‘ اس سے آگے کے کئی موٹر سوار گاڑیاں گھما رہے تھے۔ ’’رنگ روڈ سے نکلنا بہتر رہےگا‘‘ گاڑی گھما کر ون وے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسے خاصی دقت تو ہوئی تھی اور کئی گاڑیوں کے تیز ،مسلسل گالی نما ہارنوں نے اس کو پریشان بھی کیا تھا لیکن دفتر سے دیر اسے زیادہ پریشان کر رہی تھی۔ آخر وہ رنگ روڈ پہنچ ہی گئی۔ یہاں ٹریفک نسبتاََ کم تھا۔ اسے کچھ سکون سا محسوس ہوا اور اس کی توجہ بھی اپنے ارد گرد کچھ مبذول ہونے لگی۔ تھوڑی دور جاتے ہی وہ چونک پڑی۔ سڑک کے کنارے، ایک مجہول سا فقیر بیٹھا تھا۔ پہلے بھی کئی مرتبہ اس نے شہر کی سڑکوں پر اس عجیب شخص کوبیٹھے دیکھ رکھا تھا۔ یہ ہمیشہ اوپر تلے کئی گندے، بوسیدہ مگر نہایت گرم کپڑے پہنے، اونی مفلر لپیٹے، گرم کمبل میں چھپا،سڑک کے کنارے بیٹھا رہتا؛ پہلے پہل تو اس نے اسے نشئی سمجھ کر نظر انداز کر دیا تھا۔ لیکن پھرجب بھی اس نے اس فقیر کو دیکھا اس نے محسوس کیا کہ جس جگہ بھی یہ بیٹھا رہتا ہے، وہاں اسے بھیک ملنے کی کوئی امید نہیں۔ بھکاری سب سے زیادہ پر ہجوم جگہوں کو پسند کرتے تھے، جہاں عورتوں اور بچوں کا رش زیادہ ہو، یا پھر مسجدوں کے دروازے پر، خصوصاََ رمضان کے مہینے میں، سڑکوں پر اشارے کے نزدیک، جہاں کسی نہ کسی طرف سے آنے والی ٹریفک رکی ہی رہتی۔ یا پھر پارکوں میں اور ایسے پارکوں میں تو اکثر جہاں تنہائی کے متلاشی، نوواردان عشق، ایک دوسرے سے ملنے آتے تھے۔ ان جوڑوں کو دیکھ لیے جانے کا ڈر رہتا تھا، وہ کوئی چھپا ہوا گوشہ تلاش کرتے اور اگر کوئی بھکاری وہاں پہنچ جاتا تو اسے جلد از جلد بھگانے کے لیے کچھ نہ کچھ دے، اپنی جان خلاصی کر لیتے۔ بعض اوقات اپنے ساتھی پر سخاوت کا رعب ڈالنے کے لیے بھی ان فقیروں کی مانگ پوری کر دی جاتی۔ لیکن یہ انوکھا بھکاری تو خود ایسی جگہ بیٹھا پایا جاتا جو سرسری نگاہ سے چھوٹ جائے، خاموش ،الگ تھلگ، اپنی دھن میں گم۔ ہو سکتا ہے یہ مجرموں کے کسی گروہ سے تعلق رکھتا ہو، کسی چکر میں ہو، اس نے ایسی کئی کہانیاں سن رکھی تھیں۔ بھیک مانگنے کے بہانے ،یہ گداگر علاقے کا جائزہ لیتے اور مناسب گھر تاڑکر واردات کر جاتے تھے۔ ایسے لوگ دشمن ملک کے جاسوس بھی ہوتے ہیں، یا ایجنسیوں کے ایجنٹ، ایسا بھی اس نے سنا تھا۔ ’’توبہ ہے، شک دماغوں میں کیسا بھر گیا ہے، کتنی جلدی کہاں تک سوچ جا پہنچتی ہے، یہ اللہ لوک بھی تو ہو سکتا ہے یا کوئی عشق میں مبتلا، غم کا مارا ہوا؛‘‘ کبھی اس سے بات کرنی چاہیے۔ وہ سوچنے لگتی، لیکن ہر بار اسے دیر ہو رہی ہوتی تھی، کبھی دفتر سے، کبھی کسی تقریب کے لیے اور کبھی گھر واپس جانے کے لیے۔ ہر بار، وہ سوچتی: ’’اچھا ، پھر سہی۔‘‘ آج پھر ایسا ہی تھا۔ لیکن آج اسے پتہ نہیں کیا ہوا، باس کا چہرہ ڈیش بورڈ سے غائب ہو گیا۔ آج تو اس سے بات کر کے ہی رہوں گی۔ اس ارادے نے اسے کچھ طمانیت بخشی تھی،
وہ فقیر رنگ روڈ کے کنارے ایسے جگہ بیٹھا تھا جہاں گا ڑیوں کی رفتار خاصی تیز ہو جاتی تھی۔ یہاں سڑک پر اچھی خاصی ڈھلان تھی۔ اور پھر وہ تھا بھی پرلے کنارے پر۔ وہاں پہنچنے کے دو طریقے تھے، ایک یہ کہ وہ گاڑی اسی ڈھلان پر سڑک کے کنارے لگا دے اور ٹریفک کے مستقل تیز رفتار بہاؤ سے گزر، در میانی پختہ چار فٹ کی دیوار پھلانگ کر دوسری سمت پہنچے یا آگے سے ایک لمبا چکر کاٹ کر موڑ سے دوبارہ واپس آ جائے۔ اس نے دوسرالمبا راستہ لینے کا فیصلہ کیا۔ اسے اس فقیر سے کچھ کچھ ڈر بھی لگ رہا تھا اور کچھ سنسنی سی بھی تھی۔ اس وقت اس کی واحد رفیق اس کی گاڑی تھی اور وہ اکیلے جانے کی بجائے اپنی گاڑی کو بھی ساتھ لے جانا چاہتی تھی۔
موڑ پر خاصا ہجوم تھا، اسے واپس آتے ہوئے اندازے سے زیادہ وقت لگ گیا تھا۔ فقیر کہیں کسی اور طرف نہ نکل جائے۔ وہ مسلسل اسی خیال میں تھی لیکن موڑ مڑتے ہی تھوڑی دیر کے بعد اسے معلوم ہو گیا کہ اس کا اندیشہ بے بنیاد تھا، اسے ایک دفعہ پھر اپنی بے یقینی اور بد گمانی کا احساس ہوا۔ ’’ارے ایسا بھی کیا اضطراب۔ وہ کہیں بھاگ تو نہیں جائےگا نا اور ابھی نا ملتا تو پھر کبھی، کہیں اور مل جاتا اور اگر کبھی نہ ملتا تو بھی کیا تھا‘‘
اس نے فقیر کے قریب جا گاڑی روکی۔ پہلی مرتبہ وہ اس شخص کو تفصیل اور قریب سے دیکھ رہی تھی۔ اس شخص کی عمر تو زیادہ نہیں تھی لیکن چہرے کی لکیریں ایسی گہری تھیں کہ جیسے اس نے اپنی عمر کے ہر دن کو دو مرتبہ گزارا ہو۔ اسے اپنا گاؤں یاد آیا تھا، گیلے کھیت میں بوائی سے پہلے جب ہل چلایا جاتا تھا تو ایسی ہی گہری، موٹی اور تقریباََ یکساں لکیریں ان کھیتوں کے چہرے پر بھی نمودار ہو جاتی تھیں۔ رنگ بھی اس فقیر کا کچھ کچھ ان کھیتوں سے ملتا جلتا تھا، گہرا، بھورا، مٹیالا، بال بے ہنگم بڑھے ہوئے اور گندگی کی وجہ سے ان کی اصل رنگت کا اندازہ کرنا نا ممکن تھا،سب سے اوپر کی جیکٹ بھی میل سے سیاہ پڑ چکی تھی، نیچے کے کپڑوں کی تعداد کیا تھی اور ان کا حال کیا تھا، اتنے قریب سے بھی یہ جاننا مشکل تھا۔ گاڑی اس کے بالکل قریب رکی تھی لیکن اس نے نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ آنکھیں جھکائے زمین پر نہ جانے کس شئے کو ٹکٹکی باندھے دیکھتا جا رہا تھا۔
’’اب کیا کروں، کیا نیچے اتر کر اس سے بات کروں؟‘‘ اسے جھرجھری سی آئی۔ ’’نہیں، ہارن بجا کر اسے یہیں بلاتی ہوں۔‘‘ اس نے زور سے ہارن بجایا۔ ایک مرتبہ، دو بار، بار بار ’’یہ سن کیوں نہیں رہا، بہرا ہے کیا؟ ‘‘وہ اب جھنجھلا گئی تھی، اب کی دفعہ اس نے ہارن پر یوں ہاتھ رکھا؛ گویا اٹھانے کا کوئی ارادہ ہی نہ ہو، آخر فقیر نے آنکھیں اٹھا، اسے بری طرح گھورنا شروع کر دیا۔ ’’شکر ہے،اس نے سنا تو سہی‘‘، ’’ادھر آؤ‘‘ اس نے ہاتھ سے فقیر کو اشارہ کیا تھا۔ خلاف توقع وہ اپنی جگہ سے اٹھ، اس کی طرف چلا آیا۔ ’’کیا ہے‘‘ لال لال آنکھوں سے گھورتے ہوئے نہایت بے تمیزی سے اس نے پوچھا۔ وہ اس کے یوں ایک دم اٹھ آنے اور ایسے لٹھ ما رانداز سے کچھ بد حواس ہوئی اور بے اختیار دس روپے کا نوٹ اس کی طرف بڑھا دیا۔ ’’کیا کروں‘‘، فقیر نے نوٹ لینے کی بجائے دوسرا سوال دے مارا۔ ’’لے لو‘‘ اس سے اور کوئی جواب نہ بن پڑا تھا۔ ’’کیوں؟‘‘ یہ تیسری لٹھ تو واقعی چکرا دینے والی تھی۔ ’’اچھا، یہاں کیوں بیٹھے ہو‘‘۔ اس نے بھی نوٹ واپس رکھا اور سیدھا سوال کرنے کی ٹھانی۔ ایسے تو ایسے ہی سہی۔ ’’تجھے کیا‘‘ اب فقیر ناراض لگتا تھا۔ ’’بس ہے مجھے۔ بتاؤ‘‘ وہ بھی ضد میں آ گئی تھی۔ ’’ہوا لینے کو‘‘ فقیر نے بھی شاید بھانپ لیا تھا کہ یہ جواب لے کر ہی ٹلےگی سو بے زاری سے کہا، ’’مجھے بھی ہوا چاہیے‘‘ اس کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی ستارے کی طرح چمکی۔ ’’تو لے لے نا ہوا‘‘ اس بار فقیر کی آواز میں نرمی بھی تھی اور دلچسپی بھی۔ ’’کیسے لے لوں،نہیں ملتی‘‘، ’’اچھا سگریٹ ہے تیرے پاس؟‘‘ فقیر نے نئی بات کی تھی۔ ’’ہاں، ہے‘‘ سچ بولنے کو جی چاہا اس کا۔ ’’دے پھر‘‘ اس نے بیگ سے سگرٹ کی ڈبی نکالی اور اس کی طرف بڑھائی۔ ’’ایسے نہیں۔ لگا کے دے۔‘‘ فقیر نے ایک اور فرمائش کی ۔ اس نے ایک سگریٹ نکالا۔ منہ میں دبایا اور جلایا ہی تھا کہ فقیر نے یک دم گاڑی کی کھڑکی سے، اس کے گریبان کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ ’’لے ،ہوا لے،‘‘
وہ گھبرا گئی۔ بےاختیار کچھ کہنے کے لیے اس نے لب کھولے۔ جلتا ہوا سگریٹ اس کے ہونٹوں سے نکل کر اس کی گود میں گرا اور اس کی صاف قمیص کے دامن کو داغ دار کر گیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.