سامنے سہرا ب کی نعش تھی اور اس کے پیچھے دو دو پارسی سفید لباس پہنے ہاتھ میں پیوند کا کنارہ پکڑے خاموشی سے چل رہے تھے۔ ان کے پیچھے ہم لوگ تھے۔ ’’دخمہ‘‘ کی گیٹ پر ہم لوگ رک گیے۔ ہمیں اندر جانے کی اجازت نہیں تھی۔
میں نے ماحول کا جائزہ لیا۔ سب کچھ ویسا ہی تھا۔ کچھ بھی نہیں بدلا میری بہن کا گھر بھی! لیکن اس گھر میں اب میرا کوئی نہیں رہتا تھا۔ میری بہن اور بہنوائی کا انتقال ہوئے ایک عرصہ ہو چکا تھا۔ میری بھانجی اسی شہر میں اپنے شوہر کے ساتھ رہتی تھی۔
اسکول کی چھٹیاں ہوتے ہی میں ا پنی بہن کے پاس دوڑا چلا آتا۔ وہ میری سب سے بڑی بہن تھیں درمیان میں چھ اور بہنیں اور ان کے بعد سب سے چھوٹا میں۔ اکلوتا بھائی۔ میری بھانجی مجھ سے صرف دو برس چھوٹی تھی۔ ہم دونوں خوب کھیلا کرتے۔
وہ گھر مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔ چٹان پر بنا ہوا خوب صورت مکان اسٹیشن کے اس پار۔ پلاننگ کے ساتھ بنائے ہوئے بنگلے۔ درمیان میں سیدھی تار کول کی سڑکیں۔ کافی چڑھاؤ اور اتار تھے۔ ایک زمانے میں اس جڑواں شہر میں صرف تانگے چلتے تھے۔ سائکل رکشاؤں کا داخلہ ممنوع تھا۔ میری بہن کے گھر پہنچتے پہنچتے گھوڑا ہانپنے لگتا۔ چڑھائی پر گھوڑے کے پیر جمتے نہ تھے۔ جب ہم تانگے سے اترنے لگتے تو تانگے والا خاص انداز میں توازن بنائے رکھتا۔ مشرقی جانب واٹر ریز روائر تھا۔ مغرب میں جہاں سڑک مسطح ہو جاتی ہے سینٹ فلومینا چرچ تھا۔ چرچ میں مشنری اسکول بھی تھا۔ کھلی ٹانگوں والے یونیفارم کے اسکول کو کم ہی مسلمان لڑکیاں جاتی تھیں۔ میری بھانجی بھی اسلامیہ اسکول میں پڑھتی تھی۔ لیکن ہم لوگوں نے چرچ کا چپہ چپہ دیکھا تھا۔ کیوں کہ بچوں کو کوئی نہیں روکتا تھا۔ اتوار کے دن اطراف کے کرسچن prayer کے لیے آجاتے فضا میں گھنٹے گونجنے لگتے تو بڑا اچھا لگتا۔ پتہ ہی نہیں چلتا کہ گھنٹے کون بجاتا ہے۔ مسجد کافی فاصلے پر تھی جہاں چھوٹے چھوٹے بے ترتیب مکان تھے۔
گھر کے مقابل اونچی چٹان بلکہ پہاڑ پر ایک دائرہ نما عمارت بنی ہوئی تھی۔ کئی ایکر پر پھیلا ہوا علاقہ تھا۔ بہت بڑی باؤنڈری تھی۔ نیچے بڑا سا گیٹ تھا۔ لوگ اس کو پارسی گٹہ کہتے تھے۔ احاطہ میں ایک چھوٹا سا مکان بنا ہوا تھا۔ جس میں چوکیدار، اس کی بیوی اور ایک کتا رہتے۔ عجیب سا پر اسرار کتا! محلے کے اکثر گھروں میں السیشن تھے یہ کتا ان سے مختلف تھا۔ دور سے ایسا لگتا جیسے اس کی چار آنکھیں ہوں۔
میری بہن پارسی گٹہ جانے سے منع کرتی تھیں۔ کہتی تھیں بچوں کو وہاں نہیں جانا چاہیے۔
ایک دن ہم نے دیکھا پارسی ٹّہ کا گیٹ کھلا چھوڑ دیا گیا ہے اور چوکیدار صاحب بے حد مصروف ہیں۔ ۱۱ بجے دھوپ میں سفید کپڑوں میں ملبوس دو دو پارسی ایک رومال کے دو مختلف سرے پکڑے ہوئے ایک قطار میں چلے آرہے ہیں۔ سب سے آگے دو پارسی تھے۔ درمیان میں ایک گاڑی۔۔۔ پھر پارسیوں کی قطار۔۔۔! تقریباً ایک بجے تک وہ لوگ مصروف رہے پھر واپس ہو گئے۔ شام ہونے سے پہلے گدھوں کے جھنڈ آنا شروع ہوا۔ وہ سب اس دائرہ نما عمارت کے کنارے پر بیٹھ گئے۔ شام ہوتے ہوتے سارے گدھ اڑ گئے میں نے ایک ساتھ اتنے سارے گدھ پہلی بار دیکھے تھے شام تک وہ مصروف رہے۔
میں نے اپنی بہن سے پوچھا کہ ’’اتنے گدھ اس عمارت پر کیوں جمع ہو گئے تھے؟‘‘ بہن نے بتایا پارسی گٹہ اصل میں پارسیوں کا قبرستان ہے۔ پارسی مرنے والے کی نعش کو چھت پر رکھ دیتے ہیں تاکہ گدھ اس نعش کو نوچ کھائیں یہ سارے گدھ اسی لیے آئے تھے۔
’’یہ کیسا طریقہ ہے آپی؟‘‘ میں نے جھر جھری سی لے کر کہا۔
’’بیٹا اپنا اپنا عقیدہ ہے۔ کوئی دفن کرتا ہے۔ کوئی جلا دیتا ہے یہ لوگ پرندوں کو کھلا دیتے ہیں اور اسی کو ثواب سمجھتے ہیں۔‘‘ اندھیرا ہونے سے قبل سارے گدھ لوٹ گئے۔ اس کے باوجود ہم اس روز چھت پر نہیں سوئے۔ میں اور میری بھانجی دونوں ڈرکے مارے نیچے کمرے میں ہی سو گئے کیا پتہ کوئی گدھ ہمیں مردہ سمجھ کر۔۔۔
بیدار ہوتے ہی ہم دونوں پارسی گٹہ گئے۔ کتا ہمیں دیکھ کر بھونکنے لگا۔
’’ارے بیٹا تم لوگ؟‘‘
’’چا چا کل کسی کا انتقال ہوا تھا؟‘‘
’’ہاں بیٹا‘‘
’’دو دو آدمی کیوں قطار بناکر چلتے ہیں؟‘‘
’’یہی طریقہ ہے۔ تنہا کوئی نہیں چلتا۔‘‘
’’انہوں نے رومال کیوں پکڑ رکھا تھا؟‘‘
’’وہ رومال نہیں اسے پیوند کہتے ہیں‘‘
’’اور یہ گول عمارت؟‘‘
’’یہ دخمہ‘‘ہے۔ اس کی چھت درمیان سے اونچی ہوتی ہے چھت پر تین دائرے بنے ہیں۔ مرد کی نعش بیرونی دائرے میں، عورت کی درمیانی دائرے میں اور بچوں کی نعش اندرونی دائرے میں رکھی جاتی ہے تاکہ ان پر تیز دھوپ پڑے اور گدھوں کو دور سے نظر آ جائے۔
’’چا چا یہ کتا اتنا عجیب کیوں ہے؟‘‘ میری بھانجی نے پوچھا
اسے ’’سگ دید‘‘ کہتے ہیں۔ چار آنکھوں والا کتا۔۔۔ اس کی چار آنکھیں نہیں ہیں لیکن آنکھوں پر ایسے نشان ہیں جس سے اس کی چار آنکھیں نظر آتی ہیں۔ یہ ’’سگ دید‘‘ ہی آدمی کے نیک و بد ہونے کا فیصلہ کرتا ہے۔‘‘
’’کیسے چاچا‘‘
’’جب بڑے ہوجاؤگے تو خود ہی پتہ چل جائےگا‘‘ چا چا نے ہمارے سوالات سے اکتا کر کہا۔
’’اور چا چا یہ گدھ کہاں سے آ جاتے ہیں؟‘‘
’’اگر فرش پر چینی گرجائے تو چیونٹیاں کہاں سے آتی ہیں؟‘‘ چا چا نے سوال کیا اور اندر چلے گئے۔ اس روز بھی ہم چھت پر نہیں سوئے۔
(سہراب بھی ان تمام مراحل سے گزر رہا ہوگا۔)
(۲)
سہراب کا ’’میکدہ‘‘ شہر کے مصروف علاقے میں تھا۔ ممکن ہے جس وقت اس کے اجداد نے ’’مئے کدہ‘‘ کھولا ہوگا یہ مصروف ترین علاقہ نہ رہا ہو۔ کیوں کہ سامنے راجہ صاحب کی بہت بڑی حویلی تھی۔۔۔ بغل میں بھی ایک بہت بڑی حویلی تھی۔۔۔ دائیں جانب ڈراما تھیٹر تھا اور بائیں جانب بہت آگے انگریزوں کی ریزیڈنسی تھی۔ مقابل میں ایک چھوٹی سی مسجد تھی مسجد سے لگ کر جو گلی تھی وہ ’’مجرد گاہ‘‘ تک جاتی تھی۔ مجرد گاہ ادیبوں، شاعروں اور فن کاروں کا میٹنگ پوائنٹ تھا۔ اس میں فائن آرٹس اکیڈمی بھی تھی اور رسالے کا دفتر بھی۔ ہم لوگ ادیبوں، شاعروں اور فن کاروں کو دیکھنے آ جاتے تھے۔ ان دنوں بعض ادیبوں و شاعروں کی شہرت فلمی اداکاروں سے کم نہ تھی۔ بیچلر کوارٹرس کے مقابل ایک بڑا شراب خانہ بھی تھا جہاں سستی شراب فروخت ہوتی۔ اکثر فن کار وہاں چلے جاتے۔ جیب گرم ہوتی تو اکثر ادیب و شاعر مئے کدہ کا رخ کرتے شہر کا یہ سب سے قدیم شراب خانہ تھا! ایک تو سہراب خالص شراب بیچتا تھا۔ دوسرے وہ ادیبوں و شاعروں کے مزاج سے اچھی طرح واقف بھی تھا۔ کسی اچھے شعر پر داد بھی دے دیا کرتا۔ پارسی ویسے بھی خوش اخلاق اور مہذب ہوتے ہیں۔ پھر سہراب صرف شراب اور سوڈے کی اصل قیمت لیتا تھا۔ پانی اور گلاسس وہ خود فراہم کرتا۔ اندر ٹیبل اور کرسیاں بھی تھیں۔ گزگ کا کوئی انتظام نہ تھا۔ لڑکے ٹوکریوں میں گرین پیس، بھنی ہوئی مونگ پھلی، چڑوا لیے گھومتے۔ لوگ حسبِ ضرورت ان سے چیزیں خرید لیتے۔ دوسرے بارس کے مقابلے میں ’’مئے کدہ‘‘ نسبتاً کم خرچ تھا۔
ہم نے جس وقت ’’مئے کدہ‘‘ جانا شروع کیا۔ شہر کئی انقلابات سے گزر چکا تھا۔ کمیونسٹوں کی شاہی کے خلاف جدوجہد، تلنگانہ تحریک کامیاب تو ہوئی لیکن شاہی کا خاتمہ کانگریس کی نئی حکومت نے کیا تھا۔ پولس ایکشن نے مسلمانوں کو حواس باختہ کر دیا تھا۔ مذہب کے نام پر ملک کی تقسیم سے پوری قوم سنبھلی بھی نہ تھی کہ زبان کی بنیاد پر ریاستوں کی نئی حدبندیاں کی گئیں۔ ریاست کے تین ٹکڑے کر دیے گئے۔ برسوں گزر جانے کے بعد بھی دوسری ریاستوں سے جڑے یہ ٹکڑے ان کا حصہ نہ بن سکے۔ اپنی مستحکم تہذیب کی بنیاد پر ریاست کے یہ حصے ٹاٹ میں مخمل کے پیوند لگتے تھے۔ مذہب کے نام پر تقسیم کو عوام نے قبول نہیں کیا تو زبان کے نام پر ریاستوں کی نئی حدبندیوں کو بھی ایک ہی زبان بولنے والوں نے قبول نہیں کیا۔ دو مختلف کلچر! جس شہر کی تاریخ نہیں ہوتی اس کی تہذیب بھی نہیں ہوتی۔ نئے آنے والوں کی کوئی تاریخ تھی نہ تہذیب ایک مستحکم حکومت کا دارالخلافہ سیاسی جبر کی وجہ سے ان کے ہاتھوں میں آ گیا۔ وہ پاگلوں کی طرح خالی زمینوں پر آباد ہو گئے۔ ایک طرف بڑی بڑی حویلیاں حصے بخرے کرکے فروخت کر دی گئیں۔ زمین بیچنا یہاں کی تہذیب کے خلاف تھا۔ شرما شرمی میں قیمتی زمینیں کوڑیوں کے مول فروخت کر دی گئیں۔ آنے والے زمینیں خرید خرید کر کروڑ پتی بن گئے۔ نئے علاقوں کو خوب ترقی دی۔
کسی کوٹھی میں صدر ٹپہ خانہ آ گیا، کسی حویلی میں انجنیرنگ کا آفس، کسی حویلی میں اے۔ جی آفس تو کسی حویلی میں بڑا ہوٹل کھل گیا۔ باغات کی جگہ بازار نے لے لی۔ لیڈی حیدری کلب پر سرکاری قبضہ ہو گیا۔ کنگ کوٹھی کے ایک حصے میں سرکاری دواخانہ آ گیا۔ جیل کی عمارت منہدم کرکے دواخانہ بنا دیا گیا۔ رومن طرز کی بنی ہوئی تھیٹر میں اب بہت بڑا مال کھل گیا تھا۔ حویلیوں، باغات، جھیلوں اور پختہ سڑکوں کے شہر کی جگہ دوسرے عام شہروں جیسا شہر ابھر رہا تھا جس کی کوئی شناخت نہ تھی۔
چند برسوں میں سب کچھ بدل گیا۔ جو تہذیب کے نمائندے تھے جو تہذیب کو بچا سکتے تھے ان میں سے کچھ اپنی زمینوں کو چھوڑ کر سرحد کے اس پار جابسے تھے اور کچھ مغربی ممالک میں آباد ہو گئے۔ ولی عہد نے ایک مغربی ملک کو اپنا مسکن بنا لیا۔ رعایہ کی محبت کا یہ حال تھا کہ جب بھی وہ اس شہر کو آتے تو اس طرح خوشی سے پاگل ہونے لگتے تھے جیسے کوئی فاتح اپنی سلطنت کو لوٹا ہو۔ نہ شاہی خاندان کے افراد کو تہذیب کی فکر تھی۔ نہ امرا کو اور نہ عوام کو۔! ’’مئے کدہ‘‘ کے اطراف کا ماحول بھی تبدیل ہو گیا۔ راجہ جی کی حویلی میں سرکاری دواخانہ آ گیا۔ سامنے کی کوٹھی میں بینک کا مین آفس، ریذیڈنسی میں ویمنس کالج، ڈراما تھیٹر فلمی تھیٹر میں تبدیل ہو گیا۔ شہر کا نقشہ تیزی سے بدلتا جا رہا تھا۔ تیلگو فلم انڈسٹری مدراس سے یہاں منتقل ہو گئی تھی۔ شہر کی چمک دمک بڑھ گئی۔ فلمی اسٹیڈیوز، 70 ایم ایم تھیٹرز، بڑے بڑے مالس، کپڑوں اور زیورات کی دکانیں۔ سب ان کا تھا۔ سب پر ان کی چھاپ نمایاں ہو رہی تھی۔ ان کی غذاوں کے ہوٹل آ گئے تھے جہاں متوسط طبقے کا آدمی پیٹ بھر کھانا کھا سکتا تھا۔ ’’فل مِیل‘‘ (full meal) ملتا تھا۔ وہ آخر میں بڑے انہماک کے ساتھ چاول میں دہی ملاکر کھانے لگتے تو اکثر دہی بہہ کر کہنیوں تک آ جاتا۔ سڑکوں اور کالجس میں سانولے اور سیاہ فام لڑکے لڑکیوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی۔ بڑی بڑی کاجل بھری آنکھیں۔۔۔ نمکین چہرے۔۔۔ پشت پر بلاوز دور تک کھلا ہوا۔۔۔ پتہ نہیں انھیں پیٹھ کی نمائش کا شوق کیوں تھا؟ مقامی لوگ لینڈ گرابرس کی فروخت کی ہوئی خشک تالابوں کی زمین پر مکانات بنانے پر مجبور ہو گئے تھے۔ ہر بارش قیامت بن کر آتی۔ مسلسل فسادات نے پرانے شہر کی ساکھ کو بہت متاثر کیا تھا۔ ہفتوں کرفیو لگا رہتا۔ ہر تہوار و عید پر لوگ سہم جاتے۔ اس صورت حال سے تنگ آکر جو پرانا شہر چھوڑ سکتے تھے۔ وہ نئے علاقوں میں جابسے۔ ساری رونق، بڑی بڑی سڑکیں، فلائی اوور، ہائی ٹیک سٹی سب کچھ نئے شہر میں تھے۔ تمام دفاتر نئے شہر کو منتقل کر دیے گئے تھے۔ پرانے شہر میں کچھ تاریخی عمارتیں رہ گئی تھیں۔ مشہور زمانہ چوڑیوں کا لاڈبازار تھا۔ پتھر سے تعمیر کی گئی مار کٹ پتھر گٹی تھی۔ عیدوں پر ساری رات یہ بازار جگمگایا کرتے۔ دو تہذیبوں نے الگ الگ جزیرے بنا لیے تھے۔ جب بھی ریاست کے مقامی افراد کو محرومی کا احساس بہت ستا تا تو وہ علیحدہ ریاست کا مطالبہ کرنے لگتے۔ الیکشن کے زمانے میں کوئی باغی لیڈراس مسئلے کو گرما دیتا۔ کچھ مہینوں خوب ہماہمی رہتی پھر جذبات سرد پڑ جاتے۔
’’مئے کدہ‘‘ کا علاقہ بھی اب ڈاون ٹاون بنتا جا رہا تھا۔ پرانے شہر سے نئے علاقے کو منتقل ہونے والوں میں خود میں بھی شامل تھا۔ (’’دخمہ‘‘ میں پارسی ابھی تک مصروف تھے۔ کوئی باہر نہیں آیا تھا۔)
ان دنوں ادیبوں کا کوئی میٹنگ پوائنٹ نہیں تھا۔ سب بکھر گئے تھے۔ ہمارے دور کو انتشار کا عہد مان لیا گیا تھا۔ فرد کو مشین قرار دے دیا گیا تھا اور تنہائی کو ہمارا مقدر! یہ تسلیم کر لیا گیا تھا کہ تاریخی، تہذیبی، قومی، معاشرتی، جذباتی و ذہنی ہم آہنگی کی ساری روایتیں منہدم ہو چکی ہیں۔ پورا ادب درونِ ذات کے کرب میں مبتلا تھا۔ اس لیے اب ضروری نہیں تھا کہ سب کسی ایک ہی بار یا ہوٹل میں ملیں۔ شہر بہت پھیل گیا تھا۔ جگہ جگہ وائن شاپس کھل گئے تھے۔ ہم کسی دوست کے گھر جمع ہو جاتے۔ کسی قریبی دکان سے شراب منگوا لی جاتی۔ فون کرنے پر ہوٹل سے ’’گزگ‘‘ بھی پہنچ جاتی۔ ہوم ڈیلیوری کا رواج ہو گیا تھا۔ اب ’’مئے کدہ‘‘ جانا ہی نہیں ہوتا تھا۔
لیکن وہ کیوں سوچ رہا ہے شہر کی تہذیب کے بارے میں شہرکے بارے میں؟ شاید اس لیے کہ ’’مئے کدہ‘‘ کو بند دیکھ کر اسے بڑا شاک لگا تھا۔ جیسے تہذیب کا ایک حصہ مر گیا ہو۔
میرا دوست مشیر جو بہتر زندگی کا خواب آنکھوں میں سجائے امریکہ منتقل ہو گیا تھا۔ بیس برس بعد امریکہ سے آیا۔ اپنا شہر چھوڑ کر باہر بس جانے والے ایک تو ناسٹالجک ہو جاتے ہیں دوسرے چیارٹی کرنے کے لیے اتاولے ہوتے ہیں۔ وہ ایسی ہر جگہ جانا چاہتا تھا جہاں بیس برس قبل ہم جا یا کرتے تھے۔ ہرجگہ ساتھ چلتا بہت چیزوں کی تبدیلی پر اداس ہو جاتا۔ ظاہر ہے شہر بہت تیزی سے بدلا تھا اور اس پر گلوبلائزیشن کی پرچھائیاں صاف نظر آ رہی تھیں۔ اسے اس لیے بھی مایوسی ہورہی تھی کہ جو چیزیں وہاں ترقی یافتہ شکل میں دیکھ کر آیا ہے یہاں اسی کی نقل کی جا رہی ہے۔ شہروں کی شناخت تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔ سب شہر ایک جیسے ہورہے ہیں۔ مجھے یاد آیا کہ پرانی باقیات میں صرف ’’مئے کدہ‘‘ بچا ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ وہی عمارت، وہی انتظام، ویسے ہی کاونٹر، وہی مستقل گاہگ۔۔۔ جو بوتل خرید کر حسب ضرورت پیتے ہیں اور بچی ہوئی شراب کی بوتل محفوظ کروا دیتے ہیں۔ اس بوتل سے ایک قطرہ بھی کم نہ ہوتا۔۔ دیانت داری ’’مئے کدہ‘‘ کی سب سے بڑی خوبی تھی۔ مستقل گاہکوں کو یہاں بڑی اپنائت محسوس ہوتی تھی۔ مشیر کے یہاں رہنے تک ہم روزانہ ’’مئے کدہ‘‘ جایا کرتے تھے۔ ایک خاص وقت تک شغل کرتے پھر اپنی راہ لیتے۔ پتہ نہیں مشیر کو مئے کدہ کی یاد کیوں نہیں آئی۔ امریکہ سے آنے کے بعد اس نے ایک بار بھی شراب کا نام نہیں لیا تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ اسے ایک ایسی جگہ لے چلوں گا جو بالکل نہیں بدلی۔ دوسرے روز میں اسے ’’مئے کدہ‘‘ لے آیا۔
لیکن ’’مئے کدہ‘‘ بند تھا۔ برسوں پہلے ’’مئے کدہ‘‘ کی پیشانی پر ابھرے ہوئے لفظوں میں MAI KADA EST: 1904 اسی طرح موجود تھا نیچے اردو میں بھی ’’مئے کدہ‘‘ لکھا تھا۔ آس پاس دریافت کیا تو پتہ چلا کافی دنوں سے بند ہے۔ مجھے بڑا شاک لگا۔ اپنی بے خبری پر افسوس بھی ہوا۔ پتہ نہیں یہ سب کب اور کیسے ہوا؟ ایسا محسوس ہوا جیسے تہذیب کا ایک حصہ مر گیا ہو۔
پتہ نہیں سہراب کی صحت کیسی ہے؟ کاروبار میں نقصان تو نہیں ہوا؟ کسی ناگہانی مصیبت میں تو نہیں پھنس گیا؟
ہم لوگوں نے سہراب کے گھر کا پتہ چلایا۔ اس کے گھر پہنچے۔ قدیم پارسی طرز کا مکان تھا۔ ملازم نے ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔ ہم دیوار پر ٹنگی تصویریں دیکھنے لگے۔ سہراب نے انتظار نہیں کروایا۔
’’آپ‘‘ وہ مجھے دیکھ کر چونک پڑا۔
’’ہاں اور انھیں پہچانا۔ مشیر!‘‘
’’اوہ یاد آیا۔ آپ تو پورے انگریز ہو گئے۔‘‘
’’امریکہ میں جو رہتا ہے۔‘‘ میں نے ہنس کر کہا۔
’’آپ تو یہیں رہتے ہیں نا؟‘‘ اس نے ہنس کر کہا۔
مجھے شرمندگی ہوئی۔
کہیے کیا لیں گے؟
’’نہیں میں دن میں نہیں لیتا‘‘ میں نے کہا ’’اور مشیر تم؟‘‘
’’نہیں میں بھی نہیں لوں گا‘‘
’’کوئی تکلف نہیں۔‘‘ اس نے ملازم سے کچھ کہا۔ ’’آپ لوگوں کو دیکھنے آنکھیں ترس گئیں‘‘
’’میں شرمندہ ہوں۔‘‘
’’ہاں شہر بھی تو بہت پھیل گیا ہے۔‘‘
’’آپ کی صحت کیسی ہے۔‘‘
’’اچھا ہوں۔‘‘
’’بزنس میں نقصان ہوا؟‘‘ میں نے راست پوچھ لیا۔
’’نہیں۔‘‘
’’پھر مئے کدہ؟‘‘
’’چھوڑیے کوئی کب تک بزنس کرتا رہے۔ آدمی کو آرام بھی کرنا چاہیے نا!‘‘
اتنے میں ملازم ٹرے سجا کر لے آیا۔
’’خاص فرانسیسی شراب ہے۔ اتنے دن بعد ملے ہیں، انکار نہ کیجیے‘‘
ہم لوگ انکار نہ کر سکے۔ واقعی بڑی نفیس شراب تھی۔ دھیرے دھیرے سرور آنے لگا۔
’’آپ بتایے‘‘ مشیر سے مخاطب ہوکر اس نے کہا، ’’امریکہ میں کیسی گزر رہی ہے؟‘‘
’’پہلے جیسا تو نہیں ہے۔ یہاں کی گھٹن سے بھاگے کچھ دن تو اچھا لگا اب فضا پر حبس چھایا ہوا ہے۔ شک کے سائے میں زندگی گزارنا کتنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کا تجربہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔‘‘
’’سارا منظر نامہ ہی بدل گیا۔‘‘ میں نے کہا، ’’وطن کے لیے جدوجہد، بین الاقوامی فیصلوں کی جارحانہ خلاف ورزیاں، دہشت گردی سب گڈمڈ ہو گئے ہیں۔ ایک پوری قوم کو دہشت گردی کے جال میں پھنسا دیا گیا۔ ایک آگ سی لگی ہوئی ہے جس میں پتہ نہیں کون کون ہاتھ سینک رہا ہے۔ لیکن ملزم تیار ہے جرم کہیں بھی کسی نے کیا ہو۔ نشان زدہ ملزمین تیار ہیں۔ پولیس نے بھی ظلم کے سارے حربے آزما لیے۔ عدالتیں کبھی چھوڑتیں ہیں کبھی نہیں چھوڑتیں۔ اور بےوقوف قوم دلدل میں دھنستی ہی جا رہی ہے۔‘‘
’’آپ تو جذباتی ہو گئے۔ تاریخ اپنے رنگ بدلتی رہتی ہے۔ دیکھیے نا ایران سے مسلمانوں نے ہم کو باہر کیا تھا۔ اسپین میں مسلمانوں کو باہر کیا گیا۔ اس ریاست کو ہم آصف جاہی سلطنت کے چرچے سن کر آئے تھے۔ ہمارے اجداد کو سالار جنگ اول نے مدعو کیا تھا۔ انتظامیہ میں ہمیں شامل کیا گیا۔ میر محبوب علی خان نے ہمیں خطابات سے نوازا تھا۔ نواب سہراب نوازجنگ، فرام جی جنگ، فریدون الملک وغیرہ وغیرہ فارسی یہاں کی سرکاری زبان تھی اور اردو عوامی زبان۔ بریانی، نوابوں اور موتیوں کا شہر! گجراتی، مارواڑی، سندھی سبھی آبسے تھے۔ سب کو آزادی حاصل تھی سب نے اپنی اپنی عبادت گاہیں تعمیر کر لیں۔ شاہی خزانے سے مدد بھی ملتی تھی۔ ہمارے لیے تو بہت سازگار ماحول تھا۔ بڑا عجیب معاشرہ تھا۔‘‘ اس نے ہنستے ہوئے کہا، ’’آپ کو یاد ہے؟ نہیں آپ تو بہت چھوٹے رہے ہوں گے۔ تھیٹر میں جب ہم فلم دیکھنے جاتے تو درمیان میں ایک سلائیڈ دکھائی جاتی۔’’ وقفہ برائے نماز ‘‘لوگ جلدی جلدی فرض نماز پڑھ کر تھیٹر لوٹ آتے۔ رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی والا معاملہ تھا۔‘‘
’’آپ کو شاہی دور پسند تھا؟‘‘
’’نہیں رواداری پسند تھی۔ معاشرے کا کھلاپن اچھا لگتا تھا۔ اب تو کٹرپن آ گیا ہے ہر قوم میں!‘‘
’’ہاں مسلمان بھی خدا حافظ کی جگہ اللہ حافظ اور نماز کے بجاے صلوٰۃ کہہ کر بہت خوش ہونے لگے ہیں‘‘ میں نے کہا۔
’’مئے کدہ‘‘، ’’آپ نے کیوں بند کر دیا؟‘‘ مشیر نے اچانک پوچھا۔
’’ارے ہاں میں تو اصل بات ہی بھول گیا‘‘ میں نے چونک کر کہا۔
’’چھوڑئیے۔‘‘
’’نہیں بتائیے نا کیا ہوا تھا؟‘‘ میں نے اصرار کیا۔ کافی دیر تک وہ خاموش رہا۔ پھر دھیرے سے کہا۔
’’مسلمانوں نے حکومت سے شکایت کی کہ’’ مئے کدہ ‘‘مسجد سے بہت قریب ہے جو خلاف قانون ہے‘‘ میں سناٹے میں آ گیا۔ تو یہ مسلمانوں کا کارنامہ ہے۔ میں نے سوچا۔
’’لیکن مسجد اور مئے کدہ برسوں سے اسی جگہ ہیں پھر؟‘‘
’’وہ شاہی دور تھا۔ اب جمہوریت ہے! مسلمان اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت ہیں۔ اس کا خیال رکھنا حکومت کا فرض بھی تو ہے۔‘‘
’’مسلمان بھی بہت کٹر ہوتے جا رہے ہیں‘‘ مشیر نے کہا۔ نشہ چڑھنے لگا تو ہم کٹر مسلمانوں کو نوازنے لگے۔
’’مسلمان ہی کیوں‘‘ سہراب نے ہمیں روکا سب کا یہی حال ہے خود مجھے دیکھیے۔ میں نے شادی نہیں کی کیوں کہ پارسی غیرمذہب میں شادی نہیں کر سکتے۔ اس مذہبی شرط کی وجہ سے ہماری تعداد گھٹتی جا رہی ہے۔ اکثر تاخیر سے شادی کرتے ہیں یا نہیں کرتے۔ اب پورے شہر میں بارہ سو پارسی رہ گئے ہیں۔‘‘
’’واقعی؟‘‘
’’ہاں دوسرا مسئلہ موت کا ہے۔ وہی پرانا دَخمہ۔ برہنہ نعش کو جلتی دھوپ میں چھوڑ دیتے ہیں۔ اب تقریباً بیس برس سے گدھوں نے شہر کا رخ کرنا چھوڑ دیا ہے۔ اب مختلف الخیال گروپ بن گئے ہیں کوئی کہتا ہے نعش کو دفن کر دینا چاہیے۔ کوئی جلا نے کے حق میں ہے۔ الکٹرک بھٹی کے بارے میں بھی غور کیا جا رہا ہے۔ کچھ لوگ گِدھوں کی Artificial Incimination کے خطوط پر افزائش کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ میں تو پرانے طریقے کو ترجیح دوں گا کہتے ہیں کوئی نیک آدمی مرتا ہے تو گدھ آتے ہیں۔ پتہ نہیں ہمارا کیا حشر ہوگا! آپ کے عقیدے کے مطابق شراب بیچنے والا جہنمی ہوتا ہے نا؟‘‘ اس نے ٹھنڈی سانس بھری۔
’’ہاں۔۔۔ اور شراب پینے والا بھی۔ اللہ معاف کرے!‘‘ میں نے کہا۔
ملازم نے آکر اطلاع دی کہ کھانا تیار ہے۔
’’آپ نے تکلف کیوں کیا۔ اتنی اچھی شراب پینے کے بعد کھانے کی بالکل اشتہا نہیں ہے۔‘‘
’’پارسی ڈشس بنوائی ہیں آپ کے لیے۔۔۔‘‘
ہم کھانے کی میز پر آ گئے۔ زندگی میں پہلی بار پارسی ڈشس کھانے کا اتفاق ہو رہا تھا۔ اس لیے بھی زیادہ انکار نہ کر سکے۔
’’یہ براون رائس ہے۔ یہ دھن سک یہ ساس ان مچھی اور یہ کچومر سلاد‘‘
براون رائس باسمتی چاول کی عمدہ ڈش تھی جس میں چینی اور کالی مرچ شامل تھی۔ دَھن سَک تور کی دال، مونگ کی دال اور اڑت کی دال، انڈے، ٹماٹر اور کھیرے سے بنائی گئی ڈش تھی۔ ساس اِن مچھی میں بہترین پمفرٹ تھی ساتھ میں کرارے چکن پارچہ بھی تھے۔ کھانا واقعی لذیذ تھا۔ آخر میں موامی بوئی نام کا مچھلی کا میٹھا پیش کیا گیا۔ ہم نے بہت سیر ہوکر کھایا۔ سہراب کی مہمان نوازی نے ہمیں بہت متاثر کیا۔
اور آج اطلاع ملی کہ سہراب مر گیا۔
مجھے بار بار یہی خیال آتا تھا کہ ’’مئے کدہ‘‘ کے بند ہوجانے کا اس پر بہت اثر ہوا ہوگا۔ اس لیے شاید وہ زیادہ جی نہ سکا ہو۔ میں Guilty محسوس کر رہا تھا۔ اس کا اپنا کوئی نہ تھا۔ دور کے رشتے دار اور چند احباب تھے۔
پارسی باہر آ رہے تھے۔ سہراب کی برہنہ نعش کو دَخمہ کی چھت پر چھوڑ دیا گیا ہوگا۔ میں بار بار آسمان کی طرف دیکھنے لگا۔ بہت سے پارسی بھی رک گئے تھے۔ اگر گدھ نہ آئیں تو؟ کیا سہراب کی نعش دھوپ میں سوکھتی رہےگی؟ کاش سہراب نے الکٹرک بھٹی کو ترجیح دی ہوتی میں سوچ رہا تھا۔
میں نے غیر ارادی طور پر آسمان کی طرف دیکھا۔ مجھے بچپن کا وہ منظر دوبارہ نظر آنے لگا۔ گِدھوں کا ایک جھنڈ تیزی سے دَخمہ کی طرف آ رہا تھا۔
پارسیوں کے چہرے خوشی سے کھل اٹھے۔ بیس برس بعد یہ منظر لوٹا تھا۔
’’پتہ نہیں کہاں سے آئے ہیں؟‘‘ وہ ایک دوسرے سے سوال کر رہے تھے۔
’’اگر فرش پر چینی گر جائے تو چیونٹیاں کہاں سے آتی ہیں؟‘‘ کوئی میرے کان میں پھسپھسایا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.