آج رامپور کے تمام ذی حیثیت لوگ پنچایت گرام میں بیٹھے کسی گمبھیر مسئلہ کو حل کر رہے تھے۔ پاس ہی نیم کا پیڑ اپنے ننگے بدن کو دیکھ سر جھکائے خاموش کھڑا تھا۔ پنچایت گرام میں بھی لوگ سر جھکائے خاموش تھے۔ آخر سکوت کا یہ پردہ گاؤں کے سرپنچ فخرو چاچا نے اٹھایا۔ فخرو چاچا گاؤں کی آخر نشانی تھے۔ ان کی آنکھوں نے تین حکومتوں کو اجڑتے اور بستے دیکھا تھا اور اس پر چاچا کو بڑا فخر تھا اور ہر بات میں اپنے تجربات کو بڑھا چڑھاکر پیش کرنا ان کی عادت سی بن گئی تھی۔
چاچا نے اپنی تجربہ کار نگاہیں لوگوں پر ڈالتے ہوئے کہا، ’’آج اس بات کا فیصلہ ہونا ہی چاہئے۔‘‘ تمام لوگوں نے بہ یک وقت ’’ہاں‘‘ کہا۔ چاچا نے لوگوں کے اشتیاق کو دیکھا ور گویا ہوئے، ’’معلوم نہیں وہ اجنبی کون ہے۔ گاؤں آکر ایک ہفتہ ہو گیا مگر آج تک کسی نے اس کی شکل۔۔۔ صرف بھیمو نے شاید اسے دیکھا ہے۔‘‘ انھو ں نے بھیمو کی طرف ایک نظر ڈالتے ہوئے کہا، ’’شکل کسی نے نہیں دیکھی، اس بات سے ہمیں کوئی سروکار نہیں ہے۔ دراصل زمانہ ہی خراب آ گیا ہے۔ ورنہ ہمارے زمانے میں کوئی نیا مہمان آتا تو وہ آٹھ روز لوگوں سے ملنے میں گزار دیتا۔ جب لارڈ مونٹ بیٹن ہمارے گاؤں کے قریب سے گزر رہا تھا تو میں نے اس کی شکل نہیں دیکھی۔ یہ میری اپنی بات تھی مگر یہاں پر میں گاؤں کا سرپنچ ہوں، اس لیے گاؤں کی ہر بات کی ذمہ داری مجھ پر عائد ہوتی ہے۔ ہر روز رات اس اجنبی کے مکان سے رونے کی بڑی بھیانک آواز آتی ہے۔ جب میں نے پہلی دفعہ رونے کی آواز سنی تو مجھے محسوس ہوا آج بھی کوئی گورا ہمارے آدمی کو بازار میں گھسیٹ رہا ہو۔‘‘
چاچا تھوڑی دیر تک اپنے حواس درست کرتا رہا۔ لوگ دم روکے سنتے رہے۔ پھر تھوڑی دیر بعد اس نے سانسیں درست کرتے ہوئے کہا، ’’مجھے تو شمو کا قصہ یاد آ گیا۔ شاید اتوار کا دن۔۔۔ ہاں اتوار ہی تو تھا۔ اس روز گورے نے شمو کی بیٹی مالن کو دن دھاڑے اغوا کر لیا اور شمو اسی طرح رات بھر روتا رہا۔ اس بھیانک اور دردناک آواز سے گاؤں والوں کی نیندیں حرام ہو گئیں۔ بچے ڈر کے مارے اپنی ماؤں کے سینوں میں سر چھپا لیتے ہیں اور اس پر طرہ یہ کہ اس بھلے مانس نے اس کا نام پتہ بغیر پوچھے ہی مکان دے دیا۔‘‘ چچا نے فتّو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
لوگوں کی نظریں فتو پر مرکوز ہو گئیں۔ چاچا نے ایک عجیب سی خوشی محسوس کی اور سوچا لوگ آج بھی اس کی باتوں میں دلچسپی لیتے ہیں۔ چاچا نے اپنا گلا کھنکارا اور کہا، ’’پرسوں بھیمو مجھ سے کہہ رہا تھا کہ ایک آدمی نے اسے دیکھتے ہی بھاگنا شروع کیا، جو کوئی اسے راستہ میں ملتا، وہ اسے دیکھ کر اس طرح بھاگتا گویا کوئی گورا پیچھے لگا ہوا ہو۔‘‘ چاچا کو انگریزوں سے ازلی بغض تھا۔ فتو کی حالت غیر ہو رہی تھی۔ اس نے چند روپوں کے لالچ میں آکر مکان کرایہ پر دے دیا تھا اور کرتا بھی کیا۔۔۔ آٹھ زندگیاں اور بھوک کا بےرحم دیوتا! اسے کیا معلوم تھا کہ کرایہ دار اتنا پراسرار ہوگا جس کی جواب دہی کے لیے اسے پہلی دفعہ پنچایت گرام آنا پڑےگا۔
اس نے دیکھا سب اس کی جانب غصہ کی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ وہ گھبراکر اٹھ گیا اور کہنے لگا، ’’کچھ دن ہوئے مجھے ایک خط ملا تھا۔۔۔ خط میں لکھا تھا، میں آرہا ہوں۔ زیادہ دن نہیں رہوں گا۔ ایک دن کا کرایہ دو روپیہ دوں گا۔ نیچے کچھ عجیب قسم کے دستخط تھے۔ ’’اس نے اچانک اپنے جیب سے خط نکالا اور چاچا کو دے دیا۔ لوگ اس خط کی جانب اس طرح دیکھنے لگے گویا پہلی دفعہ کسی خط کو دیکھا ہو۔ دستخط متوجہ کیے بغیر نہ رہ سکتے تھے۔ کچھ مبہم الفاظ تھے صرف ایک حرف ’ش‘ واضح نظر آ رہا تھا۔ فتو نے دیکھا لوگوں کا غصہ کچھ تھم رہا ہے تو اس نے کہا، ’’آپ لوگ جانتے ہیں کہ وہ گھر بھوتوں کی وجہ سے بدنام ہو گیا ہے۔ کوئی بھی اسے خریدنے اور کرایہ لینے پر تیار نہ تھا۔ میں نے بھی تنگ آکر وہاں رہنا چھوڑ دیا۔ اس صورت میں کوئی آدمی ایک دن کا دو روپیہ کرایہ دے تو میری خوشی کا کیا ٹھکانہ؟ خوشی کی وجہ سے میں نے چابی دیتے وقت اس کا نام پتہ کچھ بھی نہیں پوچھا۔ چابی دیتے وقت چند لمحوں کے لیے میں نے اس کا چہرہ دیکھا تھا۔‘‘
وہ تھوڑی دیر چپ رہا اور ایسا معلوم ہونے لگا گویا آگے کی بات کہنے میں اسے موزوں الفاظ نہ مل رہے ہوں۔ پھر اس نے خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا، ’’کچھ عجیب سا چہرہ تھا۔ میں نے تو اسے بارہا دیکھنا چاہا مگر میری نظریں خود بہ خود جھک جاتی تھیں۔ آنکھوں میں وحشت اور یاس کی لکیریں اور چہرہ آگ کی طرح سرخ۔‘‘ اچانک بھیمو اٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا، ’’میں نے بھی اس بھاگتے ہوئے آدمی کی ایک جھلک دیکھی تھی۔ اس کا چہرہ بھی آگ کی طرح سرخ تھا۔‘‘
لوگوں میں چہ می گوئیاں شروع ہو گئیں۔ دھرم داس جو ہمیشہ اپنے ساتھ اخبار رکھا کرتا تھا، کہنے لگا، ’’وہ ضرور پاکستانی پیراشوٹ ہوگا۔ ہمیں اسے پکڑ کر حکومت کے حوالے کر دینا چاہیے۔ اس سے ہمارے گاؤں کا نام بھی ہوگا اور انعام بھی ملے گا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ لوگوں کی جانب اس طرح دیکھنے لگا گویا ابھی ابھی حکومت نے اسے انعام سے نوازا ہو۔ حمید نے نعیم کے کان میں کہا، ’’دیکھنا وہ ہندو مہا سبھائی ہوگا جو گاؤں میں فساد برپا کرکے چلا جائےگا۔‘‘ نعیم نے اس طرح گردن ہلائی گویا سارا معاملہ اس کی سمجھ میں آ گیا ہو۔ چندر کانت جواب صرف نام کے جاگیردار رہ گئے تھے اور بہت دیر سے خاموش تھے، کہنے لگے، ’’کہیں وہ چین نواز کمیونسٹ نہ ہو۔ میرا خیال ہے وہ سوفی صدی کمیونسٹ ہے، ورنہ چہرے پر لال رنگ کیوں لگواتا؟‘‘ یہ کہہ کر وہ فتح مندانہ نگاہوں سے لوگو ں کی جانب دیکھنے لگے
ادھر ہیرا چند جو کمیونسٹ تھا اور دو دفعہ الیکشن ہار چکا تھا، تلملا اٹھا اور اٹھ کر انقلابی انداز میں کہنے لگا، ’’میں دیکھ رہا ہوں کہ اس ملک میں تباہی کی ایک آندھی آنے والی ہے۔ جب تک عوام امریکی گیہوں کھاتے رہیں گے وہ ترقی نہیں کر سکتے۔ انقلاب نہیں آ سکتا۔‘‘ ادھر دھرم داس نے چندر کانت کے کان میں کہا، ‘‘ سالا کل ہی تو گیہوں کے لیے دو گھنٹے تک کیئو میں ٹھہرا تھا۔‘‘ اچانک چاچا کو کچھ یاد آیا اور انھو ں نے جیب سے کچھ کاغذات نکالے۔ لوگ ناک بھوں چڑھانے لگے۔ چاچا نے ایک کاغذ دکھاتے ہوئے کہا، ’’یہ کیا ہے؟‘‘
لوگو ں نے اکتاہٹ سے جواب دیا، ’’مغل بادشاہو ں کی محصول ادائیگی کی رسید ہے۔‘‘
’’اور یہ کیا ہے؟‘‘
’’یہ انگریزوں کی محصول ادائیگی کی رسید ہے۔‘‘
’’اور یہ؟‘‘
’’ہماری حکومت کی رسید ہے۔‘‘ لوگوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ چاچا کچھ دیر مسکراتے رہے اور سوچا باپ کی ادا کی ہوئی نقل رسید آج کام میں آ گئی۔
’’میں نے تین حکومتوں کو اجڑتے اور بستے ہوئے دیکھا ہے۔ میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ضرور وہ کوئی گورا ہے جو ایک بار پھر آہستہ آہستہ ہماری حکومت کو ختم کرنے آیا ہے۔‘‘ دھرم داس ہنس پڑا۔ رام سنگھ اپنے پوپلے منہ میں بڑبڑایا، سالامسلم لیگی۔ اجنبی کے بارے میں چہ می گوئیاں بڑھتی ہی جا رہی تھیں۔ آخر کار طے پایا کہ رات جب وہ حسب معمول روتا ہے، جاکر اس سے دریافت کیا جائے کہ وہ کون ہے، کہاں سے آیا ہے اور کیا کرتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد پنچایت گرام خالی پڑا تھا۔ سورج ڈوب چکا تھا اور اندھیرا آہستہ آہستہ پھیل رہا تھا۔
رات جب اپنا سایہ لمبا کر چکی تھی، ا چانک پھر وہی رونے کی آواز ابھری۔
لوگ اجنبی کے گھر کی طرف بڑھنے لگے۔ اچانک رونے کی آواز بند ہو گئی۔ مجمع ٹھٹک پڑا۔ چاچا نے زنجیر کھٹکھٹانا ہی چاہی تھی کہ آواز آئی۔ سب لوگ کھڑکی میں منہ ڈالے دیکھنے لگے۔ وہ اجنبی اپنا منہ چھت کی طرف کیے کہہ رہا تھا، ’’میں جانتا ہوں تیرے ننانوے نام ہیں مگر آج تو ایک اور نام کا اضافہ کر لے ’دھوکہ باز۔۔۔ ‘اگر مجھے معلوم ہوتا کہ انسان اتنا شاطر ہوگا تو میں نے اسی وقت آدم کو سجدہ کر لیا ہوتا۔ آج میں اقرار کرتا ہوں کہ مٹی آگ سے عظیم ہے۔ میں تجھ سے بھیک مانگتا ہوں کہ مجھے عبادت کے قابل بنا کیونکہ لاکھوں برس ہوئے اسے بھول چکا ہوں یا مجھ میں بدی کی طاقتیں انسان سے زیادہ عطا فرما۔ اب میں ایک بے کار شے ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ رونے لگا۔
لوگ کمرے کی طرف بڑھ ہی رہے تھے کہ چاچا نے منع کیا اور اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا اور کہا، ’’نہ جانے کون ہے بے چارہ۔ خدا سے کہہ رہا ہے کہ میں نے گناہ کیا اب مجھے معاف کر۔۔۔ معلوم ہوتا ہے زمانہ کا ستایا ہوا ہے۔ ہمارا کیا لےگا دو تین روز رہ کر واپس چلا جائےگا۔۔۔ بےچارہ۔۔۔‘‘
لوگ سر پنچ کی بات سے مطمئن واپس لوٹنے لگے۔ رات اور کچھ گہری ہو گئی تھی اور فضا میں ہچکیوں کی آواز عجیب اسرار پیدا کر رہی تھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.