میں اپنے ریڈنگ روم میں بیٹھا ایک افسانوی مجموعے کے اوراق پلٹ رہا تھا۔ یہ مجموعہ میرے دوست کا تھاجو لاک ڈائون سے کچھ دن پہلے بذریعہ ڈاک مجھے موصول ہوا تھا۔ مجھے مجموعہ ملنے کے بعد سے ہی دوست فون پر باربار مجھ سے اصرار کر رہا تھا کہ یہ مجموعہ پڑھ کر اپنے تاثرات مضمون کی شکل میں لکھ کر اُسے بھیج دوں۔ مگر کوروناوائرس کی اس دوسری لہر میں اپنے کئی عزیز جو ہندوستان کے معروف ادیب تھے کی موت کی وجہ سے دل اتنا اُداس اور مایوس ہو گیا تھا کہ کچھ لکھنے پڑھنے کو چاہ ہی نہیں رہا تھا۔ آج صبح بھی اُسی دوست کا فون آیا اورپھر اُس نے اپنا سوال دہرایا۔ حالانکہ مجھے پتہ تھا کہ اُس کے افسانے اتنے معیاری نہیں ہوتے پھر بھی دوستی کی خاطر اُس کا مجموعہ اُٹھا کر بیٹھ گیا تھا۔ ایک سرسری نگاہ ڈال کر میں نے کتاب ٹیبل پر رکھ دی۔ تبھی میرے موبائل کی سکرین پر میسیج اُبھرا۔ میں نے موبائل اُٹھاکر میسیج دیکھا تودل دھک سے رہ گیا۔ کشمیر کی نامور ادیبہ کی کوروناسے موت کی خبر تھی۔ انّاللہ۔۔۔ پڑھنے کے بعدمیں موبائل واپس ٹیبل پر رکھ کر سوچنے لگا کہ ہزاروں کی تعداد میں اس وبا کی وجہ سے لوگ مر رہے ہیں، ابھی پتہ نہیں یہ اور کتنے لوگوں کو نگلے گی۔ میں مایوس بیٹھا خلائوں کو گھور رہا تھا۔ تبھی میری بیوی کمرے میں داخل ہوئی اور میرے قریب آکر بولی،
’’ایک صاحب آپ سے ملنے کے لئے آئے ہیں، وہ ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہیں۔‘‘
میں نے اُس کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’کون ہیں وہ۔۔۔؟‘‘
اُس نے لاعلمی ظاہر کرتے ہوئے کہا،
’’پتہ نہیں۔۔۔ بزرگ ہیں۔۔۔ میں نے تو پہلی بار اُنھیں دیکھا ہے۔‘‘
کوئی ادیب ہی ہوں گے، سوچتے ہوئے میں نے کہا،
’’ٹھیک ہے اُنھیں یہیں لے آئو۔‘‘
’’جی۔‘‘
کہتے ہوئے وہ چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعدوہ اُن صاحب کو ساتھ لے آئی۔ میں نے بزرگ کو غور سے دیکھا اُن کی شکل کچھ جانی پہچانی سی لگ رہی تھی۔ مگر میں اُنھیں ٹھیک سے پہچان نہیں پایا۔ اُنھوں نے آگے بڑھ کر مجھے سلام کیا۔ سلام کا جواب دیتے ہوئے میں نے اُتھیں صوفے پر بیٹھنے کے لئے کہااور پھر اپنی بیوی سے کہا،
’’جائو۔۔۔ چائے وغیرہ لے کر آئو۔۔۔‘‘
بزرگ مسکراکر بولے،
’’تکلف کی کوئی ضرورت نہیں بیٹے۔‘‘
میں نے نرمی سے کہا،
’’اس میں تکلف کیسا سر۔۔۔؟!آپ ہمارے مہمان ہیں، آپ کی خدمت کرنا ہمارا اخلاقی فرض ہے۔‘‘
اُنھوں نے میری بات کا جواب دیتے ہوئے کہا،
’’شکریہ مگر یقین مانو مجھے ابھی کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ ہمارا تو بس تم سے ملاقات کرنے کو دل چاہ رہا تھا، اس لئے چلے آئے۔ تھوڑی دیر میں دو تین دوست اور بھی آرہے ہیں۔‘‘
یہ سن کر میں نے اپنی بیوی سے کہا،
’’جو بھی آئیں، اُنھیں یہیں بھیج دینا۔ اُن سب کے آنے کے بعد میں تمھیں چائے کے لئے بول دوں گا۔‘‘
’’جی۔۔۔‘‘
کہتے ہوئے وہ کمرے سے چلی گئی۔ میں پہچاننے کی کوشش کرتے ہوئے بزرگ کی طرف غور سے دیکھنے لگا۔ سر اور داڑھی کے بال سفید، سر پر کالے رنگ کی مخملی ٹوپی، گلابی رنگ، نورانی چہرہ ایسا لگ رہا تھا جیسے آسمان سے کوئی فرشتہ اُتر آیا ہو۔ میرے ا س طرح دیکھنے سے وہ مسکرا کر بولے،
’’لگتا ہے تم نے مجھے پہچانا نہیں؟!‘‘
میں ہکلاتے ہوئے بولا،
’’جی۔۔۔ جی۔۔۔ میں کوشش کر رہا ہوں۔۔۔ پہچاننے کی۔۔۔!‘‘
بزرگ افسردہ ہو کر بولے،
’’بھئی اتنی جلدی بھول گئے۔ ابھی تو کچھ دن ہی ہوئے ہیں۔۔۔ میں افتحارامام صدیقی ہوں، ماہنامہ شاعر کا مدیر۔۔۔!‘‘
یہ سن کر میں سوچنے لگا کہ میں نے تو سنا تھا یہ چل پھر نہیں سکتے انھیں ان کے بھائی گود میں اُٹھا کرہی ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے ہیں، مگر آج تو یہ خودبخود چلے آرہے تھے۔ میں شرمندہ سا ہو کر بولا،
’’اوہ۔۔۔ سر۔۔۔ آپ مجھے معاف کیجئے، میں آپ کو پہچان نہیں پایا۔ مجھے لگا تو تھا کہ آپ کو کہیں دیکھا ہے۔ دراصل کبھی آپ سے ملاقات یافون پر بات نہیں ہوئی۔ ا س لئے پہچان نہیں پایا۔ معافی چاہتا ہوں۔۔۔ کیسے ہیں سر آپ۔۔۔؟!‘‘
وہ مسکراکر بولے،
’’معافی تو میں چاہتا ہوں، کیونکہ اس دنیا سے رخصت ہونے سے کچھ روز قبل تمھارا فون آیا تھا۔ اُس روزمیں بہت علیل تھااس لئے بات نہیں کر پایا۔‘‘
میں نے اُنھیں روکتے ہوئے کہا،
’’آپ ہمارے بڑے ہیں سر، اس لئے معافی والی بات مت کیجئے۔ آپ کی علالت کا علم مجھے ایک دوست سے ہو گیا تھا۔ اُس دن میں نے شاعر کے لئے کچھ افسانچے میل کئے تھے اسی لئے آپ سے بات کرنا چاہتا تھا۔‘‘
وہ گہری سانس لیتے ہوئے بولے،
’’دیکھو بھئی، اگر شاعر شائع ہوتا رہا تو ہو جائیں گے تمھارے افسانچے شائع، نہیں تو۔۔۔!اپنی زندگی میں میں نے بڑی محنت کی ہے شاعر کے لئے۔ دیکھتے ہیں اب میرے بعد جریدے کا کیا ہوگا۔‘‘
تبھی چوڑی دار پائجامہ، لمبا کرتا، گلے میں مفلر، سر پرگولف کیپ اور آنکھوں پر کالے رنگ کا چشمہ پہنے مشرف عالم ذوقی صاحب کمرے میں داخل ہوئے۔ اُن کے ساتھ ایک خوبصورت محترمہ اور ایک بزرگ بھی تھے۔ سلام کرنے کے بعد ذوقی صاحب میرے قریب آکر بولے،
’’کیسے ہو منیم۔۔۔؟‘‘
میں نرمی سے بولا،
’’دعائیں ہیں سر، آپ سبھی کی۔‘‘
پھر میں نے صوفے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا،
’’تشریف رکھیئے۔۔۔‘‘
وہ تینوں صوفے پر بیٹھ گئے۔ میں نے مسکرا کر ذوقی صاحب سے کہا،
’’ماشاء اللہ، سر بہت سٹائلش لگ رہے ہو۔ میں اکثر آپ کی تصویریں فیس بُک پر دیکھتا رہتا ہوں۔ کبھی لمبی مونچھوں کے ساتھ کبھی کلین شیو الگ الگ لُک میں آپ کی تصویریں بہت خوبصورت ہوتی ہیں۔‘‘
ذوقی صاحب ہنستے ہوئے بولے،
’’تم بھی کچھ کم نہیں ہو۔ تمھاری تصویریں بھی کچھ کم نہیں ہوتی ہیں۔ الگ الگ انداز میں کمال کی تصویریں ڈالتے ہو تم فیس بُک پر۔ تم تو فیس بُک کے ہیرو ہوہیرو۔‘‘
میں مسکرا کر رہ گیا۔ ذوقی صاحب پھر بولے،
’’ان سے ملو، یہ انجم عثمانی صاحب ہیں۔ ویسے تو تم انھیں جانتے ہی ہوگے۔‘‘
میں نے اُن کی طرف دیکھتے ہوئے ہاں میں سر ہلاتے ہوئے کہا،
’’جی۔۔۔ جی۔۔۔ ماشاء اللہ بہت نام سنا ہے ان کا۔۔۔‘‘
انجم عثمانی صاحب دھیرے سے بولے،
’’جیتے رہو، ہمارے بڑے بھائی صاحب آپ کے صوبہ کے مفتی اعظم رہ چکے ہیں۔‘‘
میں نے کہا،
’’جی۔۔۔ میرے والد محترم سے اُن کے اچھے مراسم تھے۔‘‘
ذوقی صاحب اپنے ساتھ بیٹھی عورت کی طرف دیکھتے ہوئے پیار سے بولے،
’’اور یہ ہیں میری شریک حیات، مجھے اپنی جان سے بھی پیاری، میری تبسم فاطمہ۔‘‘
میں نے اُن کی طرف دیکھتے ہوئے کہا،
’’اوہ۔۔۔ آپی آپ۔۔۔؟! آپ دونوں کی محبت کے بارے میں میں کیا کہوں، سر جی کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد آپ نے ذرا بھی ٹائم خراب نہیں کیااور اگلے ہی روز ان کے پاس چلی گئیں۔‘‘
یہ سنتے ہی انھوں نے ذوقی صاحب کا بازو پکڑا اوراُن کے کندھے پر سر رکھ کر دھیرے سے بولیں،
’’بھائی۔۔۔ ان کے بغیر میں یہاں کیا کرتی، یہی تو میری دنیا ہیں۔
ان سے تعارف ہونے کے بعد کافی دیر سے خاموش بیٹھے افتخار امام صدیقی صاحب بولے،
’’دراصل ہم لوگ تمھارے پاس ایک ضروری کام سے آئے ہیں۔‘‘
میں نے اُن کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا،
’’جی فرمائیں!‘‘
وہ پھر بولے۔۔۔
’’بیٹے ہم سے جو ہو سکا وہ ہم اردو ادب کے لئے کر گئے۔ جتنی خدمت ہم کر سکتے تھے ہم نے کی، اس زبان کی عظمت بچاتے بچاتے ہم اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اب اس کا خاص کر افسانوی ادب کا مستقبل نوجوان نسل کے ہاتھوں میں ہے۔ پچھلے کچھ عرصہ سے افسانوی ادب میں لڑکیوں کے ساتھ ساتھ کچھ لڑکوں کے نام بھی اُبھر کر سامنے آئیں ہیں۔ جن میں سے ایک تم ہو۔ ایک وہ علیم۔۔۔ کیا نام ہے اُس لڑکے کا۔۔۔؟!‘‘
میں نے اُن کی بات پوری کرتے ہوئے کہا،
’’جی، علیم اسماعیل۔‘‘
افتخار امام صدیقی صاحب بولے،
’’ہاں علیم اسماعیل، بڑھاپے میں یادداشت کمزور ہونے کی وجہ سے نام بھی یاد نہیں رہتے۔‘‘
ذوقی صاحب بولے،
’’علیم بھی اچھا لکھتا ہے۔ ایک اور نام ہے وسیم عقیل شاہ، وہ بھی افسانے کے تئیں بہت سنجیدہ ہے۔‘‘
میں نے اُن کی بات کی تائید کی۔
’’جی بالکل وسیم بہت اچھا لکھتا ہے۔ مجھے اُس کے افسانے بہت پسند ہیں۔‘‘
انجم عثمانی صاحب بولے،
’’تم تینوں کے علاوہ کچھ نام اور بھی ہیں، مگر تم تینوں اس وقت افسانوی ادب میں فعال ہو۔ آپ لوگوں کے افسانے اور افسانچے مختلف اخبارات اور رسائل میں نظروں سے گزرتے رہتے ہیں۔ ہم لوگ اسی لئے تمھارے پاس آئے ہیں۔‘‘
ذوقی صاحب ہنستے ہوئے بولے،
’’پچھلے دنوں اس بیٹے کا افسانہ خون کا رنگ کسی جریدے میں پڑھا تھا۔ بہت اچھا نبھایا تھا اس نے اُس موضوع کو، منظر نگاری اور مکالمے پڑھ کر یقین ہو گیا تھا کہ اس بندے میں قابلیت ہے۔‘‘
تبسم فاطمہ جی بولیں،
’’میں نے بھی وہ افسانہ پڑھا ہے۔ اچھا لکھا ہے بھائی آپ نے۔ آپ کے سبھی افسانے اچھے ہوتے ہیں۔‘‘
میں نے انکساری سے کہا،
’’شکریہ جی، میں تو کچھ بھی نہیں تھا۔ یہ تو میرے اُستاد محترم جناب بشیرمالیرکوٹلوی صاحب کی دعائوں اور محنت کا نتیجہ ہے جو میں افسانوی ادب میں کچھ قابل بن سکا ہوں۔‘‘
یہ سن کر ذوقی صاحب بولے،
’’جب ہم پہ یہ راز فاش ہوا کہ تم کس کے شاگرد ہو تو ہمارا یہ یقین اور پختہ ہو گیا کہ تم اپنے ہم عصروں میں سے بہت آگے جائو گے۔ اردو افسانے میں آپ کے استاد کا بہت نام ہے۔‘‘
افتخار امام صدیقی صاحب بولے،
’’اردو کو بہت سی طاقتیں ختم کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔ کچھ ہمارے اپنے بھی اُن کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ ہم تمھیں یہ کہنے کے لئے آئے ہیں کہ ہم نے اس چراغ کوبہت سنبھال کر رکھا تھا، اب آپ لوگوں نے اسے روشن رکھنا ہے۔ ہمیں آپ لوگوں سے بہت سی اُمیدیں وابستہ ہیں۔‘‘
میں نے نرمی سے کہا،
’’جی، انشاء اللہ ہم کوشش کریں گے۔‘‘
کچھ دیر بیٹھنے کے بعد زوقی صاحب بولے،
’’اچھا منیم، اب ہم چلتے ہیں۔‘‘
میں نے اُنھیں روکتے ہوئے کہا،
’’سر تھوڑی دیر اور رُک جائیں، ابھی تو آپ لوگوں نے چائے وغیرہ کچھ بھی نہیں لیا۔‘‘
انجم عثمانی صاحب خلائوں کو گھورتے ہوئے بولے،
’’نہیں، اب ہم اور نہیں رک سکتے۔ اب یہ آنا جانا ہمارے اختیار میں نہیں رہا۔ ہمارے جانے کا وقت ہو گیا ہے۔‘‘
کہنے کے بعد انجم عثمانی صاحب کھڑے ہو گئے۔ اُن کے ساتھ ہی باقی سبھی لوگ بھی کھڑے ہو گئے۔ تبھی کمرے میں چیک دار گہرے رنگ کا کوٹ پہنے، آنکھوں پر موٹی فریم کی عینک لگائے، اپنے مخصوص انداز میں مسکراتے ہوئے ایم۔ اے۔ حق صاحب داخل ہوئے اور میرے قریب آکر پیار سے بولے،
’’کیسا ہے میرا بچہ۔۔۔؟‘‘
میں نے کرسی پر بیٹھے بیٹھے ہی اُن سے بغلگیر ہوتے ہوئے کہا،
’’اچھا ہوں سر۔۔۔ آپ بتائیں۔۔۔؟!‘‘
پھر حق صاحب نے ہر بار کی طرح میرے کندھے پر ہاتھ رکھااور ذوقی صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے بولے،
’’ذوقی، ہم دونوں کی ایک فوٹو لینا۔‘‘
ذوقی صاحب نے ٹیبل پر پڑامیرا موبائل اُٹھایااور ہم دونوں کی تصویر لینے کے بعد موبائل حق صاحب کو دکھایا۔ تصویر دیکھ کر حق صاحب بولے،
’’اچھا فوٹو آیا ہے۔‘‘
ذوقی صاحب نے موبائل ٹیبل پر رکھتے ہوئے محبت بھرے لہجہ میں کہا،
’’حق یار کمال کرتے ہو تم بھی۔۔۔ بڑی دیر لگا دی آنے میں، ہم تو اب جا رہے ہیں۔‘‘
حق صاحب مسکراتے ہوئے بولے،
’’میں باہر بہو سے باتوں میں لگ گیا تھا۔ اچھا تم لوگ چلو، میں ابھی آتا ہوں۔‘‘
اُن سبھی نے مجھے پیار اور دعائیں دیں اور رخصت ہو گئے۔ اب کمرے میں میں اور حق صاحب ہی تھے۔ وہ بولے،
’’دیکھو بیٹا میں تمھیں یہ کہنے نہیں آیا کہ تم افسانوی ادب کی خدمت کرتے رہنا۔ مجھے پتہ ہے تمھیں یہ کہنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ تم اچھا لکھتے ہو اور مجھے اُمید ہے لکھتے بھی رہو گے۔‘‘
تھوڑا رُک کر حق صاحب پھر بولے،
’’میں تو تمھیں یہ کہنے کے لئے آیا ہوں کہ میرے دوست میرے یار کا خیال رکھنا۔ میرا یار سمجھتے ہو نا کون ہے۔؟‘‘
میں نے ہاں میں سر ہلاتے ہوئے کہا،
’’جی ہاںــ۔ میرے اُستاد آپ کے دوست ہیں۔‘‘
حق صاحب بولے،
’’ہاں وہ بشیرا ہی میرا یار میرا دوست ہے۔ وہ مجھے پیارا بہت ہے۔ مجھے پتہ ہے وہ حساس بھی بہت ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی بات کو بھی دل سے لگا لیتا ہے۔ تم اُسے کبھی مایوس مت ہونے دینااور نہ ہی کبھی اُس کی آنکھوں میں آنسو آئیں، مجھے تو اُس کا ہنستا ہوا چہرہ ہی اچھا لگتا ہے۔ اسے مایوس دیکھ کر میری روح کو بہت تکلیف ہوگی۔‘‘
میں نے اُن کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا،
’’سرہماری کوشش تو یہی رہتی ہے کہ وہ ہمیشہ خوش رہیں۔‘‘
حق صاحب نے میرے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا،
’’جیتے رہو، اچھا اب میں چلتا ہوں۔ باقی کے دوست باہر میرا نتظار کر رہے ہوں گے۔‘‘
کہتے ہوئے وہ کمرے سے باہر کی طرف چل دئیے۔ میں اُن کے پیچھے جانے سے قاصر کرسی پر بیٹھے ہوئے ہی اُنھیں روکنے کے لئے آوازیں لگانے لگا۔
’’رُک جائیے سر۔۔۔ پلیز رُک جائیے۔۔۔ سر۔۔۔ سر۔۔۔ رُک جائیے۔۔۔!‘‘
وہ بغیر کچھ بولے آگے بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ میری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ میں بے بس سا بیٹھا اُنھیں زور زور سے آوازیں لگائے جا رہا تھا۔
’’حق سر پلیز رُک جائیے۔۔۔ پلیز سر نا جائو آپ۔۔۔ رُک جائیے۔۔۔!‘‘
تبھی مجھے کندھے سے پکڑ کرمیری بیوی نے زور سے ہلاتے ہوئے کہا،
’’کسے آوازیں لگا رہے ہو آپ۔۔۔؟کیا ہوا ہے آپ کو۔۔۔؟! کسے رُکنے کے لئے کہہ رہے ہیں۔۔۔؟! کوئی نہیں ہے یہاں۔۔۔!‘‘
میں نے ہڑبڑاکر آنکھیں کھولیں اور اِدھر اُدھر دیکھا۔ کمرے میں میری بیوی کے علاوہ اور کوئی بھی نہیں تھا۔ میرے سامنے ٹیبل پر کاغذات پڑے تھے جن پر رات حق صاحب کے بارے میں مضمون لکھتے ہوئے میری آنکھ لگ گئی تھی۔ میری بیوی نے پھر پوچھا۔
’’کیا ہوا ہے آپ کو۔۔۔؟!‘‘
میں دنیا جہاں سے بے خبر کمرے کے دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے بولا،
’’کچھ نہیں۔۔۔‘‘
وہ ٹیبل پر پڑے کاغذات اُٹھاتے ہوئے غصّے سے بولی،
’’پوری رات ان کہانی افسانوں میں ہی اُلجھے رہتے ہو اور اپنی کہانیوں کے کرداروں کو اپنے اوپر طاری کر کے اُن کے درد جھیلتے رہتے ہو۔ کہیں وہ آپ کی کہانی کے کردار تو نہ تھے۔؟دیکھوں تو کیا لکھ رہے تھے۔؟!‘‘
میں کھوئی کھوئی نظروں سے کمرے کے دروازے کی طرف مسلسل دیکھے جا رہا تھا۔ کچھ دیر بعد میں نے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے اُس سے کہا،
’’تم نہیں سمجھوگی، مجھے حق صاحب کے مرنے کا کتنا دُکھ ہے۔‘‘
وہ بغیر کچھ بولے مضمون کو پڑھے جا رہی تھی اور اُس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.