آج تمہارا خط آیا ہے!
یونیورسٹی سے آتے ہی سامنے میز پر پڑے ہوئے ہلکے نیلے رنگ کے لفافے کے پتے کی خوبصورت تحریر میں میری نظریں الجھ کر رہ گئی ہیں۔ یہ تحریر جانی پہچانی سی معلوم ہو رہی ہے۔میری نگاہیں ان پیاری پیاری تحریروں کو چومنے لگی ہیں اور تم اِن کے درمیان سیاہ بادل کے پیچھے سے جھانکتے ہوئے ماہتاب کی طرح ابھرنے اور ڈوبنے لگی ہو۔ دیکھتے ہی دیکھتے تمہاری حسین اور دلکش تصویر ان تحریروں کے درمیان اجاگر ہوکر مسکرانے لگی ہے اور مجھے ایسا محسوس ہونے لگا ہے جیسے دل کے خزاں رسیدہ چمن میں بہار آ گئی ہے، سرور و انبساط کے غنچے چٹکنے لگے اور مسرت و شادمانی کی کلیاں مسکرانے لگی ہیں۔
میں نے کانپتی انگلیوں سے لفافہ چاک کردیا ہے اور دل کی دھڑکنوں کو سمیٹ کر تمہارا خط پڑھنے لگا ہوں۔ میرے ذہن میں یادوں کی خوشبو بکھرنے لگی ہے۔
اس روز میں کالج سے آتے ہی بھابی کے کمرے کی طرف لپکا۔ لیکن دوسرے ہی لمحہ ٹھِٹک کر کھڑا ہو گیا۔ تم بھابی کے پلنگ پر سفید شلوار اور چھینٹ کی قمیص میں ملبوس اپنے دبلے پتلے نازک بدن پر دھَانی رنگ کا نفیس دوپٹہ رکھے نیچی نظریں کیے چھوئی موئی سی بیٹھی تھیں۔ پنکھے کی تیز ہوائیں تمہاری زلفوں سے کھیل رہی تھیں اور تمہارے بالوں کی ریشمی لٹیں تمہاری صبیح پیشانی کو چوم رہی تھیں۔ تمہیں اِس کا احساس نہ رہا ہو۔ لیکن تم اُس وقت بہت حسین اور دلکش معلوم ہو رہی تھیں۔ تمہارے چہرے پر متانت آمیز معصومیت، دلکشی اور جاذبیت تھی۔ لانبی لانبی پلکوں کی خوشنما جھالر کے پیچھے نشیلی آنکھیں تھیں جن کی گہرائیوں میں میرا دل ڈوبنے لگا تھا۔ نہ جانے تمہاری ان بڑی بڑی آنکھوں میں کون سا جادو تھا جس نے میرے احساسات کو جھنجوڑا، میرے دل کو گدگدایا، میری خوابیدہ تمناؤں کو جگایا اور میری سوئی ہوئی اُمنگوں کو بیدار کیا۔ اسی دن پہلی بار میرا دل کسی کے لیے دھڑکا تھا، میں نے پہلی بار کسی کے لیے چاہت کی شدّت محسوس کی تھی۔
’’تم نے اسے نہیں پہچانا جاویدؔ! یہ میری بہن بانوؔ ہے‘‘ بھابی نے مجھے متحیر اور مبہوت دیکھ کر کہا۔
جی میں آیا یہ سات سال پہلے کی چنچل گڑیا سی بانوؔ نہیں ہے۔ یہ تو اجنتا کے کسی سنگ تراش کا شاہکار ہے۔یہ ایلورا کی جیتی جاگتی مورتی ہے! یا حسن بن صباح کی جنت سے بھاگی ہوئی حور!
اور جب بھابی نے بتایا کہ تم حصولِ تعلیم کی غرض سے دو سال کے لیے یہاں آئی ہو تو نشاط ومسرت کی کہکشاں جگمگا اٹھی۔ زندگی کی تاریک راہوں میں سرور وانبساط کے قمقمے جل اٹھے اور میری زندگی کا دامن بہار کے پھولوں سے بھرتا محسوس ہوا۔
تمہارے آنے سے پہلے میری زندگی کتنی ویران، خاموش اور اداس تھی!! میرے گھر میں کیا کچھ نہ تھا۔ عیش و آرام کے تمام لوازمات موجود تھے۔ ہر سمت مسرت وشادمانی رقص کناں تھی۔ لیکن میں ان سب سے الگ تھلگ رہتا۔ میری کائنات میں کتابیں تھیں، رسالے تھے، تنہائیاں تھیں اور میں تھا! اور جب تم زندگی کی راہ پر اچانک مل گئیں تو میری دنیا ہی بدل گئی۔ تمہاری رفاقت نے رگِ احساس کو گدگدایا، میری زندگی کی ویران راہوں میں مسرت کے پھول بکھیر دئے اور میری زندگی کی ساکن ندی کو متحرک کر دیا۔تمہارے آتے ہی گھر کی رونق دوبالا ہو گئی، فضاؤں میں کیف و سرور کے نغمے گونجنے لگے اور میں زندگی کی چہل پہل میں حصہ لینے لگا۔ میں نہ جانے کِس جذبے کے تحت ہمیشہ تمہارے ساتھ رہنا، تمہارے قریب بیٹھنا اور تم سے باتیں کرنا پسند کرنے لگا۔ تمہیں اپنے قریب پاکر مجھے ایسا محسوس ہوتا جیسے ساری کائنات مل گئی اور تمام خوشیوں کے پھول میری زندگی کے دامن میں سمٹ آئے ہیں۔
آج تمہارے خط نے ماضی کے تمام دریچے وا کر دئے ہیں جن سے تمہارے ساتھ گزرے ہوئے مسرت بکنار ومدہوش کن لمحات جھانکنے لگے ہیں۔ ان حسین لمحات کے دامن میں مسرتیں ہیں، خوشیاں ہیں اور شادمانیاں ہیں۔ لیکن نہ جانے نشاط ومسرت کی یاد میرے دل میں کیوں سوئیاں چبھو رہی ہے اور میری پلکیں بھگو رہی ہے!!
زندگی آرزوؤں کی البیلی چھاؤں میں گزرتی رہی اور میرے دل میں تمہارے لیے محبت اور پیار کا جذبہ بڑھتا رہا۔ تمہیں اپنانے کی خواہش، تمہاری سانسوں کی مہک محسوس کرنے کی تمنا اور تمہیں اپنی بانہوں میں لے کر خود کو بھول جانے کی آرزو دل میں مچلتی رہی، انگڑائیاں لیتی رہی۔ میں نے بارہا اظہار تمنا کرنا چاہا۔ لیکن حرف مدعا زبان پر نہ لا سکا اور اپنی خاموش محبت کی دھیمی دھیمی آنچ میں گیلی لکڑی کی طرح سلگتا رہا۔ تم نے بھی اظہار محبت نہیں کیا اور نہ کبھی ساری زندگی ساتھ دینے کا عہد و پیماں کیا۔ لیکن اس کے باوجود میں تمہاری آنکھوں میں اپنے لیے چاہت کی قوسِ قزح کا رنگ بکھرتا محسوس کرتا رہا۔ تمہیں میری پسند اور آرام کا کتنا خیال تھا!! شاید یہی محبت کے اعتراف کا ضامن تھا۔
وقت کا طائر پرواز کرتا رہا اور دیکھتے ہی دیکھتے دو سال کا طویل عرصہ بیت گیا۔ تمہارا سالانہ امتحان ختم ہو چکا تھا اور تم اپنے گھر جانے کی تیاریاں کرنے لگی تھیں۔ اب میرے ضبطِ تمنا کی ڈور ڈھیلی پڑنے لگی۔ میں نے سوچا صاف صاف کہہ دوں میں تمہارے بغیر نہ رہ سکوں گا! میری زندگی کی ساری خوشیاں، تمام مسرتیں تم سے وابستہ ہیں! مجھے تم سے محبت ہے، عشق ہے! میں نے تمہیں شریکِ حیات اور جیون ساتھی بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے لیکن میری محبت کو شرمندۂ الفاظ ہونے سے پہلے ایک دن بھابی نے بتایا کہ تمہاری شادی تمہارے خالو زاد بھائی ڈاکٹر پرویزؔ سے ہونے جا رہی ہے۔ یہ رِشتہ بچپن ہی میں طے پایا تھا میری آرزوؤں کے شگفتہ گلاب مرجھا گئے، حسین زندگی کے سنہرے خواب بکھر گئے، آشاؤں کے شیش محل چکنا چور ہو گئے اور اس کی کرچیاں میرے دل کی گہرائیوں میں چبھنے لگیں۔
اور تب مجھے یاد آیا کہ تم نے ایک بار میری کاپی پر لکھا تھا:
کتنے ہی یہاں ایسے کنول ہوتے ہیں
کھلتے نہیں اور وقف اجل ہوتے ہیں
یہ بات جدا ہے کہ وہ تعمیر نہ ہوں
ہر ذہن میں کچھ تاج محل ہوتے ہیں
اس وقت میں نے اِس رباعی پر دھیان نہیں دیا تھا۔ لیکن آج تمہارے لکھنے کا مطلب سمجھ گیا۔ کاش! مجھے پہلے ہی معلوم ہوتا کہ تم کسی اور کے لیے ہو تو پھر یہ زندگی یوں المیہ نہ بنتی!! یہ تو میرا دیوانہ پن تھ اکہ میں نے اس چاند کو چھو کر اپنی کائنات کو منور کرنا چاہا جو میری دسترس سے دور تھا۔ یہ تو میرا پاگل پن تھا کہ میں نے ایسے پھول کو دامن زندگی کی زینت بنانا چاہا جس کی خوشبو پانے کی آرزو میں اپنی زندگی کا دامن کانٹوں سے بھر لیا اور تمناؤں کی انگلیاں زخمی ہو گئیں۔
تمہارے جانے کے بعد میری زندگی ویران ہو گئی، میری دنیا تاریک ہو گئی۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا جیسے میں نے اپنا سکون وقرار، اپنی زندگی، اپنا سب کچھ کھو دیا ہے۔ تمہارے بعد میرا کوئی رفیق وجلیس نہ رہا، تمہارے ساتھ بیتے ہوئے دنوں کی یادیں تھیں اور آنسوؤں میں ڈوبی ہوئی تنہائیاں تھیں۔ مجھے گھر کے آنگن میں تمہارے پیکرِ ناز کی پرچھائیاں چلتی پھرتی محسوس ہوتیں۔ ہر سمت تمہارے نکہت فزا تبسم کی رعنائیاں اور حُسن وجمال کی چاندنی پھیلی ہوتیں۔ بک شلف کی کتابوں میں تمہاری مخروطی انگلیوں کے لمس کا احساس ہوتا اور فضا میں تمہارے قہقہوں کی جلترنگ سُنائی دیتی۔ تمہاری آواز کی نغمگی مجھے مدہوش بناتی رہتی اور میں بےچین ہوتا رہتا۔ تمہاری مفارقت نے میری ساری خوشیاں چھین لیں، میرے ہونٹوں کا تبسم نوچ لیا اور میں بےحد اداس رہنے لگا۔ زندگی کی بے کیفی اور بے رنگی کے شدید احساس سے مجبور ہوکر میں تعلیم کے بہانے عظیم آباد چلا گیا۔ لیکن وہاں کی گہما گہمی اور رنگارنگی بھی دل کی تلخیاں دور نہ کر سکی۔ تمہاری یادیں ذہن میں انگارے بن کر دہکتی رہیں، تمہارے ساتھ گزرے ہوئے لمحات نشتر بن کر احساس کی رگوں میں اترتے رہے اور میں درد کی کسک اپنے دل کی گہرائیوں میں محسوس کرتا رہا۔ تمہیں بھلانے کے لیے کیا کیا جتن کیے۔ اپنا زیادہ تر وقت دوستوں کی محفل میں گزارتا، افسانے لکھتا، مطالعے میں منہمک رہتا اور خود کو کتابوں کے ڈھیر میں کھو دینے کی کوشش کرتا، پھر بھی تمہیں فراموش نہ کر سکا۔
بانو! میں نے اپنی شادی کا ارادہ ترک کر دیا تھا۔ لیکن حصول تعلیم کے بعد امی جان کو میرے بیاہ کی فکر ستانے لگی۔ جب کبھی وہ میری شادی کی باتیں کرتیں، میں تڑپ اٹھتا۔ تمہاری یادیں اپنے دامن میں کرب واضطراب، غم واندوہ اور حزن و ملال سمیٹے آ جاتیں۔ میں شادی سے انکار کرتا رہا۔ لیکن ایک دن ان کے اصرار کے آگے سر نگوں ہونا پڑا۔ میں نے بھی سوچا شاید یہ نئی زندگی ماضی کی یادیں بھلا دے اور یہ شادی میرے دل کے زخموں پر تسکین کا پھاہا رکھ دے۔ آخر کب تک میں اپنے ماضی کے خار زار جزیرے میں بھٹکتا اور اپنا وجود لہو لہان کرتا رہتا!
میں کئی بار تمہارا خط پڑھ چکا ہوں اور ہر بار میری پلکیں نمناک ہو گئی ہیں۔ تمہارے ساتھ گزرے ہوئے مدہوش کن لمحات کی یاد آتے ہیں میرے دل میں ایک انجان سی خلش کا احساس جاگ اٹھتا ہے اور در کی کسک دل کی گہرائیوں میں اترنے لگتی ہے۔
بانو! یہ خبر میرے لیے کتنی روح فرسا تھی کہ تمہاری شادی ڈاکٹر پرویز سے نہ ہو سکی جس کے لیے تم نے بچپن ہی سے اپنے دل میں پیار کا تاج محل تعمیر کیا تھا اور نِت نئے خواب کے تانے بانے بنا کرتی تھیں۔ لیکن دولت کی شہزادی نے تم سے تمہارے خوابوں کا شہزادہ چھین لیا اور تمہاری زندگی اداس گیت بن گئی۔ کاش تمہارا یہ المیہ مجھے پہلے ہی معلوم ہوتا! میں ایک بار پھر اپنی تمناؤں کے شکستہ شیش محل کی کرچیاں چن چن کر سپنوں کا محل بناتا اور تمہاری رفاقت میں اپنی کائنات سجانے کی تمنا کرتا!! لیکن تمہارے خواب ٹوٹنے کی اطلاع اس وقت ملی جب تم کسی پروفیسر سبحانیؔ سے بیاہ دی گئیں اور شہنازؔ بھی میری زندگی میں داخل ہو چکی تھی۔
شہنازؔ نے ٹوٹ کر مجھ سے پیار کیا، سچے دل سے مجھے چاہا اور اپنا سب کچھ میرے سپرد کر دیا۔ اس کی رفاقت نے میری دنیا ہی بدل دی ہے، میری زندگی کی راہ میں نشاط وشادمانی کے پھول بکھیر دیے ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ اس کے خلوص واعتماد کو ٹھیس لگے، اس کی سچی محبت کو چوٹ پہنچے، میری صہبائے غم کی حدت کا احساس اس کے دل کے آبگینہ کو پگھلا دے اور اس کی زندگی تلخ ہو جائے، اس کی خوشیوں کی دنیا لٹ جائے۔ اس لیے میں بھی شہناز کی خوشیوں میں حصہ لیتا ہوں، اس کے ساتھ قہقہے لگاتا ہوں۔ لیکن اس مسرت انگیز ازدواجی زندگی کے باوجود میں اپنے ماضی کے خزاں دیدہ چمن میں بھٹکتا رہتا ہوں۔ میرے آس پاس خوشبوؤں میں بسے ہوئے لمحات کے سایے سرسراتے رہتے ہیں اور میں حزن وملال میں مبتلا رہتا ہوں اور مسکراتا ہوں۔ میرے قہقہے کھوکھلے ہوتے ہیں، میری مسکراہٹیں بےکیف و بےجان ہوتی ہیں۔ میں جانتا ہوں یہ سب فریب ہے، جھوٹ ہے! میں شہناز کو دھوکا دیتا ہوں، اس سے جھوٹی محبت کرتا ہوں۔ لیکن میں مجبور ہوں بانو! میں بالکل مجبور ہوں۔ آخر میں تمہاری ان یادوں کو کیسے بھول جاؤں جو آنسو بن کر میری پلکوں پر چھا جاتی ہیں، میں اپنے شکستہ خوابوں کی ان کرچیوں کو کیا کروں جو میرے دل میں سوئیوں کی طرح چبھتی رہتی ہیں، میں تمہارے پیکر ناز کی وہ تصویر کیسے مٹا دوں جو میرے دل کے آئینہ میں منقش ہو گئی ہے اور جسے وقت کا ناخن بھی اب تک نہ کھرچ سکا۔
سامنے پلنگ پر شہناز سوئی ہوئی ہے اور میں تمہیں یاد کر رہا ہوں۔ اسے کیا معلوم کسی کی یادوں نے میری آنکھوں سے نیند چھین لی ہے اور کن یادوں کے ستارے میری پلکوں پر آنکھ مچولی کھیل رہے ہیں۔نہ جانے یہ زخم کب مندمل ہوگا۔ یہ کسک کب مٹےگی، یہ درد کب ٹھہرےگا!!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.