تقریباً بھاگتے قدموں سے آفس سے باہر نکلتے ہی طاہرہ نے آسمان کی جانب نظر دوڑائی۔گہرے بادلوں سے ڈھکا ہوا آسمان اور کراچی جیسے وسیع وعریض شہرکی فلک بوس عمارتیں جو اس شہر کے لوگوں کو ان کے قد سے بھی چھوٹا بنائے دے رہی تھیں۔ سڑکوں پر پھرتے چھوٹے چھوٹے قدوں کے یاجوج ماجوج۔ ۔۔ جو سارادن شہرکے سکون کو چاٹتے اور ہر رات کے بعد پہلے سے بھی زیادہ تروتازہ ہو جاتے۔اس کا جی چاہا سمندر کی ایک بڑی سی لہر آئے اور اپنے ساتھ سب کچھ بہا لے جائے۔ گال پر پڑنے والی بارش ایک چھوٹی سی بوند اسے اپنے دل پر تیزاب کی مانند محسوس ہوئی۔ اس سے پہلے کہ وہ اور موسم دونوں اپنا سکوت توڑ دیتے اس نے رکشے کو ہاتھ دیا اور قریب آنے پر نہایت عجلت میں اس میں جا بیٹھی۔آج گھر کا راستہ اسے ہمیشہ سے زیادہ طویل لگا۔ کئی بار اسے محسوس ہوا کہ آنسوؤں کا ایک گولہ اس کے حلق میں پھنسا جارہا ہے خود پر شدید ضبط کے باوجود بھی وہ خود کو رونے سے باز نہ رکھ سکی۔ خدائے لم یزل کی دنیا میں انسان کیسی بے بس شے ہے۔ گرم گرم سیال اس کے گالوں پہ بہنے لگا اور وہ رکشے میں ہی اپنا منہ چادر میں چھپائے اپنے اندر کی گھٹن کو آہستہ آہستہ باہر نکالنے لگی۔
رکشے سے باہر نکلتے ہی اس کے قدم ایک کہنہ طرز کے مختصر سے مکان کی جانب اٹھے۔ بڑی ہمت سے اس نے خود پر ضبط کیا اور آہستگی سے اس مختصر سے گھر کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہو کر اپنے کمرے میں آگئی۔ کمرے کا دروازہ بندکرتے ہوئے اس نے آہستگی سے اس پر چٹخنی چڑھادی۔ کاندھے پر ٹکے ہینڈ بیگ کو اس نے بستر پہ زور سے پٹخا اور چادر کو سر سے یوں اتارکر پھینکا کہ جیسے خود سے چپکنے والی ہر نگاہ ابھی تک اس چادر پہ ہی ٹنگی ہوئی ہو۔ اس کا جی چاہا کہ اپنے منہ سے عورت ہونے کا نقاب بھی نوچ ڈالے ایسا سلگتا ہوا نقاب جس کی تمازت سے اس کی روح پچھلے تیس برسوں سے برہنہ پا احساس کی نوکیلی کرچیوں پر آہستہ آہستہ پگھل رہی تھی۔ تقدیر نے اسے وقت کے جس بے رحم دروازے پر لا کھڑا کیا تھا وہ بے کلی اور جمود کا وہ درمیانی دوراہا تھا جہاں سے منزلیں ریت کی ماندہوا میں تحلیل ہوئی جاتی تھیں۔ زندگی تو بس اک آہوئے زخم خوردہ کی مانند حالات کے بنجر جنگل میں سرپٹ دوڑنے کا نام رہ گئی تھی۔
اسے تقدیر کے وہ زخم بھولتے ہی کب تھے۔ خاص کر جب اس نے پہلی بار سہاگ کا سرخ جوڑا پہنا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ اس سرخ جوڑے کی قیمت ابا جی نے کتنے مہنگے داموں ادا کی تھی۔ بیلیوں کی خوشیاں خریدنا کونسا آسان کام ہے۔ کیسی دن رات مشقت کی تھی تب بھی پورا نہ پڑا۔ وہ تو بھلا ہو اس منشی رب نواز کا جس نے انہیں بینک سے چار لاکھ کا قرضہ لے کر دیا تب کہیں جا کر جہیز اور کھانے کا خرچہ پورا ہوا تھا۔ آخر انہوں نے بھی تو اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنا تھا۔ وہ کوئی ایسی گئی گزری شکل کی مالک بھی نہ تھی اچھی خاصی خوش شکل تھی پر غریب کے گھر کون رشتہ لے کر جاتا ہے۔ اسے پتہ تھا ماں جی نے کتنے رشتے والیوں کی منتیں سماجتیں کی تھیں تب کہیں جا کر ایسا عمدہ رشتہ ملا تھا انہیں۔ اچھے خاصے کھاتے پیتے لوگ تھے۔ انہیں بھی لگا تھا کہ جیسے اب کے اسے رخصت کرکے وہ بھی سکھی ہو جائیں گی۔ رخصتی کے وقت وہ ابا جی سے مل کر کیسے پھوٹ کرروئی تھی کہ اب جیسے اس گھر میں دوبارہ نہیں آئے گی۔ پرواہ رے نصیب۔۔۔ شادی کے دو ماہ بعد ہی سسرال والوں کی ایسی ایسی فرمائشیں شروع ہوئیں کہ شریف حسین چاہ کے بھی پورا نہ کرپائے۔ یوں تیسرے ہی ماہ وہ طلاق کے کاغذوں میں دفن کر کے گھر پہنچائی گئی۔ کیسے کیسے طعنوں کے نشتر تھے جو اس کی ساس نے اپنی زبان سے اس کے ماں باپ کے دلوں میں پیوست کئے تھے۔
’’آئے ہائے۔۔۔ کوئی پوچھے بھلا موٹر سائیکل بھی کوئی ایسی چیز تھی جو میرے بیٹے نے مانگ لی تھی۔ ماں باپ تو بیٹیوں کے لیے جانے کیا کیا کچھ کر جاتے ہیں۔ ارے ہم سے تو بڑی بھول ہو گئی جو اپنا قیمتی بیٹا ان ٹٹ پونجیوں میں بیاہ ڈالا۔ ۔۔آخر کوئی نام ہے ہمارا۔۔۔ کوئی عزت ہے۔۔۔ سنبھالو اپنی بیٹی کو اپنے جیسے غریبوں میں ہی بیاہنا اسے۔۔۔‘‘ اس عورت کی زبان سے اگلتا زہر ان کی روحوں کو جھلسانے لگا۔
پر اماں جی ایک بار بھی نہ بولیں۔ وہ آخر کیوں نہ بولیں۔ کم از کم اتنا ہی کہہ دیتیں کہ ’’سعیدہ بیگم تم خود آئی تھیں ان ٹٹ پونجیوں میں رشتہ لے کر۔۔۔ سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے تب تمہارا نام اور تمہاری عزت کہاں تھی۔۔۔‘‘ اس نے کتنی ہی بار یہ بات دل میں سوچی تھی کہ کاش اماں جی ایک بار تو یہ کہہ دیتیں اور کچھ نہیں تو غصے سے صرف اتنا ہی بول دیتیں کہ ’’جاؤ بی بی جاؤ۔۔۔ تم لوگ بھی اس قابل نہیں کہ ہماری بیٹی تمہارے ساتھ نباہ کرے۔۔۔‘‘ آخر اس کی بھی کوئی عزت تھی کہ نہیں۔ پر وہ کیوں بولتیں۔ ان کے لیے تو ان کی نماز روزہ اور تسبیحات زندگی کی اولین ترجیحات تھیں۔ ان کی زندگی تو صبروقناعت سے شروع ہو کر اطاعت مشیت ایزدی پہ ختم ہو جاتی تھی۔ ان کے لیے تو ہر کار جہاں مصلحت خداوندی کا روپ ہوتا تھا۔ اس دن بھی انہیں اس مشکل وقت میں بھی اپنی بیٹی کی سلگتی ہوئی روح نظر نہیں آئی جب وہ کر ب و اذیت کے برزخ میں کہیں معلق ہو کر وحشت سے پرپھڑپھڑارہی تھی۔
اور ابا جی جنہوں نے ندامت سے اپنا سر اتنا نیچے جھکا لیا کہ ان کی داڑھی ان کے دامن کو چھونے لگی۔ اسے لگا کہ جیسے وہ خود سسرال چھوڑ کے ماں باپ کے در پہ آبیٹھی ہو۔ انہوں نے تو سعیدہ بیگم کی منتیں بھی کرنے کی کوشش کی پروہ انہیں راستے سے دھکیلتی ہوئی چلتی بنی۔ ا س کے بعد ابا جی کو ایک چپ ہی لگ گئی تھی۔ ان کی تو جیسے کمر ہی ٹوٹ گئی۔ اکلوتی اور لاڈلی بیٹی کی شادی جس کے لیے انہوں نے خود کو مقروض تک کر ڈالا تھا۔ اسے یقین نہ آتا کہ یہ وہی کندھے ہیں جن کی اونچائیوں پہ بیٹھ کر اس نے دنیا کو دیکھنا سیکھا تھا۔ یہ وہی بازو تھے جن کا جھولا اسے درختوں سے بھی زیادہ مضبوط لگا کرتا تھا اور اب یہی کندھے اور بازو بڑی سرعت سے ایک خمیدہ دیوار کی مانند جھکے چلے جارہے تھے۔ ابا جی توا س کا مان تھے پر بچارے ابا جی۔۔۔ کتنا بوجھ تھا ان کے بوڑھے کاندھوں پر، گھر کا بوجھ، قرضے کا بوجھ، طلاق یافتہ بیٹی کا بوجھ۔۔۔ جو سب پہ حاوی تھا۔ پروہ کیا کر سکتی تھی۔ آخرکو وہ ایک عورت تھی۔ ایک ایسی غریب بے بس عورت جس کی بھینٹ معاشرے کی ہر رسم پہ چڑھائی جاتی۔ جس کی مانگ کو خود اس کے دل کے خون سے بھرا جاتا۔
شدت احساس کے انگاروں سے دہکتے دن رات اس کی زندگی کو صبح شام داغتے رہتے اور وہ بلبلا کر چیخ اٹھتی۔ ’’اماں اب لوگ بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کیوں نہیں کر دیتے‘‘۔ اور اماں جی جواب میں توبہ توبہ استغفار پڑھ کے رہ جاتیں۔
تبھی اس نے سوچا کہ اب وہ مزید ان کاندھوں پہ اپنا بوجھ نہیں ڈالے گی۔ اگر جینا اسی طرح ہے تو اس کے لیے تگ و دو بھی خود ہی کرنی ہوگی۔ اپنی ساری ڈگریوں کو اکٹھا کرکے ابا جی سے اجازت طلب کی جسے وہ نہ چاہتے ہوئے بھی روک نہ پائے۔ کیونکہ بینک سے لیے گئے قرضے کو لوٹانے کا وقت قریب آچکا تھا۔ اور پھر ایک سہیلی کی وساطت سے اسے ایک مل میں نوکری مل ہی گئی۔ پر بنت حوا کے لیے یہ کون سا آسان کام ٹھہرا۔ گھر کی چاردیواری سے باہر نکلتے ہی ہوس سے لتھڑی ہوئی نگاہیں اس کی چادر پر بچھوؤں کی مانند پھیل جاتیں جن کے زہریلے ڈنک اسے اپنے جسم پر محسوس ہوتے۔ غریب کے لیے تو خوش شکل ہونا بھی کسی عذاب سے کم نہ تھا۔
جانے ابھی اورکتنے دن اسی طرح سے گزرتے اگر ایک دن ابا جی کو وقار صاحب راستے میں نہ مل جاتے۔ اباجی نے خود اسے وقار صاحب جیسے نیک دل اور شریف النفس شخص کے بارے میں بتایا تھا اور تبھی وہ اس کی ڈگریاں لے کر خود وقار صاحب کے آفس تک گئے تھے۔ ابا جی نے جیسا بتایا وقار صاحب تو اس سے بھی کہیں بڑھ کر خدا ترس نکلے۔ سفید قلموں اور پر کشش شخصیت کے مالک شفیق وقار صاحب تو اسے کوئی دیوتا صفت انسان لگے جنہوں نے نہ صرف اسے اچھی نوکری دی بلکہ اب تو اس کی تنخواہ بھی پہلے سے کہیں زیادہ اچھی ہو گئی تھی۔ یہی نہیں بلکہ وقار صاحب نے شریف حسین کو چار لاکھ کا چیک دے کر ان پر کتنا بڑا احسان کیا تھا۔ اسے تو وہ سچ مچ کے دیوتا لگے۔ بڑے عرصے بعد یاجوج ماجوج کی اس بستی میں اسے ایک انسان نظر آیا تھا۔ ایک ہوس سے عاری انسان۔ زندگی ایک بار پھر اپنی ڈگر پہ آنے لگی تھی۔ اب کی بار اس نے سوچا تھا کہ وہ وقت کو مرہم بننے دے گی۔ ایسا مرہم جو اس کے ذہن سے ساری تلخ یادیں کھرچ کھرچ کر باہر نکال دے گا۔
پر ابھی تو دوماہ بھی نہ گزرے تھے آج جب اسے وقارصاحب نے اپنے پاس بلایا تو ان کی شفیق آنکھوں میں کچھ اور ہی تھا۔۔۔ کچھ بہت ہی جانا پہچانا۔۔۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہی سیاہ رنگ کے بچھو وقار صاحب کی سرخ آنکھوں سے لپک لپک کر اس کی چادر سے چمٹنے لگے۔ انکے زہریلے ڈنک اس کے جسم میں پیوست ہو رہے تھے۔۔۔ بہت جی کڑا کر کے اس نے وہاں سے اٹھنا چاہا۔ اور تب ہی وقار صاحب نے اس کا ہاتھ تیزی سے اپنی جانب کھینچا۔
’’آپ ہوش میں تو ہیں سر۔۔۔۔‘‘ وہ روہانسی ہو گئی۔
’’کیوں کیاہوا ہے مجھے۔۔۔‘‘ انکے منہ سے اٹھتے ہوئے بدبو کے بھبھوکے اس کے لیے کچھ نئے تو نہ تھے۔ یہی بو تو اسے اپنے شوہر سے آیا کرتی تھی۔ نفرت کا ایک شدید جذبہ اسے اپنے اندر اٹھتا ہوا محسوس ہوا۔ اس نے غصے سے اپنا ہاتھ چھڑایا اور جانے کے لیے مڑی۔
’’ایسے کیسے جانے دوں۔۔۔ پورے چار لاکھ دئیے ہیں۔۔۔ میں نے شریف حسین کو۔۔۔تمہاری وجہ سے۔۔۔‘‘ وقار صاحب بھی گھوم کر سامنے آگئے۔ آج وہ تہذیب کے ہر دائرے کو تیاگنے کے لیے تیار تھے۔
’’تو وہ پیسے آپ نے اباجی کو یہ سوچ کر دئیے تھے ۔۔۔ لعنت ہے ایسے پیسوں پر۔۔۔ اور آپ پر بھی۔۔۔‘‘ اس نے جارحانہ انداز میں حواس سے بے گانہ وقار صاحب کو زور سے پرے دھکیلتے ہوئے کہا۔ جانے کہاں سے آج اس کے اندر اتنی ہمت آگئی کہ اس نے بھاگتے ہوئے دروازہ کھولا اور تیزی سے باہر نکل گئی۔ندامت اور خفگی سے اس کا چہرہ سرخ ہوا جارہا تھا۔ تبھی تو اس سے رکشے میں بھی صبر نہ ہو سکا۔ وہ خوب پھوٹ پھوٹ کر روئی۔ جونہیں ابا جی گھر داخل ہوئے وہ پھٹ پڑی۔ آج اس نے بھی چپ نہ رہنے کی قسم کھالی تھی۔
’’ابا جی کہاں ہے وہ چیک۔۔۔ جو آپ کو آپ کے وقار صاحب نے دیا تھا۔ میں کہتی ہوں اسے پھاڑ کے ان کے منہ پہ دے ماریں۔۔۔‘‘ وہ پہلی بار ابا جی کے سامنے زور سے چلائی تھی۔ اس کی حالت اب اس زخمی بلی کی سی تھی جو جلے پاؤں سلاخوں والے پنجرے میں خوف سے گھبرا کر کبھی ادھر بھاگتی تو کبھی ادھر۔ پر قرار تو کہیں نہیں تھا۔ اسکے پیروں تلے زمین دہک رہی۔ جس سے اس کا دماغ لاوے کی طرح کھول رہا تھا۔ کیا اس کی عزت اتنی ہی ارزاں تھی کہ جو چاہے اسے پیروں میں روند ڈالے ۔ پر اب وہ کسی کے آگے نہیں جھکے گی۔ اس نے بھی فیصلہ کر ہی لیا۔
’’کونسا چیک۔۔۔۔؟؟‘‘ ابا جی ہکلائے۔
’’وہی چار لاکھ کاچیک۔۔۔ جس کے بدلے میں وہ مجھے اپنی ملکیت سمجھ رہے ہیں‘‘۔ وہ زور سے چلائی۔
پر اچانک ہی جو کچھ ہوا اس نے گویا اس کی قوت گویائی ہی سلب کرلی۔ بوڑھے ابا جی نے دونوں ہاتھ اس کے سامنے جوڑ کر گھٹنے ٹیک دئیے۔ ’’دیکھ بیٹا تیرا بوڑھا باپ اس بڑھاپے میں کس کس کے آگے ہاتھ پھیلائے۔۔۔ کس کس سے مانگے۔۔۔ تو بتامیں یہ قرض کیسے اتاروں۔۔۔‘‘ ابا جی کی ضعیف آنکھوں سے نمکین آنسوؤں کے چشمے جاری ہو گئے۔۔۔’’دیکھ طاہرہ بیٹی۔۔۔ یہ میری عزت کا سوال ہے۔۔۔ میری عزت دوبارہ نیلام ہونے سے بچالے۔۔۔‘‘ وہ دونوں ہاتھ جوڑے اس کے آگے گڑگڑانے لگے۔
وہ سن ہو کر رہ گئی اس کے حواس ایک ایک کر کے مفلوج ہونے لگے اور اسے یوں لگا کہ آج اس کے ابا جی نے اسے زمین میں زندہ دفن کر دیا ہو۔
***
ماتم گسار
انور خان
شہر کے قلب میں واقع مدتوں سے ویران کھنڈر نما حویلی کے دروازے پر ایک تابوت رکھا ہوا ہے۔ سرگرمیاں جو دوپہر کی تمازت کے سبب معطل ہوچکی تھیں۔ پھر آہستہ آہستہ شروع ہو رہی ہیں۔ سڑکوں پر اکا دکا آدمی چلتا دکھائی دے جاتا ہے۔ جب کوئی راہ گیر حویلی کے سامنے سے گزرتا ہے اور دروازے پر رکھے تابوت پر اس کی نظر پڑتی ہے تو وہ ٹھٹھک کر رک جاتا ہے۔ کچھ لمحے غیر یقینی انداز میں حویلی اور تابوت کو دیکھتا ہے پھر کچھ متعجب سا آگے بڑھ جاتا ہے۔جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے۔ ننگ دھڑنگ بچے، فقیر، آوارہ ، اوباش لڑکے حویلی کے سامنے اکٹھا ہو گئے ہیں۔ تابوت کی خبر شاید حویلی کے اطراف کے علاقوں میں بھی پھیل گئی ہے۔ کیونکہ اب حویلی والی سڑک پر آمدوروفت معمول سے کچھ زیادہ ہی نظر آرہی ہے۔ اور حویلی کے سامنے مجمع بھی بڑھتا جارہا ہے۔
حویلی اب بھی ہمیشہ کی طرح سنسان ہے۔ کسی کے قدموں کی آہٹ تک سنائی نہیں دیتی۔ آدمی اور آدم کی بات تو الگ رہی لگتا ہے اس میں ہوا کا بھی گزر نہیں۔
اچانک سڑک کے موڑ پر ایک کار موڑ لیتی نظر آتی ہے پھر بڑھتی ہوئی حویلی کے دروازے پر آکر رک جاتی ہے۔ لوگ ہٹ کر کھڑے ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ کار سے نکل کر حویلی کے اندر کھو جاتے ہیں۔
باہر سٹرک پر کھڑے افراد اب اطمینان کا سانس لیتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے واقعی حویلی کے کسی مکین کا انتقال ہو گیا ہے۔
کچھ دیر بعد ایک کا ر پھر سڑک کے افق پر نمودار ہوتی ہے اور اسی طرح بڑھتی ہوئی حویلی کے دروازے پر آکر رک جاتی ہے۔ پھر چند لوگ کار سے باہر آتے ہیں اور حویلی میں کھو جاتے ہیں۔
پھر تو جیسے گاڑیوں کا تانتا بندھ جاتا ہے کہیں سے چند پھیری والے بھی آجاتے ہیں۔ باہر کھڑے لوگ اب گاڑیوں سے ٹیک لگائے سگریٹ بیڑیاں پھونکتے ہوئے گپ شپ میں مصروف ہو گئے ہیں۔ گاڑیوں اور لوگوں کے ہجوم کی وجہ سے اب تابوت دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ کوئی نیا آدمی سڑک پر سے گزرتا ہے تو حویلی کے باہر رونق دیکھ کر چونک جاتا ہے اور اسے بتانا پڑتا ہے کہ حویلی کے باہر ایک تابوت رکھا ہوا ہے اور کچھ لوگ ابھی ابھی گاڑیوں سے اتر کر حویلی کے اندر آگئے ہیں۔
’’لیکن یہ حویل تو برسوں سے ہم غیر آباد دیکھ رہے ہیں‘‘۔
’’ہاں، یہی تو تعجب ہے۔ اس حویلی میں آخر کون رہتا ہوگا؟‘‘۔
کچھ لوگ حویلی سے باہر آتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ مجمع میں ہلکا سا شور ہوتا ہے پھر ایک اضطراب آمیز خاموشی چھا جاتی ہے۔
چہرے مہرے اور وضع قطع سے یہ لوگ نوکر پیشہ معلوم ہوتے ہیں۔ وہ تابوت کو اٹھا کر اندر لے جاتے ہیں۔
باہر کھڑے لوگ اندازہ لگاتے ہیں کہ اس واقعے کا اختتام اب قریب ہی ہے، اس بات پر البتہ انہیں تعجب ہے کہ حویلی کے اندر سے کسی کے رونے کی آواز نہیں آرہی ہے۔
’’شاید مرنے والے کی عمر کافی زیادہ ہو گی اور اس کے متعلقین کے لیے اس کی موت غیر متوقع نہیں ہوگی‘‘۔
’’یا ممکن ہے مرنے والا ان لوگوں کا قریبی رشتے دار ہو‘‘۔
گھر میں کوئی عورت بھی نظر نہیں آتی۔
’’اب تک تو ہم صرف ملازمین کوہی دیکھ پائے ہیں‘‘۔
کچھ لوگ حویلی سے نکل کر دروازے کی طرف آتے دکھائی دیتے ہیں اور مجمع کی بھنبھناہٹ بند ہو جاتی ہے۔ احتراماً لوگ سگریٹ بیڑیاں بجھا دیتے ہیں۔ اب وہ جنازے میں شرکت کے لیے تیار ہیں کہ یہ ان کا انسانی فرض ہے۔ وہ اب اس واقعے کے عینی شاہد ہیں اور اس میں پوری طرح ملوث ہو چکے ہیں۔ تمام نسل انسانی ایک کنبہ ہے اور اس کا ہر فرد ان کی محبت اور ہمدردی کا مستحق ہے۔
چار آدمی تابوت کو تھامے ہوئے ہیں۔ ان کے ہونٹ حرکت کررہے ہیں۔ اور ان کے پیچھے دوسرے آدمی سر جھکائے آہستہ آہستہ دروازے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
بچے کھیلتے کھیلتے رک گئے ہیں۔ عورتوں نے پلو سر پر لے لیے ہیں ماحول کی سنجیدگی سب پر اثر انداز ہوگئی ہے۔
باہر آتے ہی لوگ اپنی اپنی گاڑیوں کی طرف بڑھے ہیں ۔ ان میں ترکی ٹوپی پہنا ہوا ایک بوڑھا جھریوں میں سوچ کی لہریں بسائے کھویا کھویا سا اپنی گاڑی کی طرف بڑھ رہا ہے۔
’’آپ لوگ کہاں جارہے ہیں‘‘۔
ایک نو عمر لڑکے نے آگے بڑھ کر کچھ جھجکتے ہوئے اس سے پوچھا ہے۔
’’جہاں بھی یہ تابوت لے جائے‘‘۔ اس نے اسی کھوئے ہوئے انداز میں جواب دیا ہے۔
’’تابوت میں کون ہے؟‘‘ اس نے پھر سوال کیا۔
’’پتہ نہیں۔ شاید ایک بوڑھا آدمی۔ ایسا وہ لوگ کہتے ہیں۔ مگر میں نے اسے دیکھا نہیں‘‘۔
’’کسی نہ کسی نے تو دیکھا ہوگا؟‘‘
’’ہو سکتا ہے۔ دیکھا ہوگا‘‘۔
’’یہ بھی تو ممکن ہے تابوت خالی ہو‘‘۔ نوعمر لڑکے نے کہا۔
’’کیا کہا جائے۔ ممکنات سے تو کوئی بات خالی نہیں ہوتی‘‘۔ بوڑھے نے جواب دیا۔
’’پھر آپ کیوں تابوت کے ساتھ جارہے ہیں؟‘‘
’’یہ آخری نیکی ہے جو ایک انسان کسی مرنے والے کے ساتھ کر سکتا ہے۔ اس لیے جب مجھے معلوم ہوا تو انسانیت کے ناطے میں نے ضروری سمجھا کہ جنازے میں شرکت کروں‘‘۔
’’بوڑھا سنکی معلوم ہوتا ہے‘‘۔ مجمع میں سے کسی نے کہا۔
’’کیا پتہ؟‘‘ کوئی اور بولنے کی خواہش سے بے اختیار بول اٹھا۔ ’’تقریباً روز ہی ہم عجیب و غریب واقعات کے متعلق سنتے رہتے ہیں۔ آخر وہ کہاں وقوع پذیر ہوتے ہیں؟ اسی دھرتی پر، ہمارے آپ کے بیچ، صرف ہمیں ان کا پتہ دیر سے چلتا ہے‘‘۔
تابوت سمیت گاڑیاں روانہ ہو گئیں۔ لوگ منتشر ہو گئے، صرف چند آوارہ مزاج لڑکے، دو چار فقیر یا اوباشی باقی رہ گئے۔
’’یار مجھے تو اب تک یقین نہیں آتا‘‘۔ ایک لڑکے نے کہا۔ ’’اس حویلی میں تو آج تک کوئی انسان نظر نہیں آیا۔ دیکھو حویلی کس قدر غیر آباد نظر آرہی ہے۔ ایسا لگتا ہی نہیں، وہاں کوئی رہتا ہوگا‘‘۔
’’کسی نے مذاق تو نہیں کیا‘‘۔ ایک اور لڑکے نے کہا۔
’’یار مجھے بھی ایسا ہی لگتاہے۔ کچھ لوگوں نے تو یونہی پبلک کو حیران کرنے کے لیے تماشا کیاہوگا‘‘۔
سڑک کے موڑ پر ایک شخص نمودار ہوا۔وہ تیز تیز قدموں سے چلا آرہا تھا۔ حویلی کے پاس آکر اس کے قدم سست پڑ گئے۔ آثار بتارہے تھے کہ ابھی ابھی یہاں کچھ ہوا ہے۔ اس نے سوالیہ نگاہوں سے حویلی کے سامنے کھڑے لوگوں کو دیکھا۔
اس حویلی میں کوئی شخص مر گیا۔ ابھی ابھی اس کا جنازہ گیا ہے۔ ایک کمسن لڑکے نے کہا، بہت سارے لوگ آئے تھے گاڑیوں میں۔
اس نے غیر یقینی انداز میں دوسروں کو دیکھا۔ انہوں نے بھی سرہلا کر لڑکے کے بیان کی تائید کی۔
اس نے حویلی کی طرف دیکھا پھر کندھے جھٹکتاہوا آگے بڑھ گیا۔ اسے اپنے دوستوں کے پاس پہنچنے کی جلدی تھی جو قریب ہی ایک بار میں اس کا انتظار کررہے ہوں گے۔ اس کے دوستوں کو اس خبر سے کتنا تعجب ہوگا۔ اس نے سوچا اور اسے خوشی ہوئی۔
اس کے دوست واقعی اس کے منتظر تھے اسے دیکھ کر انہوں نے خوشی کا اظہار کیا اور اس کا گلاس لبالب بھر دیا۔ انہوں نے آپس میں جام ٹکرائے اور پھر اس نے کہا کہ وہ ایک بہت عجیب و غریب خبر لایا ہے۔
’’کیا ہے وہ خبر، ایک نے کہا۔ہمیں تم سے کسی ایسی ہی بات کی امید تھی‘‘۔
’’یہاں سے قریب ہی وہ سنسان حویلی ہے نا؟‘‘
’’ہاں ہاں ہے تو‘‘۔
’’وہاں سے ابھی ابھی کسی کاجنازہ گیا ہے‘‘۔
’’یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘
رات کا پہلا پہرختم ہونے کو ہے۔ بحث ابھی تک جاری ہے ۔ بار کا مالک گفتگو کے ختم ہونے کا انتظار کررہا ہے۔ وہ خود گفتگو میں شامل ہے۔ اسے اس بات کا احساس ہے کہ وہ بہت ہی بنیادی مسائل پر گفتگو کررہے ہیں۔ اس لیے وہ دکان بند نہیں کر سکتا باہر سارا شہر گہری تاریکی میں ہے۔ سنسان حویلی بھی۔ اس میں اب بھی زندگی کے کوئی آثار نہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.