دستک
رات کے کتنے پہر ہوتے ہیں اور یہ ان میں سے کونسواں پہر گزر رہا تھا،جانے؟
سفید کھدر کے لیمپ شیڈ کے نیچے وہ ابتدائے رات سے اپنے سے دگنی وزن کی کتاب لے کر بیٹھی تھی۔ گلاس میں رکھے دودھ پر یخ ہو کر کریم کی موٹی تہ جم گئی تھی۔ چوکیدار کی ڈرادینے والی سیٹی کبھی بہت دُور سنائی دیتی تھی کبھی نزدیک۔ ہر آدھ گھنٹہ بعد اس کا راؤنڈ ان کے گھر کے سامنے ہوتا تھا۔ اور کتنے ہی ایسے آدھے آدھے گھنٹے گزر بھی گئے تھے۔ وہ اس وقت انگلیوں پر گھنٹے نہیں، میڈیسن رٹ رہی تھی۔ جینرک نام۔ کمپنی کا نام۔ اجزائے ترکیبی۔
ڈاکٹر فاروق کا یہ پسندیدہ مشغلہ تھا۔ وہ راؤنڈ لیتے لیتے اچانک چونکا دینے کے لیے مائی سین فیملی کی گردان سننے لگتے۔
کتنی ڈوز؟ کتنی ملی گرام؟ سکس آرلی؟ فور آرلی؟
اور اگر کہیں کسی نے کنفیوز ہو کر گڑ بڑ کرنے کی کوشش کی۔ ہنڈرڈ ملی گرام۔ نہیں نہیں، ٹین ایم جی۔ فور آرلی۔ نہ نہ سکس آرلی۔
وہ کلائی پر بندھی ایک تسلسل سے چلتی رہنے والی گھڑی دیکھتے۔
’’معاف کیجیے آپ کے مریض کو مرے اصولاً پندرہ منٹ گزر چکے ہیں۔‘‘ طالب علموں کے ساتھ ان کا سخت رویہ سب کو دہلا دیتا۔
لالہ ان کی ہونہار شاگرد تھی۔ وہ اس سے محبت بھی کرتے تھے اور اس پر فخر بھی۔
صرف ان کی نظر میں سرخ رُو ہونے کے لیے اس کو کیا کیا جتن نہ کرنے پڑتے۔
امی گھر کی بتیاں بجھا کر سب سے آخر میں اس کے کمرے میں آتی تھیں۔ وہ جانتی تھیں، لالہ پڑھاکو ہے اور کتابوں میں سرگھسا کر اسے شاید ہی کسی چیز کا ہوش رہتا ہو۔ وہ دودھ کا گلاس رکھتیں۔ کافی کا ڈبہ۔ چینی۔ وہ سامنے کھڑی رہتیں تو گلاس میں کافی اور چینی گھول کر غٹ غٹ چڑھا جاتی ورنہ پڑا پڑا ٹھنڈا ہوتا رہتا۔
’’دیکھو غسل خانے کا دروازہ بند کرنا نہ بھولنا!‘‘
وہ ایسی بہت سی نصیحتیں کانوں کے راستے بھیجے میں گرا کر بھول جانے کی عادی تھی۔ لیکن وہ ماں تھیں،جب تک وہ دودھ چڑھا نہ جاتی اور بادام چبا نہ لیتی، اور وہ غسل خانے میں گھس کر باہر والا دروازہ ٹھونک بجا کر لان میں جھانک نہ لیتیں ،ان کی تسلی نہیں ہوتی تھی۔ کونے میں ٹمٹماتا سا ناکام بلب لان کو روشن رکھنے کے لیے ناکافی ہوتا لیکن وہ ایک نظر غسل خانے کے دروازے سے باہر کی طرف ضرور جھانکتیں ۔گھاس پر درختوں سے ٹوٹ کر گرے سوکھے پتوں کا ڈھیر جمع ہو گیا تھا۔ پچھلی سڑک پر قطار بنائے خاموش اور سیدھے کھڑے اچھے طالب علموں ایسے سفیدے کے تنے کچھ اداس اور ویران سے تھے۔
ان درختوں سے پرے دُور کسی سرونٹ کوارٹر سے پرانے گانے کی آواز آرہی تھی۔
ع ’’نہ جی کو جلانا مجھے بھول جانا ۔۔۔
میری یاد میں تم۔۔۔‘‘
’’یہ کم بختی مارا عبدل ہمیشہ سے ایسے نحستی بھرے گانے سنتا آرہا ہے۔ جانے اس کا یہ کیسٹ کب ٹوٹے گا۔‘‘ انہوں نے بے دردی سے طلعت محمود پر دونوں پٹ بند کر دئیے۔ غسل خانے کا بلب جلایا۔ اپنی طرف سے انہوں نے لالہ کے سب کام سنوار دئیے تھے۔ اب لالہ کو امتحانوں سے فرصت ہو تو ان کو اپنی ذمے داریوں سے کچھ نجات ملے۔ دروازے سہولت سے بند کر کے وہ باہر چلی گئیں۔
اور اس وقت سے وہ اِس کتاب پر دھیان لگائے بیٹھی تھی۔ وہ صبح سے پہلے تھوڑی دیر کے لیے سوتی تھی۔ پھر ساڑھے آٹھ بجے ڈاکٹر فاروق کے ساتھ وارڈ میں کلاس ہوتی، جس میں لیٹ ہونے کا مطلب پوسٹ مارٹم پر جانا تھا۔
وہ تیار ہو کر نکلتی تو چائے، تھرموس اور ناشتے کے لیے سینڈوچ، ٹفن میں تیار ملتے۔ میڈیکل کالج کی بس اپنے پوائنٹ پر ہارن دیتی تووہ دوڑتی دوڑتی نکل جاتی۔ عموماً اس وقت کالج کی یونین کی خریدی ہوئی سب سے پرانی بس اسے ملتی۔ بس میں سفر کرنے والے دوستوں نے اس بس کا نام ہیمامالنی رکھا ہوا تھا۔ وہ بھاگم بھاگ ہیما مالنی پکڑتی کہ ڈاکٹر فاروق کا شیڈول بہت تنگ ہوتا۔
سرجیکل میں لیکچر۔ اس کے بعد آپریشن تھیٹر کا چکر۔ پھر ہسپتال سے ملحق کالج میں پڑھائیاں۔ واپسی سے پہلے ڈاکٹر شکیلہ ایمرجینسی میں ان کی اٹینڈنس (حاضری) لگاتی تھیں۔ یہ ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ کا کوئی نیا اور سنہری اصول تھا۔ اس سے شروع کے پیریڈ اٹینڈ کر کے بھاگ جانے والے طالب علموں کی گنتی ہو جاتی تھی۔ اور جب ہیما مالنی اسے گھر چھوڑتی تو سورج اپنا سفر ختم کرنے والا ہوتا۔
وہ اتنی تھک جاتی تھی کہ گھر میں گھستے ہی سب سے پہلے ریڈیو آف کر دیتی۔ خواہ وہ کسی نے بھی لگا رکھا ہو۔ کتابیں پڑھنے ،گانے سننے، ٹی وی دیکھنے، اخبار پڑھنے، حتیٰ کہ ہنسنے بولنے ،اسے کسی چیز سے دلچسپی نہیں رہی تھی۔
یہ اس کا فائنل تھا اور فائنل گزر جائے تو وہ فرصت سے برسوں کے رکے کام نکال کر پورے کرے گی۔ ٹی وی پر ان دنوں کون سے سیریل مقبول ہو رہے ہیں۔ کون سا سینٹر فلاپ ڈرامے دے رہا ہے۔کس گلوکار کا کیسٹ بازار میں دھڑا دھڑ فروخت ہو کر سابقہ گلوکاروں کے ریکارڈ توڑ رہا ہے۔
اس وقت کون سیاسی پارٹی کس سیاسی جماعت کے خلاف برسر پیکار ہے؟
خالہ راشدہ نے اپنی بیٹی کے لیے اتنے اچھے رشتے سے کیوں انکار کر دیا؟
اسد بھائی کا خط تین ماہ سے کیوں نہیں آیا؟
اسے کتابوں سے سر اٹھانے کی فرصت ملتی تو ان سب مسائل کی طرف توجہ دیتی۔ چھٹی کے دن خوب سو سو کر اسے پچھلی نیندیں پوری کرنی ہوتی تھیں۔ پھر نہانے دھونے کا نمبر آجاتا ۔تھوڑی دیر کے لیے وہ اخبار کا فرائیڈے ایڈیشن دیکھ لیتی۔ جمعہ ہی کو ٹی وی نصیب ہوتا۔ اور ہفتے سے وہ پھر محاذ پر ڈٹ جاتی۔
ایسی ہی ایک روکھی سوکھی اور خشک سی شام جب وہ خون بہاتے ،درد سے چلّاتے مریضوں کے درمیان حاضری لگا کر جا رہی تھی تو ڈاکٹر شکیلہ نے اسے روک لیا۔ آج آن ڈیوٹی ڈاکٹر ناصر کی چھٹی کی درخواست آگئی تھی۔ اور یہ کوئی ایسی بڑی بات بھی نہیں تھی ،ان کی جگہ کسی بھی ڈاکٹر کو فوری طور پر طلب کیا جا سکتا تھا۔ لیکن ڈاکٹر شکیلہ اس کی محبت میں اس کے تجربات میں اضافے پر تلی ہوئی تھیں۔
آج ہی شام آپی پہنچ رہی تھیں۔ امّی نے چلتے چلتے جلدی آنے کی تاکید تھی۔لیکن ڈاکٹر شکیلہ چغل خور بھی بہت تھیں۔ اور یہ اس کا فائنل تھا۔ وہ کوئی رسک نہیں لینا چاہتی تھی۔
’’میں تو تمہارے بھلے کے لیے کہہ رہی تھی۔‘‘ ڈاکٹر شکیلہ نے اس کا بگڑتا منہ دیکھ کر ناگواری سے کہا۔
’’وہ ایک مریض لائے ہیں ۔روڈ سائیڈ ایکسیڈنٹ ہے۔ وہ بہت زخمی ہوا ہے۔ ظاہر ہے ایسا مریض ہاتھ میں لینا بڑے تجربے کی بات ہو گی۔‘‘
وہ برآمدے میں بنچ پر ہی اپنی چیزیں پھینک آئی تھی۔ اس کا خیال تھا ،وہ حاضری لگا کر چپکے سے باہر کے باہر بھاگ آئے گی، نظر بچا کے ۔اب تو ظاہر ہے ناممکن ہی ہو گیا تھا۔ وہ اپنی چیزیں اٹھانے آئی تو لمحہ بھر کو ڈر ہی گئی۔ لکڑی کے تختے پر لیٹا شخص زخموں سے چور تھا۔ خون میں نہایا ہوا، ہوش و حواس سے بیگانہ ، وہ کراہ رہا تھا۔
سرجن کمال کو سٹاف، ایڈمیشن رپورٹ پڑھ کر سنا رہی تھیں۔
’’سر اس کو راہ گیر اٹھا کر لائے ہیں۔ یہ سڑک کے کنارے زخمی حالت میں پڑا تھا۔ غالباً اس کا کسی سے جھگڑا ہوا ہے سر۔ اس کے بازو میں گولی لگی ہے۔ زخمی پہچانا نہیں گیا سر اور پولیس کہیں بھی نہیں ہے۔‘‘ اس کو اس تختے پر وارڈ بوائے اٹھا کر آپریشن تھیٹر کی طرف لے گئے۔
سرجن کمال زبانی سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے۔
سٹاف نے بھیگے پھاہوں سے اس کے زخم صاف کیے۔ کھرونچوں اور زخموں سے نچا چہرہ تکلیف کی شدت سے نیلا تھا ۔اس کو جنرل انستھیزیا دے کر ٹانکے(Stiches) لگانے کی باری لالہ کی تھی۔ ابھی تک اس کو کوئی زخمی اتنے قریب سے دیکھنے اور چھونے کو نہیں ملا تھا۔ یہ بھی ڈاکٹر ناصر کی مہربانی تھی کہ وہ چھٹی پر تھے۔ ورنہ یہاں آپریشن کرنے والے مریض کو چھونے کے لیے ترستے ہی رہتے۔
آدھ گھنٹہ آپریشن تھیٹر میں گزار کر جب اس کو جنرل وارڈ کی طرف دھکیلا جا رہا تھا تو اسے شدید دُکھ نے آگھیرا۔ یہ مفلس سا نادار، لاوارثوں کی طرح پڑا شخص بھی کسی ماں کی نامقبول دعا تھا۔
اسد بھائی نے کب سے خط نہیں لکھا تھا اور امی دن رات جائے نماز پر ان کی سلامتی اور صحت کی دعائیں مانگا کرتی تھیں۔ کیا پتا، اس غریب کی ماں تخت پر بیٹھی اس کے لیے کون کون سی دعائیں نہ مانگتی ہو۔ وارڈ بوائے خون کی تھیلی ساتھ لیے سٹریچر کے ساتھ آئی سی یو کی طرف دوڑ رہا تھا۔
درد سہہ کر پیدا کرنے والی اور تکلیف جھیل کر پرورش کرنے والی ماں کے لاڈلے سپوت کے خون سے تربتر کپڑے پولی تھین کے ایک تھیلے میں ڈال کر کونے میں رکھ دئیے گئے تھے۔
اگر وہ بروقت بری صحبت سے بچا لیا جاتا تو آج اس کا خون یوں بے در، بے عزت نہ ہوتا۔
پتا نہیں، وہ محض معمولی اٹھائی گیر تھا یا کوئی بڑا چور ڈاکو۔
خدا معلوم یہ ایسے ہی بے راہ لوگوں کی اولاد تھا یا یار دوستوں کی محبت نے اسے ان حالوں میں پہنچایا۔ اس نے اپنا بیگ ،اسٹیتھوسکوپ اور پرس اٹھایا۔ آئی سی یو کے راستے میں اس کا گیٹ پڑتا تھا۔ جتنے قدم وہ اس کے ساتھ چل سکتی تھی ،چلتی گئی۔ مریض ابھی تک اینستھیزیا کے اثر سے باہر نہیں نکلا تھا، اس لیے سکون سے آنکھیں بند کیے وہ بالکل غافل تھا۔
سرجن کمال نے بتایا تھا اس کا خون بہت ضائع ہو گیا ہے۔ اگر یہ تھیلی سوٹ کر گئی تو شاید اس کی جان بچ جائے۔
اس کا گاؤن خون سے بھرا ہوا تھا۔ وہ بے خیالی میں اسے بھی اٹھائے اٹھائے رکشا میں آبیٹھی تھی۔اسے اس خون سے خوف محسوس ہو رہا تھا۔ کسی کے جان دار جسم سے نکلا یہ جیتا جاگتا خون معلوم نہیں اس کی زندگی بچا لے گا یا اجاڑ دے گا۔ دُکھی ماں کی نالائق اولاد نے اسے بے حد افسردہ کر دیا۔ باہر تاریکی بڑھ رہی تھی ۔وہ گھر پہنچی تو اس کا چہرہ پیلا تھا اور دن بھر کی مشقت نے اسے تھکا کر چور کر دیا تھا۔
آپی کب کی آئی بیٹھی تھیں۔ وہ خالہ راشدہ کو سمجھانے کے لیے بلائی گئی تھیں۔ اچھے رشتے روز نہیں آتے ۔یوں وہ ناک اونچی رکھنے کو باتیں بنا لیں تو کل کو پچھتائیں گی۔ خالہ راشدہ اگر دنیا میں کسی کی سنتی تھیں تو آپی کی۔
’’اوئی یہ جراثیموں سے بھرا کوٹ اٹھا کر گھر لے آئی۔ دے جا کر دھوبن کو۔ وعلیکم السلام۔ کیسی ہے تو؟‘‘
وہ آپی سے لپٹ گئی۔ وہ بہت مدّت بعد آئی تھیں لیکن ویسی کی ویسی ہی تھیں۔
’’اری شکل دیکھی کیسی پیلی پھٹک ہو رہی ہے۔ ارے ڈاکٹر کہیں ایسے ہوتے ہیں ۔جنہیں اپنی صحت کا دھیان نہ ہو دوسروں کی صحت پر خاک توجہ دیں گے۔‘‘
وہ مسکراتی ہوئی کوٹ لانڈری میں پھینک کر غسل خانے کے آئینے میں صورت دیکھنے لگی۔
’’آپ کو میری شکل اچھی نہیں لگی آپی۔ اب سب آپ کی طرح چندے آفتاب چندے ماہتاب تو نہیں ہو سکتے ناں۔‘‘ اس نے دونوں ہتھیلیوں پر صابن رگڑ کر منہ پر تھوپا۔ بے تحاشا پانی کے چھپکے مار کر وہ مسکراتی باہر آگئی۔
’’تو کپڑے بدل آ۔ میں نے تو تیرے انتظار میں شام کی چائے بھی نہیں پی۔‘‘ وہ ان کے نزدیک کوئی گندی سی پلید چیز تھی۔
حدّت دیتی چائے کی پیالی نے اس کی ساری تھکان اتار دی۔ جب تک وہ دوسری پیالی بناتی خالہ راشدہ کی سیاست بیچ میدان میں آگئی تھی۔ آپی غصے سے ہاتھ ہلا رہی تھیں۔ غریب فاطمہ کی کھوٹی قسمت کا دکھڑا اسے زیادہ اپیل نہیں کرتا تھا۔ وہ اپنی پیالی اٹھا کر آپی کے نومولود سے کھیلنے لگی۔ رات کو ڈاکٹر سہیل نے ابو سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اناٹومی کا چوتھا چیپٹر اسے سمجھا جائیں گے۔ وہ کتنے دن سے کرم کانٹے بنا کر کسی نتیجے پر نہیں پہنچ رہی تھی۔ اس نے ڈرائنگ روم سے آپی کی آمد کی خوشی میں بکھرے کشن سمیٹے۔ صوفے کی گدیاں ٹھیک کیں۔ آپی وغیرہ خالہ راشدہ کی طرف چلے گئے۔ ڈاکٹر سہیل اس پر رات گئے تک مغز مارتے رہے۔ وہ فارغ ہو لیتی تو وہ بقیہ گفتگو کے لیے ابو کو نشانہ بناتے۔ ان کے اور ابو کے درمیان سیاست ایسے زیر بحث آتی جسے پاکستان کے تمام معاملات انہی کے ہاتھوں سے نکل کر انجام پاتے ہوں ۔وہ خاموشی سے اپنے کمرے میں ان کے رٹے رٹائے ہوئے فارمولے مزید رٹتی رہی۔
یہ گزشتہ روز کی تھکان ہی تھی کہ اس کو صبح اٹھنا دوبھر ہو گیا۔ صبح ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے ڈاکٹر فاروق اپنا لیکچر شروع کر دیں گے۔ اس کے بعد وارڈ کے دروازے بند ہو جاتے ہیں اور کسی شخص کو اندر جانے کی اجازت نہیں۔ صبح اسے بھاگتے دوڑتے دیکھ کر آپی جھلاّنے لگیں۔
’’پڑھائی نہ ہوئی دُم چھلا ہو گئی۔ جی کا جنجال بن گئی۔ ہم نے بھی پڑھا تھا ،یوں سر پر سوار نہیں کر لی تھی پڑھائی۔ تین بجے تک ضرور آجانا۔ مجھے بازار جانا ہے۔‘‘
بس مس ہو گئی تھی۔ اس نے رکشا پکڑا اور دروازے بند ہونے سے پہلے پہنچ گئی۔ اس کے بعد پرندہ بھی پر مارنے کی جرأت نہ کرتا۔ سٹاف کی میز کے پاس انہوں نے مریض کی فائلز نکلوا کر پہلے زبانی لیکچر دیا۔ پھر راؤنڈ شروع کیے۔ سارے ہی دیکھے بھالے مریض تھے ،کچھ کل داخل ہوئے،کچھ پرسوں۔ کچھ بہت پرانے تھے۔ وہ ہر مریض کے پاس گزرتے نہایت تفصیل میں جا رہے تھے۔ پھر وہ آئی سی یو کی طرف نکل گئے۔ ہفتے تک سرخ کمبل ڈالے خون کی تھیلی سوئی کے ذریعے بازو میں گھونپے وہ ہوش اور بے ہوشی کی درمیانی کیفیت میں تھا۔ لالہ نے اسے لمحے بھر میں پہچان لیا۔
وہ اب خطرے سے باہر تھا۔ خون کی یہ آخری تھیلی اس کو لگائی جا رہی تھی۔ ڈاکٹر فاروق نے اس کی فائل کھولی اور سٹوڈنٹس کی طرف پلٹ گئے۔ وہ اس کے زخموں کی تفصیل کی بابت سمجھا رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ روڈ سائیڈ ایکسیڈنٹ زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔
اس نے جھک کر دیکھا۔ اس کی سانس ہموار نہیں تھی۔ جسم سے اٹھتے والے درد کی ہر تکلیف اس کے چہرے پر پڑھی جا رہی تھی۔ ڈاکٹر فاروق نے فائل واپس سٹاف کو دے دی۔ وہ اگلے مریض سے ہو کر دروازے سے باہر چلے گئے۔ لیکن وہ کھڑی رہ گئی۔ اس کی آتی جاتی سانسوں کو گنتی، اس کی تکلیف کو محسوس کرتی رہی۔
’’اے۔ تم جو کوئی بھی ہو، میری بات سنو۔‘‘ اس نے اس کے بستر پر جھک کر آواز دی۔
مریض نے میکانکی انداز میں آنکھیں کھول دیں۔ درد کی شدت سے اس کی آنکھوں میں سرخ ڈورے تھے۔ وہ بہت دیر تک ماحول کو پہچاننے کے لیے آنکھیں پٹپٹاتا رہا۔لالہ کے لیے مریض کا یہ رویہ بالکل اجنبی نہیں تھا۔ اینستھیزیا کے زیر اثر مریض اسی طرح غافل ہوتا ہے۔ لیکن اس نے سُن رکھا تھا اس کے دماغ میں کچھ ڈالنے کے لیے اس سے بہتر موقع کوئی اور نہیں ہوتا۔
’’تم جوان آدمی ہو۔ وطن کا سہارا ہو۔ اگر تم چاہو تو محنت مزدوری کر کے کام کاج کر کے اپنے وطن کی عزت بنا سکتے ہو۔ تمہیں یہ غنڈہ گردی، مارپیٹ ،دادا گیری سے کیا ملتا ہے۔ تم نے دیکھا اس کا انجام کیا ہوتا ہے۔ تم مر جاتے تو تمہیں یہاں جاننے والا کوئی بھی نہ تھا۔ اور تمہاری ماں ساری عمر تمہارا انتظار کرتی رہتی۔‘‘ اس نے ذہن پر زور دینے کی کوشش کی۔ اس کی تیوریاں سکڑ گئیں۔ لیکن شاید وہ اس بات کا مفہوم سمجھنے سے بالکل قاصر تھا۔ کتنی دیر اس نے آنکھیں اس پر مرکوز کیے رکھیں، پھر تھک کر بند کر لیں۔
’’تم نوجوانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ تم تعمیری کام کرنا نہیں چاہتے۔ راتوں رات بس دولت مند بننے کے خواب دیکھتے ہو۔ اپنا خون ایک دوسرے سے لڑکر بہانے کی بجائے وطن کی خاطر بہاؤ۔ سنا تم نے۔‘‘
لیکن اس نے شاید کچھ سنا تھا اور کچھ نہیں۔ وہ ابھی مسکن سیال کے زیر اثر تھا۔ خون کی بوٹی کی طرح سرخ آنکھیں اس نے ایک مرتبہ کھو لیں اور کچھ کہنا چاہا۔ لیکن اس کو قے آگئی۔ وہ جانتی تھی آئی سی یو کے کسی مریض سے اس طرح پیش آنے کا کیا مطلب ہو سکتا ہے۔ وہ الٹے قدموں دوڑ کر اپنے گروپ کے ساتھ جا ملی۔ اپنے طور پر اس نے تبلیغ کر لی تھی۔ وہ اس سوئے ہوئے شخص کے لاشعور میں کام کرنے کی خواہش گھسیڑ آئی تھی۔
وہ پنجوں کے بل دوڑتی گئی اور راؤنڈ کرتے لوگوں کے ساتھ اس طرح مل جل گئی جیسے درمیان سے وہ غائب ہوئی ہی نہ تھی۔ کتنی مرتبہ اسے لگا وہ خون میں لتھڑا مریض چاقو لے کر اس کے پیچھے دوڑ رہا ہے۔ وہ ٹھنڈے لمبے برآمدوں میں پلٹ کر دیکھتی تو گھبراتی۔ یہ اتفاق ہی تھا کہ اس دن سڑک پر رش گم تھا ،یا ہیما مالنی تیز دوڑی تھی، لیکن وہ کلاس شروع ہونے سے دس منٹ پہلے پہنچ گئی۔ یونہی بے فکری سے برآمدوں میں ٹہلتے تیر کی طرح ایک نیا اچھوتا خیال اس کے دماغ سے ٹکرایا۔کل اس نے جو بکواس کی ،جانے اس نے جاگتے سنی بھی یا سن کر سو گیا اور بھول گیا ہو۔
آج وہ یقیناًہوش میں ہو گا۔ اسے اس کا ذہن بہت سا درست کرنا تھا۔
آئی سی یو کے بند دروازوں کے پیچھے نسبتاً نیم اندھیرے میں اس کے بستر تک پہنچ کر اس کو پہچاننے میں اسے کچھ وقت لگا۔ وہ تیز روشنی سے آئی تھی اور آنکھیں اندھیرے ماحول سے مانوس نہیں ہو پا رہی تھیں۔ لیکن اتنا تو اس نے فوراً ہی دیکھ لیا، اس کے بستر پر کوئی نیا مریض داخل ہو چکا تھا۔
وہ کچھ دیر کو ششدر سی رہ گئی۔
اس کے گمان میں بھی نہیں تھا۔ وہ اتنی جلدی مر جائے گا۔
حالاں کہ اس کی دلی خواہش تھی کہ وہ اس کو ایک مہذب شہری کی صورت میں دیکھے۔ اگر اس نے مرنے میں اتنی جلدی نہ کی ہوتی تو اس نے اس کو کامیاب انسان بنانے کا تہیہ رات ہی کو کر لیا تھا۔ یہ بھی اس کے پیشے کا ایک حصہ تھا۔ اس نے سٹاف کی طرف دیکھا ،وہ تن دہی سے رجسٹر پر جھکی ہوئی تھی۔ وہ افسردہ سی رہ گئی۔ ہم سب لوگ ایک دن انسان سے روبوٹ بن جاتے ہیں۔ ہم پر سردوگرم اثر کرتے ہیں نہ کسی کی زندگی موت۔
وہ سٹاف کی میز پر جھکی۔ تھوڑی دیر اس نے سوچا۔
واقعی ا س کو اپنی طبیعت کا ملال ختم کر کے اپنے آپ کو ڈھب پر لانا ہو گا۔
تھوڑی دیر میں سر فاروق دروازہ بند کر وا دیں گے۔ اس نے کلائی پلٹ کر وقت دیکھا۔ وہ کبھی لیٹ نہیں ہوتی تھی۔ کبھی کسی سے پیچھے نہیں رہتی تھی۔ اسی لیے غالباً وہ سر فاروق کی چہیتی سٹوڈنٹ تھی۔ وہ مرے مرے قدموں سے برآمدوں کو عبور کرتی سرجیکل میں چلی گئی۔ کبھی کبھی کسی معمولی بات کا انسان پر بڑی شدت سے اثر ہوتا ہے۔ سر فاروق فریکچر کمپاؤنڈ کے بارے میں سمجھا رہے تھے۔ انہوں نے وزن کے سہارے پاؤں لٹکائے کسی مریض کے بارے میں بڑی تفصیل سے پڑھایا تھا۔ لیکن اس کی سمجھ میں اس طرح نہیں آیا، جیسے ہمیشہ آجاتا تھا۔
پھر وہ ساتھ ساتھ راؤنڈ پر نکل جاتے۔
بیڈ نمبر ایک۔۔۔ دو۔۔۔تین۔۔۔
وہ باری باری ہڈیوں اور جوڑوں کی ٹوٹ پھوٹ کی تفصیل میں جاتے بڑی سہولت سے سمجھا رہے تھے۔ وہ مریض کے سرہانے کھڑے ہو کر فائل کسی بھی سٹوڈنٹ کو پکڑا دیتے۔ وہ بلند آواز سے پڑھتا جاتا۔ درمیان درمیان میں ڈاکٹر فاروق ٹوک کر سمجھا دیتے۔
اگلے مریض کی فائل لالہ کے ہاتھ میں تھی کہ وہ اچانک ٹھٹک گئی۔
اے ہاں واقعی۔ اس نے یہ کیوں نہیں سوچا۔
وہ اب پہلے سے بہتر تھا۔ اس لیے وہ آئی سی یو سے یہاں شفٹ کر دیا گیا تھا۔
گولی اس کے بازو کو معمولی سا چیرتی گوشت میں چوٹ لگا کر گزر گئی تھی۔ ہڈی میں معمولی سی چوٹ لگی۔ اس کا یہ فریکچر کمپاؤنڈ نہیں تھا۔ گویا وہ آج کا موضوع نہیں تھا۔ ڈاکٹر فاروق نے فائل واپس رکھنے کا حکم دیا اور اگلے مریض کی طرف نکل گئے، اپنے ریوڑ کے ساتھ ساتھ۔ لیکن وہ وہیں کھڑی رہ گئی اسی طرح۔
’’فائل رکھ دو۔‘‘ اس نے ڈاکٹر فاروق کا حکم بھی نہ سنا تھا۔
وہ خاموشی سے اس کی شکل دیکھتی رہی۔ یہ شخص پرسوں جب یہاں آیا تو بے تحاشا خون بہ جانے کے باوجود صحت مند لگ رہا تھا لیکن اس وقت سرخ کمبل سینے سے اوپر تک پھیلائے ناہموار سانسوں میں برسوں کے مریض کی طرح پیلا پھٹک ہو رہا تھا۔
’’لقمان۔ لقمان صاحب۔‘‘ اس نے تیز لہجے میں آواز دی۔ وہ شاید سو نہیں رہا تھا۔ اس نے سفید کوٹوں کی یلغار سے بچنے کے لیے آنکھیں میچ لی تھیں۔
اس نے پٹ سے آنکھیں کھو لیں۔ بے رنگ آنکھوں سے اس کو گھورا۔ وہ اس کو جتا دینا چاہتا تھا کہ وہ اس کے آرام میں مخل ہو رہی ہے۔ اور جانے کیا چاہتی ہے۔ بتاتی تو ہے نہیں۔
’’میں تمہاری ڈاکٹر ہوں۔ ڈاکٹر لالہ رخ۔ میں نے تمہارا آپریشن کیا تھا۔‘‘
’’اوہ۔‘‘ اس کی سوال کرتی آنکھیں آرام سے بند ہو گئیں۔
’’مجھے تم سے کچھ کہنا ہے۔‘‘ اس نے اس کو سوجانے کے ارادے سے باز رکھنے کی کوشش کی۔
’’ہوں؟‘‘
’’سنا ہے سڑک پر تمہارا کسی سے جھگڑا ہو گیا تھا۔ خوب چاقو گولیاں چلی تھیں۔ تم کسی کی اولاد ہو۔ اے کیا نام ہے تمہارا؟‘‘ اس نے فائل کور دیکھا۔
’’ہاں لقمان۔ لقمان صاحب۔ تو کوئی تمہارے ماں باپ ہوں گے۔ بہن بھائی ہوں گے۔ یابیوی بچے۔ اور کوئی نہیں تو یہ ملک تو تمہارا اپنا ہی ہے۔ کیا تمہیں افسوس نہیں ہوتا ،تم اپنی طاقت اور جوانی کن ناکارہ باتوں پر گنوا رہے ہو۔ اگر تم فوج میں بھرتی ہو جاؤ۔ کسی کارخانے میں ملازم ہو جاؤ تو نہ صرف معاشرے کے لیے بلکہ اپنے گھر کے لیے بھی کارآمد شہری بن سکتے ہو۔‘‘
وہ جانتی تھی پندونصائح سننا آسان نہیں۔ اس کے چہرے پر بکھری ناگواری اس سے چھپی نہیں تھی اور کمبل کے پیچھے اس کا بے چین ہوتا وجود بتا رہا تھا کہ اس کو اختیار ہوتا تو اس کی بکواس پر ایک چاقو اس کی گردن میں بھی بھونک کر اسے ہمیشہ کے لیے چپ کرا دیتا۔ لیکن وہ چپ نہیں ہوئی۔
’’تم تو چاہتے تھے دوسروں کو زخمی کرو اور قسمت دیکھو کہ زخمی خود ہوئے ہو۔ اگر تم مر جاتے تو سوچو۔ ایک لاری کے نیچے دب کر مر جانے والے کتے بلی میں اور تم میں کیا فرق ہوتا۔ بے کار۔ بے مقصد۔ یہی جان تم اپنے وطن کی خاطر گنواؤ، ملک کی خاطر لٹاؤ تاکہ تم مرو تو قوم تم پر فخر کرے، صرف گھسیٹ کر سڑک کے کنارے نہ ڈال دے۔‘‘
مریض نے اپنی آنکھیں پوری کھول دیں۔ اس کی آنکھوں میں نفرت تھی،غصہ تھا، حقارت تھی۔
لیکن جو چیز ہر جذبے پر حاوی تھی، وہ نقاہت تھی۔ اس نے کتنی مرتبہ منہ کھولا۔ اس کے ہونٹ کپکپائے جیسے مخاطب کو جی بھر کر گالیاں دینے کی خواہش ا س کو بے چین کر رہی ہو۔ لیکن پھر وہ ہونٹ دانتوں میں دبا کر چپ ہو گیا۔
’’میں جب آپریشن تھیٹر میں تمہارا خون صاف کر رہی تھی تو پہلا خیال مجھے پتا ہے کیا آیا تھا؟ یہ جو بے دریغ خون کسی جھگڑے کے نتیجے میں بہا ہے، اس جھگڑے کی نوعیت کیا ہو گی؟ شاید سونے کی چند چوڑیاں۔ نہیں تو چند ہزار روپے۔ اور یا کوئی ایسی ہی پیسوں والی چیز۔ بس یہی ہے تمہاری اوقات؟ لعنت ہے ایسے پاکستانی نوجوانوں پر۔‘‘ اس نے دوڑتے دوڑتے ڈاکٹر فاروق کے گروپ کو پیچھے سے جا لیا۔ وہ وارڈ سے باہر نکل ہی رہے تھے۔
اس نے جلدی جلدی سائرہ سے نوٹ بک لے کر کاپی کی۔
’’تم کہاں رہ گئی تھیں؟‘‘ سائرہ نے اس کا ہاتھ دبایا۔‘‘ ڈاکٹر فاروق پوچھ رہے تھے۔‘‘
کہاں رہ گئی تھی۔ اس نے پلٹ کر وارڈ کی طرف دیکھا۔ وہ گردن ذرا سی اٹھائے اصلاحِ معاشرہ کی اس جنونی لڑکی کو بھاگتے دیکھ رہا تھا۔
’’کوئی واقف ہیں تمہارے؟‘‘
اس نے وارڈ سے باہر نکل کر سکون کا سانس لیا۔ وہ پرسوں سے اس شخص کے بارے میں جو کچھ سوچتی آرہی تھی، سب اگل آئی تھی۔ اس لیے جب وہ گھر آئی تو بہت ہلکی پھلکی اور بشاش تھی۔ اس نے آپی کے بچے کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلی، چھوٹے کے کپڑے بدلوائے اور گھر میں خالہ راشدہ کی بیٹی والے ہنگامے میں حتی المقدور دلچسپی لے کر اظہارِ رائے بھی کیا۔
’’اے کوئی فاطمہ کی مرضی بھی تو پوچھے۔‘‘
’’اے ہٹو فاطمہ کی مرضی۔‘‘ آپی نے گُھرکا، ’’یہ مرضیاں ورضیاں بھی ایک نئی بیماری نکلی۔ لڑکی کیا مرضی۔ جو ماں باپ کی، وہ لڑکی کی۔‘‘
وہ چپ چاپ ہٹ آئی۔
ڈاکٹر احسان پاگلوں کی طرح ٹیسٹ لیتے تھے۔ اس نے کمرے میں کیمپ آن کیا۔ ڈاکٹر سہیل کے سمجھائے نوٹس آہستہ آہستہ پڑھنے لگی ۔اسے اتفاق سے ڈاکٹر فاروق ہی کی نہیں، ڈاکٹر احسان کی آنکھ کا تارا بھی بننا تھا۔ ایک مرتبہ آپ غلطی سے کلاس میں کوئی پوزیشن لے لیں تو ساری عمر اسی پوزیشن کو برقرار رکھنے میں گزر جاتی ہے۔
وہ کتابوں میں غرق تھی، جب امی نے غسل خانے کا دروازہ بند کرنے، دودھ پی لینے اور بادام کھا کر فوراً سو جانے کی ڈانٹ بھری بھبکی دی تھی۔ آج کی پڑھائی سے اس کا دھیان بار بار پلٹ رہا تھا۔ کبھی اس کی توجہ عبدل کے گانے کی طرف جاتی۔ وہ اس کے بول سننے اور دہرانے کی کوشش میں کتابوں سے دُور ہو جاتی۔
غم کی اندھیری رات میں دل کو نہ بے قرار کر۔۔۔
پھر اسے لگتا چوکیدار کی سیٹی عبدل کے کیسٹ کے سروں کے ساتھ مل کر ماحول کو اور زیادہ بھیانک بنا رہی تھی۔ لیکن دراصل اسے صبح کا انتظار تھا۔ صبح آئے تو وہ صرف یہ دیکھے کہ ا س کی اتنی لمبی چوڑی تقریر کا اس پر کچھ اثر بھی ہوا۔ سنتے تو آئے ہیں تقریریں انسان کی تقدیریں بدل دیتی ہیں۔ میڈیکل لائن میں آنے سے پہلے جب وہ کبھی کبھار فاطمہ وغیرہ کے ساتھ فلم دیکھنے جایا کرتی تھی، تب اس نے یہی دیکھا تھا۔ اچھا بھلا ولن ایک لمبی چوڑی تقریر سے مومن ہو جاتااور گاؤں کی ساری عورتوں کو بے سوچے سمجھے اپنی بہن بنا لیا کرتا۔
اسے اتنی بہت کی توقع نہیں کی تھی۔ لیکن اپنے بارے میں اس کو بڑے گمان تھے۔ اس نے اپنے خیال میں تو ایسی دل پذیر تقریر کی تھی کہ اب وہ یہاں سے ڈسچارج ہوتے ہی معزز اور نیک شہری بن جائے گا بلکہ اصلاحِ معاشرہ کے تمام کام اب اس کی سپردگی میں انجام دئیے جائیں گے۔
لیکن کل آئی تو اس کا بستر دلہن ایسے سرخ کمبل میں جھڑا پونچھا ،کسی نئے آنے والے کا منتظر اور اس کے جانے کا نوحہ پڑھ رہا تھا۔ وہ لمحہ بھر کو ٹھٹکی۔
’’سسٹر !یہ بیڈ نمبر تیرہ کہاں گیا۔‘‘
’’السلام علیکم ڈاکٹر۔ وہ تو چلے گئے ہیں ڈاکٹر۔ وہ تو بہتر تھے پہلے سے۔ سرجن نے کہا ہے ہفتہ کے روز آ کر Stiches کٹوا لینا۔ اور ہاں ڈاکٹر۔ ڈاکٹر شکیلہ نے یہ نوٹ بھیجا ہے ۔انہوں نے کہا ہے کہ چوں کہ یہ Stiches آپ نے لگائے تھے ،اس لیے آپ ہی ان کو Remove کریں گی۔‘‘
بعض شخصیتیں بڑی عجیب ثابت ہوتی ہیں۔ وہ آتی ہیں تو انسان ان کے بارے میں بہت سوچتا ہے اورجب چلی جاتی ہیں تو انسان ان کو بالکل بھول جاتا ہے۔
یہی آپی کے ساتھ اور اس مریض کے ساتھ ہوا۔ کیا نام تھا بھلا اس کا؟
اس نے وزنی کتاب دھڑ سے بند کر دی۔ اور عجیب ستم تھا کہ اس نے آنکھیں بند کر کے مریض کے نام پر ذہن پر بڑا زور دیا۔ لیکن ایک تو اس پر دل کی بائیولوجی طاری رہی (کل کیوں کہ ایک اہم لیکچر رہا تھا) اور دوم آپی کے ایک دم واپسی کے ارادے نے اس کی سابقہ یادداشتوں کو تھوڑا سا متاثر کر دیا۔ اس نے آپی کی منتیں خوشامدیں کیں۔ چند دن اور رُک جائیں۔ تھوڑے دن ٹھہر جائیں۔ ابھی تو اس کا جی ان کے آنے سے سیر بھی نہیں ہوا تھا۔ اور ان کی رونقیں۔
’’لو اس کی بات سنو۔ صبح سے شام تک تم میڈیکل کالج سے ہسپتال اور ہسپتال سے ایمرجینسی کے چکر لگاتی پھرتی ہو، گھر آتی ہو تو ٹیوشن پڑھنے بیٹھ جاتی ہو۔ رات ہوئی تو کمرہ بند کر کے کتابیں۔ اس صبح سے اگلی صبح تک سوائے کتابوں کے تمہارا رشتہ دار ہی کون ہے۔‘‘
’’پلیز آپی۔‘‘
’’کاہے کو۔‘‘ آپی نے جھڑکا،’’ میں تو اپنے ماں باپ سے ملنے آئی تھی بس مل لی۔ اچھا دیکھو۔ ‘‘وہ اس کی خوشامدوں کے آگے نرم پڑیں۔
’’آج میں جا رہی ہوں۔ آج تم کالج نہ جاؤ تو جانوں۔‘‘
اس نے جوش میں آ کر درخواست لکھی اور بڑا احسان کا ٹوکرا لاد کر سائرہ کے ہاں بھجوا دی۔
اور سارے چکر میں اسے لمحہ بھر کے لیے بھی یاد نہیں آیا کہ ہفتہ کا دن آج تھا۔
چغل خور ڈاکٹر شکیلہ کی تحریری ناراضی پڑھ کر ذرا حیران سی ہوئی۔
’’ہائیں سٹاف، انہوں نے یہ کیا لکھا ہے۔ بیڈ نمبر 13 مریض بنام لقمان احمد۔ مجھے کس مریض کو ہفتے کے روز۔ اوہ ہاں۔‘‘ اس نے سر پکڑ لیا۔
’’لقمان احمد۔ یہی تو تھا اس کا نام لقمان احمد۔‘‘ اسے ہنسی آگئی۔’’ ریموو (Remove) ہو گئے اس کے ٹانکے؟ کس نے کیے ہیں؟ اچھا۔‘‘ اس کو بڑا دکھ ہوا۔ آپی بھی عجیب ہیں خوامخواہ اس کی چھٹی کرا دی۔ اس میڈیکل لائن میں ۔۔۔شاید یہ اس کی دوسری یا تیسری ہی چھٹی تھی۔ وہ لمبی چوڑی چھٹیاں لینے کی قائل ہی نہ تھی۔
وہ سرجن کمال کو ڈاکٹر شکیلہ کا لیٹر دے کر وضاحت دینے چلی گئی۔
پھر شاید ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اسے یہ واقعہ بھول ہی گیا۔ ہسپتال بہت بڑا ہے اور ہر روز یہاں ایک نیا واقعہ رونما ہو کر پچھلے واقعہ کو بھلا ڈالتا ہے۔ اس پر امتحان جیسا مہلک مرض۔ وہ سب کچھ آہستہ آہستہ بھول گئی۔ امتحان نزدیک آتے آتے کل پرسوں کی بات رہ گئے تھے۔
ہاں! وہ ایسی ہی ایک تاریک رات تھی جس میں عبدل کا کیسٹ بھی تھک کر سو گیا تھا۔ امی نے اس کا گلاس اور چھلے ہوئے بادام رکھ کر جمائیاں لیتے کہا تھا، ’’دیکھو ،دروازہ دیکھ لینا۔‘‘
پھر وہ چلی گئیں۔ آج رات اس کا جلدی سونے کا پکا پکا پروگرام تھا۔ ڈاکٹر شجاعت نے کل بے آرام ہونے پر بڑی دلنشیں تقریر کی تھی۔ اور یوں بھی کتاب پر ایک ہی رخ بیٹھے بیٹھے اس کے کندھوں کے اعصاب میں کھچاؤ آگیا تھا۔
’’ابھی سوتی ہوں‘‘ سوچتے سوچتے اس نے ایک سو بیس صفحے پلٹ ہی دئیے تھے۔
اچانک اس کی توجہ بٹی۔ اس کی پڑھائی ڈسٹرب ہوئی۔ جیسے سناٹے میں کوئی ارتعاش پیدا ہوا۔ جیسے کوئی وزنی سی چیز گری اور اس نے خاموشی کا اسرار توڑ دیا۔
کتابوں سے اس کی توجہ ہٹ گئی۔ کتنی دیر سے وہ اتنی مشغول تھی کہ باہر کی طرف سے اس کی توجہ بالکل ہٹی ہوئی تھی۔ کیا ہوا ہو گا؟ اس نے ذہن پر زور دے کر سوچنے کی کوشش کی۔ کوئی کتا بلی کے تعاقب میں دیوار سے کودا ہے یا کسی نے گھر کا کوئی دروازہ زور سے بند کیا ہے۔ ایک تو امّی کو پتا نہیں کیوں رات کو نیند نہیں آتی اور وہ گھر بھر میں ٹہلتی پھرتی ہیں۔ اس نے کتاب میں نشانی کاکارڈ لگا کر اٹھنے کی کی۔
امی کو سونے سے پہلے ویلیم لے لینی چاہیے۔ وہ خوامخواہ دنیا بھر کی سوچوں میں غلطاں۔۔۔ جیسے شور اس کے دماغ میں پلٹ آیا۔ اس نے یاد کرنے کی کوشش کی، اس نے جو شور سنا،وہ دروازہ بند کرنے کا نہیں تھا۔ وہ دھم یادھپ سے ملتا جلتاتھا۔ کبھی کبھی وہ جب صحن میں سویا کرتی تھی تو بلی دیوار سے کو د کر اسی طرح اسے خوف زدہ کر دیتی تھی۔
ابھی اس نے دوبارہ کتاب کھولی ہی تھی کہ سڑک بھاگتے دوڑتے قدموں اور چوکیدار کی تیز سیٹی سے گونج اٹھی۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟
اسے اچانک فضا میں کچھ اسرار سا محسوس ہوا۔ دوڑتے بھاگتے لوگ اور چوکیدار کی سیٹی آگے نکل گئی۔
’’اوہ!‘‘اس نے پینسل، کتاب میں رکھ کر کتاب بند کر دی۔’’ ہو نہ ہو یہ کسی چور کا تعاقب ہو رہا ہے۔‘‘
وہ کتنی مدّت سے راتوں کو جاگ کر پڑھ رہی تھی لیکن ایسی واردات آج تک نہیں ہوئی تھی۔ اس نے بے ساختگی میں کلاک پر نگاہ ڈالی۔ تین بجنے میں بیس منٹ رہ گئے تھے۔
ایسی ویران سی سڑک پر چور اور سپاہیوں کا تصور کر کے اس کو بڑا خوف آیا۔ وہ بزدل نہیں تھی لیکن ایسی تاریک رات میں وہ لان میں جھانک کر دیکھ نہیں سکتی تھی۔ کیا چور بہادر ہوتے ہیں؟ اس نے سوچا۔ انہیں تاریک راتوں ویران سڑکوں کسی چیز سے ڈر نہیں لگتا۔
خیر!اس نے خوف زدہ ہو کر سوچا۔ اگر چور اس گھر میں کودا بھی ہے تو پولیس کے جانے کے بعد لان سے واپس ہو جائے گا۔ کتنی دیر خوف کی شدید لہر اس کی ریڑھ کی ہڈی سے سنسناتی گزرتی رہی۔ اس نے کتنی مرتبہ سوچا وہ اٹھ کر امی کے کمرے میں جا سوئے لیکن دہشت نے اس کو یہاں تک ساکن کر دیا کہ وہ ہل جل بھی نہیں سکتی تھی۔ اس نے جگ میں سے انڈیل کر ایک گلاس پانی پیا۔ کتاب بند کر کے سرہانے رکھی۔
یہ ایسی کوئی بات نہیں۔ اس نے سکون سے سوچا۔ وہ جو بھی تھا اب گزر گیا۔ پولیس اس کے پیچھے ہے۔ ظاہر ہے کوئی چور صرف ہمارے گھر آنے کے لیے تو اپنی جان کی بازی لگا کرنکلا نہیں۔ پتا نہیں کیوں ہمیں ہمیشہ ایسا احساس ہوتا ہے جیسے چور صرف ہمارے گھر آنے کے لیے گھر سے نکلتے ہیں۔
اس کا خوف آہستہ آہستہ زائل ہو گیا۔ وہ شاید پانی کے گلاس کی تاثیر تھی یا اس کے سوتے سوتے دماغ کا کرشمہ جو اچانک بیدار ہو گیا تھا۔
اس نے کونے میں پڑی اناٹومی کی کتاب پر نظر ڈالی۔ کیا حرج تھا اگر سونے سے پہلے وہ اب تک کے پڑھے ہوئے کا خلاصہ دیکھ لے۔ وہ دوبارہ کرسی پر جا بیٹھی۔ لیمپ شیڈ جھکا کر اس نے کتاب پر نظر ڈالی۔ پاؤں چپلوں کی قید سے آزاد کیے ۔ آرام اور سکون کی حالت میں وہ کتاب میں منہمک ہونے کی کوشش کر رہی تھی کہ پوری جان سے کانپ گئی۔ غسل خانے میں کوئی چیز گرنے کی آواز آئی۔
ایسی آوازیں وہم سے نہیں آتیں۔
’’کون ہے؟‘‘ بے ساختگی میں اس کی آواز معمول سے بلند ہوئی۔
کتنی دیر غسل خانے میں خاموشی رہی۔ پھر دروازہ ہلکے سے چرچرایا اور وہ سامنے آگیا۔
’’اوف!‘‘ اس نے منہ سے نکلتی بھیانک چیخ کو مشکل سے روکا۔
’’پلیز چیخیں نہیں۔‘‘ اس نے منّت سے کہا، ’’وہ ذرا آگے نکل جائیں تو میں چلا جاؤں گا۔ آپ نے شاید مجھے پہچانا نہیں۔‘‘ اس نے اِدھر ادھر خوف زدہ نظروں سے دیکھا اور دَبے پاؤں چلتا وہ خاموشی سے سامنے والی کرسی پر آبیٹھا۔
’’میں آپ کا مریض ہوں لقمان۔‘‘
’’کون لقمان؟‘‘ اس نے خوف زدہ بے توجہی سے پوچھا۔
’’آپ نے میرا آپریشن کیا تھا۔‘‘ اس نے بے چینی سے زبان ہونٹوں پر پھیری،’’ مجھے شاید پیاس لگ رہی ہے۔‘‘
اس نے جگ سے گلاس میں پانی انڈیل کر ایک سانس میں چڑھا لیا۔ لالہ نے آہستگی سے اس کی طرف نگاہ اٹھائی۔ وہ رات کے لباس میں تھا اور اس کے پاؤں میں چپل بھی نہیں تھی۔ شاید اسی لیے اس کے پاؤں زخمی ہو گئے جن کو وہ قالین پر آہستہ آہستہ رگڑ رہا تھا۔
’’میں نے آپ کو غسل خانے سے دیکھا تو پہچان لیا۔ میں زیادہ دیر ٹھہر کر آپ کو پریشان نہیں کروں گا۔ میں خاموشی سے وہاں سے واپس جا سکتا تھا مگر میں نے سوچا یہ بے ایمانی ہو گی۔ مجھے اپنے آپ کو آپ پر ضرور ظاہر کرنا چاہیے۔‘‘
اس نے خاموشی سے نگاہ اٹھائی۔ یہ کس قسم کا انسان ہے۔ اور دیکھو کس ڈھٹائی سے ایمان داری کے ٹوکرے اٹھائے پھر رہا ہے۔
’’اچھا۔ تو تم وہ ہو۔‘‘ اس نے بہت دیر بعد سکون سے کہا۔
’’اب خدا کے واسطے کوئی تقریر نہ کیجیے گا۔ ویسے بھی آپ کی تقریر اتنی مؤثر نہیں ہوتی۔‘‘
’’وہ تو میں دیکھ ہی رہی ہوں۔‘‘ اس نے بے ساختگی سے کہا۔
وہ ہنس دیا۔ لالہ نے دیکھا، اس کا خوف آہستہ آہستہ ختم ہو رہاتھا ،اس کی جگہ نہایت سکون سے وہ سپاہیوں کو پیچھے چھوڑ آنے کی تھکن اتار رہا تھا۔
’’اور کیا سوچ کر یہاں آئے ہوکہ میں تمہیں بچا لوں گی؟ تمہارا خیال ہے میں چوروں ڈاکوؤں کا علاج کرتی ہوں تو ان کو قانون کے خلاف اپنی حفاظت میں بھی رکھتی ہوں۔‘‘
’’نہیں رکھتیں۔ نہ سہی۔
وہ ایک شعر ہے ناں:
جان دی دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا‘‘
’’اس کا کیا مطلب؟‘‘ اس نے تلخی سے پوچھا، ’’اٹھو اب تم جاؤ یہاں سے۔ میرا خیال تھا تم کچھ سدھر گئے ہو گے۔‘‘
’’مطلب تو اس کا یہ ہے کہ جان خدا کی دی ہوئی ہے، لہٰذا اسی کو لوٹانی ہے۔ لہٰذا آپ نے اگر خدا کی راہ میں جان دی بھی تو کوئی احسان نہیں کیا۔ لیکن میرا مطلب اس وقت جان بچانے سے تھا۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ اس نے دھیان سے بات سن کر بے توجہی سے پوچھا۔
’’بھئی ایک مرتبہ مرتے مرتے آپ نے بچایا تھا، آپ دوبارہ موت کے منہ میں دے دیں۔ آپ کا حق۔ لگتا ہے ڈاکٹری کے سوا اور کچھ نہیں آتا۔‘‘
’’اور لگتا ہے تمہیں ڈکیتی کے سوا کچھ نہیں آتا۔ تمہارے بارے میں میرا اندازہ درست تھا۔‘‘ اس نے سکون سے کہا۔
’’کون سا اندازہ؟‘‘
’’یہی کہ تم پڑھے لکھے خاندان سے ہو لیکن بری صحبت نے تمہیں اس حال میں پہنچایا ہے۔‘‘
’’بجا فرمایا۔ لیکن آپ بولتی زیادہ ہیں افسوس اور سوچتی کم۔ کبھی سوچا بھی کریں۔ آپ کے پاس چائے ہو گی؟‘‘
’’یہ ہوٹل نہیں ہے۔‘‘
’’نہ سہی۔ مجھے معلوم نہیں تھا یہ آپ کا گھر ہے۔ چلئے اچھا رہا۔ آپ کا شکریہ ادھار تھا ،اب ادا کر دیتا ہوں۔ لیکن چائے پئے بغیر نہیں جاؤں گا۔ آپ دیکھ رہی ہیں میری حالت کتنی بری ہے۔ اور آپ چاہتی ہیں میں ان کے ہاتھ لگ جاؤں اور چیل کووّں کی طرح وہ میرا گوشت نوچ نوچ کر کھائیں۔‘‘
اس کو کراہیت سے جھرجھری کی ایک لہر آئی۔
’’آئی ایم سوری ڈاکٹر لالہ رُخ۔ میں نے شاید آپ کو خوف زدہ کر دیا۔ کیا میں ایک سگریٹ سلگا لوں؟‘‘
’’سلگا لو۔ لیکن میری امی کا کمرہ یہاں سے زیادہ دُور نہیں۔‘‘
’’اوہ۔‘‘ اس نے جلائی ہوئی تیلی پھونک مار کر بجھائی۔ ایش ٹرے کی تلاش میں نگاہ اِدھر ادھر گھمائی۔
’’ہاں۔ یہاں ایش ٹرے نہیں ملے گی۔ یہ کافی کا ڈبہ تو ہے آپ کے پاس۔‘‘ اس نے اٹھ کر ڈسٹ بن میں تیلی پھینکی تو اس کی نگاہ پڑ گئی۔‘‘ چلئے آج زبردستی کی مہمان داری کر ہی ڈالیے اور روزروز کہاں ہم آپ کے مہمان ہوں گے۔‘‘اس نے شیشوں کے پاس ٹھہر کر دوبارہ سڑک پر کچھ ڈھونڈتے ہوئے کہا۔
’’کافی بنانے کے لیے کچھ اور سامان بھی تو چاہیے۔ اس کے لیے دوڑ کر کچن میں جانا پڑے گا۔ اچھا۔‘‘ وہ رُکی،’’میں ایک شرط پر تمہیں چائے پلوا سکتی ہوں۔ مجھ سے وعدہ کرو ،آج کے بعد تم چوری نہیں کرو گے۔‘‘
’’میں وعدہ کرتا ہوں آج کے بعد چوری نہیں کروں گا۔‘‘اس نے میکانکی لہجے میں شیشے سے باہر اسی طرح جھانکتے ہوئے کہا۔
’’صرف چائے کی ایک پیالی کی خاطر جھوٹا وعدہ کر رہے ہو۔‘‘
’’جھوٹا؟‘‘وہ ایڑیوں پر گھوما۔’’ بالکل سچا وعدہ۔ میں نے آج تک چوری نہیں کی۔‘‘
چور اور چتر۔ وہ حیرت سے دیکھنے لگی۔ ’’اگر چوری نہیں کرتے تو راتوں کو سڑکوں پر دوڑ دوڑ کر چوکیداری کرتے ہو۔‘‘
’’سڑک پر دوڑنے پر بھی مجھے ان ہی لوگوں نے مجبور کیا ہے۔ میں تو اطمینان سے گھر میں سو رہا تھا بلکہ آپ کی مسیحائی کے بعد کے مزے لوٹ رہا تھا۔‘‘
وہ مسکرایا، ’’میرا خیال ہے آپ اچھی ڈاکٹر بن جائیں گی۔ اچھا چلئے، آپ خود بتائیے آپ کس قسم کی ڈاکٹر بنیں گی؟‘‘
’’کس قسم کی؟‘‘ وہ گڑ بڑائی،’’ کیا مطلب ؟جس طرح کے سب ڈاکٹر ہوتے ہیں۔‘‘
’’یہ تو بڑی مایوسی کی بات ہے۔ میرا خیال تھا آپ عام لوگوں سے مختلف ہوں گی۔ حالاں کہ ہمارے اندازے عام لوگوں سے مختلف ہی ہوتے ہیں۔‘‘ اس نے سخت مایوسی سے کہا۔
’’اچھا۔ حد ہے ڈھٹائی کی۔‘‘ اسے غصہ آگیا،’’کوئی معزز شہری ایسے کہے تو بات بھی بنتی ہے۔ کیا پدی کیا پدی کا شوربہ۔‘‘
وہ بے ساختگی میں اتنی زور سے ہنسا کہ اس کو سنبھلنے میں کچھ وقت لگ گیا۔ چاروں طرف دیکھتے اس نے اپنی ہنسی کی آواز روک لی۔ لالہ ہنسنے کے موڈ میں نہیں تھی۔
’’لوگ عموماً سنی سنائی بات کرتے ہیں۔ آپ کو کیا پتا ڈاکٹر کی کتنی تنخواہ ہوتی ہے؟ وہ عام مزدور کے مقابلے میں کتنی زیادہ مشقت کرتا ہے۔ اس کے گھر میں اس کی بیوی بچے۔ آپ اس غریب سوسائٹی کا ایک حصہ نہیں ہیں۔ آپ کو کیا معلوم اس معاشرے میں کیا کیا المناک پہلو ہیں۔‘‘
’’واقعی۔ درست کہتی ہیں آپ۔‘‘ وہ بالکل سنجیدہ ہو گیا۔ اس نے بے ساختگی میں سگریٹ منہ میں رکھی اور واپس نکال لی۔
’’یہ معاشرے کے المیوں سے واقفیت بھی بڑا دکھ دیتی ہے۔‘‘
وہ کچھ دیر اسی سنجیدگی سے اطراف کا جائزہ لیتا رہا۔ ’’بہت بڑے گھر میں رہتی ہیں آپ۔ ہر روز رات کو اتنی دیر تک پڑھتی ہیں؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’لیکن ہر روز آپ کے ساتھ ایسا واقعہ تو نہیں ہوتا ہو گا۔ آپ کی اجازت سے۔‘‘ا س نے اس کی کتابوں کو چھوا ۔گہرا سانس لے کر اس نے اس کی کتابیں واپس رکھ دیں۔
’’میں نے آپ کو ڈرایا تو نہیں؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’آپ کے اور بہن بھائی ہیں؟‘‘
’’ایک بہن ہے۔ اپنے گھر رہتی ہیں۔‘‘
’’تو گویا ان دنوں اکلوتی ہیں۔ پھر تو آپ بہت لاڈلی ہوں گی۔‘‘
’’نہیں آپی زیادہ لاڈلی ہیں۔‘‘
وہ خوش ہو گیا، ’’ہمیں ہمیشہ یہی شکایت رہتی ہے۔ میری بھی بہن مجھ سے زیادہ لاڈلی ہے۔‘‘
’’کیا آپ کے بھی بہن بھائی ہیں؟ کہاں رہتے ہیں وہ؟‘‘ وہ چپکا رہ گیا۔
’’بہت دیر پہلے آپ نے ایک وعدہ لیا تھا۔ چائے پلانے کے وعدے پر؟‘‘ وہ خجل سی ہو گئی۔
’’میں پانی ابال کر لاتی ہوں۔ اتنے میںآپ اس بستر پر آجائیں ۔کچھ سوکھا دودھ ہے میرے پاس۔ میں آتی ہوں۔‘‘ وہ جاتے جاتے پلٹ آئی۔ وہ اسی طرح کرسی پر بیٹھا تھا۔
’’ہیٹر چلا دوں؟‘‘
’’نہیں شکریہ۔‘‘
’’یہ کمبل لے لیں۔‘‘ اس نے اپنا گرم کمبل اس کی ٹانگوں پر ڈال دیا۔’’ اگر کوئی آنے لگے تو آپ باہر چلے جائیے گا۔ غسل خانے میں نہیں۔ امی غسل خانے میں ضرور جاتی ہیں۔‘‘
’’بہت بہتر۔‘‘ اس نے اپنے جسم کے چاروں طرف کمبل لپیٹ کر زور سے سانس کھینچا۔
’’اس میں سے خلوص کی جو مہک اس وقت آئی ہے، وہ پہلے نہیں آئی تھی۔‘‘
وہ بہت تیزی میں باورچی خانے میں گئی۔ بغیر بجلی جلائے اس نے چولہے پر پانی رکھا۔ بغیر کھڑکا دھڑکا کیسے اس نے برتن اکٹھے کیے۔ بلی کی طرح دبے پاؤں چلتی جب وہ ٹرے لگا کر کمرے میں آئی تو وہ جا چکا تھا۔
اس نے بے ساختگی میں اپنی دراز کھولی۔ اس کی چھوٹی چھوٹی جیولری وہاں محفوظ تھی۔
میز پر پڑھنے سے پہلے اتار کر رکھی ہوئی کانوں کی بالیاں اور رِنگ اسی جگہ پڑی تھی۔ اس نے غسل خانے میں جھانکا۔ باہر نکل کر دیکھا وہ سب طرف سے جا چکا تھا۔
کتنے ہی عرصے اس کے دل پر وحشت طاری رہی۔ کتنی ہی رات اس نے جاگ کر پڑھائی نہیں کی۔ اسے لگتا تھا ،وہ اپنے گھر میں بالکل غیر محفوظ ہو گئی ہے۔ اس خوف ناک اکیلی رات میں اس کے ساتھ کوئی بھی بڑا حادثہ پیش آسکتا تھا۔
اور بڑے حادثے کی کیا پہچان ہوتی ہے۔ کیا معلوم حادثہ اسی کو کہتے ہوں۔
وہ امی کے کہے بغیر رات کو سونے سے پہلے غسل خانے کی کنڈی لگا لیتی تھی، دودھ پی لیتی تھی، بادام کھا لیتی تھی۔ رات گئے تک پڑھنے کی بجائے وہ شروع رات ہی سے امی کے کمرے میں آ کر سو رہتی۔ امی کا دل تو چاہتا تھا وہ اپنی پڑھائی میں اوّل دوم آیا کرے لیکن جس طرح اس نے دن رات کا آرام اپنے اوپر حرام کر لیا تھا، وہ ان کے لیے زیادہ تکلیف دہ تھا۔ وہ سرِ شام سوجاتی تھی۔ پڑھائی اس پر بھوت کی طرح سوار نہیں رہی تھی۔ بلا سے نمبر اچھے نہیں آتے نہ آئیں۔
وہ کالج میں بہت مختلف سی لگنے لگی تھی۔ لمبے لمبے کوریڈورز میں ڈاکٹر فاروق کے گروپ سے بہت پیچھے مرے مرے قدموں سے چلتی ،وہ اپنے آپ سے بیگانہ سی ہو رہی تھی۔ شام کو ڈاکٹر سہیل آتے تو وہ بہانے سے بنانے لگتی اور اپنی ڈھونگی بیماری کے اتنے باریک نکات بیان کرتی کہ ڈاکٹر سہیل اس کی میڈیکل علمیت پر حیران رہ جاتے۔
وہ کیوں اتنی بدل گئی ہے۔ اس کے استادوں کا عملہ، اس کے دوست اس سے باری باری پوچھتے۔ وہ اپنے آپ سے سوال کرتی رہتی، واقعی وہ کیوں اتنی بدل بدلی سی ہو گئی ہے۔ وہ یہ بھید پانہیں سکی۔
پھر اس نے ایک چھٹی کا جشن منانے کا پروگرام بنایا۔
کبھی کبھی ہم پر اَن دیکھی سستی کاہلی طاری رہتی ہے۔ جی کسی کام میں نہیں لگتا۔ اس نے صبح چھٹی کی درخواست دے کر سر میں تیل چپڑا۔ ہاتھ پاؤں پر کولڈ کریم کی مالش کی۔ ناخن تراشے اور زندگی کے بہت سے پروگرام ترتیب دینے کے لیے اس نے خود کو تازہ دم کر لیا۔
تیل اس نے ابھی لگایا تھا ،ابھی تولیہ کندھے پر ڈال کر نہانے چلی تھی کہ امّی نے ٹوک دیا،’’کتنی راتوں کے جگار سے سر میں خشکی ہو گئی تھی۔ ذرا مغز تک چکنائی جانے دو۔‘‘ وہ جانتی تھی چکنائی کسی صورت بھی مغز تک نہیں جا سکتی لیکن وہ ماں کو میڈیکل سائنس پڑھانے کے موڈ میں نہیں تھی۔
اس نے خاموشی سے ہلکی دھوپ ہلکے سائے میں بیٹھ کر رسالہ اٹھا لیا۔ ورق الٹتے الٹتے وہ بور ہو گئی، اسے ایسی رومان بھری کہانیاں اکتا دیتی تھیں۔ رسالہ پٹخا تو ہفت روزہ میگزین اٹھا لیا۔ اس میں دل نہ لگا تو اخبار کھول دیا۔
حالاں کہ اس کو نہ اخبار سے دلچسپی تھی نہ میگزین سے نہ رسالے سے۔ لیکن یہ آدھا گھنٹہ تو امی کے حکم کے بہ موجب اسے گزارنا ہی تھا۔ لاؤ دیکھیں تو سہی اخبار میں کیا لکھا ہوتا ہے۔ پہلا ،دوسرا، تیسرا، چوتھا ،سب صفحے فضول تھے۔ لوگ لوگوں کے خلاف بیان دیتے تھے یالوگ لوگوں کو قتل کیا کرتے تھے۔ اس نے اکتا کر اخبار بند کیا ہی تھا کہ وہ چونک سی گئی۔ انہی صفحوں پر اسے کچھ مانوس سا دکھائی دیا تھا۔ اس نے گرایا ہوا اخبار اٹھا کرپھر کھولنا شروع کر دیا۔ کیا نظر آیا تھا بھلا وہ مانوس سا!
اندر کے صفحوں میں وہیں تیسرے چوتھے کالم میں اوپر لگی اس شخص کی تصویر سے وہ ناواقف نہیں تھی۔
کتنی دیر وہ تصویر دیکھتی رہی۔ حیران پریشان۔ گم صُم۔
واقعی وہ کتنی بے خبر تھی، اس کو ملال سا ہوا۔
اس کی رہائی کے لیے پارٹی کے دفتر سے اپیل شائع ہوئی تھی۔ اس کے ساتھ اور بھی بہت سے لوگوں کے نام تھے۔ اس نے کتنی مرتبہ خبر پڑھی۔ کتنی دفعہ نام دیکھا۔ کتنی ہی دفعہ تصویر کا جائزہ لیا۔
بعض اوقات ہم انجانے میں کسی کو کتنا دُکھ دے جاتے ہیں۔
نہا دھو کر وہ باہرنکلی تو کہیں جانے کو تیار تھی۔
شکر ہوا۔ امی کو خوشی ہوئی ،ان کی بیٹی آدمیت کی جون میں آرہی تھی۔’’ سائرہ کی طرف جا رہی ہو؟‘‘ اس نے شاید سنا نہیں، اس لیے جواب نہیں دیا۔
وہ گھر سے نکلی تو سیدھی پارٹی کے دفتر گئی۔ اسے کچھ معلومات درکار تھیں اور دفتر میں بہت زیادہ چہل پہل تھی۔ وہ زیادہ دیر ٹھہری نہیں۔ اسے فوراً حوالات جانا تھا۔
یہاں تک تو اس نے سارے کام نمٹا دئیے تھے لیکن پولیس کی وردی میں ٹوٹی کرسیوں اور روغن اکھڑی میزوں کے پاس وہ پولی تھین کے کھڑ کھڑکرتے تھیلوں میں بے شمار پھولوں کا ڈھیر لے کر بیٹھی ہکلاتی رہی۔
پولیس آفیسر نے رجسٹر کھولا،’’آپ کا نام؟‘‘
وہ کتنی دیر چپ رہی اور جب وہ یہاں آہی گئی تھی اور موسلی میں سردے بیٹھی تھی تو ان دھکوں کا سامنا تو کرنا ہی تھا۔
’’آپ کا نام؟‘‘ اس نے قلم روک کر گھور کر پوچھا۔
’’جی لالہ رخ۔‘‘
’’والد کا نام؟‘‘
وہ چپ رہی پھر اس نے آہستگی سے بتا ہی دیا۔ وہ اس کو تھوڑی دیر حیرت سے دیکھتا رہا۔ ’’آپ نے پہلے نہیں بتایا اور آپ کے پاس اجازت نامہ ہے؟ نہیں ،کوئی بات نہیں جی۔ یہ تو ایسے ہی فورمیلٹی ہے۔ آئیے میں آپ کو چھوڑ آتا ہوں۔‘‘
وہ جوتوں سے دھمک پیدا کرتا آگے آگے چلا۔ لاک اپ میں اندھیرا تھا----- نچلی چھتوں والے کمرے کے اندر سلاخوں کے پیچھے ----- کتنے ہی محروم ومجبور سے چہرے اس کو دکھائی دئیے۔ وہ خوف زدہ ہو کر ٹھٹک گئی۔ وہیں ایک ستون سے ٹیک لگائے وہ لرزتی رہی۔
پتا نہیں اسے ٹھیک بتایا گیا ہے یا نہیں۔ وہ یہاں ہو گا بھی؟
اس کے ہاتھوں میں پھول لرزنے لگے۔ وہ دائیں طرف سے چلتا آیا اور ایک دم رک گیا۔
’’تم؟‘‘ اس نے دیکھا ،وہ اس کے گھر کا ہی کمبل اوڑھے تھا۔پتا نہیں اس کمبل کی گمشدگی کی طرف اس کا دھیان کیوں نہیں گیا۔
’’مجھے افسوس ہے۔‘‘ اس نے خفت سے مسکراتے ہوئے کہا، ’’میں ہمیشہ آپ کو غلط سمجھتی رہی۔‘‘ وہ چپ چاپ سلاخوں کے اس طرف کھڑا رہا۔ اس نے دیکھا وہ کس قدر زرد اور کمزور ہو رہا تھا۔
’’میں آپ کو ملک دشمن، چور ،غنڈہ سمجھتی رہی۔ حالاں کہ آپ ۔۔۔یہ پھول میں آپ کے لیے لائی ہوں۔‘‘
’’تم نے بڑی حماقت کی۔‘‘ اس نے پولیس آفیسر کے جانے کے بعد غصے سے کہا۔
’’تمہیں کیا ضرورت تھی میرے پیچھے یہاں آنے کی۔ تمہیں پتا ہے اب تمہارے جاتے ہی ایک آدمی تمہارے پیچھے لگ جائے گا۔ تمہیں بھی اسی پارٹی کا سرگرم رکن سمجھا جائے گا۔ تمہارے گھر چھاپے پڑیں گے۔ کیوں اپنے باپ کے لیے مسائل کھڑے کرتی ہو۔
تمہیں شاید علم نہیں یہاں کون سا جرم ہے جو میرے سر نہیں تھوپا جاتا۔ تین قتل۔ پانچ بینک ڈکیتی۔ چار اقدامِ قتل۔ میں جیل میں ہوں تو کم از کم محفوظ تو ہوں۔ کوئی نیا جرم تو مجھ پر نہیں ٹھونسا جارہا۔ کیا تمہاری خواہش ہے تمہیں بھی اس گروپ کا سرغنہ سمجھ لیا جائے۔ وہ کہیں ایک حسین دوشیزہ۔ اور۔۔۔‘‘
وہ ایک دم چپ ہو گیا۔ پھر اس نے ہاتھ بڑھا کر ایک بڑا سا لالہ کا پھول گلدستے میں سے نوچ لیا۔’’ بہت بہت شکریہ اور آئندہ یہاں مت آنا۔‘‘ وہ درشتی سے کہہ کر مڑ گیا۔
وہ ساکت خاموش وہیں کھڑی رہ گئی۔ وہ دو قدم بڑھا کر چلا ہی تھا کہ ایک دم رُک گیا۔
’’اور ہاں یہ اپنا کمبل بھی لیتی جاؤ۔ میں اس کی اس سے زیادہ حفاظت نہیں کر سکتا۔‘‘
’’کسی ضرورت مند کو دے دینا۔‘‘ اس نے تلخی سے کہا۔
وہ اتنی آہستگی سے بول رہا تھا کہ غنیمت ہوا کہ آس پاس کھڑے لوگوں نے اس کی بات نہیں سنی۔ اس کے باوجود وہ اس کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنے سے باز نہ رہ سکے۔ اتنی رسوائی، اتنی بے عزتی کے تصور سے اسے پسینہ آگیا۔ وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ وہ اس کے ساتھ اس بری طرح پیش آئے گا۔ وہ غصے سے جلی بھنی باہر نکلی ۔بے حد اہتمام سے خریدے رنگ برنگے پھولوں کا گلدستہ اس نے وہیں زمین پر پٹخ دیا۔ باہر کھڑی خالی ٹیکسی اس کی منتظر تھی۔ اس نے دائیں بائیں نہیں دیکھا۔ جانے کس کس نے اس کی بے عزتی کا یہ منظر دیکھا تھا۔
وہ گئی تو چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا ،واپس آئی تو ساری چاندنی ماند پڑ چکی تھی۔ وہ غصے میں بھری سیدھی اپنے کمرے میں گئی۔ کتنی دیر رنجیدہ رہی۔ پھر اس نے الماری میں رکھ کر بھولی ہوئی کتابیں نکالیں۔ میز پر لیمپ اپنی جگہ رکھا۔ کافی کا ڈبہ ،سوکھا دودھ ،ہر چیز اپنی جگہ پر رکھ کر وہ قرینے سے دوبارہ پڑھائی کی طرف جم گئی۔ بھاڑ میں جائے لوگوں سے ہمدردی اور دلچسپی ،یہ اس کا فائنل تھا۔ اسے لوگوں سے زیادہ اپنی پڑھائی کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ بہت سے لوگوں کی بہت زیادہ امیدیں اس سے وابستہ تھیں۔
پھر اس کے سب دوستوں اور استادوں نے دیکھا، وہ دنیا سے غافل ہو کر امتحان کی تیاری میں جت گئی۔ وہ غالباً جس کسی مسئلے میں بھی گرفتار تھی، اس نے اس کو سلجھا لیا تھا۔
دوستوں ہی نے دیکھا ،اس کو اچانک اخباروں سے دلچسپی پیدا ہو گئی تھی۔ وہ سارے دن میں سے آدھا پون گھنٹہ نیوز پیپر کے ڈائس پر ضرور گزارتی۔ وہ صرف ایک ہی اخبار پر اکتفا نہیں کرتی تھی۔ انگریزی اردو میں چھپنے والے تمام اخباروں کا وہ لفظ لفظ چھان مارتی۔ صفحہ صفحہ کھنگالتی۔ اور تو اور ایڈیشن کے سیاسی حصے تک پڑھنا نہیں بھولتی تھی۔ حالاں کہ اسے سیاست کی اے بی سی کا بھی علم نہیں تھا۔
وہ اب بھی راتوں کو دیر تک پڑھتی۔ ڈاکٹر سہیل سے ٹیوشن لیتی۔ زندگی میں کچھ عرصے کے لیے جو ہلچل آئی تھی، وہ ختم ہو گئی۔ اسی لیے شاید امتحانوں میں اس کی اچھی پوزیشن آئی۔ آپی اور دیگر عزیزوں کو تار ارسال کیے گئے، ڈاکٹر سہیل کو خوب شاباشی ملی۔ ابو نے ایک پارٹی ارینج کی۔ اس وقت اس کا شدت سے دل چاہتا تھا وہ کسی اور کو بھی اپنی کامیابیوں کے بارے میں اطلاع دے اور اپنی آئندہ زندگی کے منصوبوں سے آگاہ کرے۔ حالاں کہ کسی کو اس کی زندگی اور آئندہ منصوبوں سے دلچسپی نہیں تھی۔
اس کو ساری محفل پھیکی پھیکی لگی۔ یہ کتنی عجیب بات تھی، ہم بہت سے لوگوں کے لیے بہت اہم ہوتے ہیں۔ لیکن جس ایک شخص کے لیے اہم نہیں ہوتے ،اس کے بغیر خود کو کتنا ناکارہ اور ادھورا سمجھتے ہیں۔
پھر اس کی ہاؤس جاب کے تکلیف دہ ایام شروع ہو گئے۔ کتنی مدّت وہ سب کچھ بھولی رہی۔ ہاں اگر نہیں بھولتی تھی تو اخبار پڑھنا۔ اس لیے اخبار اس کی چھیڑ بن گیا اور غالباً اسی لیے سب سے پہلے اس کو ہی پتا چلتا رہا کہ وہ شہر شہر جیل بدلتا رہا ہے۔ آج وہ ساہیوال ہے۔ پھر وہ فیصل آباد تھا۔ پھر دوبارہ لاہور آگیا۔ ان دنوں اے سی کینٹ کی طرف سے تفتیش ہو رہی تھی۔ پھر کہیں سے اطلاع ملی اس کو دو سال کی قید ہو گئی۔ پھر کسی اخبار نے لکھا ،وہ جیل سے فرار ہو گیا ہے۔ اس نے اخبار خاموشی سے تہ کر کے ایک طرف رکھ دیا۔ آج تو اسے کسی کی پوسٹ مارٹم رپورٹ لکھنی تھی۔ اسے کبھی کبھی یہ اہم ذمہ داریاں جو باعث فخر ہوتی ہیں ،چبھنے لگتیں۔
جتنی دیر کام میں ہو رہی تھی ،اتنی اس کو بے چینی لگ گئی تھی۔ وہ دوڑتی دوڑتی گھر گئی اور اس نے غسل خانے کا دروازہ پاٹوں پاٹ کھول دیا۔
اسے پہلی دفعہ پتا چلا، لان میں جھاڑ پھونس کا کتنا ڈھیر جمع ہو گیا۔ پرانے پودے سوکھ کر کتنے برے لگتے ہیں اور جب موسم بہار عین عروج پر ہوا ور جامنی رنگ کے پھول گلی گلی کھل رہے ہوں تو آپ کا بے رونق سا چٹیل میدان کیسا برا لگتا ہے۔
وہ غسل خانے کے راستے باہر نکل آئی۔ ابو کو کبھی لان اور گھر وغیرہ کا بڑا شوق تھا۔ جرنلزم میں رہ کر وہ ہر چیز سے بیگانہ ہو گئے تھے۔ اس نے جھاڑو اٹھایا۔ سبز گھاس میں سے پرانی سوکھی گھاس علیحدہ کر کے کونے میں ڈالی۔ ٹوٹے ہوئے گملوں کو کونوں میں چھپایا۔ پتھر چنے۔ اس نے صفائی کرنے میں اتنی محنت نہیں کی تھی، جتنی کوڑا اٹھانے میں مشقت کرنی پڑی۔ لان تھوڑا تھوڑا سا چمکاچمکا لگنے لگا تھا اور اس قابل ہو سکا تھا کہ کوئی شخص زخم کھائے بغیر لان پار کر سکے۔
اس نے کمرا چمکایا۔ نئی چادریں اور تکیے کے غلاف بدلے۔ ایک مدت بعد کمرے کے درودیوار چمکائے۔ ابھی تک اس کی کورس کی وہ کتابیں شیلف میں لگی ہوئی تھیں، جن کی اس کو اب ضرورت بھی نہیں رہی تھی۔ ان سب کو سٹڈی میں ٹھونس کر اس نے دروازہ لاک کر دیا۔
اب اس کے پاس کوئی کام نہ تھا، سوا اس کے کہ رات کا انتظار کرے۔ اس نے ابلتے ہوئے گرم پانی کا تھرموس بھر لیا۔ کافی کا ڈبہ۔ ملک پیک کا تھیلا۔ چینی دان۔ مگ۔ چمچ۔ ضرورت کی ہر چیز اس نے اپنے کمرے میں جمع کرلی۔
’’دیکھو دروازہ بند کرنا نہ بھولنا۔‘‘ امی نے عادتاً کہا اور دروازے کی چٹخنی چڑھا دی۔
وہ امی کے جانے کے انتظار میں خاموش بیٹھی رہی۔
جب اسے یقین ہو گیا کہ وہ چلی گئی ہوں گی اور اب انہوں نے کمرے کا دروازہ بھیڑ کر آیت الکرسی کا ورد کر کے گھر کو چاروں طرف سے اللہ کی حفاظت میں دے کر انگلی کے اشارے سے جھاڑ دیا ہو گا تو اس نے غسل خانے کا دروازہ کھول دیا۔
ایک دن۔ دوسرے دن۔ تیسرے دن۔ شاید وہ کسی دن بھی بند دروازہ کھولنا نہیں بھولتی تھی۔
لیکن یہ وہی شخص تھا، جو جا کر آنا بھول گیا تھا۔
راستہ بھول گیا تھا۔
یا شاید اس نے کبھی اس راستے کو یاد کرنے کی زحمت بھی نہ کی تھی۔
اس کی تلاش میں پولیس چھاپے مار رہی تھی۔ لیکن وہ تھا کہ چھپ کر اپنے جرائم کی تعداد میں اضافہ کیے دے رہا تھا۔ فیصل آباد میں بم پھٹا۔ ساہیوال میں جلوس نکالا گیا۔ نوشہرہ کے جلسوں میں گڑ بڑ ہوئی۔ کرفیو کی پابندی کی خلاف ورزی ہوئی۔ کئی دنوں تک وہ اس کا نام پڑھتی رہی۔ وہ انسان تھا یا چھلاوہ۔ بہ یک وقت وہ پاکستان کے کئی شہروں میں مسلسل وارداتیں کر رہا تھا۔
پھر اغوا، ڈکیتی، قتل وغیرہ کے سلسلے میں اس کا نام لیا جانے لگا۔ بہت سے اغوا، بہت سی اہم شخصیتوں کے قتل، بینکوں، پٹرول پمپ کی ڈکیتیوں میں اس کا کچھ نہ کچھ ہاتھ ضرورہوتا۔ ایک افواہ یہ بھی تھی کہ وہ سرحد پار کر گیا ہے۔
جب سے اس کی ٹیوشن ختم ہوئی، ڈاکٹر سہیل کا آنا جانا برائے نام ہی رہ گیا تھا۔ اس دن وہ آئے تو اس کو جیل سے بھاگے چھے ماہ گزر چکے تھے۔
اس کو گھر میں کسی کا آنا جانا بہت برا لگنے لگا تھا۔ لیکن ڈاکٹر سہیل ،ابو کے ساتھ بحث کیے بغیر شاید جی ہی نہیں سکتے تھے۔ برائے بحث سیاست جیسا موضوع اس کو بہت چبھتا تھا۔ وہ صرف چائے لے کر گئی تھی لیکن اس کے قدم وہیں جم گئے تھے۔ زیر بحث شخص نے اس کے الٹتے قدموں کو روک دیا۔ ابو اور ڈاکٹر سہیل دو مختلف گروپ تھے۔ ابو ایسے لوگوں سے نفرت کرتے تھے۔
ڈاکٹر سہیل کا خیال تھا اس قسم کے الزامات تھوپ دئیے جاتے ہیں۔ اسے ڈاکٹر سہیل اس سے پہلے کبھی اتنے اچھے نہیں لگے تھے۔ وہ جاتے جاتے رُک گئی۔ اس نے بطورِ خاص اہتمام سے پیالیوں میں چائے انڈیلی اور بنا کر مہمانوں کو پیش کی۔ ٹی وی پر ابھی ڈرامہ ختم ہوا تھا۔ مہناز کسی پرانی گلوکارہ کے گانے کو دہرا رہی تھی۔
وہ تھوڑی دیر سروس کرتی رہی۔ ابھی خبرنامہ شروع ہونے کو تھا۔ وہ خبروں سے پہلے اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف جا رہی تھی کہ ڈاکٹر سہیل نے اور چائے منگوالی۔
کچھ دنوں سے اس کو خبروں سے بیزاری ہونے لگی تھی۔ کوئی خبر اس کے لیے نہیں آتی تھی۔ اور شاید یہ خبر بھی اس کے لیے نہیں آئی تھی۔
پیالی میں چینی گھول کر وہ چلی ہی تھی کہ وہیں جم گئی۔
نیوز کاسٹر اپنے خوب صورت چہرے اور باوقار انداز میں خبریں سناتی بے جان مشین کا ایک حرکت کرتا پرزہ دکھائی دے رہی تھی۔
پولیس کو اپنی حفاظت کے لیے مجبوراً گولیاں چلانی پڑیں،جس سے ڈاکوؤں کے گروہ کے تین افراد ہلاک ہو گئے۔ دو شدید زخمی حالت میں گرفتار کر لیے گئے۔ اس آپریشن کے دوران ایک پولیس اہلکار زخمی ہو گیا۔
اس کے ہاتھ سے گرم پیالی چھوٹ کر ڈاکٹر سہیل کے گھٹنے پر گری۔
اگر وہ لوگ اس کا نام نہ بھی لیتے تو اس سے گئی گزری حالت میں بھی وہ اس کو پہچان سکتی تھی۔
وہ خون میں تربتر تھا۔ اس کا جسم زخموں سے گُدا ہوا اور چہرہ نچ کھچ کر تباہ ہو چکا تھا۔
اس کے ہاتھ میں پستول کی بجائے کوئی سوکھا ہوا پرانا سا پھول تھا۔
اس نے اسے بھی پہچان لیا تھا اور اس کے نام کو بھی۔
لیکن اس پھول کو پہچاننے سے بالکل عاجز تھی۔ ایسے وقت میں اس کے ہاتھ میں پستول کی بجائے لالہ کا یہ باسی سا سوکھا پھول کس کام آسکتا تھا۔
وہ چپ چاپ اپنے کمرے میں آگئی۔ بند کھڑکی کے پٹ کھول کر اس نے تازہ ہوا کا سانس لیا۔ موسم بہار کب کا جا چکا تھا۔ تندوتیز ہواؤں سے درختوں کے پتے ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر رہے تھے اور باہر گرتی کالی سیاہ رات کسی کی منتظر نہیں تھی۔
عبدل نے کیسٹ آن کر دیا تھا۔
نہ جی کو جلانا
مجھے بھول جانا
’’دیکھو دروازہ بند کر کے سونا۔‘‘
’’اچھا امی۔‘‘ اس نے تابعداری سے کہا۔ اب اس کو دروازہ کھلا رکھنے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ خاموشی سے اندھیروں کی طرف رخ کر کے آنسو بہانا کتنا اچھا لگتا ہے۔ اس نے عبدل کے گانوں پر دروازے کے پٹ بند کر دئیے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.