Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دستک

MORE BYیونس جاوید

    شاید پھر دستک ہوئی تھی۔

    تین مرتبہ ایسا ہو چکا تھا اور میں جانتا تھا کہ دستک دینے والا کون ہے۔ میری بیوی تو اس دستک سے الرجک تھی۔ پتہ نہیں، قصور میرا تھا یا نہیں مگر وہ یہی سمجھتی تھی کہ میں قصوروار ہوں۔

    پہلی مرتبہ۔۔۔ہاں پہلی مرتبہ۔۔۔مگر یہ تو کئی روز پہلے کی بات ہے۔ وہ مجھے گلی میں ایک تھڑے پر بیٹھا نظر آیا تھا۔ شاید پاگل تھا۔۔۔ لیکن میں نے اس کے بارے میں زیادہ سوچا نہیں تھا۔۔۔ مرے گزرنے پر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ پھر چلنے لگا۔ بالکل میرے پیچھے پیچھے۔ مکان کے دروازے تک۔

    ’’کیا ہے؟‘‘ میں رک گیا۔ وہ خاموش رہا۔ میں اندر آ گیا اور دروازہ بندکر دیا۔ اس کے فوراً بعد میں نے دستک سنی۔۔۔یہ پہلی دستک تھی۔ میں نے بیوی کو آواز دی۔

    ’’کون ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔ جواب دینے کے بجائے میں نے کھڑکی کھولی۔ وہ سامنے کھڑا تھا۔

    ’’مجھے ٹھنڈ لگ رہی ہے‘‘۔ وہ بڑبڑایا۔

    ’’تو پھر؟‘‘ مجھے بر الگا وہ اسی وقت۔

    ’’میں زخم زخم ہوں‘‘۔ وہ اداس لہجے میں بولا۔

    ’’کیا کہہ رہا ہے یہ؟‘‘ بیوی پوچھ رہی تھی۔ پھر وہ خود ہی بولی ’’شہر میں جاؤ نا۔۔۔ڈسپنسری میں۔۔۔‘‘

    ’’سارا شہر نمک کا ہے‘‘۔ اس کے لہجے میں ذرا بھی تبدیلی نہیں تھی۔

    ’’سارا شہر نمک کا ہے!‘‘ بیوی نے دہرا دیا۔ ’’تمہارے پلے کچھ پڑا؟۔۔۔ مجھے پاگل لگتا ہے یہ‘‘۔

    ’’ہاں شاید‘‘ رک کر میں نے اس سے پوچھا ’’کیا چاہیے تمہیں؟‘‘

    ’’حرارت۔۔۔مجھے حرارت چاہیے‘‘۔ اس کے لفظ یہی تھے۔۔۔ہاں یہی تھے۔

    ’’حرارت چاہیے‘‘۔ عجیب سا لگا مجھے۔

    ’’جی ہاں‘‘۔ وہ مصر تھا۔

    ’’تو میں کیا کروں‘‘۔ میں چڑ گیا تھا۔۔۔ ’’دھوپ میں بیٹھو جاکر‘‘۔

    ’’کوئی گرم کپڑا‘‘ وہ رک گیا۔

    ’’میں سمجھ گیا‘‘ میں نے کہا۔۔۔ ’’مگر اس وقت کچھ نہیں ہو سکتا۔ کل آنا‘‘۔ میں نے لمحہ بھر دیکھ لیا تھا کہ وہ سچا ہے۔ اس نے صرف ایک قمیض پہن رکھی تھی۔ میلی۔۔۔پھٹی ہوئی۔۔۔آستینوں تک لیر لیر۔ کلائیوں کی نیلی رگیں پھول رہی تھیں اور جلد کارنگ پتہ نہیں کیا تھا۔۔۔میں نے کھٹ سے کھڑکی بند کردی۔ واقعی سردی بہت تھی۔ کھڑے کھڑے میرے گھٹنے سن ہو گئے تھے۔

    بحال ہونے کے بعد میں نے بیوی سے کہا ’’واقعی بہت سردی ہے۔ کوئی کپڑا وپڑا تلاش کر دینا‘‘۔

    اس نے جیسے میری بات سنی ہی نہیں۔ اٹھ کر باہر نکل گئی۔

    میں نے سوچا یہ کام میں خود ہی کیوں نہ کر لوں۔ میں نے تلاش شروع کر دی۔ مگر عجیب الجھن تھی۔ ہر کوٹ کے ساتھ کوئی نہ کوئی یاد وابستہ تھی۔ ٹائی کی شکل میں۔۔۔اور ٹائیاں مجھے بہت پسند ہیں۔ عیسیٰ کی صلیب کا نشان۔۔۔ہو سکتا ہے قبل از مسیح بھی ان کا رواج ہو۔۔۔مگر میری مشکل یہ تھی کہ ہر ٹائی میرے کسی نہ کسی دوست۔۔۔بےحد عزیز دوست کی طرف سے گفٹ تھی اور کسی نہ کسی کوٹ سے میچ تھی۔ لہٰذا کوئی بھی کوٹ نہ ملا۔

    اصل میں کوئی پھٹا پرانا کوٹ تھا ہی نہیں۔

    بس یہی میرا قصور تھا۔

    بیوی کہتی تھی کہ اگر اس شخص سے وعدہ نہ کیا ہوتا تو وہ اس طرح بار بار دستک دے کر تنگ نہ کرتا۔ مگر یہ کوئی دلیل تھی بھلا؟ ہم دن میں کتنے وعدے کرتے ہیں، توڑتے ہیں، ہر لمحے کے ساتھ ہماری حیثیت بدل جاتی ہے۔ ابھی باس تھے ابھی ماتحت ہو گئے۔ کبھی شوہر، کبھی باپ۔ ہر لمحے بات تو بدلنا ہی پڑتی ہے۔ ایٹی کیٹس اور مینر تو یہی ہیں۔

    مگر وہ مجھے قصور وار ٹھہراتی تھی۔ بیویاں عموماً جھگڑالو ہوتی ہیں۔

    ’’تم جھگڑالو ہو‘‘ میں نے چلا کر کہا۔ شادی کے بعد تم پرروپ اور مجھ پر قرض چڑھا ہے اور تم ہو کہ۔۔۔

    اب کے چوتھی دستک تھی۔۔۔! بیوی گھٹ کر رہ گئی۔

    ’’کون ہے؟‘‘ جانتے ہوئے بھی پوچھنا ضروری تھا۔

    ’’میں ہوں‘‘ آواز وہی تھی۔

    ’’کہہ دیا نا پھر کسی وقت آنا۔۔۔‘‘ میں نے پیچھا چھڑانا چاہا۔

    ’’مجھے اندر آنے دیجئے۔۔۔ باہر بہت ٹھنڈہے‘‘۔

    ’’اندر آنے دوں!۔۔۔‘‘ میں نے کھڑکی کھول کرکہا ’’کمال ہے۔۔۔جان نہ پہچان اندر آنے دو‘‘۔

    ’’کون جانتاہے تجھے اس محلے میں؟‘‘

    ’’آپ جانتے ہیں مجھے ‘‘۔ وہ بولا۔

    ’’میں؟‘‘ مجھے حیرت ہوئی۔۔۔ ’’میں تو نہیں جانتا۔۔۔تم کون ہو؟‘‘

    ’’آدمی‘‘۔ وہ بہت آہستہ بولا تھا۔

    ’’آدمیوں والے کام بھی تو کرو۔۔۔‘‘ میرا سارا غصہ کھڑکی بند کرنے میں نکل گیا۔۔۔

    ’’احمق‘‘۔ بیوی بڑبڑائی۔

    ’’کم بخت‘‘ میں نے دانت پیسے۔

    مگر اس نے پھر دستک دے دی۔

    ’’کیا ہے؟‘‘ میں جھلا گیا تھا۔۔۔ وہ کچھ نہ بولا۔۔۔صرف تکے گیا۔ میری طرف۔۔۔ گم صم۔۔۔ میں نے ماچس باہر پھینک دی۔ ’’اٹھاؤ‘‘ میں نے کہا۔ ’’تنکے دنکے جمع کرکے آگ جلا لو‘‘۔

    ’’تنکے؟‘‘ وہ اس ایک لفظ پر رک گیا تھا۔۔۔ وہ کھڑارہا۔۔۔ میں نے بھی کھڑکی بندنہیں کی۔ وہ بالکل پاگل لگ رہا تھا۔

    ’’جاؤ نا اب۔۔۔ مجھے سونے دو۔ دیکھو سنو۔۔۔‘‘ میں نے کھڑی انگلی سے اسے دھمکایا۔ ’’اب اگر دستک دی نا۔۔۔ سمجھے؟ تو نمٹ لوں گا تم سے اچھی طرح‘‘۔

    وہ گیا تو نہیں مگر اس نے رخ پھیر لیا۔ بڑا ہی ڈھیٹ تھا۔ سکون غارت کر دیا تھا اس نے ۔۔۔

    ’’ہر ایرے غیر ے کو منہ لگاتے ہو۔۔۔‘‘ بیوی غرائی۔۔۔ بخداوہ غرائی تھی۔۔۔ ’’میں ہوتی تو۔۔۔‘‘ ’’تم ہوتی تو کیا کر لیتیں‘‘۔ مجھے غصہ آ گیا تھا۔۔۔ ’’میں جانتا ہوں تمہیں۔۔۔ کسی مسئلے پر SHARE کرنے کے بجائے تم سارا ملبہ مجھ پر لاد دیتی ہو‘‘۔

    ’’کس نے کہا تھا گدھوں والی حرکتیں کرو؟‘‘ وہ اپنی عادت سے مجبور تھی۔

    دیکھو، حد سے نہ بڑھو۔۔۔ حد میں رہو۔۔۔میں چلایا۔۔۔ چلو نکلو یہاں سے۔

    ’’ہاںںں‘‘ اس نے لمبی ’’ہاں‘‘ میں سب کچھ کہہ دیا۔ وہ سمجھ گئی تھی کہ میں حد کے سرے پر آ گیا ہوں۔

    ’’چائے پیو گے‘‘ لمحہ بھر توقف کے بعد اس نے میری کمزوری مجھے یاد دلا دی۔

    ’’لے آؤ‘‘ میں نے لاپرواہی سے کہا۔

    وہ چائے لینے کے بہانے چلی گئی۔۔۔اپنی انا بچا لے گئی مگر چائے نہ لائی حتیٰ کے میرے ہاتھ سردی سے سن ہو گئے۔۔۔ انگلیاں برف تھیں۔ جھکتی نہ تھیں۔ میں نے جلدی سے ہیڑ آن کر دیا۔ چند لمحوں میں ہاتھ پاؤں، انگلیاں، گھٹنے، ٹخنے، پگھل سے گئے۔ مجھے گرمی لگنے لگی۔

    اب کیا کیا جائے۔ میں نے روشندان کھولنے کی کوشش کی ہیڑ گیس کا تھا اور روشن دان کھول دینا ہی مناسب تھا۔ بلکہ ضرور ی تھا۔۔۔مگر وہ کھل نہیں رہا تھا بڑی کوشش کے بعد بھی وہ نہ کھلا۔ شاید برسوں بندرہنے کی وجہ سے اس میں زنگ لگ گیا تھا۔ میرا خیال تھا کہ وہ ذرا زوردار ٹھوکروں سے کھل جائے گا۔ مگر مجھے سخت نیند آ رہی تھی۔ اترتی نیند کا نشہ سرور بن کر خون میں پھیل رہا تھا اور اس وقت ہر قسم کی ٹھوکر لگانے کی سکت کو چاٹ رہا تھا۔

    ’’نہ سہی ‘‘ میں نے سوچا میں ’’ہیٹر بند کر دیتا ہوں‘‘۔

    میں نے ہیٹر بند کر دیا۔ ٹمپریچر نارمل ہونے لگا۔ مگرکچی گیس سے کمرہ بھر گیا تھا۔ یقیناًہیٹر میں کچھ خرابی تھی۔ دم گھٹ رہا تھا۔ میں نے دروازہ کھول دیا۔۔۔مگر گیس کے ساتھ حرارت بھی نکل گئی۔۔۔کمرہ پھر ٹھنڈا ہو گیا۔ پھر بھی میں نے سونے کی کوشش کی اور سو گیا۔ گہری نیند۔ پھر ایک زور دار دستک نے مجھے جگا دیا۔

    سورج کی کرن بند روشندان سے اندر آ رہی تھی۔دستک دوبارہ ہوئی۔ مگر یہ اس طرح کی دستک نہ تھی دبی دبی سی۔ کوئی زور زور سے دروازہ پیٹ رہا تھا۔ مجھے الجھن ہونے لگی۔

    ’’کون ہے؟‘‘ میں نے کھڑکی کھول کر پوچھا۔

    ’’ہم ہیں جی‘‘ آواز آئی۔۔۔میں نے باہر جھانکا۔ کچھ لوگ دروازے پر جمع تھے۔ وہ پہچانے نہیں جارہے تھے۔ وہ کون تھے! پتہ نہیں کون تھے! صبح ہی صبح کسی کے دروازے کو یوں پیٹتے ہیں بھلا، مجھے بہت برا لگ رہا تھا۔

    ’’حاجی افضل معلوم ہوتا ہے‘‘ بیوی نے چائے بناتے ہوئے دور سے بتایا۔

    ’’کون ہے وہ؟‘‘ میں واقعی نہیں جانتا تھا۔

    ’’محلے دار ہیں‘‘ وہ بولی ’’دس بارہ سال سے پڑوسی ہیں اپنے‘‘۔

    میں نے باہر کا دروازہ کھول دیا۔

    ’’زخمت کے لیے معافی چاہتے ہیں‘‘۔ ان میں سے ایک نے کہا ’’دراصل مسئلہ ہی کچھ ایسا تھا‘‘۔

    ’’اندر تشریف لے آئیے۔۔۔‘‘ مجھے ایٹی کیٹس بہت عزیز ہیں۔

    ’’جی نہیں، بس کھڑے کھڑے۔۔۔‘‘ رک کر اس نے بات بڑھائی ’’وہ درویش تھا نا اپنا‘‘۔

    ’’کون درویش؟‘‘

    ’’وہ جی، وہ پروفیسر تھا پہلے‘‘۔دوسرے نے ٹکڑا لگایا۔

    ’’وہ پاگل؟ وہ پروفیسر تھا؟‘‘ میں نے ہکلا کر پوچھا۔

    ’’اوہ جی اب تو بس ایسے ہی تھا‘‘۔ تیسرا بھی بول پڑا۔

    ’’قصہ کیا ہے؟‘‘ میں بے صبر ہو رہا تھا۔

    وہ رات مر گیا جی۔۔۔ سردی سے۔۔۔ اس آدمی نے نجات بھرا سانس بھر کر کہا ’’کفن دفن کے لیے‘‘۔

    ’’جی ہاں۔۔۔ تجہیز و تکفین ۔۔۔‘‘ دوسرا اتنا ہی کہہ پایا۔

    ’’میں سمجھ گیا‘‘۔ میں نے کہا۔ میں واقعی سمجھ گیا۔۔۔ ’’آپ کو پیسے چاہیے نا؟ کتنے؟‘‘

    ’’جو توفیق ہو دے دیجئے‘‘۔

    ’’آپ کی ضرورت کیا ہے؟‘‘

    سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ پھر لیڈر نما آدمی بولا ’’کچھ رقم جمع ہو چکی ہے‘‘۔

    ’’کم کتنے ہیں؟‘‘ میں نے بات ختم کر دی ابھی اور سونا چاہتا تھا۔۔۔۔ ہاں کچھ اور۔۔۔

    ’’کم؟‘‘ وہ سوچنے لگا۔ ’’کم۔۔۔ لگ بھگ ڈیڑھ سو‘‘۔میں اندر لپکا۔۔۔

    بیوی دروازے کے پیچھے سے سب کچھ سن رہی تھی۔۔۔بولی۔۔۔کچھ زیادہ ہی دے دیجئے۔ حیثیت کو ٹھیس نہیں لگنی چاہیے۔ میں نے اپنی جیب سے روپے نکالے۔۔۔تو اس نے اپنا پرس بھی کھول دیا۔ ’’سو کا ایک نوٹ ہے میری طرف سے‘‘۔

    میں نے دیکھا وہ بےحد سنجیدہ تھی اور دکھی بھی۔

    ’’کوشش کیجئے۔۔۔ وہ بولی۔۔۔کہ لاش زیادہ دیر نہ سڑتی رہے۔۔۔‘‘ اور رک کر اس نے کہا ’’یہ کمبل بھی ۔۔۔ سنا ہے میت کو بھی سردی لگتی ہے۔۔۔‘‘

    ’’ہاں‘‘ میں نے تائید کی۔ ’’تم ٹھیک کہتی ہو‘‘۔

    محلے داروں سے۔۔۔میں نے کہا۔۔۔ ’’کوشش کیجئے۔۔۔لاش زیادہ دیر تک نہ سڑتی رہے۔۔۔ثواب کا کام ہے‘‘۔ میں نے روپے ان کی جھولی میں ڈال دئیے۔

    واپس آکر میں نے سونے کی کوشش کی مگر نیند اڑ چکی تھی۔ وہ آدمی ذہن سے نکل ہی نہیں رہا تھا۔

    ’’اچھاہوا۔۔۔مر گیا۔۔۔بےچارہ۔۔۔بیوی بولی۔۔۔روز سردی میں ٹھٹھرتا تھا‘‘۔

    ’’ہاں‘‘ میں نے اطمینان کا سانس لے کر جواب دیا۔۔۔ ’’کم از کم دستک تو نہ دےگا نا۔۔۔‘‘

    ’’اور کیا۔۔۔روز دروازہ پیٹتا تھا۔۔۔‘‘ یہ بڑبڑاہٹ میری بیوی کی تھی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے