Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ڈیڈ انڈ

عذرا نقوی

ڈیڈ انڈ

عذرا نقوی

MORE BYعذرا نقوی

    میں راستہ بھی تو نہیں بدل سکتی، آفس آتے جاتے روز اسی بلڈنگ کے سامنے سے گذرنا ہوتا ہے۔۔۔ سال بھر سے زیادہ ہو گیا، لیکن جب بھی یہاں سے گذرتی ہوں تو کھڑکی سے وہ چہرے جھانکتے نظر آتے ہیں اور خاص طور پر وہ چاند سا چہرہ۔۔۔ ہمیشہ سوچتی ہوں کی اس کھڑکی اور بالکنی کی طرف دیکھوں بھی نہیں پھر بھی غیر ارادی طور پر نگاہ اس طرف اُٹھ جاتی ہے۔۔۔ لگتا ہے اب اس اپارٹمنٹ میں کوئی نیا کرایہ دار آ گیا ہے۔ بالکنی میں پھولوں کے گملے سج گئے ہیں۔۔۔ وہ لوگ بھی اسی بالکنی میں بیٹھے ہوں گے کبھی۔۔۔ میں سر جھٹک کر سب کچھ دماغ سے نکال دینا چاہتی ہوں لیکن وہ ہی سوالات دماغ میں گھومتے رہتے ہیں۔۔۔ وہ سائے میرا پیچھا کرتے رہتے ہیں۔۔۔ کیوں۔۔۔ آخر ایسا کیوں۔۔۔ ہزار توجیہات آتی ہیں دماغ میں۔۔۔

    وہ شام مجھے اچھی طرح یا د ہے، دورازے کی گھنٹی بجی تھی۔ سامنے رضوان چودھری اپنے ساتھ اک چھوٹی سی گڑیا جیسی Oriental لڑکی لئے کھڑا تھا۔ سانولا، لمبا تڑنگا، خاصہ ہینڈسم رضوان چودھری بہت دن بعد ہمارے گھر آیا تھا۔ وہ گھنی مونچھوں میں مسکرایا اور انگریزی میں کہا۔

    ’’آپ کے لئے ایک سر پر ائز ہے بھا بھی اور عشرت بھائی’‘۔

    عشرت نے ہنستے ہوئے اردو میں کہا۔

    ’’خواتین دوستوں میں اک نیا اضافہ یہ کون سے سر پرائز کی بات ہے’‘

    ’’او!نہیں جی‘‘ وہ اپنے پنجابی لہجے میں بولا۔

    ‘’دفع کریں جی ان لقندریوں کو’‘ اس نے اپنے برابر کھڑی گڑیا نما لڑکی کا ہاتھ تھام لیا اور ڈرامائی انداز سے جھک کر بولا۔

    ‘’ایک عدد بیگم۔ سلوی عرف فرحانہ’‘۔

    کناڈا میں دورانِ تعلیم ہمارے لئے ایسی مخلوط النسل شادیاں دیکھنا کوئی غیرمعمولی بات نہیں تھی لیکن ایسی شادیوں میں ہندوستا نی پاکستانی لڑکیوں کے ساتھ عموماََ کوئی ’’گوری’‘ ہوتی تھی۔ رضوان کی بیگم یقینی طور سے مشرق بعید سے آئی ہوتی لگتی تھی۔

    صوفے پروہ دونوں ہاتھ میں ہاتھ دیکر بیٹھ گئے۔ سلوی ذرا کونشس سی تھی۔ رضوان مجھ سے بولا۔

    ’’پچھلے ہفتے ہمارا نکاح ہوا ہے مسجد میں۔ بھابی! آپ سے ملانے لایا ہوں ذرا اسے اپنا کلچر شلچر سکھا دیں‘‘۔

    میں ہنس دی۔

    ’’گھول پر پلاؤں یا کلچر کا تعویز دے دوں‘‘۔

    سلوی نے لفظ کلچر سے شاید اردو میں کی گئی ہماری گفتگو کچھ کچھ سمجھ لی تھی، بولی۔

    ’’ہنی! تمہارا کلچر سمجھنے میں مجھے مشکل نہیں ہوگی۔ آخر کار ہم مشرقی ہیں نا۔ تم سے یوں ہی بے سوچے سمجھے تو میں نے شادی نہیں کی’‘۔

    سلوی کی انگریزی بہت صاف اور شستہ تھی۔

    واہبھئی واہ۔۔۔ میں نے سوچا۔۔۔ رضوان چودھری صاحب آپ پنجاب کے گاؤں کے زمیندار کہاں اٹک گئے مس ’’چن چو’‘ سے۔ میں نے اس گڑیا جیسی لڑکی سے ادھر ادھر کی گفتگو کی تو اندازہ ہوا کہ سلوی کافی ذہین اور الرٹ ہے۔ وہ مجھے کافی پرتجسس اور تھوڑی بے چین سی لڑکی لگی تھی۔ رضوان چودھری سے بھی میری صرف دوتین بار پہلے ملاقات ہوئی تھی وہ بھی ہماری یونیورسٹی میں ہی انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ ایک دوبار پڑھائی کے سلسلے میں کچھ پوچھنے عشرت کے پاس آیا تھا۔ وہ بن بن کر امریکن لہجے میں انگریزی بولتا تھا لیکن جب پنجابی آمیز ا ردو میں بے تکلف گفتگو کرتا تھا تو اس کا بہت اکھڑ انداز ہوتا تھا۔شوکت نے بتایا تھا کہ وہ لاہور کے کسی گاؤں کے چھوٹے موٹے زمیندار کا بیٹا ہے۔

    سلوی سے گفتگو کرنے کے لئے مجھے کوئی خاص محنت نہیں کرنی پڑی وہ خود ہی بولے جارہی تھی۔ اس نے بتایا تھا کہ وہ یونیورسٹی میں پارٹ ٹائم بی۔ کام کے کورسیززکر رہی ہے اور رات کو بوڑھے لوگوں کے ایک نرسنگ ہوم میں کام کرتی ہے۔ سلوی کو میرے حوالے کرکے رضوان جو عشرت سے باتیں کرنے لگا۔ سلوی کو مجھ سے باتیں کرتے دیکھ کر بولا۔

    ’’بھابھی! یہ بک بک بہت کرتی ہے، دماغ کھا جاتی ہے سوال پوچھ پوچھ کر سالی’‘۔

    رضوان کے اکھڑ پن کو جانتے ہوئے بھی نئی نویلی دلہن کے لئے اس کا یہ انداز گفتگو مجھے بہت عجیب سا لگا۔

    سلوی مجھ سے میری تعلیم اور فیملی وغیر ہ کے بارے میں سوالات کرتی رہی، بہت توجہ اور دلچسپی سے میرا فیملی البم دیکھا۔ میں نے یو ں ہی پوچھا لیا۔

    ‘’تمہاری ساری فیملی کہاں ہے سلوی’‘۔

    ’’کہیں بھی نہیں’‘۔ اس نے کہا، ایک سایہ سا اس کے چہرے پر لہراگیا تھا، پھر وہ سنبھل کر بولی۔

    ’’میں ویٹ نام کی جنگ ختم ہونے کے بعد ۱۹۷۶ میں ریفیوجی بن کر کناڈا آئی تھی۔ چند دور کے رشتے دار ہیں امریکہ میں اور بس’‘۔

    میں نے مزید اس سلسلے میں سوالات کرنا مناسب نہیں سمجھا، سلوی مجھے دیر تک اپنے مستقل کے پلان بتاتی رہی۔

    ’’جب رضوان اپنی انجینئرنگ ختم کر لےگا میں رات کی نوکری چھوڑدوں گی۔ اپنی B۔Comکی ڈگری ختم کروں گی اور کوئی اچھی سی جاب لے کوں گی، پھر ہم لوگ سیٹل ہو جائیں گے۔ گھر خریدنے کے لئے ڈاؤن پےمنٹ کی رقم تو میں ابھی سے جمع کر رہی ہوں، اصل میں مجھے بچے بہت پسند ہیں۔ پھر بچوں کے لئے بڑا گھر بھی چاہیے۔ ایک بچہ ابھی ہوجائے تو کوئی حرج نہیں، مجھے بڑی فیملی اچھی لگتی ہے میرے خود کئی بہن بھائی۔‘‘

    وہ کہتے کہتے رک گئی تھی۔

    واپس جاتے وقت رضوان بولا۔

    ’’بھابھی سمجھا دیانا آپ نے!کہہ دیں اسے کہ ہمارے یہاں عورتیں مرد کی تابع دار ہوتی ہیں مجاز ی خداسمجھتی ہیں خاوند کو’‘۔

    میں نے ہنس کر کہا۔

    ’’مجھ سے امید نہ رکھنا۔ میں تواس کے ہاتھ میں Feminism کا جھنڈا دے دونگی’‘۔

    سلوی نے ہماری اردو میں ہونے والی گفتگو پر سوالیہ نظروں سے ہماری طرف دیکھا۔

    رضوان نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر کہا۔

    ‘’Honey! میں بھابھی سے کہہ رہا تھا کہ تمہیں پاکستانی کھانے پکانا سکھا دیں’‘۔

    جاتے جاتے سلوی نے کہا۔

    ‘’آپ سے مل کر مجھے ایسا لگا کہ جیسے ہماری ملاقات برسوں پرانی ہے’‘۔

    مجھے بھی وہ چھوٹی سی گڑیا جیسی لڑکی اچھی لگی، اسے دیکھ کر ایک صاف ستھرے پن کا احساس ہوتا تھا، زندگی سے بھر پور نظر آتی تھی وہ۔

    اس ملاقات کے بعد مہینے گذر گئے ہم لوگ بھی اپنی پڑھائی میں مشغول ہو گئے۔ کبھی کبھار یونیورسٹی میں آتے جاتے ہیلو، ہائے ہو جاتی تھی۔ کر سمس کی چھٹیوں میں سلوی نے فون کرکے ہم دونوں کی کھانے پر مدعو کیا۔ اس کا گھر بہت صاف ستھر ا اور سلیقے سے سجا ہوا تھا۔ دیواروں پر خوبصورت واٹر کلر تصویروں کے درمیان دو فریم کئے ہوئے فو ٹو گراف بھی تھے ایک گروپ فوٹو گراف یقیناً سلوی کی فیملی کا تھا دوسرا فریم شدہ فوٹو رضوان کے والدین کا لگتا تھا اس فوٹو میں ایک صاحب سر پر پگڑی باندھے، مونچھوں پر تاؤ دئے کرسی پر اکڑے بیٹھے تھے ساتھ ہی ایک خاتون بیل لگا دوپٹہ سر سے اوڑھے کیمرے کی طرف دیکھ رہی تھیں۔

    سلوی نے بہت مزے کا ویٹ نامی کھانا پکایا تھا، ہم لوگوں کے کھانے کی طرح چٹپٹا تھا، اس نے مرغی کا سالن ہمارے انداز کا پکایا تھا وہ بھی کافی مزے دار تھا۔ خود گھر میں نان بھی بنائے تھے، میز بھی بہت خوبصورتی سے سجائی تھی۔ کھانے کے دوران اور میز صاف کرتے وقت سلوی جب بھی کسی کا م کے لئے رضوان سے کہتی تووہ بڑبڑاتا ہوا اٹھتا تھا۔

    ‘’ہنی !!Honey کرکے ہر وقت کام کرواتی رہتی ہے’‘۔

    میں نے کہا۔

    ’’رضوان تمہاری تو لاٹری نکل آئی، بہت سلیقہ مند لڑکی ہے کھانا بھی بہت اچھا پکا تی ہے‘‘۔

    رضوان حسب عادت اردو میں بولا۔

    ’’بڑی مصیبت ہے جی، بھا بھی! سیٹر ڈے کو سارا دن بازاروں میں گھومنا پڑتا ہے۔ پاکستانی گروسری اسٹور جاؤ، اپنا کھانا پینے کا سامان خریدنے پھر چائنا ٹاؤن کے چکر لگاؤ اس کی الا بلا خریدنے کے لئے۔ اور پھر گھر کی صفائی کا پاگل پن ہے اسے، چین سے بیٹھنے ہی نہیں دیتی، ہنی! یہ کرو، وہ مت کرو، اپنے موزے اٹھا کر رکھو، کوڑا پھینک کر آؤ۔ سالے ہنی کو پاگل بنا دیا‘‘۔

    مجھے ہنسی آ گئی، میں نے آہستہ سے کہا۔

    ’’بھلے آدمی! تم مستقل اردو اور پنجابی بول رہے ہو وہ کیا سوچےگی’‘ رضوان نے کندھے جھٹکتے ہوئے کہا۔

    ’’سوچتی ہے تو سو چتی رہے میں نے کیا ٹھیکہ لیا ہے’‘۔

    اس دعوت کے بعد پھر ہماری ملاقات ہوئے مدت گذر گئی۔ فون پربھی بات نہیں ہو سکی حالانکہ کئی بار خیال آیا کہ سلوی سے بات کروں مکر موقع ہی نہیں ملا، اک دن رضوان عشرت کے پاس کسی کام سے آیا، وہ ان کا ایک کورس ٹیوٹر کر رہا تھا۔ میں نے رضوان سے سلوی کی خیریت پوچھی تو بولا۔

    ‘’آج کل اسے بچہ بنانے کی دھن لگی ہوئی ہے۔ میں یہ وبال نہیں پالنا چاہتا، ایک تو بھابھی وہ شکی بہت ہے، کہاں گئے تھے؟ کس کا فون تھا؟ رات کو اپنی ڈیوٹی کے وقت میں بھی نرسنگ ہوم سے فون کرتی ہے یہ چیک کرنے کے لئے کہ میں گھر پر ہوں کہ نہیں۔ یہ چاہتی ہے پاگل دی پتری کہ میں گھر میں بیٹھ کر انڈے دیا کروں’‘۔

    ایک دن میں پڑھتے پڑھتے اکتا گئی تو یونہی ٹہلنے کے لئے شاپنگ سینٹر کی طرف نکل گئی وہاں سلوی نظر آئی وہ پہلے سے ذراموٹی ہوگئی تھی۔ اس کا چہر ہ چمک رہا تھا۔ رسمی دعا سلام کے بعد وہ بےتابی سے بوبی۔

    ’’تم کو پتہ ہے میں Pregnant ہوں، چار مہینے ہو گئے ہیں’‘۔

    ہم لوگ قریب کے ریسٹراں میں کافی پینے چلے گئے، وہ بہت خوش تھی حسب عادت مستقل بولے جا رہی تھی۔

    ‘’ہمارا بچہ ہم دونوں کو قریب لے آئیگا۔ رضوان ادھر ادھر بھاگےگا بھی نہیں۔ دیکھو! میں دن کی جاب کرتی ہوں اس لئے گھر پر رہتی ہوں اور رضوان رات کو گھر پر رہتا ہے تو وہ رات کو آرام سے بچے کو دیکھ لیا کرےگا۔۔۔ چاہے لڑکا ہو یا لڑکی مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔’‘

    وہ مجھے دیر تک اپنی شاپنگ دکھاتی رہی۔ وہ بچے کے کپڑے، اون Baby care سے متعلق کتابیں وغیرہ لے کر آئی تھی۔

    رضوان اور سلوی سے ملاقات ہوئے پھر ایک عرصہ گذرگیا۔ میرا ڈپلومہ ختم ہو گیا تھا اس لئے تین مہینے کے لئے میں ہندوستان چلی گئی، واپس آ ئی تو نوکری ڈھونڈنے میں لگ گئی، جلدی ہی ایک اسکول میں عارضی ٹیچر کی جگہ مل گئی۔ عشرت اپنی P۔H۔D کی تھیسس لکھنے میں غرق تھے، وقت تیزی سے بھاگ رہا تھا، ایک روز میں دو پہر کو اسکول سے واپس آئی تو دیکھا کہ عشرت حسب معمول ڈائنگ ٹیبل پر اپنے کاغذات پھیلائے بیٹھے ہیں ایک تین چارسال کی بچی گلابی فراک پہنے پاس ہی اسٹرولر میں بیٹھی تھی۔

    عشرت ہنس کر بولے۔

    ‘’پتہ نہیں کون اس بچی کو کاریڈور میں چھوڑگیا تھا میں اٹھا لایا’‘۔

    بہت ہی پیاری چاند سی بچی تھی بالکل گول چہرہ، موتی کا سا رنگ گھنگھریالے بال۔

    اتنی دیر میں کچن سے رضوان ہاتھ میں بچی کے دودھ کی بوتل لئے ہوئے نکلا۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا۔

    ‘’اچھا تو یہ آپ کا شاہکار ہے کتنی پیاری ہے، ویسے تمہاری لگتی نہیں ہے۔ اتنی خوبصورت ہے’‘۔

    عشرت بولے۔ ’’بچہ پالتے ہوئے اچھا لگتا ہے نا رضوان’‘

    میں نے پوچھا۔ ‘’کیا نام رکھا ہے’‘

    رضوان بچی کا منھ ٹشو سے صاف کرتا ہوا بولا۔

    آمنہ۔ میری دادی کا نام تھا۔ دیکھا بھابھی پھنس گیا نا میں، ساری شام اس کی بےبی سٹنگ کرنی پڑی ہے۔ آج سلوی کو کہیں کام سے جانا تھا تو دن میں بھی ڈیوٹی لگ گئی۔ مجھے یونیورسٹی کی لائبریری سے اک ضروری کتاب لینی تھی اس کئے آپ کے پاس تھوڑی دیر چھوڑکر جاؤں گا آمنہ کو’‘۔

    اس نے احتیاط سے بچی کے گلے میں بب باندھا، منھ میں دودھ کی بوتل لگائی اور بولا۔

    ’’اب بس یہ سو جائےگی۔’‘ وہ ہنسا۔

    ’’بھابی! اگر میں بچی کو اسٹرولر میں ڈال کر یونیورسٹی لے گیا تو اپنا چانس بالکل ہی چلا جائےگا لڑکیوں کے ساتھ’‘۔

    عشرت بولے ‘’سدھر جاؤ رضوان چودھری!تمہاری بیوی تو ویسے ہی بڑی شکی ہے۔’‘

    رضوان مسکرایا۔ ’’بس جی ذرا دل پشوری کرتا ہوں’‘۔

    وہ دروازے کی طرف بڑھتا ہوا بولا۔

    ‘’بڑی شکی عورت ہے۔ سالی بہت جھگڑنے لگتی ہے۔ آمنہ کے بعد سے اور شیر ہو گئی ہے۔ جب وہ گھر پر ہوتی ہے نا۔۔۔ تو میں پڑھائی کا بہانہ بناکر گھر سے غائب ہو جاتا ہوں’‘۔

    ’’اور چھوکر یوں کے ساتھ گھومتا ہوں’‘۔ عشرت نے کہا۔

    رضوان کے جانے کے بعد وہ بولے۔

    ‘’اس بدتمیز لڑکے نے یونیورسٹی میں کسی کو ہوا نہیں لگنے دی کہ یہ شادی شدہ ہے’‘۔

    ایک دن سلوی کا فون آیا۔ وہ بغیر کسی تمہید کے بولی۔

    ’’میں تمہیں ٹرسٹ کرتی ہوں۔ بتاؤ کیا رضوان دوسری لڑکیو ں کے چکر میں ہے؟‘‘۔

    میں گڑبڑا گئی۔ اکثر میں نے رضوان کو کیفٹر یامیں، سڑک پر، لائبریری، میں کئی لڑکیوں کے ساتھ دیکھا تھا، انداز بھی کافی عاشقانہ تھے۔ لیکن میں سلوی سے کیا کہتی۔

    ’’دیکھو پڑھائی کے دوران اکثر لڑکیوں کا ساتھ رہتا ہے اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ کسی سے افیئر چل رہا ہو۔’‘ میں نے صرف اتنا ہی کہا کہ سلوی نے میری بات کاٹ دی، اس کی آواز میں ہلکا سا غصہ تھا۔

    ’’بات صرف افیئر کی ہی تو نہیں ہوتی۔ جب میرے ساتھ وقت گذارنے کی بات ہوتی ہے تو وہ پڑھائی میں گلے گلے ڈوبا ہوتا ہے اور دوسری لڑکیوں کے ساتھ وقت گذاری کے لئے اسے فرصت ہے‘‘۔

    اس نے ایک دم فون رکھ دیا مجھے حیرت ہوئی کیونکہ عموماً وہ بہت اخلاق سے پیش آتی تھی۔

    کوئی دو مہینے بعد وہ ایک دن اچانک ہمارے گھر آئی، بچی بھی ساتھ تھی۔ آمنہ اب پاؤں پاؤں چلنے لگی تھی وہ پھول کی طرح نازک سی بچی تھی۔۔۔ کالی چمک دار آنکھیں، چاند سا چہرہ۔ اس دن سلوی بہت تھکی تھکی سی لگ رہی تھی چہرے پر وحشت سی تھی تھوڑی دیر ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد وہ بولی۔

    ’’میں تمہارے پاس آئی ہوں۔۔۔ حالانکہ تم کیا کر سکتی ہو۔۔۔ استعمال کیا گیا ہے مجھے۔۔۔ مل گیا نا! مل گیا رضوان کو امگریشن۔۔۔ بچے کی ضد میری ہی تھی، وہ تو دامن بچاتا تھا۔۔۔ میں مسلمان ہوئی، بچی کو مسلمان بنایا۔۔۔ وہ۔۔۔ وہ بالکل Hypocrate ہے بیئر کی بوتلیں چڑھاکر مسلمان بنتا ہے’‘۔

    میں اس سے پہلے جب بھی اس سے ملی تھی تو اسے بہت اعتماد کے ساتھ بات کرتے ہوئے دیکھا تھا، آج وہ عجیب طرح بول رہی تھی۔

    سلوی ایک دم رونے لگی، اس کی بچی گھبراکر ماں کا منھ تکنے لگی۔ سلوی نے دیوانوں کے طرح بچی کا منھ چومنا شروع کر دیا۔ پھر رک کر غصے میں بولی۔

    ‘’وہ کہتا ہے طلاق لے لو۔۔۔ چھوڑدو مجھے میں برا ہوں۔۔۔ بہت آسان بات ہے نا۔۔۔ میں لوٹ کر کہاں جاؤں۔۔۔ زندگی دوبارہ کہاں سے شروع کروں تنکہ تنکہ کرکے میں پھر سے گھونسلہ بنا رہی تھی۔۔۔ پھر کوئی بم کیوں نہیں گر جاتا۔۔۔ ایک بار پھر۔۔۔’‘

    وہ ہذیانی سی کیفیت میں تھی ادھورے ادھورے بے ربط سے جملے بول رہی تھی۔ میں نے اسے ٹھنڈا پانی پلایا، سمجھانے کے لئے تو کچھ تھا ہی نہیں میرے پاس جو اس سے کچھ کہتی۔

    ہمارا اپارٹمنٹ دسویں منزل پر تھا، نیچے سڑک پر سے اچانک گاڑیوں کے بریک لگنے کی آواز آئی، ہارن بجنے لگے۔ میں نے جھانک کر دیکھا دوتین گاڑیوں کا بھیانک ایکسیڈنٹ تھا۔ منٹوں میں پولیس اور ایمبولنس آ گئی۔ ایک کا ر میں سے خون سے لت پت ایک لڑکے کو نکال کر ایمبولنس میں ڈالا جا رہا تھا۔ دوسری گاڑی بالکل بھرتا بن گئی تھی۔ میں تو کانپ گئی لیکن سلوی نے ایک منٹ کے لئے آکر جھانکا اور پھر واپس آکر صوفے پر بیٹھ گئی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں اور وہ دوبارہ وہی اپنی بکھری، الجھی باتیں کرنے لگی، مجھے یہ کچھ عجیب سا لگا۔ بچی اس سے بار بار کچھ کہہ رہی تھی، توجہ چاہ رہی تھی، تو وہ غصے سے اس پر چلا پڑی، بھر خود بھی رونے لگی اور بچی کو سینے سے لگا لیا۔

    میری سلوی سے اس ملاقات کو کئی مہینے گذر گئے، کئی بار دل بھی چاہا کہ اس سے فون پر با ت کروں لیکن پھر سوچا کہ میں اس کے مسائل کا کوئی حل تو نکال نہیں سکتی تو پھر اس سے کیا بات کروں۔ ایک دن سیٹرڈے کو ہم لوگ سکون سے بیٹھے کیسٹ پر غزلیں سن رہے تھے، وہ اکتوبر کا اک پر سکون، روشن دن تھا۔ صبح کے نو بجے تھے کہ اچانک فون کی گھنٹی بجی۔ عشرت نے اٹھایا۔

    ’’ہلو۔۔۔ جی میں عشرت علی بول رہا ہوں‘‘۔

    وہ کسی سے انگریزی میں کہہ رہے تھے۔ میں اٹھ کر چائے بنانے چلی گئی۔

    کچن میں ان کی آواز آ رہی تھی۔

    ’’یس۔۔۔ رضوان چودھری۔۔۔ ہاں میں جانتا ہوں۔۔۔ کیوں کیا بات ہے۔’‘

    پھر اچانک عشرت کی چیخ سنائی دی۔

    ‘’what۔۔۔ کیا۔۔۔ کیا ہوا؟‘‘

    میں دوڑ کر کچن سے باہر آئی۔ عشرت فون کا کریڈل کان سے لگائے غور سے کسی کی بات سن رہے تھے، چہرہ وحشت ناک ہو رہا تھا، چند منٹ ٹیلی فون پر بات سننے کے بعد انھوں نے بیٹھی بیٹھی آواز میں کہا۔

    ‘’اوکے۔۔۔ آدھے گھنٹے بعد آ جائیے’‘۔

    وہ چند منٹ تک فون ہاتھ میں لئے بیٹھے رہے۔ پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھتے رہے، پھر کہا۔

    ‘’ختم کر دیا۔۔۔ مارڈالا۔۔۔ دونوں کو’‘۔

    میں چیخ پڑی۔

    ’’کیا۔۔۔کیا کہہ رہے ہو۔۔۔ کسے’‘

    ’’رضوان اور بچی کو بھی۔۔۔ اس نے۔۔۔’‘

    شوکت کی زبان سے الفاظ نہیں نکل رہے تھے۔

    ‘’پولیس کا فون تھا۔ انھیں میرا فون نمبر رضوان کی ڈائری میں ملا ہے۔۔۔ کل رات۔۔۔ اس نے خودبھی خودکشی کی کوشش کی تھی۔ اپنی کلائی کاٹی تھی۔۔۔ وہ اسپتال میں ہے۔۔۔لاشوں کی شناخت کے لئے جاناہے مجھے’‘۔

    آدھے گھنٹے بعد ایک پولیس آفیسر نے ہمارے دروازے کی گھنٹی بجائی۔ اس نے بتایا کہ کل رات گیارہ بجے سلوی نے رضوان کو سوتے میں چاقو مارکر قتل کر دیا۔ بچی کو نیند کی گولیاں دے دیں۔ اس نے خود اپنی کلائی کی رگ کاٹی، پھر پولیس کو خود ہی فون کیا۔۔۔ وہ ابھی زندہ ہے۔ پولیس نے بتایا کہ انھوں نے رضوان کی ٹیلی فون ڈائری سے کئی نمبر ٹرائی کئے مگر کوئی بھی جاننے والا لاشوں کی شناخت کے لئے تیار نہیں ہے۔ پولیس آفیسر کے ساتھ عشرت چلے گئے۔ ڈیڑھ گھنٹے بعد جب وہ مردہ گھر سے واپس آئے تو ان کا چہر ہ سفید تھا۔ تھوڑی دیر ساکت صوفے پر بیٹھے رہے آہستہ آہستہ کہنے لگے۔

    ’’پولیس آفیسر کہہ رہا تھا۔۔۔ کل رات جب وہ ان کی اپارٹمنٹ میں داخل ہوئے تو۔۔۔ فرش پر دو پاکستانی پاسپورٹ پھٹے ملے تھے ایک پر رضوان کا نام تھا دوسرا آمنہ کا تھا۔ قریب ہی دو P۔I۔A۔کی ٹکٹ تھے۔ پرسوں یعنی پیر کے دن باپ بیٹی کی۔ فلائٹ تھی۔ چھپ کر بچی کو پاکستان لے جانے کا پروگرام بنایا تھا رضوان نے۔۔۔ ہاں اور وہ بھی آج صبح ہاسپٹل کھڑکی سے کود گئی۔۔۔ ختم ہوگئی سلوی بھی’‘۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے