Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دیمک

رام کمار

دیمک

رام کمار

MORE BYرام کمار

    کہانی کی کہانی

    ایک ایسے لڑکے کی کہانی ہے جو اپنے والد سے ناراض ہو کر ایک شہر میں ملازمت کرنے چلا آیا تھا۔ وہ اپنے والد کی عادتوں سے پہلے بھی نالاں تھا اور ماں کے انتقال کے بعد جب ایک دن وہ گرفتار ہو گئے تو اس کی نفرتوں میں اضافہ ہو گیا۔ جس دن وہ رہا ہو کر واپس آئے اسی دن وہ معمولی سا سامان لے کر گھر سے نکل پڑا اور اس کے والد اس کو روکنے کی ہمت بھی نہ کر سکے۔ آٹھ سال بعد اچانک وہ بیٹے کے کمرے پر پہنچ جاتے ہیں اور بارہ دن رک کر اچانک ایک دن چلے جاتے ہیں۔ بیٹے کو کمرے میں رکھے ہوئے خط سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ماں کی وہ صندوقچی دینے آئے تھے جس میں اس کے گہنے رکھے ہوئے تھے اور بچپن میں جب وہ ماں سے ان گہنوں کو دیکھنے کی ضد کیا کرتا تھا تو ماں کہتی تھی تیری دلہن کے لیے ہی تو ہیں۔

    اچانک کسی کے دروازہ کھٹکھٹانے کی آواز سن کر وہ چونک گیا۔ اس وقت کون ہوسکتا ہے؟ اس گھبراہٹ میں چارپائی سے اٹھ کر دروازے کی کنڈی کھولنا اسے ناممکن سا ہی لگا۔ اس نے دونوں کھڑکیوں پر نگاہ ڈالی جو بند تھیں۔ اسے یہ سوچ کر اطمینان ہوا کہ کوئی کمرے کے اندر نہیں آسکتا۔ شاید یوں بے وقت جو دروازہ کھٹکھٹارہاہے وہ کچھ دیر بعد خودبخود لوٹ جائے گا۔ شاید لوٹ ہی گیا ہو۔ نہیں تو دوبارہ کھٹکھٹاتا۔ لیکن کون ہوسکتا ہے؟ کس مقصد سے آیا ہے؟ یہ جاننے کا اشتیاق بھی کم شدیدنہیں تھا۔

    اسی لمحے پھر کسی نے دروازے کو چھوا۔ وہ فوراً چارپائی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ پاجامے کی سلوٹوں کو درست کیا۔ پاجامہ کافی گندا تھا لیکن اسے اتار کر پتلون پہننے کا وقت نہیں تھا۔ سردی سے اس کا ساراجسم کانپ اٹھا۔ جاڑوں کی راتوں میں وہ آٹھ بجے سے ہی بستر میں گھس جاتا تھا اور سرد ہواسے بچنے کے لیے رضائی کو تینوں طرف سے دبالیتا تھا۔ تیسری بارکمزور دروازے کے دونوں حصے زور سے چرمرا اٹھے۔ اسے ڈر لگا کہ اگر دروازہ فوراً نہ کھولا گیا تو اس بار وہ اس کے اوپر گرپڑے گا۔ وہ تیزی سے آگے بڑھا اور جھٹ سے کنڈی کھول دی۔ چھت پر پھیلے اندھیرے میں ایک دھندلی سی شکل دکھائی دی جس کا وجود ایک بھوت یا کسی پرچھائیں کی مانند محسوس ہو رہا تھا۔

    ’’کون ہے؟‘‘ اپنے ڈر کو دور کرنے کے ارادے سے وہ ذرا اونچی آواز میں چلایا۔ سائے نے کوئی جواب نہیں دیا لیکن جھجکتے ہوئے ایک قدم آگے بڑھا۔ دروازے سے باہر آتی روشنی میں چہرہ پہچان کے دائرے میں آگیا۔

    ’’آپ!‘‘ بہ مشکل اس کے منھ سے آواز نکلی۔ اس کے پیر چھت میں دھنس سے گئے، اور اگر وہ دروازے کا سہارا نہ لیتا تو شاید گرپڑتا۔ اس کاسر کچھ لمحوں کے لیے بڑی تیزی سے گھوم گیا تھا۔ وہ خود ہی کمرے کے اندر آگئے۔ ہاتھ میں صرف ایک تھیلا تھا جو انہوں نے کونے میں رکھ دیا اور پھر چارپائی پر بیٹھ گئے، کیوں کہ پورے کمرے میں بیٹھنے کی وہی ایک جگہ تھی۔

    ’’بغیر کوئی خبر دیے، اس وقت۔۔۔‘‘ وہ ابھی تک اپنی آنکھوں پر یقین نہیں کر پارہا تھا۔ ان کے چہرے پر ایک نظر ڈالتے ہی اسے یہ بھی لگا کہ ان میں کچھ کہنے کی سکت نہیں ہے۔ ان کا زرد سوکھا چہرہ، اندر کو دھنسی ہوئی آنکھیں جن میں روشنی کا اندازہ بہ آسانی لگایا جاسکتا تھا، ریل گاڑی کے سفر کی دھول میں اٹے کپڑے۔ وہ دیکھتا رہا اور وہ آنکھیں جھکائے فرش کی طرف تاکتے رہے، جیسے اس کا فیصلہ سننے کے منتظر ہوں۔

    ’’آپ بہت تھکے ہوئے لگتے ہیں۔ منھ ہاتھ دھولیجیے۔ میں چائے بنادیتا ہوں۔‘‘

    انہوں نے اس کی بات سنی نہیں۔ اس نے لمحے بھر کے لیے ان کے چہرے پر ایک نظر ڈالی لیکن کچھ بھی دکھائی نہیں دیا۔ وہ دیکھنا بھی کیا چاہتا تھا؟ لیکن وہ کیوں آئے ہیں؟ یہاں آنے کی ہمت انہوں نے کیسے کی؟ جب کہ آٹھ سالوں میں ان کے درمیان ایک پوسٹ کارڈ تک کا رشتہ باقی نہیں تھا۔ تھی صرف ایک کانٹوں والی تار جو بار بار توڑے مروڑے جانے پر اتنی الجھ چکی تھی، جسے پار کرنے کے لیے بہت سے وقت اور ضبط کی ضرورت تھی، جو ان دونوں میں سے کسی کے پاس نہیں تھا۔ وہ اس کے پار کیوں آئے؟

    کمرے کے ایک کونے میں زمین پر رکھے اسٹوو کو جلاکر اس نے ناپ کر دوپیالے پانی کھولنے کے لیے رکھ دیا۔ اسٹوو کا دھواں کمرے میں پھیلنے لگا۔ اس نے دروازہ کھول دیا، جس سے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا اسے کپکپا گیا۔ دن بھر کے کام سے جسمانی طور پر وہ اس قدر مضمحل ہوچکاتھا کہ چارپائی میں گھس کر سو جانے کے سوا اس کی کوئی اور خواہش نہیں تھی۔ وہ یہ بھی سوچ رہا تھا کہ وہ کہاں سوئیں گے۔ ساتھ میں کوئی بستر بھی نہیں تھا۔ کیا وہ امید کر رہے تھے کہ اس کے پاس ایک خالی بستر بھی ہوگا؟ ایک پھٹا ہوا پرانا کمبل کہیں پڑا ہوگا۔

    اسٹوو کی لو بھبھکنے لگی تھی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کیا پانی کے کھولنے تک وہ ساتھ دے سکے گی۔ معاً چارپائی کی طرف نظر اٹھ گئی تو لگا جیسے وہ سو رہے ہوں۔ وہ سو ہی رہے تھے۔ جھپکی آگئی تھی۔ سرکندھے کے سہارے ٹک گیا تھا۔ منھ کھلا تھا جس کے اندر دوپیلے دانت کمرے کی دھیمی روشنی میں بھی چمک رہے تھے۔ اسے شک ہوا کہ کہیں ان کی سانس رک تو نہیں گئی لیکن پاس آنے پر ہلکی آواز میں ان کا خراٹا سن کر اس کی تشویش رفع ہوگئی۔ پانی کھولنے لگا تھا۔ جھوٹی پیالی کو چلو بھر پانی سے صاف کرکے اس نے ایک کپ چائے ان کے لیے تیار کردی۔ اپنے لیے دودھ نہ ہونے کی وجہ سے چائے پینے کا خیال ترک کرنا پڑا۔

    ’’لیجیے چائے۔۔۔ پھر منھ ہاتھ دھولیجیے گا۔۔۔‘‘

    وہ چونک کر جاگ گئے۔ گرم پانی کا پہلا گھونٹ حلق سے اترتے ہی ان کے چہرے پر تازگی آگئی۔ وہ دھیرے دھیرے کنکھیوں سے اس کمرے کاجائزہ لینے لگے۔۔۔ کچھ اپنی تشفی کی خاطر، کچھ اس کی موجودہ حالت کی صحیح جانکاری کے لیے۔ یہ کمرہ، کمرے کی یہ دیواریں جن پر ایک عرصے سے سفیدی نہیں ہوئی ہے، یہ دھول، یہ گندگی، کباڑی کی دکان جیساکمرے میں بکھرا سامان اور اس کا مرجھایا روکھا سوکھا چہرہ جس میں سے ایک ایک بوند کرکے زندگی نچڑتی ہوئی بہہ کر اس سے الگ ہوگئی۔۔۔ لیکن وہ بولے کچھ نہیں، سب کچھ دیکھتے رہے، ایک تماشا بین کی طرح۔ اسے ہلکا سااندازہ ہوا۔ وہ دیکھنے آئے ہیں کہ میں کس حال میں رہتا ہوں۔ کیسے اپنا گزارا کرتا ہوں۔ گھر چھوڑ کر اپنے پیروں پر کیسے کھڑا ہوا ہوں۔ اچانک اپنے آپ کو کٹہرے میں کھڑے ملزم جیسی حالت میں پاکر اسے غصہ آگیا۔

    ایک بار ان کے چہرے پر نظر پڑتے ہی اسے لگا جیسے وہ مسکرارہے ہوں۔ ایک ہی نظر میں انہیں اصلیت کا پتا چل گیا ہو۔ لیکن کہا کچھ نہیں۔ کس حالت میں منھ بند رکھناچاہیے، اس کاصحیح اندازہ وہ لگالیتے تھے۔ وہ تو اس صورت حال کے لیے بھی تیار ہوکر آئے تھے کہ اگر اس نے کمرے کے اندر آنے کی اجازت نہیں دی تو وہ کیا کریں گے۔

    ’’تمہارے پاس آنے کا کئی بار خیال آیا۔۔۔‘‘ وہ جھجکتے ہوئے دھیمی آواز میں بولے، ’’لیکن ہمت نہیں ہوتی تھی۔‘‘

    وہ ہنسنے لگا۔ جان بوجھ کر زور سے ہنسا، تاکہ وہ اس کی باطنی کیفیت کا اندازہ لگاسکیں۔

    ’’کیوں؟‘‘

    لیکن اس کے ’’کیوں‘‘ کاجواب دینے کے بجائے وہ چائے پیتے رہے۔

    ’’آپ دیکھنا چاہتے تھے کہ میں کیسے رہتا ہوں۔‘‘ وہ کھڑے کھڑے ناگواری سے بولا، ’’اب تو دیکھ لیا نا؟ یہ کمرہ، یہ سامان اور یہ میں۔۔۔ کل صبح سورج کی روشنی میں اور بھی اچھی طرح دیکھ لیجیے گا۔‘‘

    انہوں نے قدرے اطمینان سے جیب سے بیڑی کا بنڈل نکال کر ایک بیڑی سلگالی۔ سردی سے بچنے کے لیے پیر اوپر کھینچ لیے۔

    ’’لیکن۔۔۔‘‘ اس کا اضطراب بڑھ گیا تھا، ’’آپ یہاں آئے کیسے؟‘‘ اتنے برسوں کے فاصلے کے بعد بھی وہ ان کے سامنے زیادہ بولنے کی ہمت نہیں کرسکتا تھا۔ اچانک اس نے یہ بھی محسوس کیا کہ ان کے آتے ہی اس طرح مشتعل ہونا اس کی کمزوری کو ہی ظاہر کرے گا۔

    ’’ابھی میں بہت تھکا ہوا ہوں۔ دن بھر ریل گاڑی میں بیٹھے بیٹھے۔۔۔ کیا میرے سونے کا انتظام ہو سکے گا؟‘‘

    ’’آپ کا بستر؟‘‘

    ’’میرے پاس کچھ نہیں ہے۔۔۔‘‘

    وہ پوچھنا چاہتا تھا کہ کیا وہ یہاں دوسرے بستر کی امید لے کر آئے تھے۔ لیکن اس نے محسوس کیا یہ سوال پوچھنا فضول تھا اور چپ چاپ کمرے کے دوسرے کونے میں میلے پھٹے کپڑوں اور دوسرے سامان کے نیچے سے ایک پرانا خستہ کمبل نکال دیا اور باہر چھت پر جھاڑنے کے لیے لے گیا۔

    ’’آپ اٹھیے تو بستر لگادوں۔ یہیں پر سونے کی جگہ نکالنی ہوگی۔۔۔‘‘

    وہ جوتا پہن کر باہر چھت پر آگئے۔ تاریکی میں آس پاس کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ صرف دور ایک کونے میں کچھ بکھری ہوئی دھندلی سی روشنیاں کسی بستی کے وجود کا پتا دے رہی تھیں۔ رات کے سناٹے میں جاڑے کی ہوا سے جیسے نحوست سی ٹپک رہی تھی۔ کیسا عجیب منحوس ساشہر ہے۔۔۔ یہاں بھلا کوئی کیسے رہ سکتا ہے؟ لیکن لوگ پھر بھی رہتے ہوں گے۔ بچو بھی رہتا ہے۔ بچو بھی بہت عجیب سا دکھائی دے رہا ہے۔ کافی بدل بھی گیا ہے۔

    ’’کمرے میں آجائیے۔ بستر لگادیا ہے۔‘‘ اس کی آواز سن کر وہ چونک سے گئے، ’’کھانا تو آپ کھا کر ہی آئے ہوں گے؟ یہاں کچھ نہیں ہے۔ تین دن پرانی ڈبل روٹی کے دوٹوسٹ بچے ہوئے ہیں۔‘‘ اس کے لہجے میں کرختگی پہلے سے زیادہ بڑھ گئی تھی۔ وہ لاپروائی سے بولے، ’’میں نے اسٹیشن پر ہی کھالیا تھا۔‘‘

    ’’آپ اس چارپائی پر سوجائیے۔ میں نیچے۔۔۔‘‘

    ’’میں نیچے سوجاتا ہوں۔ مجھے تو عادت ہے۔۔۔‘‘

    ’’آج تو اوپر ہی۔۔۔ کل دیکھا جائے گا۔۔۔‘‘

    کمرے کی بتی بجھ جانے پر دونوں کو باندھنے والے کمزور تار اچانک ٹوٹ گئے۔ وہ دو چھوٹے چھوٹے جزیرے بن گئے جو دھیرے دھیرے بہاؤ کے ساتھ ایک دوسرے سے دور ہوتے جارہے تھے۔ کمبل سے سر منھ ڈھک کر بچو لیٹ گیا۔ اس کے من میں وہی ایک بات رہ رہ کر گھوم رہی تھی جس سے اس کا غصہ اور جھنجھلاہٹ اسے گہرائی میں گھسیٹے لیے جارہے تھے۔ ان کے یہاں اچانک آنے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے، وہ اب تک سمجھ نہیں پایا تھا۔ پہلے خط لکھ کر اسے اس صورت حال کا سامنا کرنے کے لیے تیار تو کردیا ہوتا۔ لیکن شاید اندیشہ تھا کہ وہ انہیں یہاں آنے سے روک دے گا یا چھٹی لے کر کچھ دنوں کے لیے کہیں چلاجائے گا۔ لیکن اب کل دن کے اجالے میں ان کی شکل و صورت، ان کی گفتگو، ان کی عادتیں، ان کی بوباس کو کیسے برداشت کرے گا؟

    دل میں اٹھتے سوالوں کے جواب میں پھنس کر، خستہ کمبل اور دری کے بیچ سکڑے ہوئے، اسے سردی نہیں لگ رہی تھی لیکن آنکھوں میں نیند کاکوئی شائبہ تک نہ تھا۔ اوپر چارپائی سے باپ کے خراٹوں کی تیز آواز سن کر اس کا غصہ اور بھی بڑھ گیا۔ اس کمرے میں میری چارپائی پر لیٹ کر پہلے ہی دن بغیر کسی الجھن کے انہیں نیند آگئی۔ اس کی خواہش ہو رہی تھی کہ انہیں جھنجھوڑ کر اٹھادے اور کہے کہ وہ لیٹ سکتے ہیں لیکن سو نہیں سکتے۔ یہ حق انہوں نے گنوادیا ہے۔

    کتنے ہی دنوں تک وہ رات ایک بھوت کی مانند اس کی ذات سے چپکی رہی تھی جس سے نجات پانا تقریباً ناممکن سا لگ رہا تھا۔ اتنے برسوں بعد بھی وہ منظر بہت واضح صورت میں اس کے سامنے گھومتا رہتا تھا۔ وہ ایک چھوٹا سا بیگ لٹکائے، گھر کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ آیا تھا۔ وہ بند کھڑکی کے شیشے میں سے اس کی پرچھائیں کو دھندلاتے ہوئے دیکھ رہے تھے، لیکن اسے روکنے کا ایک لفظ ان کے منھ سے نہیں نکل سکا تھا۔ اگر وہ کہتے تو شاید اس کی فطری کمزوری گھر چھوڑنے کے اس ارادے کو ڈھیلا کردیتی۔۔۔ ایسا بعد میں وہ کبھی کبھی سوچتاتھا۔ وہ اس لمحے کتنے بے بس، کتنے ٹوٹے ہوئے لگ رہے تھے۔ ان کی آنکھوں میں ایک عجیب ساخالی پن بھر گیا تھا، جو اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ شاید اس سے کچھ کہناچاہتے تھے لیکن ہمت نہیں جٹاپارہے تھے، یا شاید یہ اس کا وہم ہی تھا کیوں کہ ان کی شخصیت میں اس قسم کی جذباتیت کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی، یہ بات وہ جانتا تھا۔

    کئی دنوں تک ان کا چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے گھومتا رہا۔ اس رات کو اس نے اپنی ہی بات سوچی تھی۔ اگرچہ اس کی جیبیں لگ بھگ خالی تھیں لیکن اس کی عمر، اس کا جسم اپنے لیے کہیں ایک کونا بنانے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ اس کے برعکس وہ اپاہج سے بنتے جارہے تھے۔ انہیں کسی سہارے کی ضرورت تھی۔ وہ سہارا صرف وہی بن سکتاتھا لیکن اس نے انکار کردیا۔

    ماں کی اچانک موت کے بعد اس گھر میں وہ دونوں نہ صرف اجنبی بن گئے تھے بلکہ بیچ کاتناؤ پتھر کی دیوار کی طرح سنگین بنتاجارہا تھا۔ ان کے اپنے مسائل تھے۔ مالی پریشانیاں تھیں۔ جو نیا کام شروع کیا تھا وہ ٹھیک ڈھنگ سے نہیں چل رہاتھا۔ جسم سے چپکی بیماریاں کبھی زیادہ تکلیف دینے لگتی تھیں۔ بیوی کی موت کے بعد انہیں تنہائی بھی اکھرنے لگی تھی۔ اور اس کی اپنی یہ چوتھی ملازمت تھی لیکن نہ اچھی تنخواہ تھی نہ مستقبل کا کوئی تحفظ۔ پہلی تاریخ کو جب وہ ان کی میز پر تنخواہ کے روپے رکھنے جاتا، تب وہ بہت حقارت کے ساتھ اسے اور ان روپوں کو دیکھتے تھے، جس سے اس کا دل نفرت سے بھر جاتا۔

    ہر بار اسے اندیشہ ہوتا تھا کہ وہ روپے اسے واپس لوٹادیں گے لیکن اس کے چلے جانے کے بعد وہ انہیں گن کر لوہے کی الماری میں رکھ کرتالا لگادیتے تھے۔ ماں کی موت کے بعد گھر چھوڑدینے کا خیال بھی اس کے ذہن میں آیا تھا لیکن کسی نامعلوم وجہ سے وہ اسے پورا نہیں کرسکا۔ سب سے بڑی وجہ اس کی اپنی کمزوری، خوداعتمادی کی کمی اور بزدلی تھی۔ زندگی میں برسوں سے چلتا آیا ایک سلسلہ توڑ کر اپنے لیے الگ راستے کو تلاش کرنے کی ضرورت ایک فضول سی ذمہ داری محسوس ہوتی تھی، جس سے وہ ہمیشہ بچتا رہا۔ اس کی اس کمزوری سے پتا بھی واقف تھے۔

    اماں کے کمرے میں ایک چھوٹی سی الماری تھی جس پر ہمیشہ ایک لاہوری تالا لٹکا رہتا تھا۔ اس کے اندر ان کی اپنی ایک چھوٹی سی دنیا تھی، جس میں ان کے بچپن کی کچھ چیزیں باقیات کی صورت میں محفوظ تھیں۔ برسوں پرانی ان کی ماں، بہنوں اور شوہر کی چٹھیاں، اپنے کچھ بہت پرانے کپڑے جو شاید ان کے بیتے برسوں کی یادوں کو تازہ کردیتے تھے، کچھ دھندلی سی تصویریں جن میں چہرے تقریباً ناقابل شناخت تھے۔ بچپن میں باپ کی عدم موجودگی میں جب کبھی اماں الماری کا تالا کھولتیں تب وہ جوش سے بھرا ہوا سیدھا ان کے پاس آجاتا تھا لیکن وہ ڈانٹ کراسے دور ایک کونے میں بٹھادیتیں۔ وہ سامان دیکھنے کی ضد کرتاتو کبھی دور سے تو کبھی پاس سے اسے ایک جھلک دکھلادیتی تھیں لیکن کبھی اسے ہاتھ نہ لگانے دیتیں۔ کبھی کبھی مختصراً ان کی تاریخ بھی بتاتی جاتیں اور ان کی آنکھوں میں یادوں کی پرچھائیاں ڈولنے لگتیں۔

    ’’سب جیسے ایک سپنا سا تھا۔۔۔‘‘ وہ ایک لمبی آہ کھینچ کر کہتیں۔

    اس کے لیے پوری الماری میں سب سے پرکشش چیز تھی زیورات کی وہ چھوٹی سی صندوقچی جس کے اندر پرانے، گھسے ہوئے مخملی ڈبے میں ان کے زیور رکھے ہوئے تھے۔ اس کے ضد کرنے پر وہ اس صندوقچی کو بھی کھولتیں اور ڈبے کے ہر گہنے کا معائنہ کرتیں۔۔۔ موتیوں کا جڑاؤ ہار، گلے کا نورتن، چوڑیاں، بڑی سی نتھ، کانوں کی ہیرے کی ترکیاں، پکھراج اورنیلم کی انگوٹھیاں۔۔۔ وہ چھوٹی سی انگلی میں انگوٹھی پہننے کی کوشش کرتا تو وہ ہنسنے لگتیں، ’’ارے جب بڑا ہوجائے گا تب پہننا۔۔۔ اور یہ سب گہنے بھی تو تیری دلہن کے لیے ہی ہیں۔‘‘

    ان کی موت کے بعد اس کے باپ نے اس کے سامنے نہ کبھی اس الماری کو کھولا نہ ہی کبھی اس کے متعلق اس سے کچھ کہا۔ اسے یقین تھا کہ اس کی غیرموجودگی میں انہوں نے ضرور وہ الماری کھولی ہوگی اور سارے سامان، خاص طور پر گہنوں کو دیکھا پرکھا ہوگا۔ گہنوں کی صندوقچی کو اپنی لوہے کی الماری کے اندر رکھ دیا ہوگا۔ پھر سوچا کہ وہ سب گہنے تواس کی دلہن کے لیے تھے۔ جب اس کی شادی کی کوئی بات ہی نہیں اٹھی تو انہوں نے بھی اس کے بارے میں نہیں کہا۔ لیکن ایک بات اسے دکھ دیتی تھی۔ اماں نے اپنے گہنوں کو باپ کی نظر سے ہمیشہ دور رکھا۔ انہیں باپ پر اعتماد نہیں تھا اور صرف وہی ان کی ذاتی ملکیت تھی جسے وہ اپنے پاس محفوظ رکھنا چاہتی تھیں۔ اور اب۔۔۔ باپ نے بڑی آسانی سے اس پراپنااختیار جمالیا تھا۔ شاید صحیح بھی تھا۔

    باپ کے کاروبار کے مسائل میں اس نے کبھی کوئی دلچسپی نہیں لی اور نہ ہی وہ کبھی کچھ بتلاتے تھے۔ اماں کو بھی کچھ پتا نہیں رہتا تھا لیکن تھوڑا بہت وہ جانتا تھا کہ ایک کے بعد ایک کام وہ شروع کرتے رہتے تھے۔ کچھ بند ہوجاتے تھے، کچھ تھوڑے عرصے کے لیے کامیاب ہوکر پھر خسارے کی طرف تیزی سے بڑھنے لگتے تھے۔ کاروبار کے جوڑ توڑ میں ہی وہ زیادہ تر مصروف رہتے تھے، جس سے گھر اور گھروالوں کے لیے ان کے پاس نہ وقت ہوتا تھا نہ ہی اس میں دلچسپی تھی۔ اماں کی موت کے بعد یہ دھاگا بھی ٹوٹ گیا۔

    ایک رات وہ گھر نہیں لوٹے۔ وہ دیر تک انتظار کرتا رہا۔ اس کی گھبراہٹ بڑھتی گئی۔ پھر ایک شناسا گھر آئے اور اسے بتایا کہ اپنے بیوپار کے کسی جرم میں اس کے پتا گرفتار ہوگئے ہیں۔ کل صبح اسے جیل میں بلایا ہے، جہاں اسے سب پتا چل جائے گا۔ وہ سکتے میں آگیا۔ وہ جانتا تھا کہ کوئی بھی غیرقانونی قدم اٹھانا ان کے لیے معمولی سی بات تھی لیکن اس حدتک ہی جس سے ان پر کسی طرح کی آنچ نہ آئے۔ ایسا وہ برسوں سے کرتے آئے تھے۔ ان باتوں میں ان کا دماغ بہت تیزی سے چلتاتھا اور اپنے بچاؤ کاراستہ وہ ہمیشہ ڈھونڈ لیا کرتے تھے۔

    پھنس جانے کے بعد بھی باہر نکلنے میں انہیں کوئی خاص مشکل پیش نہیں آئی۔ ایک مہینے بعد ہی وہ جیل سے باہر آگئے لیکن اس واقعے کی وجہ سے اس ایک مہینے کے دوران اُس میں ایک زبردست تبدیلی آگئی۔ اس نے اپنے آپ کو اس مکڑی کے جالے سے آزادکرلیا جس میں وہ برسوں سے قید تھا۔ سارے بندھن ایک ایک کرکے توڑ ڈالے۔ جس شام کو جیل سے چھوٹ کروہ اچانک گھر لوٹے تو ان کے مسکراتے ہوئے چہرے اور معمول کے مطابق برتاؤ کو دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ جیل سے باہر آئے ہیں۔ اسے یہ خوشی ہوئی کہ وہ پہلے سے ہی اس گھر میں، اس شہر میں نہ رہنے کافیصلہ کرچکا تھا۔

    اس کے بیگ اور اس کے چہرے پر ایک نظر ڈالتے ہی وہ اس کاعندیہ سمجھ گئے۔ انہیں گہرا صدمہ پہنچا جو گرفتار ہونے پر بھی نہیں پہنچا تھا۔ اس کاانہیں خیال بھی نہیں آیا تھا لیکن دوسرے ہی لمحے انہوں نے اپنے آپ کو سنبھال لیا۔ جذباتی ہونا ان کی فطرت میں نہیں تھا۔ اس نے اپنا بیگ اٹھاکر کندھے پر لٹکالیا، ’’میں جارہاہوں۔۔۔‘‘ بڑی مشکل سے اس کے منھ سے یہ الفاظ نکل سکے۔ بیگ کی طرف اشارہ کرکے وہ بولے، ’’بس یہی لے جارہے ہو؟‘‘

    ’’میرا اس گھر میں ہے ہی کیا؟ سب آپ کاہے۔‘‘ وہ بولا، ’’میراجو سامان بے کار لگے وہ کباڑی کو دے دیجیے گا۔‘‘

    انہوں نے آہستہ سے پوچھا، ’’کچھ روپوں کی ضرورت ہے؟‘‘

    ’’روپے۔۔۔‘‘ وہ چونکا۔ اسے لگ رہاتھا کہ اگر وہ مزید رکارہاتو اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ سکے گا۔ وہ بولا، ’’ہیں میرے پاس۔‘‘ اور تیزی سے سیڑھیاں اترنے لگا۔ نیچے سڑک پر آکر ایک بار اوپر کی جانب خالی نظروں سے دیکھا لیکن کچھ دکھائی نہیں دیا۔ کمرے کی بند کھڑکی کے شیشے کے سامنے ان کی دھندلی سی پرچھائیں دکھائی دی، بس۔ وہ اسی کی طرف دیکھ رہے تھے۔ وہ تیز قدموں سے آگے بڑھ گیا۔

    پلیٹ فارم کے ایک سرے پر بھیڑ سے دور ایک بنچ پر بیٹھے بیٹھے وہ گاڑیوں کی آمد و رفت اورمسافروں کاچڑھنا اترنا د یکھتارہا۔ اسے لگاجیسے ان سب لوگوں کو، ان گاڑیوں کو، ایک مقررہ سمت، مقررہ مقام تک پہنچنے کی جلدی ہے ؛ کوئی بھی بے مقصد سفر نہیں کر رہا تھا اور وہ کسی غیرمتعین سمت میں آگے بڑھنے کا انتظار کر رہا ہے۔ ایک عرصے تک اسی شہر میں، اسی ایک گھر میں رہناکیا ایک غلطی تھی؟ کوئی ایسی ویران جگہ ہوتی جہاں نہ ریل گاڑی ہوتی نہ بس ہوتی، تو بغیر کسی کشمکش کے کندھے پر بیگ لٹکاکر وہ سڑک پر پیدل چل پڑتا۔ لیکن یہاں تو کسی خاص شہر کا ٹکٹ خریدنا، گاڑی کا وقت جاننا، سب ضروری تھا۔

    اس کے دل کے کسی اندھیرے کونے میں ایک دھندلی سی امید تھی۔۔۔ شاید باپ اسے گھر واپس لے جانے کے لیے آئیں۔ تب وہ انکار نہیں کرسکتا تھا۔ اس کی نظر پلیٹ فارم کے نشیب میں اترتی سیڑھیوں پر کئی بار گئی لیکن اسے مایوس ہی ہونا پڑا۔ گھر واپس لوٹنے کاآخری لمحہ بھی دھیرے دھیرے گزرگیا۔

    صبح اس کی آنکھ جلد ہی کھل گئی اور وہ ہڑبڑاکر اٹھ بیٹھا۔ دوسرے ہی پل اسے رات کاواقعہ یاد آگیا اور اس کی نظریں چار پائی کی طرف اٹھ گئیں۔ وہ سو رہے تھے۔ اسے اچانک یاد آیا کہ دیر تک سوتے رہنے کی ان کی پرانی عادت ہے۔ کتنی ہی چھوٹی چھوٹی غیرضروری باتیں حالات کی تبدیلی کے ساتھ یادوں کی پرتوں میں کھوجاتی ہیں لیکن موقع پاتے ہی فوراً ایک کے بعد ایک سامنے کھڑی ہوجاتی ہیں۔

    رات کو نیند میں بھی ایک اضطراب، گھبراہٹ اور خوف موجود تھا، جس سے اس کا سربھاری ہو رہاتھا۔ ایک پیالہ گرم چائے پینے کی خواہش بہت شدید تھی۔ وہ دودھ کا برتن لے کر دبے پاؤں باہر آگیا لیکن جب وہ دودھ لے کر لوٹا، تب وہ بیدار ہوچکے تھے اور کھلی آنکھوں سے کمرے کی چھت کی طرف تاک رہے تھے، جہاں جالے چپک گئے تھے اور جگہ جگہ سیمنٹ کا پلاسٹر اکھڑ گیا تھا۔

    وہ چپ چاپ اسٹوو جلانے لگا۔ چائے کا ایک پیالہ کرسی کے پاس رکھ دیا اور خود دری پربیٹھ کر کانچ کے گلاس میں چائے پینے لگا۔ وہ ایک لمبی سی سانس کھینچ کر چارپائی پر بیٹھ گئے لیکن انہماک ویسا ہی قائم رہا۔ رات کواچانک پیش آنے والا واقعہ اب صبح کی روشنی میں اتنا ڈراؤنا نہیں لگ رہا تھا جیسا کہ اس نے سوچا تھا۔ رات کو ان کی آنکھوں میں اس کے بارے میں جاننے کا جو تجسس اور دلچسپی کاجو احساس دکھائی دیا تھا صبح اس کی جگہ لاتعلقی نے لے لی تھی۔ لیکن شاید یہ ان کا دکھاوا ہی ہو۔ ان کے بارے میں یقینی طور پر کچھ بھی کہنا ممکن نہیں تھا۔

    ’’میں اپنے لیے روٹی بناکر دفتر لے جاتا ہوں۔ کیا آپ کے لیے بھی بنادوں؟‘‘

    وہ چونکے، ’’کیا پوچھا تم نے؟ میں نے سنا نہیں۔‘‘

    اس بار وہ چونکا، ’’آپ کے لیے روٹی بنادوں؟‘‘

    ’’بنادو۔ نہیں تو میں خود بھی بناسکتا ہوں۔‘‘ وہ سمجھ گیا کہ وہ اس کا احسان قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ وہ بازار جاکر کھالیں گے۔

    اچانک کھڑکی میں سے آتی سورج کی روشنی میں سے ان کے چہرے کی ایک جھلک دیکھتے ہی وہ کشمکش میں پڑگیا۔ اگر وہ انہیں سڑک پر دیکھتا تو شاید پہچان بھی نہ پاتا۔ وہ نہ صرف زیادہ بوڑھے اور زیادہ کمزور ہوگئے تھے بلکہ ان کی آنکھوں میں، ان کے چہرے پر ایک تھکان سی چھاگئی تھی۔ اس سے قبل بھی وقت کے ساتھ ساتھ اور کئی حادثات کے بعد ان میں کئی تبدیلیاں آتی دیکھی تھیں، لیکن ان کے اندر ایسا کچھ تھا جو کبھی نہیں بدلا۔۔۔ نہ ماں کی موت کے بعد، نہ جیل جانے پر، نہ اس کے گھر چھوڑتے وقت۔ وہ بہت غور سے ان کی طرف دیکھ رہاتھا۔ وہ جاننا چاہتا تھا کہ یہ کہیں اس کافریب نظر تو نہیں۔ گھڑی پر نظر پڑتے ہی وہ فوراً اٹھ کھڑاہوا۔ دفتر جانے سے پہلے ابھی کتنے ہی کام نمٹانے تھے۔

    کمرے کے ایک کونے میں ہی کھانے کا سامان اور برتن وغیرہ رکھے تھے۔ ٹوکری میں پڑے آلو چھیل کر اس نے ایک دیگچی میں اسٹوو پر چڑھادیے تھے۔ پھر تھالی میں آٹا نکال کر گوندھنے لگاتاکہ آلو پک جانے پر روٹیاں سینک سکے۔ اس بیچ باہر نل کے نیچے بیٹھ کر غسل بھی کرآیا۔ وہ بیڑی کے کش کھینچتے اور چارپائی پر بیٹھے بیٹھے کنکھیوں سے اس کے سارے کاموں کو بہت دلچسپی سے دیکھتے رہے۔ اس کے چھت پر جانے کے بعد اچانک وہ بڑبڑانے لگے۔ یہ بھی ان کی پرانی عادت تھی۔

    ’’کیا آپ مجھ سے کچھ کہہ رہے تھے؟‘‘

    ’’نہیں، کچھ کہنے سے کیا بن جائے گا؟‘‘

    وہ تیزی سے روٹیاں سینک رہا تھا۔ روٹیاں موٹی تو ضرور تھیں مگر توے پر پھول جاتی تھیں۔

    ’’آپ دن میں شہر گھوم آئیے گا۔۔۔‘‘

    وہ جھنجھلاکر بولے، ’’اسٹیشن سے آتے وقت ہی شہر کاپتا چل گیا تھا۔ میں کمرے پر ہی آرام کروں گا۔۔۔‘‘

    پھر پوچھا، ’’کیا اخبار ابھی تک نہیں آیا؟‘‘

    وہ مسکرانے لگا، ’’میں اخبار نہیں خریدتا۔ دفتر میں ہی کسی دوست سے لے کر پڑھ لیتا ہوں۔ شام کو آپ کے لیے لے آؤں گا۔‘‘

    ’’اخبار کوئی شام کو پڑھنے کی چیز ہوتی ہے! تم تکلیف مت کرنا۔‘‘ اسے یہ جان کر تسلی ہوئی کہ انہیں دھیرے دھیرے گھر کی اصلی صورت حال کا اندازہ ہوتا جارہا ہے۔ کام نمٹاکر وہ جلد ہی گھر سے باہر نکل جانا چاہتا تھا، حالانکہ اس کے دفتر کاابھی وقت نہیں ہوا تھا۔ کمرے میں سامنے چارپائی پر انہیں بیٹھے دیکھ کر اسے اپنی سانس گھٹتی سی محسوس ہورہی تھی۔ اسے لگ رہا تھا کہ اگروہ کچھ دیر اور ان کے سامنے رہا تو اس کے منھ سے برسوں سے جمع ہوتی کائی میں سے کوئی ایسی بات نکل آئے گی جو انہیں چبھے گی اور بعد میں اسے شرمندگی ہی ہوگی۔

    دن بھر دفتر میں اپنی میز کے سامنے بیٹھے بیٹھے اپنی زندگی کے پچھلے تیس برسوں کی تاریخ بڑی بے ترتیبی کے ساتھ، کبھی آگے کبھی پیچھے، ایک ہی دائرے میں اس کے سامنے گھومتی رہی۔ شام کو گھر لوٹنے کے خیال سے دل پر ایک دہشت سی چھاگئی۔ کیا باتیں کرنے آئے ہیں وہ؟ اور کیوں؟ کیا ضرورت؟ کیا کچھ پیسے مانگنے کے ارادے سے آئے ہیں؟ اتنا اس نے سن رکھا تھا کہ جیل سے لوٹنے کے بعد انہوں نے اپنے سارے کاروبار بند کردیے تھے۔

    پاس میں مہینے بھر کی تنخواہ سے زیادہ روپے نہیں بچے تھے۔ دودھ بڑھانا پڑے گا۔ وہ رات کو سونے سے پہلے ہمیشہ دودھ پیتے ہیں، یا کم سے کم پہلے تو پیتے تھے۔ گھی، آٹا، چاول، دالیں۔۔۔ سب اور خریدنی پڑیں گی۔ لیکن دوسرے ہی لمحے اسے اپنے آپ پر غصہ آنے لگا۔ ان کی مہمان نوازی کرنے کے لیے وہ اپنے آپ کو دکھ کیوں دے؟ پھر بھی شام ہوتے ہوتے اس نے اپنے دوساتیوں سے دس دس روپے ادھار لے لیے تھے۔ شاید اس کے دل میں کہیں یہ جذبہ بھی کارفرما تھا کہ پتا اس کی حالت سے یہ اندازہ لگاسکیں کہ وہ اچھا کھاتا پیتا شخص ہے، جسے کبھی دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اگر ان کے آنے کی اطلاع اسے پہلے مل جاتی تو وہ اپنے کمرے، کپڑوں اور کھانے پینے کے سامان میں کچھ بہتری پیدا کرلیتا۔

    انہیں دیکھتے ہی اسے ایسا لگا جیسے اس کی غیرموجودگی میں انہوں نے اپنے آپ کو معمول کے مطابق ڈھال لیا ہے۔ نہ چہرے پر رات والی لاتعلقی تھی نہ اداسی۔ نیا کرتا اور پاجامہ پہنے، سر میں تیل ڈال کر کنگھے سے سنوارے ہوئے ان کے بال۔۔۔ وہ رات کی بہ نسبت زیادہ پراسرار معلوم ہورہے تھے۔ انہیں چھت پر ٹہلتے ہوئے اس نے بس سے اترکر سڑک سے ہی دیکھ لیا تھا اور اسی لمحے سے اس کی گھبراہٹ بڑھ گئی تھی۔ ان کا سامنا کرنے کی گھڑی قریب آگئی تھی جس کے خیال سے وہ دن میں ہی کئی بار پریشان ہوگیا تھا۔

    اس کے پاس آتے ہی وہ بڑے سہج طریقے سے مسکرائے، ’’بہت دیر سے لوٹتے ہو۔‘‘

    بازار سے خریدا ہوا سامان تھیلے سے نکال کر وہ ایک کونے میں چپ چاپ رکھنے لگا۔ وہ چھت پر دروازے میں کھڑے دیکھتے رہے۔

    ’’تم اپنے لیے چائے بنالو۔ میں بازار سے پی آیا تھا۔‘‘

    ایک گہری افسردگی اسے اپنے گھیرے میں باندھے جارہی تھی۔ وہ دری کے کونے پر بیٹھ گیا۔ خواہش ہو رہی تھی کہ اسی طرح لیٹ جائے، سوجائے، بس۔۔۔ دفتر اور راستے میں محسوس نہیں کیا لیکن اب گھر میں پاؤں رکھتے ہی تھکان اور نیند کا بوجھ اچانک ناقابل برداشت معلوم ہو رہا تھا۔

    ’’شاید تم تھک گئے ہو۔ کچھ دیر کے لیے آرام کرلو۔‘‘ پل بھر کے لیے اس کے چہر ے کی طرف دیکھتے رہے، ’’کھانا میں نے بنالیا ہے۔‘‘ وہ حیرت میں پڑگیا۔ خشک لہجے میں بولا، ’’آپ نے کیوں بنایا؟ میں آکر روز ہی تو بناتا ہوں۔ اور سامان بھی تو نہیں تھا۔‘‘

    ’’کچھ سامان میں بازار سے لے آیا تھا۔۔۔‘‘ وہ آہستہ سے بولے۔ پھر وہ دروازے سے ہٹ کر بیڑی سلگاکر چھت پر ٹہلنے لگے۔

    کمرے کے اندر اندھیرا گہرا ہوتاجارہاتھا لیکن بتی جلانے کا دھیان اسے نہیں آیا۔ دھول سے اٹے اس کے پیر آنکھوں کے سامنے تھے۔ ان جاڑوں میں موزہ خریدنا پڑے گا۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اس کے ساتھ جوتا بھی خریدنا پڑتا جس کے لیے وہ پچھلے دو برس سے روپوں کا بندوبست نہیں کرسکا تھا۔ پتانے بھی یہ ضرور دیکھا ہوگا۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر غور کرنے سے وہ کبھی نہیں چوکتے۔ یہ سوچ کرتسلی ہوئی کہ کھانا نہیں بنانا پڑے گا۔ اس خوشی میں اس نے اسٹوو پر چائے کا پانی چڑھا دیا۔

    ’’دن میں میں شہر کاچکر لگا آیا۔‘‘ چائے کاگلاس ہاتھ میں لے کر چارپائی پر بیٹھتے ہوئے وہ کہنے لگے، ’’بڑاعجیب شہر ہے۔ دھول کے علاوہ اور کچھ دکھائی نہیں دیتا۔‘‘

    ’’تین طرف ریگستان ہے جس کی ریت ہوا کے ساتھ اڑا کرتی ہے۔‘‘

    ’’تمہیں یہی شہر ملا۔۔۔‘‘

    ’’جہاں نوکری ملی وہیں تو آتا۔‘‘ وہ چڑ کر بولا۔ وہ اپنے میں ہی کہیں کھوگئے۔ کمرے کا سکوت ان دونوں کے درمیان پھیلنے لگا۔

    ’’اور۔۔۔ آپ نے سب بند کردیا؟ اپنا کاروبار، دکان۔۔۔ سب؟‘‘ اس نے جھجکتے ہوئے پوچھا۔ حالانکہ اسے اس سے کوئی دلچسپی نہیں تھی لیکن وہ سوچتا تھا کہ رسمی طور پر ہی سہی، اسے کچھ پوچھنا ضرور چاہیے۔

    ’’اچھا! تمہیں پتاچل گیا؟‘‘ انہوں نے مضطربانہ لہجہ میں پوچھا۔

    ’’شمبھو نے لکھا تھا۔ کبھی کبھی اس کاخط آجاتا ہے جس میں وہ ساری خبریں لکھ دیتا ہے۔ وہ شاید سوچتا ہے کہ مجھے سب کچھ جاننے کی خواہش ہے۔‘‘

    ’’ہاں۔ میں نے ہی اسے لکھنے کو کہہ دیا تھا تاکہ تمہیں حالات کا علم ہوجائے۔‘‘

    ’’میرے جاننے نہ جاننے سے آپ کو کیا فرق پڑتا ہے!‘‘ وہ کچھ جذباتی سا ہوگیا تھا۔

    ’’پھر بھی تمہارا جان لینا ضروری تھا۔‘‘ اس نے بات کو آگے نہیں بڑھایا۔ فضول کی بحث میں وہ نہیں الجھنا چاہتا تھا۔ اس کے لیے دوسرے موقعے آئیں گے۔

    ’’جب تم گھر چھوڑ کر چلے گئے تب اچانک ان سب سے میری دلچسپی بھی ختم ہوگئی۔‘‘ غصے سے اس کا چہرہ تمتما گیا۔ وہ اپنے آپ پر بڑی مشکل سے قابو پاسکا۔ اپنی کمزوری کو دوسروں پرلادنا ان کی پرانی عادت تھی۔

    ’’اور شاید کچھ کر بھی نہ پاتا۔ گرفتار ہونے سے پہلے میں نے ایک بہت بڑاداؤ کھیلا تھا۔‘‘ وہ کھلے دروازے سے باہر دیکھ رہے تھے، ’’لیکن آخری بازی میں میری ہار ہوئی۔ کچھ بھی بچا نہیں سکا۔‘‘ اسے تعجب ہواکہ پہلی بار وہ سب اسے کیوں بتلا رہے ہیں اور وہ بغیر کسی مخالفت کے سنتا جارہا ہے۔ دبی آواز میں بولا، ’’اب ان واقعات کے ذکر سے کیا فائدہ!‘‘

    انہوں نے اس کی بات سنی نہیں، ’’چاہتا تو کوئی چھوٹاموٹا کام شروع کرسکتا تھا۔ اتنی ہمت مجھ میں جیل سے چھوٹنے کے بعد بھی تھی لیکن اچانک بددلی سی پیدا ہوگئی۔ ساراجوش ختم ہوگیا۔‘‘ اس نے یہ بھی محسوس کیا کہ اس کا گھر چھوڑ کر چلے جانا ایک بہت بڑا سبب تھاجس کااحساس وہ اسے کرادینا چاہتے تھے۔

    کمرے میں پھر خاموشی چھاگئی، ایسی جیسے کمرہ بالکل خالی ہو۔ وہ چپ چاپ کمرے کی ننگی دیواروں، کھڑکی اور دروازے کی طرف دیکھتا رہا۔ تبھی اسے لگاجیسے انہوں نے دن میں پورے کمرے کی صفائی کردی ہو۔ چھت سے جھولتے ہوئے اور کونوں میں چپکے ہوئے جالے غائب ہوگئے تھے۔ کمرے میں اوپر تلے سامان کی دھول جھاڑ پونچھ کر اسے ترتیب سے لگادیا گیا تھا، جس سے کمرہ کافی بڑا معلوم ہو رہاتھا۔ لیکن اس نے ان سے کچھ نہیں کہا۔ اس کے دل میں ایک اندیشے نے سرابھارا۔ ایک ہی دن میں اس گھر کی ذمہ داری انہوں نے اپنے اوپر لے لی!

    اس رات اچانک ہوا بہت تیز ہوگئی جس سے اب تک رکی ہوئی سردی کی غضب ناکی بڑھ گئی تھی۔ دروازہ کھڑکی بند کردینے پر بھی سرد ہوادراڑوں میں سے اندر آکر اپنا اثر دکھا رہی تھی۔ چھت کے ایک کونے میں بنے غسل خانے کی ٹین کی چھت ہوا میں جھولتی ہوئی ہلکا سا شور کر رہی تھی۔ وہ کمبل میں لپٹا ہوا فرش پر لیٹا تھا اور اسے لگاتار وہ شور سنائی دے رہا تھا۔

    اس رات بہت دنوں بعد ماں کا چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے گھومتا رہا۔ ان کاچھوٹا سا قد، دھان پان جسم، لاتعلقی سے بھری غیرجذباتی بڑی بڑی آنکھیں اور باپ کے بالکل برعکس بہت دھیمی اور مدھر آواز۔۔۔ انہوں نے کبھی کوئی شکایت نہیں کی، نہ بیٹے سے نہ شوہر سے۔ ان دونوں کے درمیان جو خلیج پیدا ہوگئی تھی، اس کاانہیں بہت پہلے احساس ہوگیا تھا۔ شوہر سے اس سلسلے میں کچھ بھی کہنا فضول تھا لیکن وہ اپنے کمزور اور ڈرپوک بچے کے دل میں باپ کے لیے فرض اور نیک جذبات کااحساس مضبوط بنانے کی ہمیشہ کوشش کرتی رہیں، ’’وہ دل کے برے نہیں ہیں۔۔۔‘‘ جھجکتے ہوئے کہتیں جیسے خود اپنی بات پر انہیں پورا یقین نہ ہو۔ ’’تو بھی دیکھتا ہے کہ کتنا بوجھ ان پر رہتا ہے۔ رات دن گھٹتے رہتے ہیں لیکن کسی کامقدر ہی خراب ہو تو وہ کیا کرے۔۔۔‘‘ وہ گہرے یقین کے ساتھ کہتی جاتیں۔

    ماں کے ساتھ گزارے ہوئے اتنے برسوں کے سفر کی کتنی ہی دھندلی سی پرچھائیاں اس کی آنکھوں کے سامنے تیرنے لگیں۔ اس اکلوتے بچے کاجنم ہی ان کی طویل زندگی کا ایک ایسا واقعہ تھا جو پھیلے ہوئے ریگستان میں نیلے پانی کا ایک چشمہ تھا، جس کا سکھ ان کے ساتھ سدا کے لیے چپک گیا تھا۔ ’’پھر تیرے علاوہ ان کا اور ہے ہی کون؟ اوپر سے وہ کچھ نہیں کہیں گے لیکن دل ہی دل میں۔۔۔‘‘ وہ زیادہ بول نہیں سکتی تھیں لیکن وہ ان کی دلی کیفیت کا اندازہ لگالیتا تھا۔ اس دن دفتر میں بھی کئی بار یہ باتیں اس کے کانوں میں گونجتی رہی تھیں، گویا ماں ہی کسی نامعلوم کونے سے اسے یاد دلانے آئی ہو لیکن ایک طرح کی بے حسی گہری کائی کی طرح چھاگئی تھی جس سے باہر نکلنا آسان نہیں تھا۔ ماں ہوتیں بھی تو سمجھ نہ پاتیں۔

    ہواکے ساتھ بارش بھی ہونے لگی تھی۔ غسل خانے کی ٹین کی چھت پر ٹپ ٹپ کرتی آواز وہ سن سکتا تھا۔ آنکھوں سے نیند غائب تھی۔ اپنا دفتر، دفتر میں کام کرنے والے دوسرے لوگ اور اپنا یہ کمرہ۔۔۔ اس دائرے میں اپنے آپ کو قید کرکے اپنے ماضی اور مستقبل سے ربط بنائے رکھنے کی اس کی ذرا بھی خواہش نہیں تھی، نہ اسے کوئی دلچسپی تھی، نہ ہی کوئی ایسا موقع اس کے سامنے آیا تھا۔ پتا کے آنے سے سارا توازن بگڑ گیا تھا۔ وہ دوبارہ ماضی کے جزیرے میں لوٹ آیا تھا، جہاں سے نجات پانے کے لیے وہ بھاگا تھا۔

    رات کے کسی پہر آنکھ کھلی تو کوئی اس پر جھکا ہوا تھا۔ وہ ڈر گیا۔ چیخنا چاہامگر منھ سے آواز نہیں نکل سکی۔ سانس روکے لیٹا رہا۔ ایسا پہلے بھی کئی بار ہوا تھا، جب کوئی بھیانک خواب اسے دکھائی دیتا تھا لیکن اس بار وہ کوئی خیالی تصویر نہیں تھی۔

    ’’تم شاید کوئی برا خواب دیکھ رہے تھے۔ چیخے تو میری آنکھ کھل گئی۔ شاید تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔‘‘ اس کے جاگتے ہی وہ اٹھ کھڑے ہوئے تھے اور چارپائی پر جابیٹھے۔ شاید وہ روز ہی چیختا ہو اور کسی کاجواب نہ ملنے پر چپ ہوجاتا ہو۔

    وہ بغیر کچھ کہے پیشاب کرنے کے لیے دروازہ کھول کر چھت پرآگیا۔ بارش رک گئی تھی لیکن چھت پر پانی کے چھوٹے چھوٹے جزیرے سے بن گئے تھے۔ ہوا ابھی تک بہت سرد تھی۔ آنکھوں سے نیند بالکل غائب ہوچکی تھی لیکن اوپر آسمان اور باہر کے سناٹے کو دیکھ کر اس نے اندازہ لگایا کہ ابھی کافی رات باقی ہے۔ کمرے کے اندر پتااس کے لوٹنے کاانتظار کر رہے تھے اور اندر جانے کی اس کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ کچھ دیر بعد یہ جاننے کے لیے وہ دروازے سے جھانکیں گے کہ وہ چھت پر کیا کر رہا ہے۔ تیس کے قریب کی عمر میں بھی پتا کو اس بات کی صفائی دینی ہوگی؟ کیا وہ اسی اختیار کو مانگنے کے لیے اس کے پاس آئے ہیں؟ اس اختیار سے محروم رہ جانا باپ کے حق سے محروم رہ جانے کے مترادف تھا۔ منڈیر کاسہارا لیے وہ باہر دیکھنے لگا۔ اچانک اسے لگا جیسے اس صورت حال کو وہ زیادہ دیر تک برداشت نہیں کرسکے گا۔ اس سے قبل کہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آئے، وہ اس سے نجات پالینا چاہتا تھا۔ یہ ان دونوں کے لیے ہی بہتر ہوگا۔

    ’’کیا اب بھی تمہیں رات کے ڈراؤنے خواب دکھائی دیتے ہیں؟‘‘ اندھیرے میں وہ سمجھ نہیں سکا کہ وہ اس سے ہمدردی جتارہے ہیں یا اس کا مذاق اڑارہے ہیں۔ ان کی ہمدردی ناقابل برداشت ہوتی جارہی تھی۔

    ’’بچپن کی کچھ گتھیاں ہمیشہ کے لیے چپکی رہ جاتی ہیں۔‘‘ وہ بولا۔ ان کی جلتی ہوئی بیڑی کاسرخ نقطہ اندھیرے میں دکھائی دے رہا تھا۔

    ’’کیسی گتھیاں؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔ وہ ہنسنے لگا۔ کمبل سے اپنے جسم کو اچھی طرح لپیٹ کر وہ بستر پر بیٹھ گیا۔ اندھیرے میں وہ ایک دوسرے کو نہیں دیکھ سکتے تھے۔ ’’آپ نہیں جانتے لیکن کئی بار خواب میں آپ ہی دکھائی دیتے ہیں اور میری چیخ نکل جاتی ہے۔‘‘

    ’’نہیں، ایسا نہیں ہوسکتا۔۔۔‘‘ وہ کچھ مضطرب سے ہوگئے۔

    ’’کیوں نہیں ہوسکتا؟ یہی تو حقیقت ہے جسے ہم قبول کرنے سے ہمیشہ کتراتے رہے ہیں۔ اماں بھی اس بوجھ کو لادے چل بسیں۔ کبھی اسے ہلکا کرنے کی ہمت نہیں جٹاپائیں۔‘‘ وہ اچانک رک گیا۔ صورت حال کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگا۔

    ’’اور تم؟‘‘

    ’’میں۔۔۔ ہاں۔ میں اس بوجھ کو ڈھوتے ہوئے یہاں آگیا۔ سوچا تھا یہاں چھٹکارا مل جائے گا لیکن اب میں جان گیا ہوں کہ وہ میری پرچھائیں بن گیا ہے اور آخری دم تک میرا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔۔۔‘‘

    وہ چپ رہے۔ بجھی ہوئی بیڑی کو دوبارہ سلگا نہیں سکے۔ کچھ دیر بعد نہایت دھیمے لہجے میں بولے، ’’یہ سب باتیں میری سمجھ سے باہر ہیں۔ میری زندگی میں ان سب کی کبھی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ میں۔۔۔‘‘

    ’’دوسروں کے لیے تو ہوسکتی ہے۔ لیکن آپ نے۔۔۔ صرف اپنی ہی نظر سے سب کو دیکھا۔ وہی آ پ کے لیے سچ تھا۔‘‘ انہوں نے بجھی ہوئی بیڑی کو سلگانے کے لیے ماچس جلائی تو وہ ان کے کانپتے ہوئے ہاتھ کو دیکھتا رہا۔ بیڑی جلانے میں انہیں قدرے دقت ہوئی۔

    ’’خیر! اس سب کو دہرانا فضول ہے۔۔۔‘‘ وہ کمبل اوڑھ کر لیٹ گیا، ’’آپ بھی سوجائیے۔‘‘

    کچھ دیر تک وہ ان کی لمبی لمبی سانسوں کو سننے کی ناکام کوشش کرتا رہا۔ آدھی رات کے وقت اسے شاید یہ سب نہیں کہناچاہیے تھا۔ وہ سمجھ بھی نہیں سکیں گے لیکن دوسرے ہی لمحے اسے یہ سوچ کر کافی اطمینان ہوا کہ وہ انہیں ماضی کی ایک جھلک دکھانے میں کامیاب ہوسکا ہے لیکن وہ تسلیم نہیں کریں گے۔

    دن گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کمرے میں ان کا وجود دھیرے دھیرے معمول کا حصہ بن گیا۔ اپنے آفس سے گھر لوٹتے ہوئے اس میں غیرارادی طور پر ایک قسم کا جوش ابھرنے لگتا۔ اس کااحساس نہ ہونے پر بھی جب اسے اچانک یاد آتا کہ پتا اس کے کمرے میں اس کا انتظار کر رہے ہوں گے تو اس کے قدم خودبخود رک جاتے۔ ایک کشمکش سی ہونے لگتی۔ کچھ دیر کے لیے اسے اپنے آپ پر غصہ بھی آتا، جھنجھلاہٹ بھی ہوتی لیکن پھر وہ بات دماغ سے نکل جاتی۔ کبھی اس کی خواہش ہوتی کہ وہ واپس گھر نہ جائے، جیسے وہ پہلا گھر چھوڑ آیا تھا، اسی طرح یہ کمرہ بھی چھوڑ کر کسی دوسری سمت میں نکل جائے، لیکن اتنی ہمت اب تک وہ پیدا نہیں کرپایا تھا۔

    شام کو تقریباً روز ہی وہ اس کے واپس لوٹنے سے پہلے کھانا بناکر رکھ دیتے۔ بازار سے جس سامان کی ضرورت ہوتی وہ بھی خریدلاتے۔ کئی بار اس نے منع بھی کیا لیکن وہ ہنس کر کہتے کہ بے کار بیٹھے بیٹھے وہ اکتاجاتے ہیں، اس لیے کھانا پکانا انہیں اچھا ہی لگتا ہے۔ اس ناگہانی صورت حال میں اسے گھبراہٹ بھی ہونے لگتی لیکن وہ کچھ کر بھی نہیں سکتا تھا۔

    ان کے آنے کاسبب اسے معلوم ہوجاتا تو اسے تسلی ہوجاتی لیکن اس سلسلے میں انہوں نے کبھی کوئی اشارہ تک نہیں کیا تھا۔ اس کی الجھن اور بھی بڑھ گئی تھی۔ کسی پیش آنے والے اندیشے سے وہ کانپ اٹھتا۔ آفس کی میز پر جھکے ہوئے جب کبھی یہ بات اسے یاد آجاتی تو اس کے ہاتھ رک جاتے۔ آنکھوں کے سامنے ایک دھندلکا ساچھا جاتا۔ وہ طے کرتاکہ آج صاف صاف پوچھے گا۔

    اس دن بازار سے وہ کچھ مٹھائی خریدلائے تھے۔ اس نے چائے بنائی تو انہوں نے مسکراتے ہوئے مٹھائی کا ڈبا کھول کر چائے کے دوپیالوں کے بیچ میں رکھ دیا۔ وہ بھونچکا ساڈبے کی طرف دیکھتا رہا۔ ان کے چہرے کی جانب دیکھنے کی اس کی ہمت نہیں ہوئی۔

    ’’پتا نہیں تمہیں یاد ہے یا نہیں، آج تمہاراجنم دن ہے۔ اسی لیے یہ لے آیا ہوں، ‘‘ انہوں نے غیرجذباتی لہجے میں کہا۔ بہت کوشش کرنے پر بھی وہ اپنی ہنسی کو روک نہیں سکا، ’’میرا جنم دن ہے؟ آپ میراجنم دن منارے ہیں؟ کیوں؟‘‘ اس کی غیرفطری سی ہنسی سن کر وہ کچھ ڈر سے گئے۔ مٹھائی خریدتے وقت وہ طے نہیں کرسکے تھے کہ اس کے جنم دن کی بات انہیں کہنی چاہیے یا نہیں، ’’اس میں ہنسنے کی کون سی بات ہے؟‘‘ انہوں نے پرسکون لہجے میں کہا۔

    لیکن اس نے ان کی بات نہیں سنی۔ وہ ان سے بہت دور چلا گیا تھا، جہاں وہ اس کا ساتھ نہیں دے سکتے تھے۔ انہوں نے خاموش رہنے میں ہی عافیت سمجھی۔ دن بھر کے کام کے بعد تھکان سے اس کا چہرہ شام کے اندھیرے میں انہیں ایک سوالیہ نشان کی طرح جھولتا دکھائی دیا۔ اسے پیدا ہوئے کتنے برس بیت گئے۔ درمیان کازمانہ ایک بھولے بسرے سفر کی طرح یاد رہ گیا تھا۔ مٹھائی کا کھلاڈبا ان دونوں کے درمیان وہیں لاوارث ساپڑا رہا۔ اس کے اندر ایک بہت گہری کھائی بنی ہوئی تھی، جس میں اتنے برسوں تک اپنے آپ بہت کچھ جمع ہوتاچلا گیا تھا لیکن وہ اس میں کبھی جھانک تک نہیں سکے۔ اب جب کبھی اس کھائی میں سے کچھ نکل کر باہر آتا ہے تو وہ چونک جاتے ہیں۔ ان کے بیچ کافاصلہ کچھ اور بڑھ جاتا ہے۔

    ’’اِدھر میں اپنے آپ کو بہت تنہا محسوس کرنے لگاہوں۔‘‘ ان کے لہجے میں ایک جھجک سی بھری تھی۔ شاید طے نہیں کرپائے تھے کہ یہ بات کہنی چاہیے یا نہیں۔ ’’ذہن ہمیشہ بھٹکتا رہتاہے۔ کچھ مذہبی کتابیں پڑھنے کی کوشش کرتاہوں۔ سادھو سنتوں کے اُپدیش بھی سننے چلا جاتاہوں لیکن کہیں دل نہیں لگتا۔ سب بے معنی سالگتاہے۔‘‘

    بچو کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ان سے کہے کہ وہ بھی ایسا ہی محسوس کرتا ہے۔ گھر، دفتر، نوکری، سب بے معنی سے لگتے ہیں۔ کئی بار یہ سب چھوڑ کر سادھو بن جانے کی خواہش دل میں آتی ہے لیکن پھر لگتا ہے جیسے سادھو بن کر چھوڑنے کے لیے موہ مایا سے بھری کوئی چیز اس کے پاس نہیں ہے۔۔۔ نہ بیوی، نہ بچے، نہ اپنا گھر، نہ روپے پیسے۔ پھر جو گیا لباس پہن کر گھومنے پھرنے سے اسے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

    ’’کبھی کبھی تو اس گاڑی کو گھسیٹتے رہنے کا کوئی مطلب سمجھ میں نہیں آتا۔۔۔‘‘ وہ گویا اپنے آپ سے باتیں کر رہے تھے۔

    ’’اب تو یہ سب سوچنا بے کار ہے۔ آپ دیکھتے نہیں کتنی دیر ہوچکی ہے۔۔۔‘‘

    ’’جب تک جسم میں سانس ہے تب تک زندگی کا صرف ایک ہی مطلب ہوتا ہے، سب کے لیے یکساں۔۔۔‘‘ لیکن وہ اچانک چپ ہوگئے۔ ایک لمحے کے لیے انہیں لگا جیسے بچو کے سامنے یہ سب کہہ کر کیا وہ اس کی ہمدردی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ لاتعلقی اور جھنجھلاہٹ کی ایک لہر سی ان کے اندر دوڑ گئی۔

    ’’لیکن جب وہ مطلب بھی کمزور پڑجاتاہے تو۔۔۔‘‘ وہ دھیمے لہجے میں کہہ رہے تھے۔

    شیشے کے سامنے شیو کرتے ہوئے، شیشے میں پیچھے چارپائی پر بیٹھے ہوئے پتاکو اپنی طرف گھورتے دیکھ کر وہ کچھ دیر کے لیے سٹپٹایا سا کھڑا انہیں گھورتا رہا لیکن ان کادھیان اس کی طرف نہیں تھا۔ اچانک پیچھے مڑ کر وہ کہنے لگا، ’’کبھی کبھی آئینے میں اپنا چہرہ دیکھتے ہوئے مجھے آپ کاچہرہ دکھائی دینے لگتاہے۔‘‘ اس نے زور کا ایک قہقہہ لگایا، ’’میں بہت کوشش کرنے پر بھی آپ کا چہرہ ہٹانہیں پاتا۔ ایسا کیوں ہوتاہے؟‘‘ وہ صابن لگے اس کے چہرے کی طرف دیکھتے رہے۔ اس کے کسی بھی سوال کاجواب ان کے پاس نہیں تھا۔ ہوتا بھی تو وہ اسے بتا نہیں سکتے تھے۔

    ’’میں سوچتا تھا کہ ایک بار گھر چھوڑ کر میں ایک نئی زندگی جی سکوں گا۔ بغیر کسی طرح کی پابندیوں کے، جیسے چاہوں ویسے لیکن۔۔۔ وہ نہیں ہوسکا۔ مجھے ایک دیمک سی لگ چکی ہے جس سے میں کبھی نجات نہیں پاسکتا۔ یہ بات مجھے یہاں آکر پتا چلی۔ لیکن آپ یہ بہت پہلے ہی سے جانتے تھے۔۔۔‘‘

    پچھلے تین چاردنوں سے وہ کچھ چپ چاپ سے رہنے لگے تھے۔ وہ کوئی بات کہتا بھی تو اسے لگتا جیسے انہوں نے سنی نہیں۔ آنکھیں کمرے کی چاردیواری کے اندر دیکھتے ہوئے بھی کہیں اور کھوجاتی تھیں۔ کچھ دیر کے لیے وہ دلچسپی لینے کی کوشش کیا کرتے تھے لیکن پھر جیسے ناکام ہوکر اپنے آپ میں واپس لوٹ جاتے تھے۔ وجہ اس کی سمجھ میں نہیں آئی۔

    ’’آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟‘‘ اس نے قدرے جھجکتے ہوئے پوچھا۔ وہ چونک پڑے، ’’میں ٹھیک ہوں۔ مجھے کیا ہوا ہے!‘‘ اسے لگاجیسے وہ کچھ چھپا رہے ہیں، ’’آپ کاچہرہ کچھ۔۔۔‘‘ وہ بے نیازی سے بولے، ’’جیسا پہلے تھا ویسا ہی ہوں۔ تمہیں فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ وہ ان کے چہرے کو دیر تک دیکھتارہا۔ ماضی کے بے شمار نشان ایک ایک کرکے واضح طور پر ان کے چہرے پر نقش تھے، جن میں سے کچھ کو وہ پہچانتا تھا۔ اب باقی بچا ہوا راستہ ایک صحرا کی مانند ہوگاجہاں وہ کوئی نقش نہیں چھوڑ پائیں گے۔

    ’’سوچتا ہوں کہ دوچار دنوں میں واپس لوٹ جاؤں۔‘‘ وہ گمبھیر لہجے میں بولے، ’’کچھ زیادہ ہی رہ گیا۔ یہاں آنے سے پہلے صرف دو دن رہنے کاارادہ تھا لیکن آج بارہ دن بیت گئے، کچھ پتا ہی نہیں چلا۔‘‘ وہ غور سے ان کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا۔ کچھ دن پہلے اگر وہ یہ بات کہتے تو شاید اسے تسلی ہی ہوتی لیکن بارہ دن بعد یہ سن کر اس کادل چپ چاپ ڈوبتا رہا۔

    ’’اتنی جلدی کیا ہے؟‘‘ وہ بڑبڑایا، ’’کیا گھر پر کوئی ضروری کام ہے؟‘‘

    ’’کام نہ ہونے پر بھی تو اپنے گھر لوٹنا پڑتا ہے۔ یہاں آسکا یہی کیا کم ہے۔‘‘

    پہلی بار اسے لگاجیسے ان کے چلے جانے کے بعد یہ کمرہ بہت خالی خالی سالگے گا۔ ان کی موجودگی کا اب وہ عادی ہوچکاتھا۔ انہیں چارپائی پر پاؤں سمیٹ کر بیٹھے ہوئے دیکھنے کی عادت سی پڑگئی تھی اسے۔ اب وہ اس پر کبھی سو نہیں سکے گا۔ ایسے ہی خالی بچھارہنے دے گا۔ کچھ دیر بعد اسے یہ بھی لگا جیسے اپنے جانے کی بات انہوں نے صرف اپنی اہمیت جتانے کے لیے کہی ہو۔ وہ کبھی جائیں گے نہیں۔ شاید تب تک رکے رہیں گے جب تک کہ کوئی انہونی نہ ہوجائے۔ وہ توقع کر رہے تھے کہ وہ ان سے رک جانے کو کہے گا مگر ان کی توقع کے خلاف کرکے اسے اطمینان سا ہوا۔

    دودن بعد آفس سے لوٹنے پر جب اس نے بند دروازے پر تالا لٹکا دیکھا تو کچھ دیر کے لیے سوچ میں پڑگیا۔ دوسری چابی اس کی جیب میں تھی لیکن دروازہ کھولنے میں وہ ہچکچاتا رہا۔ جب سے وہ یہاں آئے تھے تب سے شام کو واپس لوٹنے پر تالاکھولنے کی ضرورت اسے کبھی نہیں پڑی۔ دن میں جہاں دل چاہتا وہ گھوم آتے، پکچر دیکھ آتے لیکن شام کو اس کے لوٹنے سے قبل وہ ہمیشہ گھر پہنچ جاتے تھے۔ ایک لمحے کو یہ خیال بھی آیا کہ شاید کہیں گھومنے گئے ہوں لیکن یہ اندیشہ بھی شدید تھا کہ وہ واقعی چلے نہ گئے ہوں۔ انہوں نے رخصت ہونے کی جذباتی کیفیت سے دونوں ہی کو بچالیا تھا۔ چارپائی کے اوپر تہہ کیا ہواایک خط رکھا ہوا تھا، جسے کھولتے وقت اس کے ہاتھ کانپنے لگے تھے۔

    ’’میں گھر واپس جارہا ہوں۔ بغیر اطلاع دیے اس طرح اچانک چلے جانے کا مجھے افسوس ہے لیکن بغیر اطلاع دیے یہاں چلا بھی آیا تھا۔ چابی نیچے مکان مالک کو دے دی ہے۔ تمہارے ٹرنک میں ایک چھوٹی سی صندوقچی چھوڑے جارہا ہوں، جس میں تمہاری ماں کے سارے گہنے رکھے ہیں۔ اسی مقصد سے میں یہاں آیا بھی تھا مگر کسی جھجک کی وجہ سے بتا نہیں سکا۔ اچھا۔۔۔ اپنی صحت کاخیال رکھنا۔۔۔‘‘ اس کے آگے دوتین لفظ لکھ کر پھر کاٹ دیے تھے۔

    وہ کافی دیر بعد ہی اپنی صندوق میں سے گہنوں کی صندوقچی کو نکالنے کی ہمت کرپایا۔ وہی مخمل کے چھوٹے بڑے ڈبے تھے جنہیں وہ بچپن میں اشتیاق بھری نظروں سے دیکھاکرتاتھا۔ وہی موتیوں کاجڑاؤہار، گلے کا نورتن، چوڑیاں جن پر میناکاری کاکام کیا ہوا تھا، ناک کی بڑی سی نتھ، کانوں کی ہیرے کی ترکیاں۔ سب محفوظ تھے۔ وہ ان سب کوخالی خالی نظروں سے دیکھتا رہا۔ انہیں پاکر لمحے بھر میں اس کاسارا اشتیاق ختم ہوگیا تھا۔

    ‘‘یہ سب گہنے تیری دلہن کے لیے ہیں۔‘‘ ماں کاجملہ اس کے کانوں میں گونجنے لگا۔

    جانے کتنا وقت ان کے سامنے بیٹھے بیٹھے بیت گیا۔ اسے اس کااحساس ہی نہیں ہوا۔ اچانک اسے لگا جیسے پتا دروازے کے باہر کھڑے اس کی حالت پر ہنس رہے ہوں۔ اس نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا۔ کوئی سایہ سادکھائی دیا۔ وہ جھٹکے سے کھڑا ہوگیا اور بدحواس ساہوکر زور سے چلایا، ’’کون ہے؟‘‘

    مکان مالک تھے۔ اسے چابی دینے آئے تھے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے