کناٹ پلیس کے بیچ کے پارک سے چاروں طرف دیکھا تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں ایک پنجرے میں پھنسا ہوا ہوں۔
پارک کی دونوں طرف کی سڑکوں کو گھیرے ہوئے سیاہ رنگ میں رنگے کھردرے گول شکل کے اونچے ستون ایک سیدھی قطار میں کھڑے ہیں۔ سامنے کی دیواروں کی کھڑکیوں پر مختلف قسم کی چیزیں آراستہ ہیں۔ جہاں میں کھڑا ہوں اس حصے کوپارک نہیں کہا جا سکتا۔ اس ناہموار گیلی زمین پر گھاس ادھر ادھر پھیلی پڑی ہے۔ مجھے ایسا لگا کہ اندھیرے کو بڑھانے کے لیے ہی سایہ دار درخت لگائے گئے ہوں۔ لکڑی کی پرانی بنچیں وہاں پڑی ہیں۔
بہت دیر ہو چکی سبھی دوکانیں بند ہوگئیں، سنسان سڑکوں سے کبھی کبھی کوئی گاڑی گذر جاتی۔ مکانوں پر نیلے، لال اورپیلے حروف اور تصویریں جھلملاتی اور غائب ہو جاتیں۔
پارک میں کوئی نہ تھا۔ اداس دل کے ساتھ قیدی کی مانند میں ادھر ادھر کھڑا رہا۔ بےقرار اور غمگین! اس کاکیا سبب ہے؟ کچھ پتہ نہیں۔ دن گذرتے گذرتے اضطراب بڑھ گیا اور دل کو زیادہ بےقرار کرتا رہا۔ مجھے اس سے نجات چاہئے، بھلے ہی کچھ مہینے بھی گذر جائیں۔ ایسا سوچتے ہی مجھے تسلی کا احساس ہوا اور فوراً اس طر ف دھیان گیا کہ مجھے ایک سرکاری فیکٹری میں نوکری بھی ملنے والی ہے اور پھر میں افکار کے سمندر میں غرق ہو گیا۔
فیکٹری شہر سے بہت دورایک پہاڑی علاقے میں ہے۔ وہاں ایک چھوٹاسا گھر بناؤں گا، زندگی میں آرام ملےگا، دل کو سکون حاصل ہوگا۔ پھر مجھے وہ لڑکی یاد آ گئی، جسے میں بھلا بیٹھا تھا۔ وہ میری اپنی تھی لیکن مجھے اس پربڑا غصہ آتا جب میں اس کے سامنے شادی کی تجویز رکھتا اور وہ ٹھکرا دیتی۔ میں سوچتا آخر وہ کس کے انتظار میں بیٹھی ہے؟ کیاوہ مجھے پوری زندگی غمگین اورپریشان کرتی رہےگی؟ کیا وہ میرا گھر سنبھالنے اور بچوں کی ماں بننے کی ذمہ داری نہیں لےگی؟
سامنے کی بنچ پر سے رضائی لپٹے کسی آدمی کے زور سے کھانسنے کی آواز آئی۔ ایسامعلوم ہوا کہ یہ رنگ سوامی اَیّر ہے۔ میں حیران رہ گیا۔ یہ یہاں کیوں ہے؟ کیا اس کا کوئی رشتہ دار نہیں ہے؟ کیا اس کا اپنا کوئی مکان بھی نہیں ہے۔ آخر پبلک پارک کی بنچ پروہ سردی کی ٹھنڈی راتیں کیوں گذارتا ہے۔
اسے بیس سال پہلے پنشن ملی۔ باورچی ہوکر آیا۔ سرکاری سروس میں قائم مقام اسسٹنٹ کی حیثیت سے سبکدوش ہوا۔ اپنی اکلوتی بیٹی کی متھرا میں شادی کر دی۔ بیوی برسوں پہلے مر گئی۔ تھوڑی سی پنشن ملتی ہے جوبڑے شہر میں پیٹ بھر نے کے لیے بھی کافی نہیں۔ پھربھی اس شہر کو کیوں نہیں چھوڑتا؟
ٹھنڈی ہوا کے جھونکے چلنے لگے تھے۔ وہ سوچنے لگا کہ دیوالی میں توابھی دن ہیں، اس کے ساتھ ہی جاڑا شروع ہوگا۔ اوپر دیکھا تو چودھویں کاچاندچمک رہا تھا اور جامع مسجد کی سفید سنگ مرمر کی بنی ہوئی میناریں چاندنی میں جگمگارہی تھیں۔
مجھے ایسا محسوس ہواکہ شہر کی روح مغل تاریخ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ حسین شہر کے اپنے دفتر سے مجھے سیاہ پتھر کا ایک بہت بڑا قلعہ دکھائی دیتا ہے۔ یہاں کبھی اندرپرست آباد تھا۔ یہاں اپنی مقصد برآری کے لیے جھوٹ بولا جا سکتا تھا، دھوکہ دیا جا سکتا تھا۔ اپنے بیگانے، ان سب کا خون بہای جا سکتا تھا۔ یہاں عورتیں جوئے میں گروی رکھنے، تحفہ کی شکل میں دینے کی چیزیں بنائی جا سکتی تھیں۔
آج ایک مغل بادشاہ کا تعمیر کرایا ہوا قلعہ بھی کھڑا ہے۔ جہاں اپنے ہی بھائیوں کا خون بہا، باپ کو قید میں رکھا گیا ایک دوسرے کو فریب دیا گیا، دوسروں کی عورتوں کو اپنانے کی کوششیں کی گئیں۔ اقتدار کے حصول کے لیے، پر مسرت زندگی گذارنے کے لیے۔
اس قلعے کو دیکھتے ہی اداسی بڑھ گئی اورمیں سوچنے لگا اس شہر کی روح کیا ہے؟
سوچا دفتر کا چپراسی اسٹینوگرافر دوشیزہ کو قابو میں کرنے کی سعی کرتا رہتا ہے۔ یہ دفتر ہی کیوں۔ اس شہر میں کتنے ہی ہیں جو اس کام میں لگے ہیں۔ جو کام کرتے ہیں وہ کنویں سے پانی کھینچنے والے بیلوں کی طرح اداس اور میری طرح بے حوصلہ ہوکر ہی کام کرتے ہیں۔
ایک رات کووہ اپنے ساتھ کام کرنے والے ابراہام کے ساتھ ’’دیوالی‘‘ سے فرسٹ شو کے بعد باہر آیا تھا۔ دسمبر کا مہینہ تھا۔ سخت سردی تھی۔ کناٹ پلیس کے وسطی پارک میں ایک بنچ پر لپٹی ہوئی رضائی کے اندر سے رنگ سوامی ایر کی کھانسی کی آوازآئی۔ پھٹی پرانی رضائی اس پارک کی شدید سردی کو روکنے سے قاصر ہے۔ یہ رضائی کتنے ہی برسوں کی ہوگی۔ اوپر بغیر چھت کے زندہ رہنے والا انسان! افسوس۔
اسی پارک میں اس دن بھی مجھے اسی کی یاد آئی تھی، تب تاریکی میں جنوبی ہند کے واضح انگریزی تلفظ میں یوں سنائی پڑا، ’’سر! دودن سے میں نے کچھ بھی نہیں کھایا، ایک روپیہ دے دیں۔‘‘ اس طرح رنگ سوامی ایر سے میرا تعارف ہوا۔ جوتھوڑی کمائی تھی اسے اس نے بیٹی کی شادی پر خرچ کر دیا بلکہ اسے قرض بھی لینا پڑا۔ کچھ خاندانوں کی ٹیوشن کی۔ افسروں کا تبادلہ ہوا۔ بچے بڑے ہوئے۔ رنگ سوامی ایر کی آمدنی بھی کم ہو گئی۔ اس کوکہیں بھی ٹیوشن نہیں ملی۔ قلیل پنشن ہی اس کی آمدنی رہ گئی جو کھانے پینے کے لیے کافی نہیں تھی۔ تب کرایہ دیتا کیسے؟ وہ عوامی پارک میں ہی رہنے پرمجبور ہو گیا۔
بیچارہ ایراس پنشن سے اپنے گاؤں میں رہتا بھی کیسے؟ ناممکن ہونے کی وجہ سے وہ گاؤں جانا نہیں چاہتا تھا۔
کوئمبٹور کے ناگپتن چٹیار کو لکھنا ہے وہ ایک نوکری دے دے تو رنگ سوامی ایر کے ساتھ بڑا احسان ہوگا۔ تب وہ اپنے گاؤں اوراپنی بیٹی کے پاس پہنچ سکےگا۔ پڑھائی کے دنوں میں دونوں دلی دوست تھے۔ وہ اپنے والد کی تجارت کو چلاتا تھا مگر سرکاری نوکری کرتے کرتے سب برباد ہو گیا۔
’’تومیرے لاج چل، کچھ ناشتہ کریں گے۔‘‘ ابراہام نے کہا۔ وہ تیار ہو گیا۔ ابراہام قریب ہی ساؤتھ انڈیا میس میں رہتا تھا۔
کناٹ پلیس کی غیرملکی شراب کی دوکانوں پر بورڈ لگا تھا۔ ٹومارو اِز ڈرائی ڈے۔‘‘ یہ اس بات کی اطلاع ہے کہ پینے والا آج ہی خرید لے۔ ابراہام نے پہلے ہی خرید رکھی ہے اور وہ اکیلا بھی ہے۔ اس کمرے میں اس کے ساتھ رہنے والا اب کمرے پرنہیں ہے۔ بدن کو تھوڑی گرمی لگی تو ابراہام نے پوچھا، ’’تم آؤگے؟‘‘
’’کہاں؟‘‘
’’لاجپت نگر!‘‘
میں اس کی بات سمجھ گیا۔ ابراہام وہاں رہنے والی ماریا کا ایک شناسا تھا۔
’’میں نہیں آؤں گا۔‘‘
’’سناہے کہ ماریاکی بیٹی کانونٹ سے آئی ہے۔‘‘
ابراہام پھربولا، ’’پچھلی بار اس نے کہا تھا کہ بیٹی کچھ اور بڑی ہو جائے۔ ایک سال اور گذر گیا، اس بارکسی نہ کسی طرح اسے قابو میں کرنا ہے۔‘‘
مجھے برالگا، ’’تم ایک اور کو بیسوا بنانا چاہتے ہو۔ ماں تو اس پیشہ میں پڑ گئی، تم بیٹی کو بھی ڈھکیلے دیتے ہو۔‘‘
’’او، تمہارا ویدانت۔‘‘
ابراہام نے پھر کہا، ’’روی، سچا تعلق صرف یہی ہے۔ محبت سے خالی لفظ نہیں، لالچ بھی نہیں، فریب نہیں، حقوق کی طمع نہیں، ناامیدی اور غم بھی نہیں، یہ ایسا تعلق ہے جس کا حساب فوراً چکایا جاتا ہے۔‘‘ یہ باتیں مجھے اچھی نہیں لگتیں۔ محبت بھرے الفاظ کے ساتھ سب کچھ کرنے کی میری تمنا تھی۔ میرا یقین تھا کہ میں اسے فن کی شکل دے سکوں گا۔
آخر۔۔۔
’’میرے والداس شادی کے لیے اجازت نہیں دیں گے۔‘‘
’’صرف آپ کے پیار سے سیراب ہوں گی۔ میں سب عذاب برداشت کرنے کو تیار ہوں۔‘‘
’’نہیں نہیں۔ پرعذاب زندگی کی طرف میں تجھے نہیں لے جاؤں گا۔‘‘
نہیں تو اور کتنے بہانے ہیں۔
ابراہام اس وقت تک جاگ چکا تھا۔ کمرہ بند کرکے کنجی منیجر کو سونپ کر میں بھی جا سکتا تھا۔ مگر ایسا نہ کیا۔ دل میں بیکراں غم جھلکتا تھا۔ کھڑکی سے چھن کر دکھائی دینے والا نیلا آسمان کینوس پر چڑھے رنگ کی طرح ساکت تھا۔ چودھویں کے چاند کو ڈھکتے اور روشن کرتے ہوئے پھٹے نیلے بادل مجھے ایسے دکھائی دیے گویا ایک چھوٹی لڑکی کی عریاں ابھری پستان پر ایک دوشالہ پڑا ہو۔ اس نے کمرے میں تالا لگایا، نیچے اتر آیا، منیجر کو کنجی دے کر باہر آیا۔ آشنا لڑکی کے پاس گیا جس نے کبھی بھی کسی کی تحقیر نہیں کی تھی۔
دوسرے دن دفتر میں ایک بوڑھے چپراسی سے جولاجپت نگر میں رہتا تھا، مجھے خبرملی اس کے پڑوس کی ایک لڑکی نے خودکشی کر لی۔ اس کی ماں اپنے گذارے کے لیے پیشہ کرکے پیسہ کماتی تھی۔ کل ہی اس کی لڑکی کواس بات کا پتہ لگا کہ اس کی ماں نے اسے ایک مرد کونذر کرنے کی کوشش کی تھی، یہی خودکشی کا سبب ہے۔
’’بےحد حسین لڑکی!‘‘ چپراسی نے کہا، ’’کیسا رنگ، کیاحسن، سولہ سترہ سال کی لڑکی۔‘‘ چپراسی یہ کہہ رہا تھا کہ ابراہام اندر آیا، ’’ماریاکی لڑکی نے خودکشی کر لی۔‘‘
’’لڑکیوں کو سمجھ نہ ہو تو کیا کیا جائے۔‘‘ ابراہام نے ناامیدی اور غصہ میں کہا۔
مجھے اس شہر میں سب سے نفرت ہے۔ ول بہت غمگین ہو گیا ہے۔ یہاں سے بچ نکلنا چاہئے۔ شام کو میں کلب میں گوپال سے ملا، اس وقت بھی دل کی حالت بدلی نہیں تھی۔ اس نے پوچھا تم اتنے اداس کیوں ہو، گویا کہ تمہار ا کوئی رشتہ دارہی مر گیا۔
میں نے کہا، ’’یہاں مجھے دماغی سکون نہیں ملتا، یہاں سے جلد از جلد کسی بھی طرح بچ نکلنا ہے۔‘‘
گوپال نے کہا، ’’وہ تمہاری روح کو ہمیشہ تنگ کرتا رہےگا۔‘‘
میں نے مسکراتے ہوئے کہا، ’’میں اپنی روح نذر کر چکا ہوں۔‘‘
’’تواب بچنے کی کوئی تدبیر نہیں، تم اس کے غلام بن گئے۔‘‘
میں دل ہی دل میں ہنسا۔ کیا کیا تصورات ہیں۔ شیطان، روح اور غلامی۔ میں یہاں سے چلا جاؤں تو لوگ کیا کہیں گے؟ چند ہفتوں میں میں ادھر سے بچ جاؤں گا۔ میں غلام بن گیا غلام۔
ناگپتن چٹیاریہاں ایک ممبرپارلیمنٹ کی مددسے پرمٹ یالائسنس لینے آیا۔ میں نے رنگ سوامی ایر کو بلایا۔ اسے نہانے کو تیل اور صابن دے دیا۔ اپنا کرتا اور دھوتی پہننے کو دی۔ میرے اس سلوک سے ناگپتن کو رنگ سوامی ایر سے بھی ہمدردی ہوئی۔ اس نے امداد کرنے کا وعدہ کیا۔ ہم اس کے بارے میں باتیں کر رہے تھے کہ اسی درمیان ایر باہر سے آ گیا۔ میں نے سمجھا کہ وہ ان باتوں سے بہت خوش ہوا ہوگا۔
میں نے چٹیار کو رخصت کیا۔ دروازے سے نکلتے نکلتے اس نے ایر سے کہا، ’’میں پرسوں آؤں گا، میرے ساتھ چلنا، کوئی نہ کوئی نوکری دلا دوں گا، گذارہ کرنے میں پریشانی نہیں ہوگی۔‘‘ میں حیرت میں پڑ گیا۔ ایر جھجکتا رہا۔ ناگپتن نے پوچھا، ’’کیوں بولتے کیوں نہیں؟ چلنا نہیں چاہتے کیا؟‘‘
تھوڑی دیر کے بعد ایر نے کہا، ’’میں صاحب کو بتاؤں گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ ظاہر تھا کہ اس کویہ اچھا نہ لگا۔ مجھے بھی برا لگا۔ ایر جلدی سے چلا گیا۔
رنگ سوامی پھر کبھی نہیں آیا۔
ایک شام کو کناٹ پلیس میں اس سے ملا۔ وہ اپنی پھٹی پرانی رضائی اوڑھے عورتوں کے ذریعہ لگائی گئی کپڑے کی دوکان کے سامنے کھڑا تھا۔
’’تم نے ایک بات بتانے کو کہا تھا پھر دکھائی ہی نہیں پڑے۔‘‘ ان لفظوں سے غصہ ظاہر تھا۔ اس نے ایک ملزم کی مانندجواب دیا، ’’وہ نوکری مجھے نہیں چاہئے۔‘‘ کچھ دیر کے بعد اس نے پھر کہا، ’’اچھا ہو یہاں کوئی ملازمت مل جائے۔‘‘ میں نے اپنا غصہ چھپاتے ہوئے اس سے یہاں سے چلے جانے کی بات کہی۔ اگر وہ بچنا نہیں چاہتا تومیں کیا کروں۔ وہ خود اپنا ذمہ دار ہے۔
جنوی کے دن آئے۔ شہر میں بہت زیادہ سردی پڑ رہی تھی۔ صفدرجنگ کے دفتر موسمیات کے تھرمامیٹر کا پارہ صفر سے نیچے تھا۔
شام کو گھومنے کے لیے سپر بازار گیا۔ دکانوں پر ہر قسم کی چیزیں رکھی تھیں۔ خریدنے والے اور بیچنے والے سبھی حیران تھے۔ لوٹتے وقت ابراہام کے میس گیا۔ بدن کو تھوڑا گرم کیا۔ باہر آیا۔ کناٹ پلیس کے وسط میں واقع پارک میں آیا۔
روزانہ رنگ سوامی کی تلاش رہتی۔ بنچ پراس کی رضائی پڑی دیکھی۔ اس میں سے کھانسی کی آواز سنائی پڑی۔ قریب جاکر دیکھا کہ چیونٹوں کی ایک قطار رضائی کے اندر چلی آ رہی ہے۔ رضائی کے پھٹے حصوں سے بدن دکھائی دے رہا تھا۔ بدبو پھیلنے پر کوئی شخص کارپوریشن کو ضرور خبر دےگا۔ میں بڑا غمگین ہوا۔ ابراہام کو بھی رنگ سوامی ایر کی کہانی سنائی۔
’’جو یہاں آیا اسے پھر یہاں سے رہائی پانا مشکل ہے۔‘‘ ابراہام نے کہا۔ تھوڑی دیر بعداس نے پھر کہا، ’’یہ شہر ایک چالاک طوائف سا لگتا ہے۔ یہاں آنے والے یہیں رہ جاتے ہیں اور برباد ہو جاتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے۔۔۔‘‘ چلتے چلتے اس نے کہا، ’’اکبر نے آگرے میں ایک بڑی شہنشاہیت قائم کی تھی، جیوں ہی اس کے عقیدت مند اس شہر میں بسے، تیوں ہی ان کی بربادی شروع ہو گئی۔ انگریزوں نے کلکتہ میں ایک شہنشاہیت کی بنیاد ڈالی۔ اس شہر کو عظیم شہر کی صور ت میں تبدیل کر دیا۔ ذرایاد کرو اس وقت کا ان کا جاہ و جلال، پینتیس سال بھی نہ گذرے تھے کہ ان کا تنزل شروع ہو گیا۔ کیوں؟ تمہارا دھرم پتر ہے نا؟ کروکشیتر کی جنگ میں کامیاب ہونے پر اس نے سوچا کہ ایسے شہر کو راجدھانی بناکر حکومت کرنا چاہئے۔ اندر کے راج محل کی طرح ایک بڑے محل کی تعمیر کرکے راج کاج چلانے لگا۔ پھر کیا؟ اس کی ہی زندگی میں سب مٹی میں مل گیا۔‘‘
کیا ایسی کوئی بدد عا اس شہر کو لگی ہے؟ کس نے اس شہر کو دہلی نام دیا۔ گوپور دروازہ کچھ اور محدود زبان میں کہا جائے تو پھاٹک۔۔۔ زوال کی طرف لے جانے والا پھاٹک! اس شہر کے اندر داخل ہونے والے سب اس شہر کے غلام کیوں بنتے ہیں؟ کیا وہ اس سے بچ نہیں سکتے؟ ہائے! یہ سب سراسر فضول باتیں ہیں۔ تو ہم پرستی! میرا اب بھی بچاؤ ہوگا۔ ادھر دیکھو، مجھے اپنے جانے کے دن کا فیصلہ کرنا باقی ہے۔ کوئی بھی دن ہو سکتا ہے۔ میرے گاؤں سے ایک دوست نے لکھا تھا کہ کمپنی چلانے کا آخری فیصلہ ہو گیا ہے۔ سرکار کو تحریری اطلاع بھی دے دی گئی ہے۔
شاید کل ہی۔۔۔
وہ مجھ سے بھی جونیئر تھا۔ بہت ہوشیاری اورذمہ داری سے جو کام کرنا ہوتے، وہ سب ہمیشہ مجھے ہی سونپے جاتے تھے۔ اگروال کو ہمیشہ آسان کام ہی دیا جاتا تھا۔ آسان سے آسان کاموں کو بھی خراب کرنے کی اس کی مخصوص عادت تھی۔ اس پر بھی اب۔۔۔ ابرہام نے کہا، ’’ارے تم بڑے بےوقوف ہو۔ تمہارے پاس عورت ہے، شراب ہے، مالش کے لیے دوا آمیزتیل ہے؟‘‘ تھوڑی دیر کے بعد اس نے پھر کہا، ’’اور پھر تم یہاں کے باشندے بھی نہیں۔ کیا انہیں اسباب کی بنا پر سیدھے راستہ سے یہاں کام صحیح ہونا ممکن نہیں ہوتا؟‘‘
ناامیدی اور غم نے دل کو بہت زیادہ بےقرار کر دیا۔
لنچ کے بعد انڈر سکریٹری نے مجھے بلایا۔ میں فخر کے ساتھ کھڑا رہا۔ انہوں نے کہا، ’’جانتے ہو میں نے کیوں بلایا ہے؟‘‘ ایک خوشخبری دینے کے لیے۔ ریفائنری سے خط آیا ہے۔ انہوں نے تمہارے تقرر کا فیصلہ کر لیا ہے۔ تمہارے ہی گاؤں میں، اچھی تنخواہ ملےگی۔ پھر یہ اب سرکاری نوکری جیسی ہے۔ تم سچ مچ خوش قسمت ہو۔‘‘
مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اس نے اسی وقت میرے چہرے کو بھی تاڑ لیا، ’’کیا بات ہے؟ تمہیں یہ نوکری پسند نہیں؟‘‘
’’مجھے وہ نوکری نہیں چاہئے سر!‘‘
’’یہ کیوں؟ تم ایسا کیوں کہتے ہو؟‘‘
’’میں نے دل میں ٹھان لی ہے۔‘‘
لوٹ کرسیٹ پر آیا تو اس نے اپنے آپ سے کہا، ’’میں نے یہاں لڑنے بھڑنے کی ٹھان لی ہے۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.