Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ڈپٹی کلکٹری

امرکانت

ڈپٹی کلکٹری

امرکانت

MORE BYامرکانت

    شکل دیپ بابو لگ بھگ ایک گھنٹے بعد واپس لوٹے۔ گھر میں داخل ہونے سے پہلے انہوں نے بیٹھک میں جھانکا۔ کوئی مؤکل نہیں تھا اور محرر صاحب بھی غائب تھے۔ وہ اپنے کمرے کے سامنے بیٹھک میں کھڑے ہوکر بندر کی طرح آنکھیں مٹکا مٹکا کر دیکھنے لگے۔ ان کی بیوی جمنا چوکے کے پاس پیڑھی پر بیٹھی ہونٹ پر ہونٹ دبائے ترکاری کاٹ رہی تھی۔ وہ دھیمے دھیمے مسکراتے ہوئے اپنی بیوی کے پاس چلے گئے۔ ان کے چہرے پر ایک غیرمعمولی اطمینان، اعتماد اور ایک قسم کے جوش کے آثار غالب تھے۔ گھنٹہ بھر پہلے ایسی بات نہیں تھی۔

    بات اس طرح شروع ہوئی۔ صبح شکل دیپ بابو دتون کلی کرکے اپنے کمرے میں بیٹھے ہی تھے کہ جمنا نے ایک طشتری میں دو جلیبیاں ناشتے کے لیے لاکر رکھ دیں۔ وہ بغیر کچھ بولے ناشتہ کرنے لگے۔ جمنا پہلے تو ایک آدھ منٹ چپ رہی، پھر شوہر کی طرف اچٹتی نظر سے دیکھتے ہوئے اس نے بات چھیڑی، ’’دو تین دن سے ببوا بہت اداس رہتے ہیں۔‘‘

    ’’کیا؟‘‘ سر اٹھاکر شکل دیپ بابو نے پوچھا اور ان کی بھنویں تن گئیں۔ جمنا نے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا، ’’کل بولے اس سال ڈپٹی کلکٹری کی بہت سی جگہیں ہیں، مگر بابوجی سے کہتے ڈرلگ رہا ہے۔ کہہ رہے تھے دو چار دن میں فیس بھیجنے کی تاریخ نکل جائےگی۔‘‘

    شکل دیپ بابو کا بڑا لڑکا نارائن گھر میں ببوا کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ اس کی عمر لگ بھگ چوبیس سال تھی۔ پچھلے تین چارسال سے بہت سے امتحانوں میں بیٹھنے، ایم ایل اے لوگوں کے دروازوں کے چکر لگانے اور اَور بھی الٹے سیدھے فن استعمال کرنے کے باجود اس کو اب تک کوئی نوکری نہیں ملی تھی۔ دومرتبہ ڈپٹی کلکٹری کے امتحان میں بھی وہ بیٹھ چکا تھا، پربدقسمتی! اب ایک موقع اسے اور ملنا تھا، جس کو وہ گنوانا نہیں چاہتا تھا اور اسے یقین تھا کہ چوں کہ جگہیں کافی ہیں اور اس مرتبہ وہ جی جان لگاکر محنت کرےگا، اس لیے بہت ممکن ہے کہ وہ لے لیا جائے۔

    شکل دیپ بابو مختار تھے لیکن ادھر ڈیڑھ دوسال سے مختاری کی گاڑی ان سے چلائے نہیں چل رہی تھی۔ بڑھاپے کی وجہ سے نہ ان کی آواز میں وہ زور رہا تھا نہ جسم میں وہ طاقت اور نہ چال میں وہ اکڑ، اس لیے مؤکل ان کے یہاں کم ہی پہنچتے تھے۔ کچھ تو آکر بھڑک جاتے تھے۔ اس حالت میں وہ رام کا نام لے کر کچہری جاتے، کبھی کبھار کچھ پا جاتے جس سے دو وقت کی روٹی چل جاتی۔

    جمنا کی بات سن کر وہ ایک دم بگڑ گئے۔ غصے سے ان کا منھ بن گیا اور وہ سر کو جھٹکتے ہوئے، کٹکھنے کتے کی طرح بولے، ’’تو میں کیا کروں؟ میں حیران ہو گیا ہوں۔ تم لوگ میری جان لینے پر تلے ہوئے ہو۔ صاف صاف سن لو۔ میں تین بار کہتا ہوں، مجھ سے نہیں ہوگا، مجھ سے نہیں ہوگا، مجھ سے نہیں ہوگا!‘‘

    جمنا کچھ نہ بولی، کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ شوہر کا غصے میں آنا قدرتی بات ہے۔

    شکل دیپ بابو ایک دو لمحے خاموش رہے، پھر داہنے ہاتھ کو اوپر نیچے نچاتے ہوئے بولے، ’’پھر اس کی گاڑنٹی کیا ہے کہ بابو صاحب اس مرتبہ لے ہی لیے جائیں گے؟ معمولی اے جی آفس کی کلرکی میں تو پوچھے نہیں گئے، ڈپٹی کلکٹری میں کون پوچھےگا؟ آپ میں کیا خوبی ہے صاحب، کہ آپ ڈپٹی کلکٹر ہو ہی جائیں گے؟ تھرڈ کلاس بی اے آپ ہیں، چوبیس گھنٹے مٹرگشتی آپ کرتے ہیں، دن رات سگریٹ آپ پھونکتے ہیں۔ آپ میں کون سے سرخاب کے پر لگے ہیں؟ بڑے بڑے بہے جائیں، گڈریا پوچھے کتنی تھاہ! پھر مقدر مقدر کی بات ہوتی ہے۔ بھائی سمجھ لو تمہارے مقدر میں نوکری لکھی ہی نہیں۔ ارے ہاں، اگر کتے کاشی جانے لگے تو ہانڈیاں کون چاٹےگا؟ ڈپٹی کلکٹری، ڈپٹی کلکٹری! سچ پوچھو تو ڈپٹی کلکٹری کے نام سے مجھے نفرت ہو گئی ہے۔‘‘ اور ہونٹ لٹک گئے۔

    جمنا نے اب دھیمے لہجے میں ان کی بات رد کی، ’’ایسی بدفال منھ سے نہیں نکالتے ہیں۔ ہمارے لڑکے میں کون سی ایسی خرابی ہے؟ لاکھوں میں ایک ہے۔ صبر کی سودھار! میرا تو دل کہتا ہے ببوا ضرور لے لیے جائیں گے۔ پھر پہلے ہی بھوک پیاس میں پلا ہے۔ ماں باپ کا سکھ تو اس نے جانا ہی نہیں۔ اگر یہ بھی نہ ہوا تو اس کا دل ٹوٹ جائےگا۔ یوں ہی نہ معلوم کیوں اداس رہتا ہے۔ ٹھیک سے کھاتا پیتا نہیں، ٹھیک سے بولتا نہیں۔ پہلے کی طرح گاتا گنگناتا بھی نہیں۔ نہ معلوم میرے لڑکے کو کیا ہو گیا ہے!‘‘ وہ دوسری طرف منہ کرکے آنکھوں میں آئے آنسوؤں کو پینے کی کوشش کرنے لگی۔

    جمنا کو روتا ہوا دیکھ کر شکل دیپ بابو آپے سے باہر ہو گئے۔ غصے اور طنز سے منھ چڑاتے ہوئے بولے، ’’لڑکا ہے تو لے کر چاٹو! ساری خرافات کی جڑ تم ہی ہو اور کوئی نہیں! تم مجھے زندہ رہنے دینا نہیں چاہتیں۔ جس دن میری جان نکلےگی اسی دن تمہارا کلیجا ٹھنڈا ہوگا۔‘‘ وہ ہانپنے لگے۔

    انہوں نے اتنی بے رحمی سے جمنا پر جو الزام لگایا اسے وہ سہہ نہ سکی۔ روتی ہوئی بولی، ’’اچھا ٹھیک ہے، اگر میں ساری خرافات کی جڑہوں تو میں کمینی کی بچی جو آج سے کوئی بات۔۔۔‘‘ رونے کی وجہ سے وہ آگے نہ بول سکی اور تیزی سے کمرے سے باہر نکل گئی۔

    شکل دیپ بابو کچھ نہیں بولے۔ وہیں بیٹھے رہے۔ منھ ان کا تنا ہوا تھا اور گردن ٹیڑھی ہوگئی تھی۔ ایک آدھ منٹ تک اسی طرح بیٹھے رہنے کے بعد وہ زمین پر سے اخبار کے ایک پھٹے پرانے ٹکڑے کو اٹھاکر اس محویت سے پڑھنے لگے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ کوئی پندرہ بیس منٹ تک وہ ایسے ہی پڑھتے رہے۔ پھر اچانک اٹھ کھڑے ہوئے۔ انہوں نے لنگی کی طرح لپٹی دھوتی کو کھول کر ٹھیک سے پہن لیا اور اوپر سے اپنا پارسی کوٹ ڈال لیا جو کچھ میلا ہو گیا تھا اور جس میں دو پیوند بھی لگے تھے اور پرانا پمپ شوپہن، ہاتھ چھڑی لے، ایک دوبار کھانس کر باہر نکل گئے۔

    شوہر کی باتوں سے جمنا کے دل کو گہری چوٹ پہنچی تھی۔ شکل دیپ بابو کو باہر جاتے اس نے دیکھا، پر کچھ نہ بولی۔ وہ منھ پھلائے گھر کے الٹے سیدھے کام کرتی رہی اور ایک گھنٹے بعد جب شکل دیپ بابو باہر سے لوٹ کر اس کے پاس آ کھڑے ہوئے، تب بھی وہ کچھ نہ بولی، چپ چاپ ترکاری کاٹتی رہی۔

    شکل دیپ بابو نے کھانس کر کہا، ’’سنتی ہو، یہ ڈیڑھ سو روپے رکھ لو۔ قریب سو روپے ببوا کی فیس میں لگیں گے اور پچاس روپے الگ رکھ دینا، شاید کوئی اور کام آ پڑے۔‘‘ جمنا نے ہاتھ بڑھا کر روپے تو ضرور لے لیے، پر اب بھی وہ کچھ نہیں بولی۔

    لیکن شکل دیپ بابو بہت خوش تھے اور انہوں نے جوشیلی آواز میں کہا، ’’سو روپے ببوا کو دے دینا۔ آج ہی فیس بھیج دیں۔ ہوں گے، ضرور ہوں گے۔ ببوا ڈپٹی کلکٹر ضرور ہوں گے۔ کوئی وجہ نہیں کہ وہ نہ لیے جائیں۔ لڑکے کے ذہن میں کوئی خرابی تھوڑے ہی ہے۔ رام رام! کوئی فکر کی بات نہیں ہے۔ نارائن جی اس بار بھگوان کی کرپا سے ڈپٹی کلکٹر ضرور بنیں گے۔‘‘

    جمنا اب بھی چپ رہی اور روپوں کو ٹرنک میں رکھنے اپنے کمرے میں چلی گئی۔ شکل دیپ بابو اپنے کمرے کی طرف لوٹ پڑے مگر کچھ دور جاکر پھر پلٹے اور جس کمرے میں جمنا گئی تھی، اس کے دروازے کے سامنے آکر کھڑے ہو گئے اور جمنا کو ٹرنک میں روپے رکھتے دیکھتے رہے۔ پھر بولے، ’’غلطی کسی کی نہیں، سارا دوش تو میرا ہے۔ دیکھو نا، میں باپ ہوکر کہتا ہوں کہ بیٹا نکما ہے! نہیں نہیں، ساری خرافات کی جڑ میں ہی ہوں اور کوئی نہیں۔‘‘ ایک دوپل وہ کھڑے رہے لیکن پھر بھی جمنا نے کوئی جواب نہیں دیا تو کمرے میں جاکر کپڑے بدلنے لگے۔

    نارائن نے اسی دن ڈپٹی کلکٹری کی فیس اور فارم بھیج دیے۔

    دوسرے دن عادت کے خلاف صبح صبح شکل دیپ بابو کی نیند اچٹ گئی۔ وہ ہڑبڑاکر آنکھیں ملتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اور باہر آکر چاروں طرف دیکھنے لگے۔ گھر کے سبھی لوگ نیند میں ڈوبے تھے۔ سوئے ہوئے لوگوں کی سانسوں کی آواز اور مچھروں کی بھن بھن سنائی دے رہی تھی۔ ابھی چاروں طرف اندھیرا تھا لیکن باہر کے کمرے سے دھیمی روشنی آ رہی تھی۔ شکل دیپ بابو چونک پڑے اور دبے پیروں کمرے کی طرف بڑھنے لگے۔

    ان کی عمر پچاس سے اوپر ہوگی۔ گورے، ناٹے اور دبلے پتلے آدمی تھے۔ ان کے چہرے پر ان گنت جھریوں کا جال بچھا ہوا تھا اور بانہوں اور گردن کی کھال جھول گئی تھی۔ دروازے کے پاس پہنچ کر انہوں نے پنجوں کے بل کھڑے ہوکر، ہونٹ دباکر، کمرے کے اندر جھانکا۔ ان کا لڑکا نارائن میز پر رکھی لالٹین کے سامنے سر جھکائے پڑھنے میں محو تھا۔ شکل دیپ بابو کچھ دیر تک حیرانی سے اپنے بیٹے کو دیکھتے رہے جیسے کوئی خوش کن راز انہوں نے اچانک پا لیا ہو۔ پھر وہ چپ چاپ، دھیرے سے پیچھے ہٹ گئے۔ وہ وہیں کھڑے ہوکر ذرامسکرائے، پھر دبے پاؤں دھیرے دھیرے واپس لوٹے اور اپنے کمرے کے سامنے، کنارے کھڑے ہوکر خوشی سے آسمان کو دیکھنے لگے۔

    ان کی عادت چھ ساڑھے چھ بجے سے پہلے اٹھنے کی نہیں تھی لیکن آج اٹھ گئے تھے تو دل اندر سے ناخوش نہیں تھا۔ آسمان پر تارے اب بھی چٹکے ہوئے تھے اور باہر کے پیڑوں کو چھوتی ہوئی، آنگن میں نہ معلوم کس طرف سے آتی ہوئی ہوا فرحت بخش لگ رہی تھی۔ وہ دوبارہ مسکرا پڑے اور دھیرے سے پھسپھسائے، ’’چلو، اچھا ہی ہے۔‘‘

    اور اچانک ان میں نہ معلوم کہاں کا جوش بھر گیا۔ انہوں نے اسی وقت منھ ہاتھ دھویا۔ اس سے فارغ ہونے کے بعد بھی اندھیرا ہی رہا تو بالٹی میں پانی بھر کر غسل خانے لے جاکر نہانے لگے۔ نہاکر جب وہ باہر نکلے تو ان کے جسم میں ایک عجیب سی چستی اور ایک ناقابل بیان، اندر سے پیدا ہونے والا جوش تھا۔

    اگرچہ انہوں نے اپنے سبھی کام چپ چاپ کرنے کی کوشش کی تھی، پھر بھی تھوڑی جسمانی کمزوری کی وجہ سے کچھ کھٹ پٹ ہو ہی گئی، جس سے ان کی بیوی کی آنکھ کھل گئی۔ جمنا کو پہلے تو چوروور کا شک ہوا لیکن اس نے جھٹ پٹ جب آکر دیکھا تو اسے تعجب ہوا۔ شکل دیپ بابو آنگن میں کھڑے آسمان کو تاک رہے تھے۔ جمنا نے فکرمندی کے لہجے میں کہا، ’’اتنی جلدی نہانے کی کیا ضرورت تھی؟ اتنے سویرے تو کبھی نہیں اٹھا جاتا تھا۔ کچھ ہو گیا تو؟‘‘

    شکل دیپ بابو جھینپ گئے۔ جھوٹی ہنسی ہنستے ہوئے بولے، ’’دھیرے دھیرے بولو بھئی، ببوا پڑھ رہے ہیں۔‘‘ جمنا بگڑ گئی، ’’دھیرے دھیرے کیوں بولوں؟ اسی لچھن سے پچھلے سال بیمار پڑ جایا گیا تھا۔‘‘ شکل دیپ بابو کو گمان ہوا کہ اس طرح بات چیت جاری رکھنے سے تکرار بڑھ جائےگی، شور شرابا ہوگا، اس لیے انہوں نے بیوی کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ پیچھے گھوم گئے اور چپ چاپ اپنے کمرے میں آکر رامائن کا پاٹھ کرنے لگے۔

    پوجا ختم کرکے جب وہ اٹھے تو اجالا ہو گیا تھا۔ وہ کمرے سے باہر نکل آئے۔ گھر کے بڑے لوگ تو جاگ گئے تھے، پر بچے ابھی تک سوئے ہوئے تھے۔ جمنا رسوئی میں کچھ کھٹر پٹر کر رہی تھی۔ شکل دیپ بابو تاڑ گئے۔ وہ رسوئی کے دروازے کے پاس آکر کھڑے ہو گئے اور کمر پر دونوں ہاتھ رکھ کر بیوی کو تسلے میں چاول نکالتے ہوئے دیکھتے رہے۔ کچھ دیر بعد انہوں نے سوال کیا، ’’نارائن کی ماں، آج کل تمہارا پوجا پاٹھ نہیں ہوتا کیا؟‘‘ اور جھینپ کر مسکرائے۔

    شکل دیپ بابو پریاگ میں بسنے والے ایک سادھو بابا سے، جو ایک بار گھومتے گھامتے یہاں آپہنچے تھے، مرید ہوگئے تھے۔ امید ان کو یہ تھی کہ گھر کی عورتیں بھی انہیں کی مرید ہو جائیں گی، لیکن جیسا کہا جاتا ہے، عورت ذات کا کوئی بھروسا نہیں، انہوں نے دور کے رشتے کی ایک بوڑھی چاچی کے کہنے سے متاثر ہوکر چپکے سے رادھا سوامی دھرم کی چاکری قبول کر لی۔

    شکل دیپ بابو اس سے پہلے رادھا سوامی دھرمیوں سے نہ صرف خفا رہتے تھے بلکہ ان پر وقت بے وقت تنقید بھی کرتے رہتے تھے۔ ان باتوں پر عورتیں کبھی کبھی واویلا بھی کرتی تھیں۔ اس لیے آج جب شکل دیپ بابو نے پوجا پاٹھ کی بات کی تو جمنا نے خیال کیا کہ وہ طنز کر رہے ہیں۔ اس نے بھی جواباً کہا، ’’ہم لوگوں کو پوجا پاٹھ سے کیا مطلب، ہم کو تو نرک میں جانا ہے۔ جن کو سورگ میں جانا ہو وہ کریں!‘‘

    ’’لو بگڑ گئیں۔‘‘ شکل دیپ بابو دھیمے دھیمے مسکراتے ہوئے جھٹ سے بولے، ’’ارے، میں مذاق تھورے ہی کر رہا تھا۔ میں بڑی غلطی پر تھا۔ رادھا سوامی تو بڑے پہنچے ہوئے دیوتا ہیں۔‘‘ جمنا کو رادھا سوامی کو دیوتا کہا جانا بہت برا لگا اور وہ تنک کر بولی، ’’رادھا سوامی کو دیوتا کہتے ہیں؟ وہ تو پرم پتا پرمیشور ہیں۔ ان کا لوک سب سے اوپر ہے، اس سے نیچے ہی برہما، وشنو اور مہیش کے لوک ہیں۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے، لیکن کچھ پوجا پاٹھ بھی کروگی؟ سنتے ہیں سچے دل سے رادھا سوامی کی پوجا کرنے سے سبھی دعائیں پوری ہوتی ہیں۔ ’’شکل دیپ بابو جواب دے کر کانپتے ہونٹوں سے مسکرانے لگے۔ جمنا نے دوبارہ ان کو ٹوکا، ’’اس میں دکھاوا تھوڑے ہی ہوتا ہے۔ دل میں نام لے لیا جاتا ہے، سبھی کام بن جاتے ہیں اور مرنے کے بعد آتما پرم پتا سے جاملتی ہے۔ پھر چور اسی نہیں بھگتنا پڑتا۔‘‘

    شکل دیپ بابو نے بڑے جوش سے کہا، ’’ٹھیک ہے۔ بہت اچھی بات ہے۔ ذرا اور سویرے اٹھ کر نام لے لیا کرو۔ صبح نہانے سے طبیعت دن بھر صاف رہتی ہے۔ کل سے تم بھی شروع کر دو۔ میں تو بدقسمت تھا، میری آنکھیں آج تک بند رہیں۔ خیر کوئی بات نہیں، اب بھی کچھ نہیں بگڑا ہے۔ کل سے تم بھی صبح چار بجے اٹھ جانا۔‘‘

    ان کو ڈر تھا کہ جمنا کہیں ان کی تجویز کی مخالفت نہ کرے، اس لیے اتنا کہنے کے بعد وہ مڑے اور وہاں سے چل دیے لیکن اچانک کچھ یاد کرکے وہ لوٹ پڑے۔ پاس آکر انہوں نے بیوی سے مسکراتے ہوئے پوچھا، ’’ببوا کے لیے ناشتے کا کیا انتظام کروگی؟‘‘

    ’’جو روز ہوتا ہے وہی ہوگا اور کیا ہوگا!‘‘ جمنا نے انتہائی مایوس کن انداز میں جواب دیا۔

    ’’ٹھیک ہے، لیکن آج حلوہ کیوں نہیں بنا لیتیں؟ گھر کا بنا سامان اچھا ہوتا ہے اور کچھ میوے منگا لو۔‘‘

    ’’حلوے کے لیے گھی نہیں ہے۔ پھر اتنے پیسے کہاں ہیں؟‘‘ جمنا نے مجبوری ظاہر کی۔

    ’’وہ پچاس روپے تو بچے ہیں نا؟ اسی میں سے خرچ کرو۔ یہ اَن پانی کا جنم! لڑکے کو پینے کھانے کو نہیں ملےگا تو وہ امتحان کیا دےگا؟ روپے کی فکر مت کرو۔ ابھی میں زندہ ہوں!‘‘ اتنا کہہ کر شکل دیپ بابو قہقہہ لگاکر ہنس پڑے۔ وہاں سے ہٹتے ہوئے وہ بیوی کو یہ بھی ہدایت کرتے گئے، ’’ایک بات اور کرو، تم لڑکے لوگوں کو ڈانٹ کر کہہ دینا کہ باہر کے کمرے میں بازار نہ لگائیں، نہیں تو مار پڑےگی۔ ہاں، پڑھنے میں حرج ہوگا۔ دوسری بات یہ کہ ببوا سے کہہ دینا، وہ باہر کے کمرے میں بیٹھ کر اطمینان سے پڑھیں۔ میں باہر صحن میں بیٹھا کروں گا۔‘‘ شکل دیپ بابو سویرے ایک ڈیڑھ گھنٹے باہر کے کمرے میں بیٹھتے تھے۔ وہاں وہ مؤکلوں کا انتظار کرتے اور انہیں سمجھاتے بجھاتے۔

    اس دن سے وہ سچ مچ ہی مکان کے باہر پیپل کے پیڑ کے نیچے، جہاں کافی سایہ رہتا تھا، ایک میز اور کرسیاں لگاکر بیٹھ گئے۔ جان پہچان کے لوگ وہاں سے گزرے تو انہیں وہاں دیکھ کر حیران ہوئے۔ جب سڑک سے گزرتے ہوئے ببن لال پیش کار نے ان سے پوچھا، ’’بھائی صاحب، آج کیا بات ہے؟‘‘ تو انہوں نے زور سے چلاکر کہا، ’’بھئی اندر بڑی گرمی ہے۔‘‘ انہوں نے جو کرکی طرح اپنا منھ بنا لیا اور آخر میں قہقہہ مار کر ہنس پڑے جیسے کوئی بڑا مذاق کیا ہو۔

    شام کو جہاں روز وہ پہلے ہی سے کچہری سے آ جاتے تھے، اس دن دیر سے لوٹے۔ انہوں نے بیوی کے ہاتھ میں چار روپے تو دیے ہی، ساتھ دوسیب اور پانچ قینچی سگریٹ کے پیکٹ بھی بڑھا دیے۔

    ’’سگریٹ کیا ہوگی؟‘‘ جمنا نے تعجب سے پوچھا۔

    ’’تمہارے لیے ہیں۔‘‘ شکل دیپ بابو نے دھیرے سے کہا اور دوسری طرف دیکھ کر مسکرانے لگے لیکن ان کا چہرہ شرم سے کچھ تمتما گیا۔ جمنا نے ماتھے پرکی ساڑی کو نیچے کھینچتے ہوئے کہا، ’’کبھی سگریٹ پی بھی ہے کہ آج ہی پیوں گی؟ اس عمر میں مذاق کرتے شرم نہیں آتی؟‘‘

    شکل دیپ بابو کچھ بولے نہیں اور تھوڑا مسکراکر ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ پھر کچھ سنجیدہ ہوکر دوسری طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’ببوا کو دے دینا۔‘‘ اور فوراً وہاں سے چلتے بنے۔ جمنا بھونچکی ہوکر کچھ دیر ان کو دیکھتی رہی، کیوں کہ آج سے پہلے تو وہ یہی دیکھتی آ رہی تھی کہ نارائن کی سگریٹ نوشی کے وہ سخت خلاف رہے ہیں اور اس معاملے پر اسے کئی بار ڈانٹ پھٹکار بھی چکے ہیں۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا تو وہ یہ کہہ کر مسکرادی کہ ’’عقل ماری گئی ہے۔‘‘

    نارائن دن بھر پڑھنے لکھنے کے بعد ٹہلنے گیا ہوا تھا۔

    شکل دیپ بابو جلدی سے کپڑے بدل کر، ہاتھ میں جھاڑو لے، باہر کے کمرے میں جا پہنچے۔ انہوں نے جلدی جلدی اچھی طرح کمرے کو جھاڑا بہارا، اس کے بعد نارائن کی میز کو صاف کیا اور میز پوش کو زور زور سے کئی بار جھاڑ کر صفائی کے ساتھ اس پر بچھا دیا۔ آخر میں نارائن کی چارپائی پر پڑے بستر کو کھول کر اس کی ایک ایک چیز کو ٹھیک سے تہہ کرکے رکھنے لگے۔ اتنے میں جمنا نے آکر دیکھا تو دھیمے لہجے میں بولی، ’’کچہری سے آنے پر یہی کام رہ گیا ہے کیا؟ بچھونا روز بچھ ہی جاتا ہے اور کمرے کی صفائی بھی مہرن کرہی دیتی ہے۔‘‘

    ’’اچھا ٹھیک ہے۔ میں اپنی خوشی سے کر رہا ہوں۔ کوئی زبردستی تھوڑے ہی ہے۔‘‘ شکل دیپ بابو کے چہرے پر ہلکی سی جھینپ کے آثار ابھر آئے اور وہ اپنی بیوی کی طرف دیکھتے ہوئے ایسی آواز میں بولے جیسے انہوں نے اچانک ہی یہ کام شروع کر دیا تھا اور جب اتنا کرہی لیا ہے تو بیچ میں چھورنے سے کیا فائدہ، پورا ہی کر لیں۔

    کچہری سے واپسی پر ان کا یہ معمول تھا کہ تھوڑا بہت کچھ کھاپی کر پلنگ پر لیٹ جاتے تھے۔ اکثر ان کو نیند آجاتی تھی اور وہ تقریباً آٹھ بجے تک سوتے رہتے تھے۔ اگر نیند نہ آتی تو بھی وہ اسی طرح چپ چاپ پڑے رہتے تھے۔

    ’’ناشتہ تیار ہے۔‘‘ یہ کہہ کر جمنا وہاں سے چلی گئی۔

    شکل دیپ بابو کمرے کو چماچم کرنے، بچھونے لگانے اور کرسیوں کو ترتیب سے سجانے کے بعد آنگن میں آکر کھڑے ہو گئے اور بلاوجہ ہنستے ہوئے بولے، ’’اپنا کام سدا اپنے ہاتھ سے کرنا چاہیے۔ نوکروں کا کیا ٹھیک۔‘‘ لیکن ان کی بات کا نہ تو کسی نے کوئی نوٹس لیا اور نہ کسی نے کوئی جواب دیا۔

    دھیرے دھیرے دن بیتتے گئے اور نارائن سخت محنت کرتا رہا۔

    کچھ دنوں سے شکل دیپ بابو روز شام کو گھر سے کوئی ایک میل دور شوجی کے مندر بھی جانے لگے تھے۔ وہ بہت چلتا ہوا مندر تھا۔ اس میں عقیدت مندوں کی بہت بھیڑ ہوتی تھی۔ کچہری سے لوٹنے کے بعد وہ نارائن کے کمرے کو جھاڑتے بہارتے، آخر میں ناشتہ کرکے مندر کے لیے روانہ ہوجاتے۔ مندر میں ایک ڈیڑھ گھنٹہ رہتے اور تقریباً دس بجے گھر لوٹتے۔

    ایک دن جب وہ مندر سے لوٹے تو ساڑھے دس بج گئے تھے۔ انہوں نے دبے پاؤں نارائن کے کمرے میں جھانک کر دیکھا اور اسے پڑھتے دیکھ کر دبی دبی مسکراہٹ ان کے لبوں پر پھیل گئی۔ پھر وہ اندر اپنے کمرے میں آکر، چھڑی دیوار سے ٹکا، ہاتھ منھ دھو، چوکے میں کھانے کے لیے جاکر بیٹھ گئے۔ بیوی نے کھانا سامنے دھردیا۔ شکل دیپ بابو نے نوالہ چباتے ہوئے پوچھا، ’’ببوا کو میوے دے دیے تھے؟‘‘

    وہ آج شام جب کچہری سے لوٹے تھے تو میوے لیتے آئے تھے۔ انہوں نے میوے کو بیوی کے حوالے کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسے صرف نارائن ہی کو دینا اور کسی کو نہیں۔ جمنا کو جھپکی آ رہی تھی مگر اس نے شوہر کی بات سن کر، چونک کر بولی، ’’کہاں! میوہ ٹرنک میں رکھ دیا تھا کہ ببوا گھوم کر آئیں گے تو دے دوں گی۔ پر لڑکے تو بھوت بنے ہوئے ہیں، کونا کونا، آتر آتر، سبھی جگہ پہنچ جاتے ہیں۔ ٹن ٹن نے کہیں سے دیکھ لیا اور اس نے سارا کا سارا کھا ڈالا۔‘‘ ٹن ٹن شکل دیپ بابو کا سب سے چھوٹا، لگ بھگ بارہ تیرہ سال کا، بےحد شریر لڑکا تھا۔

    ’’کیوں؟‘‘ شکل دیپ بابو چلاپڑے۔ ان کا منھ کھل گیا تھا اور زبان پر روٹی کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا نظر آرہا تھا۔ جمنا کچھ نہ بولی۔ اب شکل دیپ بابو نے غصے سے بیوی کا منھ چڑاتے ہوئے کہا، ’’کھا گیا! تم کو کیوں نہیں کھاگیا؟ تم لوگوں کے کھانے کے لیے لایا تھا کیا؟ کھا گیا! کھا گیا!‘‘

    جمنا بھی تنک اٹھی، ’’تو کیا ہو گیا؟ کبھی پھل پھول، میوہ مصری تو ان کو نصیب ہوتی نہیں ہے۔ بچارے بھوسا چونی جو کچھ بھی انہیں میسر ہے، اسی پر صبر کرتے ہیں۔ اپنے ہاتھ سے خرید کر کبھی کچھ دیا بھی تو نہیں گیا۔ بچہ ہی تو ہے، دل مچل گیا ہوگا سوکھالیا۔ پھر میں نے اسے بہت مارا بھی۔ اب جان تو نہیں لے لیں گے۔‘‘

    ’’اچھا تو کھاؤ تم اور تمہارے لڑکے! خوب مزے میں کھاؤ! ایسے کھانے پر لعنت!‘‘ وہ غصے سے تھر تھر کانپتے ہوئے چلاپڑے اور پھر چوکے سے اٹھ کر کمرے میں چلے گئے۔

    جمنا خوف، غصے اور ذلت سے رونے لگی۔ اس نے کھانا بھی نہیں کھایا اور چارپائی پر منھ ڈھانپ کر پڑ رہی۔

    دوسرے دن صبح بھی شکل دیپ بابو کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا اور انہوں نے نہانے دھونے اور پوجا کرنے کے بعد سب سے پہلا کام یہ کیا کہ جب ٹن ٹن جاگا تو اسے اپنے پاس بلایا اور اس سے پوچھا کہ اس نے میوہ کیوں کھایا؟ جب اس کو کوئی جواب نہ سوجھا اور سہم کر اپنے باپ کی طرف دیکھنے لگا تو شکل دیپ بابو نے کئی طمانچے اسے جڑ دیے۔

    ڈپٹی کلکٹری کا امتحان الہ آباد میں ہونے والا تھا اور وہاں روانہ ہونے کے دن آ گئے تھے۔ اس بیچ نارائن نے اتنی کڑی محنت کی تھی کہ سبھی لوگ حیران تھے۔ وہ اٹھارہ انیس گھنٹے تک پڑھتا رہتا۔ اس کی پڑھائی میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہونے پائی۔ اسے بس پڑھنا تھا۔ اس کو کمرہ صاف ملتا، بچھونا بچھا ملتا، دونوں وقت گاؤں کے اصلی گھی کے ساتھ دال بھات، سبزی روٹی ملتی۔ جسم کی طاقت اور دماغ کی تازگی کو بنائے رکھنے کے لیے ناشتے میں سویرے حلوہ، دودھ اور شام کو میوے یا پھل اور تو اور لڑکے کی طبیعت اچاٹ نہ ہو، اس لیے سگریٹ کا بھی اچھا بھلا انتظام۔ جب سگریٹ کے پیکٹ ختم ہوتے تو جمنا اس کے پاس اور پیکٹ رکھ جاتی۔

    جس دن نارائن کو الہ آباد جانا تھا، شکل دیپ بابو کی چھٹی تھی اور وہ سویرے ہی گھومنے نکل گئے۔ وہ کچھ دیر تک کمپنی باغ میں گھومتے رہے، پھر وہاں طبیعت نہ لگی تو ندی کے کنارے پہنچ گئے۔ وہاں بھی دل نہ لگا تو اپنے قریبی دوست کیلاش بہاری، مختار، کے گھر چلے گئے۔ وہاں بہت دیر تک ٹپس لڑاتے رہے اور جب گاڑی کا وقت قریب آیا تو جلدی جلدی گھر کی طرف چل دیے۔

    گاڑی نو بجے نکلتی تھی۔ جمنا اور نارائن کی بیوی نے تڑکے اٹھ کر کھانا پکا لیا تھا۔ نارائن نے کھانا کھایا اور سب کو پرنام کرکے اسٹیشن کے لیے چل پڑا۔ شکل دیپ بابو بھی ساتھ گئے۔ نارائن کو رخصت کرنے کے لیے اس کے چار پانچ دوست بھی اسٹیشن پہنچے تھے۔ جب تک گاڑی نہیں آئی، نارائن پلیٹ فارم پران دوستوں سے باتیں کرتا رہا۔ شکل دیپ بابو الگ کھڑے ادھر ادھر اس طرح دیکھتے رہے، جیسے نارائن سے ان کا تعارف ہی نہ ہو اور جب گاڑی آئی اور نارائن اپنے دوستوں اور باپ کی مدد سے سامان کے ساتھ گاڑی پر چڑھ گیا تو شکل دیپ بابو وہاں سے دھیرے دھیرے کھسک گئے اور وہیلر کے بک اسٹال پر جاکر کھڑے ہو گئے۔

    بک اسٹال کا آدمی جان پہچان کا تھا۔ اس نے سلام کرکے پوچھا، ’’کہیے مختار صاحب، آج کیسے آنا ہوا؟‘‘ شکل دیپ بابو نے اطمینان سے مسکراتے ہوئے جواب دیا، ’’لڑکا الہ آباد جا رہا ہے ڈپٹی کلکٹری کا امتحان دینے۔ شام تک پہنچ جائےگا۔ ڈیوڑھے درجے کے پاس جو ڈبا ہے نا، اسی میں ہے۔ نیچے جو چار پانچ لڑکے کھڑے ہیں وہ اس کے دوست ہیں۔ سوچا، بھئی ہم لوگ بوڑھے ٹھہرے، لڑکے امتحان ومتحان کی بات کر رہے ہوں گے، اس لیے ادھر چلا آیا۔‘‘ ان کی آنکھیں خوشی اور ایک عجیب مزاحیہ انداز سے سکڑ گئیں۔

    وہاں وہ تھوڑی دیر تک رہے۔ اس کے بعد جاکر گھڑی میں وقت دیکھا، کچھ دیر تار گھر کے باہر تار بابو کو کھٹرپٹر کرتے دیکھتے رہے اور پھر وہاں سے ہٹ کر ریل گاڑیوں کے آنے جانے کا ٹائم ٹیبل پڑھنے لگے لیکن ان کا دھیان گاڑی ہی کی طرف لگا ہوا تھا، کیوں کہ جب ٹرین چھوٹنے کی گھنٹی بجی تو وہ وہاں سے بھاگ کر نارائن کے دوستوں کے پیچھے کھڑے ہو گئے۔ نارائن نے جب ان کو دیکھا تو اس نے جھٹ پٹ نیچے اتر کر ان کے پیر چھوئے۔

    ’’خوش رہو بیٹا، بھگوان تمہیں کامیاب کرے!‘‘ انہوں نے لڑکے سے بدبداکر کہا اور دوسری طرف دیکھنے لگے۔

    نارائن بیٹھ گیا اور اب گاڑی چلنے ہی والی تھی۔ اچانک شکل دیپ بابو کا داہنا ہاتھ اپنے کوٹ کی جیب میں گیا۔ انہوں نے جیب سے کوئی چیز باہر نکال لی اور وہ کچھ آگے بھی بڑھے لیکن پھر نہ معلوم کیا سوچ کر رک گئے۔ ان کا چہرہ کچھ تمتماسا گیا اور گھبراہٹ میں وہ ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ گاڑی نے آخری سیٹی دی تو شکل دیپ بابو چونک پڑے۔ انہوں نے جیب سے وہ چیز نکال کر مٹھی میں باندھ لی اور اسے نارائن کو دینے دوڑ پڑے۔

    وہ کمزور اور بوڑھے آدمی تھے، اس لیے ان سے تیز تو کیا دوڑا جاتا، وہ پیروں میں پھرتی لانے کے لیے اپنے ہاتھوں کو اس طرح بھینچ رہے تھے جیسے کوئی روگی، مریل لڑکا اپنے ساتھیوں کے بیچ کھیل کود کے دوران کوئی ہلکی پھلکی شرارت کرنے کے بعد تیزی سے دوڑنے کے لیے گردن جھکا کر ہاتھوں کو چکر دیتا ہوا بھاگ رہا ہو۔ ان کے پیر تھپ تھپ کی آواز کے ساتھ پلیٹ فارم پر گر رہے تھے اور ان کی ان حرکات کا ان کے چہرے پر کوئی خاص قسم کا اثر نہیں تھا، بس یہی معلوم ہوتا تھا کہ وہ کچھ پریشان ہیں۔ پلیٹ فارم پر جمع لوگوں کی توجہ ان کی طرف ہوئی۔ کچھ لوگوں نے موج میں آکر زور سے للکارا، کچھ لوگوں نے کلکاریاں ماریں اور کچھ نے ان کے اس مضحکہ خیز انداز کو دیکھ کر زور زور سے ہنسنا شروع کر دیا۔ لیکن ان کی خوش قسمتی ہی کہی جائے کہ گاڑی ابھی چلی ہی تھی اور زیادہ اسپیڈ میں نہیں آئی تھی۔ وہ اپنی اس مضحکہ خیز کوشش میں کامیاب ہو گئے اور انہوں نے ڈبے کے سامنے پہنچ کر بےچینی اور فکرمندی کے آثار لیے ہوئے ڈبے سے سر نکال کر جھانکتے ہوئے نارائن کے ہاتھ میں ایک پڑیا دیتے ہوئے کہا، ’’بیٹا، اسے عقیدت کے ساتھ کھا لینا۔ بھگوان شنکر کا پرساد ہے۔‘‘

    پڑیا میں کچھ بتاشے تھے جو انہوں نے کل شام کو شیوجی کو چڑھائے تھے اور اسے پتا نہیں کیوں نارائن کو دینا بھول گئے تھے۔ نارائن کے دوست یہ منظر دیکھ کر مسکرانے لگے اور جب وہ قریب آئے تو ایک لڑکے نے پوچھا، ’’بابوجی، کیا بات تھی؟ ہم سے کہہ دیتے۔‘‘ شکل دیپ بابو یہ کہہ کر کہ ’’کوئی بات نہیں۔ کچھ روپے تھے، سوچا میں خود ہی دے دوں۔۔۔‘‘ تیزی سے آگے بڑھ گئے۔

    امتحان ختم ہونے کے بعد نارائن گھر واپس آ گیا۔ اس نے سچ مچ پرچے اچھے کیے تھے اور اس نے گھر والوں سے صاف صاف کہہ دیا کہ اگر کوئی بے ایمانی نہیں ہوئی تو وہ انٹرویو میں ضرور بلایا جائےگا۔ گھر والوں کی بات تو خیر دوسری تھی، لیکن جب محلے اور شہر کے لوگوں نے یہ بات سنی تو انہوں نے یقین نہیں کیا۔ لوگ طنزاً کہنے لگے، ’’ہر سال تو یہی کہتے ہیں بچو! وہ کوئی دوسرے ہوتے ہیں جو انٹرویو میں بلائے جاتے ہیں!‘‘

    لیکن بات نارائن نے جھوٹ نہیں کہی تھی، کیوں کہ ایک دن اس کو خبر ملی کہ پبلک سروس کمیشن الہ آباد کے سامنے اسے انٹرویو کے لیے حاضر ہونا ہے۔ یہ خبر سارے شہر میں بجلی کی طرح پھیل گئی۔ بہت برسوں بعد کوئی لڑکا اس شہر سے ڈپٹی کلکٹری کے لیے بلایا گیا تھا۔ لوگوں کے تعجب کا ٹھکانا نہ رہا۔

    شام کچہری سے واپسی پر شکل دیپ بابو سیدھے آنگن میں جاکر کھڑے ہو گئے اور زور سے قہقہہ مار کر ہنس پڑے۔ پھر کمرے میں جاکر کپڑے بدلنے لگے۔ شکل دیپ بابو نے کوٹ کھونٹی پر ٹانگتے ہوئے، لپک کر آتی ہوئی جمنا سے کہا، ’’اب کرونا راج! ہمیشہ شور مچائے رہتی ہیں کہ یہ نہیں ہے وہ نہیں ہے۔ یہ معمولی بات نہیں ہے کہ ببوا انٹرویو میں بلائے گئے ہیں۔ بس آیا ہی سمجھو!‘‘

    ’’جب آ جائیں تبھی نا!‘‘ جمنا نے کنجوسی سے مسکراتے ہوئے کہا۔

    شکل دیپ بابو تھوڑا ہنستے ہوئے بولے، ’’تم کو اب بھی شک ہے؟ لو میں کہتا ہوں کہ ببوا ضرور آئیں گے، ضرور آئیں گے! نہیں تو میں اپنی مونچھ مونڈ دوں گا اور کوئی کہے نہ کہے، میں تو اس بات کو پہلے ہی سے جانتا ہوں۔ ارے میں کیا، سارا شہر یہی کہتا ہے! امبیکا بابو وکیل مجھے بدھائی دیتے ہوئے بولے، انٹرویو میں بلائے جانے کا مطلب ہے کہ اگر انٹرویو تھوڑا بھی اچھا ہو گیا تو انتخاب یقینی ہے۔ میرا ناک میں دم تھا۔ جو بھی سنتا، بدھائی دینے چلا آتا۔‘‘

    ’’محلے کے لڑکے مجھے بھی بدھائی دے گئے ہیں۔ جانکی، کمل اور گوری تو ابھی ابھی گئے ہیں۔‘‘ جمنا نے خواب ناک آنکھوں سے اپنے شوہر کی طرف دیکھتے ہوئے خبر دی۔

    ’’تو تمہاری کوئی معمولی ہستی ہے! ارے تم ڈپٹی کلکٹر کی ماں ہونا، جی!‘‘ اتنا کہہ کر وہ قہقہہ لگاکر ہنس پڑے۔ جمنا کچھ نہیں بولی بلکہ اس نے دبی دبی مسکراہٹ کے ساتھ ساڑی کا پلو سر تک کھینچ لیا اور منھ ٹیڑھا کر لیا۔ شکل دیپ بابو نے جوتے اتار کر چارپائی پر بیٹھتے ہوئے کہا، ’’ارے بھائی، ہم کو تم کو کیا لینا، ایک کونے میں پڑ کر رام رام جپا کریں گے۔ لیکن میں تو ابھی یہ سوچ رہا ہوں، کچھ سال اور مختاری کروں گا۔ نہیں، یہی ٹھیک رہےگا!‘‘ انہوں نے گال پھلاکر دو ایک مرتبہ مونچھوں پر تاؤ دیا۔ جمنا نے ان کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا، ’’لڑکا مانےگا تھوڑے ہی۔ کھینچ لے جائےگا۔ ہمیشہ یہ دیکھ کر اس کادل دکھتا ہے کہ بابوجی اتنی محنت کرتے ہیں اور وہ کچھ بھی مدد نہیں کرپاتا۔‘‘

    ’’کچھ کہہ رہا تھا کیا؟‘‘ شکل دیپ بابو نے دھیرے سے پوچھا اور بیوی کی طرف دیکھ کر دروازے کے باہر دیکھنے لگے۔ جمنا نے یقین کے ساتھ کہا، ’’میں جانتی نہیں کیا؟ اس کا چہرہ بتاتا ہے۔ باپ کو اتنا کام کرتے دیکھ کر اس کو کوئی اچھا تھوڑے ہی لگتا ہے۔‘‘ آخر میں اس نے ناک سڑک لی۔

    نارائن پندرہ دن بعد انٹرویو دینے گیا اور اس نے انٹرویو بھی کافی اچھا کیا۔ وہ گھر واپس آیا تو اس کا دل جوش اور ولولے سے بھرا ہوا تھا۔۔۔ اور جب اس نے یہ بتایا کہ جہاں اور لڑکوں کا انٹرویو پندرہ منٹ کا ہوا وہاں اس کا پورے پچاس منٹ تک انٹرویو ہوتا رہا اور اس نے سبھی سوالوں کے جواب کافی اطمینان بخش دیے، تو اب یہ سبھی نے مان لیاکہ نارائن کا لیا جانا یقینی ہے۔

    دوسرے دن کچہری میں پھر وکیلوں اور مختاروں نے شکل دیپ بابو کو مبارک باد دی اور یہ یقین ظاہر کیا کہ نارائن ضرور لیا جائےگا۔ شکل دیپ بابو مسکرا مسکراکر لوگوں کی مبارک باد کا شکریہ ادا کرتے اور لگے ہاتھوں نارائن کی ذاتی زندگی کی دو ایک باتیں سنا دیتے اور آخر میں سر جھکاکر سرگوشی میں دل کا راز ظاہر کرتے، ’’آپ سے کہتا ہوں، پہلے مجھے بھی شک تھا، سولہ آنے شک تھا، لیکن آپ لوگوں کی دعا سے اب وہ دور ہو گیا ہے۔‘‘

    جب وہ گھر لوٹے تو نارائن، گوری اور کمل دروازے پر کھڑے باتیں کر رہے تھے۔ نارائن انٹرویو کے بارے میں کچھ بتا رہا تھا۔ وہ اپنے باپ کو آتا دیکھ کر دھیرے دھیرے بولنے لگا۔ شکل دیپ بابو چپ چاپ وہاں سے گزر گئے لیکن دوتین ہی گز آگے گئے ہوں گے کہ گوری کی آواز ان کو سنائی پڑی، ’’ارے تمہارا ہو گیا، اب تم موج کرو!‘‘

    اتنا سنتے ہی شکل دیپ بابو گھوم پڑے اور لڑکوں کے پاس آکر انہوں نے پوچھا، ’’کیا؟‘‘ ان کی آنکھیں سکڑ گئیں او رچہرے پر ایسے آثار دکھائی دیے جیسے وہ کسی محفل میں زبردستی گھس آئے ہوں۔ لڑکے ایک دوسرے کو دیکھ کر بڑے مہذب انداز میں مسکرائے۔ پھر گوری نے جو کہا تھا اسے اور واضح انداز میں کہا، ’’میں کہہ رہا تھا کہ نارائن کا لیا جانا یقینی ہے۔‘‘

    شکل دیپ بابو نے سڑک سے گزرتی ہوئی ایک موٹر کو غور سے دیکھنے کے بعد دھیرے دھیرے کہا، ’’ہاں، دیکھیے نا! جہاں ایک سے ایک دھرندھر لڑکے پہنچتے ہیں، وہاں سب سے تو بیس منٹ ہی کا انٹرویو ہوتا ہے، پر ان سے پورے پچاس منٹ کا! اگر نہیں لینا ہوتا تو پچاس منٹ تک تنگ کرنے کی کیا ضرورت تھی، پانچ دس منٹ پوچھ تاچھ کرکے۔۔۔‘‘

    گوری نے سر ہلاکر ان کی بات کی تائید کی اور کمل نے کہا، ’’پہلے کا زمانہ ہوتا تو کہا بھی نہیں جا سکتا تھا، لیکن اب تو بے ایمانی اتنی نہیں ہوتی ہوگی۔‘‘ شکل دیپ بابو نے آنکھیں جھپکاتے ہوئے دھیمی دھیمی آواز میں پوچھا، ’’بے ایمانی تو نہیں ہوتی ہے نا؟‘‘

    ’’ہاں، اب اتنی نہیں ہوتی۔ پہلے بات دوسری تھی۔ وہ زمانہ اب لد گیا۔‘‘ گوری نے جواب دیا۔

    شکل دیپ بابو اچانک اپنی آواز پر زور دیتے ہوئے بولے، ’’ارے اب کیسی بےایمانی صاحب؟ گولی ماریے، اگر بے ایمانی ہی کرنی ہوتی تو اتنی دیر تک ان کا انٹرویو ہوتا؟ انٹرویو میں بلایا ہی نہیں ہوتا اور بلاتے بھی تو پانچ دس منٹ پوچھ تاچھ کرکے رخصت کر دیتے۔‘‘

    اس کا کسی نے جواب نہیں دیا تو وہ مسکراتے ہوئے مڑ کر گھر میں چلے گئے۔

    گھر پہنچنے پر جمنا سے بولے، ’’ببوا ابھی سے کسی افسر کی طرح لگتے ہیں۔ دروازے پر ببوا، گوری اور کمل باتیں کر رہے تھے۔ میں نے دور ہی سے غور کیا، جب نارائن بابو بولتے ہیں اور ہاتھ ہلاتے ہیں تو ان کے بولنے اور ہاتھ ہلانے سے ایک عجیب سی شان ٹپکتی ہے۔ ان کے دوستوں میں وہ بات کہاں!‘‘

    ’’آج دوپہر میں مجھ سے کہہ رہے تھے کہ تجھے موٹر میں گھماؤں گا۔‘‘ جمنا نے خوش خبری سنائی۔ شکل دیپ بابو خوش ہوکر ناک سڑکتے ہوئے بولے، ’’ارے تو اس کو موٹر کی کمی ہوگی؟ گھومنانا، جتنا چاہنا!‘‘ وہ اچانک چپ ہو گئے اور کھوئے کھوئے اس طرح مسکرانے لگے جیسے کوئی لذیذ چیز کھانے کے بعد اس کے مزے سے لطف اندوز ہو رہے ہوں۔ کچھ دیر بعد انہوں نے بیوی سے سوال کیا، ’’کیا کہہ رہا تھا؟ موٹر میں گھماؤں گا؟‘‘ جمنا نے پھر وہی بات دہرادی۔ شکل دیپ بابو نے دھیرے سے دونوں ہاتھوں سے تالی بجاتے ہوئے مسکراکر کہا، ’’چلو اچھا ہے۔‘‘ ان کے چہرے پر گہرے اطمینان کے آثار نمایاں تھے۔

    سات آٹھ دن بعدنتیجہ نکلنے کا اندازہ تھا۔ سبھی کو یقین ہو گیا تھا کہ نارائن لے لیا جائےگا اور سبھی بے چینی سے نتیجے کا انتظار کر رہے تھے۔

    اب شکل دیپ بابو اور بھی مصروف ہو گئے۔ پوجا پاٹھ کا ان کا معمول یوں ہی جاری رہا پہلے کی طرح۔ لوگوں سے بات چیت کرنے میں ان کو مزہ آنے لگا اور وہ بات چیت کے دوران ایسے حالات پیدا کر دیتے کہ لوگوں کو کہنا پڑتا کہ نارائن ضرور لے لیا جائےگا۔ وہ اپنے گھر پر جمع نارائن اور اس کے دوستوں کی باتیں چھپ چھپ کر سنتے اور کبھی کبھی اچانک ان کے جھنڈ میں گھس کر زبردستی بات کرنے لگتے۔ کبھی نارائن کو یہ بات بری بھی لگتی اور وہ غصے میں دوسری طرف دیکھنے لگتا۔ رات میں شکل دیپ بابو چونک کر اٹھ بیٹھتے اور باہر آکر کمرے میں سوتے ہوئے نارائن کو دیکھنے لگتے یا کبھی آنگن میں آکر آسمان کو تکا کرتے۔

    ایک دن انہوں نے سویرے ہی سب کو سنانے والے انداز میں زور سے کہا، ’’نارائن کی ماں، میں نے آج سپنا دیکھا ہے کہ نارائن بابو ڈپٹی کلکٹر ہو گئے۔‘‘

    جمنا رسوئی کے برآمدے میں بیٹھی چاول چن رہی تھی اور اسی کے پاس نارائن کی بیوی نرملا گھونگھٹ کاڑھے دال بین رہی تھی۔ جمنا نے سر اٹھاکر اپنے شوہر کی طرف دیکھتے ہوئے سوال کیا، ’’سپنا سویرے دکھائی پڑا تھا کیا؟‘‘

    ’’سویرے کے نہیں تو کیا شام کے سپنے کے بارے میں تم سے کہنے آؤں گا؟ ارے، ایک دم برہم مہورت میں دیکھا تھا! دیکھتا ہوں کہ اخبار میں نتیجہ نکل گیا ہے اور اس میں نارائن بابو کا بھی نام ہے۔ ابھی یاد نہیں کہ کون نمبر تھا، پر اتنا کہہ سکتا ہوں کہ نام کافی اوپر تھا۔‘‘

    ’’اماں جی، سویرے کا سپنا تو بالکل سچا ہوتا ہے نا؟‘‘ نارائن کی بیوی نرملا نے دھیرے سے جمنا سے پوچھا۔ معلوم ہوتا ہے نرملا کی آواز شکل دیپ بابو نے سن لی، کیوں کہ انہوں نے ہنس کر سوال کیا، ’’کون بول رہا ہے؟ ڈپٹیائن ہیں کیا؟‘‘ آخر میں وہ قہقہہ مار کر ہنس پڑے۔

    ’’ہاں، کہہ رہی ہیں کہ سویرے کا سپنا سچا ہوتا ہے! سچا تو ہوتا ہی ہے!‘‘ جمنا نے مسکراکر کہا۔ نرملا شرم سے سمٹ گئی۔ اس نے اپنے بدن کو سکوڑ لیا اور پیٹھ کو نیچے جھکاکر اپنا منھ اپنے دونوں گھٹنوں کے بیچ چھپا لیا۔

    اگلے دن بھی صبح شکل دیپ بابو نے اپنے گھر والوں کو خبر دی کہ انہوں نے ہوبہو وہی خواب دیکھا ہے۔ جمنا نے کہا، ’’سویرے کا خواب تو ہمیشہ ہی سچا ہوتا ہے۔ جب بہو کو لڑکا ہونے والا تھا، میں نے سویرے سویرے سپنا دیکھا کہ کوئی سورگ کی دیوی ہاتھ میں لڑکا لیے آسمان سے ہمارے آنگن میں اتر رہی ہے۔ بس میں نے سمجھ لیا کہ لڑکا ہی ہے۔۔۔ اور لڑکا ہی ہوا۔‘‘ شکل دیپ بابو نے جوش میں آکر کہا، ’’اور مان لو کہ جھوٹ ہے تو یہ خواب ایک ہی دن دکھائی پڑتا، دوسرے دن بھی ہو بہو ویسا ہی سپنا کیوں دکھائی دیتا اور وہ بھی برھم مہورت میں؟‘‘

    ’’بہو نے بھی آج ویسا ہی سپنا سویرے دیکھا ہے!‘‘

    ’’ڈپٹیائن نے بھی؟‘‘ شکل دیپ بابو نے مسکراتے ہوئے کہا۔

    ’’ہاں، ڈپٹیائن نے ہی! ٹھیک سویرے۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک بنگلے میں ہم لوگ رہ رہے ہیں اور ہمارے دروازے پر موٹر کھڑی ہے۔‘‘ جمنا نے جواب دیا۔ شکل دیپ بابو کھوئے کھوئے مسکراتے رہے، پھر بولے، ’’اچھی بات ہے! اچھی بات ہے!‘‘

    ایک دن رات کو تقریباً ایک بجے شکل دیپ بابو نے اٹھ کر بیوی کو جگایا اور اس کو الگ لے جاتے ہوئے بےشرم مہابرہمن کی طرح ہنستے ہوئے پوچھا، ’’کہو بھئی، کچھ کھانے کو ہوگا؟ بہت دیر سے نیند نہیں آ رہی ہے، جیسے پیٹ کچھ مانگ رہا ہے۔ پہلے میں نے سوچا، جانے بھی دو، یہ کوئی کھانے کا وقت ہے، پر اس سے کام بنتے نہیں دیکھا تو تمہیں جگایا۔ شام کو کھایا تھا، سب ہضم ہو گیا۔‘‘

    جمنا حیرت سے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اپنے شوہر کو دیکھتی رہی۔ شادی شدہ زندگی کے اتنے لمبے عرصے میں کبھی بھی، یہاں تک کہ شادی کے شروع کے دنوں میں بھی، انہوں نے رات کو یوں جگاکر کچھ کھانے کو نہیں مانگا تھا۔ وہ جھنجھلاپڑی اور بولی، ’’ایسا پیٹ تو کبھی نہیں تھا۔ نہ معلوم اس وقت رسوئی میں کچھ ہے کہ نہیں۔‘‘

    شکل دیپ بابو جھینپ کر مسکرانے لگے۔ ایک دو لمحے بعد جمنا نے آنکھیں ملتے ہوئے پوچھا، ’’ببوا کے میوے میں سے تھوڑا سادوں کیا؟‘‘ شکل دیپ بابو جھٹ سے بولے، ’’ارے رام رام! میوہ تو تم جانتی ہو مجھے بالکل پسند نہیں۔ جاؤ تم سوؤ۔ بھوک ووک تھوڑے ہی ہے، مذاق کیا تھا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ دھیرے سے اپنے کمرے میں چلے گئے لیکن وہ لیٹے ہی تھے کہ جمنا کمرے میں ایک ڈھکنی میں ایک روٹی اور گڑلے کر آئی۔ شکل دیپ بابو ہنستے ہوئے اٹھ بیٹھے۔

    شکل دیپ بابو پوجا پاٹھ کرتے، کچہری جاتے، دنیا بھر کے لوگوں سے دنیا بھر کی باتیں کرتے اور جب خالی رہتے تو کچھ نہ کچھ کھانے کو مانگ بیٹھتے۔ وہ چٹورے ہو گئے اور ان کو جب دیکھو تب بھوک لگ آتی۔ اس طرح کبھی روٹی گڑ کھا لیتے، کبھی آلو بھنواکر کھا لیتے اور کبھی ہاتھ پرچینی ہی لے کر پھانک جاتے۔ کھانے میں بھی تبدیلی چاہنے لگے۔ کبھی کھچڑی کی فرمائش کر دیتے، کبھی ستوپیاز کی، کبھی صرف روٹی دال کی اور کبھی صرف دال چاول کی۔ ان کا وقت کٹتا ہی نہ تھا اور وہ وقت کاٹنا چاہتے تھے۔

    اس بد پرہیزی اور ذہنی تناؤ کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بیمار پڑ گئے۔ انہیں بخار رہنے لگا، دست بھی آنے لگے۔ ان کی بیماری سے گھر کے لوگوں کو بڑی فکر لاحق ہوئی۔ جمنا نے روہانسی آواز میں کہا، ’’بار بار کہتی تھی، اتنی محنت نہ کیجیے، پرسنتا ہی کون ہے! اب بھگتنا پڑانا؟‘‘ پرشکل دیپ بابو پر اس کا کچھ اثر نہ ہوا۔ انہوں نے بات مذاق میں اڑا دی، ’’ارے میں تو کچہری جانے والا تھا، پر یہ سوچ کر رک گیا کہ اب مختاری تو چھوڑنی ہے، تھوڑا آرام کر لیا جائے۔‘‘

    ’’مختاری جب چھوڑنی ہوگی، ہوگی۔ اس وقت تو دو وقت کی دال روٹی کا انتظام کرنا ہے۔‘‘ جمنا نے فکرمند ہوتے ہوئے کہا۔

    ’’ارے تم کیسی باتیں کرتی ہو! بیماری دکھی تو سب کو لگی رہتی ہے۔ میں مٹی کا ڈھیلا تو ہوں نہیں کہ گل جاؤں گا۔ بس ایک آدھ دن کی بات ہے۔ اگر بیماری سخت ہوتی تو میں اس قدر ٹناٹن بولتا؟‘‘ شکل دیپ بابو نے سمجھایا اور آخر میں ان کے ہونٹوں پر ایک کم زور مسکراہٹ پھیل گئی۔ وہ دن بھر بے چین رہے۔ کبھی ٹہلتے، کبھی بیٹھتے اور کبھی باہر نکل کر ٹہلنے لگتے۔ لیکن کمزور اس قدر ہو گئے تھے کہ پانچ دس قدم ہی چل کر تھک جاتے اور دن بھر کمرے میں آکر لیٹ رہتے۔

    کرتے کرتے شام ہوئی اور جب شکل دیپ بابو کو یہ بتایا گیا کہ کیلاش بہاری مختار ان کی خیریت پوچھنے کے لیے آئے ہیں تو وہ اٹھ بیٹھے اور جھٹ پٹ چادر اوڑھ، ہاتھ میں چھڑی لے، بیوی کے لاکھ منع کرنے پر بھی باہر نکل گئے۔ دست تو بند ہو گئے تھے، پر بخار ابھی تھا اور اس عرصے میں یہ بھی ہوا کہ وہ انتہائی چڑچڑے ہو گئے تھے۔ کیلاش بہاری نے انہیں دیکھتے ہی فکرمندی سے کہا، ’’ارے تم کہاں باہر آ گئے؟ مجھے اندر بلوا لیا ہوتا۔‘‘

    شکل دیپ بابو چارپائی پر بیٹھ گئے اور کمزور ہنسی ہنستے ہوئے بولے، ’’ارے مجھے کچھ ہوا تھوڑے ہی ہے۔ سوچا آرام کرنے کی عادت ہی ڈالوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ بہت معنی خیز نظر سے اپنے دوست کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرائے۔

    سب حال چال پوچھنے کے بعد کیلاش بہاری نے سوال کیا، ’’نارائن بابو کہیں دکھائی نہیں دے رہے ہیں، کہیں گھومنے گئے ہیں کیا؟‘‘ شکل دیپ بابو نے بناوٹی مایوسی کے انداز میں کہا، ’’ہاں، گئے ہوں گے کہیں۔ لڑکے ان کو چھوڑتے بھی تو نہیں ہیں۔ آکر لے جاتے ہیں کہیں نہ کہیں۔‘‘

    کیلاش بہاری نے تعریف کرتے ہوئے کہا، ’’خوب ہوا صاحب! میں بھی جب اس لڑکے کو دیکھتا تھا، سوچتا تھا کہ یہ لڑکا آگے چل کر کچھ نہ کچھ ضرور بنےگا۔ وہ تو صاحب، دیکھنے ہی سے پتا چل جاتا ہے۔ چال میں اور بولنے چالنے کے طریقے میں کچھ ایسا ہی ہے کہ چلیے، ہم سب اس معنی میں بہت خوش قسمت ہیں۔‘‘

    شکل دیپ بابو ادھر ادھر دیکھنے کے بعد سر کو آگے بڑھاکر صلاح مشورے کی آواز میں بولے، ’’ارے بھائی صاحب، کہاں تک بتاؤں! اپنے منھ سے کیا کہنا، پر ایسا سیدھا سادہ لڑکا تو میں نے دیکھا نہیں۔ پڑھنے لکھنے کا اتنا شوق کہ چوبیس گھنٹے لکھتا پڑھتا رہے۔ منھ کھول کر کسی سے کوئی بھی چیز مانگتا نہیں۔‘‘ کیلاش بہاری نے بھی اپنے لڑکے کی تعریف میں کچھ باتیں پیش کر دیں، ’’لڑکے تو میرے بھی سیدھے ہیں، پر منجھلا لڑکا وشوناتھ جتنا گئو ہے اتنا کوئی نہیں۔ ٹھیک نارائن بابو کی طرح ہے۔‘‘

    ’’نارائن تو اس یگ کا کوئی رشی منی دکھائی پڑتا ہے۔‘‘ شکل دیپ بابو نے گمبھیرتا سے کہا، ’’بس اس کی ایک ہی عادت ہے۔ میں اس کی ماں کو میوہ دے دیتا ہوں اور نارائن رات کو اپنی ماں کو جگاکر کھاتا ہے۔ بھلی بری بس اس کی یہی ایک عادت ہے۔ ارے بھیا، تم سے بتاتا ہوں، بچپن میں ہم نے اس کا نام پنا لال رکھا تھا۔ پر ایک دن ایک مہاتما گھومتے ہوئے ہمارے گھر آئے۔ انہوں نے نارائن کا ہاتھ دیکھا اور بولے، اس کا نام پنا لال سنا لال رکھنے کی ضرورت نہیں، بس آج سے اسے نارائن کہا کرو، اس کے کرم میں راجا ہونا لکھا ہے۔ پہلے زمانے کی بات دوسری تھی لیکن آج کل راجا کا طلب کیا ہے؟ ڈپٹی کلکٹر تو ایک معنی میں راجا ہی ہوا!‘‘ آخر میں آنکھیں مٹکاکر انہوں نے مسکرانے کی کوشش کی مگر ہانپنے لگے۔ دونوں دوست بہت دیر تک بات چیت کرتے رہے اور زیادہ تر وقت دونوں اپنے اپنے لڑکوں کا گن گان گانے میں لگے رہے۔

    شکل دیپ بابو کی بڑھتی ہوئی بیماری سب کے لیے فکر مندی کا باعث بنی رہی، جسے وہ ہنسی ہنسی میں ٹال جاتے، ’’ارے کسی معمولی وید کی سستی دوا کھاکر ٹھیک ہو جائیں گے!‘‘ دو ایک دن بعد وہ کچھ ٹھیک بھی ہو جاتے لیکن جسم لاغر ہوتا چلا گیا۔

    جس دن ڈپٹی کلکٹری کانتیجہ نکلا، اتوار کا دن تھا۔ شکل دیپ بابو صبح رامائن کا پاٹھ کرنے اور ناشتہ کرنے کے بعد مندر چلے گئے۔ چھٹی کے دن وہ مندر جلدی چلے جاتے اور وہاں دو تین گھنٹے بتانا ان کا معمول بن گیا تھا اور کبھی کبھی تو چارپانچ گھنٹے بھی ہو جاتے۔

    وہ آٹھ بجے مندر پہنچ گئے۔ جس گاڑی سے نتیجہ آنے والا تھا، وہ دس بجے آتی تھی۔

    شکل دیپ بابو پہلے تو مندر کی سیڑھی پر بہت دیر سستاتے رہے۔ وہاں سے اٹھ کر اوپر آئے تو نندلال پانڈے نے، جو چندن ماتھے پر رگڑ رہا تھا، نارائن کے رزلٹ کے بارے میں پوچھ تاچھ کی۔ شکل دیپ بابو وہاں کھڑے ہوکر غیرمعمولی تفصیل کے ساتھ سب کچھ بتانے لگے۔ وہاں سے جب ان کو چھٹی ملی تو دھوپ کافی بڑھ چکی تھی۔ انہوں نے مندر کے اندر جاکر بھگوان شیو کے سامنے اپنا ماتھا ٹیک دیا۔ کافی دیر تک وہ اسی طرح پڑے رہے، پھر اٹھ کر، چاروں طرف گھوم کر، انہوں نے مندر کے گھنٹے بجاتے ہوئے منتر پڑھا اور شنکھ بجایا۔ آخر میں بھگوان کے سامنے دوبارہ جھک کر نکلے ہی تھے کہ جنگ بہادر سنگھ ماسٹر مندر میں داخل ہوئے اور شکل دیپ بابو کو مندر میں دیکھ کر انہیں تعجب ہوا، ’’ارے مختار صاحب! گھر نہیں گئے؟ ڈپٹی کلکٹری کانتیجہ تو نکل آیا۔‘‘

    شکل دیپ بابو کادل دھک دھک کر رہا تھا۔ انہوں نے اپنے سوکھے ہونٹوں کو زبان سے ترکیا، ان کے ہونٹ کانپنے لگے اور انہوں نے بڑی مشکل سے مسکراکر پوچھا، ’’اچھا، کب آیا؟‘‘ جنگ بہادر نے بتایا، ’’ارے دس بجے کی گاڑی سے آیا۔ نارائن بابو کا نام تو ضرور ہے لیکن۔۔۔‘‘ وہ کچھ آگے نہ بول سکے۔

    شکل دیپ بابو کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے انہوں نے پوچھا، ’’کیا کوئی خاص بات ہے؟‘‘

    ’’کوئی خاص بات نہیں۔ ان کا نام تو ہے ہی۔ یہ ہے کہ ذرا نیچے ہے۔ دس لڑکے لیے جائیں گے لیکن میرا خیال ہے کہ ان کا نام سولہواں سترہواں پڑےگا۔ لیکن کوئی فکر کی بات نہیں۔ کچھ لڑکے تو کلکٹری میں چلے جاتے ہیں، کچھ میڈیکل ہی میں نہیں آتے اور اس طرح پوری پوری امید ہے کہ نارائن بابو لے لیے جائیں گے۔‘‘

    شکل دیپ بابو کا چہرہ فق ہو گیا۔ ان کے پیروں میں زور نہیں تھا اور ایسا لگ رہا تھا وہ گرجائیں گے۔ جنگ بہادر سنگھ تو مندر سے چلے گئے لیکن وہ کچھ دیر سر جھکائے یوں کھڑے رہے جیسے کوئی بھولی بات یاد کر رہے ہوں۔ پھر وہ چونک پڑے اور اچانک انہوں نے تیزی سے چلنا شروع کر دیا۔ ان کے منہ سے دھیمی آواز میں جلدی جلدی ’’شو! شو!‘‘ نکل رہا تھا۔ آٹھ دس گز آگے بڑھنے پر انہوں نے چال اور تیز کر دی، پر جلدی ہی وہ تھک گئے اور ایک نیم کے پیڑ کے نیچے کھڑے ہوکر ہانپنے لگے۔

    چار پانچ منٹ سستانے کے بعد انہوں نے پھر چلنا شروع کیا۔ وہ چھڑی کو اٹھاتے گراتے، سینے پر سر لٹکائے، شو شو کا وظیفہ پڑھتے، ہوا کے ہلکے جھونکے سے، دھیرے دھیرے، ٹیڑھے ترچھے، اڑنے والے سوکھے پتے کی طرح ڈگ مگ ڈگ مگ چلے جارہے تھے۔ کچھ لوگوں نے ان کو نمستے کیا تو انہوں نے دیکھا نہیں اور کچھ لوگوں نے ان کو دیکھ کر مسکراکر آپس میں سرگوشیاں شروع کر دیں تب بھی انہوں نے کچھ نہیں دیکھا۔ لوگوں نے اطمینان سے، افسوس سے اور ہم دردی سے دیکھا، پر انہوں نے کوئی دھیان نہیں دیا۔ ان کو بس ایک ہی دھن تھی کہ وہ کسی طرح گھر پہنچ جائیں۔

    گھر پہنچ کر وہ اپنی چارپائی پر دھم سے بیٹھ گئے۔ ان کے منھ سے صرف اتنا ہی نکلا، ’’نارائن کی اماں!‘‘

    سارے گھر میں مردنی چھائی ہوئی تھی۔ چھوٹے سے آنگن میں گندا پانی، مٹی، باہر سے آئے ہوئے سوکھے پتے اور گندے کاغذ پڑے تھے اور نابدان سے بدبو آرہی تھی۔ آنگن میں پڑے پرانے بنس کتھے پر بہت سے میلے کپڑے پڑے تھے اور رسوئی سے اس وقت بھی دھواں اٹھ کر سارے گھر کی سانس کو گھونٹ رہا تھا۔ کہیں کوئی کھٹر پٹر نہیں ہو رہی تھی اور ایسا لگ رہا تھا کہ گھر میں کوئی ہے ہی نہیں۔ جلد ہی جمنا نہ معلوم کدھر سے نکل کر کمرے میں آئی اور شوہرکو دیکھ کر گھبراکر اس نے پوچھا، ’’طبیعت تو ٹھیک ہے؟‘‘

    شکل دیپ بابو نے جھنجھلاکر کہا، ’’مجھے کیا ہوا جی؟ پہلے یہ بتاؤ، نارائن بابو کہاں ہیں؟‘‘ جمنا نے باہر کے کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا، ’’اسی میں پڑے ہیں۔ نہ کچھ بولتے ہیں نہ ہنستے ہیں۔ میں پاس گئی تو گم سم پڑے رہے۔ میں تو ڈر گئی ہوں۔‘‘

    شکل دیپ بابو نے مسکراتے ہوئے دلاسا دیا، ’’ارے کچھ نہیں! سب اچھا ہوگا۔ فکر کی کوئی بات نہیں۔ پہلے یہ بتاؤ، ببوا کو تم نے کبھی یہ تو نہیں بتایا تھا کہ ان کی فیس اور کھانے پینے کے لیے چھ سو روپے میں نے قرض لیے تھے۔ میں نے تم کو منع کر دیا تھا کہ ایسا کسی صورت میں بھی نہ کرنا۔‘‘

    جمنا نے کہا، ’’میں ایسی بے وقوف تھوڑے ہی ہوں۔ لڑکے نے دو ایک بار کرید کرید کر پوچھا بھی تھا کہ اتنے روپے آتے کہاں سے ہیں۔ ایک بار تو اس نے یہاں تک کہا تھا کہ یہ پھل میوہ دودھ بند کر دو، بابوجی فضول میں اتنا خرچ بڑھا رہے ہیں۔ پر میں نے کہہ دیا کہ تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں، تم بےفکر ہوکر محنت کرو۔ بابوجی کو ادھر بہت مقدمے مل رہے ہیں۔‘‘

    شکل دیپ بابو بچے کی طرح خوش ہوتے ہوئے بولے، ’’بہت اچھا! کوئی فکر کی بات نہیں۔ بھگوان سب ٹھیک کریں گے۔ ببوا کمرے ہی میں ہیں نا؟‘‘ جمنا نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

    شکل دیپ بابو مسکراتے ہوئے اٹھے۔ ان کا چہرہ پیلا پڑ گیا تھا، آنکھیں دھنس گئی تھیں اور منھ پر مونچھیں جھاڑو کی طرح پھڑک رہی تھیں۔ جمنا سے یہ کہہ کر کہ ’’تم اپنا کام دیکھو، میں ابھی آیا!‘‘ دبے قدموں سے باہر کے کمرے کی طرف بڑھے۔ ان کے پیر کانپ رہے تھے، سارا جسم کانپ رہا تھا اور سانس گلے میں اٹکی جا رہی تھی۔

    انہوں نے پہلے برآمدے کی کھڑکی ہی سے کمرے کے اندر جھانکا۔ باہر والا دروازہ اور کھڑکیاں بند تھیں، جس کی وجہ سے کمرے میں اندھیرا تھا۔ پہلے تو کچھ نہ دکھائی دیا، ان کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا لیکن انہوں نے تھوڑا اور آگے بڑھ کر غور سے دیکھا تو پلنگ پر کوئی شخص سینے پر ہاتھ باندھے چت پڑا تھا۔ وہ نارائن ہی تھا۔

    وہ دھیرے سے چور کی طرح بنا چاپ کیے کمرے کے اندر داخل ہوئے۔ ان کے چہرے پر غیرمعمولی اور کسی یقین سے بھری مسکراہٹ تھرک رہی تھی۔ وہ میز کے پاس پہنچ کر چپ چاپ کھڑے ہوئے اور اندھیرے ہی میں ایک کتاب الٹنے پلٹنے لگے۔ کوئی ڈیڑھ دومنٹ وہ وہیں، اسی طرح، کھڑے رہنے کے بعد بڑی پھرتی سے گھوم کر نیچے بیٹھ گئے اور کھسک کر چارپائی کے پاس چلے گئے اور چارپائی کے نیچے جھانک جھانک کر دیکھنے لگے جیسے کوئی چیز کھوج رہے ہوں۔ اس کے بعد پاس میں رکھی ہوئی نارائن کی چپل کو اٹھا لیا اور ایک دو پل اس کو بھی الٹنے پلٹنے کے بعد دھیرے سے وہیں رکھ دیا۔ آخر وہ سانس روک کر اس طرح اٹھنے لگے، جیسے وہ کوئی چیز ڈھونڈھنے آئے تھے اور وہ اس میں کامیاب ہوکر چپ چاپ واپس لوٹ رہے ہوں۔

    کھڑے ہوتے وقت وہ اپنا سرنارائن کے منھ کے پاس لے گئے اور انہوں نے نارائن کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں اور وہ چپ چاپ پڑا ہوا تھا، لیکن کسی طرح کی کوئی آہٹ، کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ شکل دیپ بابو ڈر گئے اور انہوں نے سہمے اور دھڑکتے دل سے اپنا بایاں کان نارائن کے منھ کے بالکل نزدیک کر دیا۔۔۔ اور اس وقت ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ رہا جب انہوں نے اپنے لڑکے کی سانس کو باقاعدگی سے چلتے پایا۔

    وہ چپ چاپ جس طرح آئے تھے اسی طرح باہر نکل گئے۔ پتا نہیں کب سے جمنا فکرمند، دروازے سے لگی کھڑی اندر جھانک رہی تھی۔ اس نے شوہر کا منھ دیکھا اور گھبراکر پوچھا، ’’کیا بات ہے، آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ مجھے بڑا ڈر لگ رہا ہے۔‘‘ شکل دیپ بابو نے اشارے سے اسے بولنے سے منع کیا اور پھر اشارے ہی سے اس کو بلاتے ہوئے اپنے کمرے میں چلے گئے۔ جمنا نے کمرے میں پہنچ کر شوہر کو بےچینی اور فکرمندی کی نظر سے دیکھا۔ شکل دیپ بابو نے بےتحاشا خوشی بھرے لہجے میں کہا، ’’ببوا سو رہے ہیں!‘‘

    وہ آگے کچھ نہ بول سکے۔ ان کی آنکھیں بھر آئی تھیں۔ وہ دوسری طرف دیکھنے لگے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے