دیش بھگت
شام ہو چکی تھی۔ میں چھوٹے بھائی کو چٹھی لکھ رہا تھا کہ اتنے میں چچا اندر داخل ہوئے، بغیر کسی تمہید کے بولے، ’’سنو! آج ذرا خاص کام ہے۔ تم کو میرے ساتھ چلنا ہوگا۔‘‘
’خاص کام‘ والے الفاظ سن کر میں نے سرہانے سے صفا (۱) جنگ اٹھائی اور اسے فرش پر ٹیک اٹھ کھڑا ہوا۔
’’مسلمانوں کا محلہ ہے۔۔۔ میاں لوگوں کا، سمجھے۔۔۔؟ اور پھر روپے کا معاملہ۔۔۔(۲)‘‘
میری ان سے کوئی رشتہ داری نہ تھی۔ بس ہمارے گاؤں کے رہنے والے، والد صاحب سے بھی کچھ دعا سلام تھی۔ مجھ پر مہربان تھے اور قدرے بےتکلف بھی۔ میری عمر تقریباً بائیس برس کی تھی، قد ذرا نکلتا ہوا، چوڑا سینہ، سڈول بازو، مضبوط ہاتھ پاؤں، باوجود چار مرتبہ کوشش کرنے کے بھی ایف۔ اے پاس نہ کر پایا تھا۔ چچا کا میانہ قد، گندمی رنگ، کھچڑی داڑھی، دبلے پتلے مگر سخت ہڈی کے تقریباً پینتالیس سالہ بزرگ۔ انہیں پنجاب چھوڑے تین سال ہو چکے تھے۔ اس جگہ ان کا ایک اینٹوں کا بھٹہ تھا۔ تھوڑا بہت ٹھیکیداری کا کام بھی مل جاتا تھا۔
غبار اور دھند کے گہرے کفن نے شہر کو ڈھانپ رکھا تھا، بازاروں میں کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ یکہ والوں کے آوازے۔ ان کی گالیاں اور قوالیاں۔۔۔ دور دھندلکے میں مسجد کے قریب، کسی گھر کی چھت پر سفید سفید کبوتروں کی ٹکڑیاں ہوا میں پرواز کرتی دکھائی دے رہی تھیں۔ ہم گھنٹہ کے قریب سے ہو کر بیگم سرائے کی طرف چل کھڑے ہوئے۔ نکڑ پر بادشاہ خاں پٹھان کی چائے کی دکان تھی، اس جگہ سود خور پٹھانوں کا اجتماع ہوتا تھا، بیٹھے چائے پیتے یا قہوہ اڑاتے، دو تین، بے بال و پر چھوکرے آگ جلانے، پیالیاں دھونے، چائے بنانے اور پھر گاہکوں کے ساتھ ہنس ہنس کر باتیں کرنے کے فرائض انجام دیا کرتے تھے اور کبھی ریکارڈ بجتے،
لڑم دے لڑم
وہ مورے رادوکا لڑم دے لڑم
کبھی کوئی خان اپنی شلوار اوپر چڑھا، ٹانگیں رانوں تک ننگی کر، کسی ہندوستانی موچی سے جھگڑنے لگتا اور کہتا، ’’امرا کابل میں چپل اوتا، تمرا دیس میں چپلی۔‘‘ یا پھر پہلو والی ’’گرم گرم قلیہ پر اٹھا‘‘ کی دکان پر شاہ صاحب، ایک بزرگ سبز پوش، داڑھی مہندی سے سرخ کیے آن بیٹھتے۔ آنکھیں جلال معرفت کے مارے خونِ کبوتر، چہرہ کندن کی طرح تاباں، زلفیں چکنی چپڑی اور عطر بیز۔۔۔ ان کے تشریف آور ہوتے ہی عقیدت مندوں کے غول کے غول جمع ہونا شروع ہو جاتے، مجہر (مظہر) شہر کے بے تاج بادشاہ جمن رنگ ساز، قمر جلد ساز اور للو مالک،
جاتےکہاں ہو کس طرف خیال ہے
گھڑیوں کا بس یہی اسپتال ہے
وغیرہ جیسی ہستیاں آن کھڑی ہوتیں، گراموفون کو چابی دے کر ملکۂ عالم کا ریکارڈ چڑھا دیا جاتا اور سب لوگ تالیوں کے ساتھ ’’اللہ ہو، اللہ ہو، اللہ ہو‘‘ گانے لگتے۔ اس طرف پیسہ اخبار والا چلاتا، ’’ہٹلر کی پیش قدمی۔۔۔ برطانیہ کا دنداں شکن جواب۔۔۔ جاپان کی برطانیہ کو گیدڑ بھبکی۔۔۔ ایک پیسہ میں۔‘‘ یہ سن کر وہ بزرگ سبز پوش سر کو زور کے ساتھ گردش دے کر نعرہ گاتے ’’یا علی‘‘ اور پھر وہی ’’اللہ ہو، اللہ ہو۔‘‘ ادھر یہ ہنگامہ تو ادھر کھجلی کے مارے ہوئے کتے شامی کبابوں کی بو پاکر تھوتھنیاں اٹھا اٹھا کر ہوا میں سونگھا کرتے اور کبھی موقع پا کر کچھ نہ کچھ لے بھی اڑتے۔
کچھ دور جانے کے بعد مہگی پنواڑن کی دکان کے آگے رک گئے۔ مہگی کی عمر بتیس برس سے تجاوز کر چکی تھی۔ بدن کی بھاری، گورارنگ، ناز و ادا کی کمی نہ تھی، بڑی بڑی آنکھوں میں بے تحاشہ کاجل، ہونٹوں پر مسی کی دھڑی۔ پان کا بیڑا بڑھاتی تو اپنی نشیلی اور کٹیلی آنکھیں پہلے تو گاہک کی آنکھوں سے لڑا دیتی، تب شرما کر اور مسکرا کر نظریں جھکا لیتی اور پنڈلیوں کو دھوتی سے ڈھانپ کر اپنی چاندی کی پازیبوں پر نظریں گاڑ دیتی۔ میلے کچیلے چیتھڑے پہننے والے مزدور، ڈاکخانہ کے قریب بیٹھنے والے خطوط نویس، منشی یا ہوٹلوں کے گائڈ نشہ کی ترنگ میں آتے اور اسے دیکھ کر مچل جاتے۔ اپنی اندر دھنسی ہوئی مخمور آنکھوں سے اسے دیکھتے۔ کبھی اتنا کہنے کے لیے ’’ہائے ری آج تو گجب کا بناؤ سنگھار کر رکھا ہے‘‘ کبھی کسی کجری کا بول از قسم،
گھر سے نکسی نند بہوجیا
جلم دونوں جوڑی رے، سانوریا
اور کبھی پان لیتے وقت اس کی ہتھیلی کو اپنی انگلی سے کھجا دینے کی تمنا میں ایک پیسہ کے پان اور ایک پیسے کی چار والی پری مارکہ سگریٹ خرید لیتے تھے۔ چچا کو دیکھتے ہی اس نے جھک کر سلام کیا، ’’ارے پنجابی بابو! کون دیس رہت ہو اَب۔‘‘
’’مہگی بس کیا پوچھو ہو، تم ہمن کو بھولت نانہہ۔‘‘ مہگی سر پر آنچل کھینچ کر سنبھل کر ہو بیٹھی اور پان لگاتے ہوئے کہنے لگی، ’’اور وہ ہمرے لیے تم چندری لان کو کہت رے۔‘‘ چچا سنی ان سنی کرکے اس کے لال لال گالوں کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے تاکتے ہوئے بولے، ’’اب لاؤ۔ دیوگی بھی نہیں!‘‘ مہگی کچھ لجاگئی اور ملامت آمیز نظروں سے چچا کی طرف دیکھنے لگی۔ اتنے میں اور گاہک بھی آ گئے۔ میں ذرا پیچھے ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔
بائیں طرف برآمدے میں ایک بڑھیا کسی چالاک لومڑی کی طرح سب کو تاڑ رہی تھی، اس کے قریب ہی ٹاٹ پر ایک عورت بیٹھی تھی۔ جس میں سوائے اس کے کہ جوان تھی اور کوئی خوبی نہ تھی۔ نوجوان عورت نے مجمع کے آدمیوں کو اپنی طرف چھپی نظروں سے دیکھتے ہوئے پایا تو جھٹ سے قمیص کے بٹن کھول، گریبان الٹ الٹ کر لالٹین کی روشنی میں کھٹمل پکڑنے لگی اور گاہے ساڑی ہٹاکر اپنی ٹانگیں کھجانے لگتی۔ کچی اور سیاہ دیواروں پر پان کی پیک کے نشانات ایسے دکھائی دیتے تھے، جیسے بھوت ناچ رہے ہوں۔ کمرے کے اندر جاپانی عورتوں کی نیم عریاں، پھٹی پرانی تصویریں نظر آ رہی تھیں۔ ایک طرف کھاٹ پر بستر بچھا ہوا تھا اور اس کے پاس ہی فرش پر ایک مٹیالے رنگ کا اگالدان بھی پڑا تھا۔ ایک مرد نے نوجوان عورت کے بازو کی چٹکی لیتے ہوئے کچھ پوچھا، بڑھیا نے تاریکی میں آگے جھک کر حلق میں سے آواز نکالتے ہوئے آہستہ سے کہا، ’’آٹھ آنے۔۔۔‘‘
تاریک اور پیچ در پیچ گلیوں میں سے ہوتے ہوئے ہم چلے جا رہے تھے۔ کبھی کبھی کسی گلی کے نکڑ پر سرکاری لیمپ کی دھندلی روشنی میں صفا جنگ کی چمک اورمیری گھیرے دار شلوار سے خائف ہوکر بچے گھروں میں گھس کواڑ بند کر لیتے تھے۔ کمہاروں کے محلے کے قریب پہنچ کر چچا گندے نالے کی طرف چل دیے۔ راستہ گھوڑوں اور گدھوں کی لید سے اٹا پڑا تھا۔ چھپروں والے ٹوٹے پھوٹے کچے مکانات تھے۔ کمہاروں کی بھاری بھرکم عورتیں کچے چبوتروں پر لیٹی، روتے ہوئے ننھے بچوں کو دودھ پلا کر چپ کرانے کی کوشش کر رہی تھیں۔
گندے نالے کے پل پر سے گزرتے ہوئے میں نےناک پگڑی کے شملے سے ڈھانپ لی۔ اس کے بعد ہم بڑے تالاب کے کنارے کنارے چلنے لگے۔ یہاں شہر بھر کی گندگی جمع تھی۔ لوگ ٹٹی بھی یہیں پھرتے تھے۔ جب وہ اٹھ کر چلے جاتے تو بھنگیوں کے محلے سے سور آکر منہ مارنے لگتے۔ کہیں کہیں کتے دم توڑتے نظر آتے تھے۔ کہیں کسی گدھے کا پنجر پڑا تھا اور کسی طرف گھوڑے کے جبڑے کے پاس کوئی گدھ مرا پڑا تھا۔ یہ کچا تالاب بہت بڑا تھا۔ اس کے اندر کئی انسانوں اور جانوروں کا پیشاب اور غلاظت جمع تھی۔ اس کا پانی بہت گاڑھا، ازحد بدبودار اور سیاہ رنگ کا تھا۔ چاند کی چاندنی اس کو اور بھی بھیانک بنا رہی تھی۔ اس کی سطح پر ابلے ہوئے بلبلے اس طرح دکھائی دیتے تھے جیسے کسی شخص کے جسم پر آتشک کے زخم۔
یہاں سے گزر کر بہت دیر تک ہم دونوں چپ چاپ چلتے رہے۔ آخر کار چچا ایک ٹوٹے پھوٹے گھر کے آگے رکے اور آوازیں دینے لگے، ’’مجید! او مجیدے!‘‘ میں نے کہا، ’’چچا آپ نے فضول میں اتنا بڑا چکر لگایا، یہ گلی وہی نہیں جو اسٹیشن سے آنے والی سڑک سے جا ملتی ہے۔‘‘ چچا دیدے چمکا کر بولے، ’’ارے میاں! ادھر جاتے تو بھلا یہ سیر کیسے ہوتی، بس تم بھوندو ہی رہے۔۔۔ ہی ہی ادھر کیا رکھا تھا۔۔۔ ہی ہی۔۔۔ ارے او مجیدے او۔‘‘
’’ہجور گلام تو ایدھر کھڑا ہے۔‘‘
میں نے گھوم کر دیکھا کہ ایک لمبا تڑنگا، چوڑے شانوں والا مرد جھکا فرشی سلام کر رہا ہے۔ باوجود سردی کے ایک میلا کچیلا تہمد کمر سے لپیٹے ہوئے تھا اور جسم پر صرف ایک چادر۔ ’’آئیے آئیے آکا! اندر چلے آئیے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے ٹاٹ کا گلا سڑا پردہ اٹھایا اور ہم اندر داخل ہو گئے۔
’’کران کسم (بہن کی گالی دے کر) سالوں نے جینا مسکل کر دیا ہے۔ یاہ پولس بھی بس کھدا کی پناہ ہے۔‘‘
میں نے ادھر ادھر دیکھا۔ سامنے چھوٹے سے صحن کے کونے میں ایک پائخانہ، پاس ہی لکڑیوں کا انبار، گوبر سے لپی ہوئی کچی دیواروں پر اپلے، ایک طرف کھٹملوں سے بھرپور ٹوٹی ہوئی کھاٹ، ادھر چولھے کے قریب مٹی کے تیل کی کپی، اس کی چھوٹی سی لو بے پناہ تاریکی سے جنگ کرنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔ چولھے کے قریب ایک بڑھیا اینٹ پر بیٹھی ایک باسی روٹی توڑ توڑ کر کھا رہی تھی۔ ہاتھ میں پیاز اور فرش پر چٹنی کا پتہ۔ مجید چچا کو بتا رہا تھا کہ کیسے ان کے محلے میں کسی نے ایک ہندو پر لاٹھی چلا دی۔ جس سے اس کاسر تو بچ گیا، مگر ایک کان صاف اڑ گیا اور کسی طرح وہ چیختا چلاتا محلہ کے نالے کی طرف بھاگا اور پھر ناکے کے صحن میں بیہوش ہوکر گر پڑا تھا اور کیسے پولس اس کو (مجید کو) ناحق دوگھنٹہ سے کوتوالی میں بٹھائے دق کر رہی تھی اور اب کہیں جاکر اس کی خلاصی ہوئی تھی۔ چچا یہ باتیں سن کر کچھ پریشان ہو گئے۔
مجید چولھے کی طرف گیا، پتہ میں سے انگلی پر چٹنی لگا کر چاٹی اور چٹخارہ لے کر بولا، ’’کاہے کی ہے؟‘‘
’’پیاج کی۔‘‘
پھر وہ چھت سے لٹکی ہوئی ہنڈیا میں ہاتھ ڈال کر ٹٹولنے لگا، ’’تنباکو کہاں ہے؟‘‘ پوپلے منہ والی بڑھیا بولی، ’’بوتبے کے پیچھے۔‘‘ مجید حقہ پینے لگا۔ چچا کی جانب دیکھ کر بڑھیا کی طرف ابرو سے اشارہ کرتے ہوئے بولا، ’’ماں ہے میری۔‘‘ اتنے میں پردہ اٹھا۔ ایک کالے کلوٹے مرد نے اندر جھانک کر دیکھا، ’’کؤ مجید کھاں! پولیس میں کا ہوا؟‘‘ چچا اس کی صورت دیکھ کر گھبرائے، اس کا سر استرے سے منڈا ہوا، یہ موٹی گردن، ٹوٹے ہوئے کان، چوڑے نتھنے۔۔۔ چچا نے میرا ہاتھ دبایا۔
’’بتلائیں گے۔‘‘ یہ کہہ کر مجید اٹھا اور اس کے پاس جا کر کاناپھوسی کرنے لگا، خیر وہ شخص تو چلا گیا اور مجید پھر آکر حقہ گڑگڑانے لگا۔ چچا نے پیشانی سے پسینہ پونچھا، کھانس کر گلا صاف کرتے ہوئے بولے، ’’اچھا بھئی مجید اب کچھ معاملہ کی بات ہونی چاہیے۔‘‘
’’ہاں ہاں۔‘‘ مجید نے سرگھماکر کہا۔ پھر بڑھیا کی طرف جھکا، ’’کیوں ماں! (آنکھ مار کر) پکھانے گئی کیا؟‘‘ بڑھیا نے دبی زبان میں کچھ جواب دیا۔
’’دھت تری کی ماں! تو بھی عجب اول جلول ہے۔‘‘ اس نے حقہ رکھ دیا اور ’’ابھی آیا‘‘ کہہ کر جانے لگا۔ چچا گھبرا کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ ’’مجید! ہم باہر سڑک پر کھڑے ہوتے ہیں، تم اسے ادھر ہی لے آنا۔‘‘
’’کسم اللہ پاک کی، پنجابی بابو جدھر حکم ہو لے آؤں۔‘‘
’’اچھا تو ہم سڑک پر کھڑے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر چچا بھاگم بھاگ سڑک پر آ کھڑے ہوئے اور اسٹیشن سے آنے والے یکوں کو دیکھنے لگے۔
چچا، مجید، ایک نوجوان لڑکی، بڑھیا اور میں، کل پانچ اشخاص ایک تواریخی باغ کی چار دیواری کے پاس کھڑے تھے۔ مجید نے کچھ طویل بیان شروع کر رکھا تھا اور لڑکی کی طرف دیکھتے ہوئے چچا سے کہہ رہا تھا، ’’روج پوجا کرن جات رہی۔۔۔ میں نے سمجھایا، پگلی پوجا سے کاملی؟ چل پنجابی سنگ سادی کرادوں گا، بس پنجاب دیس جا، گہنا، کپڑا پہن، کھانا پینا مجا اڑانا۔۔۔ بس ایسی دھپل میں پھانس لایا ہوں، پنجابی سردار! لونڈیا کا ہے، ہیرا سمجھو۔۔۔ گریب ہیں کوئلوں میں رکھا۔۔۔ تمرے پاس جا کر چمک بڑھواہی کرےگی۔‘‘
لڑکی کی عمر بمشکل تیرہ یا چودہ برس کی ہوگی۔ گندمی رنگ، ناک چوڑی، ہونٹ جیسے سنگترے کی پھانکیں، بڑی بڑی زرد آنکھیں، بال خشک بدبودار، ہاتھوں اور کلائیوں پر میل، دبلی پتلی، سہمی ہوئی کبوتری کی طرح ایک میلی سی پھولدار چادر اوڑھے کھڑی تھی۔ چچا لڑکی کو لے کر چند قدم آگے نیم کے ایک درخت کے نیچے جا کھڑے ہوئے۔ تھوڑی دیر خاموشی طاری رہی، پھر چچا کی دبی دبی آواز آنے لگی، ’’۔۔۔ کیانام ہے۔۔۔؟ بتاؤ نا۔۔۔! ارے بتاؤ۔۔۔ ہوں؟ کیا کہا؟ اچھا۔۔۔ اچھا۔ واہ! خوب نام ہے۔۔۔ ہاں! ہاں! سردی لگتی ہے؟ ہاں لگتی ہوگی۔۔۔ بولو نا! تم تو کچھ بھی نہیں کہتیں۔۔۔ منہ کیوں چھپاتی ہو۔۔۔ ارے رے روتی ہو۔۔۔؟ اچھا جانے دو۔۔۔ روتی کیوں ہو۔۔۔ لو نہ سہی۔۔۔ او۔۔۔ اوہ۔۔۔ اوہو۔۔۔ ارے نہیں۔۔۔‘‘
’’تم کا کرت ہو، چھوٹے پنجابی؟‘‘ مجید نے مجھ سے مخاطب ہوکر پوچھا۔
’’پڑھتا ہوں۔‘‘
’’پڑھت ہو۔۔۔؟ ہو ہو ہو۔۔۔ ہی ہی۔۔۔ بابو ہو جاؤگے۔‘‘
چچا اور لڑکی واپس آ گئے۔ مجید نے مجسم سوال بن کر چچا کی طرف دیکھا۔ چچا بولے، ’’ابھی جھینپتی ہے۔۔۔‘‘ مجید نے لڑکی کی ٹھوڑی اٹھاکر کہا، ’’ارے چھرماتی کیوں ہے، سونے کے کنگن ملیں گے۔۔۔ چندریا ملےگی۔۔۔‘‘ لڑکی نے زرد زرد آنکھوں سے مجید کی طرف دیکھا۔۔۔ اور پھر لمبی اور گہری سسکی بھر کر خاموش ہو گئی۔ بڑھیا اور لڑکی کو واپس گھر کی طرف روانہ کر دیا گیا اور ہم تینوں تاڑی خانہ پہنچے۔ یہ چچا کے رسوخ کا کرشمہ تھا کہ ہمیں تین لوہے کی کرسیاں اور تین ٹانگ کی ایک میز مل گئی۔
تاڑی کی بو ہر چہار جانب پھیلی ہوئی تھی۔ سامنے جہاں دیوار پر ایک ’’گندی بیماریوں کا شرطیہ علاج‘‘ نمایاں حروف میں رقم تھا، ایک چاٹ والے کی دکان تھی۔ مزدور لوگ تاڑی کے نشہ میں مست، وہاں بینگن کے پکوڑے دہی ڈلوا ڈلوا کر کھا رہے تھے۔ دیوار کے سایہ میں ایک گونگی بھکارن بیٹھی تھی۔ اس کی صورت مکروہ تھی اور جسم پر ٹاٹ کے چیتھڑے لٹکے ہوئے تھے۔ جو کوئی شخص دہی آلو پتہ نالی کی طرف پھینکتا تو دبلے پتلے کتوں اور اس گونگی بھکارن کے درمیان پتہ حاصل کرنے کی کش مکش مزدور لوگوں پر مسرت کا سامان بہم پہنچاتی تھی، وہ خوش ہوتے تھے کہ دنیا میں کسی کی بےبضاعتی پر وہ ہنس سکتے ہیں۔ وہ حشیانہ انداز سے دانت نکال نکال کر قہقہے لگاتے اور اچھل اچھل کر اپنے چوتڑ پیٹتے تھے۔
مجید دو آبخوروں میں تاڑی اور ایک مٹی کی چینی میں بھنی ہوئی کلیجی لایا۔ تاڑی فروش نے ایک صراحی تاڑی سے بھر کر ہمارے سامنے رکھ دی۔ اب دونوں تاڑی پینے لگے۔ لالٹین کی دھندلی روشنی میں عجب عجب لوگ نظر آ رہے تھے، نشہ میں چور واہی تباہی بک رہے تھے، کہیں ٹوٹے ہوئے آبخورے، کہیں کوئی چچوڑی ہوئی ہڈی پڑی تھی۔۔۔ اور کسی طرف کوئی کتا نشہ میں بے ہوش شرابی کا منہ چاٹ رہا تھا۔ چچا نے دوبارہ آبخورہ بھر کر کہا، ’’لیکن اس کی ٹانگیں بہت پتلی ہیں۔۔۔ کمزور ہے بچاری۔۔۔‘‘
’’ابھی عمر ہی کا ہے۔‘‘
بہت دیر تک دونوں میں کانا پھوسی ہوتی رہی۔ پھر مجید بلند آواز میں بول اٹھا، ’’ارے یابی حاجر۔۔۔ اور حکم کے گلام ہیں۔۔۔ وہ وہ مٹھائی کھلاؤں گاجو ایک باری یاد بھی کرو تم۔‘‘
’’مگر جو بات ہم نے کہی وہ بھولنا نہیں۔‘‘
’’ارے نہیں صاحب! جب کہو تبی ہو جائے جس۔۔۔ پھکر کاہے۔‘‘
اتنے میں ہم ایک شرابی کی طرف متوجہ ہو گئے۔ وہ چلا چلا کر کہہ رہا تھا، ’’ارے کوئی ہمری بھی سنو۔ دیکھو یہ لونڈا۔۔۔‘‘
’’اماں جاؤ۔‘‘ ایک اور بھاری بھرکم پہلوان نے اس کی پیٹھ پر دھول جما کر کہا۔۔۔ اس کی آنکھیں چڑھی ہوئی تھیں۔ وہ ہاتھ میں تاڑی سے لبریز آبخورہ لے کر اٹھا۔ لڑکھڑاتے ہوئے قدموں کے ساتھ۔۔۔ اس نے چھلکتا ہوا آبخورہ ہوا میں بلند کرتے ہوئے کہا، میں دیب داس ہوں۔۔۔ دیب داس۔۔۔ (زور سے کھانس کر) دکھ کے۔۔۔ دکھ کے۔۔۔ ہا۔۔۔ ہا! دُکھ کے اب دن۔۔۔‘‘ اتنے میں نائی کا لونڈا پہلے شرابی سے ہاتھ چھڑا کر بھاگا۔۔۔ پہلوان نے زور کی لات اس شخص کے رسید کی۔ ’’ابے او۔۔۔ آ۔۔۔ ادھر آ۔۔۔ چلاآ۔۔۔ ہاں بیٹے۔۔۔ ہاں، توبہ کر۔۔۔ ہاتھ جوڑ۔۔۔ دعا مانگ۔ دیکھ جیسے میں مانگتا ہوں، ’’یا الاہی! دے لگائی۔۔۔ اور وَعَو عَو عَودو۔‘‘ معاً اس کا تہمد کھل کر زمین پر آ رہا، اس کے منہ سے قے کا پھوارہ نکل پڑا اور اس کے استرے سے منڈی ہوئی ٹانگوں پر قے کا مینہ برس گیا۔
تین چار دن کے بعد۔۔۔ میں سینما دیکھنے کے بعد دس بجے کے قریب گھر جا رہا تھا، سوچا، چلو تھوڑی دیر چچا سے گپ رہے۔ چچا ایک بھوجنالیہ میں سب سے اوپر کی منزل پر ایک کمرہ میں رہتے تھے۔ اوپر پہنچا۔ مگر دروازے کے پاس جاکر میں ٹھٹھک گیا، اندر سے کچھ باتوں کی بھنک سنائی دے رہی تھی۔ میں نے چپکے سے دراز میں سے جھانکا، دیکھا کہ وہی لڑکی کھڑی تھی۔ چچا اس کے منہ پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے، مجید نے آگے جھک کر کہا، ’’دیکھ بوت حرمجدگی کرے گی تو حلال کرکے پھیک دوں گا۔۔۔‘‘
لڑکی نے انتہائی کرب کی حالت میں تڑپ کر خود کو آزاد کیا اور دروازے کی طرف لپکی۔ وہ چلانا چاہتی تھی مگر مارے دہشت کے اس کے منہ سے آواز نہ نکلتی تھی۔ چچا بڑے جوش و خروش کے ساتھ جھپٹے، انہوں نے اس کو دبوچا اور پلنگ پر پٹخ دیا۔ تھوڑی دیر بعد لڑکی نے جد و جہد بند کر دی۔۔۔ مجید نہایت اطمینان کے ساتھ گورونانک صاحب کی تصویر کے پاس کھڑا بیڑی پی رہا تھا اور تصویر کو احترام کی نظروں سے دیکھنے میں مگن تھا۔
دوسرے دن چھٹی تھی۔ میرا ارادہ تھا چل کر اسٹیشن کے بک اسٹال سے کوئی رسالہ وغیرہ خریدا جائے۔ جب بھوجنالیہ کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ چچا سیڑھیوں پر سے اتر رہے ہیں۔ مجھے اشارے سے بلایا اور پوچھنے لگے کہ بھائی اتنے دن کہاں رہے، دکھائی نہیں دیے۔ سیڑھیوں کے پاس ہی پنڈت جی کی دکان تھی۔ پنڈت جی پان بھی بناتے اور لسی بھی بیچتے تھے۔ چچا کو دیکھتے ہی انہوں نے دونوں ہاتھ (کہنیوں تک) جوڑ کر کہا، ’’جے واہ گوروجی کی۔‘‘
’’کہیے پنڈت جی، چت پرسن ہے نا؟‘‘
چچا اس وقت اکالیوں والی پگڑی باندھے تھے۔ کھدر کا لمبا کرتا، گلے میں پیلے رنگ کی صافی اور پھر کرپان۔۔۔
’’سردار جی آج تو بہت دیر سے اترے۔‘‘ پنڈت جی نے سوال کیا۔ چچا نے نہایت متانت سے سرجھکاکر جواب دیا، ’’پنڈت جی! آج سکھ منی صاحب کا پاٹھ کرتے ہوئے دیر ہو گئی۔‘‘ اتنے میں کچھ اور لوگ بھی آ گئے، چچا اور پنڈت جی دونوں نے ایک بھکارن کو دھتکارا۔ پنڈت جی بولے، ’’ماپھ کر ماپھ کر۔۔۔ حرامجادی۔۔۔ نکھرے مت دکھا۔۔۔ بہت دیکھے۔‘‘ عورت ڈر کر پیچھے ہٹ گئی۔ پنڈت جی نے مونچھوں کو ہٹاکر گنگا جل کی لٹیا منہ سے لگالی اور پھر لوگوں کی طرف مخاطب ہوکر بولے، ’’جب پھگانیوں نے بھارت ورش پر حملہ کیا تو یہی لوگ تھے جنہوں نے ان کا مکابلہ کیا، ابلاؤں کی رکشا کی، بہت پراپکاری لوگ ہیں یہ۔‘‘
چچا نے اپنے دبلے پتلے کمزور کاندھوں کو حرکت دی اور پھر اپنی نوانچ تلوار کو سنبھالتے ہوئے بولے، ’’پیڑے ہیں پنڈت جی؟ دو گلاس لسی۔۔۔‘‘
’’چچا میں تو لسّی پی کر آ رہا ہوں، مجھے اجازت دیجیے۔‘‘ میں نے کہا۔ اسٹیشن پر جاکر دیکھا تو اس قدر بھیڑ تھی کہ تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ پلیٹ فارم تک پہنچنا ناممکن ہو گیا۔ لہٰذا باہر سے ہی تماشہ دیکھتا رہا، ایک شخص نے بلند آواز میں نعرہ لگایا، ’’بولو راشٹرپتی پنڈت جواہر لال کی جے!‘‘ ساری مخلوق نے گلا پھاڑ پھاڑ کر کہا، ’’راشٹرپتی جواہر لال کی جے! مہاتما گاندھی کی جے! بھارت ماتا کی جے!‘‘ اور جب جواہر لال جی بگھی پر آکر بیٹھ گئے تو اتنے میں چچا ہاتھ میں گیندے کے پھولوں کا ہار لیے نمودار ہوئے۔ انہوں نے متعدد بار پرنام کرنے کے بعد ہار پنڈت جی کے گلے میں پہنا دیا۔
’’مجید کھاں‘‘بھی کھدر کا کرتا پہنے کانگرسی رضاکار کی حیثیت سے ادھر ادھر دوڑتا پھر رہا تھا۔ یکایک ہٹو، بچو، بڑھو، جے رام جی کی، رام رام، راشٹرپتی ہاں ہاں، نہیں نہیں کا شور بلند ہوا اور جلوس شہر کی طرف روانہ ہو گیا۔ سب لوگ حب قومی کے جوش میں نہایت عقیدت مندانہ انداز سے گا رہے تھے،
جھنڈا اونچا رہے ہمارا
جھنڈا اونچا رہے ہمارا
جھنڈا۔۔۔
چچا کی آواز سب سے زیادہ بلند تھی۔
جب جلوس مجید کے محلہ کے پاس پہنچا تو سڑک کے کنارے بھیڑ میں مجھے وہی میلی کچیلی لڑکی دکھائی دی۔ وہ حیرت سے پھٹی پھٹی آنکھوں سے اِن جھنڈا اونچا رکھنے والوں کو دیکھ رہی تھی، وہی گرد آلود بال، سہمی ہوئی بے زبان صورت، زرد زرد آنکھیں۔ معاً گلی میں سے ایک کتا نکلا اور مجید کو دیکھ کر بے طرح بھونکنےگا۔ وہ بھاگ کر بھیڑ میں گھس گیا۔ ایک ہوا کے جھونکے سے اس کو چے کی خاک اڑی اور چچا کی چکنی داڑھی گرد سے اَٹ گئی۔
حاشیہ
(۱) ایک قسم کی کلہاڑی، سکھوں کا ایک ہتھیار
(۲) یہ ان کا بہت فرسودہ اور بےمعنی بہانہ تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.