صبح جاگنے کے بعد اس نے حسب معمول شیو کرنا چاہا تو اسے اپنا شیونگ سیٹ جگہ پر نہیں ملا۔ سارا کمرہ دیکھ لیا۔ بچے بھی اس کے کمرے میں نہیں آتے تھے اس کی چیزوں کو کوئی ہاتھ نہیں لگاتا تھا۔ اسے سخت غصہ آیا۔ جب سے اس کا لڑکا واپس آ گیا تھا اس کا موڈ بے حد خراب رہنے لگا تھا۔ اس نے بیوی کو بلاکر ڈانٹا کہ وہ اس کی چیزوں کا خیال نہیں رکھتی۔ اس کی بیوی بھی حیران تھی کہ آخر شیونگ سیٹ کہاں گیا۔ اس نے گھر کا کونا کونا چھان مارا ہر ممکن جگہ دیکھ لی لیکن وہ سیٹ نہیں ملا۔
برسوں کی عادت تھی۔ چودہ برس کے عمر سے وہ برابر شیو کر رہا تھا۔ صبح جاگتے ہی پہلا کام یہی تھا۔ اتنے برس گزر گئے اس کے معمول میں فرق نہیں آیا تھا۔ آج تک کسی نے اس کی داڑھی بڑھی ہوئی نہیں دیکھی تھی۔ بیماری اور سفر کی حالت میں بھی وہ شیو کرنے سے کبھی نہیں چوکتا۔ تیز دھار کی بلیڈ جب تک اس کے گالوں پر نہ دوڑتی وہ خود کو تر و تازہ محسوس نہیں کرتا تھا۔ پنشن کے بعد اس کے بہت سے دوستوں نے شراب چھوڑ دی اور داڑھی بڑھالی تھی۔ لیکن وہ آج بھی بہترین بلیڈ اور قیمتی شراب استعمال کرتا تھا۔
کس کی حرکت ہو سکتی ہے؟ اس نے سوچا۔
اس کا بیٹا تو مولوی ہے پورا مولوی۔۔۔ اس نے تو داڑھی رکھ چھوڑی ہے۔ سیاہ شرعی داڑھی ۔ اسے یہ سب پسند نہیں تھا۔ ایک خاص حلیہ جس سے مذہبیت ٹپکتی ہو اسے بالکل پسند نہ تھا۔ اس کا خیال تھا تمام مذاہب انسانوں کے لیے آئے ہیں، انسانوں سے نفرت کرنے کے لیے نہیں۔ سارے مذاہب کچھ خاص زمانے میں مخصوص حالات میں اس دور کے لوگوں کے لیے آئے تھے اب وہ پرانے ہو چکے ہیں موجودہ دور میں ناقابلِ عمل۔۔۔ سب اپنے مذہب کو بہتر سمجھتے ہیں۔ کوئی کسی کی برتری تسلیم نہیں کرتا نتیجے میں کتنے تصادم، کتنے فسادات، کتنی جنگیں ہوئیں۔ سارے مذاہب کے پیشوا عظیم انسان تھے انھوں نے ایک اچھے معاشرے کے لیے محنت کی۔ آج بھی پرانی باتوں کو دہرانے کے بجائے ایسی ہی کوشش کی جانی چاہئے۔
اس نے اپنے بیٹے کو روکا نہیں۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ خود ہی اپنے طور پر دنیا کو برتے اور فیصلے کرے۔ اسے دیکھ کر کوفت ضرور ہوتی تھی۔
اور اب اس کے لڑکے کو بڑے زور کا دھکا لگا تھا۔ ویسے وہ بھی اندر سے ہل گیا تھا۔ اِدھر کچھ برسوں سے وہ محسوس کر رہا تھا کہ اس کے نظریات کو پئے در پئے شکست ہو رہی ہے۔ اس کی طرح سوچنے والے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ صارفیت کے طوفان میں سب بہہ رہے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کے لیے آدمی دنیا کے کسی بھی کونے میں جانے کے لیے تیار ہے۔
جب ملک تقسیم ہوا اس وقت وہ جوان تھا۔ ہر شخص بھاگ رہا تھا، تحفظ کے لیے، بہتر مستقبل کے لیے، مفت میں جائیداد حاصل کرنے کے لیے۔ پاسپورٹ کی بھی ضرورت نہیں تھی، بس سرحد پار کرنا تھا۔ اس کی ماں کا اصرار تھا کہ وہ ادھر چلے جائیں۔ لیکن وہ یہیں رہنا چاہتا تھا، اپنے ملک میں۔ جب بھی فسادات ہوتے اس کی ماں اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتی لیکن اسے کوئی شرمندگی نہیں ہوتی۔ اس کے اپنے خواب تھے، انسانیت پر بھروسہ تھا۔ جہالت دور ہوگی لوگوں کو شعور آئےگا تو سب ٹھیک ہو جائےگا۔ یہ سب مذہبی جنون ہے۔ ادھر بھی بہت چین اور سکون نہیں تھا۔ کچھ عرصہ بعد اسے معمولی سی سرکاری ملازمت مل گئی۔ وہ اسی میں خوش تھا۔ شادی ہوئی۔ بچے ہوئے۔ بہت خوش حالی تو نہیں تھی لیکن وہ ایک باوقار زندگی گزار رہا تھا۔ بچے سرکاری اسکول میں پڑھتے تھے لیکن اچھا پڑھتے تھے۔
دوسری بار پھر وہ ایک کڑے امتحان سے اس وقت گزرا جب خلیج کے راستے کھلے۔ اس کے کئی دوست دولت سمیٹنے کے لیے بھاگے۔ بیوی نے اسے بہت سمجھایا لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوا۔ وہ ایسے ملک کو نہیں جائےگا جہاں اسے دوسرے درجے کا شہری بن کر رہنا پڑے۔ اس ملک کے قوانین، طرز زندگی، وہ تو گھٹ کر مر جائےگا۔
اس نے دھیرے دھیرے زندگی جوڑی۔ شہر سے دور ایک ہاؤزنگ سوسائٹی کے تحت زمین خریدی اور برسوں میں رفتہ رفتہ گھر بنایا۔ پندرہ بیس برس میں اس علاقے کی صورت بدل کر رہ گئی۔ اب وہ شہر کا ایسا حصہ بن گیا تھا جس کی بےحد مانگ تھی۔ کالونی میں سب اس کے جاننے والے تھے۔ اس کے ساتھ کام کرنے والے اس کے دوست جن کے ساتھ وہ شراب پیتا تھا، بحثیں کرتا تھا۔ اسے وہ سب اسی کی طرح لگتے تھے۔ لڑکے نے بھی سرکاری کالج اور یونیورسٹی سے پڑھ کر انجینئرنگ کر لی تھی، ایک فرم میں ملازمت بھی کر رہا تھا۔ لڑکی کی شادی ہو گئی تھی۔ داماد خلیجی ملک میں ملازمت کر رہا تھا۔ بیٹی اور نواسے اس کے ساتھ تھے۔ بڑی حد تک وہ مطمئن تھا۔ لیکن اندر سے سب کچھ اطمینان بخش نہیں تھا۔ پہلے وہ سوچا کرتا تھا کہ کسی بھی قوم کی زندگی میں پچیس پچاس برس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ دھیرے دھیرے سب ٹھیک ہو جائےگا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ شخصیت پرستی اور موروثی نظام نے رنگ دکھایا۔ ضدی عورت اور ناتجربےکار لڑکا خود بھی تباہ ہوئے اور ملک کو بھی تباہی کے راستے پر ڈال دیا۔ ان کے بعد اونگھتے ہوئے بوڑھے نے تابوت کے آخری کیل جڑ دی۔ سب کچھ برباد ہوکر رہ گیا۔ ملک کو راتھ والوں کے قدموں میں ڈال دیا گیا۔
قدیم عبادت گاہ ہٹ دھرمی سے گرادی گئی تو بہت کچھ بدل گیا۔ کتنے لفظ بے معنی ہو گئے اور کتنے لفظ نئے مفہوم لے کر آئے۔ شیلا نیاس، کارسیوک، ڈھانچہ، ہندو راشٹر، بھارتیہ کرن، اگروادی، جہاد، بم بلاسٹ، انکاؤنٹر، نئی نئی دہشت پسند تنظیمیں، بڑی جارحانہ وطن پرستی آ گئی تھی۔ کچھ نئے لوگ اس منظر نامے میں اُبھر آئے تھے جن کا کام صرف زہر اگلنا اور دھمکیاں دینا تھا۔ سیکولر کہلانے والے اپنی کلائیوں پر سرخ دھاگے باندھنے لگے تھے۔ اپنے بچوں کی شادی کے دعوت ناموں پر جلی حرفوں میں بسم اللہ اور اوم لکھا جاتا ہے۔ ایک بڑی طاقت تاش کے پتوں کی طرح بکھر کر رہ گئی تھی اور کل تک جو سوشلسٹ لیڈر تھے، بائیں بازو کے اخبارات شائع کرتے تھے وہ کٹر مذہبی جماعتوں کے تلوے چاٹنے لگے تھے۔
تبدیلی اس کی کالونی میں بھی آئی تھی۔ وہ خود کو اکیلا محسوس کر رہا تھا۔ شام کی محفلیں کبھی کے ختم ہو چکی تھیں۔ محلے کے بچوں نے اس کے نواسوں کا جینا دوبھر کر دیا تھا۔
پاکستانی۔۔۔ پاکستانی۔۔۔!
اس کے تن بدن میں آگ لگ جاتی تھی۔ جس ملک سے اس نے کوئی واسطہ نہیں رکھا، وہی اس کے بچوں کے سروں پر تھوپا جا رہا ہے۔ اس کے بچے پاکستان کے بارے میں زیادہ جانتے بھی نہیں تھے۔
’’نانا جی وہ ہمیں پاکستانی کیوں کہتے ہیں‘‘ وہ چپ رہا۔
’’کیوں کہ ہم مسلم ہیں‘‘۔ بڑے نواسے نے کہا۔
’’کیا تمام مسلم پاکستانی ہوتے ہیں؟‘‘ پھر سوال کیا گیا۔
اس نے کوئی جواب نہیں دیا، جھلاکر اسی وقت باہر نکلا۔ وہ کالونی کے بزرگوں سے ملا، صورتحال بتائی۔ کسی نے اس کی بات رد نہیں کی۔ لیکن اسے لگا جیسے صرف وہی بول رہا ہے، خلا میں اس کے الفاظ بکھر رہے ہیں اور کوئی معنی نہیں دے رہے ہیں۔ پہلی بار اسے محسوس ہوا کہ شاید اب وہ یہاں نہیں رہ پائےگا۔ جو قومیں کمزور پڑجاتی ہیں انھیں سلمس میں ڈھکیل دیا جاتا ہے۔ اپنا گھر فروخت کرتے وقت اسے تکلیف ہوئی۔ قیمت بھی وہ نہیں ملی جو بازار کی تھی۔
اپنے بیٹے اور بیوی کے مشورے سے وہ ایک ایسی بستی میں آ گیا جہاں وہ تحفظ محسوس کرتے تھے۔ بے ترتیب مکانات، سڑکیں خستہ حال، ہر نکڑ پر نوجوانوں کی ٹولیاں، لمبے لمبے کرتے اور اونچے پاجامے پہنے بزرگ، لمبی داڑھیاں، سر پر ٹوپیاں۔۔۔ سیاہ برقعوں میں گھومتی عورتیں، صرف آنکھیں کھلی رہتیں۔ نوجوان لڑکے جینز اور ٹی شرٹ پہنے موٹر سائیکلوں پر دندناتے پھرتے۔ راتوں رات دولت مند بن جانے اور بغیر محنت کے پیسہ کمانے کے خواب آنکھوں میں سجائے سر پر الٹی کیپ لگائے، جیبوں سے سیل فون کی گنگناتی موسیقی۔۔۔ ہر گھر کا کوئی نہ کوئی فرد بیرون ملک ملازم تھا۔۔۔ نماز کاوقت ہوتا تو لاؤڈ اسپیکر پر اذانوں کا شور بلند ہوتا۔ اس ماحول میں اس کا دم گھٹنے لگتا۔
عجیب بستی تھی۔ سب کو سب کی خبر ہوتی تھی۔ کون کیا کرتا ہے، کیا کھاتا ہے کیا پہنتا ہے کس گھر میں کون مہمان آیا ہے۔ پتہ نہیں یہ ساری باتیں کیسے ایک دوسرے تک پہنچ جاتی تھیں۔ شروع شروع محلے والوں نے اسے بھی گھیر لیا۔ نمازیوں کی ایک ٹولی اس کے پاس آئی اسے ’’راہ راست‘‘ پرلانے کی کوشش کی گئی۔ اس نے سختی سے کہہ دیا کہ گناہ اور ثواب کے بارے میں وہ ان سے زیادہ جانتا ہے۔ اب وہ عمر کی اس منزل میں ہے کہ کوئی تبدیلی آنے والی نہیں ہے وہ اپنی مرضی سے جینا چاہتا ہے۔ اس کی اصلاح کی کوشش نہ کریں۔ اس کے لہجے میں اتنی تلخی اور درشتگی تھی کہ دوبارہ پھر کسی نے ہمت نہیں کی۔ البتہ اس کا بیٹا محلے میں جلد ہی مقبول ہو گیا۔ وہ نماز کا پابند بھی تھا اور محلے کے نوجوانوں اور بزرگوں میں وقت بھی گزارتا تھا۔ بیوی بھی نماز کی پابند ہو گئی تھی۔
اس نے ایک معمول بنا لیا تھا۔ صبح ہوتے ہی داڑھی بناتا، نہاتا، تفصیل سے اخبار پڑھتا، ناشتہ کرتا پھر لائبریری میں بیٹھ جاتا۔ دوپہر کے کھانے کے بعد کچھ دیر سو جاتا۔ شام میں کہیں کوئی جلسہ کوئی میٹنگ ہوتی تو چلا جاتا یا اپنے کسی دوست کے گھر چلا جاتا۔ اپنے معمول کے دو تین پیگ لیتا۔ مختلف موضوعات پر گفتگو کرکے خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرتا۔ جب کبھی معمول سے زیادہ ہو جاتی تو اس کے قدم ہلکے سے لڑکھڑانے لگتے وہ سیدھے بستر میں چلا جاتا۔ اس کی بیوی فرش پر بستر بچھا کر سو جاتی۔ احتجاج کا ایک نیا طریقہ اس نے نکالا تھا۔ محلہ والے تو اسے بس باہر جاتے اور آتے ہوئے دیکھتے تھے۔ کسی سے اس کی ملاقات نہ تھی۔
قدیم عبادت گاہ کے گرنے کے تقریباً دس برس بعد جدید طاقت، تہذیب و معاشرت کی علامت دو عمارتیں اچانک گرا دی گئیں اور پھر بہت کچھ بدل گیا۔ عمارتیں گرتی ہیں تو بہت کچھ بدل جاتا ہے۔ پھر کچھ نئے لفظ آئے جن میں زیادہ شور تہذیبوں کا ٹکراؤ اور دہشت گردی کے خلاف ردعمل، ایٹمی ہتھیار رکھنے والے ممالک کا صفایا تھا۔
’’قدیم عمارت گری کہ جدید عمارتیں، نقصان اسی کا ہوا۔ اس کی پوزیشن خراب ہو گئی۔ یوں اس نے جنگ کے خلاف مظاہروں میں حصہ لیا۔ سمیناروں اور سمپوزیم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ لیکن اسے محسوس ہوا یہ سب کچھ ایک انٹلکچول تفریح کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ لوگ جنگ کی ہولناکی کو محسوس نہیں کرتے۔ ٹی وی پر جنگ کے مناظر ایسے ہی دیکھتے ہیں جیسے فیشن چیانلس پر خوبصورت جسم‘‘ الیکٹرانک میڈیا نے میدان جنگ اور فیشن شو کے ریمپ کا فرق بھی مٹادیا ہے۔
دوستوں سے بحث کرنے میں بھی اب کوئی لطف باقی نہیں رہا تھا۔ اس کی طرح سوچنے والے کم ہوتے جارہے تھے۔ایک رخ یہ ہے کہ لوگ اس بڑی طاقت کو ظالم کہتے ہیں لیکن اس خلیجی ملک کے حکمران کو ڈکٹیٹر نہیں کہتے۔ لوگ خودکش بم کی تائید تو کرتے ہیں لیکن بےگناہ مرنے والوں پر افسوس نہیں کرتے۔ دوسرا رخ یہ ہے کہ کہیں بھی بم بلاسٹ ہوتا ہے، دہشت گردی ہوتی ہے تو اس کی طرف عجیب نظروں سے گھورتے ہیں جیسے ہر دہشت گردی کا ذمہ دار وہ ہو۔ پولیس راتوں رات اس کے محلہ سے نوجوانوں کو پکڑ کر لے جاتی ہے۔
ان حالات میں اس کے لڑکے نے جب کہا کہ وہ مغربی ملک کو جا رہا ہے تو وہ چونک پڑا۔
’’کیوں جانا چاہتے ہو؟‘‘
’’ظاہر ہے بہتر مستقبل کے لئے‘‘۔
’’کیوں کیا یہاں تمھارا کوئی مستقبل نہیں ہے؟‘‘
’’نہیں پاپا۔ ہمارے ملک کو اعلیٰ تعلیم یافتہ سوچنے والے ذہن کی ضرورت نہیں ہے‘‘
’’وہاں بھی تو اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ چھوٹے چھوٹے کام کرتے ہیں‘‘۔
’’وہ عبوری دور ہوتا ہے پاپا۔ پیسہ بھی معقول ملتا ہے‘‘۔
’’تو تم پیسہ کمانا چاہتے ہو؟‘‘
’’ہاں پاپا پیسہ موجودہ دور کی سب سے بڑی حقیقت ہے‘‘۔
’’لیکن مذہب تو قناعت پسندی۔۔۔‘‘
’’مذہب پیسہ کمانے سے روکتا نہیں‘‘ بیٹے نے بات کاٹ کر کہا ’’اچھا اچھا۔۔۔ بیٹے کے جارحانہ موڈ کو دیکھ کر وہ خاموش ہو گیا۔‘‘ اس نے اگر قناعت پسندی سے کام لیا، زیادہ پیسوں کا لالچ نہیں کیا تو ضروری نہیں کہ اس کا بیٹا بھی ایسا ہی سوچے۔ پہلے جو تعیش کی چیزیں کہلاتی تھیں اب وہ ضرورت بن گئی ہیں جس کے لیے پیسہ چاہیے۔ اس کے بیٹے کو اس کے انداز میں جینے کا موقع دینا چاہئے۔
زورو شور سے تیاریاں ہونے لگیں، کپڑے جوتے، سفر کا سامان، ضروری چیزیں وہاں کے موسم کے مطابقت رکھنے والی۔۔۔ ایک ایک تفصیل تھی اس کے بیٹے کے پاس اس ملک کی۔۔۔
پھر سب نے نمناک آنکھوں سے وداع کیا۔ دعائیں دیں، امام ضامن باندھے۔۔۔ گھر لوٹے تو بڑا سونا پن محسوس ہونے لگا۔ ادھر کئی دنوں سے بڑی گہما گہمی تھی۔ رات دیر گئے تک جاگنا۔ دوست احباب کا آنا جانا۔
بیٹے نے ممبئی سے فون کیا کہ پہنچ گیا ہے۔ پھر اس ملک کے پلین میں بیٹھنے سے قبل فون کرنے کا وعدہ کیا۔ رات میں اس کا فون آیا کہ وہ پلین میں بیٹھنے جا رہا ہے۔ وہ آرام سے سو گئے۔
صبح وہ جلدی ہی جاگا۔ بیٹے کے فون کا انتظار کرنے لگا۔ بیوی بھی فجر پڑھ کر مصلے پر بیٹھی تھی۔ کافی انتظار کے بعد بھی فون نہیں آیا تو وہ بےچین ہوکر ٹراویلنگ ایجنسی کے دفتر بھاگا جس کے ذریعہ اس کا بیٹا گیا تھا۔ ٹراویلنگ ایجنسی والے بھی کوشش میں لگ گئے۔ وہ گھر لوٹ آیا۔ بیوی گڑگڑاکر دعائیں کرتی رہی۔ وہ بےچینی سے ٹہلتا رہا۔ پھر ٹراویلنگ ایجنسی والوں کا فون آیا کہ اس کا لڑکا وہاں پہنچ تو گیا ہے لیکن ایئرپورٹ پر روک لیا گیا ہے۔ وہ پریشان ہو گیا۔ پتہ نہیں ایسا کیوں ہوا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ وہ فون کھڑ کھڑانے لگا جن دوستوں کے بچے اس ملک میں تھے یا خاندان کے افراد وہاں تھے ان سے گفتگو کی ممکن ہے کوئی صورت نکل آئے۔ لیکن بات نہیں بنی۔ رات بھر وہ بےچین رہا۔ یہ دوسری رات تھی۔ پتہ نہیں بیٹے پر کیا گزر رہی تھی۔
رات اس کے بیٹے کا فون آیا۔
’’ہاں بیٹے کیا ہوا؟‘‘ اس نے بے چینی سے پوچھا۔
’’کچھ نہیں پاپا میں واپس آ رہا ہوں‘‘۔
’’کیا ہوا۔ کچھ بتاؤ تو‘‘۔
’’آکر بتاؤں گا۔۔۔‘‘ بیٹے نے اپنی واپسی کی فلائیٹ کا وقت بتا دیا۔ صبح اس نے حسب معمول شیو کیا۔ وقت سے پہلے ہی ایرپورٹ پہنچ گیا۔ بیٹا واپس آ گیا۔ اس نے اسے گلے لگایا۔ ٹیکسی میں بیٹھنے کے بعد اس نے پوچھا ’’کیوں روک دیا تھا اُنھوں نے؟‘‘
’’ان کا خیال ہے میری شکل بین الاقوامی دہشت گرد سے ملتی ہے‘‘۔
’’تم نے کچھ نہیں کہا؟‘‘
’’وہ لوگ کچھ سننے کو راضی ہی نہیں تھے۔ انکوائری کی گئی اس کے بعد چھوڑا‘‘
’’کچھ ثابت نہ ہونے پر بھی واپس کر دیا‘‘۔
’’ہاں۔۔۔‘‘
’’چلو یہی کیا کم ہے تم صحیح سلامت واپس آ گئے۔ اللہ جو کرتا ہے اس میں کوئی نہ کوئی مصلحت ہوتی ہے‘‘۔
اس کے بیٹے نے عجیب نظروں سے دیکھا۔ وہ شرمندہ ہو گیا۔ یہ کیسے الفاظ اس کے منہ سے نکل رہے ہیں۔
بیٹے کے اس طرح لوٹ آنے پر اسے بہت بڑا دھکا لگا۔ کیا ان پر دنیا تنگ ہورہی ہے۔ یہاں زہریلے بیانات روزانہ پڑھنے کو ملتے ہیں، نسل کشی کا ایک کامیاب تجربہ کیا جا چکا ہے، ظالم ہی حکومت بھی کر رہے ہیں۔ خلیجی ممالک اپنے ملک میں پیدا ہونے والے بچوں کو بھی شہریت نہیں دیتے۔ مغربی ممالک کا یہ رویہ ہے۔
بیٹے کے بارے میں وہ کوئی اندازہ نہیں کرسکا کہ اس واقعہ کا اس پر کیا اثر ہوا۔ اس نے پرانی ملازمت جوائن کرلی تھی۔ کام میں مصروف تھا۔ ممکن ہے اس نے بیرونِ ملک جانے کا خواب دیکھنا ہی چھوڑ دیا ہو۔
آئینے میں اس نے اپنا چہرہ دیکھا۔ اچھی خاصی داڑھی نظر آ رہی تھی۔ سفید سفید۔۔۔ تیز دھار کی بلیڈ کے لیے وہ بے چین ہو گیا۔ اس کی بیوی بار بار کہہ رہی تھی کہ وہ دوسرا شیونگ سیٹ خرید لے یا باہر جاکر داڑھی بنوا آئے، اس کا چہرہ اچھا نہیں لگ رہا ہے۔ لیکن وہ کاہلی سے گھر میں پڑا رہا۔ بیٹا آفس کے کام سے شہر سے باہر گیا ہوا تھا۔ وہ شام تک باہر نہیں نکلا، معمول کے دو پیگ بھی نہیں لیے۔ دن بھر پڑھتا رہا یا ٹی وی پر خبریں دیکھتا رہا۔
اس کی بیٹا اجازت لے کر کمرے میں آ گیا۔
’’پاپا یہ لیجئے آپ کا شیونگ سیٹ میں لے گیا تھا۔ آپ سے پوچھے بغیر۔۔۔ آئی ایم سوری پاپا۔۔۔‘‘ لڑکا ایک سانس میں کہہ گیا۔
’’تمھیں کیا ضرورت پڑی اس کی۔۔۔‘‘ اس نے کہا۔ نظر اٹھا کر بیٹے کی طرف دیکھا تو حیرت زدہ رہ گیا اس کے بیٹے کے چہرے پر داڑھی برائے نام رہ گئی تھی۔
’’تمھاری داڑھی؟‘‘ اس کے منہ سے بےاختیار نکلا۔
’’آہستہ آہستہ کم کر دی۔ اب کلین شیو ہو جاؤں گا‘‘۔ بیٹے نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’لیکن کیوں؟‘‘
’’نیا پاسپورٹ بنواؤں گا کلین شیو تصویر کے ساتھ۔۔۔‘‘
’’لیکن یہ کیسے ممکن ہے ریکارڈ ہوتا ہے۔۔۔ باضابطہ۔۔۔‘‘
’’یہاں سب کچھ ممکن ہے پاپا۔ بس سورس چاہئے۔ اس بار کہیں اور جاؤں گا‘‘۔
’’لیکن یہ غیر قانونی ہے‘‘۔
’’کیا بغیر داڑھی کے پاسپورٹ بنوانا غیرقانونی ہے؟‘‘
وہ خاموش ہو گیا، بحث نہیں کی۔
’’صرف داڑھی رکاوٹ بن گئی ہے پاپا۔۔۔ یہ لیجئے آپ کا سیٹ‘‘۔
’’نہیں‘‘۔ وہ کچھ سوچتے ہوئے بولا ’’اسے تم ہی رکھ لو‘‘۔
لڑکے نے حیرت زدہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
اس نے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھا اپنی بڑھی ہوئی داڑھی پر ہاتھ پھیرا۔ ایسے بھی وہ برا نہیں لگ رہا ہے۔ اس نے اپنے آپ سے کہا اور معنی خیز انداز میں مسکرا دیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.