دھرم
مہارواڑی کے چار لڑکے چلچلاتی دھوپ میں تالاب کی طرف جا رہے تھے۔ ایک کے ہاتھ میں پیتل کی گہری تھالی تھی اوردوسرا کپڑے کا ایک ٹکڑا لئے ہوئے تھا۔ اسی اثنا میں ایک پگڈنڈی سے ایک کتا نکل کران میں شامل ہو گیا اور وہ پانچوں تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے آگے بڑھنے لگے۔ چلتے چلتے بھیکا کو کچھ یاد آ گیا اور وہ بولا، ’’گجا! مردود تیرے منہ میں خاک۔۔۔کھلی کہاں ہے؟‘‘
گجا فوراً رک گیا۔ لمبے لمبے ناخنوں سے لنگوٹی سے باہر نکلے ہوئے کولہے کھجاتا ہوا بولا، ’’کھلی؟ وہ تو گھر ہی پہ رہ گئی۔۔۔ اب؟‘‘
’’اب تیرا باپ! دوڑ کر جا اور لے آ جلدی۔‘‘
گجا انہیں قدموں واپس مڑا اور جان توڑ کے دوڑنے لگا۔ ساتھ میں چلنے والا کتا کچھ دیر کے لئے دبدے میں پڑ گیا۔ ’’گجا کے ساتھ جائے یا باقی لوگوں کے ہمراہ؟‘‘ اس نے زبان باہر نکال کر سوچا وہ چار قدم چلنے کے بعد مڑا اور بقیہ تین لڑکوں کے ہمراہ تالاب کی طرف چلنے لگا۔
تالاب پر پہنچ کروہ سب ایک درخت کے سائے میں گجا کا انتظار کرنے لگے۔ لیکن بھیکا کو خاموش بیٹھنا نہ آتا تھا۔ اس کی زبان مکھیاں اڑانے کے لئے چلنے والی بھینس کی دم کی طرح کسی نہ موضوع پر بولنے کے لئے چلبلاتی رہتی تھی۔ اس وقت بھی اس کے دماغ میں اچانک کسی خیال نے سر ابھارا اور بےچین ہوکر اس نے بابلیا سے پوچھا۔
’’بابلیا! یہ بودھ والے کہاں کے ہیں رے؟‘‘
’’ممبئی کے۔‘‘
’’سو تو ٹھیک۔۔۔ پر یہ اتنے دنوں کہاں رہے؟‘‘
’’ممبئی میں۔ وہاں سب کو بدھ بنانے کے بعد ہمارے وطن میں آئے ہیں۔ یہاں کے مہاروں اور چماروں کو بدھ بنانے کے لئے۔‘‘
چند لمحات سکوت میں گذر گئے۔ بھیکا کی تسلی نہیں ہوئی تھی۔ اس نے بابلیا سے پھر سوال کیا۔
’’بدھ ہو جانے سے کیا پھایدہ ہے؟‘‘
’کیا یھایدہ؟ مراٹھوں اور برہمنوں کی طرح پاک صاف ہو جاتے ہیں۔ مندر جا سکتے ہیں۔ پھر کوئی مہاروں سے نپھرت نہیں کرتا۔ دور نہیں بھاگتا۔‘‘
بھیکا کو بات کرنے کے لئے میدان مل گیا تھا۔ اب اس موضوع پر وہ بہت کچھ پوچھ سکتا تھا۔ دل ہی دل میں سوالات ترتیب دیتے ہوئے اس نے انگوٹھا منہ میں رکھ لیا اور تیزی سے ناخن کترنے لگا۔ لکھیا نے سامنے بیٹھے ہوئے کتے کی کنپٹی سے چپکی چیچڑی کو تنکے سے چھیڑنے کا شغل اختیار کیا اور بابلیا نے اس راستے پر نظریں جمادیں جہاں سے گجا آنے والا تھا۔ تھوڑی دیر میں گجا ہانپتا ہوا ان کے سامنے آ کھڑا ہوااس کے ہاتھ میں مونگ پھلی کی پرت دار کھلی کی پوٹلی سی تھی۔
’’شی۔۔۔ بہت حیران ہونا پڑا۔‘‘ گجا لمبی لمبی سانسیں لیتا ہوا بولا۔
’’کیوں؟ کیا ہوا؟‘‘
’’کھلی کا بورا باہر کی پڑوس میں تھا۔ سب کی آنکھ بچاکر پینڈ (کھلی) چرانے میں ناک میں دم آ گیا۔ پھر بھی اماں نے سٹکتے ہوئے دیکھ ہی لیا مجھے۔‘‘
’’گجا کی لائی ہوئی کھلی دو اوک بھرتھی۔ بندھی ہوئی پوٹلی کے کھولتے ہی سوندھی سوندھی مہک پھیلنے لگی۔ گجانے مٹھی بھر کھلی نکال کر چار چار ٹکڑے سبھی کے ہاتھوں میں تھما دیے۔ کتا منہ اٹھاکر نتھنے پھلانے لگا۔ مہک سونگھنے لگا۔ پھر جوں ہی گجا کھلی کا ایک ٹکڑا اس کے آگے ڈالا، جھپٹ کر چٹ کر گیا۔
’’بھڑوا پینڈ بھی کھاتا ہے۔ آہستہ کھا، آہستہ۔‘‘
چلو اب۔۔۔ دیر مت کرو۔
لکھیا نے ایک ہاتھ میں تھالی پکڑی اور بھیکا نے اس پر کپڑا باند ھ دیا۔ جس طرح پکوان کے تھال پر سرپوش ڈالا جاتا ہے۔ اسی طرح اس تھالی پر کپڑا ڈال کر بھیکا نے پیندے میں مضبوط گرہ لگائی۔ پھر بیچوں بیچ کپڑے میں سوراخ بناکر وہ بولا۔ ہاں اب اس میں تھوڑی سی پینڈ ڈال۔‘‘
گجاکے کھلی کے ٹکڑے اٹھاکر یوں ہی اس سوراخ کے اندر دھکیل دیے۔ یہ دیکھ کر بھیکا آپے سے باہر ہونے لگا۔ ’’ارے بیوقوف! ایسی سوکھی پینڈمچھلیاں کھاتی ہیں کیا؟‘‘
’’نہ کھانے کو کیا ہوا؟ کیوں نہیں کھاتیں؟‘‘
’’تیرا باپ! مردود! مچھلیاں کیابڑے بڑے دانت رکھتی ہیں کیا، اس طرح کی پینڈ کھانے کے لئے؟‘‘
گجانے کوئی جواب دینے کے بجائے ہاتھ میں پکڑی ہوئی پنیڈ کے پرت نما ٹکڑے بھیکا کو تھما دیئے۔ بھیکا نے ترنت انہیں منہ میں ڈال کر جبڑا چلانا شروع کر دیا۔ اپنی پوری قوت صرف کرکے وہ پینڈ کے ٹکڑوں کو داڑھوں تلے کچل رہا تھا۔ اسے کھلی چباتے دیکھ کر دوسروں کے منہ میں پانی آ رہا تھا۔
جب منہ میں رکھی کھلی کی لگدی سی بن گئی تو بھیکا نے اسے ہاتھ پر اگل کر آہستہ سے تھالی میں سرکا دیا۔ ’’یہ پینڈ تو منہ سے نکالی ہی نہیں جاتی ہے نا، سالی روٹی سے زیادہ لذیذ لگتی ہے۔‘‘
’’چپ رہو اب۔ مچھلیاں ڈرکے بھاگ جائیں گی۔‘‘
لیکن چپ بیٹھے رہنے کو کسی کا جی نہیں چاہ رہاتھا۔
سامنے تالاب میں کنارے کے پاس اتھلے ہوئے پانی میں ان گنت چھوٹی چھوٹی مچھلیاں گھوم پھر رہی تھیں۔ ان کے روپہلے کلے دھوپ میں اور زیادہ چمک رہے تھے۔
بھیکا نے آگے بڑھ کر ہاتھوں میں پکڑی ہوئی تھالی آہستہ سے پانی میں رکھ دی پانی میں اس کے قدم پڑتے ہی مچھلیاں گھبراکر بھاگیں۔ پھر کھلی کی مہک نتھنوں میں پہنچتے ہی سب تھالی پر پل پڑیں۔ بھیکا تیزی سے مڑا اور دیگر ساتھیوں کے ہمراہ کنارے بیٹھ کر بےصبر نگاہوں سے تھالی کا جائزہ لینے لگا۔ ٹخنوں بھرپانی میں ننھی ننھی مچھلیوں کا جمگھٹ ہو گیا۔ ایک ایک انگشت کی مچھلیوں نے اتھلے پانی میں طوفان برپا کر دیا۔
’’امسال تالاب میں مچھیاں بہت ہو گئی ہیں کیوں؟‘‘
’’بہت کہاں ہیں۔۔۔ ہرسال اتنی ہی ہوتی ہیں۔۔۔ تھوڑی زیادہ ہوگی اور کیا‘‘
’’بابلیا۔۔۔ مچھلیاں کپڑے کے اندر جائیں تب تک ہم کیکڑے پکڑیں گے۔۔۔ چلو۔۔۔ کالی پیٹھ والے کیکڑے۔‘‘
یہ خیال سب کے من کو بھا گیا۔ اس وقت کالی پیٹھ والے لذیذ کیکڑے جی بھر کے پکڑے جا سکتے تھے۔
’’چلو۔۔۔ چلو۔‘‘
چاروں اٹھ کھڑے ہوئے اور تالاب کی مینڈ سے اس پار بہنے والے نالے میں پڑے پتھروں کو الٹنے پلٹنے لگے۔ بائیں ہاتھ سے پتھر الٹ کر اسے دونوں ٹانگوں کے درمیان پکڑا جاتا اور دائیں ہاتھ سے بھاگتے ہوئے کیکڑے کو بڑی مہارت سے دھر لیا جاتا۔ پیر کے انگوٹھے سے اگر اس کی پشت پر دباؤ ڈالا جائے تو وہ اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتا۔ پھر اس کے ڈنک اور پیر توڑ دیئے جاتے۔
’’گجامردود مجھے دودھارو کیکڑی ملی ہے۔‘‘
’’دیکھیں۔۔۔ دیکھیں۔‘‘
سب بابلیا کو ملی ہوئی عجیب چیز دیکھنے کو دوڑ پڑے۔ دودھ بھری کیکڑی قسمت سے ہاتھ لگتی ہے۔ جنگل میں پانچ پنکھڑیوں والا ’’مینڈکل کا پھول اور پانی میں دودھ بھرا کیکڑا یہ دونوں چیزیں کبھی کبھار ہی ملتی ہیں۔ وہ کروندے کے پتوں کے برابر، نرم مخملی جسم کی دودھ جیسی کرلی (چھوٹا کیکڑا) ہتھیلی پر رکھ کر بابلیا سب کو بتا رہا تھا۔ کومل جسم کا وہ ڈرپوک کیکڑا پانی سے باہر نکالے جانے پر ڈر کے مارے ادھ موا ہوکر گھونگھے کی طرح اس کی ہتھیلی سے چمٹا ہوا تھا۔
’’شاباش رے بہادر!‘‘ بھیکا کے منہ میں پانی بھر آیا۔
’’چل اس کے چار ٹکڑے کر۔ دیکھیں کیسی لگتی ہے۔‘‘
بابلیا نے انگشت شہادت اور انگوٹھے کے درمیان پکڑکر اس زندہ کیکڑے کے چار ٹکڑے کر ڈالے۔ اس وقت اس کے جسم سے سفید رس کی پچکاریاں سی اڑیں بابلیا کی انگلیاں گویا دودھ میں نہا گئیں۔ چاروں نے وہ ٹکڑے اپنے اپنے منہ میں رکھ لئے۔
’’سالا زبان سے لگتے ہی حلق تک تر ہو گیا۔‘‘
’’ہونہہ چلو منہ کا مزا تو بدلا۔‘‘
دوبارہ وہ سب پتھر الٹنے میں مشغول ہو گئے اور کالی پشت والے کیکڑے تلاش کرنے لگے۔ بابلیاں انگلیاں چاٹتا ہوا دوسرے دودھ بھرے کیکڑے کی تلاش میں جٹ گیا۔ اتنے میں مینڈ پر سے چل کر برہمن واڑی کے چند لڑکے تالاب پر نہانے کے ارادے سے آ دھمکے۔ ناڈکرنیوں کا سریش سب سے آگے تھا۔ مہاروں کے لڑکوں کو کیکڑے پکڑتے ہوئے دیکھ اسے حیرت ہوئی۔ وہ بولا، ’’ارے بابلیا! اب تم لوگوں کے لئے مچھلیاں اور کیکڑے کھانا جائز کیسے ہو سکتا ہے؟ تم بدھ ہو گئے ہونا؟‘‘
’’بدھ کیسے کہتے ہیں جانتے ہو تم لوگ؟‘‘ سریش کے ایک ساتھی نے دریافت کیا۔
’’مردود! ا ب تم دوبارہ دھرم بھرشٹ ہو گئے۔ پھر سے مہار بن گئے۔ مچھلیاں مارنے کے بعد۔۔۔‘‘ سریش نے نتیجے سے باخبر کیا۔
مہاروں کے لڑکے اپنا شغل چھوڑکر کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ برہمن واڑی کے لڑکوں کو کیا جواب دیا جائے۔ آخر بھیکا بولا، ’’ارے بابا وہ سب باتیں ہم سے مت پوچھو۔ ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ جی چاہتا ہو تو تم بھی آکر ہمارے ساتھ کیکڑے پکڑو۔ آؤ ہم مدد کرتے ہیں تم لوگوں کی۔‘‘
برہمنوں کے بچے اس سے قبل کہی ہوئی باتوں کو بھول کر نہر میں کود پڑے۔ مہارا گرا نہیں کیکڑے پکڑ کر دیں تو اس سے اچھی بات اور کیا ہو سکتی تھی؟ بڑے بڑے ڈنک رکھنے والے کیکڑے پکڑنے میں مہاروں کا مقابلہ کون کر سکتا تھا؟
’’بابلیا تو اگر بڑے ڈنک والا کیکڑا پکڑ دےگا تو تجھے ایک آنا دوں گا۔‘‘ سریش نے جیب سے ایک سکہ نکالتے ہوئے کہا۔
’’آجا دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔‘‘
سب لوگ مل کر پھر پتھر الٹنے پلٹنے میں ہمہ تن مصروف ہو گئے۔ بابلیا اور بھیکا سب سے آگے اور برہمنوں کے لڑکے ان کے پیچھے پیچھے۔ بابلیا سریش کو ملنے والے کیکڑے کے اگلے دو ڈنک اسی سے تڑوا رہا تھا۔ اچانک کسی کی نظر سامنے گھاس کے میدان پر پڑی۔
’’کون آ رہے ہیں رے ادھر سے؟‘‘
سبھوں نے گردنیں اونچی کرکے اس طرف دیکھا۔ اتنی دور سے کسی کو پہچاننا مشکل تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں آدمیوں کی ایک قطار تالاب کے کنارے گہری کھائی میں اتر پڑی اور سبھی آسانی سے پہچان لئے گئے۔ سب سے آگے سومناتھ مہار تھا اور اس کے پیچھے مہارواڑی کے تمام مرد چل رہے تھے۔ شیوناک، مونیا، بھاگیا، یش ناک اور رو گیا وغیرہ۔ دور ہی سے پہچان کر مہار لڑکوں میں گھبراہٹ پھیل گئی۔ انہوں نے مہارواڑے میں رات کو منعقد ہونے والی سبھا (میٹنگ) یاد آئی اور ساتھ ہی بمبئی سے آئے ہوئے مہمانوں کی تقریریں بھی۔ منتر اور عہد یاد آئے اور رات کے جلسے میں کیا ہوا فیصلہ ان کے ذہن میں گونجا۔
سارے مہار لڑکے برہمن دوستوں کو وہیں چھوڑکر جدھر سینگ سمائے بھاگنے لگے۔ اچانک گجا کو سامنے ’’میڈہشی‘‘ کے درخت پر چڑھنے کا خیال آیا اور پھر سبھی نے رک کر اس کی تقلید کی۔ دیکھتے ہی دیکھتے چاروں لڑکے آس پاس کے درختوں کی گھنی شاخوں میں روپوش ہو گئے۔ مہاروں نے اپنے ساتھ لائی ہوئی دیوتاؤں کی مورتیاں پانی میں ڈبوئیں۔ بمبئی سے آئے ہوئے کارکنوں کے ذمہ یہ آخری فرض باقی رہ گیا تھا۔ مہارواڑی میں تبدیلی مذہب کی رسم کل انجام پا چکی تھی۔ اب ہر گھر سے پرانی مورتیوں کے ہٹا دیئے جانے پر دھرمانتر مکمل ہو جاتا ہے۔ ہر مہار اپنے گھر سے مورتی کو کپڑے میں لپیٹ کر لایا تھا۔ کسی کے ہاں منتر پھنکوایا ہوا ناریل تھا تو کسی نے دتاتریہ کی تصویر کی پوجا کی تھی۔۔۔ اب یہ سارے دیوی دیوتا باہر نکل چکے تھے اور سب کے گھروں کے دیو استھان اور پوجا کے کمرے ان سے خالی ہو چکے تھے۔
یش ناک نے اپنی مورتیاں پانی میں چھوڑ دیں اور واپس مڑنے لگا تو اس کی نظر اس تھالی پر پڑی جس میں مچھلیوں نے اودھم مچا رکھا تھا۔ اس کی نظر پانی میں تھم گئی۔ کنارے کھڑے مہاروں کی طرف دیکھے بغیر اس نے جھٹ سے نیچے جھکتے ہوئے تھالی پر ہاتھ ڈال دیا۔ کپڑے کے سوراخ سے مچھلیاں تھالی میں بھر چکی تھیں۔ یہاں تک کہ کسی کو باہر نکلنے کے لئے راستہ تک ملنا دشوار تھا، کپڑا پھڑپھڑانے لگا تھا اور زندہ مچھلیاں اندر تڑپ رہی تھیں۔ یش ناک نے تھالی اٹھالی اور ہاتھوں پر تولتا ہوا بولا، ’’یہ تھالی پہچانی سی لگتی ہے ارے یہ تو ہمارے ہاں کی تھالی ہے۔ یہاں کیسے آئی۔ ایں؟‘‘ اس نے کنارے کھڑی ٹولی کی اور دیکھا۔۔۔ بمبئی کے مہمانوں کو چھوڑ کر اس کے سارے بھائی بند اسے خشمگیں نگاہوں سے گھور رہے تھے۔ یش ناک کچھ دیر کے لئے گڑبڑا سا گیا اور بےاختیار اس کی نظر بمبئی کے مہمانوں پرپڑی۔ وہ ہوش میں آ گیا۔ سفید کپڑوں میں ملبوس سارے مہمان منہ ہی منہ میں بدبدا رہے تھے۔
’’بدھم شرنم گچھامی۔‘‘
یش ناک نے خشک ہونٹوں پر گیلی زبان پھرائی۔۔۔ مچھلیوں سے لبالب بھری ہوئی تھالی پر بندھا کپڑا کھولا اور ساری مچھلیاں جو ں کی توں پانی میں چھوڑ دیں۔
’’مچھلیاں تھیں بھرپور۔۔۔ خیرجانے دو۔۔۔ جیسی آپ لوگوں کی اچھا‘‘ ہلکی آواز میں وہ بولا اور دھوتی سے خشک کرتا ہوا کنارے پر آ گیا۔ بمبئی کے مہمانوں کے منہ سے ایک مرتبہ پھر نکلا۔
’’بدھم شرنم گچھامی!‘‘
اور ان کے پیچھے چلنے والے سارے لوگ اس کاورد سا کرنے لگے۔ پھر ان کا جلوس دوپہر کی تیز دھوپ میں گاؤں کی سمت روانہ ہو گیا۔
اتنی دیر تک درختوں کے پتوں میں چھپ کر بیٹھے ہوئے مہاروں کے لڑکے نیچے اتر پڑے۔ وہ آپس میں زور زور سے باتیں کرنے لگے۔
’’سالا۔۔۔ یہ بدھ والے اسی سمے کیسے آ گئے؟‘‘
’’اپنے نصیب اور کیا؟‘‘
’’گجا، کھلی کا ٹکڑا ہو تو دے ناخن برابر۔۔۔ بہت بھوک لگ رہی ہے۔ موت آئے ان مچھلیوں کو۔‘‘
بابلیا نے اکتاکر کہا۔ گجاکی کھلی کبھی کی ختم ہو چکی تھی۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اسے بہت غصہ آ رہا تھا۔ تھالی میں کھلبلی مچا دینے والی مچھلیوں کی یاد اس کے منہ میں پانی لا رہی تھی اور اس کا علاج اسے نہیں سوجھ رہا تھا۔ پھر اس نے پیروں کے پاس پڑا ہوا ایک پتھر اٹھایا اور تالاب کے پانی میں ٹانگیں پھیلاکر تیرنے والی مینڈکی کو نشانہ بناکر اچھال دیا۔ پانی میں موجود سارے مینڈکوں نے ڈبکیاں لگائیں اور کنارے پر سستاتے ہوئے مینڈک بھی یکے بعد دیگرے پانی میں کود پڑے۔
’’ہت تیری کی۔۔۔ حرامجادے مینڈک۔۔۔ دیکھو کیسے بھاگتے ہیں؟‘‘ بابلیا نے بڑبڑاتے ہوئے ایک اور پتھر پھینکا۔
پھر سریش سے بھی نہ رہا گیا۔ اس کی طبیعت بھی لہرائی۔ ہاتھ میں تھاما ہوا چھوٹا سا کیکڑا پتوں میں لپیٹ کر احتیاط سے جیب میں رکھا اور تیزی سے پتھرا کٹھا کئے۔ بھری دوپہر میں پھر روٹیاں بنانے کا کھیل خوب جمنے لگا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.