سب سے پہلے سیکریٹری نے انھیں اس بات سےمطلع کیا تھا۔
‘’آپ نے آج کا اخبار پڑھا؟’‘ فون پر اس نے پوچھا۔
‘’آپ کے فون کی آواز سے جاگا ہوں۔ تو بھلا اخبار کس طرح پڑھ سکتا ہوں۔ کہیئے، کوئی خاص بات، خاص خبر؟’‘
‘’ہاں! سرکار نےان اسکولوں کی فہرست جاری کی ہےجن کو سرکار نے منظوری نہیں دی ہے۔ اس فہرست میں ہماری اسکول کا بھی نام ہے۔’‘ دوسری طرف سے آواز آئی۔
‘’کیا، کیا کہہ رہےہیں آپ سرکار نےہمارےاسکول کو منظوری نہیں دی تو کیا ہماری اتنی بھاگ دوڑ، خط و کتابت، وزیروں، آفیسروں سےملنا جلنا، ان کی خاطر مدارات سب بےکار گیا؟’‘
‘’سب بےکار گیا، صدر صاحب! مجھے پہلے ہی سےڈر تھا کہ ایسا ہی ہوگا اور ایسا ہی ہوا ہے ہمیں پہلے ہی اطلاع مل گئی تھی۔ اس سال بھی سرکار نے ہماری اسکول کو منظوری نہیں دی ہے اور اب تو ساری دنیا کو معلوم ہو جائےگا صدر صاحب! طوفان ‘’ہاں سیکریٹری صاحب!’‘ وہ تشویش بھرے لہجےمیں بولے۔ ‘’اس طوفان کی آمد کو میں بھی محسوس کر رہا ہوں۔’‘
اور اس کے بعد تو اور بھی کئی طوفان آئے۔
لوگوں کو جواب دیتےدیتے ان کا سر چکرانے لگا وہ تو اس بات سےہی فکرمند تھےکہ لوگوں کو فون پر سمجھانا مشکل ہو رہا ہے۔جب وہی لوگ ان کےسامنے ہوں گے تو وہ کس طرح ان کو سمجھا پائیں گے؟
‘’گپتاجی نے جو اسکول کھولی ہے اسے تو ابھی تک سرکار کی منظوری بھی نہیں ملی ہے۔ اس اسکول میں ہمارے بچے پڑھ رہےہیں۔ یہ تو ان کی زندگی کےساتھ بہت بڑا کھلواڑ ہے۔’‘
‘’گپتاجی! آپ نےتو میرےبچےکو کہیں کا نہیں رکھا۔ آپ کی اسکول کو ابھی تک منظوری نہیں ملی ہے‘ اِس کا مطلب آپ کی اسکول سےنکلنےکےبعد میرےبچےکو کسی بھی اسکول میں داخلہ نہیں ملےگا.
‘’گپتا جی! اسکول کھولنے کے نام پر آپ نے جنتا سے لاکھوں روپے جمع کئے ہیں۔ پیسہ تو آپ نےجمع کر لیا لیکن اسکول کو منظوری نہیں دلائی۔’‘
وہ ساری باتیں سننے کے بعد ایک ہی جواب دیتے۔
‘’آپ کو فکر مند ہونے اور جوش، غصے میں آنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ سب سرکاری داوپیچ اور ہتھکنڈےہیں۔ ایک ماہ کےاندر ہماری اسکول کو منظوری مل جائےگی۔’‘
انھوں نے بڑے اعتماد سے ہر کسی کو جواب دیا اور طے کیا کہ ہر کسی کو یہی جواب دیں گے۔ لیکن وہ اپنےاعتماد کے کھوکھلےپن کےبارےمیں سوچ سوچ کر خود ہی کانپ اٹھتےتھے۔
‘’دو سال سے منظوری حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جا چکی ہے۔ کاغذی کاروائی اور خط و کتابت سے فائلوں کا ڈھیر تیار ہو گیا ہے۔ محکمہ تعلیم سے وزارت تعلیم, وزارت تعلیم سے سیکریٹریٹ, سیکریٹریٹ سےوزیر اعلیٰ کےدفتر کے چکر لگاتے لگاتے ان کے ساتھ ساتھ سیکریٹری، اسکول کےکچھ ممبران، ہیڈ ماسٹر، کلرک، ٹیچرس کی چپلیں گھس گئی ہیں۔
لیکن پھر بھی منظوری نہیں مل سکی۔
فوراً منظوری حاصل کرنےکا راستہ بھی بتایا گیا تھا۔ کچھ لےدےکر کام کر لیا جائے۔ لیکن مانگ اتنی بڑی تھی کہ ان کےساتھ ساتھ پورے بورڈ کو سوچنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔
بات یہ بھی نہیں تھی کہ جو مانگ تھی وہ پوری نہیں کی جا سکتی تھی۔ مانگ کی رم کا انتظام ہو سکتا تھا۔ مانگ سے کئی گنا زیادہ رقم ان کے پاس موجود تھی۔
لیکن وہ اپنے اصول پر اڑ گئے۔
‘’ہم لوگوں سے لیتےہیں ہم بھلا دوسرں کو کیوں دیں اور پھر ہم جو کچھ کر رہےہیں اس میں ہمارا ذاتی مفاد تو کچھ بھی نہیں ہے۔ ہم یہ عوام کی خدمت کے لئےکر رہےہیں۔ ہم چاہتےہیں کہ ہماری اسکول سے جو بچے تعلیم حاصل کریں وہ اتنے قابل ہوں جو دُنیا کے ہر مقابلے میں اپنی قابلیت اور لیاقت کی بُنیاد پر کامیاب ہوکر ہمارا، ہماری اسکول کا نام روشن کریں۔ اس لئے ہم نےتعلیم کے معیار پر بہت زیادہ توجہ دی ہے۔’‘
اور یہ بات تو عوام سےبھی منوا لی تھی کہ اُن کی اسکول کا تعلیمی معیار دُوسری اسکولوں کےمعیار سے بہت اونچا ہے۔ ٹیچر بہت محنت کرتےہیں۔
اِسی لئے تو ان کی اسکول میں داخلہ لینے کے لئے بچوں کے والدین کی قطاریں لگ گئی تھیں اور وہ اپنی قطاروں کا فائدہ اٹھاتے تھے۔
دیکھئے آپ اچھی طرح جانتے ہیں، ہماری اسکول کا تعلیمی معیار کتنا اونچا ہے۔ لیکن کیا کریں، ہماری اسکول کو کوئی سرکاری گرانٹ تو ملتی نہیں۔ وپ سےڈونیشن، فیس اور عوام سےاسکول چلانے کے لئے جو چندہ ملتا ہے اسی سے یہ اسکول چلتی ہے۔ اس لئے آپ لوگ ہماری مجبوریوں کو سمجھیں۔ ہم ڈونیشن کے نام پر آپ سےجو مانگ رہے ہیں وہ مانگ ہماری مجبوری ہے۔ ہم آپ لوگوں کی مجبوری کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھا رہے ہیں۔ اس لئے آپ ہماری مجبوریوں کو سمجھتے ہوئے اور اپنے بچوں کے تابناک مستقبل کے لئے زیادہ سے زیادہ رقم دیں، تاکہ اسکول چلانےمیں ہمیں، کوئی دقت نہ ہو اور ہم آپ کےبچوں کا مستقبل بنا سکیں۔’‘
اپنی مجبوریاں بتا کر اور لوگوں کو اُن کےبچوں کے سنہرےمستقبل کا خواب دِکھا کر اُنھوں نےبچوں کے داخلوں کےنام پر اونچی ڈونیشن وصول کی تھی۔
اس کا کہیں کوئی حساب کتاب نہیں تھا۔ وہ لاکھوں روپے ان کی تجوری میں جمع تھے اور اُن کے بزنس میں لگے ہوئے تھے۔
اسکول کھولنے کےنام پر بھی انھوں نے عوام سے لاکھوں روپےجمع کئےتھے، جن سے ان کا کاروبار بڑھا تھا۔ اس کے علاوہ بھی وہ آئے دن اسکول چلانے کےنام پر امیروں سےعطیات وصول کرتے رہتے تھے۔
اس طرح کتنا روپیہ جمع ہوا اور اسکول کے قیام، چلانے پر کتنا روپیہ خرچ ہو گیا، کتنا روپیہ باقی ہے، باقی بھی ہے یا نہیں؟ اس بارےمیں تو اسکول کے انتظامیہ کے اراکین کو بھی علم نہیں تھا۔
سیکریٹری کو کچھ کچھ معلوم تھا۔ لیکن وہ تو ان کا اپنا آدمی تھا۔
تمام ممبران صرف یہ جانتے تھےکہ اسکول کے لئے جگہ خریدی گئی اس جگہ عمارت تعمیر کرکے اسکول قائم کی گئی اسکول شروع ہوئی اسکول چلانے کے لئے ٹیچر اور ضروری عملہ متعین کیا گیا۔ اسکول اور ٹیچر کی تنخواہ کا خرچہ دن بہ دن بڑھتا ہی جارہا تھا۔ تمام اخراجات وہی ادا کرتے ہیں۔ اب اتنے پیشے تو جمع ہونے سے رہے۔ ضرور گپتاجی اپنی جیب سے بھی پیسہ لگائے ہوں گے، بڑےآدمی ہیں۔ بھگوان نے دھن کے ساتھ ساتھ بڑا دل بھی دیا ہے۔ اسی لئے تو اسکول میں دِل کھول کر پیسہ لگاتے ہیں۔ ہمیں اسکول کا ممبر بنا لیا، یہی ان کا بڑاپن ہے۔ اس ممبرشپ کے بدلے میں وہ ایک پیسہ بھی تو نہیں مانگتے ہیں نہ پہلے کبھی لیا۔ لوگ ایسے عہدوں کو پانے کے لئےلاکھوں روپےخرچ کرتےہیں، پھر بھی انھیں اس طرح کے عہدے مل نہیں سکتے۔ لیکن گپتا جی نے ہمیں یہ عہدہ مفت میں دیا ہے، یہ ان کا بڑاپن ہے۔ ممبران اب تک ان کے بارے میں شاید یہی سوچتے تھے۔ لیکن جب انھیں پتہ چلےگا کہ ابھی تک اسکول کو منظوری بھی نہیں ملی ہے۔ تو اب وہ ضرور پوچھیں گے۔
‘’گپتاجی! ہماری اسکول او ابھی تک منظوری کیوں نہیں مل پائی؟’‘
‘’اُنھیں سمجھانا کون سی بڑی بات ہے۔’‘ اُنھوں نے اپنا سر جھٹک دیا اور بڑبڑائے۔ ‘’کہہ دوں گا وزیر منظوری دینے کے دس لاکھ روپے مانگ رہا ہے۔ اسکول کے اراکین کے ناطے آپ لوگ ایک ایک لاکھ روپے دیں۔ اسکول کو منظوری مل جائےگی۔ یہ سنتےہی سب کی سٹی گُم ہو جائےگی۔ میں نے اراکین میں ایسے ایسے کنجوس جمع کئےہیں جو سگریٹ کے لئے بھی ایک روپیہ خرچ کرنے سے پہلے دس بار سوچتے ہیں۔ انھیں ایک لاکھ روپے چندہ دینے کے نام پر سانپ سونگھ جائےگا۔ اس کےبعد ان سے صاف کہہ دوں گا، آپ لوگ اتنا نہیں کر سکتے اور پھر بھی اسکول کے ممبر بنے رہنا چاہتے ہیں تو اسکول میں کیا ہو رہا ہے؟ اس پر دھیان نہ دیں۔ میں سب سنبھال لوں گا اِس کےبعد سب کی بولتی بند ہو جائےگی۔’‘
وہ اسکول گئے تو اسکول میں بچوں کےگھر والوں کا تانتا لگ گیا۔
‘’آپ کے اسکول کو ابھی تک منظوری نہیں مل سکی۔ اس طرح تو آپ کے اسکول میں پڑھ کر ہمارے بچوں کی زندگی برباد ہو جائےگی۔ وہ کہیں کےنہیں رہیں گے۔ آپ اسی طرح ہمارے بچوں کی زندگیوں سے تو نہ کھیلئے’‘
ان کا ایک ہی جواب ہوتا۔
‘’آپ بےفکر رہیئے، ہماری اسکول کو ایک ماہ کے اندر منظوری مل جائےگی۔’‘
بچوں کےماں، باپ سے نجات ملی تو ہیڈ ماسٹر اور ٹیچرس نے اُنھیں گھیر لیا۔
‘’سر! ہم ایک امید پر کم تنخواہ میں بھی سخت محنت کرکے بچوں کو پڑھا رہےہیں کہ گرانٹ ملنے کے بعد ہمیں اچھی تنخواہ ملےگی، لیکن اسکول کو ابھی تک منظوری ہی نہیں ملی ہے تو گرانٹ کس طرح ملےگی؟
‘’سب ٹھیک ہو جائےگا، آپ لوگ اپنی اپنی کلاس میں جائیے۔’‘
سب چپ چاپ اپنی اپنی کلاسوں میں چلےگئے۔
ان کے جانے کے بعد انھوں نے سیکریٹری، کلرک اور ہیڈ ماسٹر کا حکم دیا۔
‘’بی، ڈی، او، زیڈ، پی، ایجوکیشن چیئرمین، محکمہ تعلیم، وزارت تعلیم اور وزیر تعلیم سب جگہ ایک خط بھیج دو۔ اگر ایک ماہ کےاندر ہماری اسکول کو منظوری نہیں دی گئی تو اسکول کےانتظامیہ کے اراکین، ہیڈماسٹر، ٹیچر، کلرک اور چپراسی اسکول میں پڑھنے والے سبھی بچے اور ان کے والدین منترالیہ کے سامنے بھوک ہڑتال کریں گے اور منظوری ملنے تک دھرنا دیں گے۔ اس خط سے دیکھنا ہلچل مچ جائےگی اور ایک ماہ کےاندر منظوری کا خط ہمارے ہاتھوں میں ہوگا۔’‘
ان کی بات سن کر ہر کسی کی آنکھوں میں امید کی ایک نئی کرن جگمگانےلگی۔
دھمکی بھی کارگر ثابت نہیں ہو سکی۔ کچھ جگہوں سےتو دھمکی کا کوئی جواب ہی نہیں آیا اور کچھ جگہوں سےٹکا سا جواب آیا تھا۔
”ضابطوں اور اصولوں کےمطابق آپ کی اسکول کو منظوری نہیں دی جا سکتی ہے۔’‘
سب کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔
‘’ٹھیک ہے۔’‘ پتہ نہیں کیوں پھر بھی ان کی آنکھوں میں ایک خود اعتمادی تھی۔ ٠٢ تاریخ کو یہاں سےمنترالیہ تک ایک مورچےکا انتظام کیا جائے۔ ٠٢ تاریخ کو تمام منجمینٹ کے اراکین، ہیڈ ماسٹر، ٹیچرس، اسٹاف، تمام بچےاور بچوں کےماں، باپ اس دھرنےمیں شامل ہونے چاہیئیں۔ سب مل کر منترالیہ پر دھرنا دیں گےاور اسکول کی منظوری نہ ملنے تک بھوک ہڑتال کریں گے’‘
‘’جی!’‘ سب نےایک ساتھ جواب دیا۔
٠٢ تاریخ کو دو لاریوں میں ٠٢٢ سےزائد بچوں کو ٹھونس ٹھونس کر بھرا گیا۔ جگہ اِتنی تنگ تھی کہ بچےنہ کھڑے ہو سکتےتھے نہ بیٹھ سکتے تھے۔ انھیں سانس لینا مشکل ہو رہا تھا۔ لیکن وہ کوئی فریاد نہیں کر سکتے تھے۔ فریاد سننے والا کوئی نہیں تھا۔
ایک بڑی سی گاڑی میں انتظامیہ کے اراکین تھے۔ دوسری چھوٹی گاڑی میں ہیڈماسٹر، ٹیچرس اور اسٹاف تھا۔
صرف چند بچوں کےماں، باپ مورچےمیں شامل ہونے کو تیار ہوئے تھے۔ انھیں مورچے کے مقام پر پہنچنے کے لئے کہا گیا تھا۔ دو گھنٹے بعد گاڑیاں آزاد میدان میں جاکر رکیں۔
بچے گاڑیوں سے اترے تو انھیں ایسا محسوس ہوا جیسے انھیں کسی جہنم سے نجات مل گئی ہے۔
سورج سر پر چڑھ آیا تھا اور آسمان آگ برسا رہا تھا۔
مورچے کی تیاری کی جانےلگی۔ بچوں کے ہاتھوں میں تختیاں اور بینرس دےکر انھیں نعرے یاد کرائے جانے لگے۔ انھیں ضروری ہدایتیں دی جانے لگیں۔
‘’سر! پانی، بہت لگی ہے۔’‘ کوئی بچہ ہونٹوں پر زبان پھیر کر بولا تو اس کی آواز میں سیکڑوں آوازیں شامل ہو گئیں۔
‘’یہاں پانی نہیں ملےگا۔ ہم یہاں بھوک ہڑتال کرنےآئےہیں، کھانےپینےنہیں۔’‘ ایک ٹیچر نے اُسے سمجھایا تو بچے اپنے پھٹے ہوئے ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگے۔
پیاس سےحلق میں کانٹے پڑ رہے تھے۔ گلے سے آواز نہیں نکل رہی تھی۔ اوپر سر پر سورج آگ برسا رہا تھا۔ لیکن پھر بھی وہ پوری قوت سےنعرے لگاتے لڑکھڑاتے قدموں سے آگے بڑھ رہے تھے۔
”ہماری مانگیں پوری کرو’‘
‘’ہماری اسکول کو منظوری دو’‘
”ہماری زندگیوں سے مت کھیلو’‘
‘’وزیر تعلیم! ہائے‘ ہائے’‘
‘’محکمہ
تعلیم! ہائے، ہائے’‘
‘’وزیر اعلیٰ! مردہ باد’‘
ٹیچرس بچوں پر نظر رکھے ہوئے تھے۔
انھیں زور زور سےنعرےلگانے کے لئے اکساتے۔ کوئی بچہ نعرہ نہیں لگاتا تو اسے ٹوکتے۔ آپس میں باتیں کرنے والے بچوں کو ڈانٹتے۔ کسی کسی پر ہاتھ بھی اٹھا دیتے۔ بچوں کو قطار میں ٹریفک سےبچ کر چلنےکی ہدایتیں دیتے۔
انتظامیہ کے اراکین ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی مذاق کرتے چل رہے تھے۔ کبھی کوئی ممبر سب کے لئے آئس کریم یا کولڈ ڈرنک لے آیا تو کوئی سافٹ ڈرنک کی بوتلیں یا پھر کھانے پینے کی کوئی چیز۔ ان سب کا لطف اُٹھاتے وہ مورچے کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔
دو گھنٹے بعد مورچہ منترالیہ پہنچ گیا۔ منترالیہ سے پہلے ہی بڑے سے میدان میں پولس نے انھیں روک لیا۔
سب میدان میں دھرنا دےکر بیٹھ گئے۔
آگے آگے گپتاجی، سیکریٹری اور انتظامیہ کے اراکین تھے۔ ان کے پیچھے ہیڈ ماسٹر، ٹیچر، دیگر اسٹاف اور ان کے پیچھے بچے۔
سب زور زور سےنعرے لگا رہے تھے۔
سب کو سختی سےحکم دیا گیا تھا کہ وہ اتنی زور سے چیخیں کہ منترالیہ کی چھتیں ہل جائیں۔
لیکن دس کروڑ عوام کی چیخوں سے جن کا کچھ نہیں بگڑتا تھا، سو دو سو بچوں کےنعرے بھلا ان کا کیا بگاڑ سکتے تھے۔
کسی وزیر کی گاڑی آتی تو ‘’زندہ باد، مردہ باد’‘ کے نعرےاور زور زور سےلگائے جاتے۔
بھوک پیاس سے بچوں کا برا حال تھا اوپر سے تپتی دھوپ جس زمین پر وہ بیٹھے تھے وہ بھی تندور کی طرح تپ رہی تھی۔ بچوں کی آنکھوں کےسامنےاندھیرا چھا رہا تھا۔ اچانک ایک بچہ چکرا کر گرا اور بےہوش ہو گیا۔ سب اس کی طرف دوڑے۔ اسے ہوش میں لانے کی کوشش کی جانے لگی۔ لیکن بچہ آنکھ نہیں کھول رہ تھا۔
قریب کھڑے ڈاکٹر نے بچے کو چیک کیا اور متفکر آواز میں بولا۔
‘’اس بچےکی حالت بہت نازک ہے۔ اس کا بلڈ پریشر لو ہو رہا ہے۔ اسےفوراً اسپتال پہنچانا بہت بہت ضروری ہے۔’‘
‘’نہیں!’‘ گپتاجی ڈٹ گئے۔ ‘’چاہےبچےکی جان چلی جائے۔ بچہ دھرنے سے نہیں ہٹےگا۔ جب تک ہماری مانگ پوری نہیں ہوتی، کوئی بھی بچہ یہاں سےنہیں ہلےگا۔’‘
اس درمیان دو اور بچے چکراکر گر گئے تھے۔
کئی بچوں نےبھوک اور کمزوری سےاپنی گردنیں اپنے ساتھیوں کے کاندھوں پر ڈال دی تھیں، کچھ کمزوری کی وجہ سے زمین پر لیٹ گئے تھے۔ ڈاکٹر اور وہاں پہرہ دینے والے پولس والوں کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔
گپتاجی اور ان کے ساتھیوں پر فاتحانہ مسکراہٹ رقص کر رہی تھی۔
خبریں منترالیہ میں پہونچی اور وہی ہوا جو ایسے موقعوں پر ہوتا ہے۔ منترالیہ ہلنے لگا۔
‘’ایک آدھ بچہ مر گیا تو اپوزیشن اور پریس سارا آسمان سر پر اٹھا لیں گے اور ہماری حکومت کے دشمن ہو جائیں گے۔ ان سےکہہ دو کہ وہ دھرنا ختم کرکے واپس اپنے شہر چلےجائیں۔ ان کی اسکول کی منظوری کے بارے میں سنجیدگی سے غور کیا جائےگا۔’‘
ایک سیکریٹری بولا۔
‘’سر وہ منظوری سےکم کسی بھی وعدے پر بات کرنے کو تیار نہیں ہے۔ صفا کہتےہیں کہ ان کی اسکول کو منظوری دی جائےگی تب ہی وہ دھرنےسےہٹیں گے۔’‘
اس درمیان چار اور بچوں کے بےہوش ہونے کی خبر اوپر پہونچی۔ وزیر تعلیم کے سارے سیکریٹری گھبرا گئے۔ وزیر اعلیٰ کے سیکریٹری کے بھی کان کھڑے ہو گئے۔
بات وزیر اعلیٰ تک پہونچ گئی تھی۔ وہ غصے سے بولا ‘’تماشہ بنا کر بات مت بڑھاو۔ وزیر تعلیم سے فوراً کہو کہ میرا حکم ہے۔ ان کی اسکول کو فوراً منظوری دےدو۔’‘
نیچے آکر گپتاجی کو یہ خبر دی گئی۔
‘’وزیر تعلیم نےآپ کی اسکول کو منظوری دےدی ہے اور وہ آپ سےبات کرنا چاہتے ہیں۔’‘
گپتاجی کا چہرہ گلاب کی طرح کھل اٹھا۔
‘’میرے پیارے ساتھیوں اور بچوں! ہمارا دھرنا کامیاب رہا۔ جس کام کے لئے ہم نےدھرنا دیا تھا، مورچہ نکالا تھا وہ کام ہو گیا ہے۔ وزیر تعلیم نےہماری اسکول کو منظوری دے دی ہے۔ اس دھرنےمیں ہمیں جو تکلیفیں اُٹھانی پڑیں، وہ رنگ لائی ہیں۔ کچھ پانے کے لئےکچھ کھونا پڑتا ہے، کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اپنے حقوق کو حاصل کرنے کے لئےجو لڑائیاں لڑی جاتی ہیں ان میں مشکلات اور تکلیفیں تو اٹھانی پڑتی ہیں، لیکن آخر میں جیت سچائی کی ہی ہوتی ہے۔ آپ لوگ دھرنا ختم کرکےشہر واپس چلے جائیں۔ میں اور کمیٹی کے اراکین منتری جی سے بات کرکے آتے ہیں منتری جی نے ہمیں چائے پر بلایا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.