دھوپ
نالے کا پل بہت اونچائی پہ تھا، چڑھتے چڑھتے اس کا دم پھول گیا۔ پل پر پہنچ کر وہ رک گیا۔ یہ شہر کی آخری حد تھی۔ یہاں سے اب کھیت اور کھلی زمینیں شروع ہوتی تھیں۔ اس نے سستانے کے انداز میں کمر پر ہاتھ رکھے اور آنکھیں سکیڑ کر دور دور تک دوپہر کے چمکتے ہوئے رنگوں کو دیکھا۔ بہار کے موسم میں کوئی فرق نہ آیا تھا۔
’’یہ پھاگن ہے‘‘۔ اس نے خوشی سے سوچا اور ذہن پر زور دے کر یاد کرنے کی کوشش کی کہ بھلا پھاگن کی کون سی تاریخ تھی!
تھوڑی دیر کے بعد ہار کر اس نے سوچا۔۔۔’بیس برس گزر گئے!‘ اور عمر کے گزرنے کو زبان کے نیچے سے ابل کر نکلتے ہوئے لعاب میں محسوس کیا۔
پھر اس نے ماتھے پر سایہ کرتے ہوئے فلیٹ ہیٹ کو آنکھوں پر کھینچا اور پلٹ کر نظر ڈالی۔ پل پر چڑھتی ہوئی سڑک پر اب اس کا سات سالہ بچہ چلا آ رہا تھا۔ چڑھائی کافی تھی اور بچہ ایک گول اور چکنے سلیٹی رنگ کے پتھر سے فٹ بال کھیلتا ہوا دم لے لے کر چڑھ رہا تھا۔ پیچھے شہر تھا۔ شہر کے پیچھے سورج تھا۔ وسط میں اکبر بادشاہ کا قلعہ تھا جو سب سے اونچا (اور اندر سے ویران) تھا۔ جس کے دونوں جانب ایک کے ساتھ ایک بنے ہوئے مکانوں کی چھتوں اور دیواروں کی ٹوٹی پھوٹی سیاہ لکیر ایک خاص زاوئیے پر ڈھلتی تھی یوں کہ دور سے شہر چمک دار آسمان کے مقابل ایک بہت بھاری اور سیاہ حجم والی اور بہت پھیلے ہوئے دامن والی مخروطی پہاڑی کی طرح لگتا تھا جو جیتی جاگتی ہو۔ اس کے اوپر کہیں کہیں بہار کی چھوٹی چھوٹی بدلیاں تھیں۔۔۔دھنکی ہوئی اور پریس کی ہوئی روئی کی کٹی پھٹی، گول اور گھنی، تلملا کر ابل کر نکلتی ہوئی تند اور ٹھوس اور بھاری اور جامد چٹانیں۔ بہار کی بدلیوں کی اس مخصوص شکل سے وہ بچپن سے مانوس تھا۔ اس شہر میں وہ پیدا ہوا تھا۔ اس مہینے کے آسمان کے لش لش کرتے ہوئے زردی مائل نیلے رنگ سے بھی وہ ایک عمر سے واقف تھا جہاں نظر نہ ٹھہرتی تھی اور گو آج صبح بیس سال کے بعد وہ اپنے شہر کو لوٹا تھا مگر اس وقت پل پر قدم رکھتے ہی اس کو اندازہ ہو گیا تھا کہ موسم بہار میں کوئی فرق نہ آیا تھا۔
اب اس کا بیٹا اس کے پاس پہنچ چکا تھا اور باپ کی طرح کمر پر ہاتھ رکھے، سورج کے مقابل آنکھیں سکیڑے شہر کو دیکھ رہا تھا۔
’’دم لے لو‘‘۔ اس نے بیٹے سے کہا۔
بچہ اسی گول کنکر سے فٹ بال کھیلتا ہوا پل کے دوسرے سرے پر جا کھڑا ہوا اور سورج کی طرف پشت کر کے پل سے اترتی ہوئی سڑک کو دیکھنے لگا۔
’’بابا!‘‘ بچے نے کہا، ’’زمین گول ہے نا؟‘‘
’’ہاں‘‘۔ اس نے کہا اور پل سے ڈھلتی ہوئی سڑک پر نظر ڈال کر مسکرایا۔ ’’ہر چیز گول ہے بیٹے‘‘۔
’’ہر چیز؟‘‘
وہ بیٹے کے کندھے پر ہاتھ رکھے پل سے اترنے لگا۔ اب دونوں باپ بیٹے کی پشت سورج کی طرف تھی اور ن کے سائیے آگے آگے سڑک سے لپٹے ہوئے چل رہے تھے۔ ’’چلو‘‘۔ پھر اچانک اس نے نعرہ لگایا۔
’’چلو!‘‘ اور بیٹے کو کندھے پر ٹھونک کر بھاگ کھڑا ہوا۔ بچہ آواز نکالے بغیر ہنسا اور باپ کے پیچھے پیچھے ڈھلان پر بھاگنے لگا۔ یہاں پر سڑک تقریباً سنسان تھی۔ صرف دور آگے ایک تانگہ دیہاتی سواریوں سے لدا ہوا جا رہا تھا۔ پہلے پہر کی ہوا ابھی تھمی نہ تھی اور جاڑوں کے گرے ہوئے پتے سڑک کے کنارے کنارے اڑے جا رہے تھے۔ دوڑتے دوڑتے اس نے مکڑی کے ایک تار کو عین اپنی آنکھوں کے برابر دیکھا اور ہوا میں غوطہ لگاکر نکل گیا۔ جب ڈھلان ختم ہوگئی اور زمین ہموار آ گئی تو وہ رک گیا۔ بچہ دوڑ کی تیزی میں اس سے آکر ٹکرایا اور اس کے بازو کے ساتھ جھول گیا۔ چند منٹ تک دونوں خاموش کھڑے ہنستے اور سانس برابر کرتے رہے۔ پھر اس نے بیٹے کے کندھوں کو اپنے بازوؤں کے گھیرمیں لے لیا اور سڑک چھوڑ کر کھیتوں میں قدم دھرا۔
’’استرے کی دھار کبھی دیکھی ہے بیٹے؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’ہاں‘‘۔
’’کیسی ہوتی ہے بھلا؟‘‘
’بڑی تیز ہوتی ہے‘‘۔
’’وہ گول بھی ہوتی ہے‘‘۔
’’گول ہوتی ہے؟‘‘
’’اگر اسے بہت بڑی خوردبین میں سے دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ اصل میں گول ہے‘‘۔
’’بہوت بڑی خورد بین میں سے؟‘‘
وہ لفظوں کے غلط استعمال پہ دل ہی دل میں ایک ساتھ جھنجھلایا اور محظوظ ہوا، ’’میرا مطلب ہے کہ بہت طاقت ور خورد بین میں سے‘‘۔ اس نے کہا۔
بچہ سمجھ گیا کہ اس کے ساتھ مذا ق ہو رہا ہے۔ وہ بے یقینی سے ہنسا اور باپ کا بازو پکڑ کر جھول گیا۔
اب وہ ایک تنگ سی پگڈنڈی پر جا رہے تھے۔ جس کے دونوں بازوؤں پر گیہوں کی فصل کھڑی تھی۔ گیہوں کی گہرے سبز رنگ کی فصل ابھی گھٹنوں گھٹنوں آئی تھی اور دو ر دور تک اگی ہوئی تھی اور اس کی ہمواری اس بات کا پتا دیتی تھی کہ زمین بڑی لائق ہے اور پانی ہر بیج بوئے ڈھیلے کو وافر اور یک سا ملا ہے۔ زردی مائل سبز رنگ کی لمبی لمبی مونچھوں والی ان گنت نازک بدن بالیاں قطار در قطار ہوا کے رخ جھکی ہوئی تھیں اور رکوع میں گئے ہوئے عیدین کے نمازیوں کی یاد دلاتی تھیں۔
جب بھی موسم بدلتا تھا اور سورج میں چمک پیدا ہوتی تھی اور گیہوںں کی جڑوں پر زردی چڑھنے لگتی تھی یہی نیم گرم ہوائیں کہیں سے آتی تھیں اور جادو کی طرح ساری زمین پر چل جاتی تھیں۔۔۔ اس نے یاد کیا۔۔۔اور سارے چرند پرند، پیڑ پودے، حیون اور انسان انہی زرد رنگ ہواؤں کے طلسم میں جیسے جکڑے جاتے تھے اور لہوکا سست اچھال اس تال پہ لہر مارتا تھا جو کہیں سنائی نہ دیتی تھی، جس کی بے آواز دھمک وہ جذبہ جگاتی تھی جو صرف بدلتے ہوئے موسم کا جذبہ ہوتا ہے اور جو نہ اداس کرتا ہے نہ مسرور، صرف نئے سرے سے پیدا کرتا ہے۔۔۔ اس نے یاد کیا۔۔۔اور اسی موسم میں جب وہ سات برس کا تھا اور اپنی پہلی پہلی ائیر گن کندھے پر رکھے پگڈنڈیوں پر اپنے باپ کے ساتھ شکار کی تلاش میں گھوما کرتا تھا تو اس کا باپ ہاتھ بڑھا کر ایک سٹا توڑتا تھا اور اسے الٹا کر کے چپکے سے اس کے پاجامے میں گھسا دیا کرتا تھا اور پھر وہ جوں جوں اسے نکالنے کی کوشش کرتا وہ اوپر ہی اوپر چڑھتا جاتا اور اس کا باپ مصنوعی تشویش کے لہجے میں کہتا ’’کیا ہے بیٹے!۔۔۔ کیا بات ہے بیٹے؟‘‘ او ادھر ادھر سے جھانکتا رہتا مگر سٹے کے نکالنے میں اس کی کوئی مدد نہ کرتا بلکہ پیٹ ہی پیٹ میں ہنسے جاتا، ہنسے جاتا۔ پھر وہ تنگ آکر اپنی ائیر گن کو پگڈنڈی پر رکھ دیتا اور دونوں ہاتھوں سے سٹے کو نیچے کی طرف دھکیلتا اور وہ پاجامے کے اندر پھدک پھدک کراوپر ہی اوپر چڑھتا جاتا یوں جیسے کوئی لمبی سی چڑیا ہو۔ اسی طرح، گو بعد میں وہ بڑا ہو گیا اور اسے سٹے کے اس عمل کا اصل پتا چل گیا، مگر ہمیشہ کے لیے اس کے ذہن کے اس حصے میں، جو نامعلوم کی خبر رکھتا ہے اور شاید اصل سے زیادہ اصل ہوتا ہے، سٹے کا وہ روپ رہ گیا جو لمبی سی چڑیا یا گھاس کے طوطے ایسی کسی پھدکنے والی جاندار شے کا تھا۔
اس نے ہاتھ بڑھا کر گیہوں کی ایک بالی توڑی اور اس کی مونچھوں کو اگلے دانتوں میں داب کر کنکھیوں سے پیچھے دیکھا۔ اس کا بیٹا نیکر کی جیبوں میں ہاتھ دئیے تنگ پگڈنڈی پر سنبھل سنبھل کر چل رہا تھا۔
’’تاریخ بھی گول ہوتی ہے‘‘۔ اس نے کہا۔
’’کیسے؟‘‘
’’کہ اپنے آپ کو دہراتی ہے‘‘۔
’’کیسے؟‘‘
’’ایسے۔۔۔‘‘ وہ سٹے کی مونچھوں کو اگلے دانتوں میں چباتے ہوئے بولا، ’’کہ بڑی بڑی فوجیں اٹھتی ہیں اور ملک ملک پر جھنڈے گاڑتی ہیں اور ایک ایک سپاہی فاتح بنتا ہے اور داستانوں میں نام پاتا ہے‘‘۔اس نے کہا، ’’یہاں سے ان کا زوال شروع ہوتا ہے۔ اس لیے کہ مفتوح کمزور ہوتا ہے اور کمزوری میں بڑی قوت ہوتی ہے۔ وہ قصے اور قصیدے سے، اختیار کے لالچ سے اور غرور کے تحفے سے فاتح کا مار گراتا ہے۔ صرف وقت ذرا زیادہ لیتا ہے۔ ایک صرف یہی فرق پڑتا ہے اور بس اور فاتح کو اس وقت ہوش آتا ہے جب اس کے رومانس کا خاتمہ ہو چکا ہوتا ہے۔ اس طرح تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے اور ہر اس چیز کی طرح، جو اپنے آپ کو دہراتی ہے، گول ہوتی ہے‘‘۔ اس نے کہا، ’’چاند سورج، تارے، زمین، آسمان، پیڑ، پودے، لہو۔۔۔‘‘
’’لہو؟‘‘ بچے نے پوچھا۔
’’ہاں‘‘۔ اس نے کہا، ’’یہ سر کے بالوں سے پیر کے ناخنوں کو جاتا ہے اور پیر کے ناخنوں سے سر کے بالوں کو اور پھر پیر کے ناخنوں کو اور اس طرح بدن کے لامقام سفر میں چکر کاٹتا ہے، گول۔ گول۔ گول۔۔۔‘‘ وہ ہنسا۔
مگر اب بچہ سنجیدگی سے دلچسپی لے رہا تھا۔ ’’بابا۔۔۔‘‘ اس نے پوچھا، ’’آدمی بھی گول ہوتے ہیں؟‘‘
وہ حیران رہ گیا۔ منطقی طور پر اگلا سوال یہی ہو سکتا تھا۔ مگر عام لوگوں کی طرح وہ بھی اس غیرمنطقی روئیے کا شکار تھا جو بہت سی ہونے والی باتوں کے سارے میں انہیں خوش فہم بنائے رکھتا ہے۔ چنانچہ وہ یہ سوال سن کر حیران رہ گیا۔
’’ہاں‘‘۔ اس نے کہا، ’’سویرے سے شام کرتے ہیں اور شام سے سویرا اور اپنی عادت کے اس چکر میں لگاتار گھومتے ہیں، لگا تار۔ چنانچہ گول ہوتے ہیں‘‘۔
بچہ بے یقینی سے ہنسا۔
’’اسی چکر کو توڑنا فن ہے‘‘۔ اس نے بات ختم کی۔
اب وہ ایک ایسے کھیت میں سے گزر رہے تھے جہاں سے گنے کی فصل ماگھ میں کاٹی جا چکی تھی۔ اس کھیت کی خشک مٹی پپڑیوں اور ڈھیلوں میں جمی ہوئی تھی۔ کمزور سفید زمین جگہ جگہ سے تڑخی ہوئی اور ناہموار تھی اور گنے کی خشک جڑیں جگہ جگہ سے ابھری ہوئی تھیں اور ان میں مٹیالے رنگ کے کیڑے مکوڑے چل رہے تھے۔ گنے کی جھڑی ہوئی چھال کے زرد ٹکڑے نیم گرم بگولوں میں ہلکا ہلکا شور کرتے ہوئے اڑ رہے تھے۔ بھوسلی چڑیوں کی ایک ڈار ان کے سروں سے شاں کرکے گزری۔
’’اس کھیت میں اب تک ہل چل جانا چاہیے تھا‘‘۔ اس نے کہا۔
’’پھر کیوں نہیں چلا؟‘‘ بچے نے پوچھا۔
’’گنے کی جڑیں دوبارہ پھوٹ پڑتی ہیں‘‘۔ اس نے کہا، ’’پر فصل آدھی بھی نہیں اترتی۔ کام سے جی چرانے والے کسان اسی پر قناعت کر لیتے ہیں‘‘۔
’’بابا! ‘‘ بچے نے کہا، ’’کسان تو کا م سے جی نہیں چراتے‘‘۔
’’کسان بھی عام آدمیوں کی طرح آدمی ہوتے ہیں بیٹے‘‘۔ اس نے کہا، ’’چنانچہ گول ہوتے ہیں‘‘۔ بچہ بے یقینی سے ہنسا اور پگڈنڈی پر بھاگتا ہوا آگے نکل گیا۔ آگے ایک سہاگہ پھیر کر تیار کیا ہوا کھیت تھا۔ اس نے بچے کو دوڑ کے زور میں چند قدم کھیت کے اندر جاتے اور اس کے پاؤں کو جوتوں سمیت نرم زمین میں اترتے ہوئے دیکھا۔ اسے یاد آیا کہ بچپن میں اسے بھی سہاگہ پھرے ہموار کھیت میں ننگے پاؤں بھاگنا (جب پاؤں ٹخنوں سے اوپر اوپر تک روئی کی سی نرم اور بھربھری مٹی میں ہوا کی طرح دھنس جاتے تھے اور اندر تلوؤں کو کھیت کی دبی ہوئی نمی کی مخصوص ٹھنڈک اور حدت بیک وقت جادو کی طرح چڑھتی تھی) بڑا اچھا لگتا تھا۔ اس نے پگڈنڈی پررک کر، آنکھیں سکیڑ کر کھیت کی چمچماتی ہوئی سید ھی سطح پر نظر ڈالی اور اس کی طاقت ور سیاہ، سیراب مٹی کی قدیم، مانوس بو کو سونگھا اور اس کے نتھنے پھڑکنے لگے۔
’’اس کھیت کا کسان محنتی ہے‘‘۔ اس نے کہا۔
’’بابا! ‘‘ بچے نے شرارت سے پوچھا، ’’گول بھی ہے؟‘‘
’’ٹھہرو۔۔۔‘‘ اس نے نعرہ لگایا اور بیٹے کے پیچھے دوڑ پڑا۔
تنگ پگڈنڈیوں پر آگے پیچھے دوڑتے اور ہنستے ہوئے وہ کئی کھیتوں میں سے گزرے۔ اس کا بیٹا اس سے کہیں ہلکا اور پاؤں کا پکا تھا۔ وہ خرگوش کی سی پھرتی اور آسانی سے اس کے آگے آگے بھاگ رہا تھا جب کہ خود اس کا پاؤں کئی بار پگڈنڈی سے پھسل کر ادھر ادھر گیلے اور خشک کھیتوں میں پڑ چکا تھا اور کیچڑ اور مٹی سے لتھڑ گیا تھا۔ جب ایک پگڈنڈی ختم ہو جاتی اور دوسری اسے زاویہ قائمہ پر کاٹتی ہوئی ملتی تو بچہ رک جاتا اور ایک لحظے تک فیصلہ نہ کر سکتا کہ دائیں کو مڑے یا بائیں کو۔ پھر وہ مڑ کر دیکھتا اور اپنے باپ کو تیزی سے بڑھتے ہوئے پاکر اندھا دھند ایک طرف کو مڑ جاتا اور بھاگنے لگتا۔ مگر اسی ایک لحظے میں اس کا باپ درمیانی فاصلے کو چند قدم کم کرنے میں کامیاب ہو جاتا۔
اب وہ ایک نسبتاً چوڑی اور سیدھی پگڈنڈی پر ایک دو سرے کا پیچھا کر رہے تھے۔ اس پگڈنڈی کے دونوں جانب گیہوں کی فصل کھڑی تھی جسے شاید آخری پانی لگایا جا رہا تھا۔ ان کے قدموں کی دھمک سے ڈر کر دو خرگوش اور ایک جنگلی بلا ایک طرف سے نمودار ہوئے اور ان کے رستے کو پھلانگ کر دوسری طرف فصل میں غائب ہو گئے۔ ایک کھیت سے ننھی خاکستری چڑیوں کی ڈار اڑی اور فصل کے اوپر اوپر تیرنے لگی۔ ایک طرف کی بالیوں میں چلتی ہوئی ہوا اس کے چہر ے کو چھوتی، بال اڑاتی، اس کا لہور اچھالتی ہوئی دوسری طرف کی بالیوں میں گم ہوتی جا رہی تھی۔ وہ اپنے بیٹے سے صرف ایک قدم پیچھے تھا اور ہاتھ پھیلاکر تیزی سے قریب ہوتا اور بچے کے نرم اور گرم اور تڑپتے پھسلتے پیارے بدن کو قابو میں کرنے کے لیے بے تاب ہوا جا رہا تھا کہ دفعتاً پگڈنڈی ختم ہو گئی۔ آگے ایک کنواں تھا۔ وہ ٹھٹک کر رک گیا۔
اسی پگڈنڈی پر اسی موسم میں وہ سات سال کا تھا۔۔۔ اس نے یاد کیا۔۔۔اور اپنے باپ کے آگے آگے دوڑ رہا تھا کہ پگڈنڈی ختم ہو گئی تھی اور وہ کنویں کے پانی کی نالی پھلانگ کر آگے نکل گیا تھا اور اس کا باپ، کہ ہر قسم کی چھلانگ لگانے سے گھبراتا تھا، وہیں رک گیا تھا اور مڑ کر ہوا میں جھوٹ موٹ غور سے دیکھنے لگا تھا جیسے اس کی کوئی بیش قیمت چیز پیچھے رہ گئی ہو۔ یہی زمین تھی اور یہی فصل تھی اور یہی پانی اور بالیوں میں سرسراتی ہوئی تازہ نیم جوش ہوا تھی اور خاکستری رنگ کی ننھی ننھی چڑیوں کی ڈار فصلوں کے اوپر اوپر تیرتی تھی اور باپ اور بیٹا تعاقب میں تھے۔ اس نے یاد کیا۔۔۔ باپ اور بیٹا اور زمین اور باپ اور بیٹا! واقعات کیسے اپنے چکر کو پورا کرتے تھے اور کیسے اختصار اور ضابطے اور نو نانسنس کے ساتھ جیسے گھڑی کی سوئیاں! وہ حیران رہ گیا۔
پھر وہ گھٹنا ٹیک کر زمین پر بیٹھ گیا اور بہتے ہوئے شفاف پانی میں ہاتھ ڈال کر ہاتھ کو دیکھا اور انگلیوں کی پوروں پر اس ٹھنڈک اور حدت کو بیک وقت محسوس کیا جو گہری مٹی اور بہتے ہوئے پانی اور انسانی بدن کی پراسرار خاصیت ہوتی ہے اور جو اس وقت سے تھی جب وہ سات برس کا تھا اور اس نے گیلی خنک مٹی اور ادھ پکی فصل کی بےنام خوشبو کو سونگھا جو وہیں کی وہیں قائم تھی۔۔۔ اب بھی جب وہ پینتیس برس کا ہو چکا تھا اور اس پر زندگی کے اس خوفناک منشی اور لامقام جادو کے چکر کا انکشاف ہوا اور اس نے سوچا صرف پانی لہو میں بدل جاتا ہے اور زمین کے رستے نسل سے نسل کو منتقل ہوتا ہے اور ساتھ ساتھ سرگرداں رہتا ہے۔۔۔ باپ سے بیٹے کو، باپ سے بیٹے کو!
پانی میں تیرتے ہوئے سفید لمبی لمبی پتلی انگلیوں والے ہاتھ کو دیکھ کر اسے یاد آیا کہ اس کنویں کی پشت پر، جہاں سے یہ پگڈنڈی دوبارہ شروع ہوتی تھی، ایک نجومی بیٹھا کرتا تھا جس کے آگے ایک میلا سا کپڑا پھیلا ہوتا تھا جس پر عجیب و غریب قسم کے سکے اور پیتل کے چھوٹے چھوٹے نمبروں والے مکعب بکھرے رہتے تھے۔ اس نے پانی سے ہاتھ نکال کر چہرے پہ پھیرا او پھر بالوں سے پونچھ کر خشک کیا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ کنواں ریں ریں کی مدھم، یکساں، خواب آلود آواز نکالتا ہوا چل رہا تھا اور اس کا بیٹا اچک کر گادی پر سوار ہو بیٹھا تھا اور ایک کھوپے چڑھے بیل کی دم پکڑ کر کھینچ رہا تھا۔ دائیں طرف جامن اور شہتوت کے پیڑوں کا جھنڈ تھا جس میں کاشت کار کا کچا مکان تھا۔ کاشت کار اپنے مکان کے سامنے بیٹھا ٹوکے سے چارہ کتر رہا تھا۔ مکان کی دیوار کے ساتھ کھرلی پر بھینس بندھی تھی جس کی پشت پر ایک کوا بیٹھا چونچ مار رہا تھا۔ اس سایہ دار، خاموش اور پرامن منظر کو آنکھوں میں اتار کر اس نے ایک لمبا چکر کاٹا اور ڈیرے کی پشت پر جا نکلا۔ جوتشی کی جگہ خالی تھی۔
اس کے پیچھے کنویں کے چلنے اور پانی کے بہنے اور کسان کے ٹوکے کی آوا ز تھی اور گہری سایہ دار جگہوں میں گرے ہوئے پرانے پتوں کی تیز بوتھی اور سامنے چلچلاتے ہوئے رنگ تھے اور گیہوں کی لاکھوں جھومتی ہوئی بالیوں کی سرسراہٹ تھی۔ ساری جگہوں میں سے جوتشی نے صرف اسی جگہ کا انتخاب کیوں کیا تھا؟ اس نے سوچا۔ حالانکہ یہاں سے صرف پیدل دہقان گزرا کرتے تھے اور اس نے کبھی کسی دہقان کو جوتشی کے پاس بیٹھے ہوئے نہ دیکھا تھا۔ یہ ایک ایسی ہی پراسرار بات تھی جیسی بچپن کی ساری سرزمین ہوتی ہے۔ اس نے سوچا اور جوتشی جب تک وہاں رہا تھا ہمیشہ بڑے اطمینان اور فراغت سے وہاں بیٹھا ہوا ملتا رہا تھا۔ اس کے پاس پرانی سی سیاہ صندوقچی پڑی رہتی تھی جس پر چند بوسیدہ کتابیں اوپر نیچے رکھی ہوتی تھیں جن کے ساتھ ایک۔۔۔ انسانی ہاتھ کی شکل بنی ہوئی تھی اور ہتھیلی میں چند لکیریں کھچی تھیں اور نیچے بڑے بڑے لفظوں میں لکھا تھا: جوتش، رمل، نجوم، ابجد۔
’’ابجد؟‘‘ ایک روز ا س نے اپنے باپ سے پوچھا تھا، ’’یہ کیا ہوتا ہے بابا!‘‘ اور اس کا باپ کہ اور ساری باتوں کے علاوہ ابجد کا بھی علم رکھتا تھا (اس کے باپ کی بڑی بڑی مونچھیں تھیں اور وہ دنیا کے سارے علموں کا ماہر تھا) بولا تھا: ’’اسموں کا علم ہوتا ہے بیٹے‘‘۔
’’اسموں کا؟‘‘ اس نے پوچھا تھا۔
’’ہاں۔۔۔‘‘ اس کے باپ نے کہا تھا، ’’ناموں کا‘‘۔
’’ہر شخص کے نام کا اثر اس کی ساری زندگی پر پڑتا ہے بیٹے۔ اسے ابجد کہتے ہیں‘‘۔
’’نام کا اثر کیے پڑتا ہے بابا!‘‘ اس نے پوچھا تھا اور اس کا باپ آرام سے پگڈنڈی پر بندوق کو گود میں رکھ کر بیٹھ گیا تھا اور اسے پاس بٹھا کر بولا تھا:
’’یہ لفظوں کا علم ہے بیٹے اور لفظ میں بڑا جادو ہوتا ہے‘‘۔
’’جادو ہوتا ہے؟‘‘
’’ہاں‘‘۔
’’کیسے؟‘‘
’’ایسے۔۔۔‘‘ اس کا باپ ایک بالی توڑ کر اسے دانتوں میں چباتے ہوئے بولا تھا، ’’کہ جیسے تمہارا نام ہے جسے سویرے سے شام تک میں تمہاری ماں اور بہن اور سکول میں تمہارے استاد اور ہم جماعت ان گنت بار پکارتے ہیں اور تم اس نام پر بولتے ہو۔ مگر نام اسی پر ختم نہیں ہو جاتا۔ نام جتنی بار بھی پکارا جاتا ہے اس کا ایک لفظ بنتا ہے اور منہ سے نکل کر ہوا میں جاتا ہے کہ اس کی ایک شکل ہوتی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ضائع ہو گیا مگر کبھی ضائع نہیں ہوتا کیونکہ لفظ زندہ ہو تا ہے اور اس کا رشتہ تمہارے ستارے سے ہوتا ہے اور ہر بار جو پکارا جاتا ہے تو آواز کی رفتار سے اڑتا ہے اور آٹومیٹک (بابا کو یہ لفظ استعمال کرنے کا بہت شوق تھا، وہ دل میں ہنسا) سیدھا تمہارے ستارے تک پہنچتا ہے اور اس سے جا ٹکراتا ہے، ہر بار اور یوں تمہاری زندگی پہ اثر انداز ہوتا ہے‘‘۔
’’ستارہ کیا ہوتا ہے بابا؟‘‘
’’ہر شخص کا ایک ستارہ ہوتا ہے جس کے زیر اثر وہ پیدا ہوتا ہے اور زندہ رہتا ہے اور مرتا بھی ہے‘‘۔
دونوں اٹھ کر پھر آگے پیچھے پگڈنڈی پر چل پڑے تھے اور جب کچھ دیر بعد اور باتیں کرتے ہوئے، اس کے باپ نے کہا تھا: ’’اب دو چار برس میں تمہیں نپولین کی سوانح عمری پڑھ لینی چاہیے‘‘ تو اسے وہ پھیکے سرخ رنگ کی جلد والی، خستہ بھورے کاغذ اور باریک سہ کالم لکھائی کے صفحوں والی موٹی سی کتاب یاد آ گئی تھی جو ہر وقت اس کے باپ کی کرسی کے پاس تپائی پر پڑی رہتی تھی اور جسے اس کا باپ موقع بموقع اٹھا کر پڑھتا اور حاشیوں پر کچھ لکھتا رہتا تھا اور جس سے پرانے کاغذ کی مخصوص تیز بو آیا کرتی تھی۔۔۔اس کو وہ کتاب، جس سے وہ ایسے ہی مانوس تھا جیسے اپنے جوتے یا اپنے بستر سے، یاد آ گئی تھی۔ اس نے بے سوچے سمجھے کہہ دیا تھا: ’’بابا! میں بھی بڑا ہو کر کتابیں لکھوں گا‘‘ اور اس کا اتنا کہنا تھا کہ اس کے باپ نے آنکھیں پھیلا کر، تقریباً اداسی سے، اس کی طرف دیکھا تھا اور پھر پگڈنڈی پر بندوق گود میں رکھ کر بیٹھ گیا تھا اور اس کو پاس بٹھا کر بولا تھا: ’’بڑا مشکل کام ہے‘‘۔
’’مشکل کیسے ہے بابا؟‘‘ اس نے پوچھا تھا۔
’’ایسے۔۔۔‘‘ اس کا باپ آنکھیں سکیڑ کر آسمان پر دیکھتا ہوا بولا تھا، ’’کہ جیسے یہ بادل‘‘۔
’’بادل؟‘‘
’’ہاں‘‘ اس کے باپ نے کہا تھا، ’’یہ بدلیاں دیکھ رہے ہو؟ پچھلے ایک گھنٹے سے کیسی دھلی دھلائی دھنکی ہوئی اور پریس کی ہوئی روئی کی ٹھوس چٹانوں کی طرح آسمان میں سر اٹھائے کھڑی ہیں اور نہ ہلتی ہیں نہ جلتی ہیں نہ شکل بدلتی ہیں۔ دیکھا تم نے؟‘‘
’’ہاں بابا‘‘۔
’’دیکھا تم نے کہ ان کی ایک ایک نوک اور ایک ایک قوس اور ایک ایک لکیر جیسے پتھر سے کاٹ کر بنائی گئی ہے؟‘‘
’’ہاں بابا‘‘۔
’’اور اپنے اختصار اور اپنی خاموشی کے باوجود ان میں اتنی تندی اور اتنا تشدد اور اتنی زندگی اور قوت ہے کہ دل پر نقش ہو جاتی ہیں اور ایک بار دیکھ لو تو سارا سال نہیں بھولتیں؟‘‘ اس کی آنکھیں یکبارگی چمک اٹھی تھیں۔ ’’دیکھا تم نے؟‘‘
’’ہاں بابا‘‘۔
’’مگر۔۔۔‘‘ اس کی آنکھوں کی چمک یکبارگی غائب ہو گئی تھی اور وہ ایک بالی توڑ کر اداسی سے اسے سونگھتے ہوئے بولا تھا، ’’یہ بدلیاں صرف بہار کے بہار آتی ہیں، چند روز کے لیے بس۔ پھر سارا سال وہی میلے میلے مٹیالے، غیر معین اور غیرواضح اور مکڑی کے جالے کے سے بدرنگ بادلوں کا چکر چلتا ہے جو آتے ہیں اور گرجتے ہیں اور دھوپ۔۔۔‘‘ وہ بالی کھیت میں پھینک کر اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ ’’اور دھوپ کے آنکھوں میں کھب جانے والے رنگوں کو ختم کر دیتے ہیں‘‘۔
وہ پھر پگڈنڈی پر آگے پیچھے چلنے لگے تھے اور اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا تھا کہ اس کا باپ کیا کہہ رہا ہے۔ مگر اس نے اس کی پروا بھی نہ کی تھی اور بھلا دیا تھا۔ اس لیے کہ کتابیں لکھنے کی بات اس نے بےسوچے سمجھے، بالکل سرسری طور پر کی تھی اور اصل میں اس کا مطلب یہ نہ تھا۔ مگر بعد میں۔۔۔ بہت بعد میں۔۔۔ جب وہ واقعی بڑا ہو گیا اور اس نے کتابیں لکھنے کے لیے قلم اٹھایا تو اپنے باپ کی کہی ہوئی بات اپنے سارے معنی کے ساتھ بڑے واضح طور پر اس کے سامنے آ گئی، اس لیے کہ جب کبھی وہ کسی خیال کے جادو کو محسوس کرکے چونک کر اٹھا اور قلم اٹھا کر کاغذ پر جھکا تو خیال کو لفظ میں منتقل کرتے کرتے اس کا سارا جادو غائب ہو گیا اور اس نے اپنے آگے کاغذ پر کیڑے مکوڑوں کی طرح پھیلے ہوئے بے جان، بےاثر لفظوں کو بدمزگی سے دیکھا اور سکتے میں آ گیا اور پھر اس نے سر اٹھا کر بہار کی ان بدلیوں کو تلاش کیا جن کے آنے میں ابھی دیر تھی اور ہمیشہ اس نے حیران ہو کر سوچا کہ اس کا باپ جس نے کبھی ایک کتاب بھی نہ لکھی تھی، کیسے ان سب باتوں کا علم رکھتا تھا!
وہ بدلیاں کبھی نہ آئی تھیں۔ وہ لفظ کبھی اس کو نہ ملا جس کی تلاش میں وہ تھا۔۔۔ وہ کاٹا چھانٹا ہوا، دھلا دھلایا ہوا، صاف ستھرا، مختصر اور تند اور قوی، ٹھوس دھات کا گھڑا ہوا لفظ جس پہ نظر ڈالو تو سانس لے اور زبان پہ لاؤ تو جی اٹھے اور دل کی طرح دھڑکے۔ وہ لفظ صرف اس کے خیال میں جادو جگاتا رہا تھا۔ اس کے دل میں یہ علم رہا تھا کہ لفظ میں بڑا جادو ہوتا ہے، مگر اس بات کا اسے پتا چلا تھا کہ لفظ لکھنا بڑا کٹھن کا م ہے۔اس نے ہزاروں کیڑے مکوڑے پھیلائے اور مشہور بھی ہوا مگر دوسرے بڑے بڑے اور مشہور کتابیں لکھنے والوں کی طرح ہمیشہ ناکام رہا تھا۔
’’بابا‘‘۔ اس کا بیٹا اس کی ٹانگوں کے گرد بازو لپیٹ کر کھڑا ہو گیا۔ ’’کیا کر رہے ہیں؟‘‘
’’سوچ رہا ہوں بیٹے‘‘۔
’’کیا سوچ رہے ہیں بابا؟‘‘
’’کیا سوچ رہا ہوں؟‘‘ اس نے آنکھیں سکیڑ کر فصل کے اوپر اوپر دیکھتے ہوئے ذہن پر زور ڈالا۔ ’’کچھ نہیں‘‘۔
’’کچھ نہیں؟‘‘ بچے نے دہرایا۔
وہ زمین پر بیٹھ گیا۔ ’’بیٹھ جاؤ بیٹے‘‘۔ اس نے کہا۔ پھر اس نے ایک ٹوٹی ہوئی خشک ٹہنی اٹھاکر اس سے سفیدہ پھرے ہوئے کھیت کی سطح پر ایک گول دائرہ کھینچا۔ ’’میں تمہیں ایک مثال دیتا ہوں‘‘۔ اس نے کہا، ’’یہ دائرہ آدمی کا بنیادی رویئے اور اسی دائرے میں آدمی کی ساری سوچ بند ہے۔اس دائرے سے باہر نامعلوم کی دنیا ہے، اندھیرا ہے‘‘۔
پھر اس نے دائر ے کے محیط پر قریب قریب دو نشان لگائے۔ ’’ان نشانوں کے درمیان یہ مختصر سا علاقہ بھلائی کا علاقہ ہے۔ یہاں سے پھر۔۔۔‘‘ اس نے داہیں طرف محیط کے ساتھ ساتھ لکڑی گھمائی، ’’ظلم شروع ہوتا ہے اور یہاں سے۔۔۔‘‘ اس نے بائیں طرف لکڑی گھمائی، ’’منفی اچھائی شروع ہوتی ہے۔ ان تینوں علاقوں کی آپس کی حدیں بڑی باریک اور تقریباً بےمعلوم ہوتی ہیں، اتنی کہ یہاں سے دیکھے پر سب آپس میں گڈمڈ ہوتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ مگر ان کی ایک چیز مشترک ہوتی ہے، آدمی کا منیاد ی رویہ، بھلائی ہو، برائی ہو، یا ظلم ہو، آدمی کا بنیادی رویہ جارحانہ ہی رہتا ہے۔ چنانچہ ہم سوچتے بھی ہیں تو کچھ نہیں سوچتے‘‘۔
’’کچھ بھی نہیں؟‘‘ بچے نے دہرایا۔
’’ہاں۔ جب تک آدمی کا بنیادی رویہ بدل نہیں پاتا تب تک یہ دائرہ نہیں ٹوٹتا اور تب تک اس سے باہر کے نامعلوم علاقے میں ہماری رسائی نہیں ہوتی جو بہت بڑا علاقہ ہے اور اس دائرے کی جس کے سامنے کوئی حقیقت نہیں اور جہاں زندگی کی اصل نسل باتوں کا علم رہتا ہے۔ سمجھے؟‘‘
بچہ بے یقینی سے ہنسا۔
وہ ٹوٹی ہوئی ٹہنی پھینک کر اٹھ کھڑا ہوا۔ پھر اس نے بیٹے کی گردن میں بازو ڈالا اور وہ واپس شہر کو مڑے اسے پتا تھا کہ بچے کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا تھا، مگر وہ یہ سوچ کر طمانیت سے دل میں مسکرایا کہ عمر میں کبھی نہ کبھی وہ ضرور، کہیں نہ کہیں، ان باتوں کے روبرو آکھڑا ہوگا اور سمجھ جائےگا اور پھر وہ اپنے باپ کو یاد کرےگا۔
واپسی پر اب وہ دوسرے راستے پر، دوسری پگڈنڈیوں پر چل رہے تھے یہ بہرحال سڑک پہ اسی جگہ جا کر نکلتی تھیں جہاں سے انہوں نے کھیتوں میں قدم رکھا تھا۔ بچہ اب اس کے بازو کے حلقے سے نکل کر دوڑتا ہوا بہار کے خودرو پھول توڑ توڑ کر جمع کر رہا تھا۔ پگڈنڈی کے دونوں کناروں پر السی کے شوخ سرخ رنگ کے ننھے ننھے نازک پھول ہزاروں کی تعداد میں اگے ہوئے تھے جن پہ نظر نہ ٹھہرتی تھی۔ بیچ میں لالہ کے کئی بڑے بڑے سرخ پھول تھے جن میں کہیں کہیں بنفشی پھولوں کے چھینٹے بھی تھے۔ ایک جگہ جنگلی گلاب کا پودا تھا جس کا پھول توڑتے توڑتے کا نٹا اس کے بیٹے کی انگلی میں چبھ گیا اور وہ ہلکی سی چیخ مار کر انگلی کو اس جگہ سے چوسنے لگا یہاں پر خون کا ننھا سا قطرہ ابھر آیا تھا جس میں سورج چمک رہا تھا۔ اس نے جلدی سے آگے بڑھ کر بچے کی انگلی کو دیکھا اور اسے خون چوس جانے کی ہدایت کر کے احتیاط سے گلاب کا پھول توڑا اور بچے کو دیا جو اس نے لے کر اپنے گلدستے میں لگا لیا اور انگلی چوستے ہوئے آگے آگے چلنے لگا۔ اس نے اپنے دہنے ہاتھ کی انگلیاں ناک تک لے جا کر انہیں سونگھا، اس گلاب میں خوشبو نہیں تھی، جو دوسرے گلاب میں ہوتی ہے، اس نے سوچا۔ اسے اپنا باپ یاد آیا جو جب تک زندہ رہا اپنے شکار کے مہنگے شوق میں پیسے اڑانے اور کوئی کام کاج نہ کرنے کی بناء پر کنبے بھر میں اچھی نظر سے نہ دیکھا جاتا رہا جس کی غیر ذمہ داری اور نکھٹو پن کی شکائتیں اس نے اپنی ماں تک سے سنیں، جس کو عمر بھر صرف بھرپور طور پر زندگی گزارنے اور اس کے فلسفے پر غور کرنے کا شوق رہا۔ جس نے وہی کیا جو چاہا اور جو درست خیال کیا اور جو شاید تھا بھی عین درست ہی آخرکار۔۔۔ اس نے جنگلی گلاب کے پودے کے پاس کھڑے کھڑے دور آگے پگڈنڈی پر اپنے بیٹے کو دوڑ دوڑ کر خود رو پھول جمع کرتے ہوئے دیکھا اور اس نے سوچا: بیٹوں کو باپ کے شکرانے کے لیے اس کی دولت اور عزت اور اس کے رتبے اور شاید اس کے کارناموں کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ ان کو صرف اس خوشبو کی ضرور ت ہوتی ہے جو صرف ایک بار سچے گلاب کو چھونے سے ہاتھوں میں لگی رہ جاتی ہے اور جس کا آدمی کو پتا بھی نہیں چلتا، مگر بعد میں جب انجانے طور پر ہاتھ کہیں سانس کے سامنے سے گزرتا ہے تو خوشبو کا احساس ہوتا ہے اور آدمی چونک کر سارے بدن پر اسے تلاش کرتا ہے اور پوروں تک پہنچ جاتا ہے اور انہیں سانس پر رکھ کر سونگھتا ہے اور اسے یاد آتا ہے کہ اس کے ماضی میں کہیں ایک گلاب کا پھول بھی تھا اور وہ خدا کا شکر ادا کرتا ہے۔
بچہ اس کو پیچھے پگڈنڈی پررکے دیکھ کر ٹھہر گیا، ’’بابا!‘‘ اس نے آواز دی۔ وہ غیر ارادی طور پر دہنے ہاتھ کی انگلیوں کو ناک کے قریب لے گئا۔
’’بابا‘‘۔ اس کے قریب آنے پر بچے نے پوچھا، ’’وہاں کیا کر رہے تھے؟‘‘
’’سوچ رہا تھا بیٹے‘‘۔
’’کیا سوچ رہے تھے؟‘‘ بچے نے شرارت سے سوال کیا اور بھاگ اٹھا۔
دوڑ شروع کرنے سے پہلے اس نے حلق سے خوشی کی گہری گونج دار آواز پیدا کی جو کچھ کچھ بیل کے ڈکرانے سے مشابہ تھی۔ ابھی تیز، ابھی ہولے دوڑتے ہوئے انہوں نے کئی کھیت پار کئے۔ اس رستے پر گیہوں اور چنے کے کھیت تھے اور ایک کھیت میں چند بچے، کچے سبز چنوں کو آگ لگا کر ان کی ہولیں بنا رہے تھے۔ کھیت کے کنار ے کنارے بھاگتے ہوئے اسے ہولیں بنانے کی گرم گرم رس دار خوشبو آئی اور اس نے چند لحظے رک کر خوشی اور اداسی کے ملے جلے احساس کے ساتھ چنے کے جلتے ہوئے پودوں کو اور اٹھتے ہوئے دھوئیں کو اور اس کے چاروں طرف گھیرا ڈالے، گھٹنوں پر ہاتھ رکھے پاؤں کے بل بیٹھے ہوئے مشاق چہروں والے بچوں کو دیکھا۔ اس کا بیٹا بھی رک کر کمر پر ہاتھ رکھے انہیں دیکھ رہا تھا۔ وہ پھر دوڑ پڑا۔ آگے خودرو پھولوں کی بہت سی کیاریاں اور کئی خالی کھیت آئے اور بہار کی اٹھتی ہوئی ہوائیں ان کے چہروں کو چھوتی ہوئی گزرتی رہیں۔ آخر وہ کھیتوں کو چھوڑ کر سڑک پر آ نکلے اور پاس پاس کھڑے ہو کر ہانپنے اور ہنسنے لگے۔ اس کے بیٹے نے کس کر دو تین مکے اس کی رانوں پر لگائے اور اس کی ٹانگوں سے لپٹ گیا۔ اب سورج ڈھل رہا تھا۔ سڑک تقریباً خالی تھی اور دھوپ میں گرم ہوکر چمک رہی تھی۔ صرف چند کسان اپنی عورتوں کے ہمراہ شہر سے خریداری کر کے لوٹ رہے تھے۔ مرد لاٹھیاں کندھوں پر رکھے اور ان سے گٹھڑیاں لٹکائے اور عورتیں مٹی کی ہانڈیاں ایک کے اوپر ایک سروں پہ رکھے، جوتیاں ہاتھوں میں پکڑے سڑک کے کنارے کنارے ٹل کی ڈھلان اتر رہی تھیں۔ اس نے اپنے بیٹے کی گردن میں بازو ڈالا اور آہستہ آہستہ چڑھائی چڑھنے لگا۔ پل پر پہنچ کر وہ رک گیا۔ سامنے اس کا شہر تھا جس پہ اب سورج چمک رہا تھا۔ اس نے سستانے کے انداز میں کمر پر ہاتھ رکھے اور مڑکر آخری بار دوردور تک سہ پہر کے چمکتے ہوئے رنگوں کو دیکھا۔ گیہوں اور چنے کا سبزہ اور السی کے پھولوں کا لالہ اور بے بو خودرو پھولوں کا زردہاور ہل چلی ہوئی زمین کی باد الگی اور پھلدار درختوں کی سیاہی اور اوپر آسمان کا نیلم اور بہار کی بدلیوں کا براق۔ ایک ایک کرکے اور پھر سب کے سب ایک ساتھ اس کی آنکھوں میں کھب گئے اور اس نے ایک طویل لمحے تک اس دھڑ دھڑ دھڑکتی، سانس لیتی ہوئی عجیب و غریب سرزمین کو دیکھا اور اسے اس شخص کا خیال آیا جسے ایک دفعہ اس نے دیکھا تھا، اس شخص کے چہرے پہ رنگ اور آنکھوں میں بےپناہ چمک عود کر آئی تھی اور وہ آخری دموں پر تھا اور بڑا صحت مند اور خوبصورت دیکھائی دے رہا تھا۔ اس نے ہاتھ سے آنکھیں ڈھانپ لیں اور کئی لمحوں تک کھڑا اس منظر کو دل میں جذب کرتا رہا۔ پھر پلٹ کر پل کو پار کرنے لگا۔
آج صبح سویرے وہ اس شہر میں موسمی پرندے کی مانند وارد ہوا تھا۔ علی الصبح جب بازار اور گلیاں ابھی خالی تھیں اور صرف فجر کی نماز سے لوٹنے یا صبح کی سیر کو جانے والے اکا دکا لوگ خاموشی سے کیکر کی داتن چباتے ہوئے آ جا رہے تھے اور ابھی دن کا اجالا بھی نہیں پھیلا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کا ہاتھ پکڑے اور اپنا سوٹ کیس اٹھائے اجنبیوں کی طرح ادھر ادھر دیکھتا ہوا اپنے گھر کے دروازے پر آ کھڑا ہوا تھا۔ میونسپلٹی کے بھنگی (ازلی طور پر جھکے جھکے) بازاروں میں جھاڑو دے رہے تھے اور گلیوں کی نالیاں صاف کر رہے تھے۔ ایک گوالا دودھ کے بڑے بڑے کمنڈل دونوں ہاتھوں میں لٹکائے ان کے بوجھ سے جھولتا ہوا تیز تیز چلا جا رہا تھا۔ ایک فقیر بلند خوابیدہ آواز میں بھیک مانگتا پھر رہا تھا۔ اس نے سوٹ کیس آہستہ سے گھر کے دروازے کے آگے اینٹوں کے تھڑے پر رکھ دیا اور رک کر ان پرانی، مانوس آوازوں کو سننے لگا۔ بیس برس گزر گئے تھے مگر دن کی یہ ساری اولیں آوازیں وہی تھیں جن کو وہ اپنے لڑکپن میں فجر کے وقت (اپنے بستر میں کسمساتا ہوا) سن کر جاگا کرتا تھا۔۔۔ یا جاگ کر سنا کرتا تھا۔ دروازے کے آگے سر نیہوڑائے کھڑے کھڑے چند لمحوں کے لیے اس کے پاس نیم خوابیدگی کا وہ لذیذ اور غیر حقیقی عالم لوٹ آیا تھا جس میں سونے اور جاگنے اور سننے کے عمل کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا تھا اور جو یہاں سے جانے کے بعد اس کو کسی خواب گاہ میں ا ور کسی بستر میں کبھی نصیب نہیں ہوا تھا۔ اس نے ہاتھ اٹھاکر دو انگلیوں سے ہولے ہولے دروازہ کھٹکٹانا شروع کیا۔ ایک بار دوبار، تین بار۔۔۔ اس کا بیٹا حیرانی سے چاروں طرف محلے کے اونچے اونچے مکانوں کو دیکھ رہا تھا۔ دو سفید کبوتر کسی منڈیر سے اڑ کر مدھم آسمان پر سے گزرے۔ کسی نے اوپر کی منزل کی کھڑکی کھولی۔
’’کون ہے؟‘‘ ایک لڑکی نے کھڑکی سے سرنکال کر سوئی سوئی آواز میں پوچھا۔
’’میں ہوں‘‘۔ وہ سر اٹھا کر احمقوں کی طرح بولا۔
لڑکی کا چہرہ غائب ہو گیا اور کھڑکی کے بند ہونے کی آواز آئی۔ اس نے گھبرا کر چاروں طرف دیکھا۔ پھر زینے پر قدموں کے اترنے کی آواز ابھری۔ پھر دروازہ کھلا۔
’’ماموں جان‘‘۔ لڑکی نے سانس روک کر زیر لب کہا۔
اس نے متلاشی نظروں سے اس لمبے قد اور چھریرے بدن کی نوجوان لڑکی کو سر سے پاؤں تک دیکھا اور پہلی بار شعوری طور پر اسے اتنی عمر کے گزر جانے کا احساس ہوا۔ اس نے سوٹ کیس اٹھا کر ڈیوڑھی میں رکھا اور اس اجنبی لڑکی کو اپنے ساتھ لگا لیا۔ اوپر کی منزل پر ایک دروازے کے کھلنے اور بند ہونے کی مدھم سی آواز آئی۔ اس نے سیڑھیوں پر قدم رکھا۔ پتھر کے زینے اور دیواروں کے لاوقت رنگ و روغن کو دیکھ کر آناً فاناً وہ بیس برس کو جیسے ایک جست میں پھلانگ کر اپنے لڑکپن میں جاکھڑا ہوا اور سر جھکا کر آہستہ آہستہ، قدم قدم سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اس کو اجنبیت اور مانوسیت کا وہ عجیب و غریب ملا جلا احساس ہوا جو لمبی جلاوطنی کے بعد گھر آنے والوں کا ہوتا ہے اور جو صرف کان اور آنکھ ہی میں نہیں، بدن کی ساری جلد پر اور اس کے نیچے لہوکی سرسراہٹ تک میں محسوس کیا جاتا ہے اور جس سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور وقت یکسر گم ہو جاتا ہے۔ اس نے سر اٹھا کر دیکھا۔ زینے کے اوپر اس کی بہن چوکھٹ کا سہارا لیے اس کی منتظر کھڑی تھی۔ اس کا سر آدھے سے زیادہ سفید ہو چکا تھا اور اس کے چہر ے کی جلد ڈھیلی پڑ گئی تھی اور اس کی بڑی بڑی پھیلی ہوئی آنکھوں میں وہ خلاء تھا جو دکھی عورتوں کی آنکھوں میں پیدا ہو جاتا ہے۔وہ اس سے دوسری سیڑھی پر رکا دن کے بڑھتے ہوئے اجالے میں چپ اسے دیکھتا رہا۔ وہ اس سے صرف پانچ سال بڑی تھی اور اس کو وہ لمبے قد اور چھریرے بدن کی چلبلاتی ہوئی جوان لڑکی کے روپ میں چھوڑ کر گیا تھا۔ اس وقت دوسری بار اسے عمر کے گزرنے کا دھچکا لگا۔
پھر اس کی بہن کی کانپتی ہوئی کمزور آواز آئی: ’’سعید۔۔۔‘‘ اور اسے پتا بھی نہ چلا کہ کب وہ ہلا اور آخری دو سیڑھیوں کو پھلانگ کر اس کے قریب پہنچا اور ڈھیلے لباس میں ہڈیوں کے اس ڈھانچے کو محسوس کرکے اس کا دل جیسے لہوسے بالکل نچڑ گیا اور وہ بچوں کی طرح اس کے ساتھ لپٹ گیا۔ اسے صرف اتنا پتا چلا کہ وہ خستہ ہڈیوں کے ہلکے پھلکے، ہچکیاں لیتے اور ہچکولے کھاتے ہوئے نا طاقت بدن کو اپنے جسم کے ساتھ تھامے کھڑا ہے اور اس خوشبو کو سونگھ رہا ہے جو فجر کی سوتی جاگتی آوازوں کی طرح پرانی اور لذیذ اور مانوس ہے اور جو صرف دودھ پیتے بچوں یا اپنی بہنوں سے آتی ہے جن کے ساتھ آپ بچپن میں سوئے اور لڑکپن میں کھیلے ہوں۔ ایک بار جب اس نے سر اٹھا کر بے مدعا سامنے دیکھا تو اسے صرف اتنا پتا چلا کہ چھریرے بدن کی لڑکی اور اس کا بیٹا ساتھ ساتھ کھڑے آنکھیں پھیلائے پریشانی سے ان دونوں کو دیکھ رہے ہیں اور صحن کے کونے سے جو آسمان کا ٹکڑا نظر آ رہا ہے اس پر دو سنہری کبوتر خوشی سے قلابازیاں کھارہے ہیں۔ اس طرح اس کو جاننے کی خواہش کیے بغیر پتا چلا کہ سورج نکل آیا ہے اور دل گیلا کپڑا ہے جو بل دے کر نچوڑا جا رہا ہے۔ دراصل اسے کچھ بھی پتا نہ چلا تھا، کہ ایک ہی رنگ و بو کے دو جلاوطن بدنوں میں وقت یکسر گم ہو چکا تھا۔
پھر بعد میں وہ بڑے کمرے میں بیٹھا ناشتہ کر رہا تھا اور اس کی بہن اس کے سامنے بیٹھی اس کے بچے کو گود میں لیے باتیں کر رہی تھی: ’’تمہارا خطا مل گیا تھا۔۔۔‘‘ وہ کہہ رہی تھی اور وہ گھونٹ گھونٹ چائے پیتا ہوا کمرے میں چاروں طرف دیکھ رہا تھا۔ کمرے کے سارے سامان میں سے صرف ایک وہ کونے میں کھڑی ہوئی اخروٹ کی لکڑی کی بھاری الماری تھی جس سے وہ واقف تھا۔ باقی سب بدل چکا تھا۔ وہ دن اسے آج بھی یاد تھا جس روز یہ الماری ان کے گھر میں وارد ہوئی تھی اور اوپر کی منزل تک پہنچتے پہنچتے تنگ زینے میں پھنس کر رہ گئی تھی اور زینے کے اوپر اس کا باپ کھڑا پیسنے میں شرابور آٹھ زور لگاتے ہوئے مزدوروں کو یوں تن دہی سے ہدایات دے رہا تھا جیسے میدان جنگ میں شاید کوئی جرنیل! اس روز وہ سکول سے ذرا دیر سے لوٹا تھا اور جلد ازجلد اوپر پہنچنا چاہتا تھا کہ اسے سخت بھوک لگ رہی تھی مگر آدھے زینے میں یہ بہت بڑی اور بھاری سی الماری پھنسی ہوئی تھی جو نہ اوپر جاتی تھی نہ نیچے اور نہ ہی گزرنے کا کوئی راستہ دیتی تھی کسی کو اور آٹھ پہاڑئیے، جن کے پسینے میں بھیگے ہوئے چیتھڑے لٹک رہے تھے اور پھڑکتے ہوئے گیلے پٹھے نیم اندھیرے میں چمک رہے تھے اور جن کے جسموں سے محنت اور غربت کی تیز بساند آ رہی تھی، چار الماری کے آگے اور چار پیچھے اپنے حماقت زدہ چہرے لیے بوکھلائے کھڑے تھے اور اس کے باپ کی غصیلی، کڑک دار آواز پر جھک جھک کر غیر یقینی ہاتھوں سے الماری کوٹٹول رہے تھے۔۔۔ وہ آہستہ سے مسکرایا۔۔۔ اس الماری کے دروازوں کی وارنش شدہ سطح پر اخروٹ کی لکڑی کی ٹیڑھی میڑھی سیاہ دھاریاں اوپر سے نیچے تک چلتی تھیں اور اس کے اندرر سالہا سال تک کھیس اور دریاں اور چادریں اور پتلی پتلی دلائیاں اور نیچے کے خانے میں پلنگ کے روغنی پانے (اور ایک پرانا اور ٹوٹا ہوا بینجو) رکھے جاتے رہے تھے اور جب اسے کھولتے تھے تو اندر سے اخروٹ کی لکڑی اور کچے سوت کی ملی جلی تیز بو آیا کرتی تھی جو باہر کی کسی بو سے میل نہ کھاتی تھی۔ چائے کا آخری گھونٹ بھرتے ہوئے بےاختیار اس کا جی چاہا کہ اٹھ کر جائے اور الماری کا دروازہ کھول کر دیکھے کہ اب اس میں کیا رکھا جاتا تھا اور اس کی بو اب بھلا کیسی تھی؟
’’تم اپنی بیوی کو نہیں لائے۔۔۔؟‘‘ اس کی بہن کہہ رہی تھی اور وہ جواب میں پتا نہیں کیا کہے جا رہا تھا، کیونکہ اس کی عمر ساری ناک اور کان اور آنکھ میں سمٹ کر آ گئی تھی اور وہ نظروں سے اس لمبی چھریری لڑکی کا تعاقب کر رہا تھا جو اس کی بہن کا پہلا روپ تھا جو اس کمرے میں جو سالہا سال تک اس کا کمرہ رہا تھا، آ جا رہی تھی اور جھکی ہوئی، اجنبی اور مانوس نظروں سے اسے اور اسے کے بیٹے کو تاک رہی تھی۔ اس کے کمرے کی ایک دیوار لکڑی کی تھی جو غسل خانے کو الگ کرتی تھی اور جس پر ہاتھ مارو تو ساری لرزتی تھی۔ دوسری دیوار میں شیشے کی الماری جڑی تھی جس میں آدمی پورے قد سے کھڑا دکھائی دیتا تھا اور اسے کھولو تو اندر قرآن مجید پڑا ہوتا تھا اور نچلے خانے میں پتا نہیں کس کی ایک ٹوٹی ہوئی تسبیح پڑی رہتی تھی۔ گلی والی دیوار میں دو کھڑکیاں کھلتی تھیں جن میں جالی لگی ہوئی تھی اور جن کے رستے فجر کی دھندلی خوابیدہ آوازیں آیا کرتی تھیں اور۔۔۔ ایک بار بہت فجر کو سامنے والے گھر میں مہمان اترے تھے اور ان کا لونڈا خوشی کے مارے گلی میں سے گاتا ہوا گزرا تھا ’’دل والے۔۔۔‘‘ اور اس نے اپنے بستر میں سوئے سوئے تقریباً خواب میں یہ آواز سنی تھی اور آہستہ آہستہ جاگ پڑا تھا اور سر کو بار بار دل میں دہراتا رہا تھا حتیٰ کہ اس آواز کا ایک بدن بن گیا تھا اور ایک رنگ نکل آیا تھا جو پیلا تھا اور ایک عمر کے گزرنے پر بھی پیلا ہی رہا تھا اور یوں اسے پتا چلا تھا کہ ماضی کا رنگ پیلا ہوتا ہے۔ اس کا جی چاہا کہ وہ ناشتے کی طشتری الٹ دے اور بھاگ کر جائے اور اپنے کمرے کے دروازے سے جھانک کر دیکھے کہ اب وہ بھلا کیسا تھا اور اس میں کیا کچھ رکھا تھا۔
’’تیرے سرمیں سودا، تھا سعید‘‘۔ اس کی بہن تاسف سے کہہ رہی تھی، ’’تواپنے بابا پر گیا ہے‘‘۔
وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ آتش دان پر اس کے ماں باپ کی بڑی بڑی تصویریں رکھی تھیں جن کے چہروں پر لازوال مسکراہٹیں تھیں اور جو عرصہ ہوا مر چکے تھے۔ اسے یہ بھی علم تھا کہ اس کی بہن کا شوہر، جسے اس نے کبھی دیکھا تک نہ تھا، آئندہ بھی کبھی دکھائی نہ دےگا چنانچہ اب وہ اس سے کیا کہہ سکتا تھا بھلا۔ اس نے جمائی لی اور چپکے سے جا کر پلنگ پر لیٹ گیا۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ جوتے اتارے بغیر گہری نیند ہو گیا۔
جب وہ سو کر اٹھا تو اس کے جوتے اترے ہوئے، ترتیب سے پلنگ کے آگے رکھے تھے اور کمرے کے سارے دروازے بند تھے اور باہر صحن میں اور باورچی خانے میں اس کی بہن اور بھانجی اور کام کرنے والی عورت سب دبے پاؤں چل پھر رہے تھے اور اس کا بیٹا کھلکھلاکر ہنس رہا تھا۔ دوپہر کا کھانا کھا کر اور اپنے بیٹے کو ساتھ لے کر اس نے اپنی بہن سے دو گھنٹے کی اجازت لی اور باہر نکل آیا۔ بازار تک آتے آتے اسے چار آدمی ملے جنہوں نے دونوں باپ بیٹوں کو غور سے اوپر نیچے دیکھا اور خاموشی سے گزر گئے۔ بازار میں داخل ہونے سے پہلے اسے شدید حجاب آلود اجنبیت کا احساس ہوا اور اس نے فلیٹ ہیٹ کو آنکھوں پر کھینچا اور کوٹ کا کالر اٹھا لیا اور جیبوں میں ہاتھ دئیے دئیے بازار اور سارے شہر میں سے گویا سلیمانی ٹوپی پہنے پہنے گزر گیا۔ کسی نے اسے نہ پہچانا تھا اور اس سے اسے عجیب سے رنج مگر عجیب سی طمانیت کا احساس ہوا تھا۔ چنانچہ اس وقت بھی دوبارہ شہر میں داخل ہونے سے پہلے، اس نے فلیٹ ہیٹ کو آنکھوں پر کھینچا، کوٹ کا کالر اٹھایا اور ہاتھ جیبوں میں ٹھونس کر پل سے اترنے لگا۔
اسی طرح اپنے فلیٹ اور کوٹ کی آڑ میں اس نے گول سڑک کے کنارے کنارے آدھے شہر کا چکر کاٹا اور بازار میں داخل ہوا۔ سڑک پر گھوڑوں اور موٹر گاڑیوں کی گرد اڑ اڑ کر اس کے ہیٹ اور کوٹ کے بازوؤں پر جم گئی تھی اور اس روز کی آخری دھوپ میں ذرہ ذرہ چمک رہی تھی۔ سورج کے گرد بادل جمع ہو رہے تھے۔ بازار میں اس نے رحیم شربت والے کو پہچانا جس نے داڑھی رکھ لی تھی اور داڑھی سفید تھی۔ وہ اپنے پرانے مستقل انداز میں گدی پر بیٹھا تھا اور اس کے ہاتھ میں پنکھی تھی جس سے وہ اپنے آگے پڑی ہوئی رنگ برنگے دیسی شربتوں کی بوتلوں پر بھنبھناتی ہوئی مکھیوں کو اڑاتا جا رہا تھا۔ رحیم شربت والے نے ایک دفعہ اسی جگہ پر تن تنہا سات ڈاکوؤں کا مقابلہ کیا تھا۔ مگر اس زمانے میں رحیم ململ کا کرتہ پہنتا تھا اور اس کے پٹھوں کی مضبوط ڈھلان اور شانوں کی گولائی اور بازوؤں کی مچھلیاں ململ میں سے صاف دکھائی دیتی تھیں۔ اب اس کے چہرے پہ سفید داڑھی تھی اور وہ مشکل سے پہچانا جاتا تھا۔ فلیٹ کی آڑ میں اس نے کئی اور لوگوں کو پہچانا جو اپنی پرانی دکانوں پر اپنے مستقل انداز میں بیٹھے تھے۔ کئی لوگوں نے اسے دیکھا اور گزر گئے اور پھر مڑکر اس کی چال سے کچھ اندازہ کرنے اور کچھ یاد کرنے کی کوشش کی مگر بیس سال ایک عمر ہوتی ہے جو بچوں کو جوان اور جوانوں کو بوڑھا اور یادوں کو کند کر دیتی ہے۔ وہ سیدھا گھر جانے کی بجائے دہنے ہاتھ کی ایک گلی میں مڑ گیا۔
گلی کا فرش، اونچی نیچی اینٹوں والا، اس کا سارا لاپروا ماضی تھا جس پر ان گنت پرانے قدموں کے نشان تھے جن میں کوئی فرق نہ آیا تھا۔ اس نے گلی کو تقریباً خالی پا کر ہیٹ ماتھے پر اونچا کیااور انگلیاں اپنے بیٹے کے بالوں میں دوڑائیں۔ بازار کا اونچی نیچی آوازوں والا اٹھتا اور دبتا ہوا شور پیچھے رہا جا رہا تھا۔ اب یہاں پہ گلی کی مخصوص آوازیں تھیں دونوں طرف کے چوباروں کی کھڑکیوں میں آمنے سامنے بیٹھ کر سبزی بناتی اور آہستہ آہستہ باتیں کرتی اور گلی میں سے گزرنے والوں کو جھانکتی ہوئی عورتوں کی مخمور آوازیں اور اندر کسی کسی کواڑ کے کھلنے اور بندہونے کی پراسرار دھمک (ٹھنڈے، اندھیرے کمروں میں ان گنت سستاتے اور ان دیکھی محبت کرتے ہوئے مردوں اور عورتوں کی پراسرار دھمک!) اور سہ پہر کا سناٹا! اس کا جی چاہا کہ وہ پرانے وقتوں کی مانند بازو پھیلا کر بھاگتا اور شور مچاتا ہوا آڑے آ گیا اور وہ بازو اپنے بیٹے کی گردن میں ڈالے احتیاط سے پرانے نشانوں پہ قدم رکھتا ہوا کڑی مستقل چال سے، جو ادھیڑ عمری کی اور زیارت کے سفر کی چال ہوتی ہے، گزرتا رہا اور چوباروں کی کھڑکیوں میں ٹیک لگائے بیٹھی لڑکیوں نے سانس روکے بغیر گردن لمبی کرکے اس باپ بیٹے کو جھانکا اور دھیان ہٹا لیا اور دوپہر کے کھانے کے بعد خنک، تاریک کمزوں میں محبت کرنے اور پھر گہری نیند میں بڑبڑانے والے ان گنت مردوں اور عورتوں کو ان کا پتا بھی نہ چلا۔ اب یہ اس کے دوست اوم کا گھر تھا جس کی بہن پشپا ہر سال اس کے راکھی باندھا کرتی تھی اور اب وہ لوگ پتا نہیں کہاں تھے۔ اس وقت وہ سب پرائمری سکول میں پڑھا کرتے تھے اور ہفتے میں ہمیشہ ایک دو روز پشپا اس سے کہتی ’’آج ہم نے ترکاری پکائی ہے۔۔۔‘‘ اور وہ سیدھا ان کے گھر چلا جاتا اور ان کے دالان کے ٹھنڈے فرش پر بیٹھ کر وہ تینوں ہلکی ہلکی گول چپاتیوں کے ساتھ پیتل کے جھلملاتے ہوئے برتنوں میں ترکاری کھاتے اور بعد میں ان کے چوبارے کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر کھیلتے اور اس کے گھر والوں کو اس کی فکر بھی نہ ہوتی، کیونکہ اس زمانے میں اس کے دو گھر تھے۔۔۔ ایک اپنا اور ایک اوم اور پشپا کا۔ اس نے رک کر کھلے دروازے میں سے اندر جھانکا: دالان اور چوکا اور ایک کوٹھڑی اور دائیں طرف کو اوپر جاتا ہوا زینہ، سب جگہیں وہی تھیں، صرف کنبہ اجنبی تھا۔ دالان کے فرش پہ بیٹھ کر چرخہ کاتتی ہوئی بوڑھی عورت نے اپنی بےرنگ آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا:
’’کیا ہے بھائی۔۔۔‘‘
وہ چھت کی کڑیوں پر نظر دوڑاتا رہا۔
’’کس کو دیکھتے ہو بھائی۔۔۔؟‘‘
’’کسی کو نہیں بی بی۔۔۔‘‘ اس نے آہستہ سے کہا۔ چرخے کے پاس روئی کے ڈھیر کو دیکھ کر اس نے بےخیالی سے سوچا، یہ شاید اس سال کی ہے!‘‘پھر اس نے اپنے بیٹے کے بالوں میں انگلیاں دوڑائیں اور چل پڑا۔
اس گھر سے ایک خنک سی، نامعلوم سی بو آیا کرتی تھی جو اوم اور پشپا سے بھی آتی تھی۔۔۔ اس نے یاد کیا۔۔۔اور جب کبھی وہ دوپہر کا کھانا کھا کر سو جایا کرتا تو پھر جاگنے پر، آنکھیں کھولنے سے پہلے ہی اسے پتا چل جاتا تھا کہ وہ اس گھر میں ہے اور پھر آنکھیں کھول کر پیتل کے کٹوروں اور تھالیوں کو تاریک چوکے کی دیواروں پر جھلملاتے ہوئے دیکھتا تھا اور اٹھ کر بیٹھ جاتا تھا اور اب یہ گھر اجنبی اور بےبو ہو چکا تھا جو کبھی اس کا اپنا تھا۔ اس نے سوچا۔ سب چیزیں وہی تھیں صرف بو اڑ چکی تھی، اس نے دل میں کہا، بو جو لامقام ہوتی ہے مگر بدن ضرور رکھتی ہے، جو سفر کرتی رہتی ہے مگر مرتی بھی ہے۔
اب وہ اپنے سکول کے سامنے سے گزر رہا تھا۔ اس سکول کا سب سے بڑا فائدہ یہ تھا کہ ان کے گھروں کے پاس تھا چنانچہ اس علاقے کے سب بچے یہیں سے تعلیم شروع کرتے تھے۔ یہ سکول کا پچھواڑا تھا جہاں اس کا ایک دروازہ اور باقی کھڑکیاں تھیں۔ دروازہ لوہے کی سلاخوں کا بنا ہوا تھا جیسے جیلوں یا خزانوں کا ہوتا ہے اور کھڑکیوں میں بھی سلاخیں لگی تھیں۔ سکول کا اصل گیٹ پیچھے کی طرف تھا جہاں سے گول سڑک گزرتی تھی۔ اس نے بچے کے کندھے سے ہاتھ اٹھایا اور جا کر کھڑکی کی سلاخوں کو پکڑکر کھڑا ہو گیا اور قیدیوں کی طرح ان سے منہ لگا کر اندر دیکھنے لگا۔ سکول میں چھٹی ہو چلی تھی اور چپراسی کمروں کو بند کر رہے تھے اور برآمدوں میں ماسٹر اپنی اپنی سائیکلوں پہ جھکے گپیں مار رہے تھے۔یہ چو تھا درجہ تھا، اس نے کمرے میں نظر دوڑائی۔ بے ترتیبی سے پڑے ہوئے بدرنگ ڈیسکوں پر سیاہیوں کے دھبے تھے اور بلیک بورڈ پر تقسیم کا ایک سوال حل کیا ہوا تھا جو پھر ڈسٹر سے آدھا مٹا دیا گیا تھا۔ سامنے دیوار پر علامہ اقبال کی تصویر ٹیڑھی ہو کر لٹک رہی تھی۔ یہ چوتھا درجہ ہے، اس نے دل میں دہرایا۔ یہاں وہ ایک سال تک بیٹھتا رہا تھا اور اس کے ساتھ ایک لڑکا بیٹھتا تھا جس کے کپڑوں سے گندے صوف کی سیاہی کی بو آیا کرتی تھی۔ مگر اس سے آگے جو لڑکا بیٹھتا تھا اس سے گیلی گاچنی اور تازہ تراشی ہوئی قلموں کی کھری کھری خوشبو آیا کرتی تھی جو اسے بڑی اچھی لگتی تھی مگر اس کی دوستی صرف اوم اور پشپا سے تھی جو دوسری قطار میں بیٹھتے تھے اور ان کے اپنے دوست تھے جو دوسری قطار کے تھے اور آدھی چھٹی کے وقت نلکے کے گرد سب جمع ہو کر اپنی اپنی تختی پر گاچنی ملتے تھے اور جب کوئی تختی پر ہاتھ پھیرنے کے لیے گاچنی کی ڈلی کو ایک طرف رکھتا تو چپکے سے اسے اٹھا کر اپنی تختی پر مل لیتے تھے اور پھر وہیں رکھ دیتے تھے اور ہجوم کی گڑبڑ میں کسی کو پتا بھی نہ چلتا تھا۔
اس نے آہستہ سے سلاخوں سے منہ اٹھایا اور ہاتھ سے اس جگہ کو ملا جہاں اس کے ماتھے پر سلاخوں کے نشان پڑ گئے تھے۔ پھر اس نے اپنے بیٹے کے بالوں میں انگلیاں دوڑائیں اور آہستہ سے ہنسا اور وہ دونوں پھر گلی میں چلنے لگے۔ اب یہ وہ مکان تھا جو سکول کے ساتھ لگتا تھا اور جو اس کے لیے بڑا اسرار رکھتا تھا۔اس مکان کو دیکھتے ہی اسے وہ شخص یاد آ گیا جو یہاں رہا کرتا تھا۔ وہ پینتالیس پچاس کے لگ بھگ، دبلا پتلا اور لمبے قد کا آدمی تھا جو خاکساوں کی وردی پہنے رہتا تھا جس کی جیبوں میں ہر وقت اردو کی اخباریں اور پرچے ٹھنسے رہتے۔ اس کے پاس ایک سائیکل ہوتی تھی جس میں چند پرانی عینکیں لٹکتی رہتی تھیں۔ کہنے کو وہ عینکوں کا کاروبار کرتا تھا، مگر کسی نے اس کو کبھی عینکیں بیچتے ہوئے نہ دیکھا تھا۔ اس کا صرف ایک کام تھا، کہ بازار میں سائیکل لے کر چلتے چلتے ہر چند قدم پر رک جاتا اور اپنی گہر ی آواز میں نعرہ لگاتا۔۔۔ ’’چور اچکا چودھری اور غنڈی رن پردھان‘‘ اور پھر بچوں کے معصوم فاتحانہ انداز میں ادھر ادھر دیکھتا تھا اور اردگرد کے دکاندار اور گزرنے والے لوگ اس کی طرف اپنائیت سے دیکھتے تھے اور کھسیا کر ہنستے تھے کہ جیسے وہ اس نعرے کا نشانہ نہ ہونے کے باوجود اس میں شریک تھے۔ وہ شخص بھی نعرہ لگانے کے بعد خوشدلی سے ہنستا اور گزر جاتا۔ اس شخص کے لہجے میں اور چہرے پر کوئی کڑواہٹ نہ ہوتی بلکہ صرف خوش دلی اور بےضرر طنز کے آثار ہوتے تھے جو اس کی شکل وصورت اور چال ڈھال سے ذرا میل نہ کھاتے تھے۔ وہ ہر ایک کا دوست معلوم ہوتا مگر کسی نے اس کو کبھی کسی کے پاس رکتے نہ دیکھا تھا۔ وہ لوگ صبح سویرے سکول پہنچنے پر اس کو اپنی سائیکل کے ساتھ گھر سے نکلتے اور دروازے کو تالا لگاتے ہوئے دیکھتے اور کھڑے رہتے جب تک کہ وہ گلی میں اتر کر اپنی گہری اور بلند آوازمیں بلا ناغہ۔۔۔’’چور اچکا چودھری اور غنڈی رن پردھان‘‘ کا نعرہ لگاکر اور اپنے معصوم فاتحانہ انداز میں سارے بچوں پر نظر ڈال کر بازار کی طرف نہ چلا جاتا۔ جس روز وہ مرا ہے کسی کو پتا بھی نہیں چلا۔
تین روز تک دروازہ اندر سے مقفل رہا تھا۔۔۔اس نے یاد کیا۔۔۔حتیٰ کے تیسرے روز بو باہر نکل کر چاروں طرف پھیل گئی تھی اور سب سے پہلے سکول کے ماسٹروں نے دروازہ کھٹکٹایا تھا اور چند بچوں نے جو اس آوازپر جمع ہو گئے تھے۔ انہیں بتایا کہ آج تین روز سے انہوں نے چور اچکے چودھری کونہیں دیکھا تھا۔ چنانچہ پہلے محلے کے لوگ جمع ہوئے، پھر پولیس آئی اور کافی دیر تک دروازہ کھٹکٹانے اور آوازیں دینے اور درزوں میں سے جھانکنے کی کوشش کرنے کے بعد دروازہ توڑا گیا اور اندر وہ کرسی پر بیٹھا تھا، جیسے عام لوگ کھانا کھانے کے لیے بیٹھتے ہیں۔ صرف اس کا سر ایک طرف کو ڈھلک گیا تھا اور میز پر ایک کاغذ اور قلم رکھا تھا اور کاغذ پر۔۔۔یہ اس کو بہت بعد میں پتا چلا تھا۔۔۔لکھا تھا: ’’چور اچکا چودھری اور غنڈی رن پردھان‘‘۔ اس نے اندر داخل ہوتے ہوئے لوگوں کی ٹانگوں میں سے اس کی ایک جھلک دیکھی تھی اور بو کا بھبکا اس کے منہ پر پڑا تھا اور اس نے پلٹ کر نالی میں قے کر دی تھی اور گو اس روز پشپا نے ایک چھوڑ دو دو بار کہاتھا ’’آج ہم نے ترکاری پکائی ہے‘‘۔ مگر وہ اس کی سنی ان سنی کرکے سیدھا اپنے گھر چلا آیا تھا اور اس کے بعد کئی روز تک کچھ کھا پی نہ سکا تھا۔ وہ جلدی سے مڑا اور اپنی گلی میں داخل ہوا جس کے آخر پر اس کا گھر تھا۔ گلی میں دروازوں اور کھڑکیوں پہ بیٹھی سہ پہر کی گپیں مارتی ہوئی عورتوں نے دلچسپی سے اسے دیکھا۔ اس نے جھجک کر کوٹ کا کالر اٹھایا اور ہیٹ کو ماتھے پر کھینچ کر ہاتھ جیبوں میں دیے اور سامنے دیکھتا ہوا چلنے لگا۔ کوٹ کی دائیں جیب میں انگلیوں کی مدد سے اس نے پورے پونے چھ آنے کے سکے گنے جواب ساری دنیا میں اس کی کل دولت تھی۔اب بادل سورج کے سامنے آ چکے تھے اور بارش کی خبر لانے والی مرطوب ہوا چلنی شروع ہو گئی تھی۔ جب وہ اپنے دروازے پر پہنچا تو بارش کے پہلے قطرے اس کے ہیٹ پر پڑے۔
اس کا بیٹا دھپ دھپ کرتا اس کے آگے آگے سیڑھیاں چڑھ گیا۔ کھڑکیوں کے چھجوں پر شور مچاتے ہوئے بارش کے قطرے بڑی تیزی سے گررہے تھے اور انہیں جذب کرتی ہوئی خشک دیواریں سوندھی سوندھی خوشبو چھوڑ رہی تھیں جو ایک بیش بہا خوش بو تھی اور صرف موسم کے پہلے چھینٹوں پر اڑتی تھی اور پھر نکل جاتی تھی، کہیں کی کہیں۔۔۔ان نے زینے میں رک کر کئی لمبے لمبے سانس لیے اور گھر میں عورتوں کے ہنسنے کی مسرور آوازیں سنیں۔ اوپر پہنچ کر اس نے اپنی بھانجی کو دیکھا جو صحن میں لپک لپک کر رسی پہ پھیلے ہوئے گیلے کپڑے اتار رہی تھی اور چارپائیوں کو گھسیٹ رہی تھی اور ہنسے جارہی تھی۔ اس کی بہن، جو ایک دوسری عورت کے ساتھ برآمدے میں چارپائی پر بیٹھی تھی، اسے دیکھ کر بسم اللہ کر کے اٹھ کھڑی ہوئی۔ دوسری عورت نے مڑ کر دلچسپی سے اسے دیکھا۔ وہ جیبوں میں ہاتھ دئیے، کندھے جھکا کر چلتا ہوا صحن پار کر کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ مگر پھر کمرے کی دہلیز پر قدم رکھتے رکھتے وہیں کا وہیں جم کر رہ گیا۔
اس کا دل یک بارگی اچھلا اور پھر بیٹھ گیا اور پھر جیسے ہوا میں معلق ہو گیا اور وہ مڑ کر دیکھ بھی نہ سکا صرف سر جھکائے دروازے میں کھڑا یاد کرتا رہا اور بارش کے قطرے اکا دکا اس کے ہیٹ پر بجتے رہے۔
نوری!۔۔۔اس کا ذہن گونج اٹھا۔ نوری!!
اس نے لمبے لمبے سانس لینے شروع کئے مگر دیواروں کی وہ اولیں نایاب خوش بو اب نکل چکی تھی۔ بہت آہستہ آہستہ وہ مڑا اور برآمدے کی چارپائی پر بیٹھی ہوئی اس موٹی سی ادھیڑ عمر عورت کا پورا سامنا کرکے کھڑا ہو گیا۔
’’نوری!!‘‘ اس کے ہونٹ ہلے مگر آواز پیدا نہ ہوئی۔ عورت مانوسیت اور حجاب کے ملے جلے تبسم کے ساتھ اسے دیکھتی رہی۔ وہ آنکھیں پھیلائے کھڑا دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور بارش کے قطرے لمحوں کی طرح اس کے بے تاثر چہرے پہ گرتے رہے، ٹپ، ٹپ، ٹپ۔
’’سعید! پانی پڑ رہا ہے‘‘۔ پھر اس کی بہن نے کہا۔
وہ جیسے خواب کی حالت میں مڑا اور دہلیز پر قدم رکھ کر اندر داخل ہو ا اور جاکر کمرے کے وسط میں کھڑا ہو گیا۔ اس کا بیٹا باہیں پھیلائے کرسی پر بیٹھا بےخیالی سے باہر بارش کو دیکھ رہا تھا۔ وہ ہاتھ جیبوں سے نکالے بغیر کھڑا رہا اور پانی کے اکا دکا قطرے اس کے ہیٹ پر سے کندھوں پر اور آستینوں سے فرش پر گرتے رہے، ٹپ، ٹپ، ٹپ!۔۔۔وہ اس وقت صرف گیارہ سال کا تھا اور یہ بیل کی طرح بل کھاتی، پل پل تھرکتی، دھم دھم کرتی سیڑھیاں چڑھتی اور اترتی اور بھاگ کر گلی سے گزرتی ہوئی شہد کے رنگ کی لڑکی تھی جو گیارہ سالہ دل کا اکلوتا سحر تھی، نوری!۔۔۔ وہ بے خیالی سے ہنسا اور اس کا دل جیسے واپس اپنی جگہ پہ آ گیا اور وہ آسانی سے ہولے ہولے سانس لینے لگا۔۔۔وہ اس سے کئی سال بڑی تھی اور اس سے بات بھی نہ کرتی تھی مگروہ گھنٹوں۔۔۔پہروں اپنے دروازے سے لگ کر کھڑا (چوبارے پہ، کھڑکی میں، دروازے پر، گلی میں، اپنے گھر، اس کے گھر، کہیں، کہیں!) اس کی ایک جھلک کا منتظر رہتا تھا اور دیکھ لیتا تو بہت اداس ہو جاتا تھا۔ اس گیارہ سالہ بچے کے لیے اس لڑکی میں ایک ایسا جادو تھا جو شاید سنہرے سے رنگ کا تھا اور جو اس کی ماں یا بہن یا باپ یا کسی اور مرد اور عورت میں نہیں تھا۔ دن بہ دن، ماہ بہ ماہ، سال بہ سال۔ ان نے یاد کیا۔۔۔وہ اس کی ایک ایک جھلک کا منتظر رہا تھا اور وہ اس سے بےخبر رہی تھی، قطعاً۔ حتیٰ کہ جب وہ گھر سے گیا تھا تو اس کے ساتھ ہی وہ بھی گئی تھی، وہی پل پل تھرکتی ہوئی سنہرے رنگ کی سدا بہار شبیہہ کہ اس کی اولین عورت تھی جو کبھی نہیں بھولتی۔ (وہ دوبارہ ہنسا، جیسے کسی ان دیکھی گرج کو سن کر ان سنی کر رہا ہو) اس کے بعد کتنی ہی عورتیں اس کی زندگی میں آئیں اور نکل گئیں اور ایک کے بعد ایک کا سحر ٹوٹا، مگر ایک سحر قائم رہا اور ایک شبیہہ لازوال رہی جو اس کے دل کے ایک کونے پر روشنی کے منار کی مانند کھڑی رہی اور ہر پرانے سحر کے ٹوٹنے پر نئے سحر کی جانب اسے چلاتی رہی اور جس کی جوانی کے زور پر وہ سدا جوان رہا تھا۔ اپنی ساری عمر اور عقل اور فہم اور تجربے کے باوجود اس کو کبھی اس بات کا خواب میں بھی خیال نہ آیا تھا کہ ایک روز دوبارہ وہ اسے دیکھےگا اس طرح۔
جیسے کوئی پتھر اڑتا ہوا آکر ایک جڑے ہوئے شیشے پہ لگے تڑاخ۔۔۔اور شیشہ تڑخ کر کرچی کرچی ہو جائے مگر اپنے فریم میں کھڑا رہے جڑا جڑایا، جیسے ثابت و سالم، صرف سطح پر کرچیوں کی لکیریں پھیل جائیں چاروں طرف اور ہر کرچی سے ایک ٹوٹی پھوٹی شکل جھانکے الگ الگ کہیں آنکھ کہیں ناک کہیں کان کہیں ہونٹ، جیسے کوئی خوفناک تصویر!
وہیں کھڑے کھڑے اس نے آہستہ سے گردن موڑ کر دروازے سے باہر دیکھا۔ برآمدے میں چار پائی اب خالی پڑی تھی۔ اس کی بہن ایک کرسی اٹھائے چلی آ رہی تھی جو اس نے لاکر اس کے پاس رکھ دی۔
’’نوری۔۔۔‘‘ اس نے اپنی بہن کو کہتے ہوئے سنا، ’’تم نے پہچانا؟ بےچاری کا میاں۔۔۔‘‘
وہ سیدھا سیدھا کرسی پر بیٹھ گیا اور گریبان کے بٹن کھول کر آہستہ آہستہ چھاتی پر ہاتھ پھیرنے لگا، جیسے کرچیوں کی لکیروں کو تلاش کر رہا ہو۔ باہر بارش لگاتار ہو رہی تھی اور دیواروں پر بچوں کے چاک اور گاچنی سے لکھے ہوئے نام اور نشان مٹتے جا رہے تھے۔ اس وقت بالکل ناقابل تشریح طور پر اس کو وہ شان دار مرغ یاد آیا جو شاید سنہرے سرخ رنگ کا تھا اور ایک دفعہ دریا کے کنارے پکنک پہ جا کر انہوں نے ذبح کیا تھا اور ذبح کر کے رکھا ہی تھا کہ اٹھ کر بھاگ کھڑا ہوا تھا اس طرح کہ گردن کٹی ہوئی تھی اور ایک طرف کو لٹکا ہوا سر پھندنے کی طرح اچھل رہا تھا اور وہ پر پھیلائے بھاگا جا رہا تھا۔ وہ سب کے سب اس کے پیچھے بھاگے تھے مگر ان کے دیکھتے ہی دیکھتے وہ دریا میں جا گرا تھا اور دریا وہاں سے ایک دم گہرا تھا اور ان میں سے دو دو ایک تیرنا جانتے تھے وہ آگ جلانے کے لیے لکڑی کی تلاش میں ادھر ادھر جا چکے تھے۔ چنانچہ مرغ پانی کی سطح پر تیرتا تیرتا دریا کے بہاؤ میں شریک ہو گیا اور دور تک انہیں نظر آتا رہا تھا۔ وہ سب بیوقوفوں کی طرح منہ کھولے صم بکم کنارے پر کھڑے دیر تک اسے دیکھتے رہے تھے اور پھر بعد میں خوب ہنسے تھے اور اس نے حیرت سے سوچا تھا کہ مرغ پانی میں گرنے کے بعد ہلا تک نہ تھا تو پھر وہ اٹھ کر بھاگا کیسے تھا:
اور پھر اس کے بعد ایک دفعہ۔۔۔کئی سال گزرنے پر وہ مرغ اسے دوبارہ یاد آیا تھا اور اس وقت وہ منظر ذرا بھی مضحکہ خیز نہ رہا تھا بلکہ بڑا شدید المناک ہو گیا تھا جس نے اسے بہت اداس کر دیا تھا اور اس نے ذرا حیرت سے سوچا تھا کہ چیزوں کے ساحل کہاں ہوتے ہیں کہ اتنی عمر تک نظر ہی نہیں آتے؟
وہ دوبارہ بے خیالی سے، بےتاثر طور پر ہنسا، جیسے کوئی بچہ ڈری ڈری ہنسی ہنستے ہوئے قدم قدم کسی پالتو جانور کی طرف بڑھتا ہے۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
اس کا بچہ کرسی کی پشت سے لگا لگا سو چکا تھا۔ اس کا سرایک طرف کو ڈھلکا ہوا تھا اور ہاتھ کرسی کے بازوؤں پہ پھیلے تھے اور وہ گہرے گہرے، لمبے لمبے سانس لے رہا تھا جیسے باہر بارش ہورہی تھی اور باہر بارش لگاتار ہوئے جا رہی تھی، جیسے سحر ٹوٹ جاتا ہے۔
اس نے ہیٹ ماتھے پر اونچا کیا، کوٹ کا کالر بٹھایا اور کھونٹی سے برساتی اتار کر پہنی۔
’’اب کہاں جا رہے ہو؟‘‘ اس کی بہن نے پوچھا۔
’’ذرا باہر جا رہا ہوں‘‘۔ اس نے کہا۔
’’بارش ہو رہی ہے سعید‘‘۔
’’بس ابھی آتا ہوں‘‘۔
’’سعید!‘‘ اس کی بہن نے ملتجی نگاہیں اٹھا کر ڈرتے ڈرتے پوچھا، ’’اب یہاں رہوگے نا؟‘‘
’’ہاں‘‘۔ اس نے بے خیالی سے بے ماں کے بچے پر ایک نظر ڈالی اور دروازے کی طرف چل پڑا۔ پھر اچانک جیسے کچھ یاد آ جانے پر مڑا اور بڑی بیباکی سے بہن کی آنکھوں میں دیکھ کر ہنسا۔
’’ہاں‘‘ وہ بولا، ’’اب میں یہاں رہوں گا‘‘ اور صحن پار کر کے سیڑھیاں اتر گیا۔
ڈیوڑھی میں اسے اپنی بھانجی ملی جو ہاتھ میں ایک خالی برتن لیے، دوسرے ہاتھ سے شلوار کے پائنچے اٹھائے بارش میں بھیگتی ہوئی گھر میں داخل ہو رہی تھی۔ اس نے دو انگلیوں سے اس کی ناک پکڑ کر آہستہ سے دبائی۔
’’کہاں گئی تھی بلی؟‘‘
لڑکی بیل کی طرح بل کھاکر مڑی اور پہلی بار پوری مانوسیت سے ہنس کر بولی: ’’ذرا ادھر گئی تھی ماموں‘‘۔
دروازے میں رک کر اس نے دوبارہ ہیٹ اتارا اور اسے خوب دبا کر سر کے پچھلے حصے پر رکھا۔ پھر اس نے ہاتھ پھیلا کر بارش کے زور کا اندازہ کیا۔ سامنے کے گھر میں ایک نوعمر لڑکا دروازے سے لگ کر کھڑا بڑی مشتاق مگر اداس نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ باقی سب گھروں کے دروازے ادھ کھلے یا بند پڑے تھے اور دور دور تک کوئی بشر دکھائی نہ دیتا تھا، سوائے چندچڑیوں کے جو بارش سے بچنے کے لیے کھڑکیوں کے چھجوں میں آکر چھپ گئی تھیں اور دھیمی، خواب آلود آوازوں میں باتیں کر رہی تھیں۔ وہ بےخیالی سے مسکرایا اور گلی کے سرخ اینٹوں والے فرش پر ہلکے ہلکے خوش دل قدم رکھتا ہوا بازار کی جانب چل پڑا جہاں اب اسے اپنے پرانے جاننے والوں سے ملنا ملانا تھا۔ گلیاں اور محلے تقریباً ویران پڑے تھے۔ بارش شراٹے سے ہو رہی تھی اور دن کا اجالا گھٹتا جارہا تھا۔ اس کے اندر کوئی شے بڑی نازک مگر قدیم اور زور آور ٹوٹ کر آزاد ہو چکی تھی اور لہو کے ساتھ گردش میں تھی۔ وہ دل کے سر ہونے تک جیتا رہا تھا اور اس بات پہ نہ خوش تھا نہ خفا، بس بارش کے ان گنت قطروں کی تھاپ کو اپنے چہرے پر محسوس کر رہا تھا اور دل میں جانتا تھا کہ ان میں نہ رنگ ہے نہ بُو نہ لے، صرف حیات ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.