کہانی کی کہانی
اس کہانی میں بیتے ہوئے وقت اور یادوں کے بیچ کے خلا کو عمدہ پیرایے میں بیان کیا گیا ہے۔ ایک شادی شدہ عورت جب ایک رات اپنے شوہر کے اس رد عمل کو محسوس نہیں کرتی جس کی وہ طالب ہے تو وہ اسے چھوڑ کر باہر چلی آتی ہے۔ اور پھر ایک پارک میں صبح سے شام تک بیٹھنا اس کے معمول میں شامل ہو جاتا ہے۔ وہ پارک میں اس جگہ بیٹھتی ہے جہاں سے گرجا گھر صاف نظر آتا ہے، یہ وہی گرجا گھر ہے جہاں پندرہ سال پہلے اس کی شادی ہوئی تھی۔
کیا میں اس بنچ پر بیٹھ سکتی ہوں؟ نہیں آپ اٹھیے نہیں، میرے لیے یہ کونا ہی بہت ہے۔ آپ شاید سوچ رہے ہوں کہ میں دوسری بنچ پر کیوں نہیں بیٹھ جاتی؟ اتنا بڑا پارک ہے، چاروں طرف خالی بنچیں ہیں پھر میں آپ ہی کے پاس کیوں بیٹھنا چاہتی ہوں۔ برا نہ مانیں تو ایک بات کہوں۔ جس بنچ پر آپ بیٹھی ہیں، وہ میری ہے۔ جی ہاں، میں یہاں روز بیٹھتی ہوں۔ نہیں آپ غلط نہ سمجھیں۔ اس بنچ پر میرا نام نہیں لکھا ہے۔ بھلا میونسپلٹی کی بنچوں پر نام کیوں؟ لوگ آتے ہیں۔ گھڑی دو گھڑی بیٹھتے ہیں، چلے جاتے ہیں۔ کسی کو یاد بھی نہیں رہتا کہ فلاں دن فلاں آدمی یہاں بیٹھا تھا۔ اس کے اٹھ جانے کے بعد بنچ پہلے کی ہی طرح خالی ہو جاتی ہے۔
کچھ دیر بعد جب کوئی نیا آنے والا اس پر آکر بیٹھتا ہے تو اسے پتہ بھی نہیں چلتا کہ اس سے پہلے یہاں کوئی اسکولی لڑکی، کوئی تنہا بوڑھی عورت یا نشے میں دھت کوئی جپسی بیٹھا ہوگا۔ نہیں صاحب، نام تو وہیں لکھے جاتے ہیں جہاں آدمی مستقل طو رپر رہتا ہے۔ تبھی تو گھروں کے نام ہوتے ہیں اور قبروں کے بھی۔ کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ قبروں پر نام نہ بھی ہوں تب بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ کوئی زندہ شخص جان بوجھ کر دوسرے کی قبر میں جانا پسند نہیں کرےگا۔
آپ ادھر دیکھ رہے ہیں۔۔۔ گھوڑا گاڑی کی طرف؟ نہیں اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ شادی بیاہ کے موقعوں پر لوگ اب بھی گھوڑا گاڑی کا استعمال کرتے ہیں۔۔۔ میں تو روز ہی دیکھتی ہوں۔ اسی لیے میں نے یہ بنچ اپنے لیے منتخب کی ہے۔ یہاں بیٹھ کر آنکھیں سیدھی گرجا گھر کی طرف اٹھتی ہیں۔ آپ کو اپنی گردن ٹیڑھی نہیں کرنا پڑتی۔ بہت پرانا گرجاگھر ہے۔ اس گرجاگھر میں شادی کا ہونا بڑے فخر کی بات سمجھی جاتی ہے۔ لوگ شادی سے آٹھ دس ماہ قبل ہی یہاں اپنا نام درج کرا لیتے ہیں حالانکہ منگنی اور شادی کے درمیان اتنا طویل وقفہ ٹھیک نہیں۔ کبھی کبھی اس وقفے کے دوران جب دونوں میں ناچاقی ہو جاتی ہے اور عین شادی کے موقع پر دولہا دلہن میں سے کوئی نہیں دکھائی دیتا تو یہ جگہ سنسان پڑی رہتی ہے۔ نہ کوئی بھیڑ نہ گھوڑا گاڑی۔ بھکاری بھی خالی ہاتھ لوٹ جاتے ہیں۔ ایسے ہی دنوں میں ایک روز میں نے سامنے والی بنچ پر ایک لڑکی کو دیکھا تھا۔ وہ اکیلی بیٹھی تھی اور ویران آنکھوں سے گرجاگھر کو دیکھ رہی تھی۔
پارک میں یہی ایک مشکل ہے۔ اتنی کھلی جگہ میں بھی سب اپنے اندر بند بیٹھے رہتے ہیں۔ آپ کسی کے پاس بیٹھ کر دلجوئی کے دوحرف بھی نہیں کہہ سکتے۔ آپ دوسروں کو دیکھتے ہیں اور دوسرے آپ کو۔ اس میں بھی کچھ سکون ملتا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ جب اکیلے کمرے کی اذیت ناقابل برداشت ہو جاتی ہے تو لوگ باہر سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ کسی عوامی پارک یا پب میں چلے جاتے ہیں۔ وہاں کوئی دلجوئی کرنے والا نہ بھی ہو تب بھی کچھ دیر کے لیے دل بہل جاتا ہے۔ اس سے تکلیف کا بوجھ تو کم نہیں ہوتا، پھر بھی آپ قلی کے سامان کی طرح اسے ایک کندھے سے اتار کر دوسرے کندھے پر رکھ دیتے ہیں۔ یہ راحت کیا کم ہے؟ میں تو یہی کرتی ہوں۔۔۔ صبح ہوتے ہی اپنے کمرے سے باہر نکل آتی ہوں۔ نہیں نہیں، آپ غلط نہ سمجھیں۔ مجھے تکلیف کوئی نہیں۔ میں یہاں دھوپ کے لیے آتی ہوں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ سارے پارک میں صرف یہی ایک ایسی بنچ ہے جو کسی پیڑ کے نیچے نہیں ہے۔ اس بنچ پر ایک پتہ بھی نہیں گرتا۔۔۔ پھر یہاں بیٹھنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ یہاں سے میں سیدھے گرجاگھر کی طرف دیکھ سکتی ہوں۔ لیکن یہ بات شاید میں آپ سے پہلے بھی کہہ چکی ہوں۔
آپ واقعی خوش نصیب ہیں۔ پہلے دن یہاں آئے اور گھوڑا گاڑی آپ کی نطر کے سامنے! آپ دیکھتے جائیے۔۔۔ کچھ ہی دیر میں گرجاگھر کے سامنے لوگوں کی بھیڑ جمع ہو جائےگی۔ ان میں زیادہ تر لوگ ایسے ہوتے ہیں جو نہ دولہا کو جانتے ہیں نہ دلہن کو، لیکن انہیں ایک نظر دیکھنے کے لیے گھنٹوں باہر کھڑے رہتے ہیں۔ آپ کے بارے میں تو مجھے معلوم نہیں لیکن کچھ چیزوں کو دیکھنے کی بے چینی زندگی بھر ختم نہیں ہوتی۔ اب دیکھیے نا! ابھی آپ اس پیرمبلیٹر کے سامنے بیٹھے تھے، فوراً آپ کا جی چاہا ہوگا کہ آپ اندر جھانک کر دیکھیں۔ اس توقع میں کہ آپ کا بچہ دوسرے بچوں سے بالکل الگ ہوگا۔ نہیں، اس عمر میں سارے بچے ایک جیسے ہوتے ہیں۔ وہ منہ میں چسنی دبائے لیٹے رہتے ہیں۔ پھر بھی جب میں کسی پیرمبلیٹر کے سامنے سے گزرتی ہوں تو ایک بار اندر جھانکنے کی شدید خواہش پیدا ہوتی ہے۔
مجھے یہ سوچ کر بہت تعجب ہوتا ہے کہ جو چیزیں ہمیشہ ایک سی ہوتی ہیں، ان سے اکتانے کے بجائے آدمی انہیں کو سب سے زیادہ دیکھنا چاہتا ہے۔ جیسے پالنے میں لیٹے ہوئے بچے یا نو بیاہتا جوڑے کی بگھی یا جنازے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ ایسی چیزوں کے گرد ہمیشہ بھیڑ جمع ہو جاتی ہے۔ آپ چاہیں نہ چاہیں، پاؤں ان کی طرف خودبخود اٹھ جاتے ہیں۔ مجھے یہ سوچ کر بڑی حیرت ہوتی ہے کہ جن چیزوں کی وجہ سے ہم زندگی کو انگیز کرتے ہیں، وہی چیزیں ہماری دسترس سے باہر ہیں۔ میں پوچھتی ہوں کہ کیا آپ اپنی پیدائش کے وقت کو یاد کر سکتے ہیں یا اپنی موت کے بارے میں کسی کو کچھ بتا سکتے ہیں یا آپ کو اپنی شادی کا تجربہ دوبارہ ٹھیک اسی طرح ہو سکتا ہے؟ آپ ہنس رہے ہیں۔۔۔ نہیں میرا مطلب یہ نہیں تھا۔ بھلا کون ایسا شخص ہے جو اپنی شادی کے تجربے کو یاد نہیں کر سکتا۔
میں نے سنا ہے کہ بعض ایسے ملک ہیں جہاں لوگ ا س وقت تک شادی کا فیصلہ نہیں کرتے جب تک نشے میں دھت نہ ہو جائیں۔۔۔ بعد میں انہیں اس فیصلے کے بارے میں کچھ یاد نہیں رہتا۔ میرا مطلب اس قسم کے تجربے سے نہیں تھا۔ میرا مطلب یہ تھا کہ کیا آپ اس لمحے کو یاد کر سکتے ہیں جب آپ اچانک یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ تنہا نہ رہ کر دوسرے کے ساتھ رہیں گے۔۔۔ ساری عمر۔ میرا مطلب ہے کہ کیا آپ ٹھیک اس نقطے پر انگلی رکھ سکتے ہیں جہاں آپ اپنے اندر کی تنہائی کو تھوڑا سا ہٹاکر کسی دوسرے کو وہاں آنے دیتے ہیں۔۔۔ جی ہاں۔۔۔ اسی طرح جس طرح کچھ دیر پہلے آپ نے ذرا سا سرک کر مجھے بنچ پر بیٹھ جانے دیا تھا اورا ب میں آپ سے یوں باتیں کر رہی ہوں گویا آپ کو برسوں سے جانتی ہوں۔
لیجیے اب دو چار سپاہی بھی گرجاگھر کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ اگر بھیڑ اسی طرح بڑھتی رہی تو آنے جانے کا راستہ بھی رک جائےگا۔ آج تو خیر دھوپ نکلی ہے لیکن اَبر آلود موسم میں بھی لوگ ٹھٹرے ہوئے کھڑے رہتے ہیں۔ میں تو برسوں سے دیکھتی آرہی ہوں۔۔۔ کبھی کبھی تو یہ وہم ہوتا ہے کہ پندرہ سال قبل میری شادی کے موقع پر جو لوگ جمع ہوئے تھے، وہی لوگ آج بھی جمع ہیں۔ وہی گھوڑا گاڑی، وہی اِدھر اُدھر گھومتے ہوئے سپاہی۔۔۔ جیسے اس دوران کچھ بھی نہ بدلاہو۔ جی ہاں، میری شادی بھی اسی گرجاگھر میں ہوئی تھی۔ لیکن یہ برسوں پہلے کی بات ہے۔ اس وقت سڑک اتنی چوڑی نہیں تھی کہ گھوڑا گاڑی سیدھی گرجاگھر کے دروازے پر آکر لگ سکے۔ ہمیں اسے گلی کی پشت پر ہی روک دینا پڑتا تھا۔۔۔ میں اپنے باپ کے ساتھ پیدل چل کر یہاں آئی تھی۔۔۔
سڑک کے دونوں طرف لوگ کھڑے تھے اور میرا دل دھک دھک کر رہا تھا کہ کہیں سب کے سامنے میرا پاؤں نہ پھسل جائے۔ پتہ نہیں وہ لوگ اب کہاں ہوں گے جو اس روز بھیڑ میں کھڑے مجھے دیکھ رہے تھے۔ آپ کیا سوچتے ہیں۔۔۔ اگر ان میں سے آج کوئی مجھے دیکھے تو کیا پہچان لےگا کہ بنچ پر بیٹھی تنہا عورت وہی لڑکی ہے جو پندرہ سال پہلے سفید پوشاک میں ملبوس گرجاگھر کی طرف جا رہی تھی۔ سچ بتائیے پہچان لےگا؟ انسانوں کی بات تو میں نہیں جانتی لیکن مجھے لگتا ہے کہ وہ گھوڑا مجھے ضرور پہچان لےگا جو اس دن اپنی گاڑی میں کھینچ کر مجھے یہاں لایا تھا۔ جی ہاں، گھوڑوں کو دیکھ کر میں ہمیشہ حیران رہ جاتی ہوں۔ کبھی آپ نے ان کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا ہے؟ ایسا لگتا ہے جیسے وہ کسی زبردست روحانی شے سے الگ کر دیے گئے ہیں اور ابھی تک اس جدائی کے عادی نہیں ہو سکے ہیں۔ اس لیے وہ انسانوں کی دنیا میں سب سے زیادہ اداس رہتے ہیں۔ اس سے بڑی بدنصیبی اور کیا ہو سکتی ہے کہ آدمی کسی چیز کا عادی نہ ہو سکے۔ وہ لوگ جو کسی چیز کے عادی نہیں ہوپاتے، گھوڑوں کی طرح لاتعلق ہو جاتے ہیں یا میری طرح دھوپ کے ایک ٹکڑے کی تلاش میں ایک بنچ سے دوسری بنچ کا چکر لگاتے رہتے ہیں۔
کیا کہا آپ نے؟ نہیں آپ نے شاید مجھے غلط سمجھ لیا، میرے اولاد کوئی نہیں ہے۔ یہ بھی میری خوش نصیبی ہے۔ اولاد ہوتی تو شاید میں کبھی الگ نہ ہوپاتی۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ شوہر اور بیوی میں پیار نہ بھی ہو تب بھی اولاد کی خاطر وہ ایک دوسرے سے جڑے رہتے ہیں۔ میرے ساتھ ایسی بندش کبھی نہیں رہی۔ اگر سکھ کا مطلب یہ ہے کہ ہم تنہائی پسند ہو جائیں تو اس لحاظ سے میں بہت مطمئن ہوں۔ لیکن تنہائی کو پسند کرنا الگ بات ہے اور اس کا عادی ہونا بالکل دوسری بات۔ جب شام کو دھوپ ڈھلنے لگتی ہے تو میں اپنے کمرے میں چلی جاتی ہوں لیکن کمرے میں جانے سے قبل کچھ دیر اس پب میں ضرور بیٹھتی ہوں جہاں وہ میرا انتظار کرتا تھا۔ اس پب کا نام آپ جانتے ہیں؟ بونا پارٹ۔۔۔ جی ہاں۔ کہتے ہیں جب نپولین پہلی بار اس شہر میں آیا تھا تو اسی پب میں بیٹھا تھا۔ لیکن ان دنوں مجھے اس کے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا۔ جب پہلی بار اس نے کہا کہ ہم بونا پارٹ کے سامنے ملیں گے تو ملاقات کی شام سارے وقت میں شہر کے اس سرے پر کھڑی رہی جہاں نپولین گھوڑے پر بیٹھا ہے۔ کیا اپنے محبوب سے ملاقات کا پہلا دن آپ نے کبھی اس طرح گزارا ہے کہ آپ پوری شام پب کے سامنے کھڑے رہیں اور آپ کی منگیتر شارع عام پر بنے مجسمے کے نیچے کھڑی رہے۔ بعد میں جو اس کا شوق تھا وہ میری عادت بن گیا۔
ہم دونوں ہر شام کبھی اس جگہ پر جاتے جہاں وہ مجھ سے ملنے سے پہلے بیٹھا کرتا تھا اور کبھی شہر کے ان علاقوں میں گھومنے نکل جاتے جہاں میں نے بچپن گزارا تھا۔ کیا آپ کو یہ بات انوکھی نہیں معلوم ہوتی کہ جب ہم کسی شخص کو بہت چاہنے لگتے ہیں تو نہ صرف حال میں اس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں بلکہ اس کے اس ماضی کو بھی اپنا لینا چاہتے ہیں جس میں وہ ہمارے ساتھ نہیں تھا۔ ہم اتنے حساس اور خودغرض ہو جاتے ہیں کہ اس وقت کا تصور بھی ہمارے لیے ناقابل برداشت ہو جاتا ہے جب وہ ہمارے بغیر جیتا تھا، پیار کرتا تھا اور سوتا جاگتا تھا۔ پھر اگر کچھ سال آپ اسی شخص کے ساتھ گزار دیں تو یہ بتانابھی مشکل ہو جاتا ہے کہ کون سی عادت آپ کی اپنی ہے اور کون سی آپ نے دوسرے سے اختیار کی ہے۔۔۔ جی ہاں، تاش کے پتوں کی طرح یہ عادتیں آپ میں اس طرح گھل مل جاتی ہیں کہ آپ کسی ایک پتے کے لیے یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ پتہ میرا ہے اور وہ پتہ اس کا۔
کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ مرنے سے قبل ہم میں سے ہر ایک کو اس بات کی اجازت ملنا چاہیے کہ ہم اپنی کاٹ چھانٹ خود کر سکیں، اپنے ماضی کی تہوں کو پیاز کے چھلکوں کی طرح اتارنا شروع کر دیں۔۔۔ آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ اس وقت سب لوگ اپنا اپنا حصہ لینے آ پہنچیں گے۔ ماں، باپ، دوست، شوہر۔۔۔ سارے چھلکے دوسرے لے جائیں گے۔ آپ کے ہاتھ میں صرف سوکھا ڈنٹھل رہ جائےگا جو کسی کام کا نہیں، جسے مرنے کے بعد جلا دیا جاتا ہے یا مٹی کے نیچے دبا دیا جاتا ہے۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ ہر شخص اکیلا مرتا ہے۔ میں یہ نہیں مانتی۔ وہ ان سب لوگوں کے ساتھ مرتا ہے جو اس کے اندر تھے، جن سے وہ جھگڑتا تھا، محبت کرتا تھا۔ وہ اپنے اندر پوری ایک دنیا لے کر جاتا ہے۔ اس لیے ہمیں دوسروں کے مرنے پر جو دکھ ہوتا ہے اس میں ہماری خودغرضی شامل ہوتی ہے کیونکہ ہم سمجھ لیتے ہیں کہ اس کے ساتھ ہمارا بھی ایک حصہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا ہے۔
دیکھیے۔۔۔! وہ جاگ گیا۔ ذرا پیر مبلیٹر ہلائیے۔ دھیرے دھیرے ہلاتے رہیے۔ اپنے آپ چپ ہو جائےگا۔ منہ میں چسنی دبائے اس طرح لیٹا ہے جیسے کوئی چھوٹا سا سگار ہو۔ دیکھیے بادلوں کی طرف کیسے ٹکر ٹکر دیکھ رہا ہے۔ جب میں چھوٹی تھی تو بادلوں کو دیکھ کر لکڑی اس طرح گھماتی تھی جیسے وہ میرے ہی اشاروں پر چل رہے ہوں۔۔۔ آپ کیا سوچتے ہیں؟ بچے اس عمر میں جو کچھ دیکھتے سنتے ہیں کیا بعد میں وہ انہیں یاد رہتا ہے۔۔۔ رہتا ضرور ہوگا۔۔۔ کوئی آواز، کوئی جھلک یاکوئی آہٹ جو عمر کے ساتھ ساتھ زندگی کی بھول بھلیوں میں گم ہو جاتی ہے۔ لیکن کسی انجان لمحے میں اچانک ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ اس آواز کو ہم نے کہیں سنا ہے یا اس طرح کا واقعہ پہلے بھی رونما ہوا ہے۔۔۔ اور پھر اسی کے ساتھ بہت سی ایسی چیزیں بھی سامنے آنے لگتی ہیں جو ہمارے اندر بہت پہلے سے ہوتی ہیں لیکن روز مرہ کی دوڑ دھوپ میں ہمیں ان کی طرف دیکھنے کی فرصت ہی نہیں ملتی۔ لیکن وہ ہمارے اندر موقع کی تلاش میں گھات لگائے کسی کونے میں بیٹھی رہتی ہیں پھر سڑک پر چلتے ہوئے، ٹرام کاانتظار کرتے وقت یا رات کے وقت سونے اور جاگنے کے درمیان اچانک ہمیں پکڑ لیتی ہیں۔ اس وقت ہم کتنا ہی ہاتھ پاؤں ماریں، کتنا ہی چھٹپٹائیں وہ ہمیں چھوڑتیں نہیں۔ میرے ساتھ ایک رات ایسا ہی ہوا تھا۔۔۔
ہم دونوں سو رہے تھے کہ مجھے عجیب سا کھٹکا سنائی دیا۔۔۔ بالکل اس طرح جس طرح بچپن میں میں سوتے میں چونک اٹھتی تھی اور مجھے یہ وہم ہوتا تھا کہ دوسرے کمرے میں ماں اور بابو نہیں ہیں۔۔۔ مجھے محسوس ہوتا تھا کہ اب میں انہیں کبھی نہیں دیکھ سکوں گی اور تب میں چیخنے لگتی تھی۔ لیکن اس رات میں چیخی نہیں۔ بستر سے اٹھ کر ڈیوڑھی تک آئی۔ دروازہ کھول کر باہر جھانکا۔ باہر کوئی نہ تھا۔ واپس آکر اسے دیکھا۔ وہ دیوار کی طرف منہ کیے اسی طرح سو رہا تھا جیسے وہ ہر رات سوتا تھا۔ اس نے کچھ نہیں سنا تھا۔ تب مجھے پتہ چلاکہ وہ کھٹکا باہر نہیں میرے اندر ہی ہوا تھا۔ نہیں، میرے اندر بھی نہیں۔ اندھیرے میں ایک چمگادڑ کی طرح وہ مجھے چھوتا ہوا گزر گیا تھا۔۔۔ نہ باہر نہ اندر۔۔۔ پھر بھی چاروں طرف پھڑپھڑاتا ہوا۔ میں پلنگ پر اس جگہ آکر بیٹھ گئی جہاں وہ لیٹا ہوا تھا اور دھیرے دھیرے اس کے جسم کو چھونے لگی۔۔۔ جسم کے ان سارے حصوں کو جو ایک زمانے میں مجھے سکون دیتے تھے۔
مجھے عجیب سا لگا کہ میں اسے چھو رہی ہوں اور میرے ہاتھ خالی لوٹ رہے ہیں۔ برسوں پہلے کی وہ گونج جو اس کے اعضا سے نکل کر میری روح میں گردش کرنے لگتی تھی، اب کہیں نہیں تھی۔ میں اس کی چھاتی کو اسی طرح ٹٹول رہی تھی جس طرح کچھ لوگ پرانے کھنڈروں کی دیواروں پر برسوں پہلے کے لکھے ہوئے اپنے ناموں کو تلاش کرتے ہیں۔ لیکن میرا نام وہاں کہیں نہیں تھا۔ کچھ نشان تھے جنہیں میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا اور جن کا مجھ سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ میں رات بھر اس کے سرہانے بیٹھی رہی اور میرے مردہ ہاتھ اس کے چھاتی پر پڑے رہے۔۔۔ کتنی بھیانک بات تھی کہ میں اس خالی پن کو کسی سے بتا نہیں سکتی تھی جو ہم دونوں کے بیچ پیدا ہو گیا تھا۔ جی ہاں، اپنے وکیل سے بھی نہیں جنہیں میں عرصے سے جانتی تھی۔
وہ سمجھے میں سٹھیا گئی ہوں۔ کیسا کھٹکا؟ کیا میرا شوہر کسی دوسری عورت کے ساتھ جاتا تھا؟ کیا وہ میرے تئیں بےرحم تھا؟ جی ہاں۔۔۔ اس نے سوالوں کی بوچھار کر دی اور میں تھی کہ ایک گاؤدی کی طرح اس کا منہ تکتی رہی۔ اس وقت مجھے پہلی بار پتہ چلا کہ الگ ہونے کے لیے عدالت یا کچہری جانا ضروری نہیں۔ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ دوسروں کے ساتھ اپنا دکھ بانٹ کر ہم ہلکے ہو جاتے ہیں۔ میرے ساتھ ایسا کبھی نہیں ہوا۔ نہیں، لوگ دکھ نہیں بانٹتے، صرف فیصلہ کرتے ہیں کہ کون قصوروار ہے اور کون بےقصور۔ مشکل یہ ہے کہ جو شخص آپ کی دکھتی رگ کو ٹھیک ٹھیک پکڑ سکتا ہے، اسی سے ہم الگ ہوجاتے ہیں۔ اسی لیے میں اپنے محلے کو چھوڑ کر اس علاقے میں آگئی ہوں۔ یہاں مجھے کوئی نہیں جانتا۔ مجھے یہاں دیکھ کر کوئی شخص یہ نہیں کہتا کہ یہ عورت اپنے شوہر کے ساتھ آٹھ سال رہ کر الگ ہو گئی۔
پہلے جب کوئی اس طرح کی بات کرتا تھا تو میں بیچ سڑک پر کھڑی ہو جاتی تھی۔ جی چاہتا کہ لوگوں کو پکڑ کر شروع سے آخر تک سب کچھ بتا دوں۔۔۔ کس طرح پہلی شام الگ الگ کھڑے رہ کر ہم نے ایک دوسرے کا انتظار کیا تھا۔ وہ پب کے سامنے میں مجسمے کے نیچے۔ کس طرح اس نے پہلی بارمجھے پیڑ کے تنے سے لگاکر چوما تھا۔ کس طرح پہلی بار میں نے ڈرتے ڈرتے اس کے بالوں کو چھوا تھا۔ جی ہاں مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جب تک یہ سچائی میں انہیں بتانہیں دوں گی، اس وقت تک اس رات کے بارے میں کچھ نہ کہہ سکوں گی، جس رات پہلی بار میرے اندر کھٹکا ہوا تھا اور برسوں بعد یہ خواہش ہوئی تھی کہ اس کمرے سے بھاگ جاؤں جہاں میرے ماں باپ سوے ہوئے تھے۔۔۔ لیکن وہ کمرہ خالی تھا۔ جی! میں نے کہیں پڑھا تھا کہ بڑے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آدھی رات کو آنکھ کھل جانے پر آپ کے چیخنے چلانے پر بھی اگر دوسرے کمرے سے کوئی نہ آئے تو سمجھیے کہ وہ خالی ہے۔ دیکھیے! اس رات کے بعد میں کتنی بڑی ہو گئی ہوں۔
لیکن ایک بات اب تک میری سمجھ میں نہیں آئی۔ جب زلزلے یا بمباری کی خبریں اخباروں میں چھپتی ہیں تو دوسرے ہی دن معلوم ہو جاتا ہے کہ جہاں بچوں کا اسکول تھا وہاں اب کھنڈر ہیں اور جہاں کھنڈر تھے وہاں خاک اڑتی ہے۔ لیکن جب لوگوں کے ساتھ وہ ہوتا ہے جو میرے ساتھ ہوا تو کسی کو کوئی خبر نہیں ہوتی۔ اس رات کے بعد میں سارے شہر میں اکیلے گھومتی رہی اور پہلی بار اس پار ک میں آکر جب اس بنچ پر بیٹھی جس پر آپ بیٹھے ہیں تو کسی نے میری طرف دیکھا بھی نہیں اور ہاں اس دن تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ میں اسی گرجاگھر کے سامنے بیٹھی ہوں جہاں میری شادی ہوئی تھی۔۔۔ اس وقت سڑک اتنی چوڑی نہیں تھی کہ ہماری گھوڑا گاڑی سیدھی گرجاگھر کے سامنے پہنچ کر رک سکے۔ ہم دونوں پیدل چل کر یہاں آئے تھے۔۔۔
آپ آرگن پر موسیقی سن رہے ہیں؟ دیکھیے انہوں نے دروازے کھول دیے ہیں۔ موسیقی کی آواز یہاں تک آرہی ہے۔ اسے سنتے ہی مجھے معلوم ہو جاتا ہے کہ انہوں نے ایک دوسرے کو چوما ہے۔ ایک دوسرے سے انگوٹھیاں بدلی ہیں۔ بس اب تھوڑی سی دیر اور ہے۔۔۔ وہ باہر آنے والے ہیں۔ لوگوں میں اتنا صبر کہاں کہ سکون سے کھڑے رہیں۔ اگر آپ دیکھنا چاہیں تو بےجھجک چلے جائیں۔ میں تو یہاں بیٹھی ہی ہوں۔ آپ کے بچے کو دیکھتی رہوں گی۔ کیا کہا آپ نے؟ جی ہاں دن ڈھلنے تک یہیں رہتی ہوں۔ پھر یہاں سردی بڑھنے لگتی ہے۔ دن بھر میں یہی دیکھتی رہتی ہوں کہ دھوپ کا ٹکڑا کس بنچ پر ہے اور اسی پر جاکر بیٹھ جاتی ہوں۔ پارک کا ایسا کوئی کونا نہیں جہاں میں گھڑی دو گھڑی بیٹھتی نہ ہوں۔ لیکن یہ بنچ مجھے سب سے اچھی لگتی ہے۔ ایک تو اس پر پتے نہیں گرتے اور دوسرے۔۔۔ ارے آپ جا رہے ہیں؟
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.