دھند میں لپٹی ایک صبح
اس بار سردیاں کچھ زیادہ ہی دیر کے لئے رک گئی تھیں۔ جنور ی ختم ہونے کو آ رہا تھا مگر ٹھنڈ ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ شمالی علاقوں میں بھاری برف باری کا سلسلہ جاری تھا۔مغرب سے آنے والی سرد ہوائیں چہار سو چکراتی پھرتیں۔ فجر کے وقت دھند کی چادر کبھی کبھی اتنی دبیز ہو جایا کرتی کہ سامنے کی چیزیں بھی دکھائی نہ دیتیں۔ ایسی ہی ایک دھندلی صبح کو کسی شیر خوار بچے کے رونے کی آواز سن کر وہ چونک پڑا تھا۔ مسجد جانے کے لیے وہ ابھی ابھی اپنے گھر سے نکلا تھا۔ اس نے رونے کی آواز کی سمت کا پتہ لگانے کے لیے ادھر ادھر دیکھا لیکن اسے ایسا لگا جیسے یہ آواز ہر طرف سے آ رہی ہے۔ اس نے ہاتھ میں پکڑے موبائل کے روشن ٹارچ کا رخ گھما گھما کرچاروں جانب آواز گریہ کے منبع کا پتہ لگانے کی کوشش کی۔ پھر اس نے لرزتی کانپتی روشنی میں دیکھا کہ کپڑوں میں لپٹی ایک چھوٹی سی گٹھری ایک مکان کی دیوار کے کنارے رکھی دھیرے دھیرے جنبش کر رہی ہے۔ اس نے ایک لمحے کو رک کر کچھ سوچا۔ اسے پہلے ہی کچھ تاخیر ہو چکی تھی۔جماعت کھڑی ہو گئی ہوگی۔ خیر نماز تو بعد میں بھی پڑھی جا سکتی ہے لیکن اگر اس ننھی سی جان کو کچھ ہو گیا تو۔۔۔؟ کسی آوارہ کتے کی نظر اگر اس پر پڑ گئی تو۔۔۔؟؟ مسجد کی جانب اٹھنے والے قدم گٹھری کی جانب مُڑ گئے۔قریب پہنچ کر اس نے اسے اٹھایا اور اپنے اوور کوٹ کے بٹن کھول کر اسے اپنے اندر چھپا لیا۔ رونے کی فریاد نما آواز مسلسل آ رہی تھی۔ آواز کی نزاکت سے اس نے اندازہ لگایا کہ یہ کوئی بچی ہے۔ وہ اسے سینے سے لگائے لگائے واپسی کے لیے مڑا۔ گھر کے دروازے پر پہنچ کر اس نے اسے ایک پہلو میں لیا اور دوسرے ہاتھ سے چابی نکال کر دروازہ کھولا۔ اس نے ارادہ کیا کہ صبح ہونے پر وہ محلے والوں کو یکجا کرےگا اور ان لوگوں سے مشورہ کر کے کوئی قدم اٹھائےگا۔ تب تک یہ بچی اس کے گھر میں محفوظ رہےگی۔ اس کی بیوی ابھی تک سوئی پڑی تھی۔ اس نے بچی کو بیوی کے بغل میں لٹا کر اوپر سے لحاف اڑھا دیا اور پھر ڈرائنگ روم میں جائے نماز بچھا کر نیت باندھ لی۔
اس کی شادی کو بیس برس گزر چکے تھے لیکن اس کی بیوی کی گود ہنوز سونی تھی۔ جب وہ مفلوک الحال لوگوں کے یہاں اولاد کی کثرت دیکھتا تو قدرت کی ا س کرشمہ سازی پر حیران رہ جاتا۔ جن کے یہاں کھانے کے لئے دانا نہیں، پہننے کو کپڑا نہیں، سر چھپانے کو چھت نہیں ان کے آنگن بچوں سے بھرے ہوئے تھے اور جو بھرے پڑے تھے ان کے یہاں سناٹے براجمان تھے۔ اس کی بیوی سردیوں کے آنے سے پہلے اون کے گولے خرید رکھتی لیکن ہر بار وہ یونہی بیکار پڑے رہ جاتے۔ دو تین برس تو ہنستے کھیلتے گزر گئے لیکن چوتھے برس جب گھر کا سناٹا بڑھنے لگا تواحمد کو بھی فکر ہو نے لگی اور اس نے شہر کی سب سے مشہور گائنا کولوجسٹ سے رابطہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا جس کی ذاتی کلینک میں نمبر لگا کر کئی دنوں تک انتظار کرنا پڑتا تھا۔ انہیں تین دن بعد کا نمبر ملا اور شام کے پانچ بجے کا وقت دیا گیا۔ ویٹنگ روم اس وقت کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ دیوار گیر ٹی وی آن تھا اور اس پر کوئی مار دھاڑ سے بھرپور فلم چل رہی تھی۔ وقفے وقفے سے ایک شخص لیڈی ڈاکٹر کے چیمبر سے نمودار ہو کر کسی کا نام پکارتا اور جس کو آواز دی جاتی وہ اپنے وہ اپنے جسم کو بصد احتیاط سنبھالتے ہوئی اندر داخل ہوتی لیکن بعض عورتیں ابھی اس احتیاتی دور میں داخل نہیں ہوئی تھیں وہ لپک جھپک کر اندر چلی جاتیں۔ ہر عورت کے ساتھ کوئی عورت یا مرد ہوتا۔ یہاں بیٹھے ہوئے ایک گھنٹہ سے زیادہ ہو گیا تو احمد اکتاہٹ محسوس کر نے لگا۔ اس نے دیکھا کہ جمیلہ کی نظریں دیوار پر چسپاں پوسٹرز کو پڑھنے میں مشغول تھیں۔ ان پر حاملہ عورتیں کے لئے ہدایات درج تھیں۔۔۔ ساتھ ہی ساتھ تغذیہ سے بھرپور غذاؤں اور گل گوتھنے بچوں کی تصویریں بھی تھیں۔۔۔ لیکن وہ ابھی حاملہ ہوئی ہی کہاں تھی۔ چار برس سوکھے ساون کی طرح گذر گئے تھے۔
گائنا کو لو جسٹ پستہ قد کی ایک تیز طرار عورت تھی۔ اس نے جمیلہ کی باتیں غور سے سنیں۔ پھر اسے سبز پردے کے پیچھے بچھے بیڈ پر لٹا کر اس کا معائنہ کیا۔تھوڑی دیر بعد وہ اپنی نشست پر آ کر بیٹھ گئی۔ جمیلہ نے بھی اپنی کرسی سنبھال لی۔ لیڈی ڈاکٹر نے نسخہ لکھ کر اس کے حوالے کیا اور بولی۔
’’آپ دونوں اپنا اپنا ٹیسٹ کروالیں۔‘‘
دونوں نے اپنے اپنے ٹیسٹ کروالئے۔ احمد کی رپورٹ بھی مثبت تھی اور جمیلہ کی بھی۔
’’سب ٹھیک ہے، تو پھر۔۔۔؟‘‘
’’سب اوپر والے کی مرضی ہے۔جب جو ہونا ہوگا وہی ہوگا۔‘‘ احمد نے عارفانہ لہجے میں کہا۔ پھر انہوں نے خانقاہ جانے کی سوچی۔ احمد کی حضرت صاحب سے صاحب سلامت تھی۔ معلوم ہوا کہ حضرت آجکل شہر میں موجود ہیں۔ اس نے خانقاہ کے خادم خاص کو فون کیا اور ملاقات کا وقت لے لیا۔ خانقاہ کے اندر باہر دور دور سے آئے ہوئے لوگوں کا جم غفیر تھا۔انتظارگاہ میں بیٹھے ہوئے انہیں ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ وہاں کے خادم خاص نسیم صاحب نے انہیں اشارہ کیا۔انہیں باریابی کی اجازت مل گئی تھی۔ وہاں بیٹھی ایک برقع پوش عورت دھیرے سے منمنائی۔
’’ہم لوگ تین دنوں سے نمبر لگائے بیٹھے ہیں اور یہ لوگ ابھی آئے اور ابھی۔۔۔‘‘ نسیم صاحب نے اس عورت کو چپ رہنے کا اشارہ کیا اور ان دونوں کو اپنے پیچھے آنے کے لئے کہا۔وہ دونوں ایک بڑے سے دالان سے گذر کرحجرے کے اندر داخل ہوئے۔ اعلیٰ حضرت ایک چھوٹے سے تخت پر بیٹھے کسی سائل کی فریاد سننے میں محو تھے۔ وہاں کئی اور لوگ بھی تھے جو سب کے سب قالین پر بیٹھے تھے۔حجرے کے اندر ایک سکون بخش گرماہٹ پھیلی ہوئی تھی۔ان دونوں نے حضرت کو سلام کیا تو انہوں چشمے کی پیچھے سے مسکراتی ہوئی آنکھوں سے ان کی جانب دیکھتے ہوئے سلام کا جواب دیا اور انہیں بیٹھ جانے کا اشارہ کیا۔وہ دونوں بھی قالین کے ایک کنارے بیٹھ رہے۔حضرت پھر اپنے سامنے بیٹھے ہوئے شخص کی جانب متوجہ ہوئے۔وہ اپنی آنکھوں میں امید و بیم کے چراغ جلائے انہیں دیکھ رہا تھا۔ حضرت نے اپنے چھوٹے سے بکس سے ایک تعویذ نکال کر اسے دیا ۔پھر اس پر کچھ پڑھ کر پھونکا۔یہ عمل باری باری سے وہاں پر بیٹھے ہر شخص کے ساتھ دہرایا گیا۔ اس طرح سبھی اپنی اپنی جھولیاں بھرنے کی امیدیں لے کر رخصت ہو گئے۔ جب تخلیہ ہو گیا تو حضرت ان دونوں کی جانب متوجہ ہوئے۔
’’کہئے احمد صاحب! کیااحوال ہیں؟‘‘
’’الحمد للہ! سب اللہ کا کرم ہے۔‘‘ پھر کچھ توقف کے بعد بولا۔
’’اور آپ کی دعائیں بھی شامل حال ہیں۔‘‘ حضرت پھر جمیلہ کی جانب متوجہ ہوئے۔
’’اور آپ کیسی ہیں؟‘‘ جمیلہ نے بھی وہی جواب دیا جو احمد نے دیا تھا۔ حضرت یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ یہاں جو بھی آتا ہے وہ اپنی امیدوں کی گٹھری بغل میں دبائے ہوتا ہے۔یہ سب کے سب سوالی ہوتے ہیں۔کچھ لوگ تو اپنا سوال خود ہی باہر نکال کر رکھ دیتے تھے اور کسی کسی سے حضرت کو خود ہی سوال کرنا پڑتا تھا۔ انہوں نے احمداورجمیلہ کو چپ بیٹھے دیکھا تو انہوں نے جمیلہ کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
’’آپ شاید پہلی بار یہاں آئی ہیں۔‘‘
’’جی! جی ہاں!!‘‘ جمیلہ نے اپنے سر کو جنبش دیتے ہوئے دھیرے سے جواب دیا۔
’’آپ کو کچھ چاہئے کیا؟‘‘
’’جی!‘‘
’’اتنا اچھا شوہر ملا ہے آپ کو۔۔۔ اور کیا چاہئے؟‘‘ یہ بات شاید انہوں نے از راہ مذاق کہی تھی کیونکہ ان کی عقابی نگاہیں جمیلہ کی بندھی گٹھری کے اندر پوشیدہ سوال کو پڑھ چکی تھیں مگر وہ خود جمیلہ کی زبان سے اس کا عندیہ معلوم کرنا چاہ رہے تھے۔ جمیلہ ہچکچارہی تھی۔ اس کی نظریں جھکی ہوئی تھیں اور وہ اپنے نچلے ہونٹ کو دانتوں سے کاٹے جا رہی تھی۔ احمد کو معلوم تھا کہ حضرت کا وقت نہایت قیمتی ہے۔ اس نے جمیلہ کو دھیرے سے ٹہوکا دیا۔ جمیلہ کی نظریں اُٹھیں۔۔۔ اس نے ایک باراحمد کو دیکھا اور پھر حضرت صاحب کو۔۔۔ پھر نظریں دوبارہ قالین پر مرکوز کرتے ہوئے ا س نے اپنے ہونٹوں کو جنبش دی۔اس کے لبوں سے کوئی آواز نہیں نکلی لیکن اس کی ان کہی حضرت نے سن لی۔ انہوں نے ایک طویل سانس لی۔ ان کا اندازہ درست نکلا تھا۔ پھر انہوں نے اپنے بکس سے تین تعویذ نکالے اور اس کے حوالے کرتے ہوئے کہا۔
’’نسیم صاحب آپ کو سب کچھ سمجھا دیں گے۔ کوشش کرنا انسان کا فرض ہے۔ نتیجہ اللہ کے ہاتھوں میں ہے۔میں تو صرف دعا ہی کر سکتا ہوں۔‘‘ پھر انہوں نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دیئے۔ احمد اور جمیلہ نے بھی اپنے ہاتھ بارگاہ الہیٰ میں بلند کر دیئے۔
وہاں سے واپس آنے کے بعد جمیلہ نے شمیم صاحب کی ہدایت کے مطابق ایک تعویذ کو زعفران کے پانی میں گھول کر پی لیا۔ دوسرے کو بازو میں باندھا اور تیسرے کو کمر میں۔
کمر والے تعویذ کو کسی بھی وقت نہیں اتارنا تھا۔
تعویذ پہنے ہوئے ابھی ایک ہی ماہ گزرا تھا کہ جمیلہ کے پاؤں بھاری ہو گئے اور وہ بھاگ بھری جیسے اپنے پرانے جون میں لوٹ آئی۔ چہرہ گلنار ہونے لگا اور ہونٹ مسکرانے لگے۔ اب اس کی چال میں ایک عجیب سی مستی اور والہانہ پن جھلکنے لگا تھا۔ اب وہ ہر وقت اپنے ہونے والے بچے کے خیالوں میں گم رہنے لگی تھی۔پرانے بکس کے اندر سے اس نے اون کے گولے کھوج نکالے تھے اور اب وہ تیلیوں کی مدد سے خواب بننے لگی تھی۔ انہی دنوں اس کی نند کی منسوب طے ہو گئی۔ دو ماہ بعد اس کی شادی تھی تھی۔ سسرال سے فون پر فون آ نے لگے۔ احمد کی یہ سب سے چھوٹی بہن تھی اور وہ اس بہر صورت اس تقریب میں شریک ہونا چاہتا تھا۔ اس نے تیاریاں شروع کر دیں۔ دو ماہ کا عرصہ پلک جھپکتے ہی گزر گیا اور شادی کا وقت قریب آ گیا۔ جمیلہ اب اپنے حمل کو محسوس کرنے لگی تھی اور اس کا پیٹ بھی کچھ اُبھر آیا تھا۔ وہ شادی کی اس تقریب میں شریک ہونا نہیں چاہتی تھی۔ اتنی دور کا سفر اور وہ بھی کار سے۔۔۔ مگر بعض رشتہ داریاں بڑی نازک ہو تی ہیں۔ نہ جاؤ تو تا زندگی شکوہ رہتا ہے۔ ایسے میں کوئی بہانہ بھی کام نہیں آتا۔ شادی سے تین روز قبل وہاں جانے کا پروگرام بنا تاکہ مانجا کی تقریب میں بھی شرکت ہو جائے۔ جمیلہ نہ چاہتے ہوئے بھی وہاں جانے کے لئے مجبور تھی۔ ان کی روانگی صبح سویرے ہی ہو گئی تھی۔ گو کہ کار کی رفتار مناسب تھی لیکن آدھے گھنٹے کے سفر کے بعد ہی اس کا جی متلانے لگا تھا۔ اس نے اپنے آپ پر قابو پانے کی بہت کوششیں کیں مگر اس کی طبیعت بگڑتی ہی چلی گئی۔ احمدکی نظر جب اس کے چہرے پر پڑی تو وہ گھبرا گیا۔ اس نے فوراً ڈرائیور سے کار روکنے کو کہا۔ جب کار سڑک کے کنارے لگ گئی تو اس نے جمیلہ کو سہارا دے کر نیچے اتارا اور وہ سڑک کے کنارے بیٹھ کر الٹیاں کرنے لگی۔ احمد ا س کی پیٹھ سہلانے لگا۔جمیلہ کی آنکھوں کے گوشے بھیگ چلے تھے اور وہ کسی خوفزدہ ہرنی کی طرح دکھائی دے رہی تھی۔ کار میں دوبارہ بیٹھ چکنے کے بعد جمیلہ کو محسوس ہوا کہ پیٹ پر زور پڑنے کی وجہ سے کمر میں بندھے تعویذ کا دھاگا ٹوٹ چکا ہے۔ اس پر غشی طاری ہو گئی۔ احمد پہلے تو گھبرایا۔ پھر اس نے اپنے آپ کو سنبھالا۔ شہر پہنچ کر وہ سیدھا ایک پرائیویٹ نرسنگ ہوم میں پہ گیا۔ جمیلہ کو وہاں ایڈمٹ کروانے کے بعد اس نے اپنے چھوٹے بھائی کو فون کیا۔ چھوٹے بھائی کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی ہاسپیٹل آئے۔ خون بہت زیادہ بہہ چکا تھا اور اس کے ساتھ سارے خواب بھی بہہ گئے تھے۔ ڈاکٹر نے بچہ دانی کی صفائی کروانے کو کہا۔ احمد نے ہسپتال کے کاغذات پر دستخط کر کے اس کی اجازت دے دی۔ لیکن بچہ دانی کی صفائی کے بعد اس میں انفکشن ہو گیا۔ دواؤں اور انجکشن سے جب فائدہ نہ ہوا تو مجبوراً اس کی بچہ دانی کو نکال دینے کا فیصلہ کیا گیا کیونکہ اس کی جان کو خطرہ تھا۔ احمد سے پھر اجازت طلب کی گئی جو اس نے فوراً دے دی۔
اس واقعے کو کئی سال بیت گئے۔ جمیلہ نے ایک طوطا پال لیا تھا جس سے وہ اکثر باتیں کیا کرتی۔ تھوڑے دنوں کے بعد اس نے ایک بلی بھی پوس لی۔ طوطا پنجرے میں ٹیں ٹیں کرتا رہتا اور بلی اپنے پچھلے پیروں کے سہارے بیٹھی اسے حسرت سے تکا کرتی۔ اس نے بالکنی میں کچھ گملے بھی لگا دیئے جن میں پھول مسکرانے لگے تھے۔ وہ ان پودوں کی دیکھ بھال کرتی۔ لیکن ان بہانوں سے اس کی طبیعت نہ بہلتی تھی۔کبھی کبھی اسے خیال آتا کہ کوئی بچہ گود لے لیا جائے لیکن احمد کہتا کہ اسلام میں بچے کسی بچے کو گود لینا منع ہے۔ وہ کہتی ٹھیک ہے گود نہ لیں یوں ہی رکھ لیں۔۔۔ کسی یتیم خانے سے لا کر۔وہ کہتا، پتہ نہیں کس کا خون ہو، کیسے سنسکار ہوں اس کے۔ اس نے کہیں پڑھا تھا کہ ایک لے پالک نے اپنے ہی پالنے والوں کا خون کر دیا تھا۔ آخر کار جمیلہ نے اس بات کا ذکر ہی کرنا چھوڑ دیا تھا۔
احمد فجر کی نماز سے فارغ ہو چکا تھا۔ دعائیں مانگ چکنے کے بعد وہ مشرق کی جانب کھلنے والی کھڑکی کے قریب آ کھڑا ہوا۔ وہ بچی کے لئے کسی مناسب انتظام کے بارے میں سوچنے لگا۔ اس نے محلے کے ان سر کردہ لوگوں کے بارے میں سوچا جو اس سلسلے میں اس کی مدد کر سکتے تھے۔ سوچتے سوچتے اس نے کھڑکی باہر دیکھا ۔باہر ابھی بھی دھند چھائی ہوئی تھی۔ اچانک بیڈ روم سے بچی کے رونے کی آواز آئی۔ وہ بیڈ روم کی جانب لپکا مبادا جمیلہ کی آنکھ کھل جائے اور وہ اس بچی کو دیکھ کر پریشان ہو جائے۔ مگر اندر پہنچ کر اس نے دیکھا کہ جمیلہ نہ صرف بیدار ہو چکی تھی بلکہ اپنی چھاتیاں کھول کر اسے دودھ بھی پلا رہی تھی۔اور ساتھ ہی ساتھ پیار سے اس کا سر بھی سہلائے جا رہی تھی۔ آہٹ سن کر اس نے نظریں اٹھائیں تو احمد نے جلدی جلدی خود ہی ساری بات بتادی۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ جمیلہ اس کی جانب سے کسی غلط فہمی کا شکار ہو۔ اس نے یہ بھی کہا کہ محلے والوں کے مشورے سے اسے یتیم خانے بھیجنے کا انتظام کیا جائےگا۔ اس کی بات سن کر جمیلہ بولی۔
’’اب یہ کہیں نہیں جائےگی۔ اللہ نے اسے میرے لئے بھیجا ہے ۔اب یہ میری بیٹی ہے۔‘‘
اس کی بات سن کر احمد پہلے تو سکپکا گیا۔ پھر ذرا سنبھل کر بولا۔
’’پتہ نہیں کس کی ناجائز اولاد ہے۔ نہ ذات کا پتہ نہ خاندان کا۔ میں اسے اپنے گھر میں نہیں رکھ سکتا۔‘‘ جمیلہ نے اس کی بات سنی اور ٹھنڈے ٹھنڈے بولی۔
’’جب ہم جانوروں کے بچوں کو اپنے گھر میں رکھ سکتے ہیں تو کسی انسان کے بچے کو کیوں نہیں؟‘‘
’’جانوروں کی بات اور ہے لیکن۔۔۔ لیکن۔۔۔‘‘ احمد کو اس کے سوال کا جواب نہیں سوجھ رہا تھا۔ وہ چپ ہو کر جمیلہ کا چہرہ تکنے لگا۔ جمیلہ نے بچی کے سر کو لحاف کے اندر چھپا رکھا تھا اور اس کے اندر سے چسر چسر کی آوازیں آ رہی تھیں۔ اس نے جمیلہ کے چہرے کو غور سے دیکھا۔ اس کے چہرے پر ایک ملکوتی حسن چھایا ہوا تھا اور پورا چہرہ مامتا کے نور سے روشن تھا۔ اس کے ہونٹ مسکرانے کے انداز میں وا تھے اور اس کی آنکھوں میں خوشیاں رقص کر رہی تھیں۔ احمد کو اس وقت وہ دنیا کی حسین ترین عورت دکھائی دے رہی تھی۔ اس نے اپنی نظریں جھکا لیں اور جمیلہ کے بغل میں بیٹھ کر دھیرے سے بولا۔
’’یہ صرف تمہاری نہیں، ہم دونوں کی بیٹی ہے۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.