Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دھوپ چھاؤں

اسرار گاندھی

دھوپ چھاؤں

اسرار گاندھی

MORE BYاسرار گاندھی

    وہ اپنا گھر چھوڑ کر اولڈ ایج ہوم میں آ گیا تھا اور اس کے دن آنسوؤں سے بھر گئے تھے۔ پچھلے پچاس برسوں کی زندگی بھولنا اتنا آسان تو نہ تھا۔ ہر لمحہ کچھ نہ کچھ باتیں اس کے دل و دماغ میں سوئیوں کی طرح تیرتی رہتیں اور اس کا پورا وجود چھلنی ہو کر رہ جاتا۔

    کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا تو اسے بستر چھوڑ کر اٹھنا پڑا۔

    باہر ہوم کا نوکر کھڑا تھا۔

    ’’ کیا بات ہے؟‘‘ وہ نوکر کو دیکھتا ہوا بولا۔

    ’’چائے کا وقت ہے، آپ میس میں آ کر چائے پی لیں۔‘‘

    ’’چلو میں آتا ہوں۔‘‘

    وہ کپڑے تبدیل کر کے میس کی طرف چل پڑا۔

    بڑی شاداب جگہ پر تھایہ ہوم۔ یہاں کے لوگ بڑے نرم مزاج تھے۔ بہت ہی محبتوں سے باتیں کرتے، ہر طرح کا خیال رکھتے، شاید ان کو ایسی ٹریننگ ہی دی گئی تھی۔

    اس نے میس میں چائے پی اور باہر آکر لان میں پڑی ہوئی ایک آرام کرسی پر بیٹھ گیا۔ لان پر اور بھی کئی لوگ بیٹھے تھے۔ جنہیں وہ نہیں جانتا تھا کہ اسے یہاں آئے ہوئے ابھی کچھ ہی دن ہوئے تھے۔

    لان پر مخمل جیسی گھاس بچھی تھی اور وہاں رکھے ہوئے قطار در قطار گملوں میں خوبصورت پھول کھلے ہوئے تھے۔ شاید ہوم کو اس لئے بھی خوبصورت بنایا گیا ہوگا کہ تنہائی کا شکار یہ بزرگ اپنے آپ کو اس خوبصورتی کا حصہ بنا لیں اور ان کا وقت آسانی سے کٹ سکے۔

    لیکن اس وقت اسے یہ خوبصورتی بھی ذہنی سکون نہ دے سکی۔

    اسے اپنا گھر یادآ رہا تھا۔ گھر کے لوگ یاد آ رہے تھے۔ وہ لوگ جنھوں نے اسے یہاں آنے دیا اور اس کے گھر چھوڑ کر اس ہوم میں چلے آنے کے تعلق سے قطعی خاموشی اختیار کر لی تھی۔ شاید انھیں اس طرح اس کا اِس ہوم میں آنا اچھا لگا ہو۔ شاید وہ لوگ یہی چاہتے بھی تھے کہ وہ ان کے حسب منشا زندہ نہیں رہ سکتا تھا۔

    اس نے نظر اٹھا کر لان کی طرف دیکھا جہاں کئی لوگ آپس میں مل کر خوش گپیاں کر رہے تھے۔ یہ لوگ بھی تو یوں ہی یہاں نہ آ گئے ہوں گے۔ ان کی بھی گھر چھوڑنے کی مجبوریاں رہی ہوں گی۔ کس کی اولاد کب ہوئی ہے اپنے بوڑھے ماں باپ کی لیکن اس کے بچے تو اپنی ماں کے ہو گئے۔ اسے وہ سرگوشیاں یاد آئیں۔ ’’دیکھو تمہارے باپ نے مجھے بہت پریشان کیا ہے۔ میں نے تم لوگوں کے لئے بڑی ذلتیں سہی ہیں۔‘‘ بڑے ہوتے ہوئے بچے اپنی ماں کی باتوں پر یقین کر لیتے اور ان کی آنکھوں میں نفرت کے سائے لہرانے لگتے۔

    اس نے سوچاکہ کاش اس نے بھی اپنے بچوں کوسچ بتانے کی کوشش کی ہوتی لیکن پھریہ سوچ کر خاموش ہو جاتا کہ بڑے ہو کر یہ اپنے آپ ہی سچ سے روشناس ہو جائیں گے۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ بچے جیوں کے تیوں رہے۔ اسے سوچنا چاہئے تھا کہ جب اولادیں جوان ہو جاتی ہیں تو مائیں اپنے شوہر کے مد مقابل کھڑی ہو نے لگتی ہیں۔

    اور اب وہ اس اولڈ ایج ہوم میں تھا۔ جو بڑی شاداب جگہ پر بنایا گیا تھا۔ اور یہاں اس جیسے کتنے لوگ دھیمے دھیمے قدموں سے آتی ہوئی موت کا انتظار کر رہے تھے۔

    وہ لان پر سے اٹھا اور اپنے کمرے میں آ گیا۔ بستر پر لیٹتے ہی بہت سی یادوں اور آوازوں نے اسے گھر لیا تھا۔ اسے خیال آیا کہ وہ اپنی بیٹی سے کتنا پیار کرتا ہے لیکن بیٹی کا بےاعتنائی سے بھرپور رویہ ہمیشہ اس کے وجود کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا۔ کئی بار وہ سوچتا کہ آخر اس کا قصور کیا ہے۔ پھر اسے اپنے اندر سے آتی ہوئی ایک آواز سنائی دیتی کہ ان پریشانیوں کے ذمہ دار تو تم خود بھی ہو۔ تم نے ہی تو اپنے وجود کو ایک ساؤنڈ پروف چادر میں لپیٹ رکھا تھا۔ ان دنوں کیا تم نے کبھی اپنے بچوں کے بارے میں بھی سوچا۔ وہ اس آواز کو سن کر سہم جاتا۔

    اس نے سوچا کہ کتنی خاموشی سے زیادہ تر دوست دور ہوتے چلے گئے اور وہ تنہا ہوتا چلا گیا تھا۔ صرف ایک صادقہ ہی تھی جو اب بھی اس کی غم گسار تھی۔

    صادقہ۔۔۔ جو کسی کالج میں پینٹنگز کی ٹیچر تھی اور ساتھ ہی ایک جانی مانی پینٹر بھی۔

    شاید وہ صادقہ ہی تھی، نہیں یقیناً وہ صادقہ ہی تھی جس نے پہلی ملاقات کے کچھ دنوں بعد ا س کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا تھا۔۔۔

    ’’اپنی اوپر لادی گئی نیند شکست خوردہ انسان کے لئے ہوتی ہے، اس خیال سے باہر آ جاؤ۔ زندگی بہت خوبصورت ہوتی ہے، میں تمہارے ساتھ ہوں۔‘‘

    پھر وہ سچ مچ ان دنوں سے باہر آ گیا تھا، جو آنسوؤں سے بھرے تھے۔ کتنے دنوں بعد گرم جوشی کے ساتھ وہ دن لوٹے تھے۔ ایک الگ سا احساس، ایک الگ سی خوشبو لئے ہوئے۔ اچانک پھرکسی نے دروازہ کھٹکھٹایا تو وہ چونک پڑا اور اس کی سوچ کے پرندے پرواز کر گئے۔ وہ جھنجھلا کر اٹھا اور دروازہ کھول کر دیکھا تو ہوم کا ایک چپراسی کھڑا تھا۔ اس نے کاٹ کھانے والے انداز میں پوچھا۔ ’’کیا ہے؟‘‘

    ’’صاحب شام کو لان پر ایک ضروری میٹنگ ہے آپ اس میں ضرور آئیے۔‘‘ چپراسی چلا گیا۔ اور اس نے بڑبڑاتے ہوئے دروازہ بند کیا اور بستر پر آ کر دوبارہ لیٹ گیا اور یادوں کی پگڈنڈی پھر روشن ہو گئی۔

    اس نے سوچا کہ اس نے صادقہ کو پہلی بار کب دیکھا تھا، پھر اسے فوراً ہی یاد آ یا کہ وہ اسے پہلی بار ایک پینٹنگ کی نمائش میں ملی تھی۔

    اس دن وہ یوں ہی اِدھر اُدھر ٹہل رہا تھا کہ اس کی نظریں اس ہال پر پڑی جہاں مصوری کے تعلق سے ایک نمائش لگی تھی۔ وہ ہال میں داخل ہو گیا۔

    ہال میں بڑے سلیقہ سے پینٹنگز سجائی گئی تھیں۔ وہ مصوری کے خوبصورت نمونوں کو دیکھتے ہوئے اس تک پہنچا تھا۔

    اس نے بہت خوبصورت رنگوں میں اپنی پینٹنگز بنائی تھیں۔ وہ چند لمحے وہاں ٹھہرا رہا پھر پینٹنگز کی طرف سے نظریں ہٹا کر اس کی طرف دیکھا۔ یہ کہنااس کے لئے مشکل تھا کہ وہ زیادہ خوبصورت تھی یا اس کی تخلیق کردہ تصویریں۔

    اس نے اپنے قدم آگے بڑھائے ہی تھے کہ وہ اس کے قریب آکر آہستہ سے بولی ’’پینٹنگزکیسی لگیں؟‘‘

    ’’بہت خوبصورت بنائی ہے آپ نے یہ پینٹنگز۔ لیکن اگر آپ ان پینٹنگزسے ذرا دور ہٹ کر کھڑی ہو جائیں تو یقیناً یہ پینٹنگز زیادہ حسین نظر آنے لگیں گی۔‘‘

    وہ Blush کر گئی۔

    وہ بھی مسکراتا ہوا آگے بڑھ گیا، لیکن اس نے محسوس کیا کہ جیسے اس کے اندر کوئی چیز کہیں ٹھہر گئی ہے۔

    اگلی ملاقات بھی ایسی ہی ایک نمائش میں ہوئی تھی۔ اس دن وہ اسے ہال کے دروازے پر ہی مل گئی تھی۔

    ’’آپ‘‘ وہ اسے دیکھتا ہوا بولا۔

    ’’ہاں میں، میں صادقہ ہوں، ایک کالج میں پڑھاتی ہوں۔‘‘

    ’’بہت اچھا لگا آپ سے مل کر۔‘‘

    ’’مجھے بھی۔‘‘

    ’’آج آپ کی پینٹنگز؟‘‘

    ’’میں آج صرف دوسروں کی تخلیقات سے لطف لینے آئی ہوں۔‘‘

    ’’آپ نے اچھا کیا۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’آج آپ کو دیکھ کر آپ کی پینٹنگز اور بھی شرمسار ہو جاتیں۔‘‘

    وہ اسے دیکھ کرمسکرائی ’’شکریہ‘‘

    ’’چلئے یہاں لگے ہوئے مصوری کے نمونوں کو دیکھا جائے‘‘ وہ دھیرے سے پھر بولی۔

    ’’ہاں چلئے کہ آپ کے ساتھ ان پینٹنگز کو دیکھنے کا مزہ تو کچھ اور ہی ہوگا۔ ورنہ مجھے تو رنگوں کے تعلق سے کچھ زیادہ معلوم نہیں۔‘‘

    پھر وہ اسے دیر تک ان تصویرو ں کی باریکیاں سمجھاتی رہی۔

    ’’کیا آپ میرے ساتھ کہیں بیٹھ کر ایک کپ کافی پینا پسند کریں گی؟‘‘ اچانک وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتا ہوا بولا۔

    تھوڑی سی ہچکچاہٹ کے بعد وہ راضی ہو گئی۔

    کچھ دیر بعد وہ ایک خوبصورت سے ریستورا ن ’’محفل‘‘ میں بیٹھے ہوئے تھے۔

    کافی کا سپ لیتے ہوئے صادقہ بولی تھی ’’کیا آپ کو بھی پینٹنگز بنانے کا شوق ہے، یا صرف دیکھنے کی حد تک ہی محدود ہیں۔‘‘

    ’’صرف دیکھنے کی حد تک۔ دراصل پینٹنگز میرے اندر کی جمالیاتی حس کو مطمئن کرتی ہیں اور یہ بات صرف پینٹنگز تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ۔۔۔‘‘ وہ اچانک خاموش ہو کر اسے دیکھنے لگا اور اپنی بات ادھوری چھوڑ دی۔

    اس نے صادقہ کے اندر کچھ اتھل پتھل سی محسوس کی۔

    صادقہ خاموشی سے ہال کا جائزہ لے رہی تھی۔ ہر ٹیبل پر ایک لیمپ لٹکا ہوا تھا، جس کی روشنی ایک چھوٹے سے دائرے تک ہی محدود تھی۔ ان میزوں کے علاوہ ہال میں ہر طرف ایک پراسرار کی تاریکی بکھری ہوئی تھی۔

    ’’آپ کون سا پرفیوم استعمال کرتی ہیں؟ بڑی دلآویز خوشبو ہے، کافی ہیجان انگیز۔‘‘

    اس کی آواز سن کر وہ چونک پڑی۔

    ’’یہ آپ کا واہمہ ہے، میں پرفیوم کبھی استعمال نہیں کرتی۔‘‘ وہ بڑے پر وقار انداز میں بولی۔

    وہ جھینپ گیا، لیکن اسے حیرت ضرور ہوئی کہ اس نے سچ مچ خوشبو محسوس کی تھی۔

    کافی ختم کرنے کے بعد وہ آہستہ سے بولی ’’چلئے چلتے ہیں ‘‘

    ’’چلئے‘‘ وہ بھی اٹھ کھڑا ہوا۔

    کاؤنٹر پر بل ادا کر کے وہ ’’محفل‘‘ سے باہر نکل آئے۔

    وہ اپنی کار کی طرف بڑھتا ہوا بولا ’’آپ کو کہاں ڈراپ کر دوں۔‘‘

    ’’کہیں بھی نہیں ، میں چلی جاؤں گی۔‘‘

    اس کے کئی بار کہنے کے باوجود بھی وہ نہیں مانی اور ایک رکشہ لے کر اپنے گھر کی طرف چل دی۔

    نہ جانے کیوں اسے ایک شرمندگی کا احساس ہوا۔ پھر ایک طویل سانس لیتے ہوئے اس نے اپنی کار اسٹارٹ کی اور آگے بڑھ گیا۔

    اچانک اس نے ایک جھرجھری سی لی اور ماضی سے حال میں آ گیا۔ اس نے اٹھ کر فریج سے ٹھنڈے پانی کی ایک بوتل نکالی اور گلاس میں انڈیل کر پینے لگا۔ وہ پھر آ کر پستر پر بیٹھ گیا اور آنکھیں بند کر لیں، آنکھیں بند کرتے ہی ماضی پھر پلٹ پڑا۔

    اس دن صبح ہی صبح اس کا فون آیا تھا۔ ’’کیا کر رہے ہیں آپ؟‘‘

    ’’کچھ بھی نہیں بس بیتے دنوں کی یاد‘‘ وہ کچھ اداس سے لہجے میں بولا۔

    ’’ایک بات جاننا چاہتی ہوں، بتائیں گے آپ؟‘‘

    ’’آپ کی بات سن کر ہی کچھ کہہ سکتا ہوں۔‘‘

    ’’دراصل میں آپ کی ذاتی زندگی میں کچھ دخل دینا چاہتی ہوں۔‘‘

    ’’پوچھئے، آپ کو پورا حق حاصل ہے۔ ‘‘

    ’’میں نے بہت بار محسوس کیا ہے کہ آپ بات کرتے کرتے کہیں گم ہو جاتے ہیں اور آپ کی نیلی نیلی روشن آنکھیں اچانک بجھ سی جاتی ہیں۔‘‘

    ایک لمحے کے لئے گہری خاموشی چھا گئی۔

    ’’آج موسم بہت اچھا ہے۔‘‘ وہ آہستہ سے بولا۔

    ’’آپ شاید میری بات کا جواب دینا نہیں چاہتے۔‘‘

    تھوڑی دیر خاموش رہ کر وہ آہستہ سے بولا۔ ’’اگر آپ کو ایک دن یہ پتہ چلے کہ آپ کے بچے آپ کے لئے نہیں بلکہ ماں کے لئے ہیں اور اگر بچوں کی آنکھوں میں کبھی آپ کے لئے محبت کے چراغ روشن نہ ہوں تو آپ کیامحسوس کریں گی۔ جیسے ہی مجھے ان باتوں کا خیال آتا ہے میری بے بسی میری آنکھوں کو بجھا دیتی ہے۔‘‘ اس کے لہجے میں بےحد اداسی تھی۔

    ’’ویری ساری، میرا سوال آپ کو اداس کر گیا۔‘‘ وہ دھیمے سے بولی۔

    ’’نہیں کوئی بات نہیں، مجھے بار بار اس کیفیت سے گذرنا ہوتا ہے، یہ تو میری زندگی کا ایک حصہ بن گیا ہے۔ زندگی کی سچائیوں کی طرف سے میری بےنیازی مجھے یہاں لائی ہے۔ میں کسی کو الزام نہیں دیتا مگر اتنی بڑی سزا کا مستحق بھی تو نہیں تھا۔‘‘ اس کے لہجے میں تھرتھراہٹ تھی۔

    ’’کاش! میں آپ کے لئے کچھ کر سکتی۔‘‘

    میں جانتا ہوں کہ آپ کی اپنی فیملی ہے، ذمہ داریاں ہیں۔ آپ کچھ کرنا چاہیں بھی تو نہیں کر سکتیں۔‘‘

    ’’دیکھئے میں۔۔۔‘‘ پھر اس نے اپنی بات مکمل کرنے سے پہلے ہی فون کاٹ دیا۔ اس کے لہجے میں بڑی کپکپاہٹ تھی۔

    اسے معلوم تھا کہ وہ بہت جذباتی ہے۔

    یادوں کا کارواں اب بھی رواں دواں تھا۔

    اس دن کسی نے بہت زور سے اس کا دروازہ بھڑبھڑا یا تھا اوراس کی نیند ٹوٹ گئی تھی۔ وہ دانت پیستا ہوا اٹھا تھا اور دروازہ کھول کر دیکھا تو کاشف سامنے کھڑا تھا۔

    ’’کیا بات ہے، اتنی زور سے دروازہ کیوں بھڑبھڑا رہے ہو؟‘‘ وہ پھاڑ کھانے والے لہجے میں غرایا، پھر اگلے ہی لمحے وہ نارمل ہو گیا۔

    ’’ساری کاشف، آؤ آؤ! میں نیند میں غرق تھا، اچانک اس طرح سے اٹھنا۔۔۔‘‘

    ’’چلو کوئی بات نہیں۔ کیا رات دیر میں سوئے تھے؟‘‘

    ’’ہاں، پتہ نہیں کیوں رات دیر سے نیند آئی۔‘‘

    ’’کیوں؟ کیا کوئی بات ہو گئی۔‘‘

    ’’نہیں، بس کسی کے فون کا انتظار تھا۔ نہیں آیا تو کچھ الجھن سی ہوئی اور نیند نے کسی طویل صحرا کی طرف اڑان بھر لی۔‘‘

    ’’تم تو نیند کی گولیاں بھی لیتے ہو؟‘‘

    ’’ہاں، مگر کبھی کبھی وہ بھی کام نہیں کرتیں۔ میں شاید کچھ زیادہ ہی حساس ہو گیا ہوں۔‘‘

    ’’یہ تو مناسب بات نہیں۔ ویسے اس وقت تمھارے گھر بےحد سناٹا چھایا ہوا ہے۔ کیا کوئی نہیں ہے؟

    ’’ہاں، سب مبمئی گئے ہوئے ہیں۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’بس یوں ہی گھومنے کے لئے‘‘

    ’’یہ کیا بات ہوئی، تمھیں تنہا چھوڑ تفریحاً ممبئی چلے گئے، انھیں معلوم ہے کہ تم دل کے مریض ہو‘‘

    ’’میں تنہا کہاں ہوں۔‘‘

    ’’کون ہے تمھارے ساتھ؟‘‘ کاشف نے پھر سوال کیا۔

    اس نے آسمان کی جانب دیکھا۔ مسکرایا، پھر دھیرے سے بولا ’’کوئی اور بھی ہے، جسے ہر وقت میرا خیال رہتا ہے۔ ناشتہ کیا، کھانا کھایا، طبیعت کیسی ہے، آرام کیجئے، کہیں گھوم آئیے۔ یہ اور ایسی بہت سی باتیں، وہ مجھے جینے کا حوصلہ دیتی ہے، ورنہ شاید اب تک۔۔۔‘‘ وہ چپ ہو گیا اور آنکھیں بند کر کے جلدی جلدی سانسیں لینے لگا۔

    کاشف اسے غور سے دیکھتے ہوئے بولا ’’اچھا چلو اٹھو، محلے کے کسی چائے خانے میں چائے پیتے ہیں، باتیں بعد میں کریں گے۔ ‘‘

    چائے پی کر وہ واپس آ گئے۔

    ’’تم آج فری تو ہو؟‘‘ کاشف کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولا۔

    ’’نہیں یار اس زندگی میں مہلت کہاں آج مجھے دو میٹنگ میں شامل ہونا ہے اور ایک ریلی میں حصہ لینا ہے۔‘‘

    ’’لعنت ہے تمھاری اس مشغول زندگی پر، کبھی فرصت ہی نہیں social activist ہونا بھی عذاب جان ہے۔ نہیں آج تم کہیں نہیں جاؤ گے۔ مرے ساتھ رہو گے۔ چلیں گے ذرا بچوں کے لئے کچھ خریداری کریں گے، پھر کہیں کھانا کھا کر ’’ٹریٹ‘‘ میں کافی پئیں گے۔‘‘

    ’’اور وہ جو میں تمام لوگوں سے وعدے کر چکا ہوں۔ اس کا کیا ہو گا ؟‘‘

    ’’سب سے معذرت کر لو۔ کہہ دو طبیعت ٹھیک نہیں ہے؟‘‘

    وہ کاشف کی ضد کے آگے سر نگوں ہو گیا۔

    گھر سے نکلتے وقت اس نے دیوار گھڑی کی جانب دیکھا تو بارہ بج رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد وہ سول لائنس کے ایک پاش مارکیٹ میں ایک اسٹیشنری کی دکان پر تھے۔

    ’’یہاں کیا کام ہے۔‘‘ وہ کاشف کی طرف دیکھ کر بولا۔

    ’’بچوں کے لئے پینسلس، ربر، گم اور رنگ خرید نے ہیں۔‘‘

    ’’چلو‘‘وہ دکان میں داخل ہوتا ہوا بولا

    ’’ارے تم!‘‘ اچانک اس کی زبان سے نکلا۔

    وہ پلٹی تو اس کی آنکھوں میں بھی حیرت تھی۔

    ’’یہاں کیسے‘‘؟

    ’’بس بچوں کے لئے کچھ چیزیں لینے آ گئی تھی۔‘‘

    اچانک اسے کاشف کا خیال آیا جو رنگوں کے انتخاب میں مشغول تھا۔

    ’’کاشف ادھر آؤ‘‘ اس نے آواز لگائی۔

    کاشف آیا تو وہ بولا’’ ان سے ملو۔۔۔‘‘

    اس سے پہلے کہ وہ کچھ آگے بولتا وہ خود ہی بول پڑی۔ ’’میں صادقہ ہوں ۔ ایک کالج میں پڑھاتی ہوں۔‘‘

    ’’یہ کاشف ہے میرا دوست۔‘‘

    کچھ دیر پر تکلف باتوں کے بعد صادقہ چلی گئی اور وہ ایک رستوران میں کھانا کھانے کے بعدکافی کے لئے وہ ٹریٹ پہنچے تو ہال تقریباً بھرا ہوا ملا۔

    وہ کاشف کو لئے ہوئے ایک خالی میز پر پہنچ گیا۔ اسے دیکھ کر بہتوں نے سلام کے لئے ہاتھ اٹھائے اور وہ گردن کے اشارے سے سب کو جواب دیتا رہا۔

    کاشف اسے کچھ بیتاب سا لگا۔

    ’’کیا بات ہے تم کچھ کہنا چاہتے ہو؟‘‘

    ’’ہاں یہی کہ صادقہ کی آنکھیں اتنی جان لیوا ہیں اور تم ابھی تک زندہ کیسے ہو۔‘‘

    وہ ہنسنے لگا۔ پھر بولا۔

    ’’کبھی اس کے سامنے اس کی خوبصورتی کی تعریف نہ کر دینا ورنہ ناراض ہو جائےگی اور سلام دعا بھی بند کر دے گی۔ ایک بار کسی کے ساتھ ایسا ہو چکا ہے۔‘‘

    کاشف اسے حیرت سے دیکھنے لگا۔

    ’’کاشف آج تم نے بڑی گڑبڑ کر دی۔ میٹنگوں میں میرا جانا ضروری تھا۔ ‘‘

    چند لمحوں کے لئے سناٹا چھا گیا۔ پھر کاشف بڑے گمبھیر لہجے میں بولا۔

    ’’کوئی گڑبڑ ی نہیں کی۔ مجھے معلوم ہے کہ تم نے اپنی زندگی اتنی مشغول کیوں کر لی ہے۔ تم گھر کے اندر گردش کرنے والی ان آوازوں سے بچنا چاہتے ہو جو تمھارے پورے وجود میں سوئی کی طرح چبھتی چلی جاتی ہیں۔ تمھاری مشغولیت تمھارے لئے فرار کا ایک راستہ ہے۔‘‘

    وہ بری طرح سے تلملا گیا۔ لیکن کچھ بولا نہیں۔ وہ ہال کا جائزہ لینے لگا۔ اچانک اس کی نظریں اس تخلیق کار پر پڑیں جو صادقہ پر مائل بہ کرم تھا۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نے سوچا کہ اپنی طرف سے ہر کسی کو اس کا حق حاصل ہے کہ وہ کسی کو بھی پسند کر سکے۔ یہ بالکل الگ بات ہے کہ اس کی پسند کو دوسرا فرد کس طرح لیتا ہے۔ اسے معلوم تھا کہ صادقہ اسے پسند نہیں کرتی۔

    پھر وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔

    ٹریٹ سے نکلے تو ان کے راستے الگ تھے۔

    موبائل کی آواز سے وہ پھر چونکا اور یادیں کہیں پرے چلی گئیں۔

    کال صادقہ کی تھی۔ اس کے چہرے پر رونق براجمان ہو گئی۔

    ’’ہلو صادقہ‘‘ وہ دھیرے سے بولا۔

    ’’کیسے ہیں آپ؟‘‘

    ’’بس ٹھیک ہوں۔ تم کسی طرح وقت نکال کر آ جاؤ تو بالکل ٹھیک ہو سکتا ہوں۔‘‘

    ’’آج تو بہت بزی ہوں، گھر کچھ مہمان آنے والے ہیں۔ بچوں کے لئے شاپنگ کرنی ہے، پھر کالج، چاہ کر بھی آنا مشکل ہے۔‘‘ وہ خاموش رہا جیسے بجھ سا گیا ہو۔

    ’’میں وعدہ کرتی ہوں کہ کل ضرور آؤں گی۔ آں۔۔۔ ٹھیک ہے نا؟‘‘

    ’’چلو کوئی بات نہیں۔ یہ بھی کر کے دیکھتے ہیں۔‘‘

    اگلے دن وہ سچ مچ اس کے پاس آ گئی۔

    ’’میں آ گئی۔ بولو اب تو خوش ہونا۔‘‘

    وہ کچھ بولا نہیں آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اس کی گلے میں اپنی باہیں ڈال دیں۔

    وہ اس کی بانہوں کو ہٹاتی ہوئی بولی ’’دوا کھائی؟‘‘

    ’’ہاں جینا ہے تو دوا کھانی ہی پڑےگی۔‘‘ وہ دھیرے سے بولا۔

    ’’آپ لیٹ جائیے اور پھر آرام سے باتیں کیجئے۔‘‘

    ’’بس میں ٹھیک ہوں۔ دن بھر لیٹا ہی رہتا ہوں۔‘‘

    صادقہ کے اصرار پر وہ لیٹ گیا۔

    ’’صادقہ اگر تم نہ ہوتیں تو میں اب تک ا پنی قبر میں Skelton بن گیا ہوتا۔‘‘

    ’’پھر وہی باتیں آپ مجھے رلانا چاہتے ہیں کیا؟‘‘

    ’’ویری ساری میں اب ایسی باتیں نہیں کرونگا، خوش۔‘‘

    وہ مسکرائی پھر اس کے بالوں کو اپنی انگلیوں سے سلجھانے لگی۔

    اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔

    ’’ارے ہاں ایک بات تو بتانا بھول ہی گئی، میں چند دنوں کے لئے باہر جا رہی ہوں۔‘‘

    ’’کیوں، کہاں جا رہی ہو؟‘‘

    ’’وہ کیا ہے کہ دہلی میں بین الاقوامی سطح کا ایک آرٹ فیسٹول ہو رہا ہے۔ مجھے بھی اپنی پینٹنگز لگانے کی دعوت دی گئی ہے۔‘‘

    ’’ارے واہ کیا بات ہے۔‘‘ وہ بستر سے اٹھا اور صادقہ کو بھر پور طریقہ سے گلے لگا لیا۔

    ’’صادقہ یہ تمھارے لئے بہترین کامیابی ہے۔ میں بہت خوش ہوں‘‘ وہ دوبارہ بستر پر بیٹھتا ہوا بولا۔ اچانک اس نے محسوس کیا کہ صادقہ کی روشن روشن آنکھیں بجھ سی گئیں ہیں اور اس کے چہرے پر ایک افسردگی چھا گئی ہے۔

    ’’ارے کیا بات ہے تم افسردہ کیوں ہو گئیں۔ تمھیں تو اس وقت بےحد خوش ہونا چاہئے تھا۔‘‘

    ’’کوئی بات نہیں بس میں اب چلوں گی۔‘‘

    ’’نہیں تم ابھی تھوڑی دیر اور رکو اور مجھے بتاؤ کہ کیا بات ہے۔؟‘‘

    ’’کچھ خاص بات نہیں، بس میں یہ سوچنے لگی کہ کبھی میری کامیابیوں پر میرے شو ہرنے ایسی خوشی کا ظہار کیوں نہیں کیا۔ وہ صرف ’بھئی واہ‘ تک ہی کیوں محدود ہے، اس نے کبھی مرے اندر چھپے ہوئے فنکار تک پہنچنے کی کوشش کیوں نہ کی؟‘‘ وہ بولتے بولتے چپ ہو گئی۔

    ’’دیکھو صادقہ حالات کو سمجھنے کی کوشش کرو، وہ کار پوریٹ لائف کا بندہ ہے، اس کے لئے مادی فائدے ہی سب کچھ ہیں ۔ اس نے تمھارے جینے کے لئے تمام آسائشیں اکٹھا کر دی ہیں۔ اس کے خیال میں تمھارے لئے یہی کافی ہے۔ اس سے دانشورانہ رویے کی امید کرنا بےوقوفی ہے، تمھیں تو اب تک اس بات کو سمجھ لینا چاہئے تھا۔‘‘

    ’’آپ ٹھیک کہتے ہیں اس کے یہاں خوبصورتی کا تصور صرف مرے چہرے تک ہی ہے اور بس۔‘‘

    وہ چند لمحے چپ رہ کر بولی۔ ’’چھوڑیے ان باتوں کو۔ جتنا سوچوں گی اتنا ہی دکھ پہنچےگا۔ میرے لئے آپ تو ہیں نا؟‘‘ وہ مسکراتی ہوئی بولی۔

    ’’ہاں میں تمھارے لئے ہوں اور جب تک زندہ ہوں تمھارے لئے رہوں گا۔ میں جانتا ہوں کہ میری زندگی میں تم انھیں ذہنی آسودگیوں کے لئے آئی ہو اور شاید تم خوش بھی ہو۔‘‘

    وہ خاموش ہو کر اسے دیکھنے لگا۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھی اور اس کی پیشانی کو بوسہ دے کر بولی۔ ’’اچھا چلتے ہیں کافی دیر ہو گئی ہے پھر ملتے ہیں۔‘‘

    پھر صادقہ کے لاکھ منع کرنے کے با وجود وہ اسے گیٹ تک چھوڑنے آیا۔ وہ جب اپنے کمرے کی طرف واپس لوٹ رہا تھا تو اسے اپنے پیروں میں کپکپاہٹ محسوس ہو رہی تھی۔ اس نے سوچا کہ کل اپنا چیک اپ ضرور کرا لے گا ورنہ ہو سکتا ہے کہ وہ اور بیمار پڑ جائے۔

    اس اولڈ ایج ہو م میں اسے آئے ہوئے اب تقریباً سال بھر ہو رہے تھے۔ گھر سے کئی بار فون آئے لیکن اس نے رسیو نہیں کیا۔ وہ جذباتی طور پر بلیک میل نہیں ہونا چاہتا تھا۔ اس نے اپنا ایک معمول بنا لیا تھا۔ دن میں کافی ہاؤ س اور شام کو ہوم میں رہنے والوں کے ساتھ گپ شپ یا پھر ان چند دوستوں سے ملاقاتیں جو اب بھی اس سے ملنے کے لئے آتے رہتے تھے۔

    صادقہ تو برابر آتی ہی رہتی ہے۔ وہ جب بھی آتی اسے جینے کا حوصلہ دیتی۔ اسے صادقہ کے ساتھ گزارے ہوئے لمحے زندگی کا حاصل محسوس ہوتے۔

    وہ آج بھی آئی تھی۔ دیر تک اس کے ساتھ رہی، پیار بھری باتیں، ہنسی مذاق اور مصوری کے تعلق سے بہت باتیں۔

    کمرے کے باہر سورج ڈوب چکا تھا۔ لوگ لان پر بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے۔ آج وہ کمرے کے باہر نہیں نکلا۔ جانے کیوں آج وہ ایک عجیب سی کیفیت محسوس کر رہا تھا۔ اسے اپنی بیٹی مونا یاد آ رہی تھی، وہی مونا جو اس کی محبتوں اور شفقتوں کا محور رہی ہے اور وہی مونا جو اس کے ساتھ ہر لمحے بے اعتنائی بھرا رویہ اختیار کرتی رہی ہے۔ اس سے باتیں کرتے وقت اس کا رویہ کتنا کولڈ کولڈ ہوتا ہے۔ کیسا زہر بھر دیا گیا ہے اس کی رگوں میں اس نے سوچا۔

    پھر اسے خیال آیا کہ اسے جلد سو جانا چاہئے۔ ورنہ اس کی طبیعت اور خراب ہو سکتی ہے۔ وہ اٹھا اور الماری میں رکھی ہوئی نیند کی گولیوں کا نیا پیک کھول کر دو گولیاں نکالیں اور ایک گلاس پانی سے اتار گیا۔

    وہ آ کر اپنے بستر پر لیٹ گیا اور آنکھیں بند کر کے نیند کا انتظار کرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے محسوس کیا کہ نیند تو اب بھی دور ہے۔ وہ سونے کے لئے بے چینی محسوس کر رہا تھا۔ وہ پھر اٹھا اور نیند کی گولیوں والی شیشی سے دو گولیاں پھر نکالیں اور ان گولیوں کو پانی کے ساتھ حلق کے نیچے اتار لیں۔ اس بار وہ گولیوں والی شیشی کو الماری میں رکھنے کے بجائے اپنے ساتھ بستر پر لیتا آیا تھا۔ کوئی دو گھنٹہ بعد بھی اسے نیند نہ آئی۔ اس کا ڈپریشن بڑھنے لگا تھا، اس نے شیشی سے پھر تین چار گولیاں نکالیں اور ایک جھٹکے سے سب کھا گیا۔ گولیاں کھا کر پانی پیتے وقت اس کی نظریں دروازے پر پڑیں تو دیکھا کہ دروازے کی کنڈی کھلی ہوئی ہے۔ اس نے سوچا کہ ابھی اٹھ کر بند کر دےگا۔

    رات دو بج گئے تھے لیکن نیند کا پتہ نہ تھا۔ اس کی جھنجھلاہٹ اپنے پورے عروج پر پہنچ گئی تھی۔ وہ اچانک اٹھا اور شیشی سے تمام گولیاں ایک ساتھ نکال لیں اور حلق کے نیچے اتار گیا۔

    چند لمحوں بعد اسے نیند آ گئی۔

    اگلے دن صادقہ دوپہر کے بعد آئی اور دروازہ بھڑ بھڑانے کے لئے دروازہ پر ہاتھ رکھا تو وہ کھل گیا۔ اسے بڑی حیرت ہوئی کہ وہ ابھی تک سو رہا ہے۔ اس نے اس کا ہاتھ چھوا تو وہ برف کی طرح سرد تھا۔ اس نے جلدی سے اس کی پیشانی چھوئی تو وہ بھی بالکل سردتھی یہی حال پیروں کا بھی تھا۔

    صادقہ کو لگا کہ جیسے وہ خود بھی برف ہوتی جا رہی ہے۔

    وہ زور سے چیخی۔ ہوم کے تمام لوگ اکٹھا ہو گئے اور اسے لے کر فوراً اسپتال بھاگے۔ کئی ڈاکٹروں نے چیک اپ کیا لیکن اب وہاں تھا ہی کیا۔ وہ کبھی نہ ٹوٹنے والی طویل نیند سو چکا تھا۔

    صادقہ اس سے لپٹی ہوئی بلک بلک کر رو رہی تھی۔

    پوسٹ مارٹم کے بعد اسی شام اس کے دوستوں کی موجودگی میں اسے دفن کر دیا گیا اور اس کی وصیت کے مطابق اس کے گھر والوں کو اس کی موت کی اطلاع نہیں دی گئی تھی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے