ایک ٹھاٹھیں مارتا دریا سامنے ہے اور پار کرنے کے لیے کوئی چیز نہیں۔ ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اسے پار کیا ہی نہ جائے اور اسی کنارے چلتے چلے جائیں، شاید کہیں کوئی راستہ مل جائے یا ادھر کا کنارہ کسی دوسرے کنارے سے ہم آہنگ ہو جائے۔ لیکن کب تک؟ کبھی نہ کبھی تو پار جانا ہوگا، دریا عبور کرنے کا خوف، بلکہ اس کی تیز رفتاری کا خوف کب تک راستہ روکے رکھےگا۔
کہتے ہیں، ایک پیر اپنے مریدوں کے ساتھ جنگل سے گزر رہا تھا۔ جنگل بڑا بھیانک اور خوف ناک تھا لیکن پیرا ور اس کے مرید بے خوف و خطر آگے بڑھے چلے جا رہے تھے۔ چلتے چلتے ایک رات ایک مرید کو سونے کی ایک ڈلی مل گئی۔ اس نے کسی کو بتائے بغیر اسے اپنی گٹھڑی میں چھپا لیا۔ رات کو اسے دفعتاً احساس ہوا کہ کہیں چور ڈاکو ان پر حملہ نہ کر دیں۔ بڑا بےچین ہوا اور اسی عالم میں اٹھ کر ادھر ادھر پھرنے لگا۔ پیر کی آنکھ کھل گئی۔ مرید کو مضطرب دیکھ کر پوچھا، کیا بات ہے؟ مرید بولا، حضرت! ڈر لگ رہا ہے۔ پیر نے تسلی دی، بیٹا ڈر کس بات کا، جاؤ سو جاؤ! اگلے دن مرید نے پھر کہا، حضرت ڈر لگ رہا ہے، کہیں ڈاکو ہم پر حملے نہ کر دیں۔ پیر نے کہا، ہمارے پاس کیا ہے، اگر حملہ کر بھی دیں تو ہمیں کیا فکر! مرید چپ ہو گیا لیکن شام پڑتے ہی پھر بولا، حضرت ڈر لگ رہا ہے۔ پیر نے ایک لمحہ کے لیے اسے دیکھا پھر بولا، ڈر والی چیز پھینک دو، ڈر خود بخود ختم ہو جائےگا۔
لیکن ڈر والی چیز پھینکنا کیا اتنا ہی آسان ہے اور یہ پار جانے کا خوف، اس سے کیسے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے، یہ سوچ کر کہ آدمی ساری عمر اسی کنارے رہے؟ لیکن دوسرا کنارہ آوازیں جو دیتا ہے، اس کی پکار سن کر رات کو آنکھ کھل جاتی ہے۔ یوں لگتا ہے، ادھر کوئی ہے شاید اپنا ہی آپ اور اپنے آپ سے ملنے کی تمنا رات کو جگا دیتی ہے۔ دن بھر بےچین رکھتی ہے۔ اس تمنا کو چھوڑا بھی نہیں جا سکتا اور اسے پورا کرنے کی ہمت بھی نہیں۔ کئی بار سوچا کہ لمحہ بھر کے لیے آنکھیں بند کر کے اس بپھرتے دریا میں کود جاؤں، پھر دیکھا جائےگا، دوسرے کنارے پر نہ پہنچا تو کہیں نہ کہیں تو پہنچ ہی جاؤں گا، لیکن پھر خیال آتا ہے کہ کہیں نہ کہیں تو ادھر والے کنارے پر چلتے چلتے بھی پہنچ ہی جاؤں گا، اصل بات تو دوسرے کنارے کی ہے۔ ایک یوگی اور ایک ویدانتی دریا کے کنارے اکٹھے ہوئے، پار جانے کے لیے کچھ نہ تھا۔ یوگی نے اپنے یوگ کے زور پر دریا کی لہروں پر پاؤں رکھا اور قدم قدم چلتا پار ہو گیا۔ ویدانتی اسی کنارے پر بیٹھ گیا، اس نے سوچا۔۔۔ اور سوچ کی لہروں پر چلتا دریا کی اتھاہ گہرائیوں میں سے ہو آیا۔ دوسرے کنارے پہنچ کر یوگی نے طنزاً آواز دی، ’’میں تو پار اتر لیا۔‘‘
ویدانتی سوچ سمندر سے نکلا اور ٹھہر ٹھہر کر بولا، ’’لیکن میں اس کی گہرائیوں سے ہو آیا۔‘‘
تو پھر یوگی کی راہ سچ ہوئی یا ویدانتی کی؟
دوسرے کنارے جانا اہم ہے یا اس بپھرتے دریا کی اتھاہ کو پانا؟ تو اسی کنارے چلتے جائیں ، کبھی تو وہ مقام آئےگا ہی جہاں پہ بپھرتا دریا اپنے سے بڑے کسی اور دریا میں گم ہو جائےگا، نہ کنارے رہیں گے نہ پار اترنے کی تمنا۔ لیکن اتھاہ گہرائی تو پھر بھی رہے گی جو اس دریا سے نکل کر اس سے بھی بڑے دریا اتر جائےگی، تو سفر یہی ہے کہ ایک دریا سے دوسرے دریا میں اور دوسرے سے تیسرے میں ، یہ کائنات بھی اپنے سے بڑی کسی دوسری کائنات کے اندر دُبکی بیٹھی ہے اور وہ اپنے سے بڑی کسی تیسری کے اندر اور یہ سلسلہ جانے کہاں جا کر ختم ہو تا ہے اور ان کے اندر چھوٹا ہوتے ہوتے میں ایک ذرے کی طرح۔۔۔ لیکن یہ تو مرکزی نقطہ ہوا، تو کیا میں۔۔۔ میں!
روایت ہے کہ جب اسے سولی پر چڑھایا گیا تو ابلیس آیا اور کہنے لگا کہ ایک ’’اَنا‘‘ تو نے کہی اور ایک ’’اَنا‘‘ میں نے کہی تھی، پھر یہ کیا بات ہے کہ تجھ پر تو رحمت کی بارش ہوئی اور میں راندۂ درگاہ ٹھہرا۔ حلّاج نے جواب دیا کہ تیری اَنا تری ذات میں رہی جب کہ میں نے اسے خود سے دور کر دیا۔۔۔ تو دریا کے دوسرے کنارے پر پہنچنے کی تمنا سے بڑھ کر یہ ٹھہرا کہ اس کی اتھاہ گہرائیوں کو جانا جائے۔
سو میں اب اس بپھرتے دریا کے کنارے کنارے چلا جا رہا ہوں اور سوچتا ہوں کہ کسی دن، جب میں اس کی اتھاہ گہرائی کو پالوں گا تو اس یوگی کی تلاش میں نکلوں گا جو اپنے یوگ کے زور پر اس کی لہروں پر چلتا دوسرے کنارے پر جا اترا تھا اور اس سے پوچھوں گا کہ دوسرے کنارے پر پہنچ کر اس نے کیا کھویا، کیا پایا، اس کا اپنا آپ باقی بھی رہا کہ نہیں !
اس کنارے پر میں کچھ پا سکا کہ نہیں ، لیکن کم از کم یہ تو ہے کہ میں موجود ہوں۔۔۔ اپنے ہونے کے احساس کے ساتھ، تو کیا یہی اس بپھرتے دریا کی اتھاہ گہرائی نہیں!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.