دل ہی تو ہے
کہانی کی کہانی
انسان کے جنون اور جذبہ انتقام کو اس کہانی میں نمایاں کیا گیا ہے۔ قتل کے مجرم فوجی کو عدالت جب پھانسی کی سزا سناتی ہے تو وہ آخری خواہش کے طور پر اپنے گھر جانے کی خواہش ظاہر کرتا ہے اور وہاں سے اپنی فوجی ٹریننگ کی بدولت فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ شکاری کتوں کی مدد سے جب وہ گرفتار ہوتا ہے تو اس کے دل میں گولی مار دی جاتی ہے۔ جج کے بے پناہ اصرار کے بعد ڈاکٹر آپریشن کے ذریعہ اس کے نیا دل لگا دیتا ہے۔ صحافی مجرم سے اس کے اگلے پروگرام کے بارے میں پوچھتے ہیں تو وہ کہتا ہے کہ میں صرف زندہ رہنا چاہتا ہوں۔ تین مہینے کے بعد ہاسپیٹل سے اس کی چھٹی ہو جاتی ہے اور اس کے بعد عدالت کے حکم کے مطابق پھانسی۔
آپریشن تھیٹر کی سفید دیواروں میں تین افراد قید تھے۔
ایک آدمی تھا۔
ایک جج تھا۔
ایک ڈاکٹر تھا۔
ایک آدمی تھا بے سکت، بےہوش، تقریباً بےجان آدمی آپریشن ٹیبل پر پڑا تھا۔ اس کے دل میں ایک سوراخ تھا۔ اس کے سوراخ میں پستول کی ایک گولی تھی۔ تھوڑی دیر ہی میں اس کے دل کی حرکت ہمیشہ کے لیے بند ہونے والی تھی۔ جج نے کہا، اور اس کی دھیمی آواز بھی اس آپریشن تھیٹر میں ایسی گونجی جیسے وہ عدالت میں فیصلہ سنا رہا ہو، ’’ڈاکٹر اس آدمی کی جان بچانا بہت ضروری ہے۔ یہ مرنے نہ پائے۔‘‘ ڈاکٹر نے کہا، ’’جج صاحب میں خدا نہیں ہوں لیکن بخدا ہم اسے بچانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔‘‘
جج نے کہا، ’’تمہیں ناممکن کو بھی ممکن بنانا ہے۔‘‘ ڈاکٹر نے کہا، ’’تب تو ایک ہی صورت ہے اسے بچانے کی۔ لیکن آپ جانتے ہیں وہ آپریشن کتنا خطرناک ہے۔‘‘
’’میں جانتا ہوں۔ مگر میں چاہتا ہوں کہ قانون کی خاطر، انصاف کی خاطر، تم وہ خطرناک آپریشن کر ڈالو۔‘‘
’’اگر ہم کامیاب ہو گئے تو۔۔۔‘‘ ڈاکٹر نے کہا، ’’یہ سائنس کی بہت شاندار فتح ہوگی۔‘‘
’’سائنس کی ہی نہیں۔‘‘ جج نے جواب دیا، ’’یہ قانون کی بہت بڑی جیت ہوگی۔ تب ہی تو اس بیچارے کی سلامتی میں مجھے اتنی دلچسپی ہے۔‘‘
بےہوش تو وہ پہلے بھی تھا، پھر بھی بےہوشی کی گیس سنگھائی گئی تو آدمی کا سوتا ہوا لاشعور زندگی اور موت کے درمیان جھولا جھولنے لگا۔ وہ زندہ تھا لیکن اس کے بدن میں زندگی نہیں تھی۔ وہ مر چکا تھا مگر مکمل طور سے نہیں۔ ذرا سی کسر باقی تھی۔ بےہوشی کی گیس سنگھائی جا رہی تھی۔ رگوں میں سوئی لگا کر خون چڑھایا جا رہا تھا۔ ایک دوسری سوئی کے ذریعے گلوکوز دیا جا رہا تھا تاکہ آپریشن کے دوران اس کے دل کی حرکت جواب نہ دے جائے۔ ڈاکٹر کی تمام جان، تمام طاقت، تمام قابلیت اب اس کی انگلیوں میں آ گئی تھی جو نشتر لے کر، آدمی کی پسلیوں کے پنجرے کو توڑ کر، اس کے سینے کی کھال چیرتی ہوئی اب دل کی طرف بڑھ رہی تھیں جس کی حرکت اب اتنی سست ہو گئی تھی کہ لگتا تھا اس میں اب جان ہی نہیں ہے۔ بےہوشی کے بادلوں میں سے آدمی کا لاشعور دو آوازیں سن سکتا تھا۔۔۔ کہیں دور کتے بھونک رہے تھے اور ایک آواز تحکمانہ لہجے میں کہے جا رہی تھی، ’’پھانسی دی جائے یہاں تک کہ اس کا دم نکل جائے اور یہ مر جائے۔۔۔‘‘
’’پھانسی دی جائے۔ پھانسی دی جائے۔۔۔‘‘
’’یہاں تک کہ اس کا دم نکل جائے۔۔۔ دم نکل جائے۔۔۔‘‘
’’مرجائے۔۔۔ مرجائے۔۔۔ مرجائے۔۔۔‘‘
سزائے موت کا فیصلہ سناتے ہوئے جج کی آواز میں ٹھہراؤ تھا۔ کوئی جذباتی لغزش نہیں تھی۔ ’’پھانسی دی جائے یہاں تک کہ اس کا دم نکل جائے او ریہ مر جائے۔۔۔‘‘
آدمی کو اپنے گلے کے گرد پھانسی کی رسی تنگ ہوتی ہوئی محسوس ہوئی تو بےخیالی سے اس نے قمیص کے کالر کے اوپر کے بٹن کو کھول لیا۔ اس کی نگاہیں جج کے چہرے پر ہمدردی یا افسوس کے آثار تلاش کر رہی تھیں۔ (آخر وہ ایک انسانی جسم کو ختم کیے جانے کا حکم دے رہا تھا۔ صرف قلم کی ایک جنبش سے!) مگر وہاں ایسے کوئی آثار نہیں تھے۔ جج کے چہرے پر مسکراہٹ تو نہیں تھی مگر کوئی غم، کوئی افسوس، کوئی فکر بھی نہیں تھی۔ اگر چہرے پر کوئی جذبہ تھا تو وہ اطمینان اور فراغت کا تھا کہ ہفتوں کی قانونی رسہ کشی کے بعد جو استغاثہ اور صفائی کے وکیلوں اور ان کے گواہوں کے درمیان ہوئی تھی، آخرکار یہ مقدمہ بھی اپنے انجام تک پہنچ گیا تھا۔ ایک مصور کو اپنا شاہکار مکمل کرنے کے بعد شاید ایسا ہی اطمینان نصیب ہوتا ہے۔
آدمی کو دفعتاً محسوس ہوا کہ اس کی آنکھوں میں آنسو امڈے آرہے ہیں لیکن اپنی قوت ارادی سے ان کو پی گیا۔ نہیں۔ (اس نے سوچا) میں اس جج کے سامنے اپنی کمزوری کا اظہار ہرگز نہیں کروں گا۔ کاش اس جج کی آواز کے اتار چڑھاؤ میں، اس کی نگاہ میں، اس کے انداز میں، ذرا سا بھی رحم، تھوڑی سی بھی ہمدردی ہوتی ایک انسان کے لیے، اس کی ان مجبوریوں کے لیے جو کبھی کبھی اس کے ہاتھوں سے قتل کراتی ہیں! پھر وہ اس کو سزائے موت کا حکم بھی سناتا تو آدمی کو کوئی شکایت نہ ہوتی۔ وہ سمجھ جاتا کہ جج بھی مجبور ہے۔ انصاف کے ہاتھوں، قانون کے ہاتھوں، تعزیرات ہند کے ہاتھوں۔ پھر وہ اپنے آنسوؤں کو بہنے دیتا۔۔۔ چاہے دیکھنے والے اسے کتنا ہی بزدل سمجھتے۔
مگر ان آنسوؤں میں اس کے دل میں جو زہر بھرا ہوا تھا، وہ باہر نکل جاتا۔ اس کی روح پاک اور صاف ہو جاتی اور پھر وہ اسے پھانسی بھی دے دیتے تو اس کو کوئی شکایت نہ ہوتی۔ پھر وہ خوشی سے موت کو گلے لگا لیتا۔ اس وقت ایک ہی خواہش، ایک ہی آرزو، ایک ہی خیال، ایک سلگتا ہوا سوالیہ نشان بن کر آدمی کے دل اور دماغ پر چھایا ہوا تھا۔ کیا وہ جج انسان نہیں تھا؟ کیا وہ صرف قانون کی ایک مشین تھا جس میں انسانی ہمدردی کا کوئی جذبہ نہیں تھا؟ آدمی کو سزائے موت دینا اس کا قانونی فرض تھا۔ مگر کیا رحم اور ہمدردی کا ایک اشارہ اس کا انسانی فرض نہیں تھا؟ اس کے قلم کی ایک جنبش نے ایک آدمی کی زندگی کو ختم کرنے کا حکم سنا دیا تھا اور اس کی آواز میں، اس کی آنکھوں میں، ذرا سے افسوس کی جھلک نہیں آئی تھی۔۔۔
آدمی نے بھی دو انسانوں کو سزائے موت دی تھی۔۔۔ دو انسان جن سے وہ دنیا میں سب سے زیادہ محبت کرتا تھا۔ ایک اس کی بیوی تھی اور دوسرا اس کا دوست تھا۔ عدالت کی زبان میں وہ ڈبل خونی تھا۔ مگر جب اس نے اپنے دوست پر اپنی فوجی سنگین سے وار کیا تھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ وہ اسے مارنا نہیں چاہتا تھا مگر اس کے من میں اندھیرے میں بیٹھا ہوا کوئی شیطان اسے قتل پر مجبور کر رہا تھا۔ وہ اس کی بیوی کا عاشق تھا مگر وہ اس کا دوست تھا اور سو وہ اسے تکلیف پہنچا کر مارنا نہیں چاہتا تھا۔ پیچھے سے آکر اس نے چپکے سے وار کیا تھا۔ کمر کی تیسری پسلی کے نیچے جہاں دل ہوتا ہے وہاں سنگین کا بس ایک وار۔۔۔ اور اس کا دوست وہیں ڈھیر ہوگیا تھا بغیر یہ جانے ہوئے کہ اس کی دفعتاً موت کا ذمے دار کون ہے؟ سنگین سے دشمن پر کہاں اور کیسے وار کرنا چاہیے۔۔۔ یہ اس کو فوج میں سکھایا گیا تھا۔
اس نے دس کو۔۔۔ اپنے جیسے دس آدمیوں کو۔۔۔ اسی طرح وار کر کے موت کے گھاٹ اتارا تھا جس کا ثبوت وہ میڈل تھا جو اس کو انعام میں ملا تھا۔ اس کا دوست گیارہواں تھا۔ وہ دشمن تھے۔ یہ دوست تھا۔ مگر سنگین دوست اور دشمن میں تمیز نہیں کرتی۔ سنگین جانیں لے سکتی ہے مگر خود بےجان ہوتی ہے۔ بےجان، بے روح، بےعقل۔ اور سپاہی جوسنگین چلاتا ہے وہ بھی ٹھنڈے فولاد کی طرح بےروح، بے عقل ہو جاتا ہے۔ کیا وہ دس واقعی اس کے دشمن تھے؟ اس کو تو ان کے نام بھی نہیں معلوم تھے۔ اس سے پہلے اس نے ان میں سے کسی کو بھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ کس کے بیٹے تھے، کس کے بھائی تھے، کس کے شوہر تھے، کس کے دوست تھے۔۔۔ اسے کچھ نہیں معلوم تھا۔ اس کو صرف بتایا گیا تھا کہ وہ اس کے دشمن ہیں۔ اس کو حکم دیا گیا تھا کہ ان کو مارنا اس کا فرض ہے اور سو اس نے ان کو مار دیا تھا۔
جنگ سے واپس آنے پر اس کو بتایا گیا تھا کہ اس کا دوست در اصل اس کا دشمن ہے۔ اس کے من کے اندھیرے میں جو شیطان بیٹھا ہوا تھا، اس نے حکم دیا کہ اسے مار دیا جائے اور اس نے سنگین اس کی پسلیوں میں اتار دی تھی۔ شاید دس دشمنوں کے بعد یہ پہلے دوست کا خون نہیں تھا، شاید گیارہویں دوست کا خون تھا جو اس کے ہاتھوں ہوا تھا۔
مگر پھر بھی اس کو اتنی تسلی تھی کہ اس کا دوست بغیر کوئی تکلیف محسوس کیے اس دنیا سے گزر گیا تھا۔ اس نے فوجی سنگین کو اس کی کمر سے جب کھینچ کر نکالا تھا تو بدن ٹھنڈا ہو چکا تھا مگر زخم سے گرم گرم خون کا ایک فوارہ نکلا تھا جس کے چھینٹے اس کے کوٹ کی آستین پر گرے تھے۔ ثبوت کے طور پر سنگین کے ساتھ یہ کوٹ بھی مقدمے کے دوران پیش کیا گیا تھا۔ اور سرکاری وکیل نے ڈرامائی انداز میں اس کوٹ کی طرف اشارہ کر کے کہا تھا، ’’مائی لارڈ۔ جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارےگا آستیں کا۔‘‘ اور وہ یہ سوچ کر مسکرا دیا تھا کہ وکیل صاحب کو یہ نہیں معلوم کہ اس آستین پر تو دس اور انسانوں کا خون بھی پکار رہا ہے مگر وہ خون نہ وکیل صاحب کو نظر آئےگا نہ کوئی عدالت اس لہو کی پکار سننے کے لیے تیار ہے۔
اور اس کی آنکھوں میں اس وقت بھی آنسو تھے جب وہ قتل کے ارادے سے اپنی فلیٹ کے اس کمرے میں داخل ہوا تھا جہاں اس کی بیوی سو رہی تھی۔ آدھی رات گزر چکی تھی۔ روشنیاں بجھی ہوئی تھیں مگر کھلی ہوئی کھڑکیوں میں سے پردوں کو سرسراتی ہوئی ہوا کے ساتھ چاندنی بھی دبے پاؤں اندر آ گئی تھی۔ اس مدھم روشنی میں وہ اتنی خوبصورت، اتنی معصوم، اتنی بھولی بھالی لگ رہی تھی کہ اس کی ہمت نہ پڑی کہ سنگین کو میان سے باہر نکالے۔ پہلے اس کا خونی ارادہ تھا، جس ہتھیار سے اس کے عاشق کا خون کیا ہے، اسی سے اپنی بیوی کا گلا کاٹ ڈالےگا مگر اب وہ اس خیال سے ہی کانپ اٹھا۔ جس سے اس نے محبت کی تھی وہ اس کا خون بہتا نہ دیکھ سکےگا۔ یہ کام اس کو اپنے ہاتھوں سے لینا ہوگا۔ اس کی ٹریننگ بھی اس کو فوج میں دی گئی تھی۔ کمانڈو اسکول میں کراٹے انسٹرکٹر نے اس کو سکھایا تھا کہ گلے کی کون سی رگ کو دبانے سے دشمن کو ہمیشہ کے لیے خاموش کیا جا سکتا ہے۔
وہ سبق اس کو آج بھی یاد تھا اور اس کی بیوی نیند سے بیدار ہوئے بغیر ہی مرگئی اور جو مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر تھی، وہ برقرار رہی۔ اس نے اپنے ہاتھوں کو غور سے دیکھا جن ہاتھوں نے بارہ خون کیے تھے۔ مگر اب اسے ایسا محسوس ہوا کہ اس کی بیوی کے دامن سے بے وفائی کا داغ ہمیشہ کے لیے دھل گیا ہے۔ اب وہ پھر معصوم ہے۔۔۔ اور اس کی ہے۔ ہمیشہ کے لیے اس کی! اس نے اس کے ہونٹوں کا بوسہ لیا۔۔۔ کتنے ٹھنڈے تھے وہ ہونٹ! اس نے اس کے ننھے ننھے گورے گورے پاؤں کا بوسہ لیا۔ جو اس وقت بے جان سنگ مرمر کے تراشے ہوئے تھے!
پھر وہ اس کے پلنگ کے پائنتی بیٹھ گیا اور وہ آنسو جو اب تک اس کی آنکھوں میں جھلک رہے تھے، وہ بہہ نکلے اور اسے ایسا لگا کہ وہ رو رہا ہے۔ نہ صرف اپنی بیوی کے لیے، نہ صرف اپنے دوست کے لیے بلکہ ان گمنام انجان دس آدمیوں کے لیے بھی جو سب اس کے ہاتھوں ہلاک ہوئے تھے۔ وہ اس وقت سسکیاں لے کر روئے جا رہا تھا۔ جب صبح کے اجالے میں پولیس نے اس کو دو خون کرنے کے جرم میں گرفتار کیا اور جب اسے فرد جرم پڑھ کر سنائی گئی تو وہ بڑبڑایا، ’’بس دو خون؟ میں نے تو بارہ خون کیے ہیں۔‘‘ اور پولیس افسر سمجھے خون اس کے سر پر چڑھ گیا ہے یا وہ جان بوجھ کر دیوانوں جیسی باتیں کر رہا ہے۔
’’مجرم!‘‘ جج اس سے مخاطب تھا مگر اس سے آنکھیں چرا کر دیکھ رہا تھا وکیل صفائی کی طرف، ’’اس سے پہلے کہ تمہیں سزائے موت دی جائے، تمہیں کچھ کہنا ہے؟‘‘ اور اسی لمحے میں آدمی کے دماغ نے فیصلہ کر لیا کہ وہ کیا کہےگا۔۔۔ اور کیا کرےگا۔ وہ آہستہ سے اپنی جگہ کھڑا ہو گیا، ’’جی جناب!‘‘ اس نے کہا اور جج کی طرف آنکھیں گڑاکر دیکھتا رہا مگر وہ اب بھی کسی دوسری طرف ہی دیکھ رہا تھا۔
’’بزدل کہیں کا!‘‘ آدمی نے سوچا، ’’جس کو سزائے موت دی ہے اس سے نظریں ملاتے ہوئے گھبراتا ہے!‘‘ جج نے مجرم کی طرف دیکھے بغیر اس کی خاموشی کو محسوس کرتے ہوئے سوال کیا، ’’ہاں تو کیا کہنا ہے تمہیں؟ کوئی آخری خواہش؟‘‘
’’جناب والا! مرنے سے پہلے میں اپنے گھر جانا چاہتا ہوں جہاں۔۔۔ میری بیوی کو۔۔۔ جہاں میری بیوی کی لاش پائی گئی تھی۔‘‘
’’منظور کیا جائے۔‘‘ جج نے عدالت کے کلرک کو اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’اگر جیل کے قانون اس کی اجازت دیتے ہیں۔‘‘ اور پھر قیدی کی طرف سے نظر بچا کر اس کے وکیل کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا، ’’اور کچھ کہنا ہے؟‘‘
’’جی نہیں، جناب والا۔ بہت بہت شکریہ، جناب والا۔‘‘
جج تو کہیں اور دیکھ رہا تھا۔ سو اس نے تو نہیں دیکھا مگر عدالت میں جتنے اور لوگ حاضر تھے انہوں نے دیکھا کہ مجرم کو جب لے جایا گیا تو اس کے چہرے پر ایک عجیب قسم کی فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔ وہ لوگ بھی جو اب تک اس سے کچھ نہ کچھ ہمدردی رکھتے تھے، اب ان کو بھی یقین ہو گیا کہ جو آدمی دو بھیانک خون کر کے بھی مسکرا سکتا ہے، اس کو تو واقعی سزائے موت ہی ملنی چاہیے۔
آدمی کی آخری خواہش اس کی امید سے بھی پہلے ہی پوری ہو گئی۔ جیل کے قوانین کی رو سے وہ ایک بار پھانسی کی کوٹھری میں بند ہو گیا تو اس کو صرف ایک بار وہاں سے باہر نکالا جا سکتا ہے۔ آخری بار! اس لیے اگر اسے آخری بار اپنے گھر جانے کی اجازت ملی تھی تو عدالت سے سیدھا وہیں لے جانا ہوگا۔
’’بس دس منٹ دے سکتے ہیں۔‘‘ پولیس کے دو سپاہیوں میں سے بڑے والے نے کہا۔۔۔ جب وہ لوگ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اس کے فلیٹ پر پہنچے جو تیسری منزل پر تھی۔ آدمی نے بڑی عاجزی سے کہا، ’’آپ اجازت دیں تو میں اس کمرے میں دس منٹ اکیلا رہنا چاہتا ہوں۔ مرنے والی کی یادوں کے ساتھ! آپ دروازے پر پہرہ دے سکتے ہیں۔‘‘ بڑے والے کانسٹبل نے کمرے کے اندر جا کر دیکھا، باہر جانے کے لیے دوسرا کوئی دروازہ نہیں تھا۔ صرف ایک کھڑکی تھی۔ سڑک سے پچاس فٹ اونچی۔
’’اچھا ٹھیک ہے۔‘‘ اس نے کہا، ’’مگر کوئی گڑبڑ نہ ہو ورنہ یہ دیکھ لو۔۔۔‘‘ اور اس نے اپنی پیٹی میں لگے ہوئے پستول کی طرف اشارہ کیا۔ آدمی نے اندر سے دروازہ بند کر لیا مگر کانسٹبلوں کو اطمینان ہو گیا جب چٹخنی لگانے کی کوئی آواز نہیں آئی۔
’’عجیب آدمی ہے یہ بھی۔‘‘ چھوٹے والے کانسٹبل نے اپنے ساتھی سے کہا، ’’پہلے تو اپنی بیوی کو قتل کیا اور اب اسی کمرے میں اس کو یاد کر رہا ہے۔ مجھے تو لگتا ہے اس کی بیوی کا بھوت اس کا ٹینٹوا دبا رہا ہوگا۔‘‘ بڑے والے کانسٹبل نے اپنا تجربہ بگھارتے ہوئے کہا، ’’تم کیا جانو۔ یہ سب خونی پاگل تو ہوتے ہی ہیں۔ ان کے سر پر خون سوار ہو جاتا ہے۔ یہ بےچارہ تو فوج میں تھا۔ سنا ہے گورنمنٹ نے میڈل بھی دیا ہے۔ دس دشمن مارے تھے اس نے۔ چھاپہ ماروں کے دستے میں تھا یہ۔‘‘
چھاپہ مار! کمانڈوز! فقط اس کی زبان سے نکلا ہی تھا کہ اس کے دماغ میں ایک شبہ بجلی کی طرح کوندا، ’’چھاپہ ماروں کو تو اونچے مقاموں سے کودنے کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔‘‘ دوسرے لمحے ہی وہ دونوں کمرے کے اندر تھے مگر وہ کمرہ خالی تھا۔ کھڑکی کے پٹ ہوا سے ہل رہے تھے۔ جب انہوں نے نیچے دیکھا تو وہ سڑک کی دوسری طرف پہنچ چکا تھا۔ اتنے میں پیٹی سے پستول ہاتھ میں آیا۔ وہ بھیڑ میں کھو گیا تھا۔ مگر کودنے سے پہلے آدمی اپنے جوتے اتار کر چھوڑ گیا تھا، ’’فکر نہ کرو۔‘‘ بڑے والے کانسٹبل نے کہا، ’’میرے کتے ان جوتوں کی بو سے اسے کھوج نکالیں گے!‘‘
اس نے سنا تھا کہ نیند سولی پر بھی آ جاتی ہے۔ میلوں تک دوڑنے کے بعد جنگل میں رات ہوگئی، اور آدمی تھک ہار کر پیڑوں کے ایک جھنڈ تلے سو گیا۔ معلوم نہیں کتنی دیر سویا تھا کہ کتوں کے بھونکنے کی آواز سے اس کی آنکھ کھل گئی۔ پہلے تو اس نےاس آواز کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ جھیل کے کنارے مینڈک ٹرا رہے تھے۔ دلدل میں جھینگر آواز کر رہے تھے، گھاس میں مچھر بھن بھن کر کے اس کو کاٹ رہے تھے۔۔۔ اور دور کسی گاؤں میں کتے بھونک رہے تھے۔ کتے تو رات کو بھونکتے ہی ہیں مگر تھوڑی ہی دیر میں اس کو محسوس ہوا جیسے کتوں کے بھونکنے کی آواز تیزی سے قریب ہوتی جا رہی تھی۔ جیسے کتے اس کی طرف دوڑتے ہوئےآ رہے ہوں۔ ایک جھٹکے کے ساتھ اس کو احساس ہوا کہ یہ پولیس کے شکاری کتے ہیں جو اس کی بو کا پیچھا کرتے ہوئے اس کا شکار کرنے دوڑتے ہوئے آ رہے ہیں۔
اب تو ان کی آوازیں خطرناک حد تک قریب آ رہی تھیں۔ دفعتاً اس کی سب حسیں بیدار ہو گئیں اور وہ اٹھ بیٹھا۔ گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا۔ چاند کمبخت کو بھی آج رات ہی نکلنا تھا۔ شاید گیارہویں رات تھی اور آسمان پر بادل کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا بھی نہیں تھا۔ ہر طرف چاندنی پھیلی ہوئی تھی۔ اگر وہ پیڑوں کے سائے سے نکل کر بھاگا تو میلوں سے کتے اسے دیکھ لیں گے اور اگر نہیں بھاگا تو بو سونگھتے سونگھتے وہیں پہنچ جائیں گے اور منٹوں میں اس کی تکا بوٹی کر ڈالیں گے۔ دونوں حالتیں خطرناک تھیں مگر بھاگنے میں بچاؤ کی ایک صورت ہو سکتی تھی۔ اگر وہ سامنے والی جھیل تک پہنچ گیا اور تیر کر اس کو پار کر گیا تو شکاری کتوں سے اس کا پیچھا چھوٹ سکتا تھا۔
اس کے تمام احساس، اس کے گٹھے ہوئے بدن کی تمام طاقت، اس کی تمام قوتِ ارادی سمٹ کر اس وقت اس کی بھاگتی ہوئی ٹانگوں میں آگئی تھی۔ ایسا لگتا تھا اس وقت کے لیے فوج کے کمانڈو سکول میں اس کو چھاپہ ماروں کی ٹریننگ دی گئی تھی۔ بھاگتے بھاگتے اس نے مڑ کر چاند کی روشنی میں دیکھا کہ شکاری کتے دو ہیں اور انہوں نے اپنے ساتھ کے پولیس کانسٹبلوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور اس وقت وہ چھلانگیں بھرتے ہوئے اس کی طرف آرہے ہیں۔ ایک کے مقابلے میں دو۔ مگر وہ کتے تھے اور وہ آدمی تھا۔ وہ بےعقل جانور تھے اور اس کے پاس دماغ تھا اور اس دماغ کو وہ سب چالیں اور گھاتیں یاد تھیں جو ایسے موقع کے لیے اس کو سکھائی گئی تھیں اور سو اس نے ان کو تگنی کا ناچ نچایا۔۔۔ سیدھا دوڑنے کی بجائے کبھی ادھر گیا کبھی اُدھر گیا۔ پیڑوں کے گرد گھوم کر، ٹیلوں پر سے گھوم کر، کھیتوں میں سے، کاشت کاروں کے جھونپڑوں کے آنگن میں سے ہوکر۔ اس کو معلوم تھا کہ شکاری کتے ایک آدمی کا پیچھا نہیں کرتے۔ وہ تو ایک خاص بو کو سونگھتے سونگھتے اپنے شکار تک پہنچ جاتے ہیں اور اس لیے وہ ہر اس جگہ جانے کے لیے مجبور تھے جہاں اس کے بھاگتے ہوئے، چک پھیریاں کھاتے ہوئے قدم ایک پل کے لیے بھی گئے تھے۔
چھاپہ ماروں کو دشمن کی فوج اور پولیس کے شکاری کتوں سے بھی سابقہ پڑ سکتا ہے اور اس لیے کمانڈو سکول میں اس نے یہ بھی سیکھا تھا کہ ایسی حالت میں کیا کرنا چاہیے۔ بھاگتے بھاگتے اس نے ان سب ہدایات کو یاد کیا جو ایسے وقت کے لیے ان کو دی گئی تھیں۔ پل بھر کے لیے رکے بغیر اس نے اپنی قمیص اتاری اور اس کا گولا بنا کر دور ایک طرف پھینکا اور پھر پسینے میں شرابور بنیان کو دوسری طرف چٹانوں میں گرایا۔ کچھ دیر کے لیے تو شکاری کتے قمیص اور بنیان کے درمیان گڑبڑا گئے۔ غصہ انہوں نے کپڑوں پر نکالا۔ سونگھتے سونگھتے ان کو اپنے بھیانک دانتوں اور پنجوں سے تار تار کر ڈالا۔ اب وہ ان سے کوئی سو گز آگے تھا اور سامنے ہی جھیل کا پانی چاندنی میں چمک رہا تھا۔ یہی اس کی نجات کا ایک راستہ تھا۔ اس کو معلوم تھا کہ شکاری کتے پانی میں اپنے شکار کی بو نہیں سونگھ سکتے۔
نکیلے پتھروں پر سے ننگے پیر بھاگتے ہوئے اس کے تلوے لہولہان ہو گئے تھے۔ اس کے اپنے پیروں کے نیچے خون نکلتا ہوا محسوس ہو رہا تھا مگر وہ ایک لمحے کے لیے بھی رک نہیں سکتا تھا۔ کتوں نے پھر اس کی بو سونگھ لی تھی اور اب وہ تیزی سے اس کا تعاقب کر رہے تھے۔ وہ اس وقت اس ہرن کے مانند تھا جس کی ٹانگ میں گولی لگی ہو اور وہ شکاری کتوں سے بچنے کے لیے لنگڑاتا ہوا بھاگتا جا رہا ہو، بھاگتا جا رہا ہو۔ کیونکہ رکنے میں اس کی موت ہے۔
اور اب جھیل کا پانی اس سے چند قدم ہی رہ گیا تھا۔ زمین جو یہاں تک پتھریلی تھی، اب نرم ہوتی جا رہی تھی۔ پہلے گھاس کی نرمی جو اس کے زخمی پیروں کو ایسی لگی جیسے کسی نے اس کے تلوؤں کے زخموں پر مرہم کا پھایہ رکھ دیا ہو۔ پھر پھسلواں کیچڑ۔ ہوشیاری سے قدم رکھنا چاہیے ورنہ پھسل کر گر گیا تو کتے اس کی تکا بوٹی کر ڈالیں گے۔ مگر اب اس کے پیر ایک دلدل میں پھنس گئے تھے جو ہرلحظہ اس کو دھیرے دھیرے نیچے کی طرف کھینچ رہی تھی۔ وہ دلدل سے پاؤں باہر نکال ہی نہیں سکتا تھا۔ اب وہ کتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو گیا۔ کاش اس وقت اس کی سنگین اس کے پاس ہوتی تو وہ ان کتے کے بچوں سے نپٹ لیتا۔ مگر اب تو اس کی دونوں ٹانگیں بھی بیکار ہوگئی تھیں۔ گھٹنوں تک دلدل میں پھنسی ہوئی تھیں۔ اب تو اس کے صرف دو ہاتھ تھے اور دو خونی کتے تھے، جو اپنے خوفناک دانت نکالے اس پر حملہ کر رہے تھے!
کہتے ہیں بھونکنے والے کتے کاٹتے نہیں۔ مگر ان دونوں کتوں نے شاید یہ مثل نہیں سنی تھی۔ وہ خوفناک آواز میں بھونک بھی رہے تھے اور پنجوں اور دانتوں سے اس کو کاٹ بھی رہے تھے اور اس کے پاس ان کا مقابلہ کرنے کے لیے صرف دو ہاتھ تھے۔ مگر کمانڈو سکول میں اس کو یہ بھی سکھایا گیا تھا کہ دشمن کے شکاری کتوں کو بغیر گولی چلائے کیسے ختم کیا جا سکتا ہے۔۔۔ بےاختیار دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرے کی حفاظت کرتے ہوئے اس نے یاد کرنے کی کوشش کی کہ سارجنٹ نے ایسے موقع کے لیے کیا بتایا تھا، ’’یاد رکھو کہ شکاری کتا شیر سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔اس کو اپنے قریب نہ آنے دو۔ ٹھوکر سے کام لو۔ تمہارے فوجی جوتوں میں اسی لیے نیچے موٹی موٹی کیلیں لگی ہوئی ہیں۔ وقت پڑے تو ان جوتوں کی مار سے ہتھیار کا کام لو۔‘‘ مگر اس وقت ان کو ٹھوکر کیسے مارے؟ اس کے تو ننگے پیر بھی دلدل میں پھنسے ہوئے تھے، جو آہستہ آہستہ اس کی ٹانگوں کو اپنے اندر کرتی جا رہی تھی۔
اس کے پاس تو اس وقت دو ہاتھ تھے جن سے وہ اپنے چہرے کی حفاظت کر رہا تھا، جہاں چھلانگیں لگا لگا کر وہ دونوں شیطان اس کی آنکھیں نکالنے پر تلے ہوئے تھے۔ مگر اس وقت صرف مدافعت سےکام نہیں چلےگا۔ زہریلے پنجوں اور خونی دانتوں کی مار سےدونوں ہاتھ لہولہان ہو چکے تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں اس کے ہاتھوں کی کھال اتر جائےگی اور خون بہہ کر ان کی ساری طاقت نکل جائےگی۔ اس سے پہلے ہی اسے ان ہاتھوں سے کچھ اور کام لینا ہے۔ اس نے ایک کتے پر ساری توجہ مبذول کر دی اور اگلی بار وہ اس کی طرف اچھلا تو اس کے ہاتھوں نے ’’کراٹے‘‘ کے ایک پینترے سے اس کا گلا پکڑ لیا اور زور سے دبایا۔۔۔ دوسرا کتا اب اپنے ساتھی کو بچانے کے لیے اس پر حملہ کر رہا تھا۔۔۔اس کی ننگی پیٹھ اور اس کا سینہ لہولہان ہو گئے مگر اس نے کتے کا گلا نہ چھوڑا۔ دبائے ہی چلا گیا، جب تک کہ دشمن بے جان نہ ہو گیا۔
اور اب صرف ایک دشمن باقی رہ گیا تھا۔ پہلا کتا زمین پر پڑا تھا اور دلدل اس کی لاش کو بھی اپنے اندر جذب کرتی جا رہی تھی۔ اپنے ساتھی کا انجام دیکھ کر کتے میں انتقام کی آگ بھڑک اٹھی تھی۔ اب اس کی شکاری حس میں ایک زہر بھری نفرت کا جذبہ بھی شامل ہو گیا تھا۔
یہ لڑائی ایک آدمی اور ایک جانور کی نہیں تھی۔ دو جانوروں کا خونی مقابلہ تھا۔ آدمی بھی اس وقت ایک کتا ہی ہوگیا تھا۔ اگر کتا اسے کاٹ سکتا تھا تو اس کے دانت بھی مضبوط اور نکیلے تھے۔۔۔ اس کے ہاتھ کتے کا گلا گھونٹنے کی کوشش کر رہے تھے، اس کے دانت کتے کی گردن کو کاٹ رہے تھے۔ جیسے وہ کتے کا خون پی جائےگا۔ اگر کتا خوفناک طریقے سے بھونک رہا تھا تو اس وقت آدمی بھی چیخ رہا تھا، چلا رہا تھا، گالیاں دے رہا تھا۔ یہاں تک کہ کتے کی طرح ہی بھونک رہا تھا۔ اس کے ہاتھ خونم خون ہو گئے تھے۔ اس کے منھ سے تھوک کے ساتھ خون بہہ رہا تھا۔۔۔ اس کا اپنا خون اور ساتھ میں کتے کا خون۔۔۔ مگر اس وقت یا اس کی جان تھی یا کتے کی اور کتا اگر حیوان تھا تو وہ بھی حیوان تھا۔۔۔ مگر ساتھ میں وہ انسان بھی تھا اور سو حیوانی طاقت کے ساتھ انسانی دماغ بھی شامل تھا۔ ایک دفعہ چار ٹانگ کے دشمن کی گردن اس کے ہاتھوں میں آ گئی تو اس کے انگوٹھے نے ٹٹول کر وہ رگ ڈھونڈ نکالی جس کو دبانے سے نرخرہ ٹوٹ جاتا ہے۔ کتا بے جان ہوکر گر پڑا۔ کتا ’’کراٹے‘‘ نہیں جانتا تھا۔
اب وہ دونوں ختم ہو چکے تھے مگر اس کی اپنی جان اب بھی خطرے میں تھی اور اس دشمن کے مقابلے میں نہ ’’کراٹے‘‘ کام آ سکتے تھے نہ ’’جیو جسٹو۔‘‘ یہ دشمن وہ دلدل تھی جس نے اس کے پیروں میں زنجیر ڈال دی تھی۔ اس نے اب تک اس کا خیال نہیں کیا تھا، مگر وہ کمر تک دلدل میں دھنس چکا تھا۔ ایک کتے کی لاش تو آدھی سے زیادہ دلدل کی قبر میں اتر چکی تھی۔ دوسرے کے مردے کا بھی یہی حشر ہونے والا تھا اور (اس نے ایک جھرجھری لے کر سوچا) میری قبر بھی ان دونوں کے ساتھ ہی بنےگی۔
موت کا خوف جو عدالت میں جج کا فیصلہ سن کر بھی اس کی آنکھوں میں نہیں جھلکا تھا، اس وقت اس کے سارے شعور پر چھا گیا۔ اس نے انتہائی مایوسی سےادھر ادھر دیکھا کہ شاید بچنے کی کوئی صورت دکھائی دے جائے۔۔۔ تو سامنے پولیس کا کانسٹبل کھڑا نظر آیا۔ موٹا، بھدا، چاند کی روشنی میں چہرے پر نفرت اور غصہ۔ پاس آیا تو اس کا گلا بھی دبا دوں گا۔ آدمی نے سوچا۔ مگر پاس آئےگا کیوں۔ اس کےہاتھ میں تو پستول ہے۔
اسی پستول سے اس کی طرف نشانہ لگاتے ہوئے وہ دانت بھینچ کر بولا، ’’تو نے میرے پیارے کالو اور لالو کو مار ڈالا کمبخت۔ انہیں اپنے بیٹوں کی طرح پالا تھا میں نے۔ ابھی تجھے بھی ان کے پاس پہنچاتا ہوں۔ ہاتھ اوپر کر۔‘‘ اور جب آدمی نے ہاتھوں کو سر کے اوپر اٹھایا تو کانسٹبل بولا، ’’یہ ٹھیک ہے۔ گولی سیدھی دل کے پار ہوگی۔‘‘ پستول نے اپنی نالی میں سے آگ کا شعلہ اگلا، ایک تڑاخہ ہوا۔۔۔ اور اس کے بعد آدمی کو نہ کوئی تکلیف محسوس ہوئی نہ کہیں درد ہوا۔ صرف ایک میٹھی سی ٹیس کلیجے میں اٹھی، اور اسے ایسا لگا جیسے وہ نیند کے گہرے سمندر میں ڈوبتا جا رہا ہے۔
خواب میں اس نے ایک نوجوان کو دیکھا اور پھر پہچانا کہ یہ نوجوان وہ خود ہے اور ایک چھوٹی سی خوبصورت سی لڑکی ہے۔ جو ہنستی ہوئی بھاگ رہی ہے اور وہ اس کے پیچھے بھاگ رہا ہے اور اس کے ہاتھوں میں اس کا اپنا دل ہے اور اس دل کو وہ اس لڑکی کی نذر کرنا چاہتا ہے۔ ’’دل دینا چاہتے ہو۔‘‘ لڑکی نے کہا اور اب اس نے دیکھا کہ یہ لڑکی اس کی بیوی ہے جو پھر زندہ ہوگئی ہے۔ ’’دل دینا چاہتے ہو تو لاؤ۔‘‘ اور اس نے اپنا دل اس لڑکی کو دے دیا۔ ’’ذرا سنبھال کر۔ میرا دل بڑا نازک ہے۔‘‘ ابھی اس نے کہا ہی تھا کہ لڑکی نے دل کو زمین پر دے مارا اور جو کانچ کا بنا ہوا تھا، ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور کانچ کا ایک تیز ٹکڑا اڑ کر اس کو چبھ گیا، عین اس جگہ جہاں کبھی اس کا دل تھا اور بڑی سخت تکلیف محسوس ہوئی مگر یہ تکلیف اصلی تھوڑا ہی تھی۔ یہ تو خواب کی تکلیف تھی۔
اور پھر بےہوشی کی صدیاں گزر گئیں اور وہ درد کی لہروں میں ڈولتا رہا، ڈولتا رہا اور اسے یہ یاد بھی نہ رہا کہ یہ سمندر ہے جس کی تہہ میں وہ ڈوبتا جا رہا ہے، یا وہ دلدل ہے جو اس کی ٹانگ گھسیٹ کر قبر میں اتارنا چاہتی ہے اور پھر اس نے دیکھا کہ اس کی بیوی اس نوجوان سے کہہ رہی ہے، جو وہ خود تھا، ’’مجھے افسوس ہے کہ میں نے تمہارا دل توڑ دیا۔ مجھے نہیں معلوم تھا اتنا نازک ہے۔ لو میں تمہیں ایک نیا دل دیتی ہوں۔ یہ تمہارے سینے میں فٹ آئےگا۔ تمہارے بہترین دوست کا دل ہے۔‘‘ اور اس نے وہ دل لے لیا اور اپنے سینے میں جو جگہ خالی تھی وہاں رکھ لیا مگر جگہ تنگ تھی، دل بڑا تھا، بڑی مشکل سے ادھر ادھر سے دبا کر اس کو جگہ پر لگایا مگر تکلیف اتنی ہوئی کہ اس نے سوچا میں مر جاؤں گا۔ بےہوشی کے سمندر میں بڑی دور سے تیرتی ہوئی جج کی آواز آئی، ’’شاباش، ڈاکٹر! تم نے آپریشن نہیں کیا ایک چمتکار کیا ہے۔‘‘ اور پھر اس کے بازو میں ایک سوئی چبھی اور پھر وہ بےہوشی کے اندھیرے سمندر میں ڈوب گیا۔
جب درد اور بے ہوشی کی صدیاں گزریں اور اس نے آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ ہرطرف سفیدی ہی سفیدی پھیلی ہوئی ہے۔ سفید دیواریں، سفید دروازے، سفید کھڑکیوں میں سفید پردے لگے ہوے ہیں، فرشتوں کی طرح سفید فراک پہنے ہوئی نرسیں اور سفید کپڑے پہنے ہوئے سفید داڑھی والا ڈاکٹر جو اس وقت اسے خدا نظر آ رہا تھا۔ جب ڈاکٹر نے دیکھا کہ آدمی کو ہوش آگیا ہے تو وہ چلتا ہوااس کے پلنگ کے پاس آیا اور مسکرا کر کہا، ’’شکریہ میرے دوست! اگر تمہاری قوتِ ارادی زندگی کا دامن چھوڑ دیتی تو آپریشن کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا تھا۔‘‘ آدمی کمزوری کے مارے زیادہ بول نہیں سکتا تھا، پھر بھی وہ ہلکے سے بڑبڑایا، ’’کیا آپریشن کر کے میرے دل میں سے گولیاں نکال دیں آپ نے؟‘‘
ڈاکٹر کے سنجیدہ چہرے پر دھیمی سی مسکراہٹ ابھر آئی، ’’نہیں، میرے دوست! ہم نے تمہارے گولیوں سے چھلنی دل کو نکال کر اس کی جگہ ایک نیا دل لگا دیا ہے یہ پہلا ایسا آپریشن ہمارے ملک میں ہوا ہے۔‘‘
ایک اور ہفتہ گزر گیا۔ اب آدمی تکیوں کے سہارے پلنگ پر بیٹھ کر اخبار نویسوں کے سوالوں کا جواب دے سکتا تھا۔
’’کیا محسوس کرتے ہیں آپ؟‘‘ ایک نے پوچھا۔
’’اچھا ہوں۔‘‘ آدمی نے جواب دیا، ’’مگر کمزوری محسوس کرتا ہوں۔‘‘
’’کیا آپ جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں یہ پہلا آپریشن ہے جس میں ایک دل دوسرے کے سینے میں کامیابی سے لگایا گیا ہے؟‘‘
’’جانتا ہوں۔ یہ سوچ کر ہی میرے سر میں چکر آ جاتا ہے۔‘‘
’’کیا آپ جانتے ہیں کہ حکومت نےآپ کے آپریشن پر لاکھوں روپے خرچ کیے ہیں؟‘‘
’’جی ہاں! یہ بھی جانتا ہوں اور میں حکومت کا شکر گزار ہوں کہ میری جان بچانے کے لیے انہوں نے اتنا خرچ کیا۔ ان کے ڈاکٹروں نے مجھے نئی زندگی دی ہے۔‘‘
’’آپ کو اپنا پرانا دل پسند تھا یا یہ نیا دل پسند ہے؟‘‘
’’مجھے یہ نیا دل پسند ہے۔ پرانے دل میں بہت سی برائیاں آ گئی تھیں۔‘‘
’’مثلاً۔‘‘
’’مثلاً نفرت، تشدد پسندی، شبہ، وہم۔ نئے دل کے ساتھ میں نئی زندگی شروع کر سکتا ہوں۔‘‘
ڈاکٹر نے اشارہ کیا کہ کافی وقت ہو گیا ہے اور اخبار نویس اٹھ کھڑے ہوئے۔ مگر جانے سے پہلے ایک جرنلسٹ نے پوچھا، ’’بس ایک آخری سوال، ہسپتال سے نکلنے کے بعد آپ کا کیا پروگرام ہے؟‘‘
’’زندہ رہنا۔ بس یہی میری زندگی کا پروگرام ہے اور اب میں اس پروگرام کو پورا کر سکتا ہوں۔‘‘
تین مہینے کے بعد آدمی کو ہسپتال سے چھٹی دے دی گئی۔
’’اب تم گھر واپس جا سکتے ہو۔‘‘ ڈاکٹر نے کہا، ’’خدا حافظ اور گڈ لک۔‘‘
ایک بڑی آرام دہ، گدے دار موٹر میں بٹھا کر آدمی کو ایک نئی اور انجانی بلڈنگ میں لایا گیا۔ یہاں بھی ایک ڈاکٹر اس کا معائنہ کرنے کے لیے انتظار کر رہا تھا۔ ڈاکٹر نے آدمی کے دل کو ٹھونک بجا کر دیکھا۔ بلڈ پریشر کا آلہ لگا کر دیکھا۔ سینے میں ’’سٹیتھو سکوپ‘‘ لگا کر دیکھا۔ ’’سانس اندر سانس باہر‘‘ کرایا۔ امتحان کے لیے اس کی انگلی میں پن چبھا کر خون نکالا۔ اس کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا اور پھر اعلان کیا کہ آدمی کا دل اور دماغ دونوں بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں۔
’’قیدی اپنی سزا بھگتنے کے لیے پوری طرح سے قابل ہے۔‘‘ اس نے ان وارڈروں سے کہا جو آدمی کے ساتھ آئے تھے اور ٹھنڈی سانس لے کر باہر چلا گیا۔
قیدی! دفعتاً آدمی کو احساس ہوا کہ وہ ابھی تک حکومت کا قیدی ہے۔ اس کا مانگا ہوا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ قیدی کے ہاتھ باندھ دیے گئے۔ ایک پادری کہیں سے نمودار ہو گیا اور جلوس چل پڑا۔ یہ سب اس کو کہاں لے جا رہے تھے؟ اور کیوں؟
جیل کے وارڈ۔
آدمی۔
وہ دونوں کانسٹبل جن کو دھوکا دے کر وہ بھاگا تھا۔ چھوٹا والا خاموش اور مغموم تھا۔ بڑا والا مسکراکر اپنی مونچھوں کو تاؤ دے رہا تھا۔ اسی کی پستول کی گولیوں نے قیدی کے دل کو چھلنی کیا تھا۔
جیلر۔
ڈاکٹر
اور سب سے پیچھے وہی جج جس نے اس کو سزائے موت کا حکم سنایا تھا۔
اور سو یہ سب جلوس کی شکل میں آدمی کو پھانسی کے تختے تک لائے۔
جلاد ان کا انتظار کر رہا تھا۔ اس نے آدمی کے سر اور چہرے پر کالا غلاف چڑھا دیا۔ آدمی نے اپنی گردن کے گرد پھانسی کا پھندہ تنگ ہوتا محسوس کیا۔ اس کے دماغ میں موت کا ڈر اتنا نہیں تھا، جتنی ایک عجیب بے چینی تھی۔ ایک مبہم سا سوال تھا۔۔۔ وہ کیا سوال تھا۔ اس کا جواب کیا تھا؟ اب یہ سوچنے کا وقت نہیں رہ گیا تھا۔۔۔ شاید اس کی موت کے بعد دوسرے آدمی اس سوال کو دنیا کے سامنے پیش کریں گے۔۔۔ شاید کوئی اس کا جواب بھی دے سکے۔ لیکن اس وقت وہ اس دنیا میں نہیں ہوگا۔۔۔
جیلر نے اشارہ کیا، جلاد نے ایک ہتہ دبایا۔ آدمی کے پیروں کے نیچے سے تختہ گر گیا اور آدمی پھانسی پر لٹک گیا۔ چند لمحوں میں اس کی زندگی کا افسانہ ختم ہو گیا۔ ڈاکٹر نے لاش کا معائنہ کیا، سٹیتھوسکوپ لگا کر سینے کامعائنہ کیا۔ جب اسے اطمینان ہو گیا کہ دل کی حرکت۔۔۔ جو ایک مرتے ہوئے آدمی کے کلیجے میں سے نکال کر دوسرے آدمی کے سینے میں لگایا گیا تھا۔۔۔ ہمیشہ کے لیے بند ہوگئی ہے تو اس نے سرٹیفکیٹ پر دستخط کر دیے۔ ’’میری موجودگی میں پھانسی دے دی گئی اور وہ پھانسی پر لٹکا رہا۔ جب تک مجرم کے دل کی حرکت ہمیشہ کے لیے بند نہ ہو گئی۔‘‘
جج کے چہرے پر ایک گہرے اطمینان اور فتح مندی کے احساس کے آثار تھے۔۔۔ آج قانون اور انصاف کی بہت بڑی جیت ہوئی تھی اور اوپر آسمان میں اڑتی ہوئی سفید بطخوں کی ڈار ایک سوالیہ نشان کی شکل میں دکھائی دی۔۔۔ اور اس سوالیہ نشان کی پرچھائیں جب اس جیل پر سے اڑتی ہوئی گزری تو ایسا لگا کہ جیسے پھانسی گھر اور پھانسی کی جھولتی ہوئی رسی پر ایک لمحہ کے لیے یہ سوالیہ منجمد ہو گیا ہو۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.