Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دل کے داغ کہاں۔۔۔ نشستِ درد کہاں

فریدہ حفیظ

دل کے داغ کہاں۔۔۔ نشستِ درد کہاں

فریدہ حفیظ

MORE BYفریدہ حفیظ

    آپ نے کہا تھا نا کہ آپ کی یہ مریضہ یعنی میری ماں سال ڈیڑھ سال تک زندہ رہ جائے گی۔ مگر وہ اتنی جلد ی کیسے۔۔۔؟

    ڈاکٹر۔۔۔ وہ میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ مگر ایسے کوئی جواب دینے سے پہلے میرے بھی ذہن میں سوال اٹھارہا تھا کہ کیسے وہ کیسے اتنی جلدی ہمت ہار گئی۔۔۔ یہ بات اگرچہ میرے اصولوں کے خلاف تھی کہ میں کسی مریضہ کے بارے میں سوچتا رہوں۔ مگر کبھی کبھی مجھے اس کاخیال آجاتا تھا کہ جانے اب وہ کس حال میں ہو۔

    آپ کی ہدایات کے مطابق میں نے اسے وطن روانہ کر دیا تھا۔ پھر ہمارا رابطہ فون پر رہا۔ میں ماں کی آواز سے اندازہ لگا لیا کرتا تھا کہ انکی طبیعت کیسی ہے۔ تقریباً تین ماہ بعد مجھے لگا کہ وہ کچھ بجھی بجھی سی ہیں۔ میں نے بہت پوچھا مگر وہ کہتی رہیں کہ میں ٹھیک ہوں۔ پھر میں نے خالہ سے پوچھا۔ پہلے تو وہ بھی ٹالتی رہیں۔ مگر میرے اصرار پر انہوں نے بتایا کہ جب وہ یہاں آئی تھیں تو بدلی ہوئی حالت کی وجہ سے پہچانی نہیں جاتی تھیں۔

    کسی نے اس کا اظہار نہیں کیا اور ان کی دلجوئی میں لگ گئے۔ مگر نانی اماں کا رویہ عجیب ساتھا۔ جس روز انہوں نے ، صبح ماں سے پوچھا آپ رات کو ٹھیک سے سوئی تھیں۔ تو ماں چونکیں اور انہوں نے نانی سے پوچھا امی آپ مجھے مہمان سمجھ رہی ہیں۔ میں آپ کی بیٹی ہوں۔ ہاں ہاں مجھے معلوم ہے میں تو ویسے ہی پوچھ رہی تھی۔ نانی نے جلدی سے بات بدل دی۔ نانی کی ضعیف عمری کے پیش نظر اس بات کو نظر انداز کیا جا سکتا تھا۔ مگر جو بات سب کو پریشان کرتی تھی وہ یہ تھی کہ وہ خاندان کے سارے افراد کو اچھی طرح پہچانتی تھیں۔ گو وہ بھولنے کے ابتدائی مرحلوں سے گزر رہی تھیں مگر ان کی یاداشت اتنی خراب نہیں تھی کہ وہ بیٹی جس ۔۔۔ کی وہ منتظر رہتی تھیں اور اسے باقی بیٹیوں سے زیادہ چاہتی تھیں۔ اسے بیٹی ماننے سے انکاری تھیں۔ ڈاکٹر خالہ کی باتوں سے لگتا تھا کہ ماں کے لیے یہ صدمہ ناقابل برداشت تھا۔ نانی کی بیگانگی نے ماں کے ساتھ پور ے خاندان کے افراد کو ایک دکھ سے دوچار کر دیا تھا۔ اس کی غم میں ڈوبی ہوئی آواز سے۔ اس کے ذہنی کرب کا اندازہ لگانا مشکل نہ تھا۔ ۔۔ وہ بول رہا تھا، میں سن رہا تھا۔ اس کا غم بٹانے کا ایک یہی طریقہ مجھے اس وقت سمجھائی دے رہا تھا۔۔۔۔

    مجھے وہ دن یاد آگیا جب میں رپورٹ دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ نووارد مریضہ کو اس جان لیوا مرض کی اطلاع کیسے دوں۔۔۔ اس کی کالی کالی بھونراسی آنکھوں کی چمک زندگی سے بھر پور وجود کی غماز تھی۔ آواز کھنک دار اور جان دار ۔۔۔ میں کبھی رپورٹ دیکھتا کبھی اس کے چہرے کی طرف۔۔۔ میں اسی شش وپنج میں مبتلا تھا کہ اس پر اس انکشاف کا رد عمل کیا ہو گا۔۔۔ گو اب تک اس موذی مرض میں مبتلا ہونے والے درجنوں مریضوں سے میرا واسطہ پڑ چکا تھا۔۔۔ اچانک زندگی چھن جانے کا احساس اتنی شدت سے مریض کو مایوسی سے دوچار کر دیتا تھا کہ اس بے بسی اور یاس کی سی کیفیت سے نکالنے کے لیے مجھے بڑی تگ و دو کرنی پڑتی تھی۔ میں انہیں یقین دلانے کی کوشش کرتا کہ اب کینسر فوری طور پر جان لیوا نہیں ہے۔ مگر بدقسمتی سے اس کا لبلبہ اور جگر دونوں زد میں آچکے تھے اور مرض بھی تقریباً تین سال پرانا لگتا تھا۔

    میں نے سوچا ابھی صرف اتنا بتادوں کہ وہ اس موذی مرض کا شکار ہوچکی ہے۔ اس سے اس کے رد عمل کی شدت کا اندازہ لگانا آسان ہوگا۔

    مجھے اس طرح خیالوں میں گم اور رپورٹ کے نتائج بتانے میں اتنی تاخیر کے باوجود وہ بہت پرسکون اور کمپوزڈ نظر آرہی تھی۔

    مجھے تذبذب میں دیکھ کر بولی۔۔۔ مجھے کینسر ہے نا۔۔۔

    ہاں میں نے تھوک نگلتے ہوئے کہا۔۔۔

    مجھے شبہ تھا۔۔۔ مگر جی پی (علاقے کا General Prctioner) مجھے تسلی اور دوا دے کر بھیج دیتا تھا کہ علامات سیریس نہیں۔ بھوک نہ لگنا۔۔۔ ورن گرنا۔۔۔ بلڈ رپورٹ تو بالکل نارمل ہے۔ اس دوران میں سمندر پار بھی ہو آئی۔ میری حالت بہت خراب ہوئی اور میرے شور مچانے پر اس نے مجھے اس ہسپتال میں ریفر کیا۔

    یہ بہت افسوسناک ہے۔ اللہ پر بھروسہ رکھو۔ دوا سے آپ کا علاج ہو جائے گا۔ میں نے اسے تسلی دی۔۔۔ مگر میرے حساب سے پہلے چھ ماہ بہت کروشل تھے۔۔۔

    اسی وقت نرس کے ساتھ مدھو گھبرائی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی۔ بدقسمتی سے اس کے شوہر کو بھی پینکر یا کا کینسر تھا۔ اس کی حالت بہت تشویشناک تھی۔ مدھو دیکھ رہی تھی۔ اس کے شوہر کے ساتھ کے ایسے مریضوں کی حالت اتنی دگرگوں نہیں۔ میرے شوہر نے بیماری کے سامنے مکمل طور پر ہتھیار ڈال دئیے ہیں۔ ذرا بھی Will Power نہیں ہے۔ دو قدم چلنے کو تیار نہیں ہوتا۔ میں فوراً وارڈ کی طرف لپکا۔ مریض کو چیک کیا۔ کیمو لگنے کے دوران بعض مریضوں کی حالت خراب ہو جاتی ہے۔ اور اچھے خاصے پررونق چہروں والے مریض کیمو لگنے کے دوران برسوں کے مریض نظر آنے لگتے ہیں۔ جن کی بیماری تیسرے اور چوتھے درجے میں داخل ہو چکی ہوتی ہے۔ ان کا آپریشن نہیں ہوسکتا۔ ان کا علاج کیموتھراپی سے کرنا پڑتا ہے۔

    اور اب مدھو کا شوہر اس سٹیج پر تھا کہ اس سے سوائے ہمدردی کے اور کچھ نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ویسے بھی وہ حوصلہ مندی اور امید کی کسی بات پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ اس کا مرض اب لاعلاج تھا۔ اسے یہ آخری کیمولگ رہی تھی۔۔۔ حالات بتاتے تھے کہ اس کا اثر بھی خاطر خواہ کیا بالکل بھی نہیں ہوگا۔۔۔ اور مجبوراً یہ کہنا پڑے گا کہ وہ ہسپتال میں مرنا پسند کرے گا کہ گھر پر۔

    میں نے نرس کو ہدایات دیں اور واپس اپنے کمرے میں آگیا۔ وہ پر سکون بیٹھی تھی۔ میں نے اسے بتایا اس کا بلڈ ٹیسٹ ہوگا۔ پھر اگلے ہفتے اسے کیمو لگے گی۔

    میں نے اس کے مثبت روئیے کو دیکھ کر اس سے درخواست کی کہ اگر وہ رضا کارانہ طور پر کینسر ریسرچ سنٹر میں زیر تحقیق دوا استعمال کرنے کی اجازت دے دے تو زندگی بچانے کے لیے اس کی بیش بہا خدمت ہوگی۔

    اس نے اپنے شوہر اوربیٹے سے مشورہ کرنے کی مہلت چاہی۔

    میں نے اسے گھر جانے کو کہا اور نرس کو اس کا فون اور گھر کا پتانوٹ کرنے کی ہدایت کے ساتھ مریضہ سے کہا کہ وہ کسی بھی وقت ہسپتال سے رابطہ کر سکتی ہے۔ اب وہ او لین توجہ کی مستحق ہے۔ ہسپتال والے خود بھی اس سے رابطہ رکھیں گے۔ تم اپنا خیال رکھو۔ وہ خلاف توقع ایک ٹھنڈی سانس بھر کر مسکرا دی۔ اور کہنے لگی۔ آپ لوگوں کا رویہ مریضوں کے ساتھ بے حد ہمدردانہ اور قابل تحسین ہے۔ آپ صحیح معنوں میں زندگی کی قدر کرتے ہیں۔ مریضٗ آدھا تو آپ کے روئیے ہی سے شفایاب ہو جاتا ہے۔ ویسے آپ فکر نہ کریں۔ میرے ذہن نے قبول ہی نہیں کیا کہ میں کینسر کی مریضہ ہوں۔ یہ یقیناًبہت صحت مندانہ رویہ ہے۔۔۔ God Bless You ۔۔۔۔

    وہ میرا شکریہ ادا کرکے چلی گئی۔ اس کی چال میں خود اعتمادی تھی اور وہ دوسرے مریضوں کو ہیلو اور وش کرتی جارہی تھی۔ میرے پاس تھوڑا وقت تھا اس لیے میں کافی کے ایک کپ کے ساتھ کچھ دیر سوچنے کی عیاشی کر سکتا تھا۔تا آنکہ کوئی نرس آکرمیری سوچوں میں مخل ہوتی۔۔۔آج نہ جانے کیوں میں اس کینسر ہسپتال میں آنے کے فیصلے کو مناسب بلکہ بہت اچھا سمجھ رہا تھا۔ ذاتی طور پر پہلے پہل مجھے زخمیوں کا علاج کرنا اچھا لگتا تھا۔ اور ایسے زخمی جو جنگی محاذوں پر برسر پیکار رہتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں عالمی جنگ ختم ہوگئی ہے۔ یہ ہماری خام خیالی ہے۔ جنگ کبھی ختم نہیں ہوئی۔ یہ ازل سے ابد تک انسانی زندگی کا حصہ ہے۔ یا حصہ بنا دی گئی ہے۔ اپنے اس شوق کی وجہ سے میں نے اقوام متحدہ کے ایک مشن کے لیے اپنی خدمات پیش کر دی تھیں۔ یہ خیال بھی مجھے انتہائی مضحکہ خیز لگتا تھا کہ امن کے لیے جنگ کوضروری قرار دیا جائے ۔ اس کے پیچھے یقیناًاسلحہ بیچنے والی حکومتوں اور قوموں کی بدنیتی کا دخل تھا۔ جنگ روکنے کا آسان ترین طریقہ یہ ہے کہ اسلحہ سازی بند کر دی جائے۔ تاہم یہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جس کے سامنے دنیا کے بیشتر انسان بے بس ہیں۔ کاش کے سب لوگ اسلحہ بنانے والوں کے خلاف محاذ قائم کریں۔۔۔

    اوہو میں بھی کہاں سے کہاں نکل گیا۔۔۔ یواین کے مذکورہ مشن کا خیال یوں میرے ذہن میں آیا کہ وہاں کام کرتے ہوئے اپنے ایک ساتھی کے جملے نے مجھے یواین چھوڑ کر اس ہسپتال میں آنے کی ترغیب دی۔

    دوافریقی ملکوں کی سرحدی جھڑپوں کے نتیجے میں ہمارے مشن کے کافی زخمی سپاہی ایمرجنسی میں لائے جارہے تھے۔۔۔ میں اصولاً پہلے شدید زخمی سپاہیوں کی طرف لپکا۔ مگر میرے انچارج افسر کی آواز نے میرے قدم روک دئیے۔۔۔ کم زخمی کا علا ج پہلے کریں۔۔۔ میں نے سوالیہ نظروں سے ڈاکٹر کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھنا چاہا۔۔۔ وہ بولا۔۔۔

    انہیں واپس وار زون (War Zone) میں بھیجنا ہے۔

    اور شدید زخمی۔۔۔ میں نے سوال کیا۔۔۔

    اوہ کم ان ڈوک دز از وار(O. Come on this is war doc) میں تو پہلے جنگ کو پہلے ہی انتہائی ظالمانہ فعل سمجھتا تھا۔۔۔۔ مگر اس میں جھونکے جانے والے معصوم انسانوں کے ساتھ ایسا سنگدلانہ رویہ انسانیت کی توہین تھی۔میں نے اسی روز فیصلہ کر لیا کہ میں وارزون میں کام نہیں کروں گا۔ زندگی کی جنگ تو ہر زون میں جاری ہے۔ بہتر ہے اپنی زندگی کی جنگ لڑنے والے انسانوں کے دکھوں میں کمی کی جائے۔ وہ انسان جنہیں یہ اذیت ناک ادراک ہو کہ وہ کتنی مدت اور زندہ رہ سکتے ہیں۔ ان کے لیے دن رات ایک کرنا۔۔۔ ایک ایک گھڑی گزارنا کتنا دشوار ہوتا ہوگا۔۔۔۔

    ڈاکٹر۔۔۔ ڈاکٹر۔۔۔ مدھو کی تشویش زدہ آواز نے میری سوچوں کا سلسلہ منقطع کیا۔۔۔ مجھے نہیں لگتا کہ راج سروائیو کرسکے گا۔

    میرے جوا ب کاانتظار کئے بغیر وہ کرسی پر بیٹھ کر بے اختیار رونے لگی۔ میں کیا کہتا۔۔۔ سوائے تسلی اور امید دلانے کے چند الفاظ ۔۔۔ جوہر ڈاکٹر کے فرائض میں شامل ایک ضرورت ہوتے ہیں۔۔۔ مگر اس شفاخانے میں ڈاکٹر نرسیں اور دوسرا اسٹاف۔۔۔ میں نے غور کیا کہ ہمدردی اور درد مندی کا اظہار صرف فرض ادا کرنے کے لیے نہیں بلکہ دل کی گہرائیوں سے کرتے تھے۔۔۔۔ اس طرح جیسے وہ بھی ان دکھی لوگوں کے غم اور اذیت کو خود محسوس کررہے ہوں۔۔۔ مجھے ایک انجانی مسرت اور اطمینان کا احساس ہوا کہ میرے ہم وطن انسانیت اور زندگی کی اعلیٰ ترین اقدار کے علمبردار ہیں۔۔۔ اور بغیر کسی تخصیص کے دنیا بھر سے آئے ہوئے یہاں کی قومیت اختیار کرنے والوں کو صرف انسان سمجھ کر ان کی زندگیاں بچانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔۔۔ اور ہماری حکومت یہ تمام خدمات بلا کسی معاوضے کے مہیا کرتی ہے۔۔۔ بلکہ ان کی مالی امداد بھی کرتی ہے۔

    مدھو انڈین تھی اور ہمارے ایک Boroughیعنی لوکل گورنمنٹ میں جی پی کی اسسٹنٹ تھی۔ اس کا شوہر راج کمار ایک سال سے یہاں زیر علاج تھا مگر اس پر دوا اثر نہیں کررہی تھی۔ اس کی حالت خراب ہی ہوتی جارہی تھی۔ کینسر کے مریض جب لاعلاج قرار دے دیے جاتے ہیں تو ان کے ساتھ ان کے لواحقین، عزیزواقارب ایک نہ ختم ہونے والے کرب میں مبتلا رہتے ہیں۔ میں مدھو سے ہمدردی کرنا چاہتا تھا۔۔۔ جس طرح وہ غم کی تصویر بنی بیٹھی تھی۔۔۔ وہ ہمدردی کی توقع سے بھی بے نیاز معلوم ہوتی تھی۔ وہ اکثر کہا کرتی تھی تھینک گاڈہم جیسے سفید پوش اپنے ملک میں اس بیماری کاعلاج کرانے کے وسائل کہاں سے لائیں۔ سارا اثاثہ بھی بک جاتا ہے اور مریض بھی نہیں بچتا۔

    ہم یہاں نہ ہوتے تو جانے کیسے ان حالات کا مقابلہ کرتے۔ وہ روتی ہوئی چلی گئی۔ اگلے روز راج زندگی کی جنگ ہار گیا۔

    نئی مریضہ جواب پرانی ہو چکی تھی، علاج سے اسے کوئی افاقہ نہیں ہوا تھا۔ اس کے سیاہ بال سفید ہو چکے تھے۔ چمکتے دمکتے چہرے کی رونق ماند پڑ گئی تھی۔ چمکتی آنکھوں میں مٹیالا پن آرہا تھا۔ تاہم آواز کی کھنک باقی تھی۔ مگر اس نے ہتھیار نہیں ڈالے تھے۔ اس نے وطن جا کر اپنوں سے ملاقات کا ذکر کیا۔ میں نے حوصلہ افرائی کی اور اسے مشورہ دیا کہ وہ ضرور سمندر پار ہو آئے۔ درد کی اذیت سے بچنے کے لیے میں نے اسے پین کلر (Pain Killer) دے دیے۔

    بتائیے ناڈاکٹر۔۔۔ میں نوجوان کی آواز پر چونکا۔ مجھے احساس ہی نہ ہوا کہ میرے کمرے میں اس کے علاوہ کچھ اور مریض بھی آکر بیٹھ گئے تھے اور بڑی توجہ سے اس کی باتیں سن رہے تھے۔ وہ ماں کی حالت بگڑنے پر پاکستان چلا گیا تھا۔ اور وہیں اسے سپرد خاک کرکے خالی ہاتھ لوٹ آیا تھا وہ مجھ سے ایسے سوال کر رہا تھا جن کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ شاید وہ بھی جانتا تھا کہ انسانوں کے اندازے غلط بھی ہوتے ہیں۔ وہ جانے کے لیے اٹھا تو کونے میں بیٹھی ایک ادھیڑ عمر خاتون نے اسے ساتھ والی خالی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ بڑی فرما نبرداری سے اس کے پہلو والی کرسی پر جا بیٹھا۔ خاتون نے اس کے شانوں کے گرد اپنا بازو پھیلایا اور انگریزی میں کہنے لگی۔ بیماری نے تمہاری ماں کو نہیں مارا، مائی سن شی ڈائیڈ آف ہارٹ بریک۔

    نوجوان نے ایسی نظروں سے خاتون کو دیکھا جو کہہ رہی تھیں کہ اسے اس کے سوال کا جواب مل گیا۔ وہ خاتون کے شانے پر سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کررو پڑا

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے