Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ڈنگ

MORE BYمحمد حامد سراج

    بشارت احمد نے بستی خانقاہ سراجیہ کے ایک کھوکھے سے درجن بھرمالٹے خرید کیے۔ مالٹے نارنجی رنگ کے تھے۔ اس نے مونگ پھلی اورچلغوزے خریدنے کا بھی سوچا تھا۔ سیب اور کیلے خریدنے کا بھی اس نے ارادہ کیا تھا۔ لیکن جیسے ہی اس کی نظرمالٹوں پر پڑی اسے اپنی گم شدہ اجڑی بستی کی آخری شام کی وہ نارنجی کرنیں یاد آ گئیں جو اس نے اپنے صحن میں موجود کیکرکے درخت سے لپٹی دیکھی تھیں۔ وہ شام تھی کہ قیامت؟ اس کے گھر جیسا کہرام بستی کے ہر گھر میں رقصاں تھا۔ سامان سمیٹا جا رہا تھا۔ ٹریکٹر ٹرالیوں اور ریڑھیوں پر لادا جا رہا تھا۔ بستی کے ہر شخص کے چہرے پر خاموشی کی دبیز تہہ تھی، چہرے تفکرات، اندیشوں اور مستقبل کے خوف کی دھول میں اٹے تھے۔ سب نامعلوم منزل کو رواں تھے۔ اس نے ایک بار پھر مالٹوں کو غورسے دیکھا۔

    وہ رنگ بدل رہے تھے۔ پہلے وہ پیلے ہوئے، بالکل زرد اس کے چہرے کی مانند اورپھر ان میں سے خون رسنے لگا اس کے ارمانوں کی طرح! اس کا جی چاہا وہ انہیں پھینک دے۔۔۔

    گھر پہنچ کر اس نے مالٹے میز پر رکھے۔

    اس کے دماغ کے خلیوں میں بےشمار سوالات کے جراثیم پرورش پارہے تھے۔ وہ سر پکڑکر چارپائی پر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا۔ میری بستی کی آخری شام میرے اندر مرکیوں نہیں جاتی۔ اسے مر جانا چاہیے۔ جب انسان گزر جاتے ہیں تو یادیں آدمی کے اندر ساری عمرکیوں عذاب اگاتی رہتی ہیں۔ جیسے انسانوں کے جنازے اٹھتے ہیں، ارتھی اٹھتی ہے، ایسے ہی ذہن میں بھی کوئی سلسلہ ہوتا، یاد مر جاتی، دفن ہوتی اور کبھی لوٹ کر واپس نہ آتی۔ یادوں کی رومیں ایک وکیل کی جناح کیپ اس کی سوچوں کے لیے عذاب ہو گئی۔۔۔ ہاں ہاں۔۔۔ بالکل وکیل آیا تھا، بستی کا اکلوتا وکیل، شریف النفس اونچا دراز قد، شانے کشادہ، چہرے پرداڑھی، سر پر جناح کیپ، ہردلعزیز، ملنسار، بستی کے لوگوں کا غم خوار۔۔۔ وہی وکیل۔۔۔ جب شام ڈھلے اس کے گھر آیا تھا تو اس لمحے اس کے والد کے آگے اس کی ماں نے کھانا پروسا تھا۔ تازہ سبز چنے کا سالن تھا۔ اس کا والد پگڑی سرسے اتار کر تکیے پر دھرے کھانا کھا رہا تھا۔ جب اسے وکیل کی آمد کی اطلاع کی گئی تو اس نے کہا۔

    پتر۔۔۔ وکیل صاحب کو بیٹھک میں بٹھا۔ میں کھانا کھا کر آ رہا ہوں۔

    بشارت احمد نے دیکھا اس کا والد عجلت میں لقمے نگل رہا تھا۔ ایسی کیا بات ہے؟ بابا کو جلدی کیوں ہے۔

    اس کا بابا بیٹھک میں داخل ہوا تو چہرے پر خوف اورپسینہ تھا۔

    وکیل صاحب کیا خبر لائے ہیں آپ۔۔۔؟

    وکیل سرنیہواڑے اپنے پاؤں کے انگوٹھوں پر نظریں جمائے جناح کیپ گود میں رکھے چپ تھا۔ وکیل صاحب کچھ تو بولیے۔۔۔؟

    ملک صاحب، حکومت نے بستی خالی کرانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ خبر یہ ہے کہ ایک بہت بڑا پراجیکٹ شروع کرنے کا منصوبہ جو زیر غور تھا، حتمی شکل پا گیا ہے۔ ہماری بستی ’’ڈِنگ‘‘ ہی نہیں ساتھ کا قصبہ ’’کھولا‘‘ بھی۔۔۔! وکیل کی آواز بھرا گئی۔ بشارت احمد کا والد ملک فتح شیر چرچراتی چارپائی پریوں بیٹھا جیسے شہتیر ٹوٹ کر گرتا ہے۔ بہت سی باتیں بشارت احمد کی سمجھ سے بالاتر تھیں۔ وہ عمرکی اس سرحد پر کھڑا تھا جہاں ہر طرف پھول کھلتے ہیں، رنگ بکھرتے ہیں۔ لیکن اس نے بھی آنے والے خطرے کی بو سونگھ لی۔ وہ بھانپ گیا کہ کچھ ہونے والا ہے۔

    ایک خوف پوری بستی میں سرایت کر گیا۔ اگلی صبح وہ گھر سے نکلا۔ اس نے دیکھا چھپرتلے مدھانی خاموش ہے۔ ماں آج لسّی نہیں ملےگی۔۔۔؟ چارپائی پر بیٹھی متفکرماں سے اس نے پوچھا۔ لسی۔۔۔؟ آج تو ماں نے بھینسوں کا دودھ بھی نہیں نکالا۔ اس کی بہن نے کہا۔ اس نے بھینسوں کے ڈکارنے کی آواز سنی۔ تو ان بے زبانوں کو بھی معلوم ہو گیا ہے کہ بستی خالی کرائی جا رہی ہے۔

    اچانک ایک خیال اس کے دماغ میں کوندا۔ پلٹ کر اس نے گھرکے درودیوار کو دیکھا۔

    کیوں نہ میں اپنے اس گھر کو اپنے اندر تعمیر کر لوں۔۔۔! وہاں سے تو اسے کوئی بھی گراکر اپنا منصوبہ شروع نہیں کر سکےگا۔ یہ خیال اسے اتنا بھایا پہلے اس نے سارے کمرے اپنے اندر تعمیر کیے۔ صحن میں لگے تلسی کے پودے کھرپے سے نکال کر اپنے اندر لگائے۔ چھپر بنایا، اس میں بھینسیں اور گائے باندھی۔ بکریوں کی چرنیاں تک اس نے ترتیب سے رکھیں۔ کیکر کا درخت لگانے میں اسے بہت محنت کرنا پڑی۔ کیکر کے ایک بڑے ٹہن پر لگا، رسے کا جھولا جو وہ ہر سال عید پر جھولا کرتے تھے، اسے بھی اس نے نظرانداز نہیں کیا۔ جب اسے یقین ہو گیا کہ پورا گھر سازوسامان سمیت اس کے اندر تعمیر پا گیا ہے تو وہ سرشار ہو گیا۔ وہ گھر سے نکلا۔

    گلی میں بنٹے کھیلتے بچوں پراچٹتی سی نظر ڈالتے ہوئے وہ اپنے کھیتوں کی جانب بڑھ رہا تھا۔ ٹیوب ویل پروہ جی بھرکے نہانا چاہتا تھا۔ ٹیوب ویل پر نہاتے ہوئے اسے خیال آیا۔ کیوں نہ اپنے گھر کی مانند اس پوری بستی کو میں اپنے اندر تعمیرلوں۔۔۔! مالٹے اس کے سامنے دھرے تھے۔ وہ ماضی کی حویلی میں مقید تھا۔ اپنے وطن میں بستی تعمیر کرنے کا خیال اسے گھیر نے لگا۔ اگر میں بالکل اسی طرح ہمت کرکے پوری بستی اپنے اندر بسالوں تو شاید آنے والے زمانوں میں یہ بستی دوبارہ آباد ہو جائے۔ کوئی معجزہ یا کرامت۔۔۔! ٹیوب ویل پر نہانے کے بعد اس نے بستی کی گلیوں میں گھومنا شروع کر دیا۔ راستے ہی اس کے رازدار تھے۔ کچے کوٹھوں کی محبتیں اس کی امین تھیں۔

    موضوعِ سخن ایک ہی تھا۔ کس نے کہاں جاب سیرا کرنا ہے۔ لوگ منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ اپنے تباہ شدہ گھروں کا ملبہ لے جانے کا سوچ رہے تھے۔ سب کے اذہان میں ایک ہی خوف پرورش پا رہا تھا کہ وہ جاکر جہاں بھی ٹھکانہ بنائیں گے وہ جگہ ’’ڈنگ‘‘ نہیں ہوگی۔ دریائے سندھ کا مغربی کنارہ نہیں ہوگا۔ وہ کوئی اور بستی ہوگی۔ نیا نام، اسے اپنی پہچان کے لیے صدیاں درکار ہوں گی۔

    بشارت احمد گھومتے گھومتے مہاجرین کے ڈیرے پر پہنچا تو پنچایت کا سماں تھا۔ فجردین اونچی آواز میں بول رہا تھا۔ باب الدین کو اپنی دکان کے علاوہ یہ فکر بھی دامن گیر تھی کہ مہاجرین کی نئی بستی کا نام کیا ہوگا۔۔۔؟

    فجردین نے بارعب آوازمیں کہا ’’بستی کے نام کی فکر نہ کھاؤ۔ میرے پوتے کے نام سے طاہرآباد موسوم کر لینا، ضرور بڑا آدمی بنےگا اور اس بستی کا نام روشن کرےگا۔ مکانوں کے ملبے کا سوچو، جو سوچنے کی بات ہے۔ یہ کیسے لے کر جانا ہے؟ اجڑے تو سب کو ایک ہی جگہ جاکر آباد ہونا ہے نہیں تو ہم اپنی شناخت کھو بیٹھیں گے۔

    بالکل۔۔۔ بالکل۔۔۔ فجردین نے ٹھیک بات کی ہے۔ تائید میں کئی آوازیں ابھریں۔ بشارت احمد ان کی باتیں سنتا رہا اور کڑھتا رہا۔ شیشم تلے رکھے مٹکے میں سے اس نے پانی کا کٹورا پیٹ میں اتارا۔ اس کے اندر جلن بڑھنے لگی۔ جیسے گیلی لکڑیاں سلگ رہی ہوں اور دھواں بےچین کر رہا ہوں۔ ان لوگوں کے قلوب میں بستی اجڑنے کا ملال کیوں نہیں ہے؟ یہ تو نئی بستی، نئے جہانوں کا سوچ رہے ہیں۔ یہ کل ہی کی تو بات ہے، دریائے سندھ کے کنارے گھوڑوں کی ’’چپلی‘‘ ہوئی ہے۔ فجردین اورباب الدین بھی موجود تھے۔ نوجوان وکیل، قریشی خاندان کے افراد، پوری جمالے خیل برادری، امیر، غریب سب موجود تھے۔ چپلی بشارت احمد کا پسندیدہ کھیل تھا۔ جس روز چپلی ہوتی، بھنوں مراثی ڈھول کی تھاپ پر ڈنگ کی گلیوں میں دھول اڑاتا، چپلی کے انعقاد کا اعلان کرتا۔ اگلی صبح بستی کے بانکے سجے سجائے گھوڑوں پر بیٹھے اپنی پگڑیاں اپنے دونوں ہاتھوں سے سنبھالتے میدان کا رخ کرتے۔ گھوڑے دلکی چال چلتے، سم زمین پر مارتے، دھول اٹھتی۔ جوانوں کو ان کے ملازمین نیزے پکڑاتے۔ میدان کے بیچوں بیچ ایک نرم لکڑی گاڑ دی جاتی۔ بھنوں مراثی اپنے ڈھول کی طنابیں کھینچتا۔ ماماپھتن مراثی اپنی گلابی پگڑی سر پر اچھی طرح جماکر شہنائی منہ سے لگاتا۔ ڈھول کی تھاپ اور شہنائی کے سر میں جانو مراثی کی بین کی آواز مستی گھولتی تو ڈنگ کے پنڈال میں آئے ہوئے ہزاروں لوگوں کے چہرے گلنار ہو جاتے۔ سب کی نظریں میدان کے سرے پر کھڑے گھڑسوار پر ہوتیں۔ گھوڑاد ھیمے دھیمے اگلے سم زمین پر مارتا، جوان نیزہ سنبھالتا اورگھوڑے کو ایڑ لگاکر ہزاروں نگاہوں کا مرکز بنتا۔ سرپٹ بھاگتے گھوڑے کی پیٹھ پر اپنے آپ کو سنبھالتا، جونہی زمین میں گڑی وہ لکڑی جو کھجور کی لکڑی سے تیارکی جاتی تھی، جسے چپلی کہتے تھے، کے قریب آتا توگھوڑے پر پہلو کے پل جھکتا۔ جوان کا جھکنا، گھوڑے کا رفتار پکڑنا، بھنوں کا ڈھول پیٹنا، پھتن کی شہنائی اورجانو کی بین جب ہزاروں لوگوں کی تالیوں کی تھاپ شامل ہوتی توجوان اپنی نگاہیں چپلی پر جمائے اور جھکتا، نیزہ چپلی کے سینے میں پیوست ہوتا اورجوان نیزہ فضا میں بلند کرکے خوشی کا نعرہ بلند کرتا اور دور تلک بھاگتے گھوڑے اور پنڈال کے شور میں عجب سرور اور سرداری کی کیفیت طاری ہو جاتی۔ جب سورج ڈھلنے پر گھڑسوار لوٹتے تو گلیوں میں سے گزرتے ہوئے جیتنے والے جوان کو عورتیں دروازے کی اوٹ سے دیکھتیں۔ چوپالوں اور گھروں میں کئی دن تک چپلی کا تذکرہ رہتا۔

    بشارت احمد کئی بارعالم تخیل میں گھوڑے پر سوارہوا۔ ڈھول کی تھاپ اور بانسری کی لے پر ہزاروں تالیوں کی گونج میں نیزے کی اَنی پر چپلی پروتا اور فخریہ سینہ پھلا لیتا۔۔۔ چپلی۔۔۔؟

    طاہرآباد میں چپلی کا کھیل تو نہیں کھیلا جائےگا۔۔۔

    بشارت احمد اپنے خیالوں کے حصارمیں چلتے ہوئے اس کچی آبادی کی طرف بڑھ رہا تھا جہاں بھنوں مراثی کا دکھ بھی اس نے اپنے اندر بسانا تھا۔ وہ کچے کوٹھے کے اندر داخل ہوا۔ بھنوں مراثی حقے کی نَے منہ میں دبائے دھواں پھیپھڑوں میں بھرتا کھانس رہا تھا۔ شیو بڑھی ہوئی اور آنکھیں اس کی لال انگارہ ہو رہی تھیں۔ بشارت احمد دیر تلک اس کے پاس بیٹھارہا، چپ چاپ۔۔۔!

    چاچا بھنوں کچھ بولےگا بھی۔۔۔؟ اس نے خاموشی کا قفل توڑا۔

    پتر! میں کیا بول سکتا ہوں؟ بولنے کو رہ ہی کیا گیا ہے۔ ہمیں تو اپنے کچے کوٹھوں کا غم کھائے جا رہا ہے۔ پختہ گھروں والے تواپنے ساتھ اینٹیں، گاڈر، ٹی آئرن اور ٹائلیں تک سمیٹ لے جائیں گے۔ ہمارا تو سب کچھ یہیں راکھ ہو جائےگا۔ ان مٹی کی دیواروں کو کہاں اٹھاکر لے جا سکتے ہیں۔ چھت بھی گھاس پھونس کے ہیں۔ نیا گھر بسانے کو زمین بھی خریدنی ہے۔ سر چھپانے کو جانے کہاں جگہ ملےگی؟

    چاچا غم نہ کھا۔۔۔ اﷲ مالک ہے۔

    وہ تو ہے پتر، لیکن کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینے سے مسئلہ حل تو نہیں ہو جائےگا۔ نئی جگہ پرہمارے دھندے کا جانے کیا ہوگا؟ وہاں ہمیں کون پوچھےگا۔۔۔

    اچانک بھنوں کی آنکھوں میں اک چمک سی لہرائی۔

    بشارت پترپنڈی کیوں نہ ڈی ایس پی ملک خان محمد صاحب سے رابطہ کر لیں۔ شاید وہ اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے بستی کو اجڑنے سے بچالیں۔

    بےسود ہے چاچا۔۔۔ بہت اوپر یہ فیصلہ ہوا ہے۔

    بھنوں کو اوپر والوں کی طاقت کا اندازہ نہیں تھا۔ اس کی آخری امید بھی دم توڑ گئی۔ وہ سوچتا رہا، جانے حکومتیں چھت کیوں چھین لیتی ہیں۔

    بشارت احمد نے بھنوں کا کندھا تھپتھپایا اور اجازت لی۔ اس کی روح بےچین تھی۔ وہ بےمنزل راستوں پر چلتا رہا۔ اس کے اندر اگے سوالات کے جنگل میں آگ لگ گئی۔ اس آگ کو بجھانے والا کوئی بھی تو نہ تھا۔ وہ سوچتا رہا، لوگ نئی بستی بسانے کی تو بات کرتے ہیں۔ اس دم توڑتی ڈنگ کا نوحہ کیوں ان کے اندردم توڑ گیا ہے۔۔۔؟ وہ سوچنے لگا جیسے انسان مرنے کے بعد اس دنیا میں لوٹ کر نہیں آتا، اسی طرح میری بستی بھی ہمیشہ کے لیے محکمہ مال کے کاغذات میں دفن ہو جائےگی۔ قیامت کے روز انسان کو تو دوبارہ زندہ کیا جائےگا لیکن میری بستی میں روح کون پھونکےگا۔ میں اﷲ میاں سے کہوں گا ایک بار میری بستی، میری ڈِنگ زندہ کر دے میں اس کی گلیوں میں گھوم لوں، کیکر سے لپٹ لوں۔ ٹیوب ویل پر نہالوں، چپلی دیکھ آؤں۔ احمد قصائی کی دکان سے بابا کے کہنے پر گوشت لے آؤں۔ بس ایک بار، میرے اﷲ۔۔۔ میری بستی۔۔۔! میں صابو نائی سے بال کٹوالوں۔ اس کے بیٹے خانو نائی سے مجھے ڈر لگتا ہے۔ اسے تو ابھی اوزار پکڑنے بھی نہیں آتے۔ میرے اﷲ! میں اپنی بستی کی گلیوں میں شام ڈھلے گھروں کو لوٹتے ڈھور ڈنگروں کے گلوں میں لٹکتی گھنٹیوں کی آواز سن لوں۔ بس ایک بار بستی میں اپنا امر ڈال دے۔ اسے زندہ کر دے۔ میں تنور پر روٹیاں لگاتی اماں سبھو کے سامنے سے روٹی اٹھاکر بھاگ جاؤں۔ مجھے گھروں میں اپلوں پر ابلتے دودھ کی مہک اپنے اندر بسا لینے دے۔ دیکھ، تو تو دعائیں قبول کرنے والا ہے۔ اربوں انسانوں کو دوبارہ زندہ کرنے والاہے۔ بس ایک بار میرے ﷲ! میری بستی کو بھی زندہ کر دے۔ میں تیری منت کرتا ہوں، تیرے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں۔۔۔

    وہ رات گئے تک بستر پر لیٹا چھت کے ورگے اور لاڑیاں گنتا رہا۔ نئی بستی میں نامعلوم گھر کا خوف اس کے اندر رینگتا رہا۔ اسے دو چار روز پہلے کی ایک شادی کی تقریب یاد آ گئی۔ یہ رات یہ روایت بھی دم توڑ جائےگی۔ وہ اپنے قد آور باپ ملک فتح شیر کے ساتھ ملک سکندر مستی خیل کے گھر پہنچا تو چھپر تلے کوندر کی گھاس بچھی تھی۔ چھپر تلے لوگ آلتی پالتی مارے بیٹھے تھے۔ اتنے میں مٹی کے پتروٹے ان کے سامنے چن دیے گئے۔ ’’مٹی کے کٹوے‘‘ میں پکا ہوا لذیذ سالن ان کے سامنے رکھا گیا۔ ’’لور‘‘ پر لگی بڑی بڑی چپاتیاں جو پھتو کمہار اور میراں کمہاری نے اتاری تھیں۔ جو ان لڑکے گلے اور کمرکے گرد کَس کر کپڑا باندھے جھولا بنائے اس میں روٹیاں ڈالے باراتیوں کے آگے رکھ رہے تھے۔ کھانے کے بعد ’’پتروٹوں‘‘ میں حلوہ دیا گیا۔

    وہ ساری رات تقریب کے دوران سوچتا رہا کہ جانے یہ لوگ کہاں جا آباد ہوں گے۔ ان سے پھر ملاقات کے سلسلے ہوں گے کہ نہیں۔۔۔؟

    یہ مالٹے آپ بچوں کے لیے لائے ہیں۔۔۔ اس کی بیوی نے پوچھا۔

    وہ ایک دم چونکا۔۔۔ نہیں۔۔۔ اپنے لیے لایاہوں۔

    کیا مطلب ہے؟

    آج میں ڈنگ جا رہا ہوں۔

    کیا مطلب ہے آپ کا۔۔۔ اس ویرانے میں؟

    ہاں اسی ویرانے میں جہاں آبادی ہے۔

    ہونہہ، آبادی۔۔۔! ان کھنڈرات میں حشرات الارض اور درندوں کا بسیرا ہے۔ میں نہیں جانے دوں گی آپ کو۔۔۔

    کچھ نہیں ہوگا۔

    اس نے مالٹے اٹھائے اور چل دیا۔

    وہ ڈنگ والے پل کے آخری سرے پر پہنچا تو فوجی چوکی پر چوکس جوانوں نے اسے روکا۔

    کہاں جاناہے، آپ کو۔۔۔؟

    اگر اجازت ہو تو میں اپنی اجڑی بستی دیکھنے جا رہا ہوں۔ اس نے مسکراکر کہا۔

    فوجیوں نے اسے جانے کی اجازت دے دی۔ فوجی چوکی سے دو فرلانگ کے فاصلے پر ڈنگ کی حدود شروع ہوتی تھی اور پہلا گھر سکندر مستی خیل کا تھا۔

    دو فرلانگ۔۔۔ صدیاں اس کے سامنے دیوار ہو گئیں۔ مالٹوں کا وزن ایک دم بڑھ گیا اور اس کے کندھے دکھنے لگے۔ چوتھائی صدی بعد وہ ان نارنجی کرنوں کی تلاش میں آیا تھا جو کیکر کی شاخوں میں اٹکی تھیں۔ اسے تویہ خبر بھی نہیں تھی کہ کیکر زندہ بھی ہوگا یا نہیں۔

    کچی پگڈنڈی پر بشارت احمد نے قدم دھراہی تھا کہ اس کی مڈھ بھیڑ غلام علی ہلالی سے ہو گئی۔

    بشارت احمد کہاں کا ارادہ ہے؟

    یار۔۔۔ ڈنگ جا رہا ہوں۔۔۔ بشارت احمد عجلت میں تھا۔

    وہاں تو کچھ بھی نہیں۔ جنگلی پیڑ کیکر ہیں۔ حشرات الارض اور درندوں کا بسیرا ہے۔ ایک روز میں بھی گیا تھا۔ ہم ہلالیوں کے گھروں کی جگہ پربھی اب کیکر ہی کیکر ہیں۔

    غلام علی تمہارا گھر سکندر مستی خیل کے گھر کی دائیں جانب گلی میں مڑکر ملک عطا محمد جمالے خیل کے گھر سے تھوڑا پہلے بائیں جانب ہی تھا۔۔۔

    ہاں۔۔۔ تو پھر۔۔۔ یہ تم کیوں پوچھ رہے ہو؟

    میں وہاں جاؤں گا، تمہاری ماں کے ہاتھ سے لسّی پیوں گا، تمہارے بابا سے فصلوں کی کاشت پر تبادلۂ خیال کروں گا۔

    بشارت احمد۔۔۔ حقیقت کی دنیا میں لوٹ آؤ۔ وہ بستی خواب کی دھول ہو گئی۔ اب توہم ہلالیوں کے گھر ہماری سوچ کی طرح بکھر گئے ہیں۔ قاسم ہلالی کا گھر ریلوے اسٹیشن کی شمالی سمت پانچ چھ گھروں کے درمیان اپنی تنہائی پر نوحہ کناں ہے۔ اس کا بوڑھا باپ غلام قادر گھنٹیا کا مریض ہے۔ وہ چارپائی پر اَسیر، شیشم تلے بیٹھا ڈنگ میں گزری زندگی کی یادوں کے سہارے زندگی جی رہا ہے۔ ہمارا گھر خانقاہ سراجیہ کی نئی آبادی میں اپنی پہچان کھو بیٹھا ہے۔ ملک حیات مرزے خیل نے ’’چاہ مرزے والا‘‘ کے نام سے موسوم جو بستی بسائی ہے وہاں بھی کچھ بے نام ونشاں ہلالی قوم کے افراد رہتے ہیں۔

    غلام علی کی آنکھیں بھرآئیں۔

    بشارت احمد سکندر مستی خیل کے گھر کے سامنے رکا۔ وہ جنگلی کیکروں کے درمیان کھڑا تھا۔ اس نے اونٹ ڈکرانے کی آواز سنی۔ وہی اونٹ جسے تڑکے تڑکے سکندر مستی خیل جوت کر کھیتوں کا رخ کرتا تھا۔ کیا اونٹ یہاں نہیں ہے؟ جانور کہاں چلے گئے۔ ان بے زبانوں کا تونام ونشان مٹ گیا۔ ہماری برادری جو مختلف شاخوں میں بٹی، پھربھی یک جان تھی۔ جانے کون کہاں جا بسا۔۔۔؟ کتنے بھائی تھے۔۔۔ کتنے۔۔۔؟ بشارت احمد نے ذہن پر زور دیا۔

    ہمارے جد امجد۔۔۔ تین بھائی تھے۔ تلوکر خاندان انہی تین بھائیوں سے کتنا پھلا پھولا، بارآور ہوا۔ کوئی توان کا نام، ان کی تاریخ بھی محفوظ کر لیتا۔ کیا وہ صرف محکمہ مال کے کاغذات میں ہی۔۔۔ اس کی آنکھیں اشک بار ہو گئیں۔

    اس کی آنکھیں اشک بار ہو گئیں۔ بشارت احمد کے اندر جھڑی لگ گئی۔ جھڑی اور بارش۔۔۔ بارش جو کچے مکانوں کو کھا جاتی ہے، پختہ مکانوں کی بنیادیں کھوکھلی کر دیتی ہے۔ بشارت احمد کے اندر جھڑی لگ گئی۔ اسے لگا، وہ زمین بوس ہو رہا ہے۔ نام اس کے ذہن میں بے ترتیب ہوتے چلے گئے۔ ملک مستی خان، ملک مرزا خان، ملک ہستی خان، تینوں شاخیں برگ و بار لائیں۔ ملک مستی خان کی اولاد مستی خیل کہلائی۔ اسی شاخ میں احمد خان نامی نوجوان نے سلسلۂ نقشبندیہ میں نام پایا اور سرخیل الاولیاء ہوئے۔ مولانا ابوالسعد احمد خان۔۔۔ ریلوے اسٹیشن کی مشرقی سمت انہوں نے ایک بستی بسائی اور اپنے شیخ خواجہ سراج الدین کے نام پراس کا نام خانقاہ سراجیہ رکھا۔ ہستی خیل اسی بستی کی مشرقی سمت نہر کے اس پار جا آباد ہوئے۔۔۔ ہم مرزے خیل۔۔۔! ہمارا مرکز ڈنگ تھا۔ ہم بکھر گئے۔ میرے مرحوم چچا عطا محمد، غلام محمد، محمدشیر اورماموں محمد افضل نے سامان ٹرالیوں پر لادا اور خانقاہ سراجیہ کی نئی آبادی میں ضم ہو گئے۔ دوست محمد نے چاہ مرزے والا جا ڈیرہ لگایا۔

    بشارت احمد نے ایک مالٹا چھیلا۔ وہ تاریخ کا طالب علم نہیں تھا لیکن تلوکر خاندان کی تاریخ، افراد اور کردار اس کے اندر کروٹیں لے رہے تھے۔ وہ داہنی جانب گلی میں مڑا۔ ایک نیولا اسے سر اٹھاکر دیکھ رہا تھا۔

    وہ مسکرایا۔

    یہ وہی نیولا ہوگا جو ہمارے گھر کیکر پر چڑھتے گلہری کو سر اٹھاکر دیکھا کرتا تھا۔ چوتھائی صدی پہلے بشارت احمد نے جو بستی اپنے اندرتعمیرکی تھی آج وہ اس کے دیوارودر سے لپٹ کر روناچاہتا تھا۔ اس نے اپنے مرحوم چچاملک عطامحمد کے چوبارے کی جگہ کو حسرت سے دیکھا۔ اسے ایسے لگا، اس کا چچا چارپائی کے پائے کے ساتھ تیترکی تھیلی لٹکائے ہاتھ میں تیتر سنبھالے اسے سہلا رہا ہے۔ شیشم تلے تاش کے پتے بکھرے پڑے ہیں۔

    اپنے گھر کی راہ لینے سے پہلے اس نے ’’ڈیرہ فقیراں والا‘‘ جانے کا فیصلہ کیا۔ ڈیرہ فقیراں والا ڈِنگ میں تقدس کی علامت تھا۔ وہ اپنی بستی کی اس مرکزی علامت کو کیسے نظرانداز کر سکتا تھا۔ وہ ٹیڑھے میڑھے راستوں پر چلتا رہا۔ اس کے حافظے میں ساری یادیں، باتیں، دیوارودر، درخت، چرند پرند، مسجد کا لاؤڈسپیکر، آٹے کی چکی کی تک تک کی دل کش آواز، حتیٰ کہ کچی راہوں پر ڈھورڈنگروں کا گوبر بھی نہیں بھولا تھا جسے گاؤں کی غریب لڑکیاں اکٹھا کرکے سوکھ جانے پربطورِ ایندھن استعمال کرتی تھیں۔

    اس کے قدموں میں صدیوں کی تھکن تھی۔ اس کے وجودمیں زمانے گم تھے۔ وہ چلتا رہا، بے سمت، بےآواز قدموں کے ساتھ۔ اسے شرینہہ کے درخت کی تلاش تھی۔ جس کے سائے کا پھیلاؤ دو کنال تھا۔ اس گھنے شجر سایہ دارکے نیچے فقیرم حمد امیر سے لوگ ملنے کوآتے۔ جوق در جوق، قطار اندر قطار، بس ایک روحانی کشش انہیں کھینچ لاتی۔ لوگ اپنی باطنی تشنگی کی سیرابی کو اس چھتناور درخت کا رخ کرتے۔ فقیر محمد امیر کا سایہ شرینہہ کے سائے سے کہیں زیادہ گھنا، میٹھا اور آرام دہ تھا۔ لوگ دعاؤں کی سوغات سے مالامال لوٹتے۔ مہمان نوازی اس گھرکے افراد کی گھٹی میں شامل تھی۔ بشارت احمد نے دور تلک نظر دوڑائی۔ شرینہہ کا وجود کہیں نہیں تھا۔ لیکن فضامیں ایک مہک تھی۔ ایک فقیر اور درویش منش انسان کے وجود کی مہک، بان کی چارپائی پر آلتی پالتی مارے بیٹھے فقیر محمد امیر۔۔۔! کرتا ململ کا، تہمند باندھے چہرے پر کرنیں نور کی، سادگی کا مرقع، عہد صحابہ کی یادگار، انہی چودہ سو سال پہلے کی محبتوں کے امین، مہمان نواز ایسے کہ امراء وغرباء کے ہاتھ خود دھلاتے، کھانا سامنے لاکر پروستے، ان کی باتیں سنتے غور اور توجہ سے، دکھ بانٹتے، دائیں ہاتھ سے ان کے کام آتے، بائیں ہاتھ کو خبرتک نہ ہونے دیتے۔

    بشارت احمد چھپرتلے بیٹھا شرینہہ کے سائے کو سرکتے ہوئے دیکھتا رہا۔ شرینہہ کا سایہ نہیں اس کے سامنے وقت ڈھل رہا تھا۔ یا وہ خود ڈھل رہاتھا۔ لوگ ایک ایک کرکے جا رہے تھے۔ وہ تھا، فقیر محمد امیر تھے اور یاد کی تیز ہوا تھی، سب ریزہ ریزہ، کرچی کرچی۔۔۔ وہ لوٹنا چاہتا تھا۔ اس کی جھولی دعاؤں سے بھر گئی تھی۔ اس کے قدموں میں صدیوں کی تھکن اوردھول تھی۔ وہ چلتا رہا، چلتا رہا۔

    اپنے گھر میں وہ ایسے لمحے داخل ہونا چاہتا تھا جب شام ڈھل رہی ہو اور نارنجی کرنیں کیکر سے لپٹ کر لارہی ہوں۔ حکومت نے ہزاروں ایکڑ اراضی خالی کرا لی تھی اور فیکٹریاں بہت دور مشرقی سمت تعمیر کی گئی تھیں۔ وہ سوچتا رہا اور چلتا رہا۔ اگر یہاں کچھ بھی تعمیر نہیں ہونا تھا تو مخلوق خدا کو کیوں اجڑنے کے عذاب میں مبتلا کیا گیا۔

    وہ اپنے ماضی کی تلاش میں اس اجڑے کھنڈر میں شاید کبھی نہ آتا لیکن جس روز خانقاہ سراجیہ، اس سے ملحقہ نئی آبادی، چاہ مرزے والا، سیفن پل، مافی والا، لال والا، سعید آباد، مدنی کے ڈیرے اور گردونواح میں پھیلے مکینوں میں یہ خبر گردش کرنے لگی کہ فیکٹریوں کے زہریلے اثرات کے پیش نظر ایک بار پھر قریب آباد ہو جانے والی بستیوں کو وہاں سے اٹھا لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ ہولناک خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تھی اور بشارت احمد اندرسے ٹوٹ پھوٹ گیا تھا۔ کیا ایک بار پھر وہی عذاب ہوگا۔ فیصلہ بدل دینا کس کے بس میں تھا؟ جیسے بھنوں مراثی کو اوپر والوں کی طاقت کا اندازہ نہیں تھا بالکل ویسے ہی ہرشخص بےبس اور مجبور تھا۔ اپنی سوچوں میں غلطاں وپیچاں بشارت احمد ’’ڈیرہ فقیروالا‘‘ سے جب راہوں کی دھول پھانکتا اپنی گلی میں داخل ہوا تو اس کے پاؤں من بھرکے ہو گئے۔ جیسے کشش ثقل بڑھ گئی ہو۔ قدم اٹھانا اسے دوبھر ہو گیا۔ اس نے اجڑے مکانوں کی بنیادوں کو غورسے دیکھا۔ مکانات کی جگہ جنگلی کیکر اگ آئے تھے۔ زرعی زمین جو حکومت نے ٹھیکے پردے رکھی تھی، اس لیے جب وہ ٹیوب ویل پر پہنچا تو ڈنگ انگڑائی لے کر اس کے اندر زندہ ہو گیا۔ ٹیوب ویل چل رہا تھا۔ لمبے قد اور خشخشی داڑھی والا ایک بلوچ جس نے زمین ٹھیکے پرلے رکھی تھی، کھیتوں کو پانی دے رہا تھا۔

    بشارت احمد کا دل بھر آیا۔

    اس نے ٹیوب ویل سے ٹھنڈا میٹھا پانی پیا اور گھر کی طرف قدم بڑھائے۔ کانٹوں سے دامن بچاتے ہوئے وہ اپنے گھر کے صحن میں چوتھائی صدی بعد داخل ہوا۔ وقت تھم گیا۔ پرندوں نے پرواز روک لی۔ اسے اپنا آپ سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ جانوروں کی چرنیاں جوں کی توں موجود تھیں۔ بس ان کا سیمنٹ اکھڑ گیا تھا اور اینٹیں کلرزدہ ہو گئی تھیں۔ چھپر کی بنیادوں کو اس نے غورسے دیکھا۔ تانبے کے ایک گلاس پر اس کی نظر پڑی، بالکل اچانک وہ چونکا، رویا اور گلاس اٹھا لیا۔ اپنے والد ملک فتح شیر کو یاد کیا، چھلکا اور چھلکا، یہ وہی گلاس تھا جس میں اس کا بابا لسی پیا کرتا تھا، شاید ماں سامان میں اسے ساتھ رکھنا بھول گئی۔ اس کا بابا اسے لڑکپن میں ہی حالات کے بےرحم دھاروں پر چھوڑ گیا تھا۔ اس نے گلاس سنبھال لیا۔ اسے بہت بڑی سوغات ہاتھ آ گئی تھی۔ گلاس اس کے ہاتھ میں تھا کہ اسے ماموں ملک محمد افضل کے گھر کی کھڑکیوں کے رنگین شیشے یاد آ گئے۔ لال، زرد، نیلے اورسبز رنگ کے شیشے، یادیں رنگین ہونے لگیں۔ اس کا ماموں بڑا نفیس الطبع شخص تھا۔ ململ کا سفید کرتا ان پربہت سجتا تھا۔ دوران گفتگو اس کے ماموں انگوٹھے اور انگشت شہادت کی چٹکی سے کرتے کو کبھی کندھے اور سینے کے سامنے سے اٹھاتے، یہ ان کی خاص ادا تھی۔ رنگین شیشے کہاں گئے؟ اس کے ماموں کی طرح ماضی کو سدھار گئے۔

    اس نے کیکر کے تنے پر ہاتھ رکھا تو رسے جھول کر پینگ ہو گئے۔ اس کا جی چاہا وہ جھولا جھولے۔ بابا سے عیدی لے۔ گاؤں کی ہٹی سے ریوڑیاں اور ٹانگریاں خریدے۔ ڈِنگ کی گلیوں میں کھیلتے رنگ برنگے کپڑے پہنے بچوں کے ساتھ عید منائے، پٹھوگرم کھیلے، والی بال کا میچ دیکھے، چپلی کے انعقاد کا اعلان ہو اور وہ دریائے سندھ کے کنارے کا رخ کرے۔

    وہ کیکرکے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا تھا۔ ایک بار پھر اجڑنے کا خوف اس کی رگوں میں اودھم مچا رہا تھا۔ کسی لمحے کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ وہ وہیں بس جانا چاہتا تھا۔ انہی کھنڈرات میں، کیکروں کی چھاؤں میں اپنی جھونپڑی بسا لینا چاہتا تھا۔

    وہ ایک پل کو سمیٹتا لوٹ رہا تھا تو ایک دوسرا پل اس کے سامنے پھیل رہا تھا۔ کاندھے جھکے ہوئے تھے۔ کہولت نے اسے ایک آن میں آ لیاتھا۔ گھر پہنچا تو شام ڈھل چکی تھی۔ ہر کہیں ملگجے اندھیرے میں سیاہی حلول کر گئی تھی۔ بستر پر دراز ہوکر اس نے آنکھیں موند لیں۔ یوں جیسے پھیلتا لمحہ اس طرح معدوم ہو جائےگا۔ مگر صدیوں کی تھکاوٹ اس کے بدن میں اترتی چلی گئی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے