Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

لتیکا رانی

سعادت حسن منٹو

لتیکا رانی

سعادت حسن منٹو

MORE BYسعادت حسن منٹو

    کہانی کی کہانی

    ایک معمولی خدوخال کی لڑکی کے سلور سکرین پر ابھرنے اور پھر ڈوب جانے کے المیے پر مبنی کہانی ہے۔ لتیکا رانی معمولی سی شکل صورت کی لڑکی تھی۔ اسے ایک مدراسی مرد سے محبت تھی۔ لندن قیام کے دوران اس کی زندگی میں ایک بنگالی بابو داخل ہوتا ہے ۔ بنگالی بابو نے لتیکا رانی کو کچھ اس طرح بدلا کی وہ دیکھتے ہی دیکھتے ہندوستانی سنیما کی مقبول ترین ہیروئن بن گئی۔ پھر اچانک ہی اس کی زندگی میں کچھ ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ اس کا سب کچھ بدل گیا۔

    وہ خوبصورت نہیں تھی۔ کوئی ایسی چیز اس کی شکل و صورت میں نہیں تھی جسے پرکشش کہا جاسکے، لیکن اس کے باوجود جب وہ پہلی بار فلم کے پردے پر آئی تو اس نے لوگوں کے دل موہ لیے اور یہ لوگ جو اسے فلم کے پردے پر ننھی منی اداؤں کے ساتھ بڑے نرم و نازک رومانوں میں چھوٹی سی تتلی کے مانند ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر تھرکتے دیکھتے تھے، سمجھتے تھے کہ وہ خوبصورت ہے۔ اس کے چہرے مہرے اور اس کے ناز نخرے میں ان کو ایسی کشش نظر آتی تھی کہ وہ گھنٹوں اس کی روشنی میں مبہوت مکھیوں کی طرح بھنبھناتے رہتے تھے۔

    اگر کسی سے پوچھا جاتا کہ تمہیں لتیکا رانی کے حسن و جمال میں کون سی سب سے بڑی خصوصیت نظر آتی ہے جو اسے دوسری ایکٹرسوں سے جدا گانہ حیثیت بخشتی ہے تو وہ بلا تامل یہ کہتا کہ اس کا بھولپن۔ اور یہ واقعہ ہے کہ پردے پر وہ انتہا درجے کی بھولی دکھائی دیتی تھی۔ اس کو دیکھ کر اس کے سوا کوئی اور خیال دماغ میں آ ہی نہیں سکتا تھا کہ وہ بھولی ہے، بہت ہی بھولی۔ اور جن رومانوں کے پس منظر کے ساتھ وہ پیش ہوتی، ان کے تانے بانے یوں معلوم ہوتا تھا، کسی جولاہے کی الھڑ لڑکی نے تیار کیے ہیں۔

    وہ جب بھی پردے پر پیش ہوئی، ایک معمولی ان پڑھ آدمی کی بیٹی کے روپ میں چمکیلی دنیا سے دور۔ ایک شکستہ جھونپڑا ہی جس کی ساری دنیا تھی۔ کسی کسان کی بیٹی، کسی مزدور کی بیٹی، کسی کانٹا بدلنے والے کی بیٹی اور وہ ان کرداروں کے خول میں یوں سما جاتی تھی جیسے گلاس میں پانی۔

    لتیکا رانی کا نام آتے ہی آنکھوں کے سامنے، ٹخنوں سے بہت اونچھا گھگھراا پہنے، کھینچ کر اوپر کی ہوئی ننھی منی چوٹی والی، مختصر قد کی ایک چھوٹی سی لڑکی آجاتی تھی جو مٹی کے چھوٹے چھوٹے گھروندے بنانے یا بکری کے معصوم بچے کے ساتھ کھیلنے میں مصروف ہے۔ ننگے پاؤں، ننگے سر، پھنسی پھنسی چولی میں بڑے شاعرانہ انکسار کے ساتھ سینے کا چھوٹا سا ابھار، معتدل آنکھیں، شریف سی ناک، اس کے سراپا میں یوں سمجھیے کہ دوشیزدگی کا خلاصہ ہوگیا تھا جو ہر دیکھنے والے کی سمجھ میں آجاتا تھا۔

    پہلے فلم میں آتے ہی وہ مشہور ہوگئی اور اس کی یہ شہرت اب تک قائم ہے حالانکہ اسے فلمی دنیا چھوڑے ایک مدت ہو چکی ہے۔ اپنی فلمی زندگی کے دوران میں اس نے شہرت کے ساتھ دولت بھی پیدا کی۔ اس نپے تلے انداز میں گویا اس کو اپنی جیب میں آنے والی ہر پائی کی آمد کا علم تھا اور شہرت کے تمام زینے بھی اس نے اسی انداز میں طے کیے کہ ہر آنے و الے زینے کی طرف اس کا قدم بڑے وثوق سے اٹھا ہوتا تھا۔

    لتیکا رانی بہت بڑی ایکٹرس اور عجیب و غریب عورت تھی۔ اکیس برس کی عمر میں جب وہ فرانس میں تعلیم حاصل کررہی تھی تو اس نے فرانسیسی زبان کی بجائے ہندوستانی زبان سیکھنا شروع کردی۔ اسکول میں ایک مدراسی نوجوان کو اس سے محبت ہوگئی تھی، اس سے شادی کرنے کا وہ پورا پورا فیصلہ کر چکی تھی لیکن جب لنڈن گئی تو اس کی ملاقات ایک ادھیڑ عمر کے بنگالی سے ہوئی جو وہاں بیرسٹری پاس کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ لتیکا نے اپنا ارادہ بدل دیا اور دل میں طے کرلیا کہ وہ اس سے شادی کرے گی اور یہ فیصلہ اس نے بہت سوچ بچار کے بعد کیا تھا۔

    اس نے بیرسٹری پاس کرنے والے ادھیڑ عمر کے بنگالی میں وہ آدمی دیکھا جو اس کے خوابوں کی تکمیل میں حصہ لے سکتا تھا۔ وہ مدراسی جس سے اس کو محبت تھی، جرمنی میں پھیپھڑوں کے امراض کی تشخیص و علاج میں مہارت حاصل کررہا تھا۔ اس سے شادی کرکے زیادہ سے زیادہ اسے اپنے پھیپھڑوں کی اچھی دیکھ بھال کی ضمانت مل سکتی تھی، جو اسے درکار نہیں تھی۔ لیکن پرفلا رائے ایک خواب ساز تھا۔ ایسا خواب ساز جو بڑے دیرپا خواب بن سکتا تھا اور لتیکا اس کے اردگرد اپنی نسوانیت کے بڑے مضبوط جالے تن سکتی تھی۔

    پرفلا رائے ایک متوسط گھرانے کا فرد تھا۔ بہت محنتی، وہ چاہتا تو قانون کی بڑی سے بڑی ڈگری تمام طالب علموں سے ممتاز رہ کر حاصل کرسکتا تھا مگر اسے اس علم سے سخت نفرت تھی۔ صرف اپنے ماں باپ کو خوش رکھنے کی غرض سے وہ ڈنرز میں حاضری دیتا تھا اور تھوڑی دیر کتابوں کا مطالعہ بھی کرلیتا تھا۔ ورنہ اس کا دل و دماغ کسی اور ہی طرف لگا رہتا تھا۔ کس طرف؟ یہ اس کو معلوم نہیں تھا۔ دن رات وہ کھویا کھویا سا رہتا۔ اس کو ہجوم سے سخت نفرت تھی، پارٹیوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس کا سارا وقت قریب قریب تنہائی میں گزرتا۔ کسی چائے خانے میں یا اپنی بوڑھی لینڈ لیڈی کے پاس بیٹھا وہ گھنٹوں ایسے قلعے بناتا رہتا جن کی بنیادیں ہوتی تھیں نہ فصیلیں۔ مگر اس کو یقین تھا کہ ایک نہ ایک دن اس سے کوئی نہ کوئی عمارت ضرور بن جائے گی جس کو دیکھ کر وہ خوش ہوا کرے گا۔

    لتیکا جب پرفلارائے سے ملی تو چند ملاقاتوں ہی میں اس کو معلوم ہوگیا کہ یہ بیرسٹری کرنے والابنگالی معمولی آدمی نہیں۔ دوسرے مرد اس سے دلچسپی لیتے رہے تھے، اس لیے کہ وہ جوان تھی، ان میں سے اکثر نے اس کے حسن کی تعریف کی تھی، لیکن مدت ہوئی وہ اس کا فیصلہ اپنے خلاف کر چکی تھی۔ اس کو معلوم تھا کہ ان کی تعریف محض رسمی ہے۔ مدراسی ڈاکٹر جو اس سے واقعی محبت کرتا تھا اس کو صحیح معنوں میں خوبصورت سمجھتا تھا مگر لتیکا سمجھتی تھی کہ وہ اس کی نہیں اس کے پھیپھڑوں کی تعریف کررہا ہے جو اس کے کہنے کے مطابق بے داغ تھے۔ وہ ایک معمولی شکل و صورت کی لڑکی تھی۔ بہت ہی معمولی شکل و صورت کی۔ جس میں جاذبیت تھی نہ کشش، اس نے کئی دفعہ محسوس کیا کہ وہ ادھوری سی ہے۔ اس میں بہت سی کمیاں ہیں جو پوری تو ہوسکتی ہیں مگر بڑی چھان بین کے بعد اور وہ بھی اس وقت جب اس کو خارجی امداد حاصل ہو۔

    پرفلا رائے سے ملنے کے بعد لتیکا نے محسوس کیا تھا کہ وہ جو بظاہر سگرٹ پر سگرٹ پھونکتا رہتا ہے اور جس کا دماغ ایسا لگتا ہے، ہمیشہ غائب رہتا ہے اصل میں سگرٹوں کے پریشان دھوئیں میں اپنے دماغ کی غیر حاضری کے باوجود اس کی شکل و صورت کے تمام اجزا بکھیر کر ان کو اپنے طور پر سنوارنے میں مشغول ر ہتا ہے۔ وہ اس کے اندازِ تکلم، اس کے ہونٹوں کی جنبش اور اس کی آنکھوں کی حرکت کو صرف اپنی نہیں دوسروں کی آنکھوں سے بھی دیکھتا ہے، پھر ان کو الٹ پلٹ کرتا ہے اور اپنے تصور میں تکلم کا نیا انداز، ہونٹوں کی نئی جنبش اور آنکھوں کی نئی حرکت پیدا کرتا ہے۔ ایک خفیف سی تبدیلی پر وہ بڑے اہم نتائج کی بنیادیں کھڑی کرتا ہے اور دل ہی دل میں خوش ہوتا ہے۔

    لتیکا ذہین تھی، اس کو فوراً ہی معلوم ہوگیا تھا کہ پرفلارائے ایسا معمار ہے جو اسے عمارت کا نقشہ بنا کر نہیں دکھائے گا۔ وہ اس سے یہ بھی نہیں کہے گا کہ کون سی اینٹ اکھیڑ کر کہاں لگائی جائے گی تو عمارت کا سقم دور ہوگا۔ چنانچہ اس نے اس کے خیالات و افکار ہی سے سب ہدایتیں وصول کرنا شروع کردی تھیں۔

    پرفلا رائے نے بھی فوراً ہی محسوس کرلیا کہ لتیکا اس کے خیالات کا مطالعہ کرتی ہے اور ان پر عمل کرتی ہے۔ وہ بہت خوش ہوا۔ چنانچہ اس خاموش درس و تدریس کا سلسلہ دیر تک جاری رہا۔

    پرفلارائے اور لتیکا دونوں مطمئن تھے، اس لیے کہ وہ دونوں لازم و ملزوم سے ہوگئے تھے۔ ایک کے بغیر دوسرا نامکمل تھا۔ لتیکا کو خاص طور پر اپنی ذہنی و جسمانی کروٹ میں پرفلا کی کی خاموش تنقید کا سہارا لینا پڑتا تھا۔ وہ اس کے ناز و ادا کی کسوٹی تھا، اس کی بظاہر خلا میں دیکھنے والی نگاہوں سے اس کو پتہ چل جاتا کہ اس کی پلک کی کونسی نوک ٹیڑھی ہے۔ لیکن وہ اب یہ حقیقت معلوم کر چکی تھی کہ وہ حرارت جو اس کی خلا میں دیکھنے والی آنکھوں میں ہے، اس کی آغوش میں نہیں تھی۔ لتیکا کے لیے یہ بالکل ایسی تھی جیسی کھری چارپائی۔ لیکن وہ مطمئن تھی، اس لیے کہ اس کے خوابوں کے بال وپر نکالنے کے لیے پرفلا کی آنکھوں کی حرارت ہی کافی تھی۔

    وہ بڑی سیاق دان اور اندازہ گیر عورت تھی۔ اس نے دو مہینے کے عرصے ہی میں حساب لگا لیا تھا کہ ایک برس کے اندر اندر اس کے خوابوں کے تکمیل کی ابتدا ہو جائے گی۔ کیونکر ہوگی اور کس فضا میں ہوگی، یہ سوچنا پرفلارائے کا کام تھا اور لتیکا کو یقین تھا کہ اس کا سدا متحرک دماغ کوئی نہ کوئی راہ پیدا کرے گا۔ چنانچہ دونوں جب ہندوستان جانے کے ارادے سے برلن کی سیر کو گئے اور پرفلا کا ایک دوست انھیں اوفافلم اسٹوڈیوز میں لے گیا تو لتیکا نے پرفلا کی خلا میں دیکھنے والی آنکھوں کی گہرائیوں میں اپنے مستقبل کی صاف جھلک دیکھ لی۔ وہ ایک مشہور جرمن ایکٹرس سے محوِ گفتگو تھا مگر لتیکا محسوس کررہی تھی کہ وہ اس کے سراپا کو کینوس کا ٹکڑا بنا کر ایکٹرس لتیکا کے نقش و نگار بنا رہاہے۔

    بمبئی پہنچے تو تاج محل ہوٹل میں پرفلا رائے کی ملاقات ایک انگریز نائٹ سے ہوئی جو قریب قریب قلاش تھا۔ مگر اس کی واقفیت کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ عمر ساٹھ سے کچھ اوپر،زبان میں لکنت، عادات و اطوار بڑی شستہ، پرفلا رائے اس کے متعلق کوئی رائے قائم نہ کرسکا۔ مگر لتیکا رانی کی اندازہ گیر طبیعت نے فوراً بھانپ لیا کہ اس سے بڑے مفید کام لیے جاسکتے ہیں، چنانچہ وہ نرس کی سی توجہ اور خلوص کے ساتھ اس سے ملنے جلنے لگی اور جیسا کہ لتیکا کو معلوم تھا، ایک دن ڈنر پر ایک طرخ خود بخود طے ہوگیا کہ اس فلم کمپنی میں جو پرفلا رائے قائم کرے گا،وہ دو مہمان جوسر ہاورڈپسیکل نے مدعو کیے تھے، ڈائرکٹر ہوں گے اور چند دن کے اندر اندر وہ تمام مراحل طے ہوگئے جو ایک لمیٹڈ کمپنی کی بنیادیں کھڑی کرنے میں درپیش آتے ہیں۔

    سرہاورڈ بہت کام کا آدمی ثابت ہوا۔ یہ پرفلا کا رد عمل تھا، لیکن لتیکا شروع ہی سے جانتی تھی کہ وہ ایسا آدمی ہے جس کی افادیت بہت جلد پردہ ظہور پر آجائے گی۔ وہ جب اس کی خدمت گزاری میں کچھ وقت صرف کرتی تھی تو پرفلا حسد محسوس کرتا تھا، مگر لتیکا نے کبھی اس طرف توجہ ہی نہیں دی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی قربت سے بڈھا سرہاورڈ ایک گونہ جنسی تسکین حاصل کرتا تھا، مگر وہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتی تھی۔

    یوں تو وہ دو مالدار مہمان بھی اصل میں اسی کی وجہ سے اپنا سرمایہ لگانے کے لیے تیار ہوئے تھے اور لتیکا کو اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں تھا۔ اس کے نزدیک یہ لوگ صرف اسی وقت تک اہم تھے جب تک ان کا سرمایہ ان کی تجوریوں میں تھا، وہ ان دونوں کا تصور بڑی آسانی سے کرسکتی تھی جب یہ مارواڑی سیٹھ اسٹوڈیوز میں اس کی ہلکی سی جھلک دیکھنے کے لیے بھی ترسا کریں گے لیکن یہ دن قریب لانے کے لیے اس کو کوئی عجلت نہیں تھی، ہر چیز اس کے حساب کے مطابق اپنے وقت پر ٹھیک ہورہی تھی۔

    لمیٹڈ کمپنی کا قیام عمل میں آگیا۔ اس کے سارے حصے بھی فروخت ہوگئے۔ سرہاورڈ پیسکل کے وسیع تعلقات اور اثر و رسوخ کی وجہ سے ایک پر فضا مقام پر اسٹوڈیو کے لیے زمین کا ٹکڑا بھی مل گیا۔ ادھر سے فراغت ہوئی تو ڈائرکٹروں نے پرفلا رائے سے درخواست کی کہ وہ انگلینڈ جا کر ضروری سازوسامان خرید لائے۔

    انگلینڈ جانے سے ایک روز پہلے پرفلا نے ٹھیٹ یورپی انداز میں لتیکا سے شادی کی درخواست کی جو اس نے فوراً منظور کرلی۔ چنانچہ اسی دن ان دنوں کی شادی ہوگئی۔دونوں انگلینڈ گئے۔ ہنی مون میں دونوں کے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی۔ ایک دوسرے کے جسم کے متعلق جو انکشافات ہونے تھے وہ عرصہ ہوا ان پر ہو چکے تھے، ان کو اب دھن صرف اس بات کی تھی کہ وہ کمپنی جو انھوں نے قائم کی ہے اس کے لیے مشینری خریدیں اور واپس بمبئی میں جا کر کام پر لگ جائیں۔

    لتیکا نے کبھی اس کے متعلق نہ سوچا تھا کہ پرفلا جو فلم سازی سے قطعاً ناواقف ہے،اسٹوڈیو کیسے چلائے گا۔ اس کو اس کی ذہانت کا علم تھا۔ جس طرح اس نے خاموشی ہی خاموشی میں صرف اپنی خلا میں دیکھنے والی آنکھوں سے اس کی نوک پلک درست کردی تھی، اسی طرح اس کو یقین تھا کہ وہ فلم سازی میں بھی کامیاب ہوگا۔ وہ اس کو جب اپنے پہلے فلم میں ہیروئن بنا کر پیش کرے گا تو ہندوستان میں ایک قیامت برپا ہو جائے گی۔

    پرفلا رائے فلم سازی کی تکنیک سے قطعاً ناآشنا تھا۔ جرمنی میں صرف چند دن اس نے اوفا اسٹوڈیوز میں اس صنعت کا سرسری مطالعہ کیا تھا، لیکن جب وہ انگلینڈ سے اپنے ساتھ ایک کیمرہ مین اور ایک ڈائریکٹر لے کر آیا اور انڈیا ٹاکیز لمیٹڈ کا پہلا فلم سیٹ پر گیا تو اسٹوڈیوز کے سارے عملے پر اس کی ذہانت اور قابلیت کی دھاک بیٹھ گئی۔ بہت کم گفتگو کرتا تھا۔ صبح سویرے اسٹوڈیو آتا تھا اور سارا دن اپنے دفتر میں فلم کے مناظر اور مکالمے تیار کرانے میں مصروف رہتا تھا۔ شوٹنگ کا ایک پروگرام مرتب تھا جس کے مطابق کام ہوتا تھا، ہر شعبے کا ایک نگراں مقرر تھا جو پرفلا کی ہدایت کے مطابق چلتا تھا۔ اسٹوڈیو میں ہر قسم کی آوارگی ممنوع تھی۔ بہت صاف ستھرا ماحول تھا جس میں ہر کام بڑے قرینے سے ہوتا تھا۔

    پہلا فلم تیار ہو کر مارکیٹ میں آگیا۔ پرفلا رائے کی خلا میں دیکھنے والی آنکھوں نے جو کچھ دیکھنا چاہا تھا وہی پردے پر پیش ہوا۔ وہ زمانہ بھڑکیلے پن کا تھا۔ ہیروئن وہی سمجھی جاتی تھی جو زرق برق کپڑوں میں ملبوس ہو۔ اونچی سوسائٹی سے متعلق ہو۔ ایسے رومانوں میں مبتلا ہو،حقیقت سے جنھیں دور کا بھی واسطہ نہیں، ایسی زبان بولے جو اسٹیج کے ڈراموں میں بولی جاتی ہے۔ لیکن پرفلا رائے کے پہلے فلم میں سب کچھ اس کارد تھا۔ فلم بینوں کے لیے یہ تبدیلی، یہ اچانک انقلاب بڑا خوشگوار تھا، چنانچہ یہ ہندوستان میں ہر جگہ کامیاب ہوا اور لتیکا رانی نے عوام کے دل میں فوراً ہی اپنا مقام پیدا کرلیا۔

    پرفلا رائے اس کامیابی پر بہت مطمئن تھا۔وہ جب لتیکا کے معصوم حسن اور اس کی بھولی بھالی اداکاری کے متعلق اخباروں میں پڑھتا تھا تو اس کو اس خیال سے کہ وہ ان کا خالق ہے، بہت راحت پہنچتی تھی۔ لیکن لتیکا پر اس کامیابی نے کوئی نمایاں اکثر نہیں کیا تھا۔ اس کی اندازہ گیر طبیعت کے لیے یہ کوئی غیر متوقع چیز نہیں تھی۔ وہ کامیابیاں جو مستقبل کی کوکھ میں چھپی ہوئی تھیں، کھلی ہوئی کتاب کے اوراق کی مانند اس کے سامنے تھیں۔

    پہلے فلم کی نمائش عظمیٰ پر وہ کیسے کپڑے پہن کر سینما ہال میں جائے گی، اپنے خاوند پرفلا رائے سے دوسروں کے سامنے کس قسم کی گفتگو کرے گی، جب اسے ہار پہنائے جائیں گے تو وہ انھیں اتار کر خوش کرنے کے لیے کس کے گلے میں ڈالے گی، اس کے ہونٹوں کا کون سا کونہ کس وقت پر کس انداز میں مسکرائے گا، یہ سب اس نے ایک مہینہ پہلے سوچ لیا تھا۔

    اسٹوڈیو میں لتیکا کی ہر حرکت، ہر ادا ایک خاص پلان کے ماتحت عمل میں آتی تھی۔ اس کا مکان پاس ہی تھا۔ سرہاورڈ پیسکل کو پرفلا رائے نے اسٹوڈیو کے بالائی حصے میں جگہ دے رکھی تھی۔ لتیکا صبح سویرے آتی اور کچھ وقت سرہاروڈ کے ساتھ گزارتی، جس کو باغبانی کا شوق تھا۔ نصف گھنٹے تک وہ اس بڈھے الکن نائٹ کے ساتھ پھولوں کے متعلق گفتگو کرتی رہتی۔ اس کے بعد گھر چلی جاتی اور اپنے خاوند سے اس کی ضروریات کے مطابق تھوڑا سا پیار کرتی۔ وہ اسٹوڈیو چلا جاتا اور لتیکا اپنے سادہ میک اپ میں جس کا ایک ایک خط، ایک ایک نقطہ پرفلا کا بنایا ہوا تھا، مصروف ہوجاتی۔

    دوسرا فلم تیار ہوا، پھر تیسرا، اسی طرح پانچواں، یہ سب کامیاب ہوئے ،اتنے کامیاب کہ دوسرے فلم سازوں کو انڈیا ٹاکیز لمیٹڈ کے قائم کردہ خطوط پر بدرجہ مجبوری چلنا پڑا۔ اس نقل میں وہ کامیاب ہوئے یا ناکام، اس کے متعلق ہمیں کوئی سروکار نہیں۔۔۔ لتیکا کی شہرت ہر نئے فلم کے ساتھ آگے ہی آگے بڑھتی گئی۔ ہر جگہ انڈیا ٹاکیز لمیٹڈ کا شہرہ تھا مگر پرفلا