میرے راکھے ایکو آپ۔۔۔ مانَو کے کچھ ناہیں ہاتھ
پانچویں گروار جن جی کی یہ بانی بے بے جی نے اس کے کیس سلجھاتے ہوئے بہت بار دہرائی تھی۔۔۔ اور سنتے سنتے وہ بھی ایسا ہی سوچنے لگا تھا کہ سب کچھ بھگوان کی مرضی سے ہوتا ہے۔۔۔ جب بھی کوئی ایسی ویسی بات ہوجاتی تو وہ بڑی معصومیت سے اپنی گردن اونچی کرکے اوپر کو د یکھنے لگتا۔۔۔ کیوں کہ بھگوان اوپر رہتا ہے۔۔۔ اور پھر نیلے سمندر کی اتھاہ گہرائیوں میں جب کوئی کالی سی ٹکلی ڈولتی نظر آتی تو وہ سمجھ لیتا۔۔۔ ہو نہ ہو بھگوان کی مرضی یہی منی سی ٹکلی ہے۔۔۔ دور سے آتی ہوئی کہیں بھی چپک جائے گی۔۔۔ اور وہ ڈر جاتا۔۔۔ اس نے بہت بار رنبیر سے اس بات پر جھگڑا بھی کرلیا تھا۔ رنبیر کہتا، ’’چل۔۔۔ یہ تو چیل ہے چیل۔۔۔ بھگوان کی مرضی کہیں ایسی ہوتی ہے۔۔۔؟ بابا تو کہتا ہے۔۔۔‘‘ اور سکھبیر بابا کی بات ان سنی کرکے لٹو کی ڈوری کھینچ لیتا اور لٹو زمین پر گھومنے لگتا۔۔۔ لٹو کو گھومتے دیکھ کر رنبیر بھی۔۔۔ بابا کی بات بتائے بنا۔۔۔ جلدی جلدی اپنے لٹو پر ڈوری لپیٹنے لگتا۔
اور پھر دونوں ہی اپنے ہاتھوں کے بل بوتے پر ہار جیت کا فیصلہ کرنے لگتے۔۔۔ اکثر کھیلتے کھیلتے جھگڑپڑتے۔۔۔ ایک بار تو ایسے گتھم گتھا ہوئے کہ قمیص کے دو الگ الگ حصے کندھوں پر لٹک پڑے تھے۔۔۔ اور سکبھیر کے کیس کھل کر بکھر گئے تھے۔۔۔ رنبیر کے گالوں اور کانوں پر سرخ کھرونچے ابھر آئے تھے۔۔۔ دو نوں کی ماؤں نے ایک دوسرے کو برچھیوں جیسی تیز نظروں سے چھید ڈالا۔۔۔ لیکن کیا مجال جو منھ سے آواز نکل جاتی۔۔۔ ابھی بے بے جی زندہ تھیں۔۔۔ دونوں گھروں کی مالکن۔
کسی کو نہیں معلوم تھا کہ دو ننھے ننھے بچوں کی نازک سی نوجوان بیوہ ماں وقت کی آگ پر تپ کر کندن بن جائے گی۔۔۔ پر، ہوا ایسا ہی تھا۔۔۔ اور اسی کندن کو سارے گاؤں والے بے بے جی کے نام سے پکارتے تھے۔
جب پہلی بار ان کی گود بھری تو پرکھوں کی بنی ریت پر انہوں نے بچے کے کیس رکھائے تھے۔۔۔ اس خاندان میں یہی ہوتا آیا تھا کہ پہلا بیٹا۔۔۔ گروؤں کے نام پر پانچوں ککار دھارن کرتا۔۔۔ اور وہی خوشی خوشی بے بے جی نے بھی کیا تھا۔۔۔ اور چوں کہ سکھبیر بڑے کا بیٹا تھا۔ سو اس کے بھی کیس تھے۔ پَر، رنبیر اور سکھبیر میں فرق کوئی نہیں تھا۔۔۔ اکثر لوگوں کو شک ہوتا کہ دونوں جڑواں کے تو نہیں ہیں۔۔۔ اگر رنبیر کے کیس بڑھادیے جاتے یا سکھبیر کے کیس نہ ہوتے تو دونوں میں تل برابر فرق نہ رہتا۔۔۔ مزاج بھی دونوں کا یکساں تھا۔۔۔ اور پسندیں بھی ایک جیسی۔۔۔ دونوں سدا ہی ساتھ دیکھے جاتے تھے۔
دن بھر خاک دھول اُڑاکر رات میں جب زبردستی الگ ہونا پڑتا۔۔۔ تو دونو ں ہی اپنی اپنی کھیس میں منھ کرکے۔۔۔ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامتے اور پریوں کے دیس میں سیر کو نکل جاتے۔۔۔ اور دن نکلتے ہی دونوں پھر جڑجاتے۔۔۔ دونوں ساتھ ہی دیوی ماں کے درشن کو گئے تھے۔۔۔ اور گپھا کی مدھم روشنی میں جھل جھل کرتے موتی جیسے پانی کو ماتھے سے لگایا تھا۔۔۔ کہ پانی زندگی کی علامت ہے اور تمام کثافتوں کو دھودینے کا واحد ذریعہ بھی۔
سو امرتسر میں بھی دونوں نے سدا، امرت پان اکٹھا ہی کیا تھا۔۔۔ دونوں ایک ہی جوتھے۔
دونوں کے باپ تو خیرسگے بھائی تھے۔۔۔ پر ماؤں میں بھی کبھی ایسی کھٹاپٹی نہیں ہوئی کہ آواز باہر جاتی۔۔۔ البتہ بے بے جی نے دونوں کے گھر اپنی مرضی سے الگ کردیے تھے۔۔۔ ایک گھر میں گیتا کا پاٹھ ہوتا۔۔۔ تو دوسرے میں شبدگونجتے۔۔۔ لیکن نہ سکھبیر نے ان باتوں پر کان دھرے اور نہ رنبیر نے۔۔۔ دونوں کو پرساد سے مطلب تھا۔۔۔ سو دونوں۔۔۔ ننھی ننھی ہتھیلیاں ایک دوسرے پر رکھ کر پرساد لے لیتے۔۔۔ ماتھے سے چھواتے اور منھ میں رکھ کر نودوگیارہ ہوجاتے۔۔۔
آمنے سامنے بنے گھروں سے انہیں کوئی مطلب نہیں تھا لیکن دونوں کے بیچ کھڑی پرانی نیم کے نیچے کی ساری زمین ان کی اپنی ملکیت تھی۔ اور دونوں ہی اس کے سانجھی تھے۔۔۔ ایسے سانجھی جیسے روح اور جسم ہو۔۔۔ سمندر اور لہریں ہوں۔۔۔ برف اور ٹھنڈک ہو۔۔۔ ان کا وجود ایک دوسرے کے بغیر مکمل نہیں تھا۔۔۔ اسی لیے ایک دوسرے کے بغیر آدھا رہتا۔۔۔ بڑے مثال د یتے۔۔۔ جوان ہنستے۔۔۔ اور برابر والے اس جوڑی کو د یکھ کر جلتے۔
دھیرے دھیرے دونوں گبرو اونچے ہو رہے تھے۔۔۔ اور ان کی دوستی بھی اونچی ہوتی جارہی تھی۔۔۔ اس کی ابتدا تو اس وقت ہوئی تھی جب کپڑوں سے بے نیاز۔۔۔ ننھے ننھے ہاتھوں میں چمکیلے کڑے پہنے چوپایوں کی طرح رینگ کر دونوں ہی نیم تلے پہنچ جاتے تھے۔۔۔ اور پھر دونوں ہاتھوں سے مٹی اچھال اچھال کر کلکاریاں بھرتے۔۔۔ اور ننھی ننھی کنکریاں اور کڑوی کسیلی نمکولیاں منھ میں ڈال لیتے۔۔۔ مائیں دوڑآتیں۔۔۔ اور جلدی جلدی منھ میں انگلی ڈال کر بہتی ہوئی رال کے ساتھ نمکولیاں اور کنکریاں گھسیٹ لیتیں۔
پھر دونوں ہاتھ زمین سے اٹھ گئے تھے۔۔۔ کمر پر کچھے لٹکنے لگے تھے۔۔۔ اور۔۔۔ اور چھوٹے چھوٹے پاؤں آنگن سے باہر۔۔۔ اور۔۔۔ باہر سے نیم تلے دوڑنے لگے تھے۔۔۔ اور دونوں نیم کی جھکتی ڈالیں چھونے کو اونچے ہونے لگے تھے۔۔۔ رنبیر ذرا موٹا۔۔۔ اور سکھبیر ذرا دبلا پتلا تھا۔۔۔ پر، اونچائی میں دونوں نے شرط لگا رکھی تھی۔۔۔ دونوں اسکول بھی ساتھ جاتے تھے۔۔۔ لیکن پڑھنے سے زیادہ پہلوانی میں جی لگتا۔۔۔ آتی جوانی نے سب سے پہلے چوڑے چکلے سینوں کو چوما تھا۔۔۔ اور۔۔۔ بانہوں کی مچھلیاں اچھل پڑی تھیں۔۔۔ گاؤں کی کنواریاں کوٹھے کی منڈیروں اور دیواروں کی آڑ سے تاک جھانک کرتیں۔۔۔ اور۔۔۔ دونوں کا نام لے لے کر ایک دوسرے کو چھیڑتیں۔۔۔ تو ان کی کنپٹیاں دہک اٹھتیں۔۔۔ ایک دوسرے کو بکوٹے نوچ کر اپنی بے تابیوں کا اظہار کرتیں۔۔۔ اور۔۔۔ جب کبھی آتے جاتے آمنا سامنا ہوجاتا تو موم کی طرح پگھل جاتیں۔۔۔ ان کی ٹانگوں کا دم نکل جاتا۔۔۔ اور وہ سَن سَن کرنے لگتیں اور بلیوں اچھلتا دل حلق میں اٹک جاتا۔
پھر رنبیر کی موسی شہر سے آئی۔۔۔ اور۔۔۔ سب کچھ تتر بتر ہوگیا۔۔۔ وہ رنبیر کو اپنے ساتھ لے جارہی تھی۔۔۔ جوڑی ٹوٹنے کا غم بچھڑنے والوں کو جو ہوا سو ہوا۔۔۔ پر، گاؤں میں جیسے سناٹا چھا گیا۔۔۔ جوان دل دھڑک اٹھے تھے۔۔۔ اور چنیوں کے آنچل بھیگ گئے تھے۔۔۔ اور۔۔۔ اور۔۔۔ کھیتوں کی مینڈیں، گلیارے، جوہڑ سب نے اداسیوں کی دھول اوڑھ لی تھی۔
سکھبیر روپڑا تھا۔۔۔ رنبیر کو نہ چاہتے ہوئے بھی جانا پڑا تھا۔۔۔ اس نے سکھبیر کی طرف کھوکھلی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا تھا، ’’ارے یار! کیا تو لونڈیا ہے جو ٹسوے بہا رہا ہے۔۔۔ میں جلد ہی تجھے بھی کھینچ لوں گا۔‘‘ اور پھر اس نے اپنی بانہوں کی طرف اشارہ بھی کیا تھا۔۔۔ اسے یقین تھا کہ موسی کی فیکٹری میں لگتے ہی وہ اپنے آدھے کو جلدی سے بلالے گا۔ پڑوس کے ٹیلی ویژن پر دونوں نے بہت سی فلمیں ساتھ ساتھ دیکھیں تھیں۔۔۔ اور شہر کے بارے میں اچھی خاصی جانکاری ہوچکی تھی۔
موسی کا تانگہ تیار ہوچکا تھا۔۔۔ اس میں چھوٹی بڑی گٹھریوں کا انبار بھرا ہوا تھا۔۔۔ یہ چھوٹی بڑی گٹھریاں اور تھیلے اصل میں عزیزوں اور ملنے والوں کے تحفے تھے۔۔۔ یا یوں سمجھیے کہ مان و محبت کے سرٹیفکیٹ تھے۔۔۔ انسان بھی کیسا بے اعتبار ہے۔۔۔ وہ اپنے اوپر۔۔۔ اپنی محبت پر۔۔۔ اپنے خلوص پر خود اعتبار نہیں کرتا۔۔۔ اور جب اعتبار کمزور ہو تو ثبوت کے لیے سند تو چاہیے ہی۔۔۔ تو یہ سب چھوٹے بڑے ثبوت تھے۔۔۔ اور سب کو معلوم تھا کہ موسی کی شہر میں فیکٹری بھی ہے، تو کوئی پیچھے کیسے رہ جاتا۔۔۔
موسی کو بڑی مشکل سے بیچ میں فٹ کرکے جب رنبیر نے جھک کر سارے بڑوں کے پیر چھوئے تو دھرتی سر سر پیچھے کھسکتی لگی تھی۔۔۔ اور۔۔۔ اور۔۔۔ سکھبیر تو اسے صاف دکھائی بھی نہیں دیا تھا۔۔۔ اور سکھبیر بے یقینی کے دلدل میں دھنسا۔۔۔ ان ہونی ہوتے دیکھ رہا تھا۔۔۔ ر نبیر نے تانگہ کا ڈنڈا پکڑ کر جب دھرتی سے پاؤں اونچا کیا۔۔۔ تو ایک بار تانگہ بھی لرز سا گیا۔۔۔ گھوڑے کی تنی ہوئی گردن میں بھی کئی جھٹکے لگے اور بہت سے گھنگھرو ایک ساتھ بج اٹھے تھے۔۔۔ سکبھیر اور رنبیر کے ہاتھ ایک دوسرے کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھے۔۔۔ پھر ایک جھٹکے کے ساتھ تانگہ آگے بڑھ گیا اور دونوں طرف کے پھیلے ہاتھ ہوا میں معلق رہ گئے تھے۔
سکھبیر کا آدھا دور ہوتا جارہا تھا۔۔۔ اور اس کے خشک ہونٹوں پر پیاس کی جھاڑیاں اگ آئی تھیں۔۔۔ اور وہ جیسے زندگی کے لق و دق صحرا میں بالکل تنہا کھڑا تھا۔۔۔ یا پھر کسی ظالم نے آنکھوں پر پٹی با ندھ کر ایسی بھول بھلیاں میں چھوڑ دیا تھا، جہاں ہزاروں سوچوں کے سمندر جم کر پہاڑ بن جاتے ہیں۔۔۔ اور زمین سے تلووں کا رشتہ ٹوٹ جاتا ہے۔۔۔ آواز چیخوں کاساتھ چھوڑ دیتی ہے۔۔۔ اور آنسو سینہ کے اندر پلٹ جاتے ہیں۔۔۔ جہاں لاوا کھولنے لگتا ہے۔۔۔ اور د یکھنے والا صرف پھیلی پھیلی دو آنکھیں اور پتھر سا ترشا ہوا چہرہ دیکھ سکتا ہے۔۔۔ سو سکھبیر پر بھی لوگوں کو ترس آرہا تھا۔۔۔ بے چارہ!
سکھبیر جیسے چونک پڑا۔۔۔ اس نے جلدی سے اپنا ایک شانہ اچکایا۔۔۔ پھر دوسرا۔۔۔ جیسے وہ یقین کرلینا چاہتا ہو کہ اس کے دونوں بازو اس کے پاس ہیں۔۔۔ یا نہیں۔۔۔ اسے اپنے وجود پر بے یقینی کا احساس ہو رہا تھا۔۔۔ وہ آدھا کیسے بچا رہ گیا۔۔۔ اور اس کا آدھا کیسے اس سے چھن گیا تھا۔۔۔ اس نے تو سدا سے یہ ہی سنا تھا۔۔۔ دونوں ایک ہیں۔۔۔ یا پھر مل کر گیارہ بن جاتے ہیں۔ اس نے اپنے اور رنبیر کے بارے میں کبھی دو کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔ پھر بچھڑتے وقت وہ آدھا کیوں رہ گیا۔۔۔؟
ان دونوں کا ایک ہونا تو اتنا پکا تھا کہ گاؤں کی لڑکیاں بھی رنبیر اور سکھبیر کو اَدل بدل کرنے پر کبھی اعتراض نہ کرتیں۔۔۔ خوشی خوشی۔۔۔ ایک ایک گبروبانٹ لیتیں۔۔۔ اور۔۔۔ ہوائیں، ہنسی کی پھلجھڑیوں سے رنگین ہوجاتیں۔۔۔ یہ بات۔۔۔ یہ دونوں بھی جان گئے تھے، اسی لیے مسکراہٹیں بکھیرے۔۔۔ سینہ تانے۔۔۔ انجان بنے سامنے سے گزرجاتے۔
تانگہ اب بس اسٹاپ پر پہنچنے والا ہوگا۔۔۔ زمین میں کچھ موتی اور سماگئے۔۔۔ اور سناٹا چاروں طرف بکھر گیا تھا۔۔۔ گاؤں کی دھرتی بھی جیسے ایک کے بنا اداس ہوگئی تھی۔۔۔ اس کا ایک لال اُس طرف کو چل پڑا تھا جسے لوگ شہر کہتے ہیں۔۔۔ شہر کے گرجتے، ٹھاٹھیں مارتے انسانی سمندر میں اس کا وجود ایک ننھی سی کنکری یا معمولی سے تنکے کا سا تھا۔۔۔ اس کی کیا گنتی۔۔۔؟ وہاں تو چاروں طرف سے رینگتی ہوئی قطاروں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا۔۔۔ اور قطرہ قطرہ سمندر بوجھل ہو رہا تھا۔۔۔ یہ قطاریں انسانوں کی تھیں، جو سانس لیے بنا، اوپر کو منھ اٹھائے، ایک دوسرے سے بے نیاز، رینگتی چلی آرہی تھیں۔۔۔ کاش۔۔۔ اس عظیم انسان نے سوجھ بوجھ اور ایکتا کا سبق ننھی سی چیونٹی سے سیکھا ہوتا کہ ان کی قطاریں قدم قدم پر تجربوں کا سبق ایک دوسرے کے کانوں میں پھونکتی۔۔۔ آگے بڑھتی ہیں۔۔۔
رنبیر کا تانگہ کب کا بس اسٹاپ پر پہنچ چکا تھا۔۔۔ اور بس اپنے پیچھے سیاہی کی لائن چھوڑتی ہوئی آگے جاچکی تھی۔۔۔ لیکن سکھبیر اب تک نیم کی جڑ پر تنہا بیٹھا۔۔۔ ایک سوکھی سی ٹہنی سے زمین پر لمبی لمبی لکیریں بنا بنا کر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹتا جا رہا تھا۔۔۔ اور زمین پر لکیروں کا ایک جال سا اُبھر آیا تھا۔ گلیارے جانوروں کی واپسی کے بعد سنسان ہوگئے تھے۔۔۔ اور نیم کے نیچے سیاہی گہری ہوتی جارہی تھی۔۔۔ سیکڑوں چڑیاں آس پاس کے درختوں پر چیخ رہی تھیں۔۔۔ اور ان کی باریک سوئی جیسی آوازیں اس کے دماغ میں پیوست ہوتی جارہی تھیں۔
’’سکھبیرا۔۔۔!‘‘ آواز دور سے آتی لگی تھی۔۔۔ اس نے گردن اونچی کی۔۔۔ سا منے والے باغ کی کاہی کگر پر سورج کی تھالی سرخ ہوچکی تھی۔۔۔ اور بادل کے آوارہ ٹکڑے اس کے گرد منڈلا رہے تھے۔۔۔
’’سکھبیرا۔۔۔!‘‘ اسے آواز پھر سنائی دی۔۔۔ ماں دروازے پر کھڑی تھی۔۔۔ شاید سکھبیر کی بے چینی ماں کے احساس پر کانٹے اُگارہی تھی۔۔۔ وہ پہلے بھی کئی بار دہلیز پر آکر جھانک گئی تھی۔۔۔ پر، اب تو خاصا اندھیرا ہونے لگا تھا۔۔۔ سکھبیر کھڑا ہوگیا۔۔۔ سوکھی شاخ ایک طرف اچھال کر، رنبیر کے دروازے پر نظرڈالی۔۔۔ کوئی سایہ اندر کھسک گیا تھا۔۔۔ اس کے قدم رک سے گئے۔۔۔ اسے لگا رنبیر دوڑ کر باہر آجائے گا۔۔۔ دوسرے ہی لمحہ وہ جاگ پڑا تھا۔
’’دھات تیرے کی۔۔۔ وہ تو دور۔۔۔ بس میں اڑا چلا جارہا ہوگا۔۔۔‘‘ اسے جھٹکا سا لگا۔۔۔ وہ چلا کیسے گیا۔۔۔ اپنے آدھے کو لے کر۔۔۔ وہ بھی آدھا ہی رہ گیا ہوگا۔۔۔ سب ہی کہہ رہے تھے۔۔۔ اور سچ بھی یہی تھا۔۔۔ اس کی سوچوں میں پرانی مشین کی طرح جھٹکے آنے لگے تھے۔۔۔ سوچنے کی اِن دونوں کو ہی عادت نہیں تھی۔۔۔ کبھی کچھ سوچنے کو تھا ہی نہیں۔۔۔ جس کسی نے کچھ کہا، سن لیا۔۔۔ جو جی میں آیا کہہ دیا۔۔۔ پھر بھی اسے آج ایک انجانی سی۔۔۔ عجیب سی لذت کا احساس ہو رہا تھا۔۔۔ تنہائی کا نیاپن تھا۔۔۔ اور وہ پل پل ڈول رہا تھا۔۔۔
رات چارپائی پر جیسے ہی پڑا۔۔۔ مانو۔۔۔ آنکھوں سے جوالامکھی ابل پڑا ہو۔۔۔ پھر بہت دن تک ایسا ہی ہوتا رہا۔۔۔ دن بھر جگو جگو کر رکھتا۔۔۔ اور، رات میں قطرہ قطرہ لٹادیتا۔۔۔ پھر آہستہ آہستہ صبر کے پتھروں نے یادوں کے غار ڈھکنا شروع کردیے تھے۔۔۔ لیکن یہ غار کبھی پٹے ہیں۔۔۔؟ جب شائیں شائیں کرتا طوفان آتا۔۔۔ سارا جمع جتھا۔۔۔ تتربتر ہوجاتا۔۔۔
بات پرانی ہوچکی تھی۔۔۔ پھر بھی رنبیر کے جانے کے بعد سکھبیر کا داہنا کوئی نہ بن سکا تھا۔۔۔ وہ سارے کام کاج معمول کے مطابق کرتا۔۔۔ صبح اندھیرے میں وہ گھر سے نکلتا۔۔۔ رنبیر کے دروازے سے اس کی یاد اٹھاکر کندھے پر بٹھاتا اور سارے دن کھیتوں اور بازاروں کے چکر لگاتا۔۔۔ پھر رات کو چارپائی پر جاتے ہی شہر سے آئی تازہ چٹھی، مٹھیوں میں بھینچ بھینچ لیتا۔۔۔ جس میں رنبیر کی بے چینی سطر سطر چسپاں ہوتی۔۔۔ اگر بابا یوں نہ چل بستا تو سکھبیر بھی کب کا شہر پہنچ چکا ہوتا۔۔۔ اپنے آدھے کے پاس۔۔۔ رنبیر بھی یہی لکھتا کہ وہ شہر میں اب تک آدھا ہی ہے اور یہ بھی کہ شہر میں وہ اپنے کو پورا کر بھی نہیں پائے گا۔۔۔ وہاں دوست نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔۔۔ وہاں لوگ سانپ کی طرح کینچل بدلتے ہیں۔۔۔ اور یہ بھی کہ سانپ بیچارہ تو سال میں ایک بار کینچل بدل کر نیا بن جاتا ہے۔۔۔ پر، وہاں تو اس نے دن میں کئی کئی بار لوگوں کو کینچل بدلتے دیکھا تھا۔۔۔
اس نے بڑے افسوس سے لکھا تھا۔۔۔ یار۔۔۔ کوشش کے باوجود شہر میں اب تک کسی انسان سے نہیں مل سکا ہوں۔۔۔ اور یہ کہ آدمی کی شکل شہر میں عنقا ہے۔۔۔ سب طرح طرح کے مکھوٹے اپنے چہروں پر لگائے رہتے ہیں۔۔۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس پر بھی اکتفا نہیں کرتے، چند مزید مکھوٹے جیبوں میں بھی رکھتے ہیں۔۔۔ جو وقت ضرورت کام آتے ہیں۔۔۔ یہی مکھوٹے اوپر چڑھنے کی سیڑھیاں ہیں۔۔۔ اور وہاں آدمی ناپنے کے فیتے کا نام کرسی ہے۔۔۔ اس کی اونچائی سے آدمی اونچا۔۔۔ یا۔۔۔ نیچا مان لیا جاتا ہے۔۔۔ اور اس نے بہت سے بونوں کو اونچی کرسی پر سوار دیکھا تھا۔۔۔
رنبیر یہ سب کچھ تو بڑی تفصیل سے لکھتا لیکن اپنی واپسی کے بارے میں کبھی کوئی شارہ بھی نہ کرتا۔۔۔ اورسکھبیر کے صحرا جیسے ذہن میں شک کے کانٹے سر اٹھاتے۔۔۔ اس نے بھی ضرور کوئی مکھوٹا لگالیا ہوگا۔۔۔ تب ہی تو گاؤں آنے سے کتراتا ہے۔
وقت گزرتا رہا۔۔۔ لیکن جب کبھی یادوں کی برف پگھلتی۔۔۔ تو ماضی پر جمی خاک نہ جانے کہاں بہالے جاتی۔۔۔
پھر اس کے قدم خودبخود شہر کی طرف دوڑپڑے تھے۔۔۔ دونوں بالکل بچوں کی طرح بغل گیر ہوکر خوب ہنسے تھے۔۔۔ بہت اونچی آواز سے۔۔۔ اور لوگ ٹھہر کر دیکھنے لگے تھے۔۔۔ کہ یوں ملنا بدتہذیبی تھی۔۔۔ اس نے گاؤں کی اور رنبیر نے شہر کی بہت ساری باتیں بے صبری سے ایک دوسرے پر انڈیل دی تھیں۔۔۔ اور پھر رنبیر نے یقین دلایا تھا کہ وہ اب تک اپنے لیے کوئی بھی مکھوٹا نہیں خریدسکا۔ سستا ہونے کے باوجود وہ حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔۔۔ اور اس کے پاس وہی گاؤں والا پرانا چہرہ ہے۔۔۔ جس کی وجہ سے وہ بار بار نقصان اٹھاتا ہے۔۔۔
واپس آکر سکھبیر پھر آتے جاتے ڈاکیہ کو ست سری اکال کرنے لگا تھا۔۔۔ کبھی کبھار۔۔۔ ہوا کے دوش پر سوار کوئی چٹھی آجاتی۔۔۔ تو ماضی کے سمندر میں یادوں کی سیپیاں چمک اٹھتیں۔۔۔ پھر پل بھر میں ہی سب کی سب گہرائیوں کے دلدل میں منھ چھپالیتیں۔۔۔ اور وہ اپنے ادھورے پن کے سناٹوں میں پھر ڈولنے لگتا۔۔۔
اب تو ماں بھی روٹھی رہتی۔۔۔ ماں کو اس کا آدھاپن کھائے جارہا تھا۔۔۔ اور رنبیر کا خط پاکر اس نے ہاں کردی تھی۔۔۔ پھر آج ہی۔۔۔ ماں نے سرخ ستاروں کی والی چنّی خریدی تھی۔۔۔ ہاتھی دانت والے چوڑے کی فرمائش وہ رنبیر کو لکھا چکی تھی۔۔۔ اور بھی بہت کچھ۔۔۔ نہ جانے کیاکیا۔۔۔ اس نے اپنے سارے زیوروں کی گٹھری نکالی اور بیچ آنگن میں بازار لگاکر بیٹھ گئی۔۔۔ پھر اس کا چہرہ سرخ ہوگیا تھا۔۔۔ پتہ نہیں اسے اپنا دلھناپا یاد آیا تھا۔۔۔ یا۔۔۔ بہو کا چہرہ۔۔۔ جو اس نے پاس والے گاؤں میں پسند کر رکھا تھا۔
پر سکھبیر کی یادوں کی ڈوری۔۔۔ دور تک کھنچتی چلی گئی تھی۔۔۔ جس کے دوسرے سرے پر دھندلا دھندلا رنبیر ڈول رہاتھا۔۔۔ اس نے رنبیر کے آنے کے وعدے پر ہی حامی بھری تھی۔۔۔ وہ رنبیر کو بھی راضی کرلے گا۔۔۔ ہوسکتا ہے اس نے کوئی پسند بھی کرلی ہو۔۔۔ اور سنیما کے کئی سین اس کی نظروں میں گھوم گئے۔۔۔
رنبیر صبح آئے گا۔۔۔ وہ اندھیرے میں ہی بس اسٹاپ پہنچ جائے گا۔۔۔ کبھی بس پہلے ہی آگئی تو۔۔۔ اور وہ بے چین ہو اٹھا تھا۔۔۔ کیسے شام ہو۔۔۔ پھر رات آئے۔۔۔ اور پھر صبح ہوجائے۔۔۔ اس نے وقت کے پہیے کو تیزی سے گھمانا چاہا۔۔۔ لیکن وہ خود تنہا گھوم کر رہ گیا۔۔۔ وقت بڑی سنگ دلی سے اپنی رفتار پر ڈول رہا تھا۔۔۔ وہ رات کو سو بھی نہیں سکا تھا۔۔۔ ہرلمحہ گردن اٹھاکر کبھی گھڑی کی سوئیاں دیکھتا۔۔۔ اور کبھی کھڑکی سے باہر پھیلے ہوئے سرمئی، تاروں بھرے آسمان کو۔۔۔
وہ لمحے بھر کو سویا تھا کہ اسے کچھ شور سنائی دیا۔۔۔ جیسے جنم اشٹمی کی رات مندر کے دوراہو ں پر ڈھول تاشے بج رہے ہوں۔۔۔ اور سارے گاؤں کے ہندو مسلمان اور سردار اکٹھے ہوکر جشن منارہے ہوں۔۔۔ یا۔۔۔ یا۔۔۔ گروپَرو پر گاؤں کا پھیرا لگاتی ہوئی پربھات پھیری۔۔۔ باجے گاجے کے ساتھ واہِ گرو۔۔۔ واہِ گرو کانعرہ لگاتی ہوئی قریب ہوتی جارہی ہو۔۔۔
اس نے اپنی آنکھیں ملیں۔۔۔ شور کا انداز بھیانک سا لگا۔۔۔ اس کے ذہن میں ایک دھماکا ہوا۔۔۔ اور وہ ایک ہی چھلانگ میں دروازے سے باہر نیم کے نیچے پہنچ چکا تھا۔۔۔ ماں کی آواز نے پیچھا کیا۔۔۔ سکھبیرا۔۔۔ سکھبیرا رک جا۔۔۔ کچھ گڑبڑ لگتی ہے۔۔۔ اور۔۔۔ سکھبیرا آنکھیں پھاڑے گلیاروں میں بھاگتے خوفزدہ کتوں کو گھور رہا تھا۔۔۔ اور دور انسان بھونک رہے تھے۔۔۔ جانے پہچانے چہرے۔۔۔ انجانے بنے بھاگ رہے تھے۔۔۔ عورتیں اور بچے منھ چھپائے تھر تھر کانپ رہے تھے۔
مردوں نے اپنی آن رکھنے کی ٹھان لی تھی۔۔۔ کرپانیں۔۔۔ چھرے۔۔۔ برچھیاں۔۔۔ اور انسانیت کو زخمی کردینے والے سارے آلات بکسوں سے ابل کر باہر آچکے تھے۔۔۔ فضا میں انسانی خون کی ناگوار بو بس چکی تھی۔۔۔ اور ہر طرف ویرانیوں کے خیمے پھڑپھڑا رہے تھے۔۔۔ تعصب کے گدھ انسانوں کے جسم کے ملائم گوشت کو اپنی خونخوار نکیلی چونچوں سے نوچنے کی لذت محسوس کر رہے تھے۔۔۔ حملہ کس نے۔۔۔ کس پر کیا تھا۔۔۔ کسی کو نہیں معلوم تھا۔۔۔ کل تک تو۔۔۔ گرودوارہ۔۔۔ مندر۔۔۔ اور۔۔۔ مسجد۔۔۔ سب ہی عبادت گاہیں تھیں۔۔۔ سب کے لیے تبرک اور پاک۔۔۔ پھر آج کیا ہوگیاتھا۔۔۔ جو سڑک اور پگڈنڈیوں پر موت چنگھاڑ رہی تھی۔۔۔ اور۔۔۔ لپ لپ کرتی خون آلودہ زبان نکالے انسانوں کو گھور رہی تھی۔۔۔
سکھبیر بھی سڑک کی طرف بھاگا۔۔۔ کہ زیادہ لوگ اسی طرف کو بھاگ رہے تھے۔۔۔ اور پھر اس نے دیکھا۔۔۔ لٹی پھنکی ایک بس کھڑی تھی۔۔۔ لاشیں بکھری پڑی تھیں۔۔۔ کہیں کہیں آگ کے سرخ دیدے چمک رہے تھے۔۔۔ اور۔۔۔ کہیں خون سے بجھی آگ سلگ سلگ کر انسانیت کے اس روپ پر ماتم کر رہی تھی۔۔۔ سڑک کے کنارے گڑھوں میں۔۔۔ بے شناخت خون بھرا تھا۔۔۔ صرف خون۔۔۔
انجانا سا خوف سکھبیر کے مساموں سے گھس کر اس کے سارے جسم کے خون کو منجمد کرتا جارہاتھا۔۔۔ اَدھ جلے چمکیلے کپڑوں کے پاس ہی۔۔۔ ایک دوسراڈھیر۔۔۔ دھندلا دھندلا۔۔۔ غیر اہم سا۔۔۔ خون میں لت پت۔ سکھبیر کے پیر خود بخود رک گئے۔۔۔ ہلکی سی روشنی میں اس نے جھک کر دیکھا۔۔۔ دور۔۔۔ جاتے ہوئے تانگے کے جھٹکے نے۔۔۔ دو مضبوط پکڑے ہوئے ننھے ننھے ہاتھوں کو جدا کردیا تھا۔۔۔ محبتوں اور یادوں کے اس ڈھیر پر نفرت قہقہے لگا رہی تھی۔۔۔ اور درندگی اپنا سفاک جبڑا پھیلائے۔۔۔ انسانی خون چاٹ رہی تھی۔۔۔
رنبیر۔۔۔ اورنبیرا۔۔۔ وہ بہت آہستہ سے بڑبڑایا۔۔۔ اس کا وہ احساس مرچکا تھا۔۔۔ جس کے ذریعہ غم آنسوؤں کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔۔۔ وہ تو بس۔۔۔ بہت سی بکھری ہوئی۔۔۔ خون میں لت پت ڈھیروں میں خود بھی بکھر چکا تھا۔۔۔ چاروں طرف خون کی بو۔۔۔ دھواں بن کر انسانیت کے چہرے کو مسخ کر رہی تھی۔۔۔ وہ آہستہ آہستہ رنبیر کی لاش کے پاس بیٹھ گیا۔
’’رنبیرا۔۔۔ اورنبیرا۔۔۔ میرا ویر۔۔۔ تو تو میرا بیاہ کرانے آیا تھا۔۔۔ اتنے دنوں بعد گاؤں لوٹا تھا۔۔۔ پورا ہونے کو۔۔۔ لے۔۔۔ لے۔۔۔ اب یہ پگڑی تو باندھ لے۔۔۔ کہ سب جان لیں۔۔۔ تو میرا ہی بھائی ہے۔۔۔ میرا ویر۔۔۔ میرا خون۔۔۔‘‘ اور یہ کہتے ہوئے اس نے اپنی پگڑی اتار کر رنبیر کے سر پر رکھ د ی۔۔۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.