نیم غنودگی کی حالت میں ان کے کانوں میں اماں کے مناقب پڑھنے کی آواز آ رہی تھی۔
ساماں شتاب کر دے مرے دل کے چین کا
پروردگار واسطہ پیا رے حسین کا
فجر کی نماز کے بعد آنگن کے کونے میں بنے لال پتھر کے چبوترے پر بیٹھی اماں روز پر سوز آواز میں مناقب پڑھتی ہیں۔۔۔ تنویر زہرا گھبرا کر اٹھ بیٹھیں ارے! فجر کی نماز قضا ہو جائے گی اماں۔۔۔ کہاں ہیں۔۔۔ یہ کون سی جگہ ہے۔۔۔ سامنے کی کھڑکی سے برابر والے مکان کی چھت پر جمی ہوئی برف کی تہہ نظر آئی۔ نیچے لونگ روم سے صبح کی خبروں کی آواز آ رہی تھی۔ کچن میں بہو اور بچوں کے چلنے پھرنے کی آوازیں تھیں۔ وہ حسب عادت خود سے بولیں۔
‘’لے تنویر زہر ا ہوگئی ایک اور صبح‘‘ سرہانے رکھی Digital گھڑی پر نظر ڈالی صبح کے ساڑھے چھ بجے تھے۔ انھوں نے سوچا ‘’یہ گھڑی اور رات بھر بھوت بن کر ہولاتی رہتی ہے۔۔۔ ایک تو نیند ویسے ہی غائب اور پھر یہ گھڑی ہر ہر منٹ ہندسہ بدل کر باؤ لا بناتی ہے۔ رات بھر اس پرسے نظر ہی نہیں ہٹتی، ڈائن کی طرح آنکھیں چمکا چمکا کر کہتی رہتی ہے، سو گئیں تنویر زہرا؟ کل رات بھی شاید تین بجے رات کے بعد نیند آئی ہوگی، وہ بھی نیند کی دوسری گولی کھانے کے بعد، کتنی بار مرتضٰی سے کہا یہ گھڑی ہٹالے یہاں سے۔۔۔ مگر اس کے خیال سے تو یہ گھڑی اچھی ہے کہ اماں کو اندھیرے میں بھی وقت کا پتہ چل جائے۔۔۔ ارے مجھے وقت کا پتہ چلنے نہ چلنے سے کیا فرق پڑتا ہے‘‘۔
تنویر زہرا بمشکل گھٹنے پر ہاتھ رکھ کر اٹھیں۔ باتھ روم جانا بھی ان کے لئے ایک مشکل کام تھا۔ کھڑے ہوکر واش بیسن میں وضو کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ وضو کرکے نماز پڑھنے کے بعد وہ نیچے آئیں تو مرتضٰی باہر سے گھر کے سامنے کے راستے سے برف ہٹاکر آ رہا تھا۔ ٹوپی اور دستانے برف سے اٹے ہوئے تھے، کان اور ناک سرخ ہو گئے تھے۔ اس نے جب دستانے اتارے تو انھوں نے دیکھا کہ انگلیاں بھی لال ہو گئی تھیں۔ ان کا دل بیٹے کے تڑپ گیا، بولیں۔
‘’ارے کیوں مصیبت میں پڑتا ہے روز صبح، پڑی رہنے دے برف، خود پگھل جائےگی’‘۔
مرتضٰی نے جھلاہٹ پر قابو پاتے ہوئے بڑے رسان سے اماں کو سمجھانے کی کوشش کی۔
‘‘ارے اماں! اگر روز برف نہ ہٹاؤں تو بر ف کا ایک پہاڑ کھڑا ہو جائےگا دروازے کے سامنے اور پھر گیراج سے گاڑی نکالنے کے لئے بھی تو راستہ صاف کرنا تھا نا! کل رات بھر برف پڑی ہے’‘۔
تنویر زہرا نے کچن کی کھڑکی سے جھانک کر دیکھا، پچھواڑے کے مکان میں مسٹر سوائے اپنی گاڑی سے برف ہٹا رہے تھے، وہ بولیں۔
‘’ارے بالے! سردیوں میں گاڑی چلانے کی کیا ضرورت ہے۔ بس سے چلا جایا کر، برف کے زمانے میں تو گاڑی لے کر جاتا ہے تودن بھر مراجی ہولتا رہتا ہے‘‘۔
مرتضٰی کو اماں پر غصہ بھی آیا اور پیار بھی، بولے۔
‘’اماں آپ کو کسی طرح چین نہیں، کراچی میں جب بس میں بیٹھ کر ناظم آباد سے کلفٹن جاتی تھیں تو دعا مانگا کرتی تھیں کہ مولا! ایک دن ایسا بھی کرنا کہ میرے مرتضٰی اور ارتضٰی کے پاس بھی گاڑی ہو، آپ کو کلفٹن والے خالو ابا کی گاڑی دیکھ کر کیسا رشک آتا تھا’‘۔
کچن میں ان کی بہو رضیہ جلدی جلدی بچوں کا لنچ پیک کرکے دے رہی تھی، مرتضٰی کو بھی کاغذ کے براؤ ن لفافے میں سینڈوچ، جوس اور ایک سیب رکھ کر لنچ کے لیے دے دیا اور جلدی جلدی کوٹ، بوٹ، دستانے اور ٹوپی پہن کراپنے لنچ کا براؤن لفافہ لے کر کام پر جانے کیلئے تیار ہو گئی، بچے بھی اسکول کی بس لینے کے لئے قریبی بس اسٹاپ پر چلے گئے۔
دھڑ۔۔۔دھڑ۔۔۔ دروازے بند ہونے کی آوازیں، گیراج کا شٹر بند ہونے کی آواز۔۔۔ ’’سب چلے گئے‘‘ تنویر زہر ا خود سے بولیں۔ اب گھر میں مکمل سناٹا تھا سوائے نیچے چلتے ہوئی ہیٹنگ کرنے والی Furnace کی آواز کے جو متواتر آ رہی تھی۔ وہ آکر چڑیوں کے پنجرے کے پاس کھڑی ہو گئیں۔ یہ چھوٹی چھوٹی رنگین چڑیاں پچھلے مہینے مرتضی کے بیٹے علی نے انہیں تحفے میں دی تھیں کہ یہ آپ کا برتھ ڈے گفٹ ہے۔ وہ ہنس پڑی تھیں۔ ‘’اوئی اس بڑھاپے میں اب میری سالگرہ ہوگی، ساری عمر تو منائی نہیں’‘۔ یہ چڑیاں اب ان کی دن بھر کی ساتھی بن گئی تھیں۔ تنویر زہرا چڑیوں سے باتیں کرتی تھیں مگر ان کا خیال تھاکہ چڑیاں اردو سمجھ تو جاتی ہیں مگر بولتی انگریزی ہیں۔
تنویر زہرانے کچن پر نظر ڈالی۔ چمکتا ہوا، صاف ستھر ا، ہر چیز جگہ پر رکھی ہوئی تھی۔ وہ پھر چڑیوں سے مخاطب تھیں۔
‘’ایک تو میں رضیہ کے سگھڑاپے سے بھی پریشان ہوں، کام کر کرکے مری جائے ہے، کتنا کہا کہ رہنے دے میں روز کوئی سالن پکا دیا کرونگی مگر نہیں۔۔۔ سب خود ہی کرےگی۔ اتوار کے روز دن بھر کھڑے ہو کر ہفتے بھر کے لئے کھانے پکا پکاکر فریز ر میں رکھ دےگی، اے ہے! یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ روز روز کھانا پکانے سے گھر میں پیاز اور مسالوں کی بوبس جاتی ہے۔۔۔ دوپہر میں علی آئےگا اسکول سے، خود ہی فرج سے اپنی وہ اسپگیتی یا pizza نکالےگا، Microwave میں خود گرم کرےگا اور کھالےگا۔۔۔ کتنا کہاکہ لا بالے! تیرے لئے تازہ روٹی ڈال دوں، پراٹھا پکا دوں، مگر نہیں۔۔۔ اسے تو یہ ہی امریکن کھانے پسند ہیں’‘۔
چڑیوں نے چوں چوں کرکے گویا ان کی حامی بھری۔
تنویر زہرا Living Room کی کھڑکی میں آ کھڑی ہو گئیں، سامنے صاف ستھرے مکانوں کی قطار تھی۔ چمنیوں سے دھواں نکل رہا تھا، برف سے مکانوں کی چھتیں اور راستے ڈھکے ہوئے تھے۔ وہ برف صاف کرنے والی مشین کے انتظار میں کھڑی ہو گئیں، ابھی وہ دیوجیسی مشین آتی ہوگی اور سڑک کی ساری برف سرکاکر کنارے کر دےگی اور سڑک کے دونوں طرف برف کی چھوٹی سی دیوار اور اونچی ہو جائےگی۔۔۔ اب صبح کے ۹ بج چکے تھے آفس اور دوسری ملازمتوں پر جانے والے جا چکے تھے اس لئے سڑک پر کوئی اکادکا گاڑی گذر جاتی تھی، دس بجے کے قریب سامنے والے مکان سے دو بچے، لال پیلے اسنوسوٹ پہنے ہوئے نکلیں گے اور برف پرلوٹیں لگائیں گے۔
‘’شاباش ہے ان کی ماں کو بھی، اس سردی میں بھی بچوں کو باہر نکال دیتی ہے’‘ تنویر زہرا سوچتی تھیں۔
10 بجے اک بڑی بی سرسے پاؤں تک گرم کپڑ وں میں ملفوف، اپنے کتے کو ٹہلانے نکلیں گی۔
‘’غضب کی ہمت ہے بڑھیا کی کہ اس سردی اور برف باری میں بھی گھومنے سے باز نہیں آتی‘‘ وہ حیران ہوتی تھیں۔
گھڑی پر نظر ڈالی، ابھی تو صرف ساڑھے نو بجیتھے، ’’اب کیا کروں، ناشتہ کرنے کو بھی دل نہیں چاہتا۔ فرج میں جوس، پھل، ڈبل روٹی، انڈے سب بھرے پڑے ہیں مگر کھانے کو دل ہی نہیں چاہتا، اکیلے کیا خاک اچھا لگتا ہے کھانا پینا۔’‘
’’اب مجھے یہاں کناڈا آئے تقریباً ڈیڑھ سال ہو گیا۔۔۔ انھوں نے سوچا۔۔۔ مگر لگتا ہے کہ جیسے برسوں ہو گئے ہیں۔ ارتضٰی کے پاس سعودی عرب میں بھی رہ کر آئی چند مہینے، وہاں بھی میں اور ارتضٰی کی بیوی دن بھر گھر میں بند، شام کو ارتضٰی آتے، اگر تھکے ہوئے نہیں ہوتے تو گاڑی میں بیٹھاکر گھما پھرا لاتے۔ خیر سے وہاں حج تو ہو گیا مگر وہاں بھی کیا جی لگتا میرا، مرتضٰی نے یہاں کناڈا بلانے کی ضد پکڑ لی۔ اماں اور بابا کیا کریں گے اکیلے کراچی میں، رضیہ باجی ہھی شادی ہو کے دبئی چلی گئی ہیں۔ مرتضٰی کے ابا کے کسی صورت کناڈا آنے پر راضی نہیں تھے اور نہ ہی آئے۔ جب تک کناڈا کا Immigration کا ویزا آئے اللہ ہی نے ان کا ویزا بھیج دیا۔۔۔ ابا کے مرنے کے بعد دونوں بھائی آئے۔ باپ کا بنوایا ہوا گھر بیچ باچ کر، لے آئے مجھے اپنے ساتھ یہاں۔۔۔
کیا نام ہے اس شہر کا؟ ,Windsor جب یہاں آئی تھی تو مرتضٰی اک پندرہ منزلہ اونچی بلڈنگ کے ایک فلیٹ میں رہتا تھا، اندرونِ شہر تھی وہ بلڈنگ، کھڑکی میں کھڑی ہو جاتی تھی اور سڑک کی چہل پہل دیکھ لیتی تھی۔۔۔ اب دس مہینے ہوئے ماشاء اللہ یہ مکان خرید لیا ہے۔ رضیہ کتنے فخر سے دکھاتی ہے اپنے ملنے والوں کو۔۔۔ فوربیڈ روم کامکان ہے، بچوں کے کھیلنے کے لئے Basement بھی ہے، گیراج میں کہتے ہیں دو گاڑیا ں کھڑی ہو سکتی ہیں۔۔۔ مکان جب سے خریدا ہے مرتضٰی نے تو بس میاں بیوی مورگیج کی ہی باتیں کرتے ہیں اک دن میں نے پوچھا تھا کہ یہ مورگیج کیا بلا ہے، تو رضیہ نے کچھ سمجھا یا تھا کہ اماں! اتنا پیسہ ہر مہینے بینک کو دینا ہوتا ہے ورنہ مکان بینک لے لےگا۔ میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آیا۔۔۔ ایک وہ انڈیا میں کسٹووڈین کا قصہ تھا۔ پاکستان بننے کے بعد جب چچا ابا کراچی آ گئے تھے تو کسٹووڈین نے قبضہ کر لیا تھا ان کے مکان پر۔۔۔ اب پتا نہیں یہ مورگیج کیا ہے۔۔۔ اور جب ہم پاکستان آئے تو ہروقت قصہ رہتا تھا کلیم کا, الاٹمنٹ کا۔۔۔ مگر ہمیں کیا ہاتھ آیا۔۔۔ خاک۔۔۔ مرتضٰی کے ابا سرکاری ملازم تھے انڈیا میں، سووہ پاکستان آ گئے تھے۔ وہاں بھی کیا تھا، اک پرانا آبائی مکان امروہے میں اور کراچی میں وہ بھی نصیب نہ ہوا۔۔۔ سنا ہے لوگوں نے بڑے بڑے الاٹمنٹ کرائے۔’‘
انھوں نے غیرارادی طورپر گھڑی کی طرف دیکھا تو دن کے دس بج چکے تھے، سو چا کہ چلو پوددں میں پانی ہی ڈال دوں۔ رضیہ نے گملوں میں طرح طرح کے پودے لگائے تھے۔ گھر کے اندر اچھی خاصی پھلواری بن گئی تھی۔ پودوں کی دیکھ بھال کا کام تنویر زہرا نے اپنے ذمے لے لیا تھا، کراچی کے چھوٹے سے مکان کے آنگن میں بھی تنویر زہرا نے کچھ حصہ کچا رہنے دیا تھا اور وہاں بیلے کے پھول لگائے تھے۔
‘’نہ جانے وہ بیلا زندہ ہوگا یا مر گیا ہوگا’‘ وہ آزردہ ہو گئیں۔
ان کے دماغ میں تو ابھی میرٹھ والے گھر کے آنگن کے امرود اور موگرے کی خوشبو بسی ہوئی تھی۔
وہ بہت لگن سے ہر گملے میں پانی ڈالتی رہیں۔ ربر پلانٹ کے پتے گیلے گپڑے سے صاف کئے۔ پودوں پر اسپرے کیا، وہ روز ہر گملے کو دیکھتیں کہ کتنے نئے پتے نکلے۔ کبھی کبھی انہیں پودوں پر ترس آتا کہ بے چارے کبھی باہر کی تازہ ہوا بھی نہیں پاتے۔ انھوں نے کھڑکی سے باہر نظر ڈالی۔ سامنے یارڈ میں میپل (Maple) کا درخت ٹنڈمنڈ کھڑا تھا۔ انھوں نے حساب لگایا۔۔۔ جنوری، فروری، مارچ، اپریل۔۔۔ تب کہیں اپریل کے آخر میں سوکھی شاخوں سے پتے سر نکالیں گے۔ جون جولائی میں درخت خوب ہرابھرا ہو جائےگا، پھر اکتوبر میں جب پتے سرخ ہو جائیں گے تو پیڑ پر آگ سی لگتی معلوم ہوگی، جب بہت خوبصورت لگتے ہیں یہ میپل کے درخت اور ابھی اکتوبر ختم بھی نہیں ہوگا کہ سوکھے پتوں سے پھر یارڈ بھر جائےگا۔ پھر وہی ٹنڈ منڈ درخت۔۔۔ پھر وہی گرمیوں کا انتظار۔۔۔ نہ جانے اگلی گرمی دیکھوں گی یا نہیں۔۔۔‘‘ انھوں نے سوچا۔
اب انھیں دن کے ایک بجے کا انتظار تھا جب مرتضٰی کا بیٹا علی اسکول سے آئےگا تو ذرا رونق ہوگی۔ بڑی بیٹی سارہ تین بجے اسکول سے آئےگی، مرتضٰی اور رضیہ شام کو چھ بجے آئیں گے، سردیوں میں تو چھ بجے اندھیر ا ہو جاتا ہے۔ مرتضٰی واپسی میں رضیہ کو کام پر سے لیتا ہوا آتا ہے۔ انہیں رضیہ پر ترس آتا تھا، وہ کام سے واپس آکر کھانا گرم کرتی، کھلاتی، کچن صاف کرتی، برتن دھوتی اور مرتضٰی بیٹھ کر T۔ V۔ دیکھتے تھے۔۔۔ رضیہ خواہ مخواہ گھر سے باہر کام کرتی ہے، کیا فائدہ جان کھپا نے سے۔ ایک با ر انھو ں نے مرتضٰی سے کہا تھا ‘’کیو ں بیوی سے نوکر ی کراتا ہے‘‘۔
اس نے جواب دیا تھا۔
‘’اماں! رضیہ ہی کو زیادہ شوق تھا مکان خریدنے کا، صرف میری تنخواہ سے تو مورگیج ادا ہو نہیں سکتا تھا، اس لئے رضیہ نے بھی کام شروع کر دیا، فیکٹری میں پرزے جوڑنے کا کام ہے رضیہ کا۔’‘
فو ن کی گھنٹی بجی، تنویر زہرا فو ن کی گھنٹی سے ہمیشہ گھبرا جاتی تھیں۔ انھوں نے سوچا ‘’ہو سکتا ہے مرتضٰی کا فون ہو۔۔۔ میری خیر خبرلے لیتا ہے دن میں وہ اک آدھ با ر۔۔۔ کیا پتہ کسی اور کا فون ہو۔۔۔ کوئی انگریزی نہ بولتا ہو۔۔۔ کوئی با ت نہیں، کہہ دوں گی مسٹر مرتضی ناٹ ہوم اور رکھ دوں گی فون’‘۔ گھنٹی بجے ہی جا رہی تھی۔ انھوں نے فون اٹھایا، فون پر رضیہ کی دوست ثمینہ چودھری تھی وہ بھی دن میں کبھی کبھار فون کر لیتی تھی، ادھر ادھر کی دو چار باتیں کرکے تنویر زہرا کا دل بہل جاتا تھا، حالانکہ ثمینہ پنجابی تھی مگر تنویر زہرا کو یہاں وہ ہی غنیمت معلوم ہوتی تھی۔
ثمینہ فون پر نہ جانے کیا کیا کہ رہی تھی۔۔۔ لیکن تنویر زہرا کے دماغ میں بس اک جملہ اٹک کر رہ گیا۔ آٹھ ہزار ڈالر۔۔۔
رات کو کھانے کے بعد جب مرتضٰی اور رضیہ بیٹھے T۔ V۔ دیکھ رہے تھے تو تنویر زہرا کے اس سوال نے دونوں کو چونکا دیا۔
‘’بالے! مرتضٰی، کیا 8 ہزار ڈالر کی رقم بہت ہوتی ہے’‘۔
مرتضٰی حیران ہوا کہ اماں آج روپئے پیسے کے چکر میں کیسے پڑ گئیں، وہ تو یہ بھی بڑی مشکل سے سمجھ پاتی تھیں کہ ایک ڈالر میں کتنے پاکستانی روپئے آتے ہیں۔
مرتضٰی نے پوچھا ‘’کیوں اماں کیا ہوگا 8 ہزار ڈالر کا’‘۔ تنویر زہرا ٹال گئیں۔
‘’کچھ نہیں یوں ہی پوچھ رہی تھی‘‘۔
وہ جلدی ہی اٹھ کر سونے کے لئے اپنے کمرے میں چلی گئیں۔نیند کی گولی کھائی، رات کی دعائیں پڑھیں، دستک دی اور لیٹ رہیں۔۔۔ وہی سوال دماغ میں گھومے جا رہا تھا۔ آٹھ ہزار ڈالر۔۔۔ اچھا اگر مرتضٰی کے پاس نہ ہوئے تو ارتضٰی کو خط لکھوں گی و ہ دے دےگا۔ انھیں تھوڑا سکون ہوا۔۔۔ آنکھیں مندنے لگیں۔۔۔ لگتا ہے آج کمرے کی ہیٹنگ زیادہ تیزہے۔۔۔ نیند جلدی آ گئی۔
یہ کیسا مجمع ہے۔۔۔ کس کا جنازہ ہے۔۔۔ چالیسواں ہے اماں کا؟ نہیں مرتضٰی کے ابا کا سوئم ہے۔۔۔ یہ کس کی قبر ہے بیری کے پیڑ کے نیچے۔۔۔ فاطمہ زہرا لکھا ہے کتبے پر۔۔۔ اچھا! میرٹھ میں اماں کی قبر شاید بھائی شان حیدر نے مرمت کرائی ہے۔۔۔ ابا کی قبر پر گھاس اگ آئی ہے۔۔۔ یہ کس کی تازہ قبر ہے۔۔۔مرتضٰی کے ابا سوئے ہوئے ہیں۔۔۔ یہ برف سی کیسی گری ہے اس قبر پر۔۔۔ یہ کون سی جگہ ہے۔۔۔ یہ کس کا جنازہ چوبی تابوت میں رکھا ہے۔۔۔ ہوائی جہاز کی گھڑگھڑاہٹ۔۔۔ ہڑبڑ ا کر وہ اٹھ بیٹھیں۔۔۔ یہ کیسا عجیب خواب تھا۔
تنویر زہرا بہت دیر تک دعائیں پڑھتی رہیں۔
‘’مرتضٰی کے ابا ہم آپ کو کراچی میں اکیلا چھوڑ آئے’‘۔ وہ بدبدائیں
صبح جب وہ نیچے گئیں تو خلاف معمول سب موجود تھے۔ انھیں یاد آیا کہ آج تو سنیچر ہے، چھٹی کا دن۔ مرتضٰی نے ان کی شکل دیکھ کر کہا۔
‘’کیا ہوا اماں! آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے، رات کوکیا نیند نہیں آئی آپ کو’‘۔
تنویر زہرا نے اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا مگر کھوئے کھوئے لہجے میں بولیں۔
‘’کل رضیہ کی دوست ثمینہ کا فون آیا تھا وہ بتا رہی تھی کہ صداقت مرزا کے والد کا انتقال ہو گیا، مرتضٰی! ان کو دفن کہاں کیا جائےگا؟‘‘
مرتضٰی مسکراکر بولے ’’اماں آپ کیا اسی وجہ سے اتنی پریشان ہیں دفن ہو جائیں گے وہ قبرستان میں، مسجد والوں نے یہودیوں کے قبرستان میں کچھ جگہ خرید لی ہے وہیں دفن ہو جاتے ہیں’‘۔
تنویر زہرا بولیں۔ ’’ہاں ثمینہ بھی یہی کہہ رہی تھی’‘ وہ تسبیح گھماتے ہوئے بولیں۔ پھر ذرا جھک کر سرگوشی کے انداز میں بولیں۔’’ مرتضی! بتا بالے، تیرے پاس 8 ہزار ڈالر جمع ہونگے؟ ورنہ ارتضٰی کو سعودی عرب فون کرکے پوچھنا کہ وہ پیسوں کا انتظام کر سکتا ہے’‘؟
مرتضٰی اور رضیہ نے چونک کر تنویر زہرا کی طرف دیکھا، دونوں تقریباً ساتھ ہی بولے ’’کیوں اماں؟’‘۔
تنویر زہرا باہر کھڑکی میں گرتی ہوئی برف دیکھتے ہوئی بولیں۔
’’ثمینہ بتا رہی تھی کہ یہاں سے لاش پاکستان بھیجنے میں 8 ہزار ڈالر کا خرچ آتا ہے۔ اچھا! یہ بتاکہ انڈیا لے جانا کیا کچھ سستا ہوگا؟‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.