دو ہاتھ
’’رام اوتار خاکروب کی ماں کو تو پیٹ بھرنے کے لئے دو ہاتھوں کی ضرورت تھی۔ دنیا خواہ کچھ بھی کہے۔‘‘
رام اوتار لام پر سے واپس آ رہا تھا۔ بوڑھی مہترانی ابا میاں سے چٹھی پڑھوانے آئی تھی۔ رام اوتار کو چھٹی مل گئی۔ جنگ ختم ہو گئی تھی نا! اس لئے رام اوتار تین سال بعد واپس آ رہا تھا، بوڑھی مہترانی کی چپڑ بھری آنکھوں میں آنسو ٹمٹما رہے تھے۔ مارے شکر گزاری کے وہ دوڑ دوڑ کر سب کے پاؤں چھو رہی تھی۔ جیسے ان پیروں کے مالکوں نے ہی اس کا اکلوتا پوت لام سے زندہ سلامت منگوا لیا۔
بڑھیا پچاس برس کی ہوگی پر ستر کی معلوم ہوتی تھی۔ دس بارہ کچے پکے بچے جنے ان میں بس رام اوتار بڑی منتوں مرادوں سے جیا تھا۔ ابھی اس کی شادی رچائے سال بھر بھی نہیں بیتا تھا کہ رام اوتار کی پکار آ گئی، مہترانی نے بہت واویلا مچایا مگر کچھ نہ چلی اور جب رام اوتار وردی پہن کر آخری بار اس کے پیر چھونے آیا تو اس کی شان و شوکت سے بے انتہا مرعوب ہوئی جیسے وہ کرنل ہی تو ہو گیا تھا۔
شاگرد پیشے میں نوکر مسکرا رہے تھے رام اوتار کے آنے کے بعد جو ڈرامہ ہونے کی امید تھی سب اسی پر آس لگائے بیٹھے تھے۔ حالانکہ رام اوتار لام پر توپ بندوق چھوڑنے نہیں گیا تھا۔ پھر بھی سپاہیوں کا میلا اٹھاتے اٹھاتے اس میں کچھ سپاہیانہ آن بان اور اکڑ پیدا ہو گئی ہو گی۔ بھوری وردی ڈانٹ کر وہ پرانا رام اوتروا واقعی نہ رہاہو گا۔ ناممکن ہے وہ گوری کی کرتوت سنے اور اس کا جوان خون ہتک سے کھول نہ اٹھے۔
بیاہ کر آئی ہے تو کیا مسمیپ تھی گوری، جب تک رام اوتار رہا اس کا گھونگھٹ فٹ بھر لمبا رہا اور کسی نے اس کے رخ پر نور کا جلوہ نہ دیکھا جب خصم گیا تو کیا بلک بلک کر روئی تھی۔ جیسے اس کی مانگ کا سیند ور ہمیشہ کے لئے اڑ رہا ہو۔ تھورے دن روئی روئی آنکھیں لئے سر جھکائے میلے کی ٹوکری ڈھوتی پھری پھر آہستہ آہستہ اس کے گھونگھٹ کی لمبائی کم ہونے لگی۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے یہ سارا بسنت رت کا کیا دھرا ہے،کچھ صاف گو کہتے تھے۔ ’’گوری تھی ہی چھنال رام اوتار کے جاتے ہی قیامت ہو گئی‘‘ کمبخت ہر وقت ہی ہی، ہر وقت اٹھلانا، کمر پرمیلے کی ٹوکری لے کر کانسے کے کڑے چھنکاتی جدھر سے نکل جاتی لوگ بدحواس ہو جاتے۔ دھوبی کے ہاتھ سے صابن کی بٹی پھسل کر حوض میں گر جاتی۔ باورچی کی نظر توے پرسلگتی ہوئی روٹی سے اچٹ جاتی۔ بہشتی کا ڈول کنوئیں میں ڈوبتا ہی چلا جاتا چپڑاسیوں تک کی بلا کلف لگی پگڑیاں ڈھیلی ہو کر گردن میں جھولنے لگتی، اور جب یہ سراپا قیامت گھونگھٹ میں سے بان پھینکتی گزر جاتی تو پورا شاگرد پیشہ ایک بے جان لاش کی طرح سکتہ میں رہ جاتا، پھر ایک دم چونک کر وہ ایک دوسرے کے درگت پر طعنہ زنی کرنے لگتے۔ دھوبن مارے غصے کے کلف کی کونڈی لوٹ دیتی۔ چپڑاسن چھاتی سے چمٹے لونڈے کے بے بات زخمو کے جڑنے لگتی۔ اور باورچی کی تیسری بیوی پر ہسٹریا کا دورہ پڑ جاتا۔
نام کی گوری تھی۔ پر کمبخت سیاہ بہت تھی جیسے الٹے توے پر کسی پھاوڑیا نے پر اٹھے مل کر چمکتا ہوا چھوڑ دیا ہو۔ چوڑی پھکناسی ناک، پھیلا ہوا دہانہ، دانت مانجھنے کا اس کی سات پشت نے فیشن ہی چھوڑ دیا تھا۔ آنکھوں میں پویٹں کاجل تھوپنے کے بعد بھی دائیں آنکھ کا بھینگا پن اوجھل نہ ہو سکا، پھر بھی ٹیڑھی آنکھ سے نہ جانے کیسے زہر میں بجھے تیر پھنکتی تھی کہ نشانے پر بیٹھ ہی جاتے تھے۔ کمر بھی لچک دار نہ تھی۔ خاصی کٹھلا سی تھی، جھوٹن کھا کھا دنبہ ہو رہی تھی، چوڑے بھینس کے سے کھر۔ جدھر سے نکل جاتی کڑوے تیل کی سڑاند چھوڑ جاتی،ہاں آواز میں بلا کی کوک تھی۔ تیج تیوہار پر لہک کر کجریاں گاتی تو اس کی آواز سب سے اونچی لہراتی چلی جاتی۔
بڑھیا مہترانی یعنی اس کی ساس بیٹے کے جاتے ہی اس طرح بدگمان ہو گئی۔ بیٹھے بیٹھائے احتیاطا گالیاں دیتی، اس پر نظر رکھنے کے لئے پیچھے پیچھے پھرتی۔ مگر بڑھایا اب ٹوٹ چکی تھی، چالیس برس میلا ڈھونے سے اس کی کمر مستقل طور پر ایک طرف لچک کر وہیں ختم ہو گئی تھی، ہماری پرانی مہترانی تھی۔ ہم لوگوں کے آنول نال اسی نے گاڑے تھے۔ جونہی اماں کے درد لگتے مہترانی دہلیز پر آ کر بیٹھ جاتی اور بعض وقت لیڈی ڈاکٹر تک کو نہایت مفید ہدایتیں دیتی، بلائیات کو دفع کرنے کے لیے کچھ منتر تعویز بھی لا کر پٹی سے باندھ دیتی، مہترانی کی گھر میں خاصی بزرگانہ حیثیت تھی۔
اتنی لاڈلی مہترانی کی بہو یکایک لوگوں کی آنکھوں میں کانٹا بن گئی۔ چپراسن اور باورچن کی تو اور بات تھی۔ ہماری اچھی بھلی بھاوجوں کا ماتھا اسے اٹھلاتے دیکھ کر ٹھنک جاتا، اگر وہ اس کمرے میں چھاڑو دینے جاتی جس میں اس کے میاں ہوتے تو وہ ہڑ برا کر دودھ پیتے بچے کے منہ سے چھاتی چھین کر بھاگتیں کہ کہیں وہ ڈائن ان کے شوہروں پر ٹونا ٹوٹکا نہ کر رہی ہو۔
گوری کیا تھی بس ایک مرکھنا لمبے لمبے سینگوں والا بجا رہا تھا کہ چھوٹا پھرتا تھا لوگ اپنے کانچ کے برتن بھانڈے دونوں ہاتھوں سے سمیٹ کر کلیجے سے لگاتے، اور جب حالات نے نازک صورت پکر لی تو شاگرد پیشے کی مہیلاؤں کا ایک باقاعدہ وفد اماں کے دربار میں حاضر ہوا، بڑے زور شور سے خطرہ اور اس کے خوفناک نتائج پر بحث ہوئی، پتی رکھشا کی ایک کمیٹی بنائی گئی جس میں سب بھاوجوں نے شد و مد سے ووٹ دیئے اور اماں کو صدر اعزازی کا عہدہ سونپا گیا، ساری خواتین حسب مراتب زمین، پیڑھیوں اور پلنگ کی ادوائن پر بیٹھیں، پان کے ٹکڑے تقسیم ہوئے اور بڑھیا کو بلایا گیا۔ نہایت اطمینان سے بچوں کے منہ میں دودھ دے کر سبھا میں خاموشی قائم کی گئی اور مقدمہ پیش ہوا۔
’’کیوں ری چڑیل تو نے بہو قطامہ کو چھوٹ دے رکھی ہے کہ ہماری چھاتیوں پہ کودوں دلے، ارادہ کیا ہے تیرا کیا منہ کالا کرائے گی؟‘‘
مہترانی تو بھری ہی بیٹھی تھی پھوٹ پڑی۔۔۔ ’’کیا کروں بیگم صاحب حرام خور کو چار چوٹ کی مار بھئی دیئی لے تو۔ روٹی بھی کھانے کو نہ دیئی۔ پر رانڈ میرے تو بس کی نہیں۔‘‘
’’ارے روٹی کی کیا کمی ہے اسے‘‘ باورچن نے اینٹا پھینکا۔ سہارن پور کی خاندانی باورچن اور پھر تیسری بیوی۔۔۔ کیا تیہا تھا کہ اللہ کی پناہ پھر چپڑاسن، ٹالن اور دھوبن نے مقدمہ کو اور سنگین بنادیا۔ بیچاری مہترانی بیٹھی سب کی لتاڑ سنتی اور اپنی خارش زدہ پنڈلیاں کھجلاتی رہی۔
’’بیگم صاحب آپ جیسی بتاؤ ویسے کرنے سے موئے نا تھوری،پر کا کروں کا، رانڈ کا ٹینٹوا دبائے دیوں؟‘‘
اماں نے رائے دی۔۔۔ ’’موئی کو میکے پھنکوا دے۔‘‘
’’اے بیگم صاحب کہیں ایسا ہو سکے ہے؟‘‘ مہترانی نے بتایا کہ بہو مفت ہاتھ نہیں آئی ہے، ساری عمری کی کمائی پورے دو سو جھونکے ہیں، تب مسٹنڈی ہاتھ آئی ہے، اتنے پیسوں میں تو گائیں آ جاتیں، مزے سے بھر کلسی دودھ دیتی۔ پر یہ رانڈ تو دولتیاں ہی دیتی ہے، اگر اسے میکے بھیج دیا گیا تو اس کا باپ اسے فوراً دوسرے مہتر کے ہاتھ بیچ دے گا۔ بہو صرف بیٹے کے بستر کی زینت ہی تو نہیں، دو ہاتھوں والی ہے پر چار آدمیوں کا کام نپٹاتی ہے۔ رام اوتار کے جانے کے بعد بڑھیا سے اتنا کام کیا سنبھلتا، یہ بڑھاپا تو اب بہو کے دو ہاتھوں کے صدقے میں بیت رہا ہے۔‘‘
مہیلائیں کوئی ناسمجھ نہ تھیں۔ معاملہ اخلاقیات سے ہٹ کر اقتصادیات پر آ گیا تھا۔ واقعی بہو کا وجود بڑھیا کے لئے لازمی تھا۔ دو سو روپے کا مال کس کا دل ہے کہ پھینک دے، ان دو سو کے علاوہ بیاہ پر جو بننے سے لے کر خرچ کیا تھا۔ ججمان کھلائے تھے۔ برادری کو راضی کیا تھا۔ یہ سارا خرچہ کہاں سے آئے گا۔ رام اوتار کو جو تنخواہ ملتی تھی وہ ساری ادھار میں ڈوب جاتی تھی۔ ایسی موٹی تازی بہو اب تو چار سو سے کم میں نہ ملے گی۔ پوری کوٹھی کی صفائی کے بعد اور آس پاس کی چار کوٹھیاں نمٹاتی ہے۔ رانڈ کام میں چوکس ہے ویسے۔
پھر بھی اماں نے الٹی میٹم دے دیا۔ کہ ’’اگر اس لچی کا جلد از جدم کوئی انتظام نہ کیا گیا تو کوٹھی کے احاطہ میں نہیں رہنے دیا جائے گا۔‘‘
بڑھیا نے بہت واویلا مچائی، اور جا کر بہو کو منہ بھر گالیاں دیں، جھونٹے پکڑ کر مارا پیٹا بھی، بہو اس کی زر خرید تھی۔ پٹتی رہی بڑا بڑاتی رہی اور دوسرے دن انتقاماً سارے عملے کی دھجیاں بکھیر دیں۔ باورچی، بہشتی، دھوبی اور چپراسیوں نے تو اپنی بیویوں کی مرمت کی۔ یہاں تک کہ بہو کے معاملہ پر میری مہذب بھابیوں اور شریف بھائیوں میں بھی کٹ پٹ ہو گئی، اور بھابیوں کے میکے تار جانے لگے۔ غرض بہو ہرے بھرے خاندان کے لئے سوئی کا کانٹا بن گئی۔
مگر دو چار دن کے بعد بوڑھی مہترانی کے دیور کا لڑکا رام رتی اپنی تائی سے ملنے آیا، اور پھر وہیں رہ پڑا۔ دو چار کوٹھیوں میں کام بڑھ گیا تھا سو وہ بھی اس نے سنبھال لیا۔ اپنے گاؤں میں آوارہ تو گھومتا تھا۔ اس کی بہو ابھی نابالغ تھی۔ اس لئے گونا نہیں ہوا تھا۔
رتی رام کے آتے ہی موسم ایک دم لوٹ پوٹ کر بالکل ہی بدل گیا جیےو گھنگھور گھٹائیں ہوا کے جھونکوں کے ساتھ تتر بتر ہو گئیں۔ بہو کے قہقے خاموش ہو گئے۔ کانسے کے کڑے گونگے ہو گئے، اور جیسے غبار ے سے ہوا نکل جائے تو وہ چپ چاپ جھولنے لگا۔ ایسے بہو کا گھونگھٹ جھولتے جھولتے نیچے کی طرف بڑھنے لگا۔ اب وہ بجائے نتھے بیل کے نہایت شرمیلی بہو بن گئی۔ جملہ مہیلاؤں نے اطمینان کا سانس لیا۔ اسٹاف کے مرد اسے چھیڑتے بھی تو وہ چھوئی موئی کی طرح لجا جاتی، اور زیادہ تر وہ گھونگھٹ میں سے بھینگی آنکھ کو اور ترچھا کرکے رتی رام کی طرف دیکھتی جو فوراً بازو کھجلاتا سامنے آ کر ڈٹ جاتا۔ بڑھیا پرسکون انداز میں دہلیز پر بیٹھی ادھ کھلی آنکھوں سے یہ طربیہ ڈرامہ دیکھتی اور گڑ گڑی پیا کرتی۔ چاروں طرف ٹھنڈا ٹھنڈا سکون چھا گیا جیسے پھوڑے کا مواد نکل گیا ہو۔
مگر اب کے بہو کے خلاف ایک نیا محاذ قائم ہو گیا، وہ عملے کی مرد جاتی پر مشتمل تھا۔ بات بے بات باورچی جو اسے پراٹھے تل کر دیا کرتا تھا کونڈی صاف نہ کرنے پر گالیاں دیتا۔ دھوبی کو شکایت تھی کہ وہ کلف لگا کر کپڑے رسی پر ڈالتا ہے یہ حرام زادی خاک اڑانے آ جاتی ہے۔ چپراسی مردانے میں دس دس مرتبہ جھاڑو دلواتے پھر بھی وہاں کی غلاظت کا رونا روتے رہتے، بہشتی جو اس کے ہاتھ دھلانے کے لئے کئی مشکیں لئے تیار رہتا تھا اب گھنٹوں صحن میں چھڑکاؤ کرنے کو کہتی مگر ٹالتا رہتا۔ تاکہ وہ سوکھی زمین پر جھاڑو دے، تو چپراسی گرد اڑانے کے جرم میں اسے گالیاں دے سکے۔
مگر بہو سرجھکائے سب کی ڈانٹ پھٹکار ایک کان سے سنتی دوسرے کان سے اڑا دیتی۔ نہ جانے ساس سے کیا جا کر کہہ دیتی کہ وہ کائیں کائیں کر کے سب کا بیجاج چاٹنے لگتی۔اب اس کی نظر میں بہو نہایت پار سا اور نیک ہو چکی تھی۔
پھر ایک دن داڑھی والے داروغہ جی جو تمام نوکروں کے سردار تھے اور ابا کے خاص مشیر سمجھے جاتے تھے۔ ابا کے حضور میں دست بستہ حاضر ہوئے، اور اس بھیانک بدمعاشی اور غلاظت کا رونا رونے لگے۔ جو بہو اور رتی رام کے ناجائز تعلقات سے سارے شاگرد پیشے کو گندہ کر رہی تھی۔ابا جی نے معاملہ سیشن سپرد کر دیا۔ یعنی اماں کو پکڑا دیا۔ مہیلاؤں کی سبھا پھر سے چھڑی اور بڑھیا کو بلا کر اس کے لتے لئے گئے۔
’’اری نگوڑی خبر بھی ہے یہ تیری بہو قطامہ کیا گل کھلا رہی ہے؟‘‘
مہترانی نے ایسے چندھرا کر دیکھا جیسے کچھ نہیں سمجھتی غریب۔ کہ کس کا ذکر ہو رہاہے اور جب اسے صاف صاف بتایا گیا کہ چشم دیدہ گواہوں کا کہنا ہے کہ بہو اور رتی رام کے تعلقات نازیبا حد تک خراب ہو چکے ہیں، دونوں بہت ہی قابل اعتراض حالتوں میں پکڑے گئے ہیں تو اس پر بڑھیا بجائے اپنی بہتری چاہنے والوں کا شکریہ ادا کرنے کے، بہت چراغ پا ہوئی۔ بڑا واویلا مچانے لگی۔ کہ ’’رام اوتروا ہوتا تو ان لوگوں کی خبر لیتا جو اس کی معصوم بہو پر تہمت لگاتے ہیں۔ بہو نگوڑی تو اب چپ چاپ رام اوتار کی یاد میں آنسو بہایا کرتی ہے۔ کام کاج بھی جان توڑ کرتی ہے۔کسی کو شکایت نہیں ہوتی۔ ٹھٹول بھی نہیں کرتی۔ لوگ اس کے ناحق دشمن ہو گئے ہیں۔ بہت سمجھایا مگر وہ ماتم کرنے لگی کہ ساری دنیا اس کی جان کی لاگوں ہو گئی ہے۔ آخر بڑھیا اور اس کی معصوم بہو نے لوگوں کا کیا بگاڑا ہے۔ وہ تو کسی کے لینے میں، نہ دینے میں، وہ تو سب کی راز دار ہے۔ آج تک اس نے کسی کا بھانڈا پھوڑا، اسے کیا ضرورت جو کسی کے پھےک میں پیر اڑاتی پھرے۔ کوٹھیوں کے پچھواڑے کیا نہیں ہوتا۔ مہترانی سے کسی کا میلا نہیں چھپتا۔ ان بوڑھے ہاتھوں نے بڑے بڑے لوگوں کے گناہ دفن کئے ہیں۔ یہ دو ہاتھ چاہیں تو رانیوں کے تخت الٹ دیں۔ پر نہیں اسے کسی سے بغض نہیں۔ اگر اس کی گلے میں چھری دبائی گئی تو شاید غلطی ہو جائے۔ ویسے وہ کسی کے راز اپنے بوڑھے کلیجے سے باہر نہیں نکلنے دے گی۔‘‘
اس کا تیہا دیکھ کر فوراً چھری دبانے والوں کے ہاتھ ڈھیلے پڑ گئے۔ ساری مہیلائیں اس کی پچ کرنے لگیں۔ بہو کچھ بھی کرتی تھی ان کے اپنے قلعے تو محفوظ تھے تو پھر شکایت کیسی؟ پھر کچھ دن ہوئے بہو کے عشق کا چرچا کم ہونے لگا۔ لوگ کچھ بھولنے لگے، تاڑنے والوں نے تاڑ لیا کہ کچھ دال میں کالا ہے۔ بہو کا بھاری بھرکم جسم بھی دال کے کالے کو زیادہ دن نہ چھپا سکا، اور لوگ شد و مد سے بڑھیا کو سمجھانے لگے۔ مگر اس نئے موضوع پر بڑھیا بالکل اڑن گھائیاں بتانے لگی، بالکل ایسے بن جاتی جیسے ایک دم اونچا سننے لگی ہے۔ اب وہ زیادہ تر کھاٹ پر لیٹی بہو اور رتی رام پر حکم چلایا کرتی، کبھی کھانستی، چھینکتی باہر دھوپ میں آ بیٹھتی تو وہ دونوں اس کی ایسی دیکھ ریکھ کرتے جیسے وہ کوئی پٹ رانی ہو۔
بھلی بیویوں نے اسے سمجھایا۔ راتی رام کا منہ کالا کرو اور اس سے پہلے کہ رام اوتار لوٹ آئے۔ بہو کا علاج کروا ڈال۔ وہ خود اس فن میں ماہر تھی۔ دو دن میں صفائی ہو سکتی تھی۔ مگر بڑھیا نے کچھ سمجھ کر ہی نہ دیا۔ بالکل ادھر ادھر کی شکایتیں کرنے لگی کہ اس نے گھٹنوں میں پہلے سے زیادہ اینٹھن ہوتی ہے نیز کوٹھیوں میں لوگ بہت ہی زیادہ بادی چیزیں کھانے لگے ہیں۔ کسی نہ کسی کوٹھی میں دست لگے ہی رہتے ہیں۔ اس کی ٹال مٹول پر ناصحین جل کر مرنڈا ہو گئے۔ مانا کہ بہو عورت ذات ہے، نادان ہے، بھولی۔ بڑی بڑی شریف زادیوں سے خطا ہو جاتی ہے، لیکن ان کی اعلی خاندان کی معزز ساسیں یوں کان میں تیل ڈال کر نہیں بیٹھ جاتیں، پر نہ جانے یہ بڑھیا کیوں سٹھیا گئی تھی۔ جس بلا کو وہ بڑی آسانی سے کوٹھی کے کوڑے کے تہہ میں دفن کر سکتی تھی اسے آنکھیں میچے پلنے دے رہی تھی۔
رام اوتار کے آنے کا انتظار تھا۔ ہر وقت کی دھمکیاں تو دیتی رہتی تھی۔
’’آن دے رام اوتار کا، کہاں گی۔ توری ہڈی پسلی ایک کردے۔‘‘ اور اب رام اوتار لام سے زندہ واپس آ رہا تھا۔ فضا نے سانس روک لی تھی۔ لوگ ایک مہیب ہنگامے کے منتظر تھے۔
مگر لوگوں کو فت ہوئی جب بہو نے لونڈا جنا۔ بجائے اسے زہر دینے کے بڑھیا کی مارے خوشی کے باچھیں کھل گئی۔ رام اوتار کے جانے کے دو سال بعد پوتا ہونے پر قطعی متعجب نہ تھی۔ گھر گھر پھٹے پرانے کپڑے اور بدھائی سمیٹتی پھری۔ اس کا بھلا چاہنے والوں نے اسے حساب لگا کر بہترا سمجھایا کہ یہ لونڈا رام اوتار کا ہو ہی نہیں سکتا، مگر بڑھیا نے قطعی سمجھ کر نہ دیا۔ اس کا کہنا تھا اوساڑھ میں رام اوتار لام پہ گیا۔ بڑھیا پیلی کوٹھی کے نئے انگریزی وضع کے مہینے میں سنڈاس میں گر پڑی تھی۔ اب چیت لگ رہا ہے، اور جیٹھ کے مہینے میں بڑھیا کو لو لگی تھی۔ مگر بال بال بچ گئی تھی۔ جبھی سے اس کے گھٹنوں کا درد بڑھ گیا۔۔۔ ’’وید جی پورے حرامی ہیں دوائیں کھریا ملا کر دیتے ہیں۔‘‘ اس کے بعد وہ بالکل اصل سوال سے ہٹ کر خیلاؤں کی طرح اول فول بکنے لگتی۔ کس کے دماغ میں اتنا بوتا تھا کہ وہ بات اس کائیاں بڑھیا کو سمجھاتا جسے نہ سمجھنے کا وہ فیصلہ کر چکی تھی۔
لونڈا پیدا ہوا تو اس نے رام اوتار کو چھٹی لکھوائی۔
’’رام اوتار کو بعد چما، پیار کے معلوم ہو کہ یہاں سب کشل ہیں اور تمہاری کشلتا بھگوان سے نیک چاہتے ہیں اور تمہارے گھر میں پوت پیدا ہوا ہے سو تم اس خط کو تار سمجھو اور جلدی سے آجاؤ۔‘‘
لوگ سمجھتے تھے کہ رام اوتار ضرور چراغ پا ہو گا مگر سب کی امیدوں پر اوس پڑ گئی جب رام اوتار کا مسرت لبریز خط آیا کہ وہ لونڈے کے لئے موزے اور بنیان لا رہا تھا۔ بڑھیا پوتے کو گھٹنے پر لٹائے کھاٹ پر بیٹھی راج کیا کرتی، بھلا اس سے زیادہ حسین بڑھایا کیا ہو گا، ساری کوٹھیوں کا کام ترت پھرت ہو رہا ہو، مہاجن کا سود پابندی سے چک رہا ہو اور گھٹنے پر پوتا سو رہا ہو۔
خیرلوگوں نے سوچا، رام اوتار آئے گا۔ اصلیت معلوم ہو گی۔ تب دیکھ لیا جائے گا اور رام اوتار جنگ جیت کر آ رہا تھا۔ آخر کو سپاہی ہے کیوں نہ خون کھولے گا۔ لوگوں کے دل دھڑک رہے تھے۔ شاگر دپیشے کی فضا جو بہو کی توتا چشمی کی وجہ سے سو گئی تھی۔ دو چار خون ہونے اور ناکیں کٹنے کی آس میں جاگ اٹھی۔
لونڈا سال بھر کا ہو گا۔ جب رام اوتار لوٹا شاگرد پیشے میں کھلبلی مچ گئی۔ باورچی نے ہانڈی میں ڈھیر سا پانی جھونک دیا تاکہ اطمینان سے پیٹنے کا لطف اٹھائے۔ دھوبی نے کلف کا برتن اتار کر منڈیر پر رکھ دیا اور بہشتی نے ڈول کنوئیں کے پاس پٹک دیا۔
رام اوتار کو دیکھتے ہی بڑھیا اس کی کمر سے لپٹ کر چنگھاڑنے لگی مگردوسرے لمحے کھیسیں کاڑھے لونڈے کو رام اوتار کی گود میں دے کر ایسے ہنسنے لگی جسے کبھی روئی ہی نہ ہو۔
رام اوتار لونڈے کو دیکھ کر ایسے شرمانے لگا جیسے وہی اس کا باپ ہو، جھٹ پٹ اس نے صندوق کھول کر سامان نکالنا شروع کیا۔ لوگ سمجھے کھکری یا چاقو نکال رہا ہے مگر جب اس نے اس میں لال بنیائن اور پیلے موزے نکالے تو سارے عملے کی قوت مردانہ پر ضرب کاری لگی۔ ہت ترے کی،سالا سپاہی بنتا ہے، ہیجڑا زمانے بھرکا۔
اور بہو سمٹی سمٹائی جیسے نئی نویلی دلہن، کانسی کی تھالی میں پانی بھر کر رام اوتار کے بدبودار فوجی بوٹ اتارے اور چرن دھو کر پئے۔
لوگوں نے رام اوتار کو سمجھایا، پھبتیاں کسیں، اسے گاؤ دی کہا مگر و ہ گاؤ دی کی طرح کھیسیں کاڑھے ہنستا رہا، جیسے اس کی سمجھ میں نہ آرہا ہو۔ رتی رام کو گونا ہونے والا تھا سو وہ چلا گیا۔
رام اوتار کی اس حرکت پر تعجب سے زیادہ لوگوں کو غصہ آیا۔ ہمارے ابا جو عام طور پر نوکروں کی باتوں میں دلچسپی نہیں لیا کرتے تھے وہ جزبز ہو گئے۔ اپنی ساری قانون دانی کا داؤ لگا کر رام اوتار کو قائل کرنے پرتل گئے۔
’’کیوں بے تو تین سال بعد لوٹا ہے نا؟‘‘
’’معلوم نہیں حجور تھوڑا کم جیادہ۔۔۔ اتاہی رہا ہوگا۔‘‘
’’اور تیرا لونڈا سال بھر کا ہے۔‘‘
’’اتاہی لگے ہے سرکار پر بڑا بدماس ہے سسر۔‘‘ رام اوتار شرمائے۔
’’ابے تو حساب لگا لے۔‘‘
’’حساب؟ کیا لگاؤں سرکار۔‘‘ رام اوتار نے مر گھلی آواز میں کہا۔
’’الو کے پٹھے یہ کیسے ہوا؟‘‘
’’اب جے میں کا جانوں سرکار۔۔۔ بھگوان کی دین ہے۔‘‘
’’بھگوان کی دین، تیرا سر۔۔۔ یہ لونڈا تیرا نہیں ہو سکتا۔‘‘
ابا نے اسے چاروں اور سے گھیر کر قائل کرنا چاہا کہ لونڈا حرامی ہے، تو وہ کچھ قائل سا ہو گیا۔ پھر مری ہوئی آواز میں احمقوں کی طرح بولا، ’’تو اب کا کروں سرکار۔۔۔ حرام جادی کو میں نے بڑی مار دی۔‘‘ وہ غصے سے بپھر کر بولا۔
’’ابے نرا الو کا پٹھا ہے تو۔۔۔ نکال باہر کیوں نہیں کرتا کمبخت کو۔‘‘
’’نہیں سرکار کہیں ایسا ہوئے سکے ہیں۔‘‘ رام اوتار گھگیانے لگا۔
’’کیوں بے؟‘‘
’’حجور ڈھائی تین سو پھر سگائی کے لئے کاں سے لاؤں گا اور برادری جمانے میں سو دو سو الگ کھرچ ہو جائیں گے۔‘‘
’’کیوں بے تجھے برادری کیوں کھلانی پڑے گی؟ بہو کی بدمعاشی کا تاوان تجھے کیوں بھگتنا پڑے گا؟‘‘
’’جے میں نہ جانوں سرکار ہمارے میں ایسا ہوے ہے۔‘‘
’’مگر لونڈا تیرا نہیں رام اوتار۔۔۔ اس حرامی رتی رام کا ہے‘‘ ابا نے عاجز آ کر سمجھایا۔
’’تو کا ہوا سرکار۔۔۔ میرا بھائی ہوتا ہے رتی رام کوئی گیر نہیں اپنا کھون ہے۔‘‘
’’نرا الو کا پٹھا ہے۔‘‘ ابا بھنا اٹھے۔
’’سرکار لونڈا بڑا ہو جاوے گا اپنا کام سمیٹے گا۔‘‘
رام اوتار نے گڑ گڑ کر سمجھایا۔ وہ دو ہاتھ لگائے گا سو اپنا بڑھاپا تیرا ہو جائے گا۔ ندامت سے رام اوتار کا سر جھک گیا۔
اور نہ جانے کیوں ایک دم رام اوتار کے ساتھ ابا کا سرجھک گیا جیسے ان کے ذہن پر لاکھوں کروڑوں ہاتھ چھا گئے۔۔۔ یہ ہاتھ حرامی ہیں نہ حلالی، یہ تو بس جیتے جاگتے ہاتھ ہیں جو دنیا کے چہرے کی غلاظت دھو رہے ہیں اس کے بڑھاپے کا بوجھ اٹھا رہے ہیں۔
یہ ننھے منھے مٹی میں لتھڑے ہوئے سیاہ ہاتھ دھرتی کی مانگ میں سیندور سجا رہے ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.