دوٹکے کے لوگ
میرے ذہن میں اچانک ایک خیال آیاکہ دوڑکراس بوٹ پالش والے لڑکے سے کہا جائے کہ، ’’بابارے، اس جگہ تم دھندہ کرنے کے لیے مت بیٹھو۔ یہ جگہ بہت خطرنا ک ہے۔ بہت سالوں پہلے اس جگہ پرایک بوڑھا آدمی۔۔۔‘‘
’’بہت زیادہ سوچتے رہتے ہوتم! اس پالش والے کی طرف کیادیکھتے رہے؟‘‘ گوگٹے نے میری پیٹھ پرتھپکی لگاتے ہوئے کہا۔ لیکن اسی خیال میں محورہنے کی وجہ سے میں نے گوگٹے کوکوئی جواب نہیں دیا۔ دوبارہ چڑھ کرگوگٹے نے مجھ سے پوچھا، ’’کس خیال میں گم ہو؟‘‘ میں نے آہستہ سے جواب دیا، ’’ویسے کسی اہم بات کے خیال میں غرق نہیں تھالیکن اس بوٹ پالش کرنے والے لڑکے کواسی جگہ دیکھ کرایسا لگا کہ جاکر اس سے کہوں کہ اس جگہ مت بیٹھو۔ کچھ سال پہلے اسی جگہ پر ایک بوڑھا آدمی بیٹھا کرتاتھا لیکن راستہ چھوڑکرایک موٹرکارکے فٹ پاتھ پر چڑھنے سے وہ ہلاک ہوگیا۔ اس لیے۔۔۔‘‘
’’تم بھی اس جگہ پرمت بیٹھویہی نا! بے وقوف ہی ہو! کیوں کہ ویساہی حادثہ پیش آئے گا؟ اس طرح کے واقعات کیاباربار ہوتے ہیں؟ تمہارے کہنے پراس نے جگہ بدل دی اوروہ دوسری جگہ پربیٹھا اورٹھیک اسی مقام پرحادثہ وقوع پذیرہواتوتم پرکیاردعمل ہوگا؟‘‘
میں خاموش ہوگیاتھا کہ میرے دل میں آیاہوا وہ خیال بالکل دورنہیں ہوا تھا۔ لیکن گوگٹے نے اندازہ لگایاکہ مجھے اس کاخیال مناسب معلوم ہورہاہے اوراسی لیے میں چپ ہوں۔ وہ پھردیرتک ادھرادھرکی گپ ہانکتارہا۔ آخر میں اس نے مجھ سے اپناہمیشہ کاسوال پوچھا، ’’لیکن دَشا! اس نے تم سے لیے ہوئے دوروپئے آخردیے ہی نہیں نا!‘‘
آدمی کا مزاج بھی دیکھئے ناکیسارہتاہے! گوگٹے اول نمبرکا حسابی آدمی۔ خود توپیسے خرچ کرتا ہی نہیں لیکن میں نے ذرا سے پیسے خرچ کیے توبھی اس کا کلیجہ منہ کوآتاہے۔ ہرمعاملے میں اس کا حساب جاری رہتاہے۔ میرے گھرکبھی کھانے کے لیے آتاتواس کھانے کا ہی حساب کر ے گا۔ باہرہوٹل میں کھانابارہ آنے میں ملتاہے گھرکا اناج۔ اس لیے وہ اس کھانے کے سواروپیہ لگاتاہے اور اپنے د ل میں عہدکرتا ہے کہ دشاکوچھ سات بار اسپیشل چائے پلائی جائے تومعاملہ ختم۔ اتناحساب رکھنے والے شخص سے میرے ایک چمارکودیے ہوئے دوروپے کس طرح برداشت ہوتے؟
تقریباً آٹھ سال پہلے کی بات ہے کہ میں اورگوگٹے آفس چھٹتے ہی باہرنکلے۔ میں بوٹ پالش کرانے کے لیے سامنے بیٹھے ہوئے بوڑھے کی جانب گیا اوراس کی صندوقچی پرپاؤں رکھ دیا۔ بغیرکچھ کہے سنے اس کا کہنہ مشق ہاتھ کسی مشین کی طرح تیزی سے میرے بوٹ پرچلنے لگا۔ تین چارمنٹوں میں اس نے بوٹ پالش کرکے دیے۔ مجھے دوروپے کانوٹ نکالتے دیکھ کروہ بوڑھا بولا، ’’صاحب! میرے پاس چھٹے پیسے نہیں ہیں۔ صرف چھ آنے ہی ہیں میرے پاس۔‘‘
’’ارے رہنے دوتمہارے پاس، باقی پیسے کل واپس کردو۔ میں روزانہ اس آفس میں آتاہوں۔‘‘
’’نہیں صاحب ایسانہیں! میں غریب آدمی ہوں۔ میرے پاس اخراجات کی مدیں بھی زیادہ ہیں۔ آپ کے پاس میرے دوآنے رہنے دیجئے۔‘‘
’’اورمیں آج رات ہی کومرگیاتوتم کیاکروں گا؟‘‘
’’صاحب آپ کے مقابلے میں مجھے یہ دوآنے زیادہ قیمتی لگتے ہیں کیا؟ خوش رہیے بابا! میں بھی کہاں ہمیشہ زندہ رہنے والاہوں۔‘‘
یہ اس نے کچھ ایسی نرمی سے کہاکہ مجھے خودشرم محسوس ہوئی اور میں نے اس سے کہا، ’’دیکھو! کل میں رخصت پرجارہاہوں، اس لیے یہ دوروپے تم اپنے پاس رکھو۔‘‘ اس کے ہاتھ میں نوٹ تقریبا ًٹھونستے ہوئے میں نے راہ لی۔ ہمیشہ خود کی پوزیشن اورڈگری کاخیال کرنے والے گوگٹے کومیری اوراس بوڑھے کی گفتگو پسندنہیں آئی۔ حقارت کے لہجے میں بولا، ’’چمارکی طرح ڈیڑھ پیسے کے آدمی کے ساتھ تم ایسی دوستی سے کیوں پیش آتے ہو؟‘‘
میں نے سنجیدگی سے کہا، ’’کیوں بابا! فٹ پاتھ پربیٹھتا ہے اس لیے نا؟ معمولی دھنداکیوں نہ ہو، مگر ایمانداری سے کرتاہے اور اس لیے وہ ڈیڑھ دمڑی کاہوا کیا؟ وہ بھی ایک آدمی ہے۔ اس کے بھی احساسات ہیں۔ خلوص نیتی سے بولنے والے آدمیوں کی اسے بھی پیاس ہے۔ آدمیت کے زینے پرسے اسے دیکھواورکہو اس میں اورہم میں کیافرق ہے؟ ہم تم جیسے تعلیم یافتہ مغرورآدمیوں میں جس فضیلت کاشائبہ تک نظرنہیں آئے گا، اس کا صحیح روپ ایسے لوگوں میں انجانے طورپرکبھی بھی دکھائی دیتاہے۔ اس فضیلت کے وجود کابھی احساس ان لوگوں کونہیں ہوتا۔ اکثراوقات یہی لوگ مجھے قریبی لگتے ہیں۔‘‘
گوگٹے خاموش ہوگیا۔
البتہ DIGNITYکی گپ ہانکنے والے گوگٹے نے کبھی اپنے دوآنے نہیں لیے۔ کیوں کہ میں اس کا دوست ہوں، اس لیے اسے دوآنے مانگتے وقت شایدشرم محسوس ہوئی لیکن اس نے یہ بات سمجھی نہیں کہ ایسے حسابی آدمی کے پیسے میں نے کبھی بھی نہیں رکھے ہوتے۔ یہی توبات ہوتی ہے حسابی آدمیوں کی۔
دوسرے دن میں رخصت پرگیا۔ پندرہ دن گھرپررہ کر، بمبئی کی مشینی زندگی میں میرے اندر کی انسانیت تومرنہیں گئی، یہ مجھے دیکھناتھا۔ لیکن میری رخصت ہنسی خوشی گزرے ایسی قدرت کی مرضی نہ تھی۔ دوروزمیں ہی اخبارمیں چھپی ہوئی وہ بھیانک خیزنظر سے گذری، ’’بمبئی فلورافاؤنٹین پرکل صبح ایک موٹرکارراستہ چھوڑکر فٹ پاتھ پرچڑھ گئی اوروہاں بیٹھنے والا چمارشدید زخمی ہوجانے کی وجہ سے شام کو جے جے اسپتال میں موت کاشکارہوگیا۔۔۔‘‘
مجھے ملاہواوہی بوڑھا تھا، اس کے بارے میں یقین ہوگیا اورمجھے رہ رہ کر اس کے الفاظ یادآنے لگے، ’’میں بھی کہاں ہمیشہ زندہ رہنے والا ہوں۔‘‘ اسی روز شام کوگوگٹے گھرآیا اور اس نے آتے ہی اگرکوئی پہلاسوال کیاہوگا، تویہ تھا، ’’کیوں دشاٍ! گئے ناتمہارے دوروپے؟ اورپندرہ بارہواہوتاپالش ان پیسوں میں۔‘‘
’’ہاں ہوگیاہوتا لیکن اس بوڑھے سے نہیں ہوتا۔ بھلے مانس میرے اپنے دوست کہلانے والے لوگوں نے پلک جھپکتے ہی مجھے دھوکادیاہے۔ اس بوڑھے کی قابلیت کس قسم کی تھی، اس پرجب تک میرابھروسہ ہے تب تک ان دوروپیوں کامجھے کبھی ملال نہ ہوگا۔‘‘ خفا ہوتے ہوئے بھی میں نے بہت نرم روی سے کہا۔
لیکن اس وقت سے جب جب ہم لوگ اس چمار کی جگہ پرآتے تھے، تب تب گوگٹے کسی نہ کسی موضوع کا سہارا لے کران دوروپیوں کے متعلق پوچھا کرتاتھا۔۔۔
اس نے آج بھی مجھ سے پوچھا تومیں نے صرف گردن ہلاکرانکارکردیا۔ مجھے حقیقت میں اس لڑکے کوکہے بنا آگے بڑھنادشوارمحسوس ہوا۔ پالش کرانے کے بہانے میں اس کے پاس گیا۔ وہ پالش کررہا تھا۔ اس وقت میں نے اس سے سادگی سے پوچھا، ’’تم اس جگہ پر کیوں بیٹھتے ہو؟ اس جگہ کے مقابلے میں اس پارتمہیں زیادہ آمدنی ہوگی۔‘‘ اس نے بوٹ پرسے نظریں ہٹائے بغیرجواب دیا، ’’صاحب جگہ بدلنے سے تقدیرنہیں بدلتی۔ قسمت میں سے مجھے جتناپیسہ ملنا ہوگا، اتنااس جگہ پربھی ملے گا۔‘‘
میں چونکا۔
ایک جگہ گڈریوں کے بچے ’’راجا راجا‘‘ کھیل کھیل رہے تھے۔ ان میں سے ایک لڑکاراجہ بن کرمدعیوں کے مقدموں کا فیصلہ دیتاتھا۔ اوروہ راجہ بناہوا لڑکا جس جگہ بیٹھاتھا، ا س جگہ کچھ ایسی فطری کرشمہ سازی تھی کہ عام حالات میں معمولی دکھائی دینے والا لڑکا اس جگہ پربیٹھتے ہی بے خطاانصاف کیاکرتاتھا۔ لوگ کہتے تھے کہ اس جگہ گاؤں کے اصلی راجہ کوتخت مل گیاتھا۔ وہ بکرمادتیہ کا تھا۔ ایسے کہاجاتاہے۔ اس طرح کی کہانی میرے بچپن میں میرے مطالعے میں آئی تھی۔ اس جگہ کی طرح اس جگہ پربیٹھنے والی ہستی بھی غیرمعمولی بول بولاکرتی ہوگی۔ اس قسم کا خیال میرے دل میں آنے لگا۔ اس لڑکے کاپالش کرنا ختم ہوا۔ میں نے دوآنے اس کے آگے پیش کیے۔ اس وقت وہ بولا، ’’صاحب! آپ وہ پیسے اپنے پاس ہی رکھئے۔ مجھے پیسے جمع کرناہیں۔ میرے پاس یہ خرچ ہوجائیں گے آپ کے پاس میرے ۴۔ ۵روپے جمع ہوجائیں تو اس وقت وہ آپ مجھے دے دیں۔‘‘
پہچان نہ ہوتے ہوئے بھی اس کے ظاہرکیے اعتماد سے مجھے تعجب ہوا ہی لیکن گوگٹے کابے حس چہرہ بھی لمحہ بھرکے لیے بدل گیا۔ میں نے کچھ نہ کہتے ہوئے پیسے جیب میں ڈالے اورجاتے جاتے دوبارہ اس لڑکے سے کہا، ’’بابارے! تم کہیں بھی بیٹھو مگر اس جگہ پرمت بیٹھو۔ کچھ سال پہلے اس جگہ ایک بوڑھا آدمی بیٹھا کرتا تھا۔ وہ موٹرکارکے نیچے آگیا، اس لیے تم سے کہتا ہوں کہ یہ اچھی جگہ نہیں ہے۔‘‘ اس پراس لڑکے نے اپنی پیشانی پردوانگلیاں لگانے کا عمل کیا۔ میری اور اس لڑکے کی دوستی بڑھنے لگی۔ روزجاتے جاتے بلاناغہ وہ مجھے ادب سے سلام کرنے لگا۔ اس کا سلام جب گوگٹے دیکھتا تو بول اٹھتا، ’’تمہارے پاس پیسے ہیں نا اس کے، اس لیے تویہ سلام ہے۔‘‘
اس دوران وہ وقتا فوقتا مجھے بلاکرپالش کردیاکرتاتھا۔ میرے کھاتے پرگوگٹے نے بھی چارپانچ بارپالش کرالیا۔ اس کے میرے پاس لگ بھگ پانچ روپے جمع ہونے کے بعدمیں نے اس سے کہا، ’’تمہارے اب میرے پاس پانچ روپے جمع ہوگئے ہیں، وہ نہیں چاہئیں؟‘‘
تھوڑی دیرسوچتے ہوئے وہ خاموش ہوگیا اوربعدمیں کھڑے ہوکر سہمی ہوئی آوازمیں بولا، ’’صاحب! پیسوں میں سے دو روپیے آپ ہی کے ہیں۔‘‘
میں سکتے میں آ گیا۔
’’صاحب کچھ سال پہلے حادثے میں مرجانے والاوہ بوڑھا۔۔۔ وہ۔۔۔ وہ۔۔۔۔ میرے پتاجی تھے۔ مرتے وقت انہوں نے میرے اورماں کے پاس آپ کے اورآپ کے دوست کی ہوبہوتفصیل بیان کی اورکہا، ’’زندگی بھرمیں نے ایمان داری سے زندگی گذاری، ویسے توبھی گذارے گاتوتجھے کبھی بھی تکلیف نہیں ہوگی۔ ہم پرکسی کا قرض نہیں ہے، صرف ا ن کا قرض دیناہے، اس لیے میرے بیان کیے ہوئے حلیے کا اگرکوئی آدمی دکھائی دے توتو، اس کی تصدیق کرلے، ان کے دوروپے واپس کر، صاحب! پہلے ہی دن میں نے آپ کوپہچانا تھا اوراب تومجھے یقین ہوگیا ہے، کہ آپ وہی ہیں نا؟‘‘
میں خاموش ہوگیا۔ میں نے اس لڑکے کواس کے پتاجی کی قسم دلاکر سارے پیسے لینے پرمجبور کیا۔ میں نے گوگٹے کی طرف دیکھا، اس کا پروقارچہرہ اتراہوا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.