Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ڈاکٹر والٹر

بلال حسن منٹو

ڈاکٹر والٹر

بلال حسن منٹو

MORE BYبلال حسن منٹو

    جب والٹر خاندان کا گھر بننا شروع ہوا تو ہمیں یہ مشغلہ ہاتھ آیا کہ ہم اکثر شام کو وہاں جا کے اس کے باہر منڈلاتے رہیں اور ریت اور بجری کی ڈھیریوں پر اچھل کود کرتے رہیں۔ میں، طلعت، عاقب، قمر اور مظہر۔ تب ماڈل ٹاؤن میں زیادہ تر گھر وہی تھے جو ہندؤ وں نے ہندو پاک کی تقسیم سے قبل بنائے تھے اور پھر بوکھلا کے، انھیں چھوڑ کر ایک دن ہندوستان چلے گئے تھے تا کہ کوئی مسلمان، ان گھروں پر قبضہ کرنے کی خاطر، یا یونہی، بغیر کسی معقول وجہ کے، ان کے سر قلم نہ کر دے، ان پر تیل چھڑک کر آگ نہ لگا دے یا کوئی بڑا اور تیز دھار خنجر ان کے پیٹوں میں نہ بھونک دے۔ یوں سرپٹ بھاگ جانے کی وجہ سے وہ یہاں مزید گھر تعمیر نہ کروا پائے اور زمین کے بہت سے ٹکڑے خالی کے خالی پڑے رہ گئے جن میں سے کسی کسی پر اب کبھی کبھی کوئی نیا گھر تعمیر ہو جاتا تھا۔ جب یہ والٹروں کا گھر ہمارے بالکل نزدیک ہی بننا شروع ہوا تو ہماری سست رو زندگیوں میں چھوٹی موٹی ہل چل سی پیدا ہوئی۔

    وہیں کودتے ہوئے اور ریت کے ڈھیروں میں سرنگیں بناتے بناتے مظہر نے ایک مزدور سے پوچھا تھا:

    ’’یہ کون لوگ ہیں جن کا یہ گھر بن رہا ہے؟‘‘

    ’’سائی‘‘ اس نے کہا تھا۔ یعنی کہ عیسائی۔ کرسچن۔ وہ لوگ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیرو کار ہیں اوران کو اعلیٰ ترین درجہ کا پیغمبر خدا مانتے ہیں۔ جیسے یہودی حضرت موسیٰ کو۔ خیر، کوئی کیا مانتا ہے کیا نہیں مانتا، کیوں مانتا ہے اور کیوں نہیں مانتا، ایسی پراسرار اور پر خطر باتوں کے بارے میں میں کچھ نہیں کہہ سکتا مگر اتنا ضرور ہے کہ مزدور کے بتانے سے پہلے ہی ہمیں کچھ نہ کچھ اندازہ تھا کہ یہ لوگ کسی غیر مذہب سے تعلق رکھتے ہیں کیونکہ یہ بات کئی اشاروں سے صاف ظاہر ہوتی تھی کہ یہ لوگ بہرحال ہم میں سے نہیں ہیں۔

    ابھی موذی جنرل ضیاء ہمارے ملک پر ایک لعنت بن کے نہیں اترا تھا اور ہمارے مذہب ِ اسلام کے بارے میں روز نت نئے شاخسانے نکلنے شروع نہ ہوئے تھے۔ ابھی کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ نہ آیا تھا کہ عنقریب یہ بھی ہوگا کہ دفتروں میں زبردستی نماز پڑھوائی جائےگی، یا یہ کہ کسی بھی نوعیت کی کوئی بھی عورت ٹیلی ویژن پر بغیر سر ڈھانپے نہیں آ سکےگی اور روز ہ کے وقت کھاتے پیتے نظر آنے پر سزادی جا سکےگی اور اس سب سے بھی زیادہ حیرت انگیز ایک بات یہ بھی ہوگی کہ روز، ہر روز پورے پاکستان کے سامنے ٹیلی ویژن پر عربی زبان میں خبریں سنائی جائیں گی۔ یہ سب ابھی ہونے ہی والا تھا، والٹروں کے ہمارے گھر کے نزدیک اپنا گھر بنانے کے کچھ ہی دنوں بعد۔

    یہ آخری بات، عربی خبروں والی، بہت ہی ششدر کر دینے والی تھی۔ یعنی یہ کہ روز ایک آدمی ٹی وی پرنمودار ہواور بغیر کوئی وجہ بتائے یک لخت کروڑوں لوگوں کی طرف چہرہ کر کے ایک ایسی زبان بولنا شروع کر دے جو وہ لوگ قطعاً نہ سمجھ سکتے ہوں۔ یعنی ہم پاکستانی لوگ جنہیں ملک عرب کے لوگ ’’باکستانی باکستانی ’’کہتے پھرتے ہیں، صرف اس لیے کہ انہوں نے اپنی زبا ن عربی میں ’’پے” کی آواز شامل نہیں رکھی ہوئی حالانکہ مناسب مشق کرنے سے کوئی بھی آواز منہ سے، یا حلق سے نکالی جا سکتی ہے۔ اس میں کچھ خاص مشکل نہیں ہے کیونکہ زبان محض گوشت کا ایک لوتھڑاہے جس کی ایسی تربیت کرنا کہ وہ طرح طرح کی آوازیں پیدا کر سکے، ایک بالکل آسان کام ہے۔

    بہرحال، عرب لوگوں سے اس بات کا گلہ کرنا کہ وہ ہمیں” باکستانی باکستانی” کیوں کہتے ہیں لا حاصل ہے۔ خاص طور پہ جب کہ وہ تو شاید خود یہ دیوانی بات دیکھ کر حیران ہوتے ہوں گے کہ یہ باکستانی کیسے انوکھے لوگ ہیں کہ اپنے ملک میں روز ہماری زبان میں خبریں سناتے ہیں اور ان خبروں میں جب ان کے ملک کا نام آتا ہے تو خود اسے ’’باکستان” کہتے ہیں۔

    شکایت کی بات اس میں یوں بھی نہیں ہے کہ اگر کوئی اپنی زبان کی تربیت نہ کرنا چاہے اور کچھ نئی قسم کی آوازیں اپنے حلق سے نکالنا اس کی ترجیحات میں شامل نہ ہو تو یہ اس کا ذاتی فیصلہ ہے۔ جو بھی ہو، یہ عربی زبان میں خبریں سنانے کی بات نہایت عجیب تھی، گو اس میں شک نہیں کہ میں اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز ایک بات جانتا ہوں، بلکہ شاید یہاں تک کہا جا سکتا ہے کہ وہ بات اس لائق ہے کہ اسے دنیا کی عجیب ترین باتوں میں شمار کیا جائے۔ وہ بات یہ ہے کہ باکستان کے بیشتر لوگ قرآن کریم کو، جو اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے،عربی میں تو پڑھتے چلے جاتے ہیں مگر ہرگز کسی ایسی زبان میں اسے پڑھنا ضروری نہیں جانتے جو وہ سمجھتے ہوں اور جس سے وہ یہ جان سکیں کہ اپنی آخری کتاب میں اللہ تعالیٰ نے کیسی کیسی عظیم الشان باتیں درج کی ہیں، کیا کیا حکم لگائے ہیں اور زندگی گزارنے کے کیا کیا اعلیٰ ترین اصول بتائے ہیں۔

    جب والٹروں کا گھر زیر تعمیر تھا، جنرل ضیا ء کا باکستان ابھی وجود میں نہ آیا تھا اور عورتوں کو شریف النفس اور پاک بازبنانے کے نت نئے نسخے بھی ایجاد نہ ہوئے تھے۔ مگر تب بھی عام طور پہ پاکستانی عورتیں سیدھا سادھا سا شلوار قمیض ہی پہنتی تھیں۔ فیشن محض اس طرح کے ہوتے تھے کہ چلو قمیض لمبی بنوا لو یا شلوارکے پائنچے ذرا تنگ کروا لو۔ اس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ ہاں کسی کا لباس ہی کسی خاص وجہ سے اور طرح کا ہوتا تو دوسری بات تھی۔ مگر وہ بھی ملک عرب یا برصغیر کے ہی کسی خطے کا ہونا چاہیے تھا۔ یعنی ایسا لباس جو شرافت، شرم و حیا ء یا ایسی دیگر چیزوں کے مطابق ہو۔ یہ تو نہ تب ہو سکتا تھا اور نہ اب، کہ ماڈل ٹاؤن یا سکھر یا چکوال، یا باکستان کے کسی بھی خطے کی عورتیں یہ کہہ دیں کہ ذرا دیکھو تو کہ اس جون کے مہینے میں آسمان سے کیسی آگ برس رہی ہے۔ سو ہم یوں کرتی ہیں کہ نیکر اور بنیان پہن لیتی ہیں یا نہانے کا لباس پہن کر کسی نہر یا تالاب میں گھس جاتی ہیں جہاں سے بوقت ضرورت کھانا پکانے یا کپڑے دھونے کے لیے باہر آ جایا کریں گی۔ یوں ہم لو لگنے سے مریں گی بھی نہیں اور اپنے خاوندوں کی وہ خدمت بھی کر سکیں گی جس کے لیے ہم پیدا کی گئی ہیں۔یہ اور بےشرمی وغیرہ کی ایسی دیگر باتیں جو نظریۂ پاکستان سے متصادم ہوں، ہمارے ہاں نہ تب ہو سکتی تھیں اور اور نہ آج ہو سکتی ہیں۔ اس زمانے میں اگر کسی کو کوئی مختلف نوعیت کا لباس پہننا ہوتا تو وہ لباس یہیں کہیں آس پاس کے کسی ایسے خطے کاہی ہونا چاہیے تھا جس میں بسنے والی عورتوں کو روٹی پکانا، کپڑے دھونا اور بچے پیدا کرنا ٹھیک ٹھیک آتا ہو۔ ایسا ایک قابل قبول لباس ذکیہ خالہ پہنتی تھیں جس کا نام ساڑھی تھا۔ ذکیہ خالہ ہر وقت یہی لباس پہنے رکھتی تھیں۔ ہر وقت۔باورچی خانہ میں، غسل خانہ میں، رات سوتے وقت، ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے، باغیچے میں ٹہلتے ہوئے اور نیم گرم پانی میں نمک ملاکے اس سے غرارے کرتے ہوئے۔ غرض کہ ہر وقت۔ ہم لوگوں کی مائیں بھی کبھی کبھی اس لباس سے شوق کرتی تھیں مگر ان کے لیے یہ خاص اہتمام والا لباس تھا۔ کسی تقریب میں پہننے کے لیے، جیسے کہ کوئی ولیمہ یا کسی کے غیر ضروری بچے کا عقیقہ۔ لیکن ذکیہ خالہ کہیں ہندوستان میں سے بیاہ کر لاہور آئی تھیں اور چونکہ ہندوستان میں عورتوں کی کثیر تعداد ساڑھی پہنے ادھر ادھر پھرتی نظر آتی ہے، اس لیے یہ عادت ذکیہ خالہ کو بھی پڑ چکی تھی گو یہ ضروری نہیں کہ آپ کہیں دورے پر گئے ہوں یا کسے اور خطے میں رہائش پذیر رہیں تو وہاں کے لوگوں کی سب عادتیں اپنانا شروع کر دیں۔ مثلاً اگر جابجا تھوک پھینکنے کی عادت کسی خطے کے لوگوں میں رائج ہو تو اس میں کچھ قابل تعریف یا مناسب بات نہیں کہ وہاں رہنے والے سب ہی لوگ یا دوسرے خطوں سے آنے والے لوگ یہ عادت اپنا لیں۔ مگر ساڑھی کی بات الگ ہے۔ یہ کوئی برا لباس نہیں ہے یا ایسا نہیں ہے کہ یہ بد چلن عورتوں کے لیے مخصوص ہے اور اسے پہننا، تھوک پھینکنے کی عادت کی طرح کوئی بری بات ہے، سوائے اس کے کہ اس میں پیٹ کا کچھ حصہ مستقل نظر آتا رہتا ہے، یہاں تک کہ کبھی کبھی ناف بھی نظر آنا شروع کر دیتی ہے اور ایسے بہت سے لوگ عرب ممالک اور پاکستان میں موجود ہیں جو اس بات سے طیش میں آکر ساڑھی پہننے والی عورتوں پر حملہ آور ہو جائیں۔

    سو دھان پان بلکہ پتلی باریک سی مسزوالٹر جو نیلی پیلی سکرٹیں اور جینز اور پتلونیں زیب تن کرتی تھیں، انھیں دیکھ کے ہمیں یہ تو اندازہ ہو چکا تھا کہ یہ لوگ کچھ نہ کچھ ہم سے فرق تو ہیں۔ اسی لیے اختر آنٹی نے پوچھا تھا کہ :

    ’’یہ کون لوگ گھر بنوا رہے ہیں؟‘‘

    اور آپا صغراں نے اپنی کرخت آواز میں یوں پوچھا تھا جیسے کوئی تنبیہہ کر رہی ہوں:

    ’’یہ کس قسم کے لوگ آنے والے ہیں یہاں؟‘‘

    کیوں کہ آپا صغراں آزاد خیال اور جدت پسند نہیں تھیں اور ان کی دونوں جڑواں بیٹیاں، فری اور پری برقعہ اوڑھ کر سکول جاتی تھیں۔ اگر آپا صغراں کا بس چلتا تو وہ والٹروں کو یہاں، اپنے محلہ میں ہر گز نہ آنے دیتیں۔ ایک تو سائی اور دوسرا بیگم والٹر کے ایسے بد چلن عورتوں والے کپڑے۔ نیلی پیلی سکرٹیں اور کبھی تو پتلون بھی۔ کیا ایسی سائی عورتیں موجود نہیں تھیں جو ہماری ماؤں وغیرہ کی طرح عام سا شلوار قمیض پہنتی ہوں؟ تھیں۔ جا بجا تھیں۔ مثلاً ہمارے ہی گھر میں صفائی کرنے والی گریس۔ تو پھر بیگم والٹر کو کیا خاص تکلیف تھی کہ ایسے ملبوسات میں اتنی دیدہ دلیری سے یہاں وہاں پھرتی رہتی تھیں؟ اس سے بھی زیادہ اعصاب شکن، خوفناک اور قابل مذمت بات جو آپا صغراں نے ان کے بارے میں ایک بار تصور کی اور پھرامی سے کہی، یہ تھی کہ:

    ’’جیہڑی گھروں باہر ایس طرحاں دے کپڑے پاندی اے، اوہ اپنے گھر وچ تے ننگی پھردی ہووےگی۔ پتلی سکی‘‘۔(1)

    امی تو یہ بات سن کر کانپ اٹھیں کیونکہ کسی کا ننگا ہونا، خاص طور پر کسی عورت کا، ایک ایسا بھیانک خیال تھا کہ جس کے دماغ میں پیدا ہونے کی جتنی بھی مذمت کی جاتی کم ہوتی چاہے وہ عورت مسز والٹر کی طرح پتلی سوکھی ہو یا موٹی تازی۔ مگر یہ بات آپا صغراں نے یونہی، کمینگی کی بنا پر کہی تھی، کیونکہ یہ بالکل غلط دلیل تھی کہ آپ گھر سے باہر جو لباس پہنتے ہیں، گھر کے اندر اس سے آدھا یا آدھے سے بھی کم پہنیں گے۔ ایسا تو بالکل نہیں تھا۔ باقی نیک خواتین اگر شلوار قمیض پہن کر گھر سے باہر نکلتی تھیں تو کیا گھر کے اندر کچھ اور، کوئی اس سے مختصر لباس پہنتی تھیں؟ہر گز نہیں۔ہاں یہ تھا کہ گھر کے اندر شاید ہر وقت جوتے نہ پہنے پھرتی ہوں یا دوپٹہ نہ لیتی ہوں۔مگر جوتے نہ پہننے کو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ ننگے پن کی علامت ہے یا بےشرمی کی جانب ایک قدم ہے اور گو کہ دوپٹہ لیے بغیر باہر جانے یا کسی آدمی سے گفتگو کرنے کو معیوب سمجھا جاتا تھا، جب بھی ضرورت پڑتی، مثلاً مالی سے بات کرنے کی یا ڈاکیے کا لایا ہوا پارسل وصول کرنے کے لیے دستخط کرنے کی، تو یہ نیک خواتین، جن میں سے کچھ کے خاوند انھیں اکثر تھپڑ مار دیتے تھے اور جن میں سے کچھ دستخط کرنا بھی نہیں جانتی تھیں، جھٹ دوپٹہ اپنے اوپر ڈال لیتی تھیں اور شرافت اور روحانی پاکیزگی کا یہ عظیم الشان نشاں اوڑھنے کے بعد ہی درواز ہ کھول کر ڈاکیے، مالی یا اخبار کا بل لانے والے سے ہم کلام ہوتی تھیں۔

    آپا صغراں کی زندگی میں عیسائیوں کا صرف ایک مصرف تھا اور وہ یہ کہ صبح آئیں اور گھر کی صفائی کر کے اپنی چائنہ بستی یا کہیں اور، دور ترچلے جائیں۔ گھر بھی وہ ان سے صاف نہ کرواتیں مگر غسل خانوں کی صفائی ایک ایسا کام تھا جسے ہمارے آس پاس کے زیادہ تر لوگ بہت نیچ سمجھتے تھے، یعنی اپنے پھیلائے ہوئے گند کی صفائی خود کرنے کو اور چاہتے تھے کہ کوئی اور آکر یہ کر جائے۔ یہ کام عیسائیوں کے لیے مناسب تھا، خاص طور پہ اس زمانے میں جب ابھی کئی گھر ایسے موجود تھے جن میں فلش سسٹم رائج نہیں ہوا تھا اور زنجیر کھینچ کر گندگی کو کہیں زیر زمین انجانی منزلوں کی جانب روانہ نہیں کیا جا سکتا تھا بلکہ کموڈ کے ڈبے اٹھا اٹھا کر لے جانے اور خالی کر کے، مانجھ کے واپس لانے پڑتے تھے۔

    آپا صغراں کے نزدیک یہ عیسائیوں ہی کے کرنے کا کام تھا مگر انہوں نے والٹروں جیسے عیسائی شاید پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے جو انہی کے محلہ اور ان ہی کے پائے کے گھر میں رہتے ہوں۔ وہ تو سوزن کو جانتی تھیں جو ان کے گھر میں یہ کام، یہ صفائی والا گندا کام، کرتی تھی یا سوزن سے پہلے ایلس۔ مگر ایلس کونوکری سے نکالنا پڑ گیا تھا کیونکہ آپا صغراں نے ایک دن اسے باورچی خانہ میں اپنے مقرر کر دہ سٹیل کے پیالے کی جگہ شیشے کے گلاس میں پانی پیتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ ان گلاسوں میں آپا صغراں اور ان کی جڑواں پردے دار بیٹیاں فری اور پری پانی پیا کرتی تھیں۔ جس دن آپا صغراں نے ایلس کو یہ گھناؤنی واردات کرتے پکڑا تھا وہ بڑی دل شکستہ تھیں۔ دل شکستہ اور شرمندہ۔ شرمندہ اس بات پر کہ نہ جانے وہ کب سے ایلس کے جوٹھے گلاسوں میں پانی پیتی آ رہی تھیں۔

    ’’ہائے ندرت بیگم ‘‘ آپا صغراں نے امی سے کہا تھا، ’’پتہ نہیں کدوں دے اسی ایہناں پلیت بھانڈیاں وچ کھا پی رہے ساں۔ پتہ نہیں کیہ کیہ پلیت کر دیتا اے ایہنے۔ ہن گھر دے سارے بھانڈے سٹنے پین گے‘‘۔(2)

    اس وقت تو امی خاموش رہیں مگر ان کے جانے کے بعد بڑ بڑاتی رہی تھیں۔

    ’’بد ذات عورت۔ مینوں تے ایہہ آپ پلیت لگدی اے۔ بکواس کر دی رہندی اے۔ الو دی پٹھی‘‘۔(3)

    ’’بدذات۔ میں نے دوہرایا ’’الو دی پٹھی۔‘‘

    ’’چپ کرو تم۔‘‘امی نے مجھے ڈانٹا اور پھر بڑبڑانے لگیں۔

    ’’اینی پاکی پلیتی پئی کردی اے تے آپ ہر ویلے انگل نک وچ پائی رکھدی اے۔ ہر ویلے پسینے دی بو آندی اے۔ کدی جے نہائی دھو ئی نظر آئی ہووے۔‘‘(4)

    آپا صغراں نے ایلس والے اس واقعہ کے بعد گھر کے تمام گلاس اور پیالیاں پھینک دیں۔ یہ بھی نہیں کہ کسی اور کو پوچھ لیا ہو کہ کیا آپ کو چاہئیں یہ برتن جو ایک عیسائی عورت نے پلید کر دیئے ہیں؟ چلو، یہ ہو سکتا ہے کہ شاید وہ اس بات کو ہی گناہ سمجھتی ہوں کہ ایسا ہتک آمیز سوال کسی مسلمان کے سامنے رکھا جائے، مگر عیسائیوں سے تو پوچھ سکتی تھیں۔ کسی اور صفائی کرنے والی سے پوچھ لیتیں۔ یا والٹروں سے۔گو عین ممکن تھا کہ والٹروں کے پاس ان سے بہتر اور زیادہ اقسام کے برتن موجود ہوتے، مثلاً شراب پینے کے گلاس جو ایسے ہوتے ہیں کہ ان کا وہ حصہ جس میں پینے والا مشروب بھرا جاتا ہے ایک لمبی ڈنڈی کے سرے پر قائم رہتا ہے جو خود ایک گول، چپٹے سے حصے پر سیدھی کھڑی ہوتی ہے۔ نجانے کیوں۔

    امی آپا صغراں کی پاکی پلیتی کی گفتگو پہ زیادہ اس لیے بھی چڑتی تھیں کیونکہ وہ محسوس کرتی تھیں کہ اصل میں ڈھکا چھپا کے، بہانے بہانے سے، انھیں بھی یہ باتیں سنائی جا رہی ہیں۔ ایسا شاید تھا بھی سہی کیونکہ آپا صغراں بہر حال ایک کم ظرف عورت تھیں اور چونکہ ہمارے گھر میں ملازمین یا کسی کا بھی مذہب کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا تھا اور ہم مسلمان، عیسائی، ہندو، بدھ، قبل از اسلام کے عرب بت پرست، غرض کہ ہر قسم کے ملازم بلا تامل رکھ سکتے تھے اور ان کے دھوئے ہوئے برتنوں میں ان کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا بھی کھا سکتے تھے، اس لیے آپا صغراں اکثر اشاروں کنایوں میں اس پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتی رہتی تھیں۔ طنزیہ گفتگو کے ذریعے۔

    ’’تسیں تے ماشاء اللہ بڑے روشن خیال تے پڑھے لکھے لوک او جی۔ ‘‘(5) یا ایسی کوئی اور چبھتی ہوئی بات، جیسا کہ ہمارے اسماعیل کو ملازم رکھنے پر انھوں نے کہا:

    ’’چلو شکر اے، ہے تے شیعہ پر کلمہ گو تے ہے۔ اگلی واری اللہ ہو بہتری کرےگا۔‘‘(6)

    ۔۔۔۔۔۔

    ابھی جب ہمارے محلے میں والٹر خاندان کا گھر مکمل نہ ہوا تھا اور ان کو اس میں رہائش اختیار کرنے میں کچھ وقت تھا، تو مظہر کو ایک خیال آیا۔

    ’’ہم اس گھر میں اپنی ورکشاپ بنائیں گے‘‘وہ بولا۔

    ورکشاپ میں، جو اب تک مظہر کے گھر کے پیچھے واقعہ سرونٹ کوارٹر میں قائم تھی اور جو مظہر اب اس نئے گھر میں منتقل کرنا چاہ رہا تھا، ہم ہوائی جہاز بنا رہے تھے۔

    ایک دن مظہر اپنے ابا کے ساتھ سینما میں کوئی فلم دیکھ کے آیا تھا جس میں طرح طرح کے جنگی جہاز جنگ میں حصہ لیتے دکھائے گئے تھے۔ اگلے روز وہ ہمیں اس کی کہانی سنا رہا تھا جب ایک دم اس نے اعلان کیا کہ ہم سب مل کر ہوائی جہاز بنائیں گے۔ جنگی جہاز۔ ہم لوگ اپنے اپنے گھروں سے اوزار اور دوسری چیزیں لے کر آئے۔ لکڑی کے تختے، لوہے کے ٹکڑے، پیچ کس، پلاس، لکڑی کاٹنے کی آری، لوہا کاٹنے کی آری، پیچ، نٹ، کیل اور بھی بہت کچھ۔ یہ سب چیزیں مظہر کے سرونٹ کوارٹر میں رکھی گئیں۔ مظہر ذرا ذرا وقفے سے، کچھ کچھ دنوں بعد، اپنے کیمرے سے ایک تصویر کھینچتا تھا۔ پہلے خالی کمرے کی۔ پھر جب اس میں سامان لا لا کے رکھا جا رہا تھا۔ پھر جب وہ سامان سے بھر گیا اور اسی طرح اگلے دنوں میں بھی۔وقفے وقفے سے۔

    ’’جب جہاز تیار ہو رہا ہو گا تو ہر پانچ دن کے بعد تصویر کھینچیں گے‘‘۔ اس نے کہا تھا۔

    ’’وہ کیوں؟‘‘

    ’’بعد میں جب جہاز تیار ہو جائےگا تو اخبار میں ہماری کہانی چھپےگی۔ تصویروں کے ساتھ۔‘‘

    مظہر ہی روز مختلف کام ہمیں بتاتا تھا۔

    ’’تم اس لکڑی کے ٹکڑے کو ریگ مار سے رگڑتے جاؤ۔‘‘ـ

    ’’تم لوہا کاٹنے والی آری سے یہ لوہے کی پتریاں کاٹو۔ پتلی پتلی۔‘‘

    اب کچھ عرصہ سے مظہر کی امی اونچا اونچا ڈانٹنے لگی تھیں کہ کوارٹر خالی کرو۔ کوارٹر خالی کرو۔ باہر گراؤنڈ میں کھیلا کرو۔ تبھی اسے یہ خیال آیا کہ والٹروں کے گھر میں ورکشاپ بنانی چاہیے۔

    ’’ہم کیسے اس گھر میں ورکشاپ بنائیں گے؟ کرسچن تھوڑے دنوں میں آ نہیں جائیں گے یہاں رہنے؟‘‘ عاقب نے پوچھا۔

    ’’نہیں آئیں گے۔ ‘‘ مظہر نے کہا اور ویسا ہی قہقہہ لگایا جیسا وہ آج رات پھر لگانے والا تھا۔ بھیانک اور بلند آواز۔ ہمیں کچھ سمجھ نہ آیا اور مظہر نے کہا کہ رات نوبجے، کھانے کے بعد میرے گھر میں اکٹھے ہونا ہو گا۔ یعنی میرے گھر۔ یہ فیصلے وہ خود ہی کر لیتا تھا کہ کہاں اکٹھے ہونا چاہیے کہاں نہیں۔ اب میرے گھر میں اکٹھے ہونے کا پروگرام بھی اس نے خود ہی بنا لیا تھا۔

    ’’سب لوگ رات کو آئیں گے۔ نو بجے۔ اس کے گھر۔‘‘

    رات کو نو بجے سب میرے گھر پہنچ گئے۔ مظہر، عاقب، طلعت اور قمر۔ طلعت کے ہاتھ میں ایک ٹارچ تھی جس کا بٹن دبانے سے کبھی پیلی روشنی نکلتی تھی کبھی لال اور کبھی پیلی مائل سفید، جیسی عام ٹارچوں سے نکلتی ہے۔

    ’’یہ ٹارچ کہاں سے لی ہے؟ اسے ساتھ کیوں لائے ہو ابھی؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    ’’ڈیڈی خرید کے لائے ہیں۔ مظہر نے کہا تھا رات کو اس کی ضرور ت پڑےگی۔‘‘

    ہم سب اپنے والد صاحبان کو ابا یا ابو کہتے تھے۔ صرف طلعت ہمیشہ ڈیڈی کہتا تھا، جیسے انگریز بچے بھی کہتے ہوں گے اور جیسے بعد میں پتہ چلا کہ والٹر خاندان میں بھی یہی رواج تھا۔

    ’’میرے گھر میں تو بجلی آ رہی ہے۔ ٹارچ کیوں منگوائی ہے؟‘‘میں نے مظہر سے پوچھا۔

    ’’بتاؤں گا۔ تم اپنا ٹیپ ریکارڈر اٹھاؤ اور ایک ٹیپ بھی جس پہ ہم کچھ ٹیپ کریں گے۔ چلو جلدی کرو۔ گیراج میں چلو۔‘‘

    مظہر ہم لوگوں سے ہمیشہ یوں بات کرتا تھا جیسے ہم اس کے حکم کے پابند ہوں۔ صرف اپنے گھر میں نہیں، ہر جگہ‘ جیسے ابھی میرے گھر میں مجھ سے بات کر رہا تھا۔

    گیراج میں پہنچ کر مظہر نے ٹیپ ریکارڈر کا پلگ ساکٹ میں لگایا اور ٹیپ اندر ڈال کے ریکارڈنگ کرنے کے لیے تیار ہو گیا۔

    ’’میں کہوں گا، یہ بھوتو ں کا مسکن ہے۔۔۔یہاں سے بھاگ جاؤ، اس سے دور رہو۔‘‘ جیسے ہی میں کہوں، ’’دور رہو‘‘ تم سب بھی باری باری کہوگے،”دور رہو‘‘ اونچا اونچا بولنا۔ ڈراؤنا بنا کے۔ ’’پھر میں زور کا قہقہہ لگاؤں گا۔‘‘

    اس نے ریکارڈ نگ شروع کی۔ ’’یہ بھوتوں کا مسکن ہے۔۔۔یہاں سے بھاگ جاؤ۔۔۔اس سے دور رہو‘‘۔

    ’’دو رہو‘‘ عاقب بولا۔

    پھر قمر، پھر طلعت۔ میں بولنے ہی والا تھا کہ مجھے ہنسی آ گئی۔

    ’’ہنسو مت۔ ہنسنا صرف میں نے ہے۔‘‘ مظہر نے غصے سے کہا۔ ’’جلدی کرو، ابھی ہمیں یہی چیز بار بار ٹیپ کرنی ہے۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    ’’سکیم ہے ایک۔ ٹیپ ریکارڈر ساتھ لے کے وہاں جائیں گے۔ کرسچنوں کے گھر۔ یہ جو ابھی ٹیپ کیا ہے اسے وہاں اونچا اونچا چلائیں گے تا کہ چوکیدار ڈر کے جاگ جائے اور کل کرسچنوں کو بتائے کہ یہاں بھوت رہتے ہیں۔‘‘

    ’’ٹیپ ریکارڈر کی کیا ضرورت ہے؟ہم خود ہی بول دیں گے۔ ٹیپ ریکارڈر میں بھی تو ہم نے ہی بولنا ہے۔‘‘ میں نے کہا۔

    ’’نہیں۔ ہم الگ الگ ہوں گے۔ عاقب اور قمر چھت پر جائیں گے۔ طلعت اور تم چوکیدار کے کمرے کے پاس جا کے چھپ جاؤگے اور وہاں ٹیپ ریکارڈر چلاؤگے تا کہ چوکیدار تک پوری آواز پہنچے۔ میں باہر سڑک پر کھڑا ہو کے نگرانی کروں گا کہ کہیں کوئی خطرہ تو پیدا نہیں ہو رہا۔ خطرہ ہوا تو یہ طلعت والی ٹارچ سے لال بتی بار بار جلاؤں گا تا کہ تمہیں پتہ چل جائے اور تم بھاگ آؤ۔‘‘ ہمارے لیڈر نے طلعت کی ٹارچ قبضے میں لیتے ہوئے کہا۔

    ’’کیسا خطرہ؟‘‘عاقب نے پوچھا۔

    ’’کوئی بھی خطرہ ہو سکتا ہے۔ یہ بہت خطرناک کام ہے۔‘‘

    ہم وہ بیہودہ ریکارڈنگ مکمل کر کے ٹیپ ریکارڈر میں بیٹری ڈال کے تقریباً دس بجے والٹروں کے زیر تعمیر گھر پہنچے۔ چوکیدار اپنی عارضی کوٹھری کے اندر کے بجائے باہر کھلے میں چارپائی ڈالے سو رہا تھا۔ عاقب اور قمر دبے پاؤں چلتے ہوئے گھر کے اندر گھس گئے اور وہاں سے چھت پر چلے گئے۔

    ’’یہ دونوں اوپر کیا کر نے گئے ہیں؟‘‘میں نے مظہر سے سرگوشی کی۔

    ’’اوپر بھی ہونا ضروری ہے کسی کا‘‘ وہ ذرا غصے سے بولا کیونکہ اس کے پاس اس سوال کا کوئی معقول جواب نہیں تھا۔ ’’چلو ...اب تم اور طلعت جاؤ۔ وہاں چوکیدار کی چارپائی کے پاس۔ چھپ کر اس کے کمرے کی دیوار کے پیچھے کھڑے ہو جانا اور وہاں سے ٹیپ ریکارڈر چلانا۔ چلو جاؤ۔‘‘

    خود وہ ہمار ا لیڈر، جو عمر میں ہم سب سے بڑا تھا اور اکثر اپنی دوست غیبی طاقت Black Hand کا ذکر کر کے ہمیں ڈراتا رہتا تھا، سڑک پہ محفوظ کھڑا رہا۔ لال پیلی روشنی والی نئی ٹارچ کے ساتھ۔ میں اور طلعت ٹیپ ریکارڈر پکڑے چوکیدار کی چارپائی کے پاس سے گزرتے ہوئے اس کی کوٹھری کے پیچھے چلے گئے۔ جب ہم وہاں جا کے رکے اور میں ٹیپ ریکارڈر چلانے لگا تو طلعت نے کہا۔

    ’’ڈر لگ رہا ہے۔‘‘

    ’’مجھے بھی۔‘‘ میں نے کہا اور ٹیپ ریکارڈر چلا دیا۔

    ’’یہ بھوتوں کا مسکن ہے۔ یہاں سے بھاگ جاؤ۔ اس سے دور رہو۔۔۔ دور رہو۔۔۔ دور رہو۔۔۔ دور رہو۔۔۔ ہا ہا ہا ہا۔۔۔ مضحکہ خیز بکواس فضا میں اونچا اونچا گونجنے لگی۔ ہم نے وہ ایک ہی اعلان مظہر کے قہقہے سمیت، کوئی بیس بار ریکارڈ کیا تھا۔ میں اور طلعت اور اوپر عاقب اور قمر خاموشی سے دبکے بیٹھے سنتے رہے۔ ایک بار، پانچ بار، دس بار، بیس بار۔ چوکیدار کے کان پہ جوں تک نہ رینگی۔

    مظہر نے سڑک پر سے پیلی روشنی جلانی بجھانی شروع کی۔

    ’’اس کا کیا مطلب ہے؟ خطرے کی لائٹ تو لال تھی نا؟‘‘ طلعت نے مجھ سے پوچھا۔

    ’’مجھے کیا پتا۔ شاید اس کا مطلب ہے ٹیپ دوبارہ چلاؤ۔‘‘ میں نے ٹیپ ریوائنڈ کی اور دوبارہ چلا دی۔ اب کہ میں نے اعلان کے بیس مرتبہ چلنے کا انتظار نہ کیا۔ جب دسویں بار چلنے پر بھی چوکیدار سوتا رہا تو میں نے جھنجھلا کے ٹیپ ریکارڈر بند کر دیا۔ مظہر نے پھر پیلی روشنی کو جلانا بجھانا شروع کر دیا۔

    ’’میری ٹارچ خراب کر دےگا۔‘‘ طلعت بولا۔ ’’ڈیڈی ماریں گے۔‘‘

    میرا خوف تو اب تک بالکل ختم ہو چکا تھا۔ عاقب اور قمر کا بھی ہو گیا ہوگا، کیونکہ ہمیں اوپر چھت سے باتیں کرنے کی آوازیں آنے لگی تھیں۔

    میں نے مظہر کو آواز دی: ”یہ تواٹھتا ہی نہیں ہے۔ کیا کروں؟ اس کی چارپائی ہلاؤں ذرا سی؟‘‘

    مظہر نے میری آواز سنی تو لال بتی تیز تیز جلانی بجھانی شروع کر دی اور میری بات کا کوئی جواب نہ دیا۔

    لال بتی بند ہو گئی اور میں نے دیکھا کہ ایک سایہ سا سڑک پہ بھاگتا چلا جا رہا ہے۔ دوسری طرف، یعنی والٹروں کے گھر سے دور، اپنے گھر کی طرف۔ ہمیں وہیں، بھوتوں کے مسکن میں طرح طرح کے انجانے خطرات میں گھرا چھوڑ کے۔

    ۔۔۔۔۔۔

    ڈاکٹروالٹر اور مسز والٹر اکثر اپنے بنتے ہوئے گھر کا معائنہ کرنے آتے تھے۔ ہم دور سے ان کو دیکھتے رہتے تھے۔ کبھی کبھی جب ہم ان کی ریت یا بجری پر کھیل رہے ہوتے اور وہ ہمیں اپنی پیلی فوکس ویگن میں آتے دکھتے تو ہم جلدی سے ادھر ادھر کھسک جاتے۔ سامنے میدان میں بھاگ جاتے، یا یونہی سڑک پر چہل قدمی کرنے لگتے۔ یہ بیہودہ سی بات تھی کیونکہ انھوں نے بہرحال ہمیں اپنی بجری اور ریت پر کودتے پھاندتے دیکھ تو لیا ہی ہوتا تھا اور اس لیے ہمیں یہ مکر کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ بلکہ ہمارے اس فعل کا تو صاف یہ مطلب تھا کہ جب تم لوگ یہاں نہیں ہوتے تو ہم لوگ تمہاری ریت بجری پر کھیلتے کودتے ہیں اور تم کو دیکھ کر بھاگ جاتے ہیں۔ یعنی ہمارے دل میں کچھ چور ہے۔ مسز والٹر کبھی کبھی ہمیں مسکرا کے ہاتھ ہلاتی تھیں اور پھر ٹھیکیدار یا چوکیدار کے ساتھ گفتگو میں مصروف ہو جاتی تھیں۔ ایسے انداز سے ہاتھ ہلاتی تھیں جیسے کسی پرانی انگریزی فلم میں کوئی عورت ولایت میں اپنے ہمسائے کے بچوں کو ہاتھ ہلاتی ہو اور کہتی ہو ”ہیلو بوائز‘‘۔

    ان دونوں، میرا اور سائمو، ڈاکٹر اور بیگم والٹر کے ساتھ بنتے ہوئے مکان کا معائنہ کرنے نہیں آتے تھے اور ان سے ہماری دوستی تبھی ہوئی جب وہ گھر کے مکمل ہونے پر وہاں، اس بھوتوں کے مسکن میں رہنے کے لیے آ گئے۔ تب ایک دن سائمو خود ہی ہمارے پاس سامنے کے خالی پلاٹ میں آ گیا جہاں ہم پہلے سے کھیل رہے تھے۔ اُس کے پاس ایک نیا چمکدار بیٹ اور بال اور وکٹیں تھیں جنھیں اٹھائے ہوئے، دونوں ٹانگوں پہ پیڈ لگائے اور ہاتھوں میں دستانے پہنے وہ ہماری جانب آیا تھا۔ جتنا موٹا وہ تھا، پیڈ اور دستانوں کی وجہ سے اس سے کہیں زیادہ دکھائی دے رہا تھا۔ ہم اپنے پرانے بیٹ بال سے کھیل رہے تھے اور وکٹوں کی جگہ ایک کرسی رکھی ہوئی تھی۔ جب سائمو آیا تو ہم نے آپس میں کوئی بہت لمبی بات چیت نہیں کی تھی۔ سب کچھ یونہی ہو گیا تھا جیسے ہمارے محلے میں آئے دن نئے لوگ آکے بستے رہتے ہوں اور وہ بھی عیسائی اور ہم یونہی فوراً ان سے دوستی کرکے ان کے ساتھ کرکٹ کھیلنا شروع کر دیتے ہوں۔ اگلے دن میرا اور پنکی آپس میں کھیلنے لگیں۔ پنکی، مظہر کی چھوٹی بہن تھی اور کچھ عجیب سی حرکات کرتی رہتی تھی۔ وہ ہر وقت کچھ کچھ بڑبڑاتی رہتی تھی جس کی کسی کو کچھ سمجھ نہ آتی تھی۔ پھر بڑبڑاتے بڑبراتے کبھی ایک دم اونچا بھی بول پڑتی تھی۔ خاص طور پہ جب اسے کوئی ضروری بات کرنا ہوتی تھی۔ میرا اس طرح بڑبڑاتی وڑبڑاتی تو نہیں تھی مگر وہ بھی کچھ دیوانی تھی۔ مثلاً کھیلتے کھیلتے کبھی ایسا ہوتا کہ یکلخت گھر کے اندر بھاگ جاتی، بغیر کچھ کہے، یا کبھی آ کے ہماری کرکٹ میں ایسے شامل ہو جاتی کہ جب بیٹنگ کرنے والا کوئی رن لیتا تو اس کے ساتھ ساتھ دوڑنا شرو ع کر دیتی۔ ان دونوں عجیب لڑکیوں کا آپس میں کھیلنا اور سہیلیاں بن جانا بالکل عجیب نہیں تھا۔

    سائمو کا اصل نام سائمن تھا۔ اس کی ممی اور ڈیڈی اسے سائمو کہتے تھے تو ان سے سن سن کے ہم نے بھی اسے سائمو ہی کہنا شروع کر دیا۔

    Simoo, come inside now. That's enough for today.

    مسز والٹر اکثر شام کو گیٹ پر آ کے لہک کے کہتی تھیں۔ جب ہم سامنے پلاٹ میں کھیل رہے ہوتے تھے۔ ان کی یہ پکار بھی ایسی ہوتی جیسے پرانی انگریزی فلموں میں عورتیں پکارتی دکھائی جاتی تھیں:”یوہو۔۔۔ یوہو”۔ یا ایسی ہی کوئی اور آواز یا بات۔ لہک لہک کے۔ کسی وادی میں شاید، جہاں ارد گرد اونچے اونچے پہاڑہوں، ایک ہاتھ منہ کے کنارے پہ رکھ کے، آدھا بھونپو سا بنا کے، دوسرا ہاتھ ذرا لہرا کے، نقلی اور فلمی سے طریقے سے۔ یوہو۔ یوہو۔

    کبھی کبھی مسز والٹر کی جگہ ڈاکٹر والٹر سائمو کو واپس بلاتے تھے مگر وہ لمبی بات نہیں کرتے تھے اور ان کی بات میں لہک اور موسیقی کے عوض رعب ہوتا تھا۔ Simoo, come inside۔ بس اتنا کہتے تھے ڈاکٹر والٹر اور موٹا سائمو اپنی وکٹیں اکھاڑ، بیٹ اور بال پکڑے ہمیں کھیل کے بیچوں بیچ چھوڑ کے دھپ دھپ کرتا کولہوں کے گوشت کو تھل تھل، دائیں بائیں دائیں بائیں ہلاتا، واپس بھاگ جاتا۔

    جیسے ہم لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں گھسے رہتے تھے، ویسے سائمو کے گھر میں نہیں گھستے تھے۔ جب وہ بلاتا تھا تبھی جاتے تھے۔ لگتا تھا کہ کچھ فاصلہ انھوں نے، یعنی والٹروں نے خود بھی ہم سے رکھا ہوا تھا۔ جیسے یوں ہو کہ سائمو ہمارے ساتھ صرف مجبوری میں کھیلتا ہو اور اصل میں اسے ہم سے کوئی خاص دلچسپی نہ ہو اور جیسے وہ سوچتے ہوں کہ تم کیا ہمیں اپنے سے کم تر سمجھوگے، عیسائی ہونے کے ناطے ہمارے روحانی اور مذہبی تانے بانے تو ولایت کے لوگوں سے جا ملتے ہیں اور اگر ہمارے بس میں ہو تو ہم تو بالکل بھی تم سے تعلق نہ رکھیں۔ اسی لیے جب وہ لوگ چلے گئے، اپنی چیزیں بیچ کر اور یہ کہہ کر کہ ہمیشہ کے لیے جا رہے ہیں، تو کبھی سائمو نے دوبارہ ہم میں سے کسی سے رابطہ نہ کیا۔ یعنی یہ کہ کبھی خط وط نہ لکھا۔ نہ میرا نے پنکی کے ساتھ کوئی رابطہ کیا۔

    کچھ ایسا فرق تھا ان میں اور ہم میں جیسا مشرق و مغرب میں ہو، جن کے بارے میں جا بجا درج ہے کہ ان دونوں کا ملاپ ناممکن ہے۔ اب جیسے امریکہ ہجرت کے وقت ان والٹروں نے اپنے گھر کی چیزیں بیچیں، ہمارے ہاں کون بیچتا ہے؟ جب G9 میں رہنے والے میاں ذکی شاہد کا پورا کنبہ ہوائی جہاز پہ سوار ہو کے مستقل رہنے کے لیے ولایت جا پہنچا تھا تو ان کی کوشش تھی کہ گھر کی ایک ایک چیز ساتھ لے جائیں۔ شنیل کی رضائیاں، کمبل اور گاؤ تکیے تک اور جو چیزیں ساتھ نہ جا سکیں، ان کو وہ میاں ذکی شاہد کے بھائی کے گھر رکھوا گئے۔ یعنی میاں تقی شاہد کے گھر جنھو ں نے برادرانہ محبت اور ایثار کی وجہ سے اپنے گھر کا ایک کمرہ محض اس مقصد کے لیے وقف کر دیا تھا۔

    مگر والٹر خاندان تو سائمو کی ربڑ سے بنی کھلونا شارک مچھلی تک بیچ کے گیا تھا۔ بھلا یوں کون اپنے بچوں کے کھلونے بیچتا ہے؟ سچ یہ ہے کہ مجھے تو شارک خریدتے ہوئے بھی شرم آئی تھی اور زیادہ سچ یہ ہے کہ دل ہی دل میں میں سوچتا تھا کہ سائمو اپنے دو چار کھلونے یونہی مجھے دے دےگا۔ مفت۔ بطور تحفہ۔ پر ایسا نہ ہوا۔

    یہ جو فرق تھا۔ ان میں اور ہم میں، اس کی ایک اور مثال بھی دی جا سکتی ہے اور وہ یہ کہ ہم لوگوں کو یہ معلوم تھا کہ دوسروں کے ابا کیا کام کرتے ہیں۔ مظہر کے ابا ریلوے میں تھے۔ طلعت کے ڈیڈی وکیل تھے، عاقب کے واپڈا میں تھے اور قمر کے ابا ہارٹ بیٹ انشورنس کمپنی میں تھے۔ میرے ابا کچھ نہیں کرتے تھے اور یہ بھی سب کو معلوم تھا۔ مگر ڈاکٹر والٹر کا ہمیں کافی عرصہ تک پتہ نہ تھا کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ وہ تو سائمونے جب ہمارے پیارے ہیپی کو پہلی بار دیکھا تو مجھ سے کہا کہ یہ لیبراڈار نسل کا ہے۔جب میں نے کہا کہ جی نہیں، یہ تو پوائنٹر ہے، تووہ طنزسے ہنسا۔

    ’’مجھے زیادہ پتہ ہے‘‘ اس نے کہا۔

    ’’مجھے میرے ابا نے بتایا ہے‘‘ میں بولا۔

    ’’میرے ڈیدی جانوروں کے ڈاکٹر ہیں۔ مجھے سب کتوں کا پتہ ہے” سائمونے کہا۔

    تب مجھے علم ہوا۔ یہ بھی کہ ہیپی لیبراڈار ہے اور یہ بھی کہ ڈاکٹر والٹر جانوروں کے ڈاکٹر ہیں۔ میں نے اسی شام ابا اورامی کو دونوں باتیں بتائیں جس پر ابا نے کہا کہ بڑوں کو contradict نہیں کرنا چاہیے، یعنی ان کی بات کا ابطال نہیں کرنا چاہیے، جس کا مطلب یہ تھا کہ اگر ابا کہتے تھے کہ ہیپی پوائنٹر ہے تو پھر مجھے اور سائمو کو کوئی اور رائے نہ رکھنا چاہیے تھی۔ مگر میں نے سوچا کہ اگر ڈاکٹر والٹر آ جائیں اور کہیں کہ ہاں یہ لیبراڈار ہے تو پھر کیا ہوگا؟ پھر کون جیتےگا؟ یا ہم پہلے یہ پتہ چلائیں گے کہ ابا عمر میں بڑے ہیں یا ڈاکٹر والٹر اور پھر فیصلہ ہوگا کہ کس نے کس کی رائے کا ابطال کیا ہے جو اسے نہیں کرنا چاہیے تھایا ڈاکٹر والٹر چونکہ عیسائی ہیں اس لیے اباشاید خود بخود جیت جائیں گے؟

    جب ہمیں پتہ چل گیا تو پورے محلے میں سب کو پتہ چل گیا اور ڈاکٹر والٹر کو ’’ڈنگر ڈاکٹر‘‘ بھی کہا جانے لگا۔ سب نے اطمینان کا سانس لیا کہ شکر ہے جانوروں کے ڈاکٹر ہیں انسانوں کے نہیں۔ جیسے ڈاکٹر سبحان تھے، جو انسانوں کے ڈاکٹر تھے اور اب مر چکے ہیں مگرجب زندہ تھے اور بچوں کا علاج کرتے تھے تو ساتھ ٹافیاں بھی دیتے تھے تا کہ بچے کڑوا مکسچر پلانے کی وجہ سے ان سے نفرت نہ کریں۔

    اصل میں انسانوں کا ڈاکٹر جس کا نام والٹر ہو ہم نے کبھی دیکھا نہیں تھا اور جو ہم نے دیکھا نہیں تھا اس کا ہونا نہ ہونا برابر تھا۔ عیسائیوں ہی میں ہوتے ہوں گے ایسے غیرضروری ڈاکٹر جو عیسائیوں ہی کا علاج کرتے ہوں گے۔ اب جب پتہ چلا کہ ہاں ڈاکٹر ہیں مگر جانوروں کے، تو محلہ کی جان میں جان آئی کہ چلو، جانوروں کے ہی ہیں نہ۔ ہم مسلمان کہاں چاہتے تھے کہ کوئی عیسائی اصل ڈاکٹر ہو اور اس کی میز کا تھرمامیٹر ہماری بغل میں جائے۔ گو یہ درست ہے کہ یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ صاف کہہ دیں کہ میں اس ڈاکٹر کے نہیں جاؤں گا اور اس سے علاج نہیں کرواؤں گا کیونکہ یہ عیسائی ہے مگر کبھی جب آپ کی جان پر بن آئے، آپ کو رات گئے دل کا دورہ پڑ ے، یا پیچش قابو سے باہر ہو جائے، تو پھر آپ کو جان کے لالے پڑے ہوں گے اور تب شاید آپا صغراں بھی یہ نہ کہہ سکیں گی کہ نہیں نہیں، میں مر جاؤں گی مگر عیسائی ڈاکٹر سے طبی امداد نہ لونگی۔ اس کے باوجود کہ اس طبی امداد میں یہ بھی شامل ہو سکتا ہے کہ عیسائی ڈاکٹر ان کے منہ سے منہ لگائے اور زور زور سے سانس ان کے حلق اور پھیپھڑوں میں پھونکے تا کہ وہ موت کے منہ سے واپس آ جائیں۔

    ڈاکٹر والٹر تو خیر شکر ہے ڈنگر ڈاکٹر ہی نکلے مگر ذرا عجیب بات ہے کہ ہم لوگوں کے سائمو کے ساتھ کھیلنے پر کوئی روک ٹوک نہیں تھی، شاید اس لیے کہ ہماری مائیں سوچتی تھیں کہ بس یہ بچے گھر سے باہر ہی کھیلتے رہیں اور گھر میں رہ کر ہمیں دق نہ کریں۔ خود ڈاکٹر والٹر اور مسز والٹر بھی ہمسایوں سے ملتے جلتے نہیں تھے اور نہ ہمسایوں کو کوئی ایسی حسرت تھی۔ ’’سائی ’’ہونے کے علاوہ اس کی وجہ ان کا شراب پینا بھی تھا اور یہ تو تھا ہی کہ مسز والٹر سگریٹ پیتی تھیں، نیلی پیلی سکرٹیں یا پتلون پہنتی تھیں، مالی اور ڈاکیے سے بغیر دوپٹہ اوڑھے ہم کلام ہوتی تھیں،اور اپنی پیلی فوکس ویگن کو ماڈل ٹاؤن کی سڑکوں پہ دوڑاتی ہوئی لے جاتی تھیں۔

    ۔۔۔۔۔۔

    ابھی برسات کی بارشیں، جو ہر سال جولائی اور اگست میں بحیرہ عرب سے آن پہنچتی ہیں، لاہور نہیں پہنچی تھیں اور گرمی بہت تھی۔ ہم سائمو کے گھر برآمدے میں کھیل رہے تھے۔ ہم تو اس موسم میں بھی اطمینان سے باہر میدان میں کرکٹ کھیل سکتے تھے مگر مسز والٹر نے ہمیں سختی سے سورج تلے کھیلنے سے منع کر دیا تھا۔ ہم سائموکے کھلونوں میں مشغول تھے، خاص طور پر ریل کے ایک سیاہ انجن میں جو اس کی آنٹی فلورا، امریکہ سے لیکر آئی تھیں اور جس کے ساتھ دو بوگیاں جوڑ کر اس کو پلاسٹک کی بنی ریل کی پٹریوں پر چلایا جا سکتا تھا۔ پٹریوں کے ٹکڑ ے جوڑنے سے ایک گول دائرہ بنتا تھا اور یہ انجن بار بار اس دائر ہ میں بے وجہ گھومتا چلا جاتا تھا۔

    یکا یک مسز والٹر نے زور سے گھر کا دروازہ کھولا اور گھبرائی ہوئی برآمدے میں آئیں۔

    ’’Go home۔ گھر جاؤ سب بچے جلدی سے‘‘۔ انھوں نے کہا

    ہم نے حیرت سے ان کی جانب دیکھا۔ ابھی کچھ ہی دیر پہلے تو ہم آئے تھے۔

    ’’کرفیو لگ گیا ہے۔ گھر جاؤ‘‘ انھوں نے کہا۔مگر پھر بولیں، ’’نہیں نہیں۔ تم سب اندر آؤ۔ باہر کرفیو ہے۔ میں تمھارے گھروں پر فون کرتی ہوں۔‘‘

    What's curfew سائمونے مسز والٹر سے پوچھا اور یہ ہمارے لیے، ہم سب کے لیے، سب سے مرعوب کن بات تھی۔ سب سے مرعوب کن۔یعنی جب یہ ماں بیٹاآپس میں انگلش کے فقروں کا تبادلہ کرتے تھے۔ یکے بعد دیگرے، تواتر کے ساتھ اور تیز رفتاری سے۔ ہم حیران رہ جاتے تھے اور دانتوں تلے انگلیاں دبا کے ان ماں بیٹے کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے تھے۔

    مسز والٹر نے بتایا کہ وہ فوج جو اس مقصد کے لیے رکھی ہو ئی تھی کہ جنگ وغیرہ کرنے کے کام آئےگی، اس نے خود ملک ہی پر قبضہ کر لیا ہے اور لوگوں کو منع کر دیا ہے کہ گھروں سے باہر نہ نکلیں۔ مظہر نے پوچھا کہ اگر کوئی بد ذات لوگ جو سرکش ہوں اور کہنا نہ مانتے ہوں اس اعلان کے بعد بھی باہر نکل آئیں تو کیا ہوگا؟ اس پر مسز والٹر نے کہا کہ انھیں نہیں معلوم کہ اگر نکل آئیں تو کیا ہوگا کیونکہ وہ ساری عمر کرفیو میں نہیں رہتی رہیں۔ عاقب نے پوچھا کہ کیا فوج نے غلطی سے قبضہ کر لیا ہے ؟کوئی اور ملک سمجھ کر، یا جان بوجھ کے کسی جنگی پریکٹس کے لیے قبضہ کیا ہے ؟مسز والٹر جھنجھلا گئیں اور کہا Keep Quiet پھر وہ ہم سے نمبر پوچھتی گئیں اور ہمارے گھروں میں فون کرتی گئیں۔ ہم میں سے کسی کے گھر والوں کو ابھی یہ نہیں پتہ چلا تھا کہ کرفیو لگ گیا ہے اور مظہر اور عاقب کی ماؤں نے مسز والٹر سے پوچھا بھی کہ کرفیو کیا ہوتا ہے اور کیوں لگ گیا ہے۔ معلوم ہوتا تھا کہ یہ صرف مسز والٹر ہی تھیں جنھوں نے ریڈیو لگا رکھا تھا اور یہ خبر سنی تھی اور یہ بات بالکل مناسب بھی بیٹھتی تھی کیونکہ وہ دنیا کی خبر رکھنے والی ایک جدید عورت تھیں۔ انھوں نے ہماری ماؤں کو بتایا کہ کوئی آدمی ہے جسے ضیاء، ضیاء کہتے ہیں۔ اس نے فوج میں جنرل کی نوکر ی لے رکھی تھی اور گو کہ ابھی کچھ صاف صاف نہیں پتہ چلا مگر معلوم یہ ہوتا ہے کہ وہ نمک حرام نکلا ہے یا شاید ذ ہنی مریض ہے اور اس نے یک لخت وزیر اعظم بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کے ملک پر اپنا اور اپنی فوج کا قبضہ جما لیا ہے۔

    ہماری ماؤں نے اس خبر پر ایک مبہم سے افسوس کا اظہار کیا مگر ان کی نظر میں یہ کوئی ایسی بات نہ تھی کہ بچے سڑک پر چل کے اپنے گھرو ں میں واپس نہ جا سکیں۔ ان کا خیال تھا کہ مسز والٹر خواہ مخواہ گھبرا رہی تھیں۔ خیر انھوں نے یہ تو مسز والٹر سے نہیں کہا، مگر یہ کہا کہ کوئی بات نہیں، ہمارے گھر کون سے دور ہیں۔ بچوں سے کہیں بھاگ کے گھر آ جائیں۔

    مسز والٹر ہمیں لے کے باہر آئیں اور گیٹ سے ہمیں نکال کے کہا کہ تیز تیز بھاگتے ہوئے گھروں کوجاؤ۔ خود وہ گیٹ بند کر کے کچھ دیر اوپر سے جھانکتی رہیں اور دائیں بائیں دیکھتی رہیں کہ کہیں کوئی فوجی تو نہیں آ رہے جو ہمیں پکڑلیں یا ہمیں گولیوں سے چھلنی کر دیں یا اپنے ٹینکوں تلے ہمیں روند کے ہمارے جسموں کا ملیدہ سڑک پہ بکھیر دیں یا پھر جو بھی کرفیو میں باہر نکلنے والوں کے ساتھ کرتے ہیں وہ کر دیں۔

    جب میں گھر پہنچا تو ابا اور نوید بھائی ریڈیو سن رہے تھے۔ ابا ابھی ابھی باہر سے واپس آئے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ کرفیو تو ہے مگر لوگوں کو مہلت بھی دی جا رہی ہے کہ وہ اپنے اپنے ٹھکانوں پر پہنچ جائیں۔ ریڈیو پر ایک آدمی بڑے غم سے یہ بتا رہا تھا کہ پاکستان میں جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا ہے اور سابق وزیر اعظم کو کہیں نامعلوم مقام پر پہنچا دیا گیا ہے۔ مجھے سابق کا مطلب نہیں معلوم تھا مگر جب میں نے پوچھنا چاہا تو ابا نے مجھے چپ رہنے کا اشارہ کیا کیونکہ وہ انہماک سے ریڈیو سن رہے تھے۔ تب نوید بھائی نے میرے کان میں بتایا کہ سابق کا مطلب ہوتا ہے پرانا، یعنی جو، اب نہ ہو۔ مجھے اس بات سے کوئی غرض نہ تھی کہ جنرل ضیاء نے کیا کچھ کیا ہے اور بھٹو سابق ہو گیا ہے۔ کیا ہے تو کیا ہے اور ہو گیا ہے تو ہو گیا ہے۔ مگر ہم اب کیا اپنے گھروں میں بند رہیں گے؟

    شام کو ایک آدمی TV پہ نمو دار ہو کے بولنا شروع ہوا۔ جب میں نے اسے دیکھا اور مجھے پتہ چلا کہ یہی وہ جنرل ہے جس نے کرفیو لگایا ہے تو مجھے خوف محسوس ہوا۔ وہ کوئی عام آدمی نہیں تھا۔ وہ بڑی ڈھٹائی سے اپنے چہرے پہ بد نما مونچھیں سجائے ہوا تھا اور جب وہ بولتا تھا تو اس کی جھینگر کی سی آواز سن کے لگتا تھا کہ وہ اس سے کسی کی شہ رگ کاٹ کر ذبح کر رہا ہے۔ وہ اپنی وردی پہن کر، خوب تیاری کے ساتھ، اپنے بالوں میں تیل مل کے ٹی وی پر تقریر کرنے آیا تھا اور اس کی وردی پر جا بجا تمغے آویزاں تھے جو نامعلوم اس نے کہاں سے لیے تھے۔ کالے موٹے فریم کی عینک میں سے اس کی آنکھیں بار بار اوپر دیکھتی تھیں، میری طرف۔

    اس نے، جنرل ضیاء نے، کہا کہ ملک کے حالات بہت خراب ہو چکے تھے۔ اس نے کہا کہ وہ کوئی قبضہ جمانے نہیں آیا بلکہ کچھ دنوں میں الیکشن کروا کے چلا جائےگا۔

    ’’جھوٹ بول رہا ہے‘‘ ابا نے کہا ’’ذلیل۔۔۔‘‘

    ’’آپ کو کیسے پتا ہے‘‘؟ میں نے پوچھا۔

    ’’اس کی شکل پہ لکھا ہے۔ دیکھو، غور سے دیکھو؟‘‘

    میں نے غور سے اس کی شکل دیکھی۔

    ’’جھوٹ بول رہا ہے‘‘ میں نے کہا حالانکہ مجھے اس کی شکل سے کچھ پتہ نہیں چلا سوائے اس کے کہ وہ بڑا مکروہ تھا۔ مگر میں ابا کی تائید کرنا چاہ رہا تھا کیونکہ مجھے اس جنرل سے نفرت ہو رہی تھی۔ کیسے میں اچھا بھلا ریل کے انجن کو بے وجہ گھومتے دیکھ رہا تھا جب اس کی بد ذاتی کی وجہ سے مجھے اچانک گھر آنا پڑا تھا۔

    ۔۔۔۔۔۔

    ’’باہر کرفیو ہے” ابا نے مجھے جوتے موزے پہنتے دیکھ کر کہا۔

    ’’ابھی تک؟؟؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔ اب تو شام ہو گئی تھی اور میں اتنی دیرسو بھی آیا تھا۔

    ’’ختم نہیں ہوا کرفیو ؟‘‘ مجھے اس مکروہ شخص سے اور نفرت محسوس ہوئی۔

    ’’آخر اس نے کس سے پوچھ کر قبضہ کیا ہے؟ کیوں کیا ہے؟‘‘ میں نے سخت جھنجھلا کے کہا۔

    ’’فارغ تھا‘‘ نوید بھائی نے کہا۔

    ابا ہنسنے لگے۔ میں نے نوید بھائی کی بات کا مطلب پوچھا۔ یعنی یہ کہ کوئی فارغ ہو تو کیا حکومت پر قبضہ کر لے؟ ہم جب چھٹیوں میں فارغ ہو تے ہیں تو ہم بھی کہیں قبضہ کر سکتے ہیں؟ جیسے مظہر نے والٹروں کے گھر پر کرنا چاہا تھا؟

    ’’اگر میں روز تم سے کسی کام کی ریہرسل کرواؤں اور وہ اصل کام کبھی ہو ہی نہ، تو تم ریہرسل کر کر کے بور نہیں ہو جاؤگے؟‘‘ نوید بھائی نے مجھ سے پوچھا۔

    ’’پتہ نہیں’’ میں نے بیزاری سے کہا ’’میں روز کرکٹ کھیلتا ہوں مگر بور نہیں ہوتا۔‘‘

    ’’اوہو بھئی کھیل کی بات نہیں کر رہا، کام کی بات کر رہا ہوں۔ ہو جاؤگے بور۔بہت تنگ آ جاؤگے۔ دماغ میں الٹی سیدھی باتیں آنا شروع ہو جائیں گی۔ پھر تم بہانے ڈھونڈوگے ایسا کام کرنے کے جیسا اس نے کیا ہے۔‘‘

    ابا ہنسنے لگے۔ پھر انھوں نے کہا کہ کاش ایسا ہی ہوتا۔ یہ تو نسبتاً معصوم سی وجہ ہے قبضہ کرنے کی اور مارشل لا لگانے کی۔ یہ لوگ تو اس سے کہیں زیادہ مکار ہیں۔

    ’’مارشل لا کیا ہوتا ہے؟‘‘ میں نے ذرا غصے سے پوچھا۔ ’’ابھی تو کرفیو لگا تھا۔اب کچھ اور بھی لگ گیاہے؟؟؟‘‘

    ’’مارشل لا وہ ہوتا ہے جو اس نے لگایا ہے۔ یعنی اس کمینے کی حکومت۔ اصل میں تو اس نے اپنی حکومت بنا لی ہے۔ کرفیو تو اس لیے لگایا ہے کہ لوگ گھروں سے نہ نکلیں اور سابق وزیر اعظم کو اس کی قید سے چھڑانے کی کوشش نہ کریں‘‘۔

    ’’کب ختم ہوگی یہ بکواس؟‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’میں گھر میں بور ہو رہا ہوں‘‘۔

    ۔۔۔۔۔۔

    مکروہ جنرل لوگوں کو دھمکانے کے لیے روز نت نئی بکواس کرتا تھا۔ کبھی کہتا تم لوگوں کوکوڑے ماروں گا، کبھی کہتا بیچ چوک سولی پر چڑھا دوں گا۔ اس بدذات کے منہ سے کبھی کسی نے کوئی اچھی بات نہیں سنی تھی۔ ہم بچوں کو تو نہ اس کی ان باتوں کا کچھ خاص پتہ ہوتا تھا اور نہ کچھ خاص فرق پڑتا تھا مگر کئی لوگوں کو بہت فرق پڑا۔ جیسا کہ والٹروں کو۔

    بیگم اور ڈاکٹر والٹر ایک رات چھاؤنی کے علاقہ میں اپنے دوست کے ہاں سے اپنی پیلی فاکسی پہ سوار واپس آ رہے تھے۔ ذرا دیر کا وقت تھا، شاید بارہ بجے ہوں گے جو اس وقت کے لاہور میں کافی رات گئے کا وقت سمجھا جاتا تھا۔ یہ اچھے اور دلفریب موسم کی بات ہے، مارچ، اپریل کی، کیونکہ یہ واقعہ عیسائیوں کے اس تہوار کے آس پاس ہوا تھا جس کا نام انہوں نے ایسٹر رکھا ہوا ہے اور جو وہ اس وجہ سے مناتے ہیں کہ ان کو یقین ہو چکا ہے کہ سینکڑوں برس پہلے لگ بھگ سال کے اسی وقت خدا نے حضرت عیسیٰ کو صلیب پہ چڑھنے کے چند روز بعد دوبارہ زندہ کر دیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اگر آپ یہ مانتے ہیں کہ جی ہاں بالکل ایسا ہی ہوا تھا تو پھر یہ ایک نہایت غیرمعمولی بات ہے اور اس کی یاد کو جتنا بھی منایا جا ئے کم ہے۔ مگر صدمے کی بات یہ ہے کہ انسانوں کا ایک دل جلا گروہ ایسا موجود ہے جو ہر طرح کی مذہبیت اور روحانیت سے دور ہے اور اس وجہ سے واصل جہنم ہوگا۔ وہ گروہ تمام مذاہب میں نقائص نکالتا ہے اور عیسائیوں کے اس تہوار کے خلاف بھی طرح طرح کی باتیں کرتا ہے اور نئے نئے دلائل گھڑتا ہے۔

    لیکن ڈاکٹر والٹر اس شر انگیز لا مذہب طبقے سے تعلق نہیں رکھتے تھے بلکہ وہ تو اپنے ایمان میں بےحد مستحکم تھے ورنہ کاہے کو یوں اس قدر اسلامی اور خداداد ملک میں عیسائی بن کے رہے چلے جا رہے تھے جہاں آپا صغراں کی سی عورتوں اور مردوں کی بہتات تھی اور اس لیے وہ اپنے اس مذہبی تہوار کی خوشی میں اپنے دوستوں کے گھر شام کا طعام اڑانے مسز والٹر کے ساتھ گئے تھے۔ اجلے کپڑوں میں، جو نئے دھلے ہوئے تھے اور احتیاط سے استری کیے گئے تھے۔

    لوگ اپنے اپنے مذاہب کے تہوار منانے پہ مصر ہوتے ہیں تو ہوں مگرنہ جانے کیسی ان پرخدا کی لعنت ہے کہ یہ لوگ، یہ عیسائی لوگ۔۔۔ بلکہ سوائے ہم پیارے مسلمان لوگوں کے، تمام مذاہب کے لوگ۔۔۔ اس سادے اور پاکیزہ طریقے سے کوئی تہوار منا ہی نہیں سکتے جیسے ہم لوگ مناتے ہیں۔ کچھ نہ کچھ ان غیرمذاہب کے لوگوں نے خراب اور نا پسندیدہ حرکت ضرور کرنا ہوتی ہے اور پھر جب اس حرکت کی وجہ سے ہمارے پیارے اور پاک خداداد وطن میں ان پہ کوئی آفت ٹوٹ پڑتی ہے تو وہ شوروغل مچا مچا کے شکایت پہ شکایت کرتے ہیں کہ دیکھو دیکھو کیسا ہم پہ ظلم ہو گیا۔ ہم کتنے مظلوم ہیں۔ یعنی بالکل ناحق واویلا کرتے ہیں اور آسمان سر پہ اٹھا لیتے ہیں۔

    ڈاکٹر والٹر نے وہاں اس مذہبی طعام پر شراب کے کچھ جام لنڈھا لیے کیونکہ وہ جس دوست کے ہاں ایسٹر منانے گئے تھے وہ طرح طرح کے پھلوں سے شراب کی ایک قسم کشید کرنے میں ماہر تھا اور یہ کام اپنے گھر کے ایک مخصوص کمرے میں دل جمعی سے کرتا تھا۔ یہی نہیں، اس میں حیرت سے ششدررہ جانے والی بات یہ ہے کہ وہ اس غلیظ اور حرام فعل کو نہایت مہارت سے کرنے میں بہت فخر محسوس کرتا تھا اور سر عام کہتا پھرتا تھا کہ مجھ سے بہتر یہ مشروب کوئی اور کشید نہیں کر سکتا۔ کم از کم لاہور میں تو کوئی میرا ہمسر اس مکروہ بدمعاشی میں نہیں ہے۔ شراب کی اس پھلدار قسم کا نام پینے پلانے والے قابل مذمت طبقے نے wine رکھا ہوا ہے۔ خیر، آپ اس کا نام wine رکھیں یا woman سچائی ایسے سجاوٹی اور انگریزی الفاظ سے چھپائی نہیں جا سکتی اور سچ اور حق بات یہی ہے کہ یہ محلول جو وہ نیچ آدمی بڑے فخر سے کشید کرتا تھا، شراب تھی اور اسے وائن کہہ کر اس کی خباثت میں کوئی کمی پیدا نہیں کی جا سکتی۔ اِس لیے ڈنکے کی چوٹ اس کا اصل نام بتانا چاہیے، یعنی شراب، شراب، شراب، تا کہ بات بالکل واضح ہو جائے اور کوئی ابہام باقی نہ رہے۔

    اس واقعہ کی بابت، اس شراب نوشی کے مکروہ واقعہ کی بابت، جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، ہم نے یہ بھی سنا کہ اس میں ڈاکٹر والٹر کے ساتھ بیگم والٹر بھی ملوث تھیں۔ یعنی شراب جیسے ذلیل مشروب کی چسکیاں وہ بھی لیتی رہی تھیں۔ لیکن اس بات کا کسی کو پکا یقین نہیں تھا اور چونکہ انسان کی عظمت جس قسم کی باتوں سے ظاہر ہو تی ہے ان میں سے ایک یہ بھی مشہور ہے کہ وہ انصاف کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑے اور حق بات کرنے سے کبھی گریز نہ کرے اس لیے فوراً مان لینا چاہیے کہ بیگم والٹرکے اس قابل مذمت فعل میں ملوث ہونے کی تصدیق کبھی نہ ہو سکی۔ یہ تصدیق کرنے کا کسی کے پاس کوئی ذریعہ نہیں تھا اور نہ اس میں بہت زیادہ دلچسپی ہی کسی کو تھی کیونکہ یہ الزام آپا صغراں نے لگایا تھا جن کے بارے میں سب جانتے تھے کہ وہ غیر مذاہب کے لوگوں سے سخت نفرت کرتی تھیں۔

    وہ دونوں، ڈنگر ڈاکٹر اور بیگم، خوشی خوشی رات گئے اپنی پیلی گاڑی میں بیٹھے اور اپنے میزبان کو ’’ٹاٹابائے’’ اور ’’گڈ نائٹ، گڈ نائٹ” بولتے ماڈل ٹاؤن کی طرف روانہ ہوئے، یہ سوچتے ہوئے کہ کل ایسٹر کا مقدس تہوار مزید منائیں گے، انگریزی میں مزید علیک سلیک، گڈ مارننگ، ہیپی ایسٹر، ٹا ٹا بائے، ٹا ٹا بائے کریں گے اور ایسے الفاظ بول کے، نیز عیسائی ہونے کے ناتے، اپنے کو انگریزوں کے قریب تر سمجھیں گے۔

    ایسے جھوٹے سچے خواب وہ دونوں دیکھتے گلبرگ کی بڑی سڑک پہ اپنی پیلی فاکسی دوڑاتے لبرٹی مارکیٹ کے گول چکر تک پہنچے جو کائنات کا سب سے بڑا گول چکر ہے اور جہاں اس وقت پولیس کی دو جیپیں کھڑی تھیں اور سات آٹھ پولیس والے توندیں نکالے بیکار کھڑے غلیظ گفتگو کر رہے تھے۔ یہ اکثر ایسا کرتے تھے۔ بلکہ تقریباً روز ہی۔ آتے جاتے لوگوں کو روکتے تھے اور ان سے الٹے سیدھے سوال کرتے تھے۔ کبھی کوئی شخص ایسا کام کرتا ہاتھ آجاتا جس پر اسے گرفتار یادق کیا جا سکے، مثلاً کوئی لڑکا کسی لڑکی کے ساتھ خفیہ طور پہ سیر سپاٹا کر رہا ہوتا، تو یہ پولیس والے بہت خوش ہوتے اور بےشرمی سے مطالبہ کرتے کہ ہمیں رشوت دو نہیں تو ہم تمھیں تھانے لے جائیں گے اور وہاں تمھارے گھر والوں کو بلالیں گے۔ یہ جو اس طرح سڑکوں پر چوکوں میں کھڑے ہو تے تھے، اس کا بہانہ یہ بناتے تھے کہ ہم اس طرح روک روک کر لوگوں کی تلاشی لیں گے تو دیکھنا کتنے مجرم پکڑے جائیں گے۔ مگر یہ جھوٹ تھا کیونکہ انھوں نے کبھی کوئی مجرم اس طرح نہیں پکڑا تھا۔ کوئی ہزار اس بات کی تردید کرے اور لاکھ کہے کہ جی اس طرح بہت مجرم پکڑے جا چکے ہیں، سچ یہی ہے کہ یہ جھوٹ ہے اور کبھی کوئی مجرم اس طرح نہیں پکڑا گیا۔

    ڈاکٹر والٹر کوئی بیوقوف آدمی نہ تھے اور انگریزی پر بھی دسترس رکھتے تھے جو ایک مرعوب کن اور غیرمعمولی بات تھی۔ سو جب اس گول چکر پہ انھیں روکا گیا اور ایک موٹے پولیس والے نے اپنی ناک ان کی طرف بڑھا کر ان سے پوچھا کہ آپ کا نام کیا ہے اور کہاں سے آ رہے ہیں تو انھوں نے دانت بھینچ کر اور سانس تقریباً روک کے جواب دِیا:

    ’’والٹر‘‘ اس کے بعد انگریزی میں کہا We are coming from a dinner

    کر تو انھوں نے یہ دیا، یعنی اپنی طر ف سے یہ احتیاط برتی کہ ایک تو انگریزی بولی تا کہ موٹا اور غلیظ دانتوں والا پولیس والا مرعوب ہو جائے اور دوسرے سانس تقریباً روک کے بات کی تا کہ شراب کی بو کا بھبھکا اس کے نتھنوں میں داخل نہ ہو، لیکن یہ حربے کامیاب نہیں ہو سکتے تھے۔ انگریزی جتنی بھی کارآمد اور پر اثر زبان کیوں نہ ہو، یہ بھی تو طے ہے نہ کہ آپ جتنی بھی انگریزی بول لیں، نیچ اور گھٹیا دماغ کے لوگ تب بھی ایسی باتیں سوچتے ہیں کہ اگر اتنا ہی یہ انگریزی بولنے والے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں تو پھر انھوں نے یہ گاڑی کس قسم کی رکھی ہوئی ہے؟ دو دروازوں والی، چھوٹی سی صابن دانی سی؟ دوسرا یہ کہ گو انھوں نے احتیاط کی تھی مگر وہ ڈاکٹر ہونے کے ناتے اچھی طرح یہ جانتے تھے کہ جس قدر مرضی سانس روکیں، شراب کی بدبو کے بھبھکے آسانی سے نہیں چھپائے جاتے۔ بات کریں گے تو ضرور اس کی مہک اس موٹے کے نتھنوں تک پہنچےگی اور پھر، ایک اور بات تھی جو ان دونوں باتوں سے زیادہ خوفناک تھی۔ ان کا نام۔ ’’والٹر‘‘۔

    ۔۔۔۔۔۔

    میں ان مکروہ باتوں کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا جو ہمیں لبرٹی گول چکر کے اس واقعہ کی بابت پتہ چلی تھیں۔ یوں تو ہمیں یا محلہ میں کسی بھی اور کو یہ باتیں پتہ ہی نہ چلتیں کیونکہ ڈاکٹر والٹر اور ان کی بیگم نے کسی سے اس بارے میں کچھ ذکر نہ کیا تھا۔ لیکن اس واقعہ کے دو ہی دن بعد سوزن نے جھاڑو لگاتے ہوئے آپا صغراں سے کہا:

    ’’ویکھو بی بی والٹراں نال کنی بری ہوئی اے‘‘۔(7)

    ظاہر ہے کہ یہ خوشخبری سن کر کہ اس عیسائی خاندان کے ساتھ کچھ خرابی ہوئی ہے آپا صغراں خاموش نہیں بیٹھ سکتی تھیں۔ ان پر لازم تھا کہ مکمل تفصیل حاصل کریں اور پوری طرح جان لیں کہ وہ کیا افتاد تھی جو اس مغرور خاندان پہ پڑی تھی جو عیسائی ہونے کے باجود اپنے کو ہم مسلمانوں سے بر تر سمجھنے کا تاثر دیتا تھا، دلیری سے آ کے ہمارے محلے میں رہنا شروع کر چکا تھا اور ساتھ ہی اپنے کو ہم سے لیے دیئے بھی رکھتا تھا۔ جب وہ اپنی مرضی کے مطابق تمام تفصیل جان گئیں تو خوشی اور بیتابی سے ان کا سینہ پھٹنے لگا اور ان سے رہا نہ جاتا تھا کہ وہ والٹروں کی زندگی کے اس ذلت آمیز واقعہ کو اپنے سینے سے نکال کے دنیا بھر میں پھیلا دیں اور ہر بار جب کسی کو یہ باتیں بتائیں تو ساتھ یہ بھی کہیں کہ دیکھو تو سہی کیسے غیرمذاہب کے لوگوں کے اوپر قدرت ہی کی طرف سے افتاد آتی ہے۔ ابا کو یقین تھا کہ یہ صرف اسلام سے سچی محبت نہ تھی جس کی وجہ سے آپا صغرا ں والٹروں کے ساتھ ہوئے سانحہ کے ذکر کو پھیلانا چاہتی تھیں بلکہ زیادہ بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ ایلس والے واقعہ کو کبھی بھلانہ سکی تھیں اور دل میں اس بات پہ بہت خفت محسوس کرتی تھیں کہ وہ اور ان کا خاندان نہ جانے کتنے دن ایک عیسائی عورت کے جوٹھے گلاسوں میں پانی پیتے رہے تھے۔ سو گو والٹروں نے انھیں کوئی ذک نہ پہنچائی تھی، بلکہ والٹر لوگ تو شاید خود آپا صغراں کے جوٹھے گلاسوں میں پانی پینا پسند نہ کرتے، وہ بہر حال اس بات پر بہت خوش تھیں کہ ایلس کے ہم مذہب لوگ نشان عبرت بنا دیے گئے۔

    انھوں نے سوزن کو خوب کریدا اور اس عمل سے انھوں نے لرزہ خیز باتیں معلوم کیں۔ مثلاً یہ کہ سوزن کاخاوند ماڈل ٹاؤن تھانے کے SHO عبیداللہ اور اس کے دوستوں کو کنٹرول ریٹ پر، یعنی سستے ریٹ پر شراب فراہم کرتا تھا کیونکہ اس کے پاس غیر مسلم ہونے کی وجہ سے شراب خریدنے کا سرکاری اجازت نامہ موجود تھا اور یہ کہ چونکہ سوزن والٹروں کے گھر بھی صفائی کرنے جاتی تھی، اس لیے، جارج ہی کی درخواست پر ماڈل ٹاؤن کے ایس ایچ او نے تھانہ لبرٹی مارکیٹ کے ایس ایچ او سے سفارش کر کے ڈاکٹر والٹر کو اگلے ہی روز حوالات سے رہا کروا لیا تھا۔ یہ جانتے ہی کہ سوزن کا میاں تھانیدار کو شراب فراہم کرتا تھا اور اس پر یہ کہ اس کی سفارش پہ ڈاکٹر والٹر رہا ہوئے تھے، آپا صغراں فیصلہ کر چکی تھیں کہ پورا واقعہ سنتے ہی سوزن کو نوکری سے نکال دیں گی۔ جب وہ سب کچھ سن چکیں اور سوزن سے گھر کی صفائی کروا چکیں تو انھوں نے اس کے ہاتھ میں کچھ پیسے پکڑائے اور کہا:

    ’’بی بی اے تیرے پیسے نیں۔۔۔ جنے اج تک دے ہوندے نیں۔ کل تو ں توں کم تے نہیں آنا۔ تے نالے توں تے تیرا میاں شرم نال ڈب کیوں نہیں مردے؟‘‘(8)

    سوزن ہکی بکی انھیں گھور رہی تھی اور سوچ ہی رہی تھی کہ اس بات کے جواب میں کیا کہے کہ آپا صغراں پھر بولیں:

    ’’خبر دار مرے نال بکواس نہ کریں۔ دفع ہو جا۔‘‘(9)

    سوزن کی بیان کردہ تفصیلات اور مزید وہ جو آپا صغراں نے خاص دلچسپی لے کر بعد ازاں اپنے ذرائع سے پتہ کروائیں، بالکل ایسی نہیں تھیں جنھیں کوئی مہذب انسان، جیسا کہ بابائے قوم قائد اعظم، پسند کرتے۔ مثلاً یہ بات کہ لبرٹی چوک پر موجود ایک پولیس والے نے تو ڈاکٹر والٹر سے یہ بھی کہہ دیا کہ یہ تمھاری بیوی نے کس قسم کے کپڑے پہنے ہوئے ہیں؟ یعنی جو مسز والٹر نے پتلون اور اوپر دھلا ہوا استری شدہ پھولدار بلاؤز پہنا ہوا تھا، اس کی بابت ہرزہ سرائی کی اور حالانکہ ڈاکٹر والٹر اور مسز والٹر انگریز نہیں تھے، پھر بھی اس پولیس والے نے عجیب سی زبان میں کہا تھا کہ:

    ’’اے۔ تمھاری وائف کیسا ڈریس پہنتا؟ How is your wife’s dress?

    ایسی اور اس سے بھی بد تر اور المناک باتیں۔ جب ڈاکٹر والٹر نے کہا کہ عیسائی ہونے کی وجہ سے ان کو قانوناً شراب پینے کی اجازت ہے تو پولیس کے گروہ کے سرغنہ نے یہ بات سنی ان سنی کر دی اور کہا کہ تم غیرمسلم لوگ خود تو پلید ہو ہی، تم اپنی یہ شراب نوشی اور ایسی دیگر گندی عادتیں اور یہ جس طرح تمھاری کر لی (10) جیسی بیوی آدھی ننگی ہے، ایسے طور طریقے، ہم مسلمانوں میں پھیلانا چاہتے ہو تاکہ ہماری پاکیزہ قوم کی آئندہ نسلیں خراب ہو جائیں۔

    ڈاکٹر والٹر بہت غضبناک ہوئے۔ اپنی بیگم کے سامنے یہ ان کے وقار اور آن پر کاری ضرب تھی۔ وہ اگر خود پہ قابو رکھتے تو یہ ذلیل لوگ صرف تھوڑی مزید بد تمیزی کر کے اور کچھ روپے رشوت لے کے انھیں گھر جانے دیتے۔ مگر ڈاکٹر والٹر نے طیش میں آکر چلانا شروع کر دیا اور کہا کہ وہ ایسی بد تمیزی برداشت نہیں کریں گے اور ان سب کو سیدھا کر دیں گے۔

    وہ ابھی اونچا اونچا بول ہی رہے تھے کہ یک لخت پولیس پارٹی کا سرغنہ آگے بڑھا اور اس نے ایک زور کا تھپڑ ڈاکٹر صاحب کے منہ پر جڑ دیا۔ مسز والٹر نے یہ دیکھ کر گاڑی کی اگلی سیٹ پر بیٹھے بیٹھے ایک چیخ ماری اور گاڑی سے باہر نکل کر انگریزی میں گالیاں دینے لگیں جب کہ خود ڈاکٹر والٹر سناٹے میں آکر بس کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔

    ’’کیہ؟ کیہ کریں گا توں چوہڑیا؟۔۔۔ ہیں؟‘‘ (11) سرغنہ بولا۔

    ’’ہنے تینوں تے کر لی نوں تھانے لجا کے بند کرنے آں ‘‘ (12) اس کے ساتھ والے نے کہا۔

    اور پھر انھوں نے ایسا ہی کیا۔ مسز والٹر کو تو خیر انھوں نے گھر بھیج دیا۔۔۔ رات کے ایک بجے، پیلی فاکس ویگن میں، اکیلے اور ڈاکٹر والٹر کو تھانے لے گئے جہاں سے سوزن کے میاں نے انھیں اگلے دن چھڑوایا اور جس واقعہ کے بارے میں تنگ دل اور ذلیل آپا صغراں نے کہا:

    ’’ویکھو جی اک شراب ویچن والے عیسائی دی سفارش نال باہر نکلیا اے ڈاکٹر والٹر۔ لعنت اے ایہناںکافراں تے‘‘۔(13)

    یہ انھوں نے امی سے کہا تھا۔ امی نے جواب دیا کہ عیسائی کافر نہیں ہوتے، آپ کیوں خواہ مخواہ ایسی باتیں کر رہی ہیں۔ عیسائی عورتوں سے تو مسلمان آدمیوں کو شادی کی بھی اجازت ہے۔

    ’’اچھا جی؟‘‘ آپا صغراں نے طنزسے اردو میں کہا۔ ‘‘پھر تو آپ اپنے دونوں بیٹوں کی شادی عیسائی عورتوں سے ضرور کرنا” اور پھر بولیں:

    ’’اسیں مسلمان آں۔ الحمد اللہ۔ جیہڑے مسلمان نہیں نیں، جیہناں نے کلمہ نہیں پڑھیا، اوہ عیسائی ہوون یاں ہندو، ساڈے واسطے اکو جیہے پلیت کافر نیں۔ تھو۔‘‘(14)

    ۔۔۔۔۔۔

    ابا نے امی سے کہا کہ اس واقعہ پر اظہار افسوس اور ہمدردی کے لیے ڈاکٹر والٹر کے گھر جانا چاہیے۔ امی نے کہا کہ دیکھیں واقعہ تو انتہائی مکروہ ہوا ہے مگر ہم لوگوں کا ایسا کوئی گہرا تعلق تو ان سے ہے نہیں، سو ایسا نہ ہو کہ وہ آپ کا جانا پسند نہ کریں۔ بہتر ہے کہ فون کر لیں۔

    ابا نے فون کیا تو ڈاکٹر والٹر نے خود اٹھایا۔ ابانے مناسب الفاظ میں افسوس کا اظہار کیا جس پر ڈاکٹر والٹر نے پہلے تو ان کا شکریہ ادا کیا اور پھر پاکستان کو انگلش میں موٹی سی گالی دی۔ پھر اس خیال کا اظہار کیا کہ مسلمان انتہا درجے کے جاہل اور گھٹیا ہوتے ہیں اور کون پاگل ہوگا جو چاہےگا کہ ان سے کسی قسم کا واسطہ رکھے؟ اس کے بعد بہت حقارت سے کہا کہ یہ ملک اس قابل نہیں کہ اس میں کوئی مہذب شخص رہ سکے اور اسی وجہ سے ہمارا تو تقریباً تمام کا تمام خاندان ولایت یا امریکہ رہتا ہے۔ ابا نے کہا کہ وہ ڈاکٹر والٹر کے احساسات سمجھتے ہیں مگر ایسا کیا ہو گیا کہ وہ اس ملک اور تمام مسلمانوں سے ہی اتنے متنفر ہو گئے؟ کیا کوئی خاص بات ہو گئی؟ ڈاکٹر والٹرنے کہا کہ وہ خوب جانتے ہیں کہ ابا کو سب معلوم ہے اور اس صغراں نے اصل واقعات کے علاوہ کیا کیا مزید باتیں اپنے پاس سے لگا لگا کے ہر جگہ پھیلائی ہیں۔ Bitch۔ انھوں نے آپا صغرا ں کے بارے میں کہا اور یہ انھوں نے کوئی غلطی سے نہیں کہا تھا، کیونکہ وہ جانوروں کے ڈاکٹر تھے اور خوب جانتے تھے کہ کتے کی مونث کو بچ کہتے ہیں۔ یعنی ’’کتی”۔ ابا ڈاکٹر والٹر کی دلجوئی کے لیے ابھی کچھ اور کہنا چاہتے تھے مگر انھوں نے کہا کہ: We don't want to talk about it جو ایک ایسا فقرہ ہے جسے انگریز وغیرہ اکثر استعمال کرتے ہیں اور جب وہ یہ کہتے ہیں تو سننے والے انگریز یا مغربی لوگ فوراً جواباً کہتے ہیں:

    We understand یعنی ’’ ہم سمجھتے ہیں‘‘

    اور پھر خاموش ہو جاتے ہیں۔ اتنا ضرور ہے کہ خاموش ہونے سے پہلے وہ کوئی ایسی مناسب سی بات بھی کر دیتے ہیں کہ اچھا اگر دل نہیں چاہتا تو ابھی آپ بات نہ کریں، مگر اگر کبھی چاہیں کہ بات کر لیں تو ہم حاضر ہیں۔ ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا۔ ہم کہتے ہیں کہ نہیں نہیں، بتاؤ، ہمیں بتاؤ کیا ہوا۔ ہم پوچھ کر رہیں گے۔ لیکن ابا چونکہ مغربی تہذیب کے بارے میں کافی معلومات رکھتے تھے اس لیے انھوں نے فوراً وہی کیا جو انھیں کرنا چاہیے تھا، یعنی انھوں نے کہا: ”آئی انڈر سٹینڈ۔‘‘

    ڈاکٹر والٹر کے مغربی طریقے سے انگریزی میں یہ کہنے سے کہ ہم اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتے، ایک چیز تو بہر حال مزید پکی ہو گئی اور وہ یہ کہ ان کی بہت سی عادات انگریزوں، امریکنوں والی تھیں۔ممکن ہے یہ ان کے ان تمام رشتہ داروں کا اثر ہو جن کے بارے میں انھوں نے بتایا تھا کہ ولایت امریکہ وغیرہ میں رہتے ہیں بلکہ اب تو یہ بھی ممکن لگنے لگا تھا کہ ان کی کوئی نانی دادی انگریز یا امریکن رہی ہو۔ تبھی تو جب یہ واقعہ لاہور میں امریکہ والوں کے ایک دفتر میں سنا گیا تو اس کی سنگینی سے متاثر ہوکر انھوں نے والٹروں کے پورے خاندان کو دعوت دی کہ وہ امریکا آ کر سکونت پذیر ہو جائیں جہاں اس زمانے میں انسانی حقوق کا چرچا اور دور دورہ تھا اور مذہب کی بنیاد پر کوئی کسی کو میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا تھا کیونکہ وہ لوگ ضیا الحق سے مختلف تھے اور مستقل ایسی باتیں کہتے پھرتے تھے کہ مذہب ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہوتا ہے اور ہم یہ بالکل برداشت نہیں کر سکتے کہ کوئی کسی کے ذاتی معاملہ میں دخل دے۔

    ۔۔۔۔۔۔

    میں شاید کوئی گیارہ بارہ برس کا تھا، جب یہ لوگ اپنے گھر کی تمام چیزیں بیچ کر ایک ہوائی جہاز میں بیٹھے اور امریکہ کی جانب اڑتے چلے گئے۔ جب انھوں نے گھر کی چیزوں کا بازار لگایا تو سائمو کے کھلونوں میں سے میں نے ایک ربر کی شارک خریدی جس کو پانی میں تیرنا چاہیے تھا مگر جب میں اسے خرید کے گھر لے گیا اور بالٹی میں اسے تیرانا چاہا تو وہ ڈوب گئی۔ اس کے پیٹ میں سوراخ تھا۔ یہ سوراخ اس کے پیٹ میں ضرور سائمو نے ہی کیا تھا تا کہ اس کے امریکہ جانے کے بعد کوئی اور اس سے نہ کھیل سکے۔

    میں نے شارک خریدنے کے لیے امی سے پانچ روپے مانگے تھے۔ اس گھٹیا شارک کے لیے جس کے پیٹ میں چھوٹے دل والے سائمو نے جان بوجھ کے سوراخ کر دیا تھا۔

    ’’ایسی ربر کی شارک کا کیا کروگے؟‘‘ابا نے پوچھا تھا جو مجھے امی سے پیسے مانگتے ہوئے سن رہے تھے۔ ’’کیا اس کے اندر کوئی موٹر بھی لگی ہوئی ہے جس کی وجہ سے وہ خود بخود تیرتی رہے یا ہاتھ سے اسے تیرانا پڑتا ہے؟ دھکے دے دے کر؟‘‘

    ’’ہاتھ سے تیرانا پڑتا ہے‘‘۔ میں نے کہا۔میں ڈرا کہ شاید ابا شارک خریدنے سے منع کر دیں گے۔ ’’وہ اوپر سے نیلی سی ہے اور پیٹ سفید ہے۔‘‘ میں نے اس کی تعریف میں کہا۔ ’’ جیسے اصل میں شارک مچھلی ہوتی ہے اور جب سائمو ڈاکٹر والٹر کے باتھ روم کے ٹب میں اسے ایک سرے سے دھکا دیتا ہے تو وہ تیزی سے تیرتی دوسرے سرے تک پہنچ جاتی ہے۔‘‘

    ’’پھر کیا فائدہ؟‘‘ امی نے سر ہلایا ”اگر ہاتھ سے تیرانا پڑتا ہے تو کوئی فائدہ نہیں اور ہمارے گھر میں ویسا لمبا ٹب بھی نہیں ہے۔‘‘ مگر ابا کی سفارش پر انھوں نے پانچ روپے مجھے دے دیئے۔

    جب شارک میں سوراخ نکلا تو میں بہت شرمندہ ہوا۔ پہلے سوچا کہ امی کونہ بتاؤں اور چپ کر جاؤں۔ یا پھر جاکے خود سائمو سے لڑائی کروں۔ مگر میں نے ڈرتے ڈرتے امی کو بتا دیا۔

    ’’شارک خراب ہے‘‘۔

    ’’خراب؟‘‘

    ’’جی۔ تیر نہیں رہی۔ ڈاکٹر والٹر کے ٹب میں تو تیر تی تھی۔ ہماری بالٹی میں نہیں تیرتی۔ ڈوب جاتی ہے۔‘‘

    ’’تو پھر ٹب بھی خرید لیں ڈاکٹر والٹر کا؟‘‘ امی نے طنزیہ لہجے میں پوچھا۔

    ’’مجھے لگتا ہے اس کے پیٹ میں سوراخ ہو گیا ہے۔ میں نے ڈرتے ڈرتے کہا کیوں کہ میرا خیال تھا کہ امی میرے ایسی بےکار شارک خرید لانے پر تھپڑ ماریں گی۔

    ’’چلو پانچ روپے ضائع گئے‘‘ امی نے کہا ’’اب کیا ہو سکتا ہے ‘‘۔

    ’’آپ مسز والٹر کو سائمو کی شکایت لگائیں۔ مجھے لگتا ہے کہ اس نے جان بوجھ کے سوراخ کیا ہے۔ آپ فون کریں۔ میں نمبر ملاؤں؟‘‘

    ’’بالکل نہیں‘‘ امی نے تنک کر کہا ’’خود جا کے بات کرو‘‘۔

    میں نے جا کے مسز والٹر سے بات کی۔ مسزوالٹر نے میرے پانچ روپے تو واپس نہ کیے مگر یہ فوراً پتہ لگا لیا کہ شارک کے پیٹ میں سوراخ کہاں ہے۔ ان کی خورد بینی آنکھوں نے اس کے پیٹ میں وہ سوراخ دیکھ لیا جو مجھے نظر نہیں آیا تھا۔ انھوں نے ایک ٹیوب اٹھائی اور اس میں سے پیلے رنگ کا کچھ لعاب سا برآمد کر کے سوراخ پہ لگا دیا۔ ’’اب یہ تیرےگی‘‘ انھوں نے کہا ’’سوراخ بند ہو گیا ہے‘‘۔

    تیر تو شاید لے گی، میں نے سوچا، مگر یہ پیلا سا پھوڑا جو اس کے پیٹ پہ آپ نے بنا دیا ہے، یہ کتنا برا ہے۔ جیسے مسز والٹر نے میری سوچ میرے چہرے سے پڑھ لی۔ انھوں نے ایک میز پر سے ربر کی ایک بھوری چھپکلی اٹھائی اور مجھے پکڑا دی۔ ’’یہ لو‘‘ وہ بولیں ’’یہ بھی لے لو۔ تمھاری شارک جو تھوڑی سی خراب ہو گئی ہے اس کی جگہ یہ رکھ لو‘‘۔

    ’’مجھے چھپکلی سے کوئی خاص رغبت نہیں تھی مگر چونکہ ایک کھلونامفت مل رہا تھا اور شارک کی بھی مرمت ہو گئی تھی اس لیے میں نے چھپکلی لینے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ اس سے پہلے کہ وہ میرے ہاتھ میں آتی سائمونے جھپٹا مار کے اسے اچک لیا‘‘۔

    ’’یہ آپ اس کو مفت کیوں دے رہی ہیں؟‘‘

    لگتا تھا کہ سائمونے کچھ دنوں سے مسز والٹر کو کافی تنگ کر رکھا تھا۔ انھوں نے اس کا کان کھینچ کر کہا”اگر تم نے شارک کے پیٹ میں سوراخ نہ کیا ہوتا تو نہ دینا پڑتی‘‘۔

    انہوں نے چھپکلی اس کے ہاتھ سے چھینی اور مجھے پکڑا دی۔ ’’یہ لو۔‘‘ وہ بولیں ’’جاؤ کھیلو‘‘۔ پھر وہ سائمو کی طرف مڑیں۔

    ’’آئندہ یوں بدتمیزی کی تو ایسی سزادوں گی کہ یاد کروگے‘‘۔

    سائمو مزید غصہ میں آیا۔

    ’’میں چھین بھی لوں گا۔ تو دیکھیں چھین بھی لوں گا۔ ’’ اس نے مجھے گھور کے، دانت پیس کر کہا۔

    ’’میں تجھے اپنے گھر ہی نہیں آنے دوں گا‘‘۔ میں نے کہا۔

    ’’کبھی تو آنے دےگا نا‘‘۔

    ’’جی نہیں۔کبھی نہیں اور تو تو جا بھی رہا ہے امریکہ‘‘۔

    وہ چھپکلی میں لے تو آیا۔ مگر مجھے اس سے ڈر سا لگتا تھا اور گھن سی آتی تھی۔ پیٹ کے پیلے پھوڑے کے باوجود میں شارک ہی سے کھیلتا رہا جو اب تیرنے لگی تھی۔ کچھ بار تو میں نے امی کو چھپکلی سے ڈرایا اور وہ ڈر بھی گئیں۔ مثلاً جب کٹلری والے دراز میں چاول کے چمچہ کے اوپر اسے بیٹھا دیکھا یا غسل خانہ میں صابن دانی کے اوپر۔ ویسے تو میں بھی اسے ہاتھ لگاتے ہوئے ہچکچاتا تھا مگر میرا دل نہ چاہتا تھا کہ یوں اپنا کوئی کھلونا خود ہی پھینک دوں۔ ایک دن جب امی نے دوپہر کے کھانے کے لیے چوپڑی روٹیاں اور ساگ بنوایا، کھانے کے وقت سے ذرا پہلے میں نے چھپکلی کو روٹیوں کے ڈبے کے اندر سب سے اوپر بٹھا دیا۔ جب امی نے خوشی خوشی اپنے منہ میں چوپڑی روٹیوں کا تصور کرتے ہوئے ڈبہ کھولا تو ان کے حلق سے ایک دل دوز چیخ نکلی۔ انھوں نے گھبراہٹ میں ڈبے کو اپنے سے پرے دھکیلا جس سے وہ میز پر سے گر پڑا اور روٹیاں اور چھپکلی فرش پر جا پڑے۔ میں کھسیانہ ہو کے ادھر ادھر دیکھنے لگا اور کھی کھی کھی کر کے ہنسنے لگا۔ ابو اور نوید بھائی تو مجھے غصے سے صرف دیکھ ہی رہے تھے مگر امی شاید اس وقت بہت ہی بھوکی تھیں اور چوپڑی روٹیوں کے خواب دیکھتی رہی تھیں۔ انھوں نے طیش سے سرخ ہوتے ہوئے میرا کان پکڑا اور اسی سے کھینچتے ہوئے مجھے میرے کمرے میں لا کے بند کر دیا۔ پھر وہ باورچی خانے میں گئیں اور چمٹے سے پکڑ کے چھپکلی کو چولہے کی آگ میں جلانے لگیں۔ جب وہ جل بھن کر ٹیڑھی میڑھی اور سیاہ ہو گئی تو وہ اسے چمٹے سے پکڑ ے پکڑے میرے کمرے میں لے آئیں اور اسے اندر فرش پر پھینک دیا۔

    ’’ یہ لو۔آج تم صرف کر لی کھاؤ۔‘‘ انھوں نے کہا۔ ’’یہ تمہارا دوپہر کا کھانا ہے‘‘۔ پھر وہ بڑے زور سے دروازہ بند کرکے چلی گئیں۔

    حواشی:

    جو گھر سے باہر اس طرح کے کپڑے پہنتی ہے وہ اپنے گھر میں تو ننگی پھرتی ہو گی۔ پتلی سوکھی۔

    پتہ نہیں کب سے ہم ان پلید برتنوں میں کھا پی رہے تھے۔ پتہ نہیں کیا کیا پلید کر دیا اس نے۔ اب گھر کے سارے برتن پھینکنے پڑیں گے۔

    بد ذات عورت، مجھے تو یہ خود پلید لگتی ہے۔ بکواس کرتی رہتی ہے۔ الو کی پٹھی۔

    اتنی پاکی پلیتی کر رہی ہے اور خود ہر وقت ناک میں انگلی ڈالے رکھتی ہے۔ ہر وقت پسینے کی بو آتی ہے۔ کبھی جو نہائی دھوئی نظر آئی ہو۔

    آپ تو ماشاء اللہ بڑے روشن خیال اور پڑھے لکھے لوگ ہیں جی۔

    چلو شکر ہے۔ ہے تو شیعہ مگر کلمہ گو تو ہے۔ اگلی دفعہ اللہ اور بہتری کرےگا۔

    ویکھو بی بی، والٹروں کے ساتھ کتنی بُری ہوئی ہے۔

    بی بی۔ یہ تمہارے پیسے ہیں۔ جتنے آج تک کے بنتے ہیں۔ کل سے تم کام پر مت آنا اور ویسے تم اور تمھارا خاوند شرم سے ڈوب کیوں نہیں مرتے؟‘‘

    خبردار میرے ساتھ بکواس نہ کرنا۔ دفع ہو جاؤ۔

    10۔ چھپکلی۔

    11۔ کیا؟کیا کروگے تم چوہڑے؟ ہیں؟

    12۔ ابھی تمھیں اور چھپکلی کو تھانے لے جا کے بند کرتے ہیں۔

    13۔ دیکھو جی، ایک شراب بیچنے والے عیسائی کی سفارش سے باہر آیا ہے ڈاکٹر والٹر۔ لعنت ہے ان کافروں پہ۔

    14۔ ہم مسلمان ہیں۔ الحمد اللہ۔ جو مسلمان نہیں ہیں، جنھوں نے کلمہ نہیں پڑھا، وہ عیسائی ہوں یا ہندو، ہمارے لیے ایک جیسے پلید کافر ہیں۔ تھو۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

    Register for free
    بولیے