دودھ کا جوہڑ
چاچے تائے کے بیٹے ہونے کی وجہ سے لال اور دیال کا آپس میں بڑا پیار تھا۔ ان کی کھیتی بھی اکٹھی تھی۔ گاؤں کے ماحول میں ایسے اکٹھ کابڑا رعب پڑتا ہے۔ دوسگے بھائیوں کی بجائے اگر دو چاچے تائے کے بیٹے مل کر چلتے ہوں، تو ان کو اور بھی بڑی طاقت سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ ایسا میل ملاپ عام طور پر کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ بھائیوں نے تو آخر مل کر چلنا ہی ہوا، ایسی لیے ان دونوں لال اور دیال کانام گاؤں کے لوگ بڑی عزت سے لیتے تھے۔ کھیت مزدوروں سے ان کے لیے کوئی کام لینا آسان کام تھا کیونکہ وہ جلدی ہی ان کا کہنا مان لیتے تھے۔ گاؤں کی گلیوں میں ان کے لیے چلنا اچھا لگتا تھا، کیوں کہ وہاں انہیں عزت ملتی تھی۔
اس مفت کی عزت کے علاوہ اکٹھا رہنے سے ان کی کھیتی باڑی کا کام بھی بڑی آسانی سے چلتا تھا۔ دونوں مل کر وہ دوہل کی کھیتی کرتے تھے۔ ایک کھیت مزدور رکھ لینے سے ان دونوں میں سے ایک آدمی کو کچھ آرام مل جاتا تھا اور کام بھی اچھے ڈھنگ سے نبھ جاتا تھا۔ ایک ہل کی کھیتی ایک تو بے مزا سی ہوتی ہے اور پھر ٹھیک بھی نہیں بیٹھتی۔ اگر آدمی اکیلا ہو تو ویسے ہی ڈنگر جانور کے ساتھ ڈنگر ہوا رہتا ہے اور اگر اکیلا ہونے پر کھیت مزدور رکھا جائے تو پھر پورا نہیں پڑتا۔
اس اکٹھی کھیتی سے تیسرے آدمی کو جو فرصت مل جاتی تھی تھی، اس کا سارا سکھ دیال ہی لوٹ لیتا۔ وہ گورے رنگ کا، خوبصورت شکل والا اور بھاری جسم کانوجوان تھا۔ پہلے پہر تو وہ کھیتوں میں کچھ کام کرتا لیکن دن کے پچھلے پہر وہ سفید کپڑے پہن کر گاؤں میں گھومتا پھرتا، یا ڈیرے میں بیٹھا رہتا۔ اور لوگ اس سے آنکھ ملاکر بات کرتے ہوئے خوش ہوتے۔
لیکن گاؤں والوں اور دیال کو یہ ساری خوشی لال کی وجہ سے ملتی، جسے کھیتوں میں کام کرنا پڑتا۔
’’دوآدمیوں کے لیے باڑ لگانا تمہیں پتہ ہے کتنا مشکل ہے۔‘‘ لال کبھی کبھی شکایت کرتا۔
’’بس ایسے ہی سستی ہوگئی۔ گاؤں میں تھانے دار آیا ہوا تھا۔ میں نے سوچا کوئی بات چیت ہی سننے کو ملے گی۔ دیال آنکھ نیچی کرکے کہہ دیتا اور لال چپ ہوجاتا۔
لال کی بیوی بھی دیال کو اپنے گھر میں گھومتے ہوئے دیکھتی۔ جب لال باہر کھیتوں میں کام میں لگا ہوتا تب دونوں گھروں کی بیچ کی دیوار کے اس پار اس کی پگڑی اِدھر اُدھر گھومتی دکھائی دیتی۔ کبھی وہ اپنے لڑکے کو گود میں اٹھائے ایک ہاتھ میں کوئی لکڑی پکڑے ترکھان کے پاس لے جاتا، اور وہاں بیٹھ کر اس کے لیے گاڑی بنوادیتا اور کبھی اپنی بیوی کا ساگ کاٹنے والا بڑا درانتا لے کر لوہار سے تیز کروالاتا اور کبھی مستو جولاہی کا چرخا اٹھواکر اس کا تکلا سیدھا کروالاتا۔ لال کی بیوی کے سارے کام ویسے کے ویسے ادھورے پڑے رہتے۔
دیال کے گھر میں اس کی گھومتی پگڑی اور گونجتی آواز لال کی بیوی کے دل میں کئی خواہشیں جگاتی۔ اگر کہیں لال بھی اس وقت گھر آسکے تو وہ پینے کے لیے دودھ بڑے کٹورے میں ڈال کردے۔ گاؤں میں جانے کے لے اسے سفید چٹے کپڑے پہنائے اور اس کے کپڑے پہنتے پہنتے جلدی سے اس کی پگڑی کو مایا لگادے۔ اب تو کپڑے دھونے اور پہننے کا کوئی مزا ہی نہیں آتا تھا۔ آٹھ دس دن بعد وہ رات کو سوتے وقت دھلے ہوئے کپڑے اپنے سرہانے رکھ لیتا اور صبح اٹھ کر وہ میلے کپڑے سرہانے رکھ کر سفید کپڑے پہن لیتا، لیکن جلدی ہی وہ پھر میلے ہوجاتے اور وہ کئی دن میلے کپڑے پہنے رہتا۔ اگر لال بھی دیال کی طرح شام گھر پر گزارے تو۔۔۔
اور پھر رات کو جب لال گھر ٹوتا تو وہ کہتی، ’’تم اس کھیت کے مزدور بنے رہتے ہو؟ خود تو سردار گاؤں میں گھومتا پھرتا ہے اور تم وہاں مٹی سے کشتی کرتے رہتے ہو۔‘‘
’’گاؤں گھومنے میں کیا رکھا ہے؟ پانی کی باری کی بات کرنی تھی، اس لیے آیا تھا وہ۔‘‘ لال بات پلٹاکر اس کے زخموں پر مرہم رکھتا۔
’’کبھی ہل کا پھل ٹھیک کروانا ہوتا ہے، کبھی بان کا رسا بنوانے جاتا ہے، کبھی کسی آدمی کو کام پر رکھنے کے لیے کہنا ہوتا ہے، گاؤں میں اس طرح کے سوکام ہوتے ہیں۔‘‘
’’گاؤں میں کام ہوتے ہیں تو تو بھی آجایا کر کبھی۔ ضرور اسی کو کرنے ہوتے ہیں گاؤں کے کام۔‘‘
’’اچھا، میں آجایا کروں گا۔ اس میں کون سی بات ہے۔ وہ کہتا ہے، میں چلا جاتا ہوں۔ میں کہتا ہوں، اچھا چلاجا۔‘‘
لال آنے کے لیے کہہ دیتا لیکن وہ آتا کبھی نہ۔ اس بھائی چارے کے جنجال میں، وہ دراصل نچلے بیل کی طرح چل رہا تھا، جس پر زیادہ بوجھ ہوتا ہے۔ وہ صبح کا تارا چڑھتے ہی اٹھتا اور کھیت مزدور کو ساتھ لے کر ہل جوڑ کر لے جاتا۔ بعد میں دیال اچھا دن چڑھے اٹھ کر بھینس کو باہر نکالتا، اسے چارا ڈالتا، پھر دودھ دوہتا، جانوروں کے لیے چارہ کاٹ کر وہ انہیں کھول کر لے جاتا اور تھوڑا سا گھما کر واپس لے آتا۔ دن کے پچھلے پہر وہ لڑکوں کی کسی ٹولی کے ساتھ شراب پی لیتا، کبھی تاش کھیلتا رہتا اور کبھی خبریں سنتا سمجھتا رہتا۔
کھیتی باڑی کا سارا بوجھ دن بدن لال پر پڑتا جارہا تھا۔ دیال ہمیشہ دوستی یاری گانٹھنے اور اپنا رسوخ بڑھانے میں لگا رہتا۔ ہر بھائی چارے میں ایسا ہوتا ہی ہے۔ ایک دھڑا زیادہ کام کرتا ہے اور ایک تھوڑا، جتنی دیر تک زیادہ کام کرنے والا چپ سادھے رہتا ہے، بھائی چارہ چلتارہتا ہے، جب اسے اپنا زیادہ کام اکھرنے لگے، کانٹے کی طرح چبھنے لگے، تو یہ بھائی چارہ ٹوٹ جاتا ہے۔
ایک دن کٹائی کے بعد لوہاروں کے لڑکے جاٹوں کے ہاں سے اپنے حصے کے گیہوں کا گٹھر اکٹھا کر رہے تھے۔ لال ایک اور جاٹ کے ڈیرے پر بیٹھا تھا۔ لوہاروں کا ایک لڑکا اس جاٹ سے گیہوں کا گٹھر مانگنے آگیا۔ اس کاساتھی دوسرا لڑکا پاس والی سڑک پر اپنا گٹھر لیے جارہا تھا۔
’’وہ گٹھر کہاں سے لائے ہو؟‘‘ اس جاٹ نے گٹھر مانگنے آئے لڑکے سے دوسرے گٹھر کے بارے میں پوچھا۔
’’وہ تو وہاں دیال کے کھلیان سے لائے ہیں۔‘‘
لال نے یہ سنا تو اسے لگا جیسے اس کا لہو ٹھنڈا ہوتا جارہا ہو۔ کھلیان تو دونوں کا سانجھا تھا لیکن نام دیال کا ہی گونجتا تھا۔ کام میں مصروف رہنے والے لال کا تو اپنی زمین، اپنے کھیت، اپنے برتنوں سے بھی نام مٹتا جارہا تھا۔ اس نے الگ ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ فصل کی کٹائی کے بعد ویسے بھی یہ فصلیں بدلنے کے دن تھے۔
اناج کے دانے تو وہ پہلے ہی بانٹ لیا کرتے تھے۔ اس بار اس نے بھوسا بھی بانٹ لیا۔ اپنی بھینسیں الگ باندھ لیں۔ ایک نئی بیاہی ہوئی بھینس کی تھوڑی سی پریشانی تھی۔ اس کی بچھڑی مرگئی تھی اور وہ دیال کے ہاتھ سے ہی دودھ دیتی تھی۔ کسی اور کو ہاتھ نہیں لگانے دیتی تھی۔ لال نے کچھ دن اسے چنوں کے بھوسے میں نمک گھول کر پلایا، اپنے ہاتھ سے اسے آٹا چٹایا۔ ہتھیلی پر دودھ کی دھاریں نکال کر اسے پلائیں، اپنے منہ میں دودھ کی سیدھی دھار مار کر بھینس کے منہ میں پھونکیں ماریں تو وہ آہستہ آہستہ اس کے ہاتھ بھی چڑھ گئی، اس کے لیے بھی ددھ اتارنے لگی لیکن دیال سے اس بھینس کا پیار نہ ٹوٹا۔ جب کبھی کھلی رہ جاتی، اس کے پاس جاکر کھڑی ہوجاتی، یا اس کی بھینسوں کے ساتھ جاملتی۔
بھینس کا تو دیال کے ساتھ پیار بنا رہا لیکن لال اور دیال ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے گئے۔ کھیت ایک دوسرے کے ساتھ لگے ہوئے تھے، اس لیے ان کے جانور کھل کر ایک دوسرے کے کھیت میں چلے جاتے اور اس طرح سے کوئی نہ کوئی شکایت پیدا ہو ہی جاتی۔ ایسے موقعے پر دونوں ایک دوسرے پر بڑھ چڑھ کر باتیں کرتے اور کوئی کسی کے سامنے جھکنے کو تیار نہ ہوتا۔ جب دیال کی چھوٹی سی بچھڑی لکڑیوں کے بیچ سے نکل کر ساری رات لال کے بوئے ہوئے شلغموں میں پھرتی رہی تو دیال نے الٹا ہی کہا، ’’میں بچھڑی کے ساتھ تو نہیں ہر وقت بندھا رہتا۔ یہ چھوٹے چھوٹے جانور دائیں بائیں سے نکل ہی جاتے ہیں۔‘‘
اور پھر اگلے دن جب لال کی گھوڑی، اپنے گلے کی زنجیر کے ساتھ دیال کی پھلدار کپاس میں بوٹے تورتی رہی اور پھل گراتی رہی تو لال نے کہہ دیا، ’’گھوڑی تو کپاس کو منہ نہیں لگاتی، بوٹے تو جب ٹوٹتے ہیں، جب تم زنجیر والی گھوڑی کو ڈراکر بھگانے کی کوشش کرتے ہو۔ آرام سے نکالو تو بوٹے کبھی نہ ٹوٹیں۔‘‘
دیال کو اس کی بات کا بڑا غصہ تھا۔ شلغم تو آخر چارہ ہی تھا لیکن کپاس تو پیسے دینے والی فصل تھی۔ اس میں بچت کی بات تھی تو یہ کہ لال اور دیال نے کبھی ایک دوسرے سے ہاتھا پائی کرنے کی بات نہیں سوچی تھی۔
اس سے کچھ دن پہلے بارش ہوئی تھی۔ دیال کے پاس تو باہر ایک کوٹھا تھا لیکن لال نے ابھی تک کچھ نہیں بنایا تھا۔ اس پر بھی وہ دیال کے کوٹھے میں سر چھپانے کے لیے نہیں آنا چاہتا تھا۔ اس کے شہتوت کے پیڑ کے نیچے بارش سے تھوڑا بہت بچاؤ ہوسکتا تھا۔ چادر اپنے اوپر اچھی طرح اوڑھ کر وہ شہتوت کے نیچے بیٹھا رہا اور اس پر مینہ پڑتا رہا۔ اس بات کی خبر گاؤں میں بھی پہنچ گئی۔ اس کے شہتوت پر بگلوں کے گھونسلے تھے۔ لوگ ایسا کہتے پھر رہے تھے کہ اوپر بگلے نہاتے رہے اور نیچے لال نہاتا رہا۔
اس بارش کے بعد یہ بات عام طور کہی جارہی تھی کہ ایک نہ ایک دن لال اور دیال میں لڑائی ہوگی۔ کوئی کہتا دیال تگڑا ہے، وہ مارے گا، کوئی کہتا لال میں غصہ زیادہ ہے اس لیے وہ مارے گا۔
یہ باتیں لال کی بیوی تک بھی پہنچتیں اور کبھی کبھی وہ گھبراکے پوچھتی، ’’سنا ہے، دیال تیرے گلے پڑنے کو پھرتا ہے؟‘‘
’’میرے گلے پڑکر مرنا ہے اس نے، وہ بول بھی نہیں سکتا میرے سامنے۔‘‘ لال ذرا چوڑا ہوکر کہتا۔
اپنے آپ کو اونچا دکھانے کے لیے ایک دن لال نے حد ہی کردی۔ نئی گیہوں بونے سے پہلے دیال اپنے کھیت میں کھاد ڈالنا چاہتاتھا۔ بیل گاڑی کاراستہ لال کے کھیت سے ہوکر جاتا تھا اور اس کاکھیت چونکہ خالی تھا، اس لیے اس میں سے بیل گاڑی لے جانے میں کوئی حرج نہیں تھا۔ لیکن جب دیال بیل گاڑی بھر کر لایاتو لال لاٹھی پکڑ کر اپنی منڈیر پر کھڑا ہوگیا اور اس نے دیال کی گاڑی واپس لوٹادی۔
رات کو جب لال نے یہ بات اپنی بیوی کو بتائی تو اسے یقین ہوگیا کہ دیال اس کے شوہر سے کچھ ڈرتا ہے۔ دیال کو بھی اپنی یہ حالت کاٹنے کو دوڑتی تھی۔ کوئی بہانہ بنائے بغیر ہی اس کا دل اس سے ٹکر لینے کو کرتا تھا۔
ایک دن شام کو کھانے پینے کے وقت لال اپنی گھوڑی پر چڑھ کر گاؤں آرہا تھا۔ راستے میں ایک منڈیر پر دیال اور ایک آدمی شراب پی رہے تھے۔ انہوں نے لال کو دیکھ لیا اور لال نے ان کو۔ منڈیر سے گزرنے کے لیے گھوڑی نے آہستہ ہونا ہی تھا۔ لال کے ہاتھ میں صرف خالی لوٹا ہی تھا۔
’’کون ہے؟‘‘ دیال نے ذرا للکار کر پوچھا۔
’’میں ہاں لال!‘‘ لال نے تگڑے ہوکر کہا اور پھر ’’تروہوں تروہوں‘‘ کرتا ہوا گھوڑی کو پانی پلانے لگا۔ جیسے کہہ رہاہو، ’’آجاؤ، میں تو کھڑا ہوں۔‘‘ لیکن آیا کوئی نہ اور لال نے گھوڑی کو پانی پلاکر اسے آگے ہانک دیا۔
گھر آکر لال نے بیوی کو بتایا، میں نے سوچا جو بھی آیا، لوٹا ماروں گا اس کے سرپر۔ گھوڑی پر سوار آدمی ویسے بھی چار پر بھاری ہوتا ہے۔ جس کو دل چاہے اس کو پاؤں کے نیچے لاکر روند دے، ماردے۔
’’شاباش۔‘‘ لال کی بیوی کی چمکتی آنکھوں نے کہا، ’’میرا شوہر اس سے کم اور کر بھی کیا سکتا ہے؟‘‘
لال بے حد خوش تھا۔ آج اس کی بات میں زیادہ ٹھہراؤ تھا۔ اس کا پاؤں سج سنور کر زمین پر پڑتا تھا اور اسے اپنے بچے بڑے پیارے لگ رہے تھے۔
پھر ایک رات کچھ بارش کی کن من ہوتی رہی۔ اس کن من میں سستی کی وجہ سے لال نے صبح اٹھ کر بھینس کو چارہ نہ ڈالا۔ چارے کے لالچ میں بھینس بارش سے ڈھیلا ہوکر کھونٹا اکھاڑ کر کھل گئی۔ کافی دن چڑھنے پر اٹھ کر لال باہر سڑک کے کنارے سے بھینس کو ڈھونڈ کر اس کے آگے دانہ رکھ کر دودھ دوہنے بیٹھ گیا۔
بھینس کے تھن بہت ڈھیلے تھے۔ ایسا لگتا تھا کسی نے پہلے ہی دودھ دوہ لیا ہے۔ بھینس صرف دانے کے لالچ میں اسے تھنوں کو ہاتھ لگانے کی اجازت دے رہی تھی۔
لیکن دوسرا کون اسے دوہ سکتا ہے؟ دیال کے علاوہ تو یہ کسی دوسرے کو تھنوں سے ہاتھ لگانے نہیں دیتی۔ بس دیال نے ہی دودھ نکالا ہے۔ چار چار دھاریں نکلنے پر چاروں تھن خالی ہوگئے۔ گڑوے میں تین چار کٹورے دودھ ہونے کی بجائے مشکل سے ایک کٹورا بھر دودھ تھا۔ اپنی بیوی کو لال اب کیا کہے گا؟ وہ جانتی تھی کہ دیال کے علاوہ یہ بھینس اور کے ہاتھ نہیں چڑھتی اور دیال کے ہاتھ سے اپنی بھینس کا دودھ نکلواکر، وہ اپنی بیوی کے سامنے چپ کرکے کیسے بیٹھ سکتا تھا۔ ہوسکتا تھا کہ لال اس سے کوئی کڑوی کسیلی بات کرے اور دیال پہلے کی طرح آنکھ نیچی کرلے اور اس طرح لال کی عزت بچ جائے۔
شاید وہ لاٹھی سے اس کے دروازے کو ٹھوکر ہی مارسکے لیکن اس کے گھر میں تو دو جوان سالے آئے ہوئے ہیں۔ وہ تو اسے دروازے کے نزدیک ہی نہیں پھٹکنے دیں گے۔ لال بھینس کے نیچے بیٹھا بھینس کے تھنوں کو پسماتا رہا۔ لیکن کوئی زیادہ دودھ کی دھاریں ان سے نہ نکلیں۔ اب تو دودھ کے آخری قطرے بھی ختم ہوگئے تھے۔
اچانک لال کو ایک ترکیب سوجھی۔ گرے ہوئے دودھ کے بارے میں یہ اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ یہ کتنا تھا۔ تھوڑا دودھ بھی زمین پر گرا ہو تو وہ زیادہ ہی لگتا ہے۔ اگر وہ اپنے لوٹے والا دودھ گرادے، تو وہ اپنی بیوی کو کہہ سکتا ہے کہ بھینس نے ٹانگ مار کر دودھ گرادیا ہے۔ ہاتھ میں پکڑا لوٹا اس نے الٹا کردیا۔ بارش کی وجہ سے پہلے ہی ہر طرف کیچڑ ہو رہاتھا، اور کہیں کہیں تھوڑا تھوڑا پانی بھی کھڑا ہوا تھا۔ اس کیچڑ اور پانی کی وجہ سے تھوڑا سا گرا ہوا دوھ بھی بہت زیادہ لگ رہا تھا۔ لال کو اپنے کیے ہوئے کام سے اطمینان ہوگیا۔
’’دودھ تو گرادیا ہے، آج اس دکھ دینے والی نے۔‘‘ اس نے بیوی کو جاکر کہا۔
’’ہائے ہائے، کس طرح؟‘‘
’’بس ٹانگ اٹھاکر ماری اس نے لوٹے پر، اور لوٹا الٹا ہوگیا۔‘‘
’’دوچھانٹے مارو ایسی بھینس کے۔‘‘ بیوی کوآٹھ پہر دودھ کے بغیر رہنے پر غصہ آرہا تھا۔
’’نہیں مارنا کیا ہے، کہیں مکھی ڈنک ماردے تو جانور پریشان ہو ہی جاتا ہے۔ بھینس تو بیچاری بڑی ’اسیل‘ ہے۔ سیدھی ہے۔‘‘
چولہے سے اٹھ کر وہ بھینس کے پاس گی۔ غیر معمولی حالت میں کسی چیز کو دیکھنے کے لیے ہر ایک کا دل چاہتا ہے۔ جیسے گرے ہوئے ہوائی جہاز، الٹے ٹرک یا گرے ہوئے دودھ کو۔
’’ہاں۔۔۔ کتنا سارا دوھ تھا۔ جوہڑ بنا ہوا ہے، دودھ کا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے لال کے دل کو بھی ٹھنڈک پہنچادی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.