میں نے چوتھا مکان بھی بدل لیاہے، شاید یہی بتانے کے لیے تمہیں دوسرا آخری خط لکھ رہا ہوں۔ یوں تو پہلے خط کا جواب نہ پا کر مجھے ہر گز دوسرا خط نہیں لکھنا چاہیے تھا مگر کیا کروں اور کوئی چارہ بھی تو نظر نہیں آتا۔ نئے مکان میں اور خوبیوں کے علاوہ ابھی کل ہی ایک ایسی خوبی دریافت ہوئی ہے کہ بےاختیار تم یاد آ جاتے ہو۔ نئے مکان میں منتقل ہوئے ابھی دن ہی کتنے ہوئے ہیں؟ یہ مکان، جدید طرز کے مکانوں کے غربی لین کے بیچوں بیچ نشیب میں اترتی ایک گلی کا آخری مکان ہے۔ سامنے کی گلی سے آئیں تو سیڑھیاں نیچے اترتی ہیں اور پچھواڑے کی گلی اختیار کی جائے تو سیڑھیوں کا تصور ہی ختم ہو جاتا ہے ۔گلی کا یہ آخری مکان ہے اس لیے ایک چھوٹے سے لان کے بعد نشیب کی طرف جنگل شروع ہو جاتا ہے جس کے بیچوں بیچ پہاڑی نالہ میرے کمرے کی کھڑکی کے قریب سے گزرتا جنگل میں گم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ نئے مکان میں منتقل ہوئے ابھی مجھے چند ہی روز ہوئے ہیں۔ ان چند دنوں میں یکسوئی اور تنہائی میسر ہی کہاں آ سکی کہ تمہیں یاد کرتا مگر کل سے یہ سارے اسباب موجود ہیں۔ کمرے کی کھڑکی کا ہر زاویہ قلب و نظر پر ایک نیا منظر وا کرتا چلا جاتا ہے۔ کھڑکی سے باہر سر سبز جنگل ہے۔ یہاں سے باہر کا منظر میرے لیے بیک وقت ’’پھڑیلہ ریسٹ ہاؤس‘‘ کے پچھواڑے کی طرف سر سبز وادی کا نظارہ بھی ہے اور گھوڑا گلی میں شمس آغا کے قدیم بنگلے کی بالکنی سے نظر آنے والے پائین کے گھنے درختوں سے ڈھکی گہرائیوں اور پنہائیوں کا دلکش منظر بھی ہے۔ کھڑکی سے باہر کا منظر خانس پور میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے قدیم ریسٹ ہاؤس کے وسیع لان سے نیچے پھیلی گہری وادیوں کے پرکیف نظاروں سے بھی مختلف نہیں۔ یہ سبھی نظارے کمرے کی کھڑکی میں اس لیے یکجا ہو گئے ہیں کہ ان سب مناظر میں تم ہو اور میں ہوں!
یاد ہے جب بدلتے موسموں کے سنگم پر ایسی ہی ایک دوپہر ہم دونوں گم شدہ کہانی کار شمس آغا کے گھوڑا گلی والے قدیم بنگلے میں جا اترے تھے۔ جہاں اس کے دادا مرحوم کا اپنے وقت کا پرشکوہ بنگلہ شمس آغا اور جمال الرحمن دُرانی کا خوب صورت بچپن اپنے در و دیوار میں سمیٹے خستہ حال اور خاموش کھڑا تھا۔ تمہیں یاد ہے نا۔۔۔ ہم بائیں جانب ڈھلوان پر لگے آلوچے اور ناشپاتیوں کے درختوں کی بیچ اگی بے ہنگم گھاس پر بیٹھے شمس آغا اور اس کی زندہ کہانیوں پرگفتگو کر رہے تھے۔ میں نے شمس آغا کے بھائی جمال الرحمن درانی کی مرتب کردہ شمس کی اکلوتی کتاب ’’اندھیرے کے جگنو‘‘ سے جانے کتنی کہانیاں تمہیں ایک ہی نشست میں سنا ڈالی تھیں پھر کچھ ہی دیر میں تم بھی اس کی گرویدہ ہو گئی تھیں۔ اس لمحے تم نے ایک ہی سانس میں کئی سوال کر ڈالے تھے، ’’شمس آغا کون تھا؟ اس کے دوسرے بہن بھائی کہاں ہیں؟ اور وہ خود کہاں چلا گیا ہے؟‘‘ مجھے خاموش پاکر تم نے ایک معصوم سی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ ’’اگر آج ہمیں شمس آغا یہاں مل جاتا ہم تو اسے کہیں نہ جانے دیتے۔‘‘
یہ سب یاد کرتے ہوئے میں سوچ رہا ہوں کہ انسان بھی کائنات میں ایک پہیلی کی طرح ہے۔۔۔! اپنے قریب موجودانسانوں کو پہچاننے کے بجائے دور ازقیاس اور ناموجود انسانوں کی خواہش کرنے لگتا ہے۔ اگر تم پہچاننے کی صلاحیت رکھتیں تو میرے اندر جھانک لیتیں، تمہیں شمس آغا کی محبت میں سر شار، شمس آغا کی دُنیا اور اس سے نصف صدی بعد کی دنیا کے مسائل زدہ انسانوں سے پیار کرنے والا نیا شمس آغا مل سکتا تھا۔ تمہیں تو ناموجود کی خواہش مار گئی اور تمہیں مجھ سے یوں دور لے گئی جیسے اس خواہش نے تمہیں ساحرؔ سے دور کر دیا تھا۔ تب میں نے تمہیں مشورہ دیا تھا کہ تم ’’اپنے آپ کو پہچان لو،دوسرے خود ہی تمہاری پہچان میں آ جائیں گے۔‘‘
ذرا یاد کرو، شمس آغا کو غائب ہوئے پچپن سال ہو چکے ہیں، پتہ نہیں اب وہ اس جہاں میں ہے بھی کہ نہیں؟ وہ تو اب تک نہ لوٹ سکا مگر تمہیں تو گئے ہوئے ایک برس بھی نہیں ہوا، تم تو آ سکتی ہو مگر تم توجمال الرحمن دُرانی کے مرنے کی خبر پڑھ کر بھی واپس نہ آئیں۔ یاد کرو جب میں نے تمہیں شمس کی نجی زندگی کے بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے اس کے چھوٹے بھائی جمال الرحمن درانی کے بارے میں بتایا تھا، وہی جمال درانی جس نے شمس کی ادھر ادھر بکھری کہانیوں کو تلاش کرکے ’’اندھیرے کے جگنو‘‘ کی صورت یکجا کر دیا تھا۔ ادبی دنیا کے ایک گم شدہ باب کو شناخت دے دی تھی، وہی جمال درانی جو شمس آغا کے گھوڑا گلی والے بنگلے سے واپس آتے ہوئے کار کے حادثے میں چل بسے تھے۔ میں نے اخبارات میں بھی ان کی موت کی خبریں لگوائی تھیں مگر تم لوٹ کہ نہ آئیں۔ تمہیں بھلا شمس آغا سے کیا محبت ہو سکتی ہے؟
میرے کمرے میں انتظار کی وہی سہ پہر ہے، جب شمس کے بنگلے کے آس پاس لگے کچے پکے آلوچے، سیب اور ناشپاتیوں سے ہمارا پیٹ نہ بھرا تو ہم شمس آغا کو چپکے سے خدا حافظ کہہ کر سڑک پر اتر آئے تھے۔ ہمارا دو پہیّہ ہمیں اپنی آغوش میں لئے درختوں سے ڈھکی ٹھنڈی چڑھائیاں چڑھنے لگا۔ ہم راستے میں درختوں کی گھنی چھتری کے نیچے سڑک کے بائیں کنارے پر بنے ایک تنہا ریسٹورنٹ پر جا رکے تھے۔ جہاں سے نشیب میں زرد چناروں تلے بسی خوب صورت وادی دور تلک نظر آتی تھی۔ ہم ریسٹورنٹ سے ذرا فاصلے پر ہفت رنگ چھتریوں تلے سجی میزوں میں سے ایک پر جا بیٹھے۔ توتم بہت اداس ہو گئی تھیں۔
’’کیا ہوا اتنی اداس کیوں ہو؟‘‘ میں نے پوچھا:
’’کچھ نہیں بس یونہی کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ زندگی کیا ہے؟ لمحہ لمحہ چہرہ بدلتی، کروٹیں لیتی اس زندگی کو کیا نام دیا جائے؟ یہ کہیں رکتی اور ٹِکتی ہی نہیں کہ اسے کوئی نام دیا جا سکے‘‘۔۔۔
’’پگلی۔۔۔ زندگی کیا ہے؟۔۔۔ اس سوال کا جواب پانے کے لیے تو صدیوں سے انسان کے آنے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔۔۔ اب دیکھو نا شمس آغا ہی کو لے لو۔۔۔ اس کی زندگی میں بھلا کیا کمی تھی؟۔۔۔ مگر وہ عام آدمی نہیں تھا۔ وہ ایک حساس تخلیق کار تھا۔ دوسروں کو دکھ درد میں مبتلا نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔۔ اس کے اندر طرح طرح کے سوالات جنم لیتے تھے۔ وہ اپنے آپ سے اور آس پاس کے انسانوں سے تشنہ سوالوں کے جواب پوچھتا تھا۔۔۔ اور جواب نہ پاکر اداس ہو جاتا۔ زندگی کی اپنی بو قلمونی اسے پریشان کرتی تھی جب اس کے ارد گرد پھیلے ماحول میں تضادات بڑھ گئے اور زندگی کا کوئی مفہوم سمجھ نہ آیا تو 1942ء میں وہ اپنی تلاش میں نکل کھڑا ہوا اور پھر اتنی دور نکل گیا کہ آج تک لوٹ کر واپس نہ آ سکا‘‘۔۔۔ تمہیں ایک بار پھر اداس ہوتا دیکھ کر میں نے موضوع بدلنے کی کوشش کی تھی۔
’’صفو میری جان! اداس مت ہوا کر۔۔۔ ہونی، ہو کر ہی رہتی ہے۔ کائنات کا یہ سارا کھیل یونہی اَزل تا اَبد جاری رہےگا۔ اوپر والا کائنات کے اس کھیل کی بساط بچھا کر بیٹھا ہے۔ وہ خالق ہے اور ہم مخلوق ہیں۔ اس لئے پریشان مت ہوا کر یہ زندگی ہے۔ جو چلتی رہتی ہے کبھی نہیں رکتی۔۔۔ چل تو بھی قدم بڑھا ہمیں ابھی اور آگے جانا ہے۔۔۔‘‘
دوسرا آخری خط شروع کئے ہوئے کئی روز بیت چکے ہیں۔ مجھے یہ خط مکمل کرنے کی کوئی خاص جلدی نہیں ہے۔۔۔ یہ تو تمہاری سفاک یادیں ہیں جو مجھ جیسے الجھے ہوئے مصروف آدمی کو وقت، بے وقت ستانے آ جاتی ہیں۔میں جب بھی اپنے کمرے میں جنگل کی سمت کھلنے والی کھڑکی کے قریب لگی میز پر کام کے لئے بیٹھتا ہوں تو تمہاری یادیں میرا گھیراؤ کر لیتی ہیں اور اپنے آپ کو مجھ سے لکھواتی ہیں۔ کبھی موج میں آئی کوئل کی کوک تمہاری صدا بن جاتی ہے۔ کبھی درختوں سے ٹکراتی پھول پتوں سے کھیلتی ہوا تمہارے پیرہن کی سرسراہٹ بن کر دل کے کواڑوں پر دستک دینے لگتی ہے یا پھر اچانک امڈ آنے والے بادلوں سے برستی بوندیں کھڑکی کے شیشوں پر بل کھاتی ناگنوں کی طرح اترنے لگتی ہیں۔ جیسے اس روز ریسٹورنٹ سے باہر درختوں تلے بیٹھے میری گفتگو کے دوران تمہاری مسکراتی آنکھیں اچانک چھلک پڑی تھیں۔ جب میں بے خیالی میں نشیب کی طرف دور تک پھیلی، وادی کی طرف دیکھتے ہوئے بولے جا رہا تھا۔ جہاں جھکے ہوئے چناروں کے نشیب سے سورج کی تھکی ہو ئی روپیلی کرنیں جاتے جاتے خدا حافظ کہہ رہی تھیں۔ میں نے گردن گھمائی تو جانے کون سے پردرد لمحے آنسو بن کر تمہارے گالوں کو چومتے میری ہتھیلیوں پر پھیل گئے تھے۔اس وقت بھی کھڑکی سے باہر کا منظر بالکل اسی منظر سے ملتا جلتا ہے۔ یوں جیسے تیرے میرے بیچ گزری بہت سی پرکیف سہ پہریں اور سہانی شامیں میرے من کی کھڑکی میں ٹھہر گئی ہوں۔ تیز ہوا بہت دیر اونچے نیچے درختوں پر جھولا جھول چکی، بادل امڈے تو کبھی تیز اور کبھی ہلکی بارش ہونے لگی۔ کمرے میں تھوڑی دیر کے لیے اندھیرا چھا گیا۔ دوسرے ہی لمحے میرا اطراف تمہاری یادوں سے جگ مگا اٹھا۔ اب بار ش کا زور ٹوٹ چکا ہے، آسمان سے پھّوار اتر رہی ہے جس کے شبنمی قطرے، جنگل کے اس پار غروب ہوتے سورج کی کرنوں میں پتوں، پر چمکتے ہوئے موتیوں کی ماننداتر رہے ہیں۔ ایسے میں مجھے۔۔۔ پہلی ملاقات کا وہ منظر بھی یاد آیا جب ہم پہاڑ پر درختوں کے بہت اونچے جھنڈ میں ایک چٹان پر فطرت سے ہم آغوش بیٹھے تھے۔ غروب آفتاب سے ذرا پہلے کا وقت تھا ابھی خموشی کی سر گوشی جاری تھی کہ آسمان پر کوئی آوارہ بادل تمہاراحال سن کر فرط جذبات سے رو پڑا تھا۔ چٹان سے ہزاروں فٹ نیچے سرسبز گھاٹی میں مٹی کے ایک اکیلے گھروندے کا منظر صاف ہو گیا تھا۔ اس کی چمنی سے نکلتی نیلگوں دھوئیں کی بل کھاتی لکیر کچھ اور واضح ہو گئی تھی۔ ابھی بارش رکی ہی تھی کہ بمشکل تھّمے ہوئے تمہارے آنسو پھر سے بہہ نکلے تھے۔ وادی کے اس پار چٹان کی اوٹ میں چھپتے سورج کی زردی، لاوا اگلتی محسوس ہوتی تھی۔ اس منظر کو دیکھتی آنکھیں اور گالوں پر بہتے آنسو تمہارے اندر کا لاوا ہی تو تھے۔ جو نہ جانے کب سے من کے اندر پک رہا تھا۔ تب یاد ہے میں نے وہ آنسو پونچھتے ہوئے کہا تھا:
’’صفو! یہ آنسو آنے والے لمحوں کے لیے سنبھال رکھو۔۔۔ ابھی پوری زندگی پڑی ہے۔ یہ قیمتی متاع ایسی چھوٹی موٹی باتوں پر لٹانے کے لئے نہیں ہے۔‘‘
تب تک تمہاری طبیعت ہلکی پھلکی ہو چکی تھی اور تم یہ سن کر مسکرا دی تھیں۔
پرندے اپنے گھونسلوں کو پلٹنے لگے تھے۔ جھنڈ میں دور و نزدیک کے درختوں میں جگہ جگہ پرندوں کی چہلیں اور خوش کن آوازیں تیز ہونے لگیں تھیں۔
’’دیکھو زندگی کتنی خوب صورت ہے؟ کیا ان پرندوں کی میٹھی آوازیں تمہیں سُہانی زندگی کا احساس نہیں لوٹاتیں‘‘۔۔۔ تب میری بات کی تائید میں یک لخت تمہاری نگاہیں اٹھی تھیں اور میرے سینے سے جا لگیں اور دیر تلک مجھ سے یوں ہی لپٹی رہیں تھیں۔ تادیر جب ہوش آیا تو سورج ڈوب چکا تھا اور ہمارے اطراف میں اندھیرا چھانے لگا تھا۔ آس پاس پرندوں کی آوازیں تھم گئی تھیں اور ان کی جگہ جھینگروں کی تیز آوازیں بسیرا کرنے لگیں تو ہم جاگتے میں خواب دیکھتی تنہائی سے اپنی شور مچاتی تلخ زندگی میں واپس لوٹ آئے تھے۔
’’میں نے کہا ناں! مجھے دوسرا آخری خط مکمل کرنے کی کوئی خاص جلدی نہیں۔۔۔ تمہاری جانب سے تو پہلے کا جواب بھی ادھار ہے، اگر یہ خط بھی پوسٹ کر دیا تو کیا پتا اس کا حشر بھی پہلے کے جیسا ہو۔۔۔‘‘ مزید یہ کہ اگر خط مکمل کر کے پوسٹ کر دیا گیا تو یہ جو اتنے عرصے سے تمہارے اور میرے درمیان ’’ہاٹ لائن‘‘ کا رشتہ ساجڑا ہے، ٹوٹ جائےگا۔ میں اب مزید کسی توڑ پھوڑ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ پہلے کیا کم رشتے ناتے تھے جو دیکھتے ہی دیکھتے بکھر گئے ہیں۔ پلک جھپکنے میں ایسے ٹوٹے ہیں کہ جیسے کبھی تھے ہی نہیں اور پھر تمہارا کیا ہے؟ تم تو عادی ہوناں اس جوڑ توڑ کی۔۔۔! میں تو سچا دوست ہوں تمہارا لیکن اندر سے کمزور اور اداس ہوں۔۔۔ ڈیڑھ سال ہو چلا ہے تمہیں دیکھے ہوئے۔ اب تو تیرے خوب صورت گاؤں کا رستہ بھی بھولتا جا رہا ہے،لیکن وہاں ہوگا بھی کون؟ وہی خاک دان جہاں دھول اڑتی ہوگی۔ اگر تم وہاں ہوتیں تو خط کی جگہ خود اڑ کر پہنچ جاتا مگر تم تو یہیں کہیں ہو، اسی شہر بےوفا میں، جہاں کے نہ موسم کا اعتبار ہے نہ۔۔۔!
’’میں نے اب تک اپنے اور تمہارے درمیان قائم اس رشتے پر بڑا غور کیا ہے۔۔۔ مگر سمجھ نہیں آتا کہ اسے کیا نام دوں؟۔۔۔ بس دل ہے کہ ہر وقت کھینچتا رہتا ہے۔۔۔ بے طرح اداس رہتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کچھ کھو گیا ہو’’ اسی کا نام زندگی ہے شاید۔۔۔ ‘‘بچھڑ کے ملنا اور مل کے بچھڑنا‘‘۔۔۔
اور ہاں یاد آیا، تم نے اپنا وہ پورٹریٹ تو یقیناً سنبھال کے رکھا ہوگا جس میں ظہیر کافسر نے انتہائی محنت اور خلوص سے رنگ بھرے تھے۔ یاد ہے جب پورٹریٹ مکمل ہوا تو میں نے تمہاری بائیسویں سال گرہ پر پیش کیا تھا۔ ظہیر میرا یار تھا۔۔۔ وہ میرے احساسات سے واقف تھا۔ میری کیفیات کو محسوس کرتا تھا۔ اس نے یہی سب کچھ اپنے سچے رنگوں میں گھول کر تمہاری تصویر بنائی تھی اور میں وُہ تصویر سال گرہ کے آخری تحفے کے طور پر تمہارے ہاسٹل چھوڑ آیا تھا۔ تم نہ تھیں اور کر بھی کیا سکتا تھا۔ کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ وہی ظہیر، وہی سچا آرٹسٹ خوش حالی اور خوب صورتی کے خواب دیکھتے ہوئے خود ایک طویل خواب کا حصہ بن گیا۔ کئی ماہ ہوئے دس ٹائروں والا بےرحم ٹرک نرم و نازک اور سانولے سلونے ظہیر کو کچلتا ہوا نکل گیا۔ بھابی اور بچیاں، ظہیر کی بے جان تصویروں، ادھورے رنگوں اور رنگیں خوابوں کے درمیان، کسی نامکمل پورٹریٹ کی مانند تنہا رہ گئی ہیں۔۔۔ تم ہوتیں تو ان کی ڈھارس بندھاتیں ان کے دکھ سکھ بانٹتیں لیکن تم۔۔۔ تم نے تو پلٹ کر دیکھنا بھی گوارہ نہ کیا۔۔۔ کتنے ساون بیت چکے ہیں۔۔۔ لیکن اندر کا ساکت موسم ویسے کا ویسا ہی ہے۔۔۔ ذرا بھی نہیں بدلا۔۔۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کہیں بہت اندر خزاں ٹھہر گئی ہو۔۔۔ جیسے آج کل میرے کمرے کی کھڑکی سے باہر خزاں کا راج ہے۔ پہاڑی نالے کا پانی ایک دھیمے ترنم کے ساتھ پرسکون بہہ رہا ہے۔ درخت پتوں کے بوجھ سے آزاد ہلکے پھلکے لگ رہے ہیں۔ پرندوں نے بھی آشیانے بدل لئے ہیں۔۔۔ اور ان کے نغمے بھی جنگل کی فضاؤں سے روٹھ چکے ہیں۔ چند سوگوار کوے ہیں جو کائیں کائیں کر کے زندگی کا احساس لوٹاتے ہیں یا پھر کھڑکی کے سامنے سے گزر کر جنگل میں گم ہوتی ویران پگڈنڈی پر کچلتے خشک پتوں کی کرلاہٹیں اچانک متوجہ کرتی ہیں۔ ورنہ آس پاس اتنی خاموشی ہے کہ کسی اونچے درخت سے ٹوٹ کر گرتے خزاں رسیدہ پتے کا خاموش احتجاج تک سُنائی دے جاتا ہے۔ یہ خاموش احتجاج بھی اپنے اندر بہت طاقت رکھتا ہے لیکن اس کا اندازا بھی صرف وہی کر سکتا ہے، جس نے خاموشی کی آہٹ سنی ہو۔ تنہائی میں گزرتے وقت کی نبض پر ہاتھ رکھ کر اس کی سانسیں گنی ہوں۔ میرا خیال ہے مجھے بھی ساعت شماری ترک کر دینا چاہئے۔ تمہارے ساتھ بتائے لمحوں کی یادوں کو ٹٹولنا چھوڑ کر خاموش ہو جانا چاہئے کہ خاموشی میں بڑی طاقت ہے۔ یہ اپنے اندر جادوئی تاثیر رکھتی ہے اس لیے مجھے اپنا یہ خط گہری خاموشی پر ختم کر دینا چاہئے اور آج ہی پوسٹ کر دینا چاہئے مگر۔۔۔ مگر کس پتے پر؟۔۔۔ میرے پاس تو تمہارا پتہ بھی نہیں ہے۔۔۔ اتنے عرصے میں مجھے اس کا خیا ل تک نہیں گزرا ۔۔۔ حیرت ہے۔۔۔ میں نے پہلا آخری خط تمہارے ہاسٹل کے پتے پر پوسٹ کیا تھا، جس کا جواب تم پر فرض تھا مگر اب یہ دوسرا آخری خط۔۔۔ نہیں۔۔۔ نہیں میں اسے ’’ڈیڈ لیٹر‘‘ نہیں بننے دوں گا۔۔۔ یہ ایک زندہ خط ہے۔۔۔ دوسرے آخری خط میں میری اور تمہاری زندہ یادیں لپٹی ہیں۔ بھلا یادیں بھی کبھی مرتی ہیں۔۔۔؟ یہ تو انسانوں کے ساتھ ساتھ زندہ رہتی ہیں۔ انسان مر جاتے ہیں۔۔۔ یادیں تب بھی زندہ رہتیں ہیں۔۔۔ میں یادوں کے رازداں اس خط کو پوسٹ تو نہیں کر سکتا مگر تمہاری دوسری نشانیوں کے ساتھ اسے محفوظ تو کر سکتا ہوں۔۔۔ تمہاری ادھوری نظمیں بھی تو میرے ساتھ ہم کلام رہتی ہیں۔ میرے یہ خاموش احساسات و جذبات بھی اگر تاثیر رکھتے ہیں تو تم تک ضرور پہنچیں گے۔۔۔ اور ان کی صدائے باز گشت بھی ایک نہ ایک روز مجھ تک ضرور پہنچےگی۔ مجھے اس کا پورا یقین ہے بلکہ میں اس کے لئے زندگی بھر انتظار کر سکتا ہوں!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.