Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دوسرا آدمی

حمید قیصر

دوسرا آدمی

حمید قیصر

MORE BYحمید قیصر

    شہر کی نئی اور پرانی آبادی کے درمیان راستے میں کوڑے کا بڑا ڈھیر پڑتا تھا، اعجاز کا ہفتے میں دوبار نئی آبادی کے ترقیاتی دفتر کا پھیرا ضرور لگتا تھا۔ کبھی ٹینڈر داخل کرانے تو کبھی سپلائی آرڈر دینے۔ اگر کوئی کام نہ بھی ہوتا تب بھی اعجاز اور نعیم کی ملاقات ضرور ہوتی۔اس کا دوست نعیم ترقیاتی ادارے میں ایک شعبے کا انچارج تھا۔ اس روز بھی اعجاز ویگن سے اتر کر ذیلی سڑک پر خراماں خراماں نعیم کے دفتر کی طرف رواں تھا۔ اس نے کوڑے کے ڈھیر پر دور ہی سے ایک خوش لباس اور معزز شخص کو چھڑی سے پرانے کپڑے ادھر ادھر کرتے دیکھ لیا تھا۔ اعجاز کو خاصا تجسّس ہوا، جب وہ تیزی سے قدم اٹھاتا قریب پہنچا تووہ شخص پرانے کپڑے چھانٹ رہا تھا، اس کا ملازم چھانٹی شدہ کپڑے بوری میں بھر رہا تھا۔ نئے ماڈل کی ایک کار سڑک کے کنارے کھڑی تھی۔

    اعجاز کی حیرت کی انتہا نہ تھی وہ سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ تھری پیس سوٹ پہنے کوئی شخص سرِ راہ کوڑے کے ڈھیر پہ کھڑا ایسا غلیظ اور گھٹیا کام بھی کر سکتا ہے۔ اعجاز کا جی چاہا کہ وہ لمحہ بھر رُک کر اس سے اس کی مجبوری دریافت کرے۔ دوسرے ہی لمحے اس نے اعجاز کو نظر اٹھا کر یوں پر اعتماد نگاہوں سے دیکھا کہ اعجاز نے مرعوب ہو کر رکنے کا ارادہ ترک کر دیا۔ تاہم چلتے چلتے اعجاز نے مڑکر کئی بار کوڑے کے ڈھیر کی جانب دیکھا مگر اس کے ذہن کے جالے میں وہ شخص کسی آوارہ مکھی کی مانند الجھ کر رہ گیا تھا۔ اسی ادھیڑ بن میں اعجاز اپنے دوست نعیم کے دفتر جا پہنچا۔ اعجاز جو تھوڑی دیر پہلے ہلکے پھلکے ذہن کے ساتھ نعیم کی طرف آ رہا تھا اب اس کا ذہن اس شخص کے بارے میں انواع و اقسام کے خیالات سے اَٹ چکا تھا۔ جب اعجاز، نعیم کے کمرے میں داخل ہوا تو نعیم ٹیلی فون پر اپنی بیوی سے کسی سنجیدہ گھریلو معاملہ پر گفت گو کر رہا تھا۔

    ’’ارے بھئی نصرت! مجھے پریشان مت کرو، اگر نئے ہمسائے تمہارے گھر کی کمپاؤنڈ وال پر گیلے کپڑے ڈالتے ہیں تو اس میں کیا برائی ہے؟‘‘ دوسری جانب سے اس کی بیوی اختلاف کر رہی تھی۔ نعیم صبر اور خاموشی سے سن رہا تھا لیکن اس کے چہرے پر تیرتے ناگواری کے سیاہ بادل صاف نظر آ رہے تھے۔

    ’’اچھا تم پریشان نہ ہو، میں شام کو آکر ان سے بات کر لوں گا اور دیکھو پلیز نئے ہمسائے میں کسی سے اختلاف پیدا نہ کرنا، مجھ میں اب مزید ہمت نہیں روز روز گھر بدلنے کی۔’‘ یہ کہہ کر اس نے فون بند کر دیا۔

    ’’ہاں بھئی اعجاز کیسے ہو؟ کہاں رہے اتنے دن؟‘‘ نعیم نے ایک دم چہک کر پوچھا۔

    ’’یار تم نے چپکے چپکے گھر بدل لیا اور ہمیں کانوں کان خبر تک نہ دی، کیا تم نے کسی کا ادھار دینا تھا؟‘‘ اعجاز نے بے تکلفی سے پوچھا۔

    ’’نہیں یا ر، ایسی تو کوئی بات نہیں۔ آج کل نئے گھر میں ایک عجیب سی الجھن ہے۔’‘

    ’’اللہ خیر کرے۔ کیا بات ہے؟‘‘ اعجاز نے دریافت کیا۔

    ’’نئے گھر میں آئے آج ایک ہفتہ ہو چلا ہے، ہم ایک دن بھی باہر دھوپ میں نہیں بیٹھ سکے۔‘‘

    ’’یار تمہیں، باہر نکلنے سے کیا بھابھی نے روک رکھا ہے؟‘‘ اعجاز نے اپنی فطری شگفتگی کا مظاہرہ کیا۔

    ’’برابر والے بڑے میاں کو خدا جانے کیا خبط ہے، اتنی بڑی کوٹھی کو دھوبی گھاٹ بنا رکھا ہے، روزانہ لان میں یہ بڑی بڑی واشنگ مشینیں ہمہ وقت کپڑے دھوتی رہتی ہیں۔ ان کے ملازمین دن بھر کپڑے کھنگالتے ہیں۔ اڑوس پڑوس کی چھتوں اور دیواروں پر سکھاتے ہیں۔ انہیں رفو اور استری کرتے ہیں، پھر نجانے گاڑیوں میں بھر کر کہاں بھیجتے ہیں۔ ہماری تو کچھ سمجھ میں نہیں آتا؟۔‘‘

    ’’یار نعیم اس میں پریشان ہونے والی بھلا کون سی بات ہے؟ممکن ہے یہ اس کا کاروبار ہو۔‘‘

    ’’بھئی اگر اس نے یہ بےہودہ کاروبار ہی کرنا ہے تو بازار میں لانڈری کی دکان کھول لے، گھر کو تو دھوبی گھاٹ نہ بنائے ناں۔‘‘

    ’’کہتے تو تم ٹھیک ہو۔۔۔ تم نے کبھی اس بڑے میاں سے بات نہیں کی؟‘‘ اعجاز نے پوچھا۔

    ’’یار سوچتا ہوں، کیا ضرورت ہے کسی کے معاملات میں دخل دینے کی، میں تو ویسے بھی سارا دن گھر سے باہر رہتا ہوں لیکن تمہاری بھابھی اور بچے اس کی وجہ سے باہر نہیں نکل سکتے۔ یہ لوگ اپنے گھر تک محدود رہتے تو اور بات تھی، حد تو یہ ہے کہ کپڑے سکھانے کے لئے ہماری چھت اور کمپاؤنڈ وال استعمال کی جارہی ہے۔’‘ نعیم نے تفصیل بتائی۔

    ’’یار عجب ماجرا ہے، اتنے ڈھیر سارے کپڑے وہ دُھوتے کس لیے ہیں۔ ایک گھر کے کپڑے تو یہ ہو نہیں سکتے، پھر یہ قصہ کیا ہے؟‘‘ اعجاز بھی الجھ سا گیا۔

    ‘’نئے گھر میں لوگ سکون کا سانس لیتے ہیں مگر ہماری تو زندگی اجیرن کر دی ہے اس شخص نے‘‘

    ’’سنو تمہارے پڑوسی کا حلیہ کیسا ہے؟‘‘ اعجاز کو اچانک ایک خیال آیا۔

    ’’کیوں؟ پوچھ تو تم ایسے رہے ہو جیسے اسے پہلے سے جانتے ہو؟‘‘

    ’’یار تم بتاؤ تو سہی پھر میں بھی تمہیں ایک دلچسپ کہانی سناتا ہوں۔‘‘

    ’’میں تو اب تک اس کی باوقار شخصیت کے رُعب میں مبتلا ہوں، ورنہ اب تک کھڑاک نہ کر چکا ہوتا؟‘‘ نعیم بولا۔

    ’’کیا مطلب؟‘‘

    ’’مطلب یہ کہ وہ سارا دن نفیس اور اعلیٰ قسم کے سوٹ پہنے، ہیٹ لگائے بَڑھیا نسل کا سگار سلگائے، کام کی نگرانی کرتا اور لان میں ٹہلتا رہتا ہے، مجال ہے جو ہم غریبوں کی طرف آنکھ بھی اٹھا کر دیکھ لے’‘۔۔۔ نعیم نے اپنے پڑوسی کا گویا نقشہ کھینچا۔

    ’’اللہ نہ بھلائے یہ تو وہی سحر انگیز شخصیت والا ادھیڑ عمر شخص ہے جسے میں نے تھوڑی دیر پہلے دیکھا تھا‘‘ اعجاز بولا۔

    ’’یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو؟‘‘۔۔۔ نعیم نے تعجب سے پوچھا۔

    ’’پہلے تم خاموشی سے میری بات سنو پھر تمہیں سارا قصہ سمجھ میں آجائےگا۔ میں نے دفتر آتے ہوئے کوڑے کے ڈھیر پر ایسے ہی ایک شخص کو پرانے کپڑے چھانٹ چھانٹ کر بوریوں میں بھرتے دیکھاہے اور اس کا حلیہ تمہارے پڑوسی سے خاصا ملتا جلتا ہے۔۔۔ وہ ہاتھ میں اخروٹ کی چھڑی بھی تو رکھتا ہے ناں؟‘‘

    ’’ہاں ہاں۔۔۔ بالکل‘‘

    ‘’تو پھر یہ سو فی صد وہی شخص ہے۔ اگر یقین نہ آئے تو میرے ساتھ چل کر خود ہی دیکھ لو۔‘‘ اعجاز بڑے وثوق سے بولا۔

    نعیم جو پہلے ہی حیرت و استعجاب کی کیفیت میں مبتلا تھا، مارے تجسّس کے اعجاز کو لیے دفتر سے نکل کھڑا ہوا۔

    ‘’اگر ڈھیر سے کپڑے چننے والا پُر اسرار شخص میرا پڑوسی ہوا تو معاملہ اور بھی سنگین ہو جائےگا۔‘‘ نعیم تیزی سے گاڑی چلاتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں دونوں کوڑے کے ڈھیر تک جا پہنچے۔ جہاں ایک پٹھان لڑکا بورا کاندھے پر ڈالے کوڑے کرکٹ میں سے اپنے مطلب کی چیزیں تلاش کر رہا تھا، اس کی خستہ حال سائیکل پاس کھڑی تھی اور ایک مریل ساکتا ڈھیر پر ادھر ادھر بھٹک رہا تھا۔

    ’’اعجاز! کہاں ہے وہ شخص؟‘‘

    ’’یہی دیکھ کر تو میں پریشان ہوں، ابھی آدھا گھنٹہ پہلے تو وہ لوگ یہیں تھے، یہ دیکھو پھٹے پرانے کپڑے وہ ڈھیر پر ہی چھوڑ گئے ہیں۔’‘ اعجاز نے شہادت دی۔

    ’’کیا تم نے واقعی ایسے حلیے کے شخص کو ڈھیر پر دیکھا تھا؟‘‘

    ’’ہاں یار! مجھے بھلا جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ اعجاز زور دے کر بولا۔

    ‘’یار خان! تم یہاں کتنی دیر سے ہو؟‘‘ اعجاز پٹھان لڑکے سے مخاطب ہوا جو دونوں کو یوں حیران و پریشان دیکھ کر وہاں سے کھسکنے کی کر رہا تھا۔

    ’’مجھے ادھر پندرہ منٹ ہو گیا ہے۔‘‘ لڑکا بولا۔

    ‘’تم نے یہاں کسی کو بوری میں کپڑے بھرتے دیکھا تھا۔‘‘ نعیم بولا۔

    ’’ہاں ہاں! دو آدمی تھا، گاڑی میں بوریاں رکھ کر ادھر چلا گیا۔‘‘ لڑکے نے جواب دیا۔

    ‘’اگر یہ کم بخت میرا پڑوسی ہے تو نہایت چالاک اور مکار آدمی ہے، میں اسے محلے میں نہیں رہنے دوں گا، کرتوت کباڑیوں کے اور آن بان دیکھو شہنشاہوں والی، سالا کہیں کا، لان میں یوں ٹہلتا ہے کہ اچھے اچھوں کو احساسِ کم تری ہونے لگتا ہے۔’‘ نعیم بُڑ بڑائے چلا جا رہا تھا۔

    ‘’چلو نعیم تمہارے گھر چل کر دیکھتے ہیں۔ ممکن ہے وہ گھر ہی کو گئے ہوں۔’‘ اعجاز نے گاڑی کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔

    ‘’یار میرے لیے تو یہ قصہ بہت پراسرار ہو چلا ہے۔’‘ نعیم بولا۔

    ‘’اچھا تم پریشان نہ ہو، اگر تمہارا پڑوسی گھر پر ہوا تو اس سے براہِ راست بات کر لیں گے۔‘‘ اعجاز نے اسے تشفی دی۔ ’’مجھے تو اب تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ اتنے اچھے اسٹیٹس والا اس قدر گھٹیا کام کیوں کرتا ہے؟ اگر لنڈا ہی بیچنا ہے تو بازار میں مل جاتا ہے مگر گندگی کے ڈھیروں سے کپڑے چننے اور گدڑیاں اٹھا کر گھر پر دھونے کی بھلا کیا تک ہے؟‘‘ نعیم غصے سے کڑاہی میں بھنتے چنے کی طرح اچھل رہا تھا۔

    دونوں یو نہی الجھے الجھے گھر پہنچے تو نعیم نے بائیں جانب اشارہ کر کے اعجاز کو پڑوسی کا گھر دکھایا، جہاں سامنے کی دیوار سے اندر کا پورا منظر نظر نہ آ رہا تھا۔ ہارن بجانے پر نعیم کے ملازم نے گیٹ کھولا اور گاڑی پورچ میں جا رکی۔ اتنے میں گاڑی کی آواز سُن کر مسز نعیم باہر آ گئیں۔

    ‘’آج اتنے دنوں بعد اعجاز بھائی کو دیکھا ہے، گھر میں تو خیریت ہے ناں؟‘‘ مسز نعیم نے خوش دلی سے اعجاز کا استقبال کیا۔

    ‘’جی ہاں! بھابھی جان، مجھے دس بارہ دن کے لیے شہر سے باہر جانا پڑا۔ اب آیا تو فوراً نعیم کے دفتر جا پہنچا۔۔۔ آپ لوگوں نے عجلت میں گھر شفٹ کر لیا، میرا انتظا ر کر لیتے تو آسانی رہتی‘‘۔۔۔ اعجاز نے مسکراتے ہوئے کہا۔

    ’’بھائی آپ کو تو معلوم ہی ہے اچھے گھر زیادہ دیر خالی کہاں رہتے ہیں؟‘‘ مسز نعیم نے دلیل پیش کی۔

    ’’بہر حال بھابھی جان نیا گھر مبارک ہو‘‘۔

    ‘’کہاں کی مبارک اعجاز بھائی! آپ دیکھ رہے ہیں یہاں کے پڑوسیوں کے حالات؟ اگر پہلے معلوم ہوتا تو میں کبھی بھی اس گھر میں نہ آتی۔‘‘ مسز نعیم نے کمپاؤنڈ وال پر نچڑتے پرانے کپڑوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

    ’’اچھا نصرت تم جلدی سے ذرا اچھی سی چائے بنواکر بھیجو، میرے سر میں سخت درد ہو رہا ہے۔‘‘ نعیم نے بید کی کرسی پر اپنے آپ کو گراتے ہوئے کہا۔ اعجاز لان میں کھڑے کھڑے اطراف کا جائزہ لینے لگا۔ ڈیڑھ کنال کی کوٹھی کے وسیع لان میں امریکن گھاس مخملیں کارپٹ کی طرح چاروں طرف بچھی تھی، جس پر چلتے ہوئے انچ انچ پاؤں اندر کو دھنستا تھا۔ سرماکی سہ پہر کی نرم گرم دھوپ جسم کو ایک عجیب سی لذت سے آشنا کیے دیتی تھی، تازہ تازہ پینٹ کی ہوئی کمپاؤنڈ وال اور اس پر سلیقے سے چڑھی سرما کے پھولوں کی بیلیں نعیم کے ذوق کی عکاس تھیں۔ کوٹھی کے ماتھے پر لگے ماربل اور سرخ کھپریل کی چھت پر لٹکتی سہ رنگی بوگن ویلیا نے گھر کی شان میں اور اضافہ کر دیا تھا۔ آس پاس کی کشادہ اور خوب صورت کوٹھیوں کی قطاروں سے مکینوں کی امارت صاف جھلک رہی تھی۔ ہر کوئی اپنے اپنے کام میں مگن تھا۔ اعجاز کی نگاہیں ارد گرد کا طائرانہ جائزہ لیتی ہوئیں جب بائیں جانب پہنچیں تو سارا مزہ کرکرا ہو گیا۔ پڑوسیوں کے لان میں غوں غوں کر کے چلتی واشنگ مشینوں نے پرسکون ماحول کا ستیا ناس مار دیا تھا۔ کمپاؤنڈ وال پر پڑے گیلے کپڑوں سے نچڑتے پانی نے دیواریں اور فرش جگہ جگہ سے گیلا کر دیا تھا۔

    ‘’یار اعجاز اب بیٹھ بھی جاؤ کیا یونہی کھڑے رہوگے؟‘‘ نعیم نے ہتھیلی سے آنکھوں پہ چھجا سا بناتے ہوئے کہا۔

    ‘’میں دیکھ رہا تھا کہ تمہارا پڑوسی کیا واقعی وہی ڈھیر سے کپڑے اٹھانے والا شخص ہے یا کوئی اور؟‘‘

    ‘’میں نے آتے ہی ادھر جھانک لیا تھا، کم بخت گاڑی سمیت غائب ہے۔’‘ نعیم جھلا کر بولا، اتنے میں اس کا ملازم چائے اور لوازمات میز پر رکھ کر چلا گیا۔

    ‘’کیا بات ہے آج تم کچھ زیادہ ہی تھکے ہوئے نظر آ رہے ہو؟‘‘ مسز نعیم تیسری کرسی پر بیٹھ کر چائے بنانے لگیں۔

    نعیم جو ابھی تک کرسی پر نیم دراز ہوکر آنکھیں موندے پڑا تھا۔ بیگم کے مخاطب کرنے پر اٹھ بیٹھا۔

    ‘’تم نے اعجاز بھائی کو برابر والے پڑوسی کا قصہ نہیں سنایا؟‘‘ بیگم، نعیم کی طرف چائے کی پیالی بڑھاتے ہوئے بولیں۔

    ’’سنایا تھا۔۔۔ مگر لینے کے دینے پڑ گئے۔‘‘

    ‘’کیا مطلب؟‘‘۔۔۔

    ‘’مطلب یہ کہ میں نے اسے رام کہانی سنائی، اس نے آگے سے میری کہانی کا دوسرا حصہ میرے سامنے رکھ دیا۔‘‘

    ‘’میں کچھ سمجھی نہیں؟‘‘۔۔۔

    ’’دراصل ہمارا پڑوسی پرلے درجے کا چالاک اور نچلے درجے کا گھٹیا اٹھائی گیرا ہے۔۔۔ گندے ڈھیروں سے پرانے کپڑے چنتے ہوئے اعجاز نے آج اسے دیکھا ہے۔۔۔ اگر واقعی ایسا ہوا تو میں اسے شرفاء کے محلے میں ایک پل بھی نہیں رہنے دوں گا‘‘۔۔۔

    نعیم کی بات بیگم کے پلے اب بھی نہ پڑی تو، اعجاز نے اسے پوری تفصیل بتا دی۔

    ‘’یار۔۔۔ ایک آئیڈیا ہے۔’‘ تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد اچانک اعجاز چلایا۔

    ‘’وہ کیا؟‘‘۔۔۔

    ’’ہم تمہارے پڑوسی کی عدم موجودگی میں اس کے کسی ملازم کو چائے پر بُلا کر باتوں باتوں میں کریدنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ممکن ہے کوئی سراغ مل جائے۔‘‘

    ‘’ویری گڈ‘‘۔۔۔ نعیم نے داد دی۔

    ‘’نصرت تم ذرا اندر جا کر جلدی سے ایک خالی کپ بھجوا دو۔‘‘ نعیم کے چہرے پر رونق محو رقص تھی۔

    دونوں چائے چھوڑ کر ہمسائے کے گیٹ تک گئے اور بیل دی۔ تھوڑی دیر بعد گتھے ہوئے جسم کا ٹھگنا سا ملازم باہر آیا اور دونوں سے مصافحہ کیا۔

    ‘’بھئی! ہم تمہارے نئے پڑوسی ہیں، جب سے آئے ہیں گھر ٹھیک کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ آپ لوگوں سے علیک سلیک کا وقت ہی نہیں ملا۔ آپ کے مالک تو ہم سے بھی زیادہ مصروف آدمی لگتے ہیں، جب دیکھوکام میں لگے نظر آتے ہیں۔۔۔ آئیں ناں۔۔۔لان میں چائے لگی ہے، وہاں بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں‘‘۔۔۔ نعیم کی دعوت پر پہلے تو وہ ذرا ہچکچایا پھر یہ کہتے ہوئے مڑا کہ۔۔۔

    ’’اچھا میں مشین بند کر کے آتا ہوں’‘۔ دونوں پلٹے تو ان کے پیچھے وہ بھی آکر بیٹھ گیا۔

    ‘’میرا نام نعیم ہے اور یہ میرے دوست اعجاز صاحب ہیں۔۔۔ اور آپ؟‘‘۔۔۔ ‘’جی۔۔۔مجھے شریف کہتے ہیں۔‘‘ وہ اپنے دامن سے گیلے ہاتھ صاف کرتے ہوئے بولا۔

    ‘’اور آپ کے مالک کا کیا نام ہے؟‘‘ اب کے اعجاز نے پوچھا۔

    ’’جی۔۔۔ان کا نام اے ڈی عباسی ہے، اللہ داد عباسی’‘ شریف بڑے احترام سے بولا۔

    ‘’وہ کیا کرتے ہیں؟‘‘۔۔۔نعیم نے اس کی پیالی میں چائے انڈیلتے ہوئے پوچھا۔

    ‘’جی۔۔۔ ان کا کوئی کاروبار نہیں’‘۔۔۔ شریف نے مسکراتے ہوئے کہا۔

    ‘’کیا۔۔۔ کوئی کاروبار نہیں۔۔۔ تو پھر یہ سب کیا ہے؟‘‘۔۔۔ نعیم اور اعجاز دونوں ہکا بکا ہو کر بولے۔

    ‘’یہ ایک طویل کہانی ہے’‘۔۔۔ وہ چائے کا گھونٹ لے کر بولا۔

    قدرے توقف کے بعد اس نے کہنا شروع کیا۔

    ’’آج سے دس سال پہلے عباسی صاحب ایک غریب آدمی تھے۔۔۔ ایک دفتر میں معمولی کلرک، ان کے گھر سے دفتر کے راستے میں ایک زیارت پڑتی تھی، جہاں ایک باوا جی بیٹھا کرتے تھے، روزانہ آتے جاتے عباسی صاحب اسے روپیہ آٹھ آنے جو بھی ریز گاری جیب میں ہوتی دے آتے اور دعائیں لیتے۔ کبھی کبھی واپسی پہ عباسی صاحب باوا جی کے پاس سستانے کے لئے یا ان کا دل رکھنے کے لیے بیٹھ بھی جایا کرتے۔ یوں آپس میں جان پہچان سی ہو گئی۔ باوا جی سردیوں گرمیوں میں سبز چولے پر ایک بے رنگ اور میلی کچیلی گدڑی اوڑھے رکھتے تھے۔ ایک صبح کے وقت جب عباسی صاحب دفتر کے لیے وہاں سے گزرے تو باوا جی کی طبیعت سخت خراب تھی۔ عباسی صاحب انہیں ٹیکسی میں ڈال کر ہسپتال لے گئے جہاں پہنچ کر ان کی وفات ہو گئی۔ عباسی صاحب نے قبرستان انتظامیہ اور راہ گیروں کی مددسے باوا جی کو زیارت کے پہلو میں دفن کروا دیا۔ باوا جی کی گدڑی ان کے حصے میں آئی، جب عباسی صاحب نے اسے غور سے دیکھا تو اس کے اندر سلے ہوئے نوٹ ایک جگہ سے جھانک رہے تھے۔ تب سے عباسی صاحب کو بخت لگ گئے۔ انہیں گویا قارون کا خزانہ مل گیا۔ انہوں نے ملازمت چھوڑ دی۔ باوا جی کا مزار بنوایا جہاں اب لوگ جوق در جوق آتے جاتے ہیں۔’‘ شریف یہ کہہ کر خاموش ہو گیا۔

    ‘’مگر۔۔۔یہ کپڑے اور روزانہ دھلائی؟‘‘۔۔۔ نعیم نے تعجب سے پوچھا۔

    ‘’کپڑے دھلتے دیکھ کر اکثر لوگوں کو عباسی صاحب کے بارے میں غلط فہمیاں ہوتی ہیں‘‘۔۔۔

    نعیم اور اعجاز بڑے غور سے شریف کی باتیں سن رہے تھے۔

    ‘’عباسی صاحب کو جب سے ملنگ بابا کی گدڑی ملی ہے۔ تب سے انہوں نے اپنا مشن بنا لیا ہے۔ وہ کوڑے کے ڈھیروں اور ایسی ہی دوسری جگہوں سے پرانے کپڑے اٹھواتے ہیں، کسی گم نام دولت کی تلاش میں وہ ڈھیروں پر پھرتے اور کپڑے چنتے ہیں، کپڑوں کو دُھلواتے ہیں۔ حسبِ ضرورت ان کی مرمت کرواتے ہیں، پھر استری پھرواتے ہیں اور یہ کپڑے شہر کے محتاج گھروں، مدرسوں اور یتم خانوں میں جا کر بانٹ آتے ہیں۔ بڑے خدا ترس انسان ہیں، جی ہمارا بھی بہت خیال رکھتے ہیں۔۔۔ لو وہ آ گئے بڑی عمر پائی ہے’‘۔۔۔یہ کہتے ہوئے شریف گیٹ کی جانب لپکا۔

    عباسی صاحب کی مرسڈیز گاڑی آکر باہر رکی، وہ ایک شان بےنیازی سے مسکراتے ہوئے نکلے، سگار ان کی انگلیوں میں بدستور سا لگ رہا تھا۔ نعیم اور اعجاز حیرت سے منہ کھولے اے ڈی عباسی کی جانب تکے جا رہے تھے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے